آج کل اُمت مسلمہ کو اگر چہ متعدد بحرانوں کا سامنا ہے، تا ہم ان میں سب سے زیادہ سنگین اور سب سے زیادہ دُورر س اثرات مرتب کرنے والا تعلیم کا بحران ہے۔ اگر ہر شعبۂ زندگی میں ہمارے معاملات صحیح طور پر نہیں چلائے جارہے ہیں تو بالآخر اس کی وجہ وہ نظام ہے جو اُمور زندگی کو چلانے کے لیے افرادِ کار تیار کرتا ہے۔ دوسری طرف اسی لیے اس مسئلہ کا حل مستقبل کے لیے یقینا اُمید کی سب سے بڑی کرن ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر نظام تعلیم درست ہوجائے تو باقی تمام اداروں کے صحیح راستے پر آنے کی اُمید بھی کی جاسکتی ہے۔
یہ مسئلہ اس وجہ سے قابو سے باہر ہوگیا ہے کہ نہ صرف ہمارا نظامِ تعلیم بگڑ چکا ہے بلکہ تعلیم کے بارے میں ہمارے بنیادی تصورات بھی برباد کر دیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ ہر قسم کے تعلیمی اداروں کی موجودگی کے باوجود مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آرہا ہے۔ ہم خواندگی میں تو اضافہ کررہے ہیں لیکن تعلیم نہیں دے رہے ہیں۔ ہم معلومات کو تو عام کررہے ہیں لیکن علم میں کوئی اضافہ نہیں کررہے ہیں۔ ہم ہر قسم کے ہر ممکن سر ٹیفکیٹ، ڈپلومے، اور ڈگریاں تو جاری کررہے ہیں لیکن اُمّت مسلمہ کے معاملات کو چلانے اور بنی نوع انسانیت کے لیے رہ نمائی کے لیے درکار فہم وفراست رکھنے والے علمی ماہرین تیار نہیں کررہے ہیں۔
پورا عالمِ اسلام اس وقت دو قسم کے متوازی نظامِ تعلیم سے بھرا پڑا ہے۔ ایک طرف جدید اسکول، کالج، اور یونی ورسٹیاں ہیں، اور دوسری طرف دینی مدارس یا دارالعلوم ہیں۔ یہ دونوں نظام اقلیدس کی دو متوازی لکیروں کی طرح ہیں جو کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ملتیں۔ یہ دونوں نظام مل کر اسلامی معاشروں کے جامے کو مخالف سمت میں کھینچ کھینچ کر تار تار کررہے ہیں۔
یہ جاننے کے لیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس جانب جا رہے ہیں؟ ہمیں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم جہاں ہیں اس مقام پر کیسے پہنچے؟اس وقت پورے عالمِ اسلام میں جو غالب نظامِ تعلیم رائج ہے وہ سامراجی طاقتوں کا رائج کردہ مغربی نظامِ تعلیم ہے۔ یہ سامراجی طاقتیں برعظیم پاک وہند، فلسطین، سوڈان، مصراور عراق میں برطانیہ، الجزائر، لبنان، شام، تیونس اور مراکش میں فرانس، اور لیبیا میں اٹلی تھیں۔ ان سامراجی طاقتوں نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اپنے مقبوضہ ممالک کے تعلیمی نظام کو تباہ و بربادکرنے کے لیے کام کیا، اور اس کی جگہ رائج کیے ہوئے اپنے تعلیمی نظام کو جاہ و منزلت کا مورد ٹھیرایا ۔
ان طاقتوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی غلام اقوام کے ذہنوں کو کنٹرول کریں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ برعظیم پاک وہند پر برطانوی قبضے کے بعد کلکتہ،(ممبئی) اور مدراس میں قائم ہونے والی پہلی تین یونی ورسٹیوں میں کئی عشروں تک تدریس کا عمل شروع نہیں کیا گیا۔ ان کا قیام ۱۸۵۷ء میں عمل میں آیا اور ان کا کام صرف اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں میں آنے والے طلبہ کا امتحان لینا تھا۔ اس طرح یہ تینوں یونی ورسٹیاں پورے ہندستان کی تعلیم کو کنٹرول کررہی تھیں۔ دوسرے الفاظ میں ان کی قدرومنزلت اور اعزاز تدریس کی وجہ سے نہیں تھی کیوں کہ پڑھائی کا عمل تو یہاں تھا ہی نہیں، بلکہ ان کی طرف سے سرٹیفکیٹ اور ڈگری جاری کرنے کی اجارہ داری کی وجہ سے تھا جن کو سرکاری ملازمتوں کے ذریعے کیش کرایا جاسکتا تھا۔
سامراجی حکومتوں نے جو اسکول اور کالج قائم کیے، ان کا فوری مقصد امور مملکت چلانے کے لیے ماتحت اہل کاروں کی تیاری تھا۔ ان اہل کاروں کو ان حکومتوں کی استحصالی اور ظالمانہ سامراجی مشینری کے لیے پہیوں کا کردار ادا کرنا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے آقاوں کی برتری، اُن کے طور طریقوں، اُن کے علم، اُن کے طرزِ حکم رانی، اُن کی تہذیب اور اُن کی تاریخ کی فضیلت کے نہ صرف قائل ہوں،بلکہ اپنی تاریخ اور تہذیب سے نفرت کریں اور اپنے مذہب کی حقانیت پر سوالات بھی اٹھائیں۔ سامراج نے لیبیا کی درسی کتب میں دعاوں کے جو الفاظ شامل کیے، ان میں یہ الفاظ بھی تھے: ’’اے خدا، مجھے اچھا اطالوی شہری بننے میں مدد فرما۔ اے خدا، مجھے اٹلی سے محبت کرنے میں مدد دے جو میرامادرِ وطن ثانی ہے‘‘۔ دوسری نو آبادیوں میں اٹلی کی جگہ برطانیہ یا فرانس کے الفاظ شامل کیے جاسکتے ہیں۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ان سامراجی طاقتوں نے مذہبی غیر جانب داری کے نام پر اسکولوں سے مذہبی تعلیم کا خاتمہ کردیا، اور اس کی جگہ سیکولر انسان پرستی (Humanism)کو شامل کیا۔ اس کے ساتھ ہی نظامِ تربیت کو بھی ختم کردیا گیا۔سا ئنس کی تعلیم اِس لیے رائج کی گئی کہ طلبہ ایٹم سے لے کر کہکشائوں تک کے مادّی زندگی کو چلانے والے قوانین کی دریافت کرنے والوں کے سحر میں گرفتاررہیں، اور کبھی اس کا خیال بھی دل میں نہ لائیں کہ اس کائنات کا اور اس کے قوانین کاکوئی خالق بھی ہے اور اُس کے بنائے ہوئے طبعی قوانین سے ما سوا کچھ اُس کی سنت ِ جاریہ بھی ہے! اس نظامِ تعلیم کے ذریعے طلبہ کو بتایا گیاکہ سچائی یا حقیقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف سائنس کے پاس ہے۔طلبہ کو اپنے قدیم کلچر اور رسم ورواج سے الگ کرنے، ان کی تعلیم میں والدین کی شرکت اور والدین کی سرپرستی کو کم کرنے، اور ان میں مستقل طور پر احساسِ کم تری پیدا کرنے کے لیے تعلیم کی زبان کو تبدیل کردیا گیا۔
اس نئے نظام کے تحت مفت عالم گیر تعلیم ختم ہوگئی۔ سرکاری امداد سے چلنے والے اسکولوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ کہ وہ طلبہ سے فیس وصول کریں۔ تعلیم دینا اب ایک مقصدحیات نہیں بلکہ تجارت بن گیا۔ اس کا مقصد ایک اچھا انسان پیدا کرنا نہیں بلکہ اچھی کمائی کرنے والا فرد تیار کرنا رہ گیا۔ ۱۹۴۵ء میں فلسطین کی متعدد عرب تنظیموں نےMANDATE Commision کو پیش کی گئی اپنی ایک پٹیشن میں (اس تلخ حقیقت کو )بیان کیاکہ برطانوی حکومت کی لازمی تعلیمی پالیسی کا مقصد تعلیم کے بجاے ’تجہیل‘ یعنی جہالت کا فروغ ہے۔ یہی بات تمام نو آبادیاتی ممالک کی سامراجی طاقتوں کے لیے کہی جا سکتی ہے۔
آج بہت سے لوگوں کے لیے اس بات کا تصور ہی محال ہوگا کہ ماضی میں ہمارے مدارس یا دارالعلوم کیسے رہے ہوں گے؟پورے برعظیم پاک وہند میں ہزاروں تاریخی مساجد اور مزار مل جائیں گے لیکن ہمیں کہیں بھی مدرسے کی تاریخی پرانی عمارت نہیں ملے گی۔ آخر یہ عمارتیں کہاں چلی گئیں؟یہ عمارتیں کبھی وجود میں آئی ہی نہیں تھیں۔ مدارس دراصل ان مساجد کے اندر، پڑوس کے کسی صاحبِ حیثیت شخص کے گھر کے کسی کمرے ،یا کسی استاد کے گھر میں، یا کسی درخت کے نیچے تھے۔ ان میں کوئی فیس اور کوئی درجہ بندی نہیں تھی۔ طلبہ ایک مخصوص کتاب پڑھنے کے لیے کسی استاد کا انتخاب کرلیتے تھے۔ طلبہ اور استاد کے درمیان بحث و تمحیص کا اس طرح کا معمول تھا کہ ایک طرح سے ہر روز امتحان ہوجاتا۔ سالانہ امتحان کا سرے سے کوئی تصوّر ہی نہیں تھا۔ طلبہ جس کتاب کو اپنے استاد سے سبقاً سبقاً پڑھا کرتے، ان میں اتنی صلاحیت پیدا ہو جاتی تھی کہ تکمیل کے بعد وہ فوری طور پر دوسروں کو اُس کتاب کی تعلیم دینا شروع کردیتے۔ اساتذہ کو یا تو حکمرانوں کی سر پرستی حاصل ہوتی، یا علاقے کے با اثر افراد ان کا خیال کرتے، یا وقف جایدادیں اور زمینیںہوتی تھیں، جن سے اُن کا گزارا ہوتا۔ نہ صرف یہ کہ طلبہ سے کوئی فیس وصول نہ کی جاتی بلکہ کئی صورتوں میں اساتذہ کی طرف سے انھیں کوئی وظیفہ یا مالی امداد بھی فراہم کی جاتی۔
انگریزوں کی برعظیم پاک وہند میں آمد کے وقت یہ نظامِ تعلیم زندگی کے ہر شعبے میں بڑے بڑے نام ور لوگ پیداکررہاتھا۔ ایک بڑے ملک کو جس کی آبادی کروڑوں میں ہو، ہر قسم کے لوگوں کی ضرورت ہو تی ہے جواُن کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرسکیںاور انھیں ہرقسم کی خدمات فراہم کرسکیں۔معاشرے کو کپڑے کی صنعت اور برتن سازی سے لے کراسلحہ سازی کے لیے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عمارتوں کے لیے ماہرین تعمیر، مزدوروں کے لیے مناسب تربیت، بچوں کے لیے تعلیم و ادب ، اساتذہ کے لیے مہارتِ تعلیم و تدریس، تاجروں کے لیے اصول ہاے تجارت ، اُمور مملکت چلانے کے لیے علمِ انتظام (Administration)، فیصلہ کرنے کے لیے ججوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سامراجی طاقتوں کے ان ممالک میں آنے سے پہلے مدارس ان تمام ضروریاتِ زندگی کے لیے ماہرین تیار کرتے تھے۔ استاد احمد لاہوری (م: ۱۶۵۰ء)تاج محل اور جامع مسجد دہلی کے چیف آرکیٹیکٹ تھے۔ وہ ایک مدرسے کے فارغ التحصیل تھے (ملا عبدالسلام لاہوری کا مدرسہ)۔ اسی طرح علی مردان خان (م:۱۶۵۷ء)لاہور کے مشہور شالیمار باغ کے معماراعلیٰ تھے۔ اسی طرح خیر اللہ خان دہلوی (م:۱۷۴۷ء) جنھوں نے دہلی کی مشہوررصد گاہ تعمیر کی۔ اسی طرح استاد رومی خان تھے جنھوں نے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر (م:۱۵۳۰ء)کے لیے توپیں تیار کیں۔ اسی طرح برعظیم کے وسیع عریض خطے میں ہزاروں معمار(آرکٹیکٹس) اور انجینیرتھے جنھوں نے بڑے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے۔ یہ سب مدارس کے فارغ التحصیل تھے۔ ان مدارس ہی نے انھیں لکھنا، پڑھنا، حساب، جیومیٹری، طب،فارسی،عربی،قرآن اور حدیث، منطق اور فقہ کی تعلیم ایک ایسے ماحول میں دی کہ اس میں طور طریقوں اور اخلاق کی تعلیم کو برتری حاصل تھی۔ اس کے بعد انھوں نے شاگردی (apprenticeship)کے ذریعے مختلف ہنر سیکھے اور اپنے اساتذہ سے مختلف فنون کی تربیت حاصل کی۔
مغل دور میں یہ نظامِ تعلیم رائج تھا۔ اگر اس نظامِ تعلیم کو جاری رہنے دیا جاتا تو اس میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ وہ پورے یورپ سے آنے والے علم کے نئے شعبوں کو اپنی بیش قیمت اور گراں بہا روایات میں کوئی خرابی پیداکیے بغیر سمو لیتا۔ لیکن یہ حالات سامراجی آقائوں کی آمد کے ساتھ رُونما ہوئے جن کا اس نئی مفتوحہ سرزمین میں اپنی جدیدیت کو مطیع بنانے کی اجازت دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، کہ ہمارے مدارس صرف اِس سے مفید چیزوں کا انتخاب کرتے اور انھیں معاشرے کی اقدار اور روایات کے مطابق اختیار کر لیتے اور فضول چیزوں کو رد کردیتے۔
عام طور پر سمجھی جانے والی یہ بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے کہ مدرسے کا یہ قدیم تعلیمی نظام اپنی کم زوریوں اور مسائل کی وجہ سے قدرتی وجوہ اور اسباب کی بنا پر ختم ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس کو مغرب نے اپنی علمی برتری اور اپنے نظامِ تعلیم سے پیچھے نہیں پھینکا بلکہ اُس نے اپنی بندوقوں اور سیاسی سازشوں کے ذریعے اِس کو کچل کر رکھ دیا۔ان طاقتوں نے مقبوضہ علاقوں اور ممالک میں رائج نظام تعلیم کو تباہ وبرباد کرنے کا کام بڑی مہارت اور بے رحمانہ طریقے سے دو محاذوں پر اچانک حملہ کر کے کیا۔ ایک طرف انھوں نے موجود مدارس کو ملنے والی مالی امداد کو ختم کیا۔ زمین داری نظام اور زرعی اصطلاحات کے ذریعے ان جاگیرداروں اور زمین داروں کو وسائل سے محروم بنا کر غریب کردیا گیا، جو مدارس کے اور نظامِ تعلیم کے سر پرست تھے۔ اس کوشش کی ایک مثال بدنام زمانہ قانون بازیافت (Resumption Act ۱۸۶۵ء-۱۸۲۸ء) ہے جس کے ذریعے بے شمار وہ زمینیں بحق سرکار ضبط کرلی گئیں جن کی آمدنی سے مدارس کا نظام صدیوں سے چل رہا تھا۔ اس پر عمل درآمد کے لیے ایک وحشیانہ محکمہ قائم کیا گیاجس کے بارے میں ولیم ہنٹر (م:۱۹۰۰ء) کوجو بعد میں گورنر جنرل کی کونسل کا رکن اورتعلیمی کمیشن کا سربراہ بھی رہا، کہنا پڑا کہ قانون بازیافت کے تحت کارروائیاں انتہائی سخت تھیں۔ اور وہ اس کو یوں بیان کرتا ہے کہ جاسوسوں، جھوٹے گواہوں، اور درشت طبع افسروں کی ایک فوج ظفر موج ہندستان کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ یہ لوگ زمین کے کاغذات طلب کرتے اور معمولی معمولی غلطیوںپراُن کے ملکیتی کاغذات کو ناجائز قرار دیتے اور اس طرح وہ اُس زمین پر قبضہ کرلیتے۔انیسویں صدی کے نصف تک جب یہ مہم اپنے عروج پرتھی، ایک ایک ضلع میں ہرسال سیکڑوں مدارس بند ہورہے تھے۔
دوسرے محاذ پر سامراجی آمریتوں نے پرانے مدرسے کے نظامِ تعلیم سے فارغ ہونے والے گریجویٹس کے لیے ملازمتوں کے مواقع کو ختم کردیا جو تاریخی طور پر مغلیہ حکومتوں میں انتظامی اور عدالتی شعبوں میں ملازمتوں کی ضروریات کو پورا کرتے تھے۔ ان کے لیے صرف وہی ملازمتیں رہ گئی تھیں جن کا تعلق مساجد سے تھا اور اب جن کی حیثیت کم درجے کی ہو چلی تھی اور جن کی تنخواہیں بھی واجبی سی تھیں۔یہ مدرسے کی سخت جانی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ مغرب کے اِن تمام جان لیوا حملوں کے باوجود وہ بالکل ختم نہیں ہوا بلکہ موجودہ مدارس کی شکل میں باقی رہ گیا ۔
یہ تباہ کن تعلیمی انقلاب عین اس وقت عمل میں لایا گیا جب جدیدیت کو غاصب طاقتوں کی شرائط پر اور ان کی سامراجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے متعارف کرایا جا رہا تھا۔ اس کا آغاز لارڈ ڈلہوزی کے دور میں اس وقت ہواجب اُس نے مقبوضہ علاقوں کو متحد، محفوظ اور پیداواری کالونی بنانے کی خاطر بڑے بڑے عوامی منصوبے شروع کیے۔ ان میں زراعت، ریلوے،ٹیلی گراف، معدنیات، اور مختلف اشیا تیار کرنے کے ترقیاتی منصوبے شامل تھے۔ ان سب کا مقصد ان علاقوں میں سامراجی کنٹرول کو آسان اور مضبوط بنانا اور سامراجی آقائوں کے لیے نئی سرزمین کو زیادہ منافع بخش اور پیداواری بنانا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ انجینیرنگ کے ان درخشندہ منصوبوں سے مقصود مقبوضہ علاقوں کے غلام عوام کو اپنے آقائوں کی برتری کا قائل کرنا بھی تھا ۔ جیسا کہ سرسید احمد خان نے ۱۸۶۹ء میں، لندن کی سول انجینیرنگ سوسائٹی کے سامنے بصد عجز اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ’’سلطنت ِ برطانیہ کااصل رعب و دبدبہ اس کے انجینیروں کے کارناموں کے باعث ہے‘‘۔ نہ صرف انجینیرنگ کے منصوبوں بلکہ جدیدیت کے دیگر عوامل نے بھی پرانے نظام تعلیم کو نئے معاشرے سے یکسر لاتعلق بنا کر رکھ دیا،بلکہ نئے نظام تعلیم کو ایک ضرورت بھی بنادیا۔ ظاہر ہے کہ مدرسوں کا نظام ایسا نہیں تھا کہ وہاں کے فارغ لوگ ان جدید اداروں کی ضروریات کو پورا کرتے جو اچانک ان پر مسلط کردیے گئے تھے۔
یقینی طور پر بعض کے نزدیک یہ صورت حال ایک ناگزیر برائی تھی جسے اختیار کرنا پڑ گیا تھا۔ سرسید احمد خان خود کھلا اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے نئے نظام تعلیم کو غلامانہ ذہنیت کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’میں یقین کرتا ہوں کہ جس قدر یہ علوم پھیلیں گے___ اور ان کا پھیلنا ضروری ہے، اور میں خود بھی ان کے پھیلانے میں معین و مدد گار ہوں___ اسی قدر لوگوں کے دلوں میں مروجہ اسلام کی طرف سے بدظنی، بے پروائی بلکہ رُوگردانی پیدا ہوتی جائے گی‘‘۔(حیات جاوید، ص۲۳۵)
اب معاشرہ بدل چکا تھا ۔ اس کا اقتصادی ڈھانچا، سماجی تعلقات، طاقت کی بنیادیں اور وہ تمام ادارے جن کی وجہ سے یہ نظام تعلیم برقرار تھا،تباہ کردیے گئے تھے-
یہ تھی وہ جدیدیت جس کے پس ِمنظر میں دیوبنداُبھرا۔ سامراجی آمریت نے معاشرے پراپنی جابرانہ شرائط مسلط کی ہوئی تھیں۔ ان نامساعد حالات میں ہمیں دیو بند کے بانیوں کے جرأت مندانہ کام کی اہمیت و قدر و قیمت کو سمجھنا چاہیے۔ دیو بند برعظیم پاک و ہند میں پہلا مدرسہ تھا جس نے ایک ادارے کی شکل اختیار کی۔ یہ وہ بنیادی مدرسہ تھا جس کی مثال کو دوسرے تمام مکاتب فکر کے مدارس نے آیندہ برسوں میں اختیار کیا۔ یہ مدرسہ انار کے ایک درخت کے سایے میں شروع کیا گیا، جیسا کہ دیوبند کے مؤرخین بہت شوق سے بیان کرتے ہیں۔ لیکن اس میں کیا امتیازی بات ہے؟ آخر برعظیم میںہزاروں مدارس صدیوں سے درختوں کے سایے تلے چلتے ہی رہے تھے۔
دراصل اس عاجزانہ ابتدا کے پیچھے مستقبل کے لیے انقلابی تبدیلیاں چھپی ہوئی تھیں ۔ اس مدرسے کی باقاعدہ طور پر ایک عمارت تعمیر کی گئی جس میں کلاس کے کمرے ،انتظامی دفاتر، رہایش اور کھانے کی جگہیں اور دیگر سہولتیں تھیں۔نئے نظام میں مضامین کے علیحدہ شعبے ، درجہ بندی، ہرسال کامتعین نصاب، سالانہ امتحانات ، اور مدرسے کو چلانے کے لیے انتظامی ڈھانچا شامل تھا ۔ یہ سب نئی باتیں تھیں اور جب ان چیزوں کو متعارف کرایا جارہا تھا تو یہاں اندرونی طور پر بڑی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کے بانیوں نے قدیم زمانے کے مدرسے سے اندھی محبت کے بجاے ایک ایسے جدید ادارے کی بنیاد رکھی جس نے مغلیہ دور کے بعد کے بدلتے ہوئے زمانے کے ان حالات میں بھی باقی اور جاری رہنا تھا جو ہندستان میں زبردستی مسلط کردیے گئے تھے۔ ان حالات میں اس دارالعلوم کا قیام ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو بدقسمتی سے دوستوں اور دشمنوں دونوں نے نظر انداز کر رکھا ہے۔
اگر چہ دارالعلوم دیوبند ،و ہ سب کچھ نہ تھاجس کی ضرورت تھی لیکن وہ تھاجو سامراجی آمریت کے مسلط کردہ نظام ِجبر میں ممکن تھا۔ اگر مدارس میں صدیوںسے پوری تعلیم دی جارہی تھی تو اب بھی اسی کو جاری رکھنا چاہیے تھا اور ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ یورپ سے آنے والے نئے علوم اور ان کے مختلف شعبوں کو اپنے اندر جذب کر لیتے۔ لیکن اس کے لیے نہ صرف ایسے باصلاحیت عملے کی ضرورت تھی جو قدیم اور جدید مضامین میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ اس سے بڑھ کر اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ مدارس کے پاس نو آبادیاتی حکومتوں کو شکست دینے کے لیے ایک فوج بھی موجود ہوتی۔ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی کسی اسکیم یا منصوبے کی کبھی بھی اجازت نہ دیتیں جو ان کے حقیقی ارادوں کو ناکام بنادینے کی صلاحیت رکھیں۔ ان کا منصوبہ تو یہ تھا کہ مقبوضہ علاقوں کے معاشروں کو درہم برہم کر کے وہاں کی آبادی کو اپنی غلامی کے دائرۂ اثر میں لایا جائے۔ ان کے اس منصوبے کو کوئی بھی چیلنج ان کے لیے بڑا خطرہ تھا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انگریزوں نے سر سید احمد خان جیسے ’تابعِ فرمان‘ شخص کو بھی اپنے لیے یونی ورسٹی قائم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اور علی گڑھ یونی ورسٹی تو اُن کی وفات کے ایک چوتھائی صدی کے بعد قائم ہوپائی(اور وہ بھی اس شرط پر کہ اس پر حکومت برطانیہ کا مکمل کنٹرول رہے گا اور اسے دیگر تعلیمی اداروں کے الحاق کی اجازت نہیں ہو گی)۔ ان کاآزاد یونی ورسٹی کے قیام کا ساری زندگی کا خواب چکنا چور ہوا اور صرف ایم اے او کالج قائم کرنے پر ہی قنا عت کرنا پڑی اور وہ کالج بھی کلکتہ یونی ورسٹی کے کلی طور پر عملی کنٹرول میں تھا۔ اگر ایک ’وفادار ملازم‘ کو دی گئی آزادی کی یہ گنجایش تھی تو اندازہ کیجیے کہ اُن لوگوں کو آزادی کی کتنی اجازت مل سکتی تھی جو شروع ہی سے غیرملکی غاصبوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مجرم ر ہے۔
دیو بند اور دوسرے ان تمام مدارس نے جنھو ں نے اس کے انتظامی ڈھانچے کو اختیار کیا نوآبادیاتی نظام تعلیم کے ساتھ کسی بھی تصادم یا ٹکرائو سے گریز کیا، اور ان مضامین سے خود کو الگ رکھا جو وہاں پڑھائے جاتے تھے۔ انھوں نے صرف قدیمی تعلیم کے تحفظ کو اپنا مقصد بنالیا جس کو اب مکمل اور خالص مذہبی تعلیم تصور کیا جاتا ہے۔ یہ قدیمی نظام تعلیم ماضی کے زمانے میں ہرشعبۂ زندگی کے لیے سرکاری ملازمین، عدالتوں کے لیے قاضی دیگر اہل کار اور ہر قسم کے اسکالر اور ماہرین تیار کرتا تھا۔ لیکن اب اس کا دنیاوی حصہ ایک ایسی دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کررہا تھا جو دراصل اپنا وجود نہیں رکھتی تھی۔ اس تبدیل شدہ ماحول میں اس کا مقصد مساجد کے لیے صرف امام تیار کرنا ہی رہ گیا تھا۔
دیوبند اور اس کی طرح کے دیگر مدارس، جدیدیت کو اپنی مرضی کے مطابق تسخیرنہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اس کے ایک کونے میں ایک محفوظ جگہ تلاش کی مگر ایک ایسے وقت، جب کہ کونے میں یہ محفوظ جگہ بھی خطرے میں تھی۔ اس کام کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ۱۸۵۶ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام ملازمین کو پادری ایڈمنڈ کی طرف سے ایک خط بھیجا گیا۔ جس میں انھیں نصیحت کی گئی تھی کہ پورے ہندستان کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ عیسائیت اختیار کرلے۔ یہ خط ہندستان میں عیسائی مبلغین کی برسوں کی جارحانہ تبلیغ اور بڑھتے ہوئے دعوتی کام کے بعد لکھا گیا تھا، اور اس دعوتی کام کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اگر یہ مدارس اُس وقت موجود نہ ہوتے تو برعظیم میں اسلام اور مسلمانوں کا کیا حشر ہوتا، اس کا صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے دیوبند کے بانیوں نے مجبوری کے تحت جو محدودکام شروع کیا تھا، وہ وقت کی تبدیلی کے باوجود ان کے جانشینوں نے بہ رضاو رغبت جاری رکھاہوا ہے اورسامراجی اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی بڑی حد تک اپنے آپ کو اُن محدود مقاصد کے لیے وقف کر رکھا ہے جن سے جہاں بانی کرنے والے پیدا نہیں ہو سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ انھوں نے خود کو عوام کی روز مرہ کی زندگی سے رضاکارانہ طور پر علیحدہ کرلیا ۔مدارس، تعلیم کی دو حصوں میں بٹی ہوئی دنیا کے محض ایک چھوٹے اور کمزور کنارے بن کر رہ گئے ہیں جو صرف مساجد کے امام مہیا کر رہے ہیں،اور معاشرے کے دیگر تمام شعبہ ہاے زندگی کے لیے قائدین پیدا کرنے کا کام سامراج کے متعارف کردہ مغربی ماڈل کے اسکولوں اور کالجوں نے سنبھال لیا ہے۔
ملغوبہ تعلیم سے مراد تعلیم کا وہ تصور ہے جو دونوں دنیاؤں کے لیے بہترین، دینی اور دنیاوی تعلیم کا ملغوبہ ہو۔
دو بالکل مخالف نظام ہاے تعلیم سے پیدا ہونے والی بے چینی پرانی بات ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں نظام ہر مسلمان ملک میں چلائے جارہے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان حائل خلیج کو کیسے دُور کیا جائے؟ یہ ہے وہ سوال جو ہمارے ذہنوں میں گذشتہ دو صدیوں سے گردش کررہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم کسی ایک کے بغیر اپنی زندگی اور عقیدے دونوں کو لے کرنہیں چل سکتے، اور دونوں مختلف نظاموں کو ایک ساتھ لے کر بھی نہیں چل سکتے۔
اس کا جوحل فکرمند ماہرین ِتعلیم اور والدین نے حال ہی میں تلاش کیا ہے، وہ دینی اور سیکولر تعلیم کو ایک اسکول یا تعلیمی ادارے میں جمع کرنا ہے، جس کو ملغوبہ تعلیمی نظام (Hybrid System) کہا جاسکتا ہے۔ یہ اسکول یا تعلیمی ادارے سیکولر اسکولوں میں پڑھائے جانے والے مختلف علوم حساب، سائنس ،سماجیات اور انگریزی ادب کے مضامین کے ساتھ ساتھ قرآن کی تعلیم، حفظِ قرآن، اسلامی تعلیمات اور عربی کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ پاکستان میں او (O)اوراے (A) لیول کے امتحانات کی تیاری کرانے والے ’اسلامی‘اسکولوں کا رجحان اس ملغوبیت کی بڑی واضح مثالیں ہیں۔ ان اداروں کا بیان کیا گیا مقصد یہ ہے کہ ہم تمام شعبہ ہاے زندگی کے لیے ایسے مسلم ڈاکٹر، انجینیر، سائنس داں، مینیجر اور قائدین پیدا کرسکیں جو اعلیٰ درجے کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ اسلامی علوم سے واقفیت و محبت کے ساتھ اسلامی سیرت و مزاج بھی رکھتے ہوں، اور اُن کی اسلام سے وابستگی اُن کے ہر دنیاوی اور پیشہ ورانہ کاموں میں اپنی شان دکھاتی ہو۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اگر چہ یہ اسکول ہمارے پرانے روایتی اسکولوں سے بہتر ہیں جن میں اسلامی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی، پھر بھی وہ ہمارے تعلیمی بحران کا مشکل ہی سے کوئی حل پیش کرسکتے ہیں۔ اگر یہ دونوں نظام (دینی اور سیکولر) ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف جاتے ہیں، تو ان دونوں کو ایک چھت کے نیچے اکھٹا کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ ان ملغوبہ اسکولوں میں دی جانے والی سائنس، سماجی علوم، طب، انجینیرنگ، قانون، صحافت، انتظامی امور، کاروبار، یا کسی بھی دوسرے مضمون کی سیکولرتعلیم اور اُس کے نتیجے میں عقل پرستی اور انسان کی زمین پر خدائی کا جو ذہن نشوونما پاتا ہے،محدود اسلامی مضامین کی تعلیم اُس کا تریاق نہیں بن سکتی ۔
اگر ہم دوسرے اسکولوں کی طرح وہی سائنس انھی کتابوں کے ذریعے اور اسی طرح سے طلبہ کو پڑھاتے ہیں جو سیکولر اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جاتی ہے، تو مسئلہ بھی ویسا ہی رہے گا۔سائنس میں ہم طلبہ کو کائنات کو ایک ایسے شخص کی آنکھوں سے دیکھناسکھا رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو جانتا تک نہیں ہے۔ اس سائنسی تعلیم پر قرآن کی یہ آیت کتنی صادق آتی ہے’’زمین اور آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے‘‘ (یوسف ۱۲:۱۰۵)۔ سائنس کے مناسب طریقے سے مطالعے کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ایک شخص خالق کے جاہ وجلال ، قدرت و عظمت اور دبدبے کا معترف ہو اور اپنے عجز کا احساس پا ئے، اس کے مقابلے میں سیکولر طریقِ تعلیم سے یہی سائنس اُسے انسان کی خدائی کا قائل کرتی ہے۔ ان دونوں نظاموں میں جو بُعدالمشرقین ہے اسے سمجھنے کے لیے چند مثالوں پر غور کریں۔
سیکولر تعلیم دنیا کے بارے میں سرمایہ دارانہ اور مادہ پرستی پر مبنی سوچ پیدا کرتی ہے اور یہ سوچ اس کے ہر مضمون کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ اس میں اوراسلام کے آفاقی نقطۂ نظر میں موافقت کیسے پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس تعلیم کا حاصل یہ ہے کہ طلبہ ع ’کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‘ کی کیفیت میں گرفتار رہیں۔ اگر وہ ان معاملات پر سوچنا شروع کریں تو انھیں نہ ختم ہونے والے تضادات اور ذہنی خلفشار کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس امر کا زیادہ امکان ہے کہ وہ سیکولر نقطۂ نظرکو اپنی سوچ میں جذب کرلیں اور اسلام کو بس عبادت کے ارکان تک ہی محدود کرلیں۔ وہ غالباً اُن طلبہ کے مقابلے میں عبادت کے ارکان کی ادایگی میں بہتر ہوں گے جو دوسرے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ لیکن ان کا ایک اچھے مسلمان سائنس دان، انجینیر، مینیجر اور دوسرے پیشہ ورانہ ماہرین بننے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ یہ تعلیم اسلام سے ایک جذباتی عقیدت پیدا کرسکتی ہے جس کا حاصل یہ سوچ ہو کہ اسلام ایک خوب صورت مذہب ہے جو ہمیں دل سے عزیز ہے لیکن اس دنیا کو سمجھنے اور اس کے مسائل حل کرنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ملغوبہ اسکولوں میں بھی جب آپ سیکولر نظام سے فیض یاب اساتذہ کے ذریعے اس دنیاوی زندگی کے بارے میں سنجیدہ، معروف موضوعات پر سیکولر اداروں کی طبع کردہ کتب سے مضامین پڑھیں گے یا پڑھائیں گے تو آپ اسلام کو ذرا فاصلے ہی پر رکھیں گے۔
یہ مسئلہ صرف سائنس اورٹکنالوجی تک ہی محدود نہیں ہے، یہ سیکولر نظام کے تمام مضامین کے طول و عرض کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہمارے دور کے بہترین ماسٹرز آف بزنس ایڈمنسٹریشن (MBAs) یہ سیکھتے ہیں کہ کاروبار کا مقصد منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہے،اور مارکیٹنگ کا حاصل لوگوں کی خواہشات کو بڑھاکر مانگ میں اضافہ کرنا ہے۔ جو بھی ان دواُمور میں کام یابی حاصل کرتے ہیں انھیں پیشہ ورانہ طور پر بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں صحافت کے میدان کے بہترین گریجویٹ، صحافت کے اس ماڈل سے مختلف طرز عمل اختیار نہیں کرتے جو مغرب نے پیش کیا ہے۔ اُن کی خبر کی تعریف،اُس کو حاصل کرنے کا مقصد ان کا اپنا نہیں اور نہ اس میں ان کے سامنے کوئی اخلاقی معیار ہی ہوتا ہے جو خبر کی اشاعت کو کنٹرول کرے ۔ معاشیات کی تعلیم میں ہم طلبہ کو یہ پڑھاتے ہیں کہ انسان ایک ایسا جانور ہے جسے صرف اور صرف اپنی حاصل کردہ افادیت (utility)کو بڑھانے سے غرض ہے اور ہونی چاہیے- تاریخ کی تعلیم میں طلبہ یہ سیکھتے ہیں کہ تاریخ کے سفر کا کوئی تعلق کسی اخلاقی قانون سے نہیں ہے، اور نہ اقوام کے عروج وزوال میں اللہ کے قوانین اور ضابطے عمل پیرا ہیں۔ اگر آپ نفسیات یا سماجیات کو دیکھیں، طب یا انجینیرنگ کی طرف نگاہ دوڑائیں، علم شہریت یا جغرافیہ کا جائزہ لیں، تو ہمیں ایک ہی کہانی نظر آتی ہے۔
اس مسئلے کا حل ملغوبہ طریق تعلیم نہیں ہے ۔ اس ماڈل کے اسکولوں میں ہم زیادہ سے زیادہ جو اُمید کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ طلبہ اسلامی عبادات پر عمل کرنے والے بن جائیں گے۔ لیکن اگر اُن کی تربیت اُن سیکولر نظریات پرتنقیدکی صلاحیت پیدا نہیں کرتی اور اُن کے حاملین کو چیلنج کرنے کی جرأت مہیا نہیں ہوتی ہے جو اُن کے تعلیمی نصاب میں سمو دیے گئے ہیں، تو وہ بھی اپنی زندگی میں وہی راستہ اختیار کریں گے جو اِن اسکولوں کے علاوہ دوسرے سیکولر اسکولوں اور تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ اپنی عملی زندگیوں میں اختیار کرتے ہیں۔
پاکستان کے ملغوبہ طریق تعلیم پر مبنی اسکولوں کا جائزہ لیں تو ہمیں بعض اضافی سنجیدہ مسائل بھی نظر آئیں گے۔حتیٰ کہ یہ منظر بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ایسا کوئی اسکول، کوئی مدرسہ چلارہا ہے اور اسی کیمپس کے احاطے میں ہے لیکن ان کی ہر چیزبتار ہی ہوگی کہ وہ مدرسہ اور سکول دو مختلف دنیاؤں سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ دو مساوی دنیائیں بھی نہیں ہیں۔پوری فضا میں یہ احساس بھرا ہوا ہے کہ قدیم طرز کا مدرسہ تیسرے درجہ کی تعلیم دیتا ہے، جب کہ اس کا اسکول اول درجے کی تعلیم دیتا ہے۔پہلا مفت ہے اور غریبوں کے لیے ایک خیراتی ادارہ ہے دوسرے کی بھا ری بھرکم فیسیں اس کے اعلیٰ معیار کا ثبوت ہیں ۔ پہلے میں ذریعۂ تعلیم اُردو ہے، جب کہ دوسرے میں انگریزی ۔انگریزی کو ایک غیر ملکی زبان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ذریعۂ تعلیم کے طورپر اختیار کرکے ہر ایک کو یہ پیغام پہنچایا جاتا ہے کہ انگریزی کو اردو اور عربی پر فوقیت حاصل ہے۔ بعض ایسے اسکول اوکسفرڈ کی وہ کتابیں استعمال کرتے ہیں جن کے اندر بڑی ہوشیاری کے ساتھ حقائق کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا ہوتا ہے۔ لارڈ میکالے اگر دوبارہ دنیا میں آکر اِن ’اسلامی‘ اسکولوں کو دیکھے تو خوشی کے مارے مر جائے؟
مسئلے کا اصل حل اسلام کے رنگ میں رنگا نصاب، کتب ، اساتذہ اور مکمل نظامِ تعلیم ہے۔ اصل حل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ذہنوں سے نو آبادیاتی نظام کی باقیات کو نکال باہر کریں۔ظاہرہے کہ یہ کوئی آسان بات نہیں ہے کہ اس ذہنی سانچے کو تبدیل کیا جائے جو اپنے اور پرایوں کے درمیان ابلیس کے حواریوں کی گذشتہ دو صدیوں کی محنت سے پیدا کیا اورپروان چڑھایا گیا ہے۔ لیکن مسئلے کا کوئی اور حل نہیں ہے-
آئیے فرض کریں کہ ہم اس وقت ہوتے جب یورپی اقوام نے علوم کے شعبوں میں آگے بڑھنا شروع کیاتو اگر ہم آزاد ہوتے تو پھرہم کیا کرتے؟ آسان اور سادہ جواب ہے کہ ہم وہی کرتے جو اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں کرتے چلے آئے تھے۔ ہم یورپی ممالک سے آنے والے علوم وفنون کی تمام مفید اور اچھی باتوں کا انتخاب کرتے اور اپنے طریقۂ تعلیم سے نئے علوم کو اپنے نوجوانوں میں منتقل کرتے۔ اِس طرح ان چیزوں کو اپنی اقدار،نقطۂ نظر اور اسلام کی عطا کردہ آفاقی سوچ میں ڈھال لیتے۔ ہم نے ہمیشہ دوسری اقوام ہندوؤں، اہلِ ایران، یونانیوں، رومیوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے علوم سے استفادہ کیا اور انھیں اپنے نظام تعلیم میں داخل کیا تھا۔ لیکن اس طرح کہ ہم نے ان کے اچھے اجزا لیے اور انھیں اپنے نظام میں سمو لیا۔یہ صحیح رویہ ہمارے مسلم معاشروں میں تعلیم کی ترقی اور اس کے فروغ کا بنیادی سبب تھا۔ یہ کوئی جبری، غیر ملکی یا تخریبی پیوندکاری نہیں تھی۔
ہم آج بھی اپنی یہی با عزت گم گشتہ راہِ اعتدال اختیارکر کے ہر علم کو اسلام کے تصور اور نظریے کے مطابق سکھانے کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ نصاب کی از سرِ نو تدوین اور اساتذہ کی تیاری کے بعد ہی ہمارے پورے نظام تعلیم کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو اسلامی مقاصد اور تعلیمات کے مطابق پوری طرح تبدیل کرنے کے بارے میں سوچیں۔ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین یونی ورسٹی کی سطح تک کی درسی کتب دوبارہ لکھیں تاکہ طلبہ اسلام کے آفاقی نقطۂ نظر سے لیس ہو سکیں اور اس کی روشنی میں زندگی کی راہیں تراش سکیں۔ لازمی ہے کہ یہ کتابیں سائنسی اور سماجی علوم میں اسلامی نقطۂ نظر کو دوبارہ سموسکیں۔
ظاہر ہے کہ یقینی طور پر اس کے لیے بڑے وسائل درکار ہیں۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ابھی اس بات کو محسوس نہیں کیا ہے کہ اسکولوں کا ملغوبہ ماڈل (Hybrid Model) ہماری منزل ہرگز نہیں ہے۔ ہمیںاسلام سے ہم آہنگ نظام تعلیم پر اپنی نگاہیں مرتکز کرنا ہوں گی۔ اس کے لیے ہمیں عملی طور پر ایسے اساتذہ کی تیاری کے لیے تربیتی نظام وضع کرنا ہوگا جو ہم آہنگ نظام تعلیم کے مقاصد کا نہ صرف واضح ادراک رکھتے ہوں بلکہ نئے نظام تعلیم کے انقلابی عمل میں بھی مرکزی کردار ادا کرسکیں۔ وہ اپنے کلاس روم کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے دوسرے قدم کے طور پر نئے سرے سے درسی کتب لکھنے کا کام بھی شروع کریں۔
کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے ذہنوں کو غلامی سے پاک کرنے کی سوچ کا آغاز کریں؟