مئی ۲۰۱۳

فہرست مضامین

کتاب نما

| مئی ۲۰۱۳ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات، مولانا سید جلال الدین عمری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ڈی-۳۰۷، دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر نئی دہلی،بھارت ۔ صفحات: ۳۸۷۔ قیمت:۲۰۰ بھارتی روپے۔

مولانا جلال الدین عمری برعظیم کے علمی حلقوں میں ایک معروف و معتبر شخصیت ہیں۔ اسلام کے مختلف پہلوئوں پر آپ کی نگارشات اُردو اور انگریزی زبانوں میں غیرمعمولی طور پر مقبولیت کی حامل ہیں۔

اس کتاب میں محترم مولانا نے ایک جدید اور اُچھوتے مضمون پر قلم اُٹھایا ہے۔ اسلام، دین کامل ہونے کے سبب، نہ صرف روایتی طور پر جن اُمور کو ’مذہب‘ سے وابستہ کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ ساتھ جن اُمور کو دیگر مذاہب ِ دنیاوی، مادی یا ذاتی قرار دیتے ہیں، ان تمام پہلوئوں کو بھی  ایک شخص کی دینی زندگی میں شامل تصور کرتا ہے۔ چنانچہ وہ نہ صرف عبادات اور عقائد، بلکہ انتہائی ذاتی نوعیت کے معاملات ہوں، یا معاشرتی اور سیاسی ضرورت، ہر ایک پر جہاں ضروری ہو اصولی اور جہاں ضرورت ہو خصوصی ہدایات ، قوانین اور اصول بیان کردیتا ہے۔ ’مذہب‘ کو عموماً روحانی بالیدگی کا ذریعہ کہا جاتا ہے، لیکن اسلام اپنی جامع دینی تعلیمات میں جسم و روح اور ذہن و دماغ کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے متوازن انداز میں مخاطب کرتا ہے۔ گذشتہ دو عشروں میں ایک امریکی مفکر کی کتاب Emotional Intelligence اور اسی مصنف کی دوسری کتاب Social Intelligence علمی حلقوں میں گفتگو کا موضوع رہی ہے۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ مختلف کیس اسٹڈیز یہ بتاتی ہیں کہ انسانی دماغ میں ایک حصہ ہے جو ایک لمحے کے ۱۷۰۰۰/۱ حصے میں بعض پیش آنے والے واقعات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے تحریک پیدا کرتا ہے اور اکثر انسان اتنے کم عرصے میں ایک کام کرگزرتا ہے۔ یہ ایک سُرعت کے ساتھ ہونے والا نفسیاتی عمل ہے جس میں بظاہر عقل کا کوئی دخل نہیں نظر آتا۔ اسلام اس کے برعکس انسان کے ہرہرعمل کو دل و دماغ کی یکسوئی کے لیے حلال و حرام کی اخلاقی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد کرنے کا حکم دیتا ہے اور نفسِ امارہ اور نفسِ لوامہ کو  نفسِ مطمئنہ میں تبدیل کر کے ہرفکر، ہر نظر، ہراحساس اور ہرعمل کو حلال و حرام کے اخلاقی اصول کی روشنی میں کرنے کا عادی بناتا ہے۔

اسلام جہاں ہر معاملے میں توازن اور عدل کا حکم دیتا ہے، وہیں ایسی شخصیت تعمیر کرتا ہے جو بُرائی اور صحت کے لیے نقصان دہ پہلوئوں سے بچائو کو اولیت دیتا ہے۔ شریعت میں سدِذرائع کا اصول اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام نے شہروں میں کشادگی اور تازہ فضا کو برقرار رکھنے کے ساتھ یہ تعلیم دی ہے کہ جب ایک شہر ایک حد تک پہنچ جائے تو نیا شہر آباد کیا جائے تاکہ ماحولیاتی آلودگی نہ پیدا ہو جو صحت کی خرابی کا ایک بڑا سبب ہے۔

انسان کی غذا کے حوالے سے پانی کو صاف رکھنا، اس میں آلودگی نہ پیدا ہونے دینا، خصوصاً فضلہ کا دریائوں میں یا نہروں میں نہ ڈالنا دینی تعلیمات کا حصہ ہے۔ آج دنیا کے بے شمار شہروں کے لوگ پینے والے پانی میں کیمیاوی فضلہ کے پھینکے جانے کی بنا پر نت نئی بیماریوں کا شکار ہیں۔   غذا کے استعمال میں یہ حکم کہ کھائو اور پیو لیکن اسراف نہ کرو، صحت کا بنیادی اصول ہے۔

مولانا جلال الدین عمری نے ۲۰ عنوانات کے تحت صحت و توانائی کی اہمیت، طہارت و نظافت سے انسانی جسم و روح پر اثرات، غذا کے اہم پہلو اور صحیح استعمال، آدابِ طعام، کھانے سے قبل ہاتھوں کو دھونا اور وضو کا اہتمام، پینے کے آداب، جسم کو توانا رکھنے کے لیے سنت نبویؐ کی روشنی میں تیراندازی، گھڑسواری، دوڑنا اور مقابلوں اور ورزشوں کا کرنا، پھر مرض کی صورت میں علاج کی اہمیت اور احتیاطی تدابیر، شرعی طور پر متعدی بیماریوں کے بارے میں سنت اور بعض جدید طبی اخلاقی معاملات، مثلاً ایسے مریض کے بارے میں حکمِ شرعی جو بیماری کے ایسے مرحلے میں ہو جہاں کوئی اُمید نظر نہ آتی ہو۔ ایسے ہی قرآنی آیات سے دَم کرنا اور عیادت کی شرعی اہمیت جیسے بنیادی موضوعات پر مستند اور تحقیقی مواد کی مدد سے انتہائی سہل انداز میں اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے۔

یہ کتاب میڈیکل کالج کے ہر طالب علم اور طالبہ علم کے لیے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ نہ صرف یہ، بلکہ جن جامعات میں عمرانی علوم کی تدریس کی جاتی ہے، وہاں کے اساتذہ اور طلبہ کو بھی اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مصنف محترم کو اس خدمت پر عظیم اجر سے نوازے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


کتاب العروج، تہذیب کے قرآنی سفر کا ایک چشم کشا تذکرہ، ڈاکٹر راشد شاز۔ ناشر:    ملّی پبلی کیشنز، نئی دہلی، بھارت-۲۵۔ صفحات: ۲۴۳۔ قیمت: ۵۰۰ بھارتی روپے۔

راشد شاز صاحب نے علی گڑھ یونی ورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈاکٹریٹ حاصل کی ہے۔ انھوں نے اسلامی علوم اور خصوصاً تہذیبی ترقی کے عمل کے مطالعے کا نچوڑ کتاب العروج کی شکل میں اُمت مسلمہ کے سامنے پیش کیا ہے۔ ایک عرصے کے بعد ایسی تحریر سامنے آئی ہے جس میں اُردو زبان کی چاشنی اور علمی ایجاز، ہرہرجملے سے جھلکتا ہے۔ مختلف مغربی اور مسلم مصادر کی   مدد سے مسلم تہذیب، خصوصاً سائنسی اور فلسفیانہ اختراعات کا تذکرہ، دو مفصل ابواب جو ۲۰۰ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مثل پیش کردیا گیا ہے۔ آخری باب جو بظاہر کتاب کا اصل مقصد نظر آتا ہے ’ایک نئی یونی ورسٹی کا منصوبہ‘ کے زیرعنوان باندھا گیا ہے۔

مصنف نے انتہائی عرق ریزی سے مسلمانوں کے علمی اور سائنسی کارناموں کا جائزہ لیاہے اور جابجا علمی تصنیفات اور آلات کی تصاویر سے کتاب کو مزین کیا ہے۔ اپنے ماضی سے غیرآگاہ جدید نسل کے مسلمان نوجوانوں کے لیے اس میں غیرمعمولی اہم لوازمہ ہے۔ مصنف نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر اس افسافے کی حقیقت بھی واضح کی ہے کہ یورپ میں جو نشاتِ ثانیہ سولھویں صدی میں واقع ہوئی، اس میں اٹلی کی تہذیب کا بڑا دخل تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اٹلی کی اپنی کوئی تہذیبی روایت نہ تھی بلکہ مسلمانوں سے ارتباط کے نتیجے میں وہاں جو علمی لوازمہ پہنچا، اور مسلمانوں کی ایجادات جو اندلس اور اٹلی کے راستے یورپ میں پہنچیں وہ اس نشاتِ ثانیہ کی اصل بنیاد تھیں۔

مصنف نے اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ مسلمان عظیم سائنسی روایت کے باوجود کیوں زوال کا شکار ہوئے اور اس زوال سے نکلنے کے لیے انھیں کیا کرنا ہوگا؟ مصنف کا کہنا ہے کہ تبدیلی کا انقلابی عمل ایک بہت جرأت مندانہ اقدام کا متقاضی ہے جس میں روایت پرستی سے نکل کر ایک نئے ذہن اور نقطۂ نظر کے ساتھ علم کی تدوین جدید کرنی ہوگی۔ یہ کام علمی پیوندکاری سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مستقبل کے چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی علمی روایت کو قائم کرنا ہوگا۔

یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب ایک نئی یونی ورسٹی وجود میں آئے۔ مصنف کے خیال میں ماضی کی تمام کوششیں، بشمول علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، ندوۃ العلما اور دیگر مدارس کا قیام، وہ کام نہ کرسکیں جو مسلمانوں کو عروج کی طرف لے جاتا۔ مجوزہ یونی ورسٹی کا تصور لازمی طور پر ایک نہایت قابلِ قدر تصور ہے۔ مصنف نئی یونی ورسٹی کے ذریعے ان خامیوں کو دُور کرنا چاہتے ہیں جو موجودہ جامعات میں پائی جاتی ہیں، چاہے وہ دینی ہوں یا راویتی سیکولر جامعات۔

دورِ جدید میں تجدیدی کوششوں کے ضمن میں جہاں دیگر اداروں پر مصنف نے تنقیدی زاویے سے بات کی ہے، وہاں مولانا مودودیؒ کی فکر اور تجدیدی کوششوں کو صرف ایک تعارفی جملے میں بیان کیا ہے جو مولانا کے کام کے ساتھ ناانصافی ہے۔

ایک نئی یونی ورسٹی کی تجویز کا استقبال کرتے ہوئے، اس نوعیت کے علمی سفر سے وابستہ ایک فرد کی حیثیت سے مصنف محترم کی معلومات کے لیے چند نکات کی وضاحت ضروری ہے۔ ۱۹۶۲ء میں ادارہ معارف اسلامی کے قیام کے موقع پر مولانا مودودیؒ نے جو خطاب کیا تھا، اس میں علوم کی نئی تشکیل کا ایک نقشہ پیش کیا تھا۔ وہ شازصاحب کے تصور سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ اسی طرح امریکا میں ۱۹۷۲ء میں مسلم ماہرین علومِ عمرانی کی تنظیم (Association of Muslim Social Scientists-AMSS) کے قیام کا محرک بھی یہی تصور تھا کہ ایک نئی روایت ِ علم کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز علومِ عمرانی کی اسلامی تدوین جدید سے کیا جانا چاہیے۔ اس تنظیم کے بانی، سیکرٹری جنرل اور بعد میں صدر کی حیثیت سے میں نے اور دیگر رفقاے کار خصوصاً پروفیسر اسماعیل راجی الفاروقی شہید نے اپنے خطابات اور مقالات میں جس تصور کو پیش کیا وہ یہی تھا کہ ایک نئی جامعہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ۱۹۸۱ء میں اسی تصور کی بنیاد پر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد اور پھر ۱۹۸۳ء میں ملایشیا میں اسی نام سے ایک آزاد یونی ورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔

راقم الحروف کو دونوں جامعات کے تاسیسی دور میں ان کے نصابات، مقاصد اور تعلیمی حکمت عملی سے براہِ راست وابستگی کا موقع ملا اور کم از کم اس حد تک یقین سے کہا جاسکتا ہے شازصاحب جس تصور کی طرف متوجہ کر رہے ہیں، اس کی شروعات ان دو جامعات میں نظری اور عملی طور پر عمل میں آچکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گذشتہ ۱۰سال کے عرصے میں سیاسی حالات کی بنا پر ان کی قیادت اور تدریسی ترجیحات کو تبدیل کیا گیا ہے۔ اگر ان دونوں جامعات کو آزادانہ  طور پر کام کرنے کا موقع ملے تو وہ کمی پوری ہوسکتی ہے جس کی طرف شازصاحب نے متوجہ کیا ہے۔ یہ بیان تفصیل طلب ہے کہ ان جامعات میں نصاب بناتے وقت کیا تصور سامنے رکھا گیا کیونکہ اس کا محل یہ تبصرہ نہیں، بلکہ ایک الگ مقالہ ہی ہوسکتا ہے۔

کتاب العروج اوّل تا آخر توجہ کے ساتھ مطالعہ چاہتی ہے۔ مصنف نے قرآنی علمی سفر کو ادبی جاذبیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کتاب کو ہرمسلم تعلیمی ادارے کے کتب خانے میں ہونا چاہیے اور علوم اسلامی کے طلبہ کے لیے اس کا مطالعہ لازمی ہونا چاہیے۔ اس کتاب کی پیش کاری جس اعلیٰ درجے کی ہے، بیان نہیں کی جاسکتی۔ دیکھ کر ہی یقین کیا جاسکتا ہے۔ دبیز آرٹ پیپر کے بڑے سائز(۲۰x۳۰/۸) کے ۲۴۴صفحات میں عروج کی داستان آلات، کتب، اور شخصیات کی تصاویر سے مزین پیش کی گئی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


اُردو میں اسلامی ادب کی تحریک، مہراختروہاب۔ ناشر: پورب اکادمی، اسلام آباد۔  فون:۵۸۱۹۴۱۰-۰۵۱۔صفحات:۲۵۱۔ قیمت: ۲۹۵ روپے۔

اُردو زبان و ادب کا مزاج بنیادی طور پر دینی اور اخلاقی ہے (سیکولر نہیں)۔ ۱۹۳۶ء میں چند اشتراکیت پسند ادیبوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے نام سے جو انجمن قائم کی اس کا بنیادی مقصد ’ادب براے زندگی‘ کے بجاے ادب براے ’تبلیغ و ترویجِ اشتراکیت‘ تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین سے پہلے سرسید تحریک اور رومانوی تحریک باقاعدہ انجمنیں یا تنظیمیں نہیں تھیں، جب اشتراکیوں نے باقاعدہ انجمن کی بناڈالی تو چند سال بعد اسلامی، دینی اور اخلاقی فکر کا احساس رکھنے والے ادیبوں نے بھی انجمن قائم کرنے کا فیصلہ کیا، اور یوں چالیس کے عشرے (کے شروع) میں غالباً لکھنؤ میں ’حلقۂ ادب اسلامی‘ قائم ہوا۔ اسلام پسند مصنفین کی کوششوں سے تقسیم ہند کے بعد اسے ’ادارہ ادب اسلامی ہند‘ کا نام دیا گیا جو اب تک قائم ہے اور اپنا نمایندہ ادبی پرچہ ماہنامہ پیش رفت شائع کرتا ہے۔

پاکستان میں حلقۂ ادبِ اسلامی ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ کراچی میں قائم ہوا اور مختلف شہروں میں اس کی شاخیں قائم ہوئیں اور حلقے کے باقاعدہ اجلاس ہونے لگے۔ جہانِ نو کراچی میں   ان اجلاسوں کی رودادیں اور حلقے سے متعلق دیگر خبریں چھپتی تھیں۔

تاحال تحریکِ ادب اسلامی یا حلقۂ ادب اسلامی کی مبسوط تاریخ نہیں لکھی گئی، معدودے چند مضامین ملتے ہیں یا بعض لوگوں کی یادداشتوں میں یا اِکا دّکا ادبی تاریخوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ ۱۹۸۴ء میں شعبہ اُردو اورینٹل کالج لاہور کے استاد جناب تحسین فراقی نے اس موضوع پر   ایم اے کا ایک مقالہ لکھوایا تھا جسے مقالہ نگار نے تقریباً ربع صدی بعد زیرنظر کتاب کی صورت میں شائع کرایا ہے۔ اس کے بعد بھی اس موضوع پر کئی چیزیں سامنے آئی ہیں: مثلاً ادب اسلامی (نظریاتی مقالات) مرتبہ : محمد نجات اللہ صدیقی یا ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالات از صائمہ ناز انصاری (کراچی یونی ورسٹی) جو ہنوز غیرمطبوعہ نہیں۔

تحقیقی مقالے عموماً تین درجوں کے ہوتے ہیں: ایم اے ایم فل اور پی ایچ ڈی۔ ایم اے کا مقالہ عموماًابتدائی اور نسبتاً کم تر درجے کا اور تعارفی نوعیت کا سمجھا جاتا ہے لیکن مہراختر وہاب کا     ایم اے کا زیرنظر مقالہ بہت اچھا اور آج کل کے ایم فل کے مقالوں کے درجے کا ضرور ہے۔ انھوں نے اسلامی ادب کی روایت اور تحریک کی نظریاتی بنیادوں پر بات کی ہے۔ پھر اسلامی ادب کے شعری، افسانوی اور تنقیدی سرمایے کا جائزہ لیا ہے جو اگرچہ اجمالی ہے اور متعدد تخلیق کاروں کے نام اس میں نظر نہیں آتے، جیسے شاعری میں ابوالمجاہد زاہد، شبنم سبحانی، انورعزمی اور انور صدیقی وغیرہ۔ افسانے میں ابن فرید، نعیم صدیقی اور تنقید میں ابن فرید کے نام نہیں لیے گئے۔ناول کو انھوں نے سرے سے قابلِ اعتنا ہی نہیں سمجھا۔

دیباچے میں مہراختر وہاب کے بعض بیانات محلِ نظر ہیں۔ اسی طرح محمد حسن عسکری کی پاکستانی ادب کی تحریک اور اسلامی ادب کی تحریک میں خطِ امتیاز نہیں کھینچا گیا۔ مہرصاحب اِن دنوں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے پرنسپل ہیں۔ کتنا اچھا تھا اگر وہ ان ۲۵ برسوں میں اپنے مقالے میں اضافے کرکے اسے تازہ (اَپ ڈیٹ) کر دیتے۔ اس طرح یہ اور زیادہ وقیع اور حوالے کی چیز بن جاتا۔ بحالت ِموجودہ بھی یہ افادیت سے خالی نہیں بلکہ اسلامی ادب کے موضوع پر تو یہ اب بھی ایک اہم حوالہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اشاعتی معیار بہت اچھا ہے۔ کتاب تین برس پہلے (اپریل ۲۰۱۰ء میں) طبع ہوئی، اس لحاظ سے قیمت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


منزلِ مُراد، ضیاء الاسلام انصاری، ترتیب و ادارت: شگفتہ عمر۔ ناشر: مکتبہ راحت الاسلام، مکان ۲۶، سٹریٹ ۴۸، ۴/۸-F، اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۶۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

پیکجنگ اور مارکیٹنگ کے اس دور میں کتاب کے مشتملات کے برابر یا زیادہ اہمیت اس کی پیش کاری کو دی جارہی ہے۔ نظروں کو بھلی نہ لگے تو کیسے پڑھی جائے۔ اس کتاب میں سب سے پہلے اس کا آئوٹ سائز ہونا نظر کو کھینچتا ہے۔ چوکور شکل، ۲۱ مربع سینٹی میٹر۔ اندر چاروں طرف سے سرمئی رنگ کا حاشیہ۔ یہ بھی اس طرح کے جیسے کسی موٹی کتاب کے صفحات سامنے کھلے ہوں، اطراف میں ڈھلتے ہوئے۔ ہرمضمون کے ساتھ دل چسپ، مؤثر خاکے، طباعت و کتابت واہ واہ،  بس ہاتھ میں لیں تو نظر پھسلتی جائے اور آپ پڑھتے جائیں۔

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ضیاء الاسلام انصاری اپنے دور کے نام وَر صحافی تھے۔ اسلامی فکر رکھنے والوں کے سرخیل تھے۔ ان کے بقول : ’’میں صحافتی زندگی میں وطن دشمن، تخریب کار اور غلط نظریات رکھنے والے افراد اور عناصر کے خلاف ربع صدی کی مسلسل محاذآرائی کے حوالے سے ایک انتہائی متنازعہ شخصیت ہوں‘‘۔ کتاب کے دوسرے حصے ’خصوصی گوشہ‘ (ص ۱۰۷، ۱۶۶) میں ان کی شخصیت پر اہلِ خاندان کے تحریروں اور ان کے انتقال پر ان کے بارے میں جو کچھ لکھا اور کہا گیا ___ بیانات، اداریے، تعزیتی اجلاس کے خطابات، سب جمع کر دیا گیا ہے،جنھیں پڑھ کر ان کی شخصیت، خدمات اور مقام سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔ ساتھیوں کی تحریریں اس آگہی میں اضافہ کرتی ہیں۔ ساتھی بھی کون؟ مجیب الرحمن شامی، نذیرناجی، شمیم اختر، محبوب سبحانی۔ یہ سب کچھ کُل۵۹ صفحات میں۔

اب آئیں اصل کتاب کی طرف۔ ضیاء الاسلام انصاری نے اسٹیٹ لائف انشورنس آف پاکستان کے زیرتربیت افسران کی ورکشاپ میں دوگھنٹے کا ایک لیکچر دیا۔ برسوں بعد یہ مرتب ہوا، اور مزید برسوں بعد (مسودہ گم ہوجانے کی وجہ سے) یہ اب شائع ہو رہا ہے۔ ہرسبق میں آج کے ہرنوجوان بلکہ کارگاہِ حیات میں اپنا مقام بنانے یعنی ’منزلِ مراد‘ تک پہنچنے (منشورات نے خرم مراد کی تحریروں کے اقتباسات پر مشتمل ایک کتابچہ  منزلِ مراد کے عنوان سے شائع کیا ہوا ہے۔   یہ توارد بھی خوب رہا!)کی کوشش کرنے والے ہر فرد کے لیے نہایت کام کی ضروری بات ہے۔ آدھے، ایک اور ڈیڑھ دو دو صفحات میں ۲۸ عنوانات (ص ۲۵-۱۰۲) کے تحت مثبت اور تعمیری بات آس پاس کی مثالوں سے پیش کی گئی ہے۔ پیش کش بہتر کرنے کے لیے کئی صفحات سادہ ہیں۔ چند عنوانات: ذہن کی طاقت، اَن پڑھ بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، مایوسی اور محرومی پروان نہ چڑھایئے، ناکامی سے کامیابی کی راہ نکلتی ہے،اپنی صلاحیت کو نئے محاذ پر استعمال کیجیے، منفی تبصروں پر کان نہ دھریے، دشمن کو دوست بنا کر مار ڈالیے، جسمانی صحت کی فکر کیجیے۔ احسان دانش، چودھری محمد حسین، مرارجی ڈیسائی، ابراہام لنکن اور ایسی ہی دوسری مثالیں دی گئی ہیں۔ ذاتی تجربات بھی بیان ہوئے ہیں۔

یہ کتاب ہر نوجوان خصوصاً زمانے سے شاکی ہر فرد کے لیے اکسیر ثابت ہوگی، بس پڑھنا شرط ہے۔ طلبہ و طالبات کو مقابلوں میں انعامات کے طور پر ایسی کتابیں دی جانی چاہییں۔ معاشرے میں تعلیمی اداروں کے دسیوں نیٹ ورک ہیں جن سے ہزاروں ادارے وابستہ ہیں۔   یہ داخلے کے وقت لاکھوں کروڑوں کے اشتہارات دیتے ہیں اور والدین سے اسلامی تعلیم و تربیت کے عنوان سے رقومات وصول کرتے ہیں ، لیکن کسی نیٹ ورک کا یہ نظام نہیں کہ اپنے ملحق اداروں کی لائبریریوں کو اچھی منتخب کتابیں فراہم کریں۔ ۵ہزار روپے سال کی ہی سہی۔ ایسا ہو تو ایسی کتابیں ہزار ہزار نہ چھپیں، ۱۰،۱۰ ہزار چھپیں اور فروخت ہوجائیں۔

مصنفہ، انصاری مرحوم کی بیٹی ہیں جن کی کتاب احکامِ حج و عمرہ پر ترجمان (جولائی۲۰۱۲ء) میں تبصرہ آچکا ہے۔(مسلم سجاد)


مغرب زدہ مسلمانوں کے نام، نثار احمد خان فتحی۔ ناشر: مکتبہ الشیخ، ۳/۴۴۵، بہادرآباد، کراچی نمبر۵، صفحات: ۱۵۳، قیمت: درج نہیں۔

جب انگریز برعظیم میں آیا تو مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوئے جو نہ صرف دنیا کو بلکہ اپنے دین کو بھی مغرب کی عینک سے دیکھنے لگے۔ انھیں اسلام کی ہر وہ چیز جو مغرب کی تصویر کے مطابق نہ ہو، اسلام سے باہر نظر آنے لگی۔ گذشتہ دو تین صدیوں میں مغرب کے غلبے اور اسلام کی مغلوبیت کی وجہ سے یہ عنصر برابر موجود رہا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا باوجود اہلِ دین کی ہر طرح کی مزاحمت کے، معاشرے میں مؤثر اور غالب رہا ہے۔ نثاراحمد خان فتحی نے اسی طبقے کو مخاطب کرکے ان کی مغرب زدگی کی وجوہات تلاش کرکے، ان کے بارے میں انھیں توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے دین کی طرف واپس آئیں۔ انھوں نے کفروارتدادد کی بحث اُٹھائی ہے۔ عقیدے کی اہمیت واضح کی ہے، عقل کے ناقص ہونے اور وحی کے اصل ذریعۂ علم ہونے پر بات کی ہے۔تعدد ازواج اور رجم بارے میں جو اعتراضات ہیں ان کے جواب دیے ہیں۔ مغربی تہذیب کی جو تصویر افغانستان اور عراق میں پیش کی جارہی ہے، (مثلاً لاشوں پر پیشاب کرنا) اس کے بھی حوالے آگئے ہیں۔

پوری کتاب بہت دردمندی سے اور ایمانی جذبے سے سرشار ہوکر لکھی گئی ہے۔ اس لیے پڑھی جاتی ہے۔ جو جتنا مغرب زدہ ہے آئینے میں اتنی اپنی تصویر دیکھ سکتا ہے۔ آخر میں موضوع سے متعلق مصنف کی کچھ پُرلطف نظمیں بھی ہیں۔(مسلم سجاد)


مجلہ نسٹیئن، مدیر: ممتاز اقبال ملک۔ ناشر۔ نیشنل یونی ورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹکنالوجی، سیکٹر ایچ، ۱۲، اسلام آباد۔ صفحات، اُردو:۲۴۶، انگریزی: ۶۴۔ قیمت:درج نہیں

تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کے سالانہ مجلّوں کی اشاعت ایک دیرینہ روایت ہے ہرادارے کے طالب علموں کو اپنے ادارے کے رسالے سے خاص قسم کی وابستگی ہوتی ہے۔      یہ رسالے طالب علموں کی ذہنی و فکری تربیت اور تخلیقی قوتوں کے اظہار کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے نجی شعبے میں خدمات انجام دینے والے بیش تر ادارے اپنے تئیں ’روشن خیال‘ ظاہر کرنے کے لیے ایسے رسالے شائع کرتے ہیں جن کے مندرجات اسلامی تہذیب سے بغاوت، تعمیری افکار سے نجات اور خود پاکستان کے وجود کے بارے میں تشکیک و تذبذب کے جرثومے موجود ہوتے ہیں۔

ذہنی شکست خوردگی اور تہذیبی شکست و ریخت کے اس ماحول میں نسٹیئن کا دوسرا شمارہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور پاکستانی مسلم تشخص کا نمایندہ محسوس ہوتا ہے، اور تعمیرِپاکستان کے ساتھ تخلیق و تہذیب کے باب میں پاکیزگی اور شائستگی کا حوالہ بن کر وطن عزیز کے ایسے مجلّوں کے لیے ایک روشن مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو کسی اچھے ادارے کے معیاری رسالے میں ہونا چاہیے۔ نگارشاتِ نظم و نثر علمی، معلوماتی اور ادبی نوعیت کی ہیں۔ ادب کی جملہ اصناف کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ انگریزی حصے میں بھی وقیع تحریریں شامل ہیں۔ نسٹیئن کی ترتیب و تیاری ممتازاقبال ملک نے کی ہے اور اس عمل میں نسٹ یونی ورسٹی کے ریکٹر انجینیرمحمداصغر کی رہنمائی اس دستاویز کا ذریعہ بنی ہے، جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔(سلیم منصور خالد)

تعارف کتب

  •  فریضۂ اقامت دین اور سید مودودیؒ کا جہاد ،محمود عالم صدیقی۔ ناشر: مدینۃ القرآن، ملنے کا پتا:    ادارہ نورحق، ۵۰۳- قائدین کالونی نزد اسلامیہ کالج، کراچی۔ فون:۳۴۹۱۵۳۶۱-۰۲۱۔ صفحات:۴۰۔ قیمت: درج نہیں۔ [مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ اور احیاے اسلام کی عالمی تحریک کا مختصراً تذکرہ۔ بالخصوص بیسویں صدی میں مولانا مودودیؒ نے جس طرح سے مغربی تہذیب کا سحر توڑا، اسلام کو ایک نظامِ حیات کی حیثیت سے پیش کیا،   اور مغلوب مسلمانوں کو احیاے اسلام اور فریضۂ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے ترغیب دی، ان مساعی کا  اجمالی جائزہ۔ جماعت اسلامی کا قیام، تاریخی جدوجہد کے سنگ ہاے میل اور خدمات کے ساتھ ساتھ سید مودودیؒ کی شخصیت و کردار، افکار و نظریات اور لٹریچر کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ ’سیدمودودیؒ___ ماہ و سال کے آئینے میں‘ کے تحت سوانحی خاکہ اور شجرئہ نسب بھی دیا گیا ہے۔ اگر ان کی کتب کی فہرست بھی دے دی جاتی تو مفید ہوتا۔ اپنے موضوع پر جامع اور مختصر تحریر۔]
  •  سنو پیاری بیٹی! ، رزینہ عالم خان۔ ناشر: عکاس پبلشرز، ملنے کا پتا: ۱-گولف روڈ، راولپنڈی کینٹ، راولپنڈی۔ فون: ۸۵۵۶۷۷۶-۰۳۰۰۔صفحات:۱۹۵۔ قیمت:۴۵۰روپے۔ [ہمارے معاشرے میں گھر ٹوٹنے کے واقعات جس تیزی سے عام ہورہے ہیں، اس کے سدّباب کے لیے خواتین کو ہلکے پھلکے انداز میں مختصر اور بامقصد ہدایات  دل چسپ اور عام فہم انداز میں پیش کی گئی ہیں، مثلاً آرایش و زیبایش، گفتگو، گھرداری، سسرالی رشتوں سے تعلقات، بچوں کی تربیت اور آخرعمر کے تقاضوں کے پیش نظر عملی مشورے، تاہم قیمت کچھ زیادہ ہے، سستا اڈیشن بھی ضروری سمجھا جائے تاکہ عام اہلِ وطن کے ہاتھ میں پہنچے۔]
  • مطالعہ اور امتحان کی تیاری، محمد بشیر جمعہ۔ناشر: ٹائم مینجمنٹ کلب، دکان نمبر۲۶۸، فرسٹ فلور،    انٹرنیشنل سنٹر بالمقابل زینب مارکیٹ، ۲۶۸-آر، اے لائنز، عبداللہ ہارون روڈ، صدر، کراچی- ۷۵۵۳۰۔ فون:۲۹۸۷۶۳۸-۰۳۲۳۔صفحات: ۱۱۷۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[مطالعہ اور امتحان کی تیاری جہاں ضرورت ہے وہاں ایک فن ہے۔ امتحان میں کامیابی جہاں حافظے، ذہانت اور محنت کی مرہونِ منت ہوتی ہے وہیں فطری صلاحیتوں، حالات و واقعات اور توجہ، اعتماد، معلومات کو بہتر طریق اور مؤثر طور پر پیش کرنا امتحان میں کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے۔معروف صلاح کار بشیرجمعہ نے طلبہ میں ذوقِ مطالعہ کی ترغیب، مؤثر مطالعے، نیز امتحان کی تیاری اور پلان کے لیے سائنٹی فک انداز میں رہنمائی دی ہے۔آخر میں دعائیں، اذکار، وظائف اور ۱۰مختلف گوشوارے بھی شامل ہیں۔ اساتذہ اور طلبہ کے لیے یکساں مفید]۔
  •  ماہنامہ شاہراہِ تعلیم (سکول اسمبلی نمبر) ، مدیر: طارق محمود۔ ملنے کا پتا: پوسٹ بکس نمبر ۹۱۵۸، لاہور۔     فون: ۳۵۴۱۷۰۱۱-۰۴۲۔ صفحات:۹۰۔ قیمت (اشاعت خاص): ۶۰ روپے۔[بچوں کی تعلیم و تربیت میں  سکول اسمبلی (صباحی اسمبلی) اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شاہراہِ تعلیم کی اشاعت ِ خاص کے ذریعے اسکول اسمبلی کی اس روایت کو آگے بڑھانے اور مؤثر بنانے کے لیے مفید رہنمائی دی گئی ہے۔ مختلف ممالک میں سکول اسمبلی کی روایت، کلاس روم اسمبلی کا تصور، سکول اسمبلی کے مفید تجربات، معروف شخصیات کے تاثرات اور یادیں، اور اس موضوع پر معاون کتب اور ویب سائٹس کا تعارف بھی شاملِ اشاعت ہے۔ ایک اہم اور منفرد موضوع پر  عمدہ لوازمہ اور خوب صورت پیش کش۔]