اللہ پرایمان اسلام کے نظامِ عقائد کا بنیادی عقیدہ ہے۔ اس پر یقین کے بغیر دعواے اسلام بے حقیقت ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اللہ اس کائنات کی بدیہی حقیقت ہے۔ اللہ کہتا ہے ، اس کا کوئی ہمسر نہیں اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا ہے۔ کائنات اور اس میں پائی جانے والی ہرشے اللہ ہی نے تخلیق کی ہے اور انسان کو بھی خصوصیت سے اُسی نے پیدا کیا ہے۔
اللہ نے انسان کو برگزیدہ اور خاص انسانوں (پیغمبروں ؑ) کے ذریعے کرئہ ارض پر زندگی بسرکرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ اس عقیدے کا فطری تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات اور اس کی تمام موجودات اور انسان کو اللہ اور صرف اللہ ہی کا تخلیق کردہ تسلیم کیا جائے۔ قرآن حکیم میں اس بات کو جگہ جگہ بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورئہ سجدہ آیات ۴-۵ میں فرمایا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھے دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا‘‘۔ سورئہ روم آیت ۸ میں بیان ہے: ’’کیا انھوں نے کبھی اپنے آپ پر غوروفکر نہیں کیا؟ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور مدت مقررہ کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔
انسان کی تخلیق کے بارے میں خصوصیت سے سورئہ اعراف آیت ۱۰ میں بیان ہے: ’’ہم نے تمھاری (انسان کی) تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمھاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو‘‘۔ آگے آیت ۱۸۹ میں فرمایا : ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرسکے‘‘۔ سورئہ فاطر آیت ۱۱ میں وضاحت اس طرح کی گئی : ’’اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر تمھارے جوڑے بنائے، کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب اللہ کے علم میں ہوتا ہے‘‘۔ بلاشبہہ اللہ رب العزت نے ہی انسان کو تخلیق کیا ہے۔
یہ سب آیات قطعی طور پر شاہد ہیں کہ پہلے انسانی جوڑے (آدم ؑ و حواؑ) کی تخلیق کا مقام جنت ہے۔ اس جنت میں مٹی بھی ہے اور پانی بھی، پھلواری اور پھل دار درخت بھی ہیں اور نہریں بھی، غرض انسان کی ضرورت کی ہرچیز بہترین صورت میں موجود ہے۔ یہی جگہ ہے جہاں مرنے کے بعد سعید روحیں اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کی روحیں قیام کرتی ہیں۔ اس کا نام جنت الماویٰ ہے۔ یہ جنت سدرۃ المنتہیٰ پر واقع ہے۔ اس مقام تک معراج کی رات نبی کریمؐ تشریف لے گئے تھے اور آپؐ کو اس جنت کا مشاہدہ بھی کروایا گیا تھا۔ سورئہ نجم آیت ۱۳ تا۱۵ میں فرمایا گیا ہے: ’’اور ایک مرتبہ پھر اس (محمدؐ) نے سدرۃ المنتہیٰ (بیری کا وہ درخت جو انتہائی سرے پر واقع ہے) کے پاس اُس کو اُترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے‘‘۔ اس جنت کے قریب ہی اللہ رب العزت کا عرش ہے۔ سورئہ سجدہ، آیت ۵ میں اس طرف اشارہ ہے: ’’آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدابیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن جس کی مقدار ایک ہزار سال ہے‘‘۔سورئہ معراج، آیت۴ میں یہ مقدار ۵۰ ہزار سال بیان کی گئی ہے۔
قرآن میں انسانِ اوّل کے تخلیقی مادے کے لیے تُراب، طین، طین لازب، صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ، اور صلصال کالفخار کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ تراب اور طین کے معنی خاک، مٹی اور گارے کے ہیں، جب کہ طین لازب کے معنی لیس دار گارے یا چکنی مٹی ہیں۔ صلصال کالفخار کے معنی ’’ٹھیکرے جیسا سوکھا سڑا گارا یا ایسی مٹی جو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہو‘‘ ہیں۔ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ،کا ترجمہ سید مودودی نے یوں کیا ہے: ’’سڑی ہوئی مٹی کا سوکھا گارا‘‘ اور تفسیری حاشیہ یوں ہے: ’’اُس (انسان) کی تخلیق کی ابتدا براہِ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے، جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ حَمَاء عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بو پیدا ہوچکی ہو، یا بہ الفاظ دیگر خمیر اُٹھ آیا ہو۔ مَسْنُوْن کے دومعنی ہیں۔ ایک معنی میں متغیر، منتِنٌ اور اِملس، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہوگئی ہو۔ دوسرے معنی ہیں: مُصَوَّر، اور مصبوب، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہوجانے کے بعد بجنے لگے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص۵۰۴)
ان تصریحات سے واضح ہوجاتا ہے کہ انسانِ اوّل کا تخلیقی مادہ ایسی مٹی ہے جس کے ذرّات انتہائی باریک اور باہم متصل ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان ہوا نہیں ہوتی بلکہ پانی کی پَتلی تہہ ہوتی ہے جس کے باعث ذرّات آپس میں چپک جاتے ہیں۔ پھر اس مٹی میں نامیاتی کیمیاوی مادّے ہوتے ہیں۔ یہ مادے مُردہ حیوانی اور نباتی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں اور مٹی میں موجود زندہ بیکٹیریا کے باعث سڑتے اور گلتے ہیں۔ ان میں کیمیاوی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے مٹی میں لیس، چپک، سڑاند، یعنی بو پیدا ہوجاتی ہے اور مٹی سیاہی مائل ہوجاتی ہے۔ یہ مٹی کسی بھی قالب میں ڈھالنے کے لیے عمدہ ہوتی ہے اور سوکھ کر ٹھیکرے کی طرح بجتی ہے۔ اس قسم کی مٹی کی عمدہ قسم کا اُس جنت میں پایا جانا جہاں انسانِ اوّل کی تخلیق کی گئی، زیادہ قرین قیاس ہے۔
اچھی صورت، متناسب جسم، اور بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اعلیٰ درجے کی ساخت پر تخلیق کیا گیا ہے جس پر کسی اور جان دار مخلوق کو نہیں بنایا گیا۔ اسے، یعنی انسان کو فکروفہم اور عقل کی وہ بلندپایہ قابلیتیں بخشی گئی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں دی گئیں۔ سیدھا قامت یا کھڑا قد اور اس کے ساتھ مناسب اور متناسب ترین پائوں اور ہاتھ دیے گئے ہیں جن کے باعث وہ سیدھاکھڑے ہوکر چلتا پھرتا ہے اور توازن قائم رکھتا ہے، جب کہ کوئی حیوان سیدھا دوقدم بھی نہیں چل سکتا۔ اس کو بولتی ہوئی زبان دی گئی ہے، جب کہ کوئی حیوان دو لفظ بھی نہیں بول سکتا۔ خوب صورت آنکھیں، ناک اور کان عطا ہوئے ہیں جو سب اسے ماحول سے ہم آہنگی پیدا کرنے، توازن قائم کرنے اور اپنی ضروریات تلاش کرنے میں مددگار ہیں۔ اس کو سوچنے، سمجھنے اور معلومات جمع کرنے، ان سے نتائج اخذ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ دماغ دیا گیا ہے۔ اس کو ایک اخلاقی حِس اور قوتِ تمیز دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ بھلائی اور بُرائی اور صحیح اور غلط میں فرق کرتا ہے۔ اس کو ایک قوتِ فیصلہ دی گئی ہے جس سے کام لے کر وہ اپنی راہِ عمل کا خود انتخاب کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ اپنی کوششؤں کو کس راستے پر لگائے اور کس پر نہ لگائے۔ اس کو یہاں تک آزادی دی ہے کہ چاہے تو اپنے خالق کو مانے اور اس کی بندگی کرے ورنہ اس کا انکار کردے یا جن جن کو چاہے اپنا رب بنابیٹھے، یا جسے رب مانتا ہو اس کے خلاف بغاوت کرنا چاہے تو کرگزرے۔ ان ساری قوتوں اور سارے اختیارات کے ساتھ اُسے اللہ نے اپنی پیدا کردہ بے شمار مخلوقات پر تصرف کرنے کا اختیار دیا ہے اور وہ عملاً اس اختیار کو استعمال بھی کرتا ہے۔
انسانی جسم یا قالب عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے اتفاقاً نہیں بن گیا ہے بلکہ ایک خداے حکیم و دانا نے اسے مکمل صورت میں ترکیب دیا ہے یعنی ’نِک سُک‘ سے درست کیا، تناسب قائم کیا اور جس طرح چاہا جوڑ کر تیار کردیا۔ یہ جسم یا قالب دودھ پلانے والے (دودھیلے) جانور اور انسان سے کس قدر مشابہ، حیوانات مثلاً بندر، لنگور، گوریلا، بن مانس وغیرہ سے بڑی مماثلت رکھتا ہے۔ مثلاً جسم کے تمام حصے ڈھانچا، ہاضمہ، دورانِ خون کا نظام، عضلات، اعصاب اور نظام تولید وغیرہ___ سب حیوانات سے مماثل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علمِ حیوانیات میں انسان دودھیلے حیوانات کی ہومو(Homo) نام کی ایک جنس (نوع) شمار ہوتا اور اس کا نام ہومو سیپینس (Homo Sepians) ہے۔ یہی نکتہ ہے جس کی بنا پر حامیین حیاتی ارتقا منطقی دلیل قائم کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ انسان اور یہ دودھیلے حیوانات مماثل ہیں؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اس مماثلت کی وجہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے کہ انسان حیاتی ارتقا کے اصول پر حیوانات سے ترقی پاکر بنا ہے۔
دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور حیوانات کی یہی مماثلت وہ نکتہ ہے جس پر غوروفکر کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان اور حیوانات دونوں ہی کو اللہ حکیم و علیم نے تخلیق کیا ہے۔ لہٰذا دونوں میں مماثلت اور مشابہت ہونا فطری اور لازمی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک ماہر سنگ تراش کے تراشے ہوئے مختلف مجسمے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود اپنے اندر ایسی بنیادی مشابہتیں رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر مجسمہ سازی میں درک رکھنے والے پہچان لیتے ہیں کہ یہ سارے مجسمے کسی ایک ہی مجسمہ ساز کے تراشے ہوئے ہیں۔ یہ منطقی حقیقت اردگرد کے سارے ماحول میں رچی بسی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سادہ سے منطقی حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ سواے اس بات کہ سائنس پرست وجودِ باریِ تعالیٰ کو تسلیم کرنے میں نفسیاتی اور روایتی مخالفت پر کمربستہ ہیں جو انسانی شرف کو قبول کرنے میں مانع ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو انسان ہونے اور اُس کا خلیفہ فی الارض ہونے کے بہت بڑے شرف سے نوازتا ہے مگر یہ سائنسی بوجھ بجھکڑ اس کو اس شرف سے نیچے گرا کر ترقی یافتہ حیوان بنا دیتے ہیں۔
اس بارے میں مولانا مودودیؒ سورئہ سجدہ، حاشیہ ۱۶ میں رقم طراز ہیں: ’’روح سے مراد محض زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذیِ حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکروشعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحب ِ شخصیت ہستی، صاحب اَنا پرستی اور حامل خلافت ہستی بنتاہے۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اسی کی مِلک ہے اور اس کی ذات پاک کی طرف اس کا انتساب اسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہوکر اس کی چیز کہلاتی ہے۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کا پرتو ہیں۔ ان کا سرچشمہ مادے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے۔ اللہ کی حکمت سے اس کو دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۴،ص ۴۱)
یہی وہ روح ہے جسے موت کے وقت فرشتے کسی انسان کے جسم سے نکال لے جاتے ہیں۔ یہ روح انسان کے قالب میں اللہ تعالیٰ نے پھونکی۔ اس کی تفصیلات کے بارے میں قرآنِ حکیم خاموش ہے۔ غالباً یہ کام بھی حکم ربی ’کن‘ کے تحت ہی انجام پایا۔ واللہ اعلم!
ابلیس نے اپنے آگ سے تخلیق ہونے پر بڑائی دکھائی اور نہ صرف اللہ رب العزت پر الزام تراشی بھی کی کہ ’’تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے‘‘ حالانکہ وہ خود اپنے نفس کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا تھا اور اللہ کی اطاعت سے نکل گیا اور ذلت میں گرگیا۔ اس بنا پر اللہ احکم الحاکمین نے اُس کو اور اس کے گروہ کو نیچے زمین پر اُتر جانے کا حکم دیا۔ اس انتباہ کے ساتھ کہ ’’یقین رکھ کہ ان (انسانوں) میں سے جو تیری پیروی کریں گے تجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا‘‘۔
جنات کون ہیں؟ کرۂ ارضی پر جنات بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ ان کو اللہ نے آگ کی لپٹ سے، انسان کی تخلیق سے بہت پہلے پیدا کیا۔ جِنّ انسانوں کو نظر نہیں آتے مگر وہ ان کو دیکھتے ہیں۔ یہ انسانی آبادیوں سے دُور سنسان جگہوں پر رہتے ہیں۔ بعض جنات اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض اللہ اور اس کے احکامات سے رُوگردان بھی ہیں۔ یہ دوسرا گروہ ہے جو اللہ کے سیدھے راستے سے انسانوں کو روکتا ہے اور دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ اس گروہ کے افراد شیطان کہلاتے ہیں۔
ابلیس، آدم ؑکی گھات میں تھا۔ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے وہ آدم ؑ و حواؑ دونوں کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا کہ :’’تمھارے رب نے تمھیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جائو یا تمھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے اور اُس نے قَسم کھاکر ان سے کہا کہ میں تمھارا سچا خیرخواہ ہوں۔ آخرکار دونوں کو دھوکا دے کر اپنے ڈھب پر لے آیا۔ آخرکار جب انھوں نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکے لگے۔ تب ان کے رب نے انھیں پکارا: ’’کیا میں نے تمھیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے؟‘‘ دونوں بول اُٹھے: ’’اے رب! ہم نے اپنے اُوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘ (اعراف ۷:۲۰-۲۳)۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، تمھارے لیے ایک خاص مدت تک زمین میں ہی جاے قرار ہے اور سامانِ زیست ہے‘‘ اور فرمایا: ’’وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اس میں سے تم کو آخرکار نکالا جائے گا‘‘ (اعراف ۷:۲۴-۲۵)
lآدمؑ و حواؑ اور ابلیس کا زمین پر اُتارا جانا: اللہ احکم الحاکمین نے آدمؑ و حواؑ اور شیطان کو جنت سے کرئہ ارضی سے اُتر جانے کا حکم صادر کیا اور پھر وہ لوگ زمین پر اُتار دیے گئے اس تنبیہہ کے ساتھ ’’تمھارے بعض بعض کے دشمن ہیں (بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ) ،اور اس ہدایت کے ساتھ کہ ’’جب تمھیں میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو میری اس ہدایت پر چلا، نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جنھوں نے میری آیات کو جھٹلایا وہی دوزخ والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۸-۲۹)
حکم عدولی کے نتیجے میں، ان کے ستر ڈھانکنے کا جو انتظام کیا تھا وہ بکھر گیا۔ اب جنت کے درختوں کے پتوں سے انھوں نے اپنی سترپوشی کی۔ یہ واقعہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ انسان جب بھی کسی معاملے میں اللہ رب العزت کے حکم کی نافرمانی کرے گا تو دیر یا سویر اس کا پردہ کھل کر رہے گا۔ انسان کے ساتھ اللہ کی تائید و حمایت اس وقت تک ہے جب تک وہ اللہ کا مطیع فرمان ہے۔ طاعت کی حدود سے قدم باہر نکالتے ہی اُسے اللہ کی تائید و حمایت ہرگز حاصل نہ ہوگی، بلکہ وہ اپنے نفس کے حوالے کردیا جائے گا۔ انسان نے شیطان سے پہلی شکست ستر کے برہنہ ہوجانے کے مسئلے پر کھائی اور آج بھی کارگاہِ حیات میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ شیطان اور اس کی ذُریت کی پوری کوشش ہے کہ مختلف ذرائع استعمال کرکے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے سامنے برہنہ یا نیم برہنہ کردے اور اس کو ’روشن خیالی‘ یا ’تہذیب جدید‘ قرار دے کر انسان کو روشن خیال یا ترقی یافتہ ثابت کردے۔
آدمؑ و حواؑ کو جنت سے نکالا ضرور مگر سزا کے طور پر نہیں بلکہ مزید آزمایش و امتحان کے لیے، اس لیے کہ دونوں نے فوراً ہی اپنی غلطی تسلیم کرلی اور اللہ رب العزت سے معافی کے خواستگار ہوئے اور اللہ نے ان دونوں کو معاف بھی کردیا۔ آدمؑ و حواؑ اپنے رب کی فرماں برداری میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے اور انسان کی یہ کمزوری ظاہر ہوگئی کہ وہ اپنے دوست نما دشمن کے فریب میں آکر اطاعت سے رُوگردانی کرسکتا ہے۔ پھر انسان نے عجزوانکسار اختیار کیا، اللہ کے حضور اپنی بڑائی اور گھمنڈ نہیں دکھایا۔ اس اعتبار سے انسان شیطان سے افضل قرار پایا، جب کہ شیطان نے اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور اللہ رب العزت پر الزام تراشی بھی کی۔
lزمین کی آرایش و زیبایش:کرئہ ارض کو انسان کی رہایش کے قابل بنانا بھی انسان کی تخلیق کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ انسان کی تخلیق سے بہت پہلے یہ کام شروع ہوچکا تھا۔ سورئہ حج آیت ۶۲ بتاتی ہے: ’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس (اللہ) نے وہ سب کچھ تمھارے لیے مسخر کررکھا ہے جو زمین میں ہے‘‘۔ سورئہ طٰہٰ آیت ۵۳ بیان کرتی ہے: ’’ہم نے زمین کا فرش بچھایا اور اس میں تمھارے لیے راستے بنائے اور اُوپر سے پانی برسایا۔ پھر اس کے ذریعے قسم قسم کی پیداوار نکالی‘‘۔ سورئہ زمر آیت۶ بتاتی ہے: ’’اُس (اللہ) نے تمھارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر اور مادہ پیدا کیے‘‘۔ اور سورئہ نمل آیت۶۱ میں کہا گیا ہے: ’’اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جاے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑدیں؟‘‘
یہاں مولانا مودودیؒ کا یہ طویل اقتباس شافی ہوگا: ’’زمین کا اپنی بے حدوحساب مختلف النوع آبادی کے لیے جاے قرار ہونا بھی کوئی سادہ سی بات نہیں ہے۔ اس کرئہ خاکی کو جن حکیمانہ مناسبتوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے، ان کی تفصیلات پر آدمی غور کرے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اُسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مناسبتیں ایک حکیم و دانا قادرِ مطلق کی تدبیر کے بغیر قائم نہ ہوسکتی تھیں۔ یہ کرہ فضاے بسیط میں معلق ہے، کسی چیز پر ٹکا ہوا نہیں ہے، مگراس کے باوجود اس میں کوئی اضطراب اور اہتزاز نہیں ہے۔ اگر اس میں ذرا سا بھی اہتزاز ہوتا، جس کے خطرناک نتائج کا ہم کبھی زلزلہ آجانے سے بہ آسانی لگاسکتے ہیں، تو یہاں کوئی بھی آبادی ممکن نہ تھی۔ یہ کرہ باقاعدگی کے ساتھ سورج کے سامنے آتا اور چھپتا ہے جس سے رات اور دن کا اختلاف رُونما ہوتا ہے۔ اگر اس کا ایک ہی رُخ ہر وقت سورج کے سامنے رہتا اور دوسرا ہروقت چھپا رہتا تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ ہوتی کیونکہ ایک رُخ کو سردی اور بے نوری نباتات اور حیوانات کی پیدایش کے قابل نہ رکھتی اور دوسرے رُخ کو گرمی کی شدت بے آب و گیاہ اور غیرآباد بنا دیتی۔ اس کرہ پر ۵۰۰ میل کی بلندی تک ہوا کا ایک کثیف ردّا چڑھا دیا گیا ہے جو شہابوں کی خوف ناک بم باری سے اسے بچائے ہوئے ہے، ورنہ روزانہ ۲ کروڑ شہاب جو ۳۰میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف گرتے ہیں یہاں وہ تباہی مچاتے کہ کوئی انسان، حیوان یا درخت جیتا نہ رہ سکتا تھا۔ یہی ہوا درجۂ حرارت کو قابو میں رکھتی ہے۔ یہی سمندروں سے بادل اُٹھاتی اور زمین کے مختلف حصوں تک آب رسانی کی خدمت انجام دیتی ہے اور یہی انسان اور حیوان اور نباتات کی زندگی کو مطلوبہ گیسیں [آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ] فراہم کرتی ہے۔ یہ نہ ہوتی تب بھی زمین کسی آبادی کے لیے جاے قرار نہ بن سکتی ۔
اس کُرے کی سطح سے بالکل متصل وہ معدنیات اور مختلف قسم کے کیمیاوی اجزا بڑے پیمانے پر فراہم کردیے گئے ہیں جو نباتی، حیوانی اور انسانی زندگی کے لیے مطلوب ہیں۔ جس جگہ بھی یہ سروسامان مفقود ہوتا ہے وہاں کی زمین کسی زندگی کو سہارنے کے لائق نہیں ہوتی۔ اس کُرے پر سمندروں، دریائوں، جھیلوں،چشموں اور زیرزمین سوتوں کی شکل میں پانی کا بڑا عظیم الشان ذخیرہ فراہم کردیا گیا ہے اور پہاڑوں پر بھی اس کے بڑے بڑے ذخائر کو منجمد کرنے اور پھر پگھلا کر بہانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس تدبیر کے بغیر یہاں کسی زندگی کا امکان نہ تھا۔ پھر اس پانی، ہوا اور تمام اُن اشیا کو جو زمین پر پائی جاتی ہیں، سمیٹے رکھنے کے لیے اس کُرے میں نہایت ہی مناسب کشش رکھ دی گئی ہے۔ یہ کشش اگر کم ہوتی ہو تو ہوا اور پانی، دونوں کو نہ روک سکتی اور درجۂ حرارت اتنا زیادہ ہوتا کہ زندگی یہاں دشوار ہوجاتی۔یہ کشش اگر زیادہ ہوتی تو ہوا بہت کثیف ہوجاتی، اس کا دبائو بڑھ جاتا، بخارات آبی کا اُٹھنا مشکل ہوتا اور بارشیں نہ ہوسکتیں، سردی زیادہ ہوتی، زمین کے بہت کم رقبے آبادی کے قابل ہوتے بلکہ کشش ثقل بہت زیادہ ہونے کی صورت میں انسان اور حیوانات کی جسامت بہت کم ہوتی اور ان کا وزن اتنا زیادہ ہوتا کہ نقل و حرکت بھی ان کے لیے مشکل ہوتی۔ علاوہ بریں، اس کُرے کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے جو [انسانی، حیوانی اور نباتاتی] آبادی کے لیے مناسب ترین ہے۔ اگر اس کا فاصلہ زیادہ ہوتا تو سورج سے اس کو حرارت کم ملتی، سردی بہت زیادہ ہوتی، موسم بہت لمبے ہوتے اور مشکل ہی سے یہ آبادی کے قابل ہوتا، اور اگر فاصلہ کم ہوتا اس کے برعکس گرمی کی زیادتی اور دوسری بہت سی چیزیں مل جل کر اسے انسان جیسی مخلوق کی سکونت کے قابل نہ رہنے دیتیں۔
یہ صرف چند وہ مناسبتیں ہیں جن کی بدولت زمین اپنی موجودہ آبادی کے لیے جاے قرار بنی ہے۔ کوئی شخص عقل رکھتا ہو اور ان اُمور کو نگاہ میں رکھ کر سوچے تو وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہ یہ تصور کرسکتا ہے کہ کسی خالق حکیم کی منصوبہ سازی کے بغیر یہ مناسبتیں محض ایک حادثے کے نتیجے میں خودبخود قائم ہوگئی ہیں، اور نہ یہ گمان کرسکتا ہے کہ اس عظیم الشان تخلیقی منصوبے کو بنانے اور رُوبہ عمل لانے میں کسی دیوی، دیوتا، یا جن یا نبی و ولی ، یا فرشتے کا کوئی دخل ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص۵۹۰-۵۹۲)
lکرۂ خاکی پر نسلِ انسانی کی تخلیق:آدمؑ اور حواؑ کو زمین پر اُتارنے کے بعد اور زمین کو ان کا مامن اور مسکن قرار دینے کے بعد مرد اور عورت کے نطفوں کے ملاپ کو انسان کی پیدایش کا طریقہ قرار دیا۔ یہ طریقہ نسلِ انسانی کو قائم رکھنے، ترقی دینے اور زمین پر پھیلانے اور بسانے کی غرض سے جاری فرمایا۔ سورئہ مومن آیت ۴ میں بیان ہے: ’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے‘‘۔ اس کی مزید تشریح سورئہ دھر’ آیت۳ میں یوں کی گئی کہ: ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا‘‘ اور ’’مزید یہ کہ ’’اور اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمھیں بیٹے اور پوتے عطا کیے‘‘۔ (النحل ۱۶:۷۲)
اس عنوان پر بہت سی اور آیات ہیں مگر درج ذیل قابلِ غور ہیں: ۱-’’پھر اس کی (انسان کی) نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے‘‘ (السجدہ ۳۲:۷-۹)۔۲- ’’پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا تو اسے ایک خفیف ساحمل رہ گیاجسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی‘‘ (اعراف ۷:۱۸۹)۔۳-’’کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحمِ مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں‘‘ (القیامۃ ۷۵: ۳۷-۳۹)۔ مرد اور عورت کے ملنے والے نطفوں سے انسان کے بنانے کی تفصیل سورئہ حج، آیات ۵-۶ میں درج ہے۔
انسان کی تخلیق اوّل سے قبل اس کرئہ خاکی پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسری اور بھی زندہ مخلوق، یعنی نباتات اور حیوانات پیدا کی۔ ان کی بعض انواع پیدا بھی کی گئیں اور معدوم بھی کردی گئیں، مگر نوع زوج زوج، یعنی نر اور مادہ کی صورت میں پیدا کی گئیں۔ اس لیے کہ ان سب کی نسلی افزایش مقصود تھی۔ قرآن حکیم میں اس بارے میں بیان ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اشیا کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس، یعنی نوعِ انسانی میں یا ان اشیا میں جن کو یہ جانتے تک نہیں‘‘ (یٰسٓ ۳۶:۳۶)
کرئہ خاکی پر ہر انسان ایک خاص مدت تک زندگی گزارے گا۔ زندگی گزارنے کے لیے اپنے اختیار سے یا تووہ طریقہ اختیار کرے گا جو اس کے رب نے پیغمبروں کے ذریعے اس تک پہنچایا ہے یا وہ طریقہ اختیار کرے گا جو رب کے بتائے ہوئے طریقے کے بجاے کوئی اور طریقہ ہے۔ بس یہی انسان کی مدت ہے اور ہر انسان کے امتحان کی مدت مختلف ہے۔ اس مدت کے اختتام پر ہرانسان پر موت واقع ہوگی اور اس کے جسم سے اللہ کی پھونکی جانے والی روح نکال لی جائے گی اور مُردہ جسم سپردِ خاک کر دیا جائے گا۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ پھر ایک مدت بعد اسی خاک سے اس کو اپنی اصلی حالت میں اُٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ فی الحقیقت یہ ہرانسان کی دوسری پیدایش ہے۔ اس وقت بھی اسے رب العزت ہی تخلیق فرمائے گا۔ اس بارے میں قرآنِ حکیم میں سورئہ نوح آیت ۱۷ میں یہ شہادت موجود ہے: ’’پھر وہ (اللہ) تمھیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا‘‘۔ سورئہ طٰہٰ، آیت ۵۵ میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ ’’اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تمھیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکال لیں گے‘‘۔