۲۰۱۲ء کے اواخر میں لبنان کے دارلحکومت بیروت میں عرب بہار کے پس منظر میں مسئلۂ فلسطین کا جائزہ لینے کے لیے ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔اس موقع پر فلسطینی رہنما خالد مشعل نے مسئلہ فلسطین پر حماس کا موقف تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ اس اہم دستاویز کاخلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔ادارہ
تحریک مزاحمت حماس محض ایک اسلامی تحریک نہیں، بلکہ یہ تحریک آزادی فلسطین کا ہراول دستہ بھی ہے۔ لہٰذا فلسطین کے بارے میں ہماری پالیسی دو اوردو چار کی طرح بالکل واضح ہے۔ ہم سرزمین فلسطین اوراپنی پالیسی کو درج ذیل نکات کی صورت میں پیش کرتے ہیں:
۱- فلسطین مشرق میں دریاے اردن سے لے کرمغرب میں بحیرہ روم تک اور شمال سے لے کر جنوب تک فلسطینی عوام کی سرزمین ہے ۔حالات کیسے بھی ہوں، دباؤ جتنا بھی ہو، حماس فلسطین کی ایک بالشت بھرزمین سے بھی کسی صورت دست بردار نہیں ہوگی۔
۲- ہم فلسطین پرکسی قسم کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ فلسطین کے کسی بھی حصے میں نہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں، نہ اس کے کسی حق کو۔
۳- آزادیِ فلسطین ہمارا قومی، ملی اور دینی فریضہ ہے۔ یہ صرف عرب اور مسلم امہ کا ہی نہیں تمام انسانیت کا مسئلہ ہے۔
۴- جہاد اور مسلح جدوجہد ہی آزاد ی فلسطین کا حقیقی اور صحیح راستہ ہے۔ تاہم، ہم ہر قسم کے سیاسی، قانونی اورسفارتی ذرائع کو بھی استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
۵- ہم یہودیت کے پیروکاروں کے خلاف ان کے یہودی ہونے کی وجہ سے نہیں لڑتے بلکہ ہمارا ہدف غاصبانہ قبضہ کرنے والے صہیونی ہیں ۔ ہم ہر اس ظالم کے خلاف لڑیں گے جو ہمارے حقوق غصب اور ہماری سرزمین پر قبضہ کرتا ہے ۔
۶- ہم تمام مقبوضہ علاقوں کے پناہ گزینوں اور مہاجرین کی وطن واپسی کے حق کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ہم اس مطالبے سے کسی طور سے دست بردار نہیںہوسکتے۔ اسی طرح ہم فلسطینیوںکومتبادل وطن دینے کی بھی پُر زور مخالفت کرتے ہیں۔
۷- ہمارے نزدیک القدس سمیت پوری مغربی پٹی ، غزہ اور۱۹۴۸ء کے مقبوضہ تمام علاقے ایک ہی وطن کے حصے ہیں۔ ہم غزہ کو مغربی کنارے سے قطعاً الگ خیال نہیں کر تے۔
۸- ہم فلسطین میں یکساں سیاسی نظام اور ایک ہی قومی حکومت کے خواہاں ہیں ۔
۹- ریاست آزادی کا ثمر ہوتا ہے۔ لہٰذا فلسطین کو پہلے آزاد کراناپھر اس کے پورے رقبے پر مکمل اور خودمختارحکومت کا قیام ہمار ی پالیسی ہے۔
۱۰- ہم خود مختارقومی پالیسیاںتشکیل دینے کے خواہاں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین کسی دوسرے ملک کے دست نگر اور تابع نہ ہو۔
۱۱- جمہوریت کی بنیاد پرفلسطین میں قومی ادارے تشکیل دینا ہماری پالیسی ہے۔ پہلے صاف اور شفاف انتخابات منعقد کیے جائیں اور عوام کی راے کا احترام کیا جائے۔
۱۲- دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے اجتناب کرنااور تمام ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کرنا حماس کی بنیادی پالیسی ہے۔
۱۳- ہم دینی ، نسلی اور مذہبی بنیاد پر تقسیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہیںاور اختلاف کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے سب کو امت کے مشترکہ مفادات کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
جہاںتک غزہ کو الگ کرنے کی بات ہے تو بخدا ہم نے بخوشی یہ نہیںکیا ۔ یہ صورت حال ہمارے او پر مسلط کردی گئی ہے ۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ ۲۰۰۶ء کے انتخابات کے نتائج کو علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا اور ہمیں غزہ کو الگ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم پہلے دن سے اس تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ قومی بنیادوںپر اتفاق راے سے فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او کے زیر نگرانی مصالحت ہو اورایسا قومی ایجنڈا ترتیب دیا جائے جو مستقل اقدارپر مبنی، تمام حقوق کا پاس داراور فلسطین کے قومی مفادکا ضامن ہو۔
عرب بہار نے اسرائیل کوبہت پریشان اور بدحواس کر دیا ہے ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی پالیسی اور اسٹرے ٹیجی ہی تبدیل کردی ہے ۔ موجودہ صورت حال نے حماس کے سیاسی تعلقات کا روڈ میپ بھی تبدیل کردیا ہے۔ کہیں اس کے تعلقات میں اضافہ ہوا ہے تو کہیںتعلقات کی نوعیت بدل گئی ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے مختلف عرب ممالک کے ساتھ حماس کے تعلقات مختلف نوعیت کے تھے۔لیکن عرب بہار نے ان تعلقات کو مضبوط کر دیا ہے۔
حماس کے شام کے ساتھ تعلقات میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اور جو کچھ اس وقت شام میں ہو رہا ہے ہم ہرگزاس پر راضی نہیںہیں۔خدا گواہ ہے اور تاریخ اسے ثابت کرے گی کہ ہماری شروع ہی سے خواہش تھی کہ معاملات اس رخ پر نہ جائیں جس پر اب چل رہے ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ شام پرامن ،مضبوط اور طاقت ور رہے باوجود یکہ تحریک مقاومت کے خلاف اس کی پالیسی پچھلے کئی سال سے مخاصمت پر مبنی تھی جو کہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔
مختلف ممالک اور تنظیموں کے ساتھ حماس کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں لیکن فلسطین اور فلسطینی مزاحمت ہمیشہ اس کا نصب العین رہا ہے۔ جب حماس کی قیادت اردن میں تھی، اس وقت بھی اس نے اپنا مزاحمتی کام جاری رکھا۔ پھر جب ہم قطر اور شام میں منتقل ہو گئے اوراس کے بعد دوسرے ممالک جیسے مصر میں چلے گئے تب بھی حماس مزاحمتی تحریک ہی رہی،اور فلسطین کی آزادی تک ان شاء اللہ اس کا یہی طرز عمل رہے گا۔ عرب بہار اور عالم عرب میںواقع ہونے والی تبدیلیوں نے کچھ وقت کے لیے دنیا کی نظریں مسئلہ فلسطین سے ہٹادی ہیںجو یقینا ایک نقصان ہے لیکن یہ عارضی نقصان ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ عرب عوام اگرچہ اپنی داخلی پریشانیوں میں مصروف ہیںمگر اس کے باوجود فلسطین ان کے دلوں اور نعروں میں موجود ہے۔
۱-داخلہ اور خارجہ پالیسی میں توازن قائم کرنا چاہیے اور صرف اپنے مفادات کے گرد نہیں گھومنا چاہیے۔ ملکی مسائل کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی خارجہ پالیسی کو تقویت ملتی ہے اور اس میں ناکامی کی صورت میں موقف کمزور پڑ جاتا ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ بڑے بڑے مسائل کے لیے کوشش کرنا، نہ صرف علاقائی سطح پرآپ کی آواز کو مؤثر بنادیتا ہے بلکہ بین الاقوامی کردار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔
۲- اُمت کے مسائل کا حل صرف اپنے ممالک کی حد تک سوچنے میںنہیں بلکہ پوری اُمت مسلمہ اور عالمِ عرب کا ایک دوسرے سے تعاون اور اتحاد میں مضمرہے۔ عرب بہار کے ممالک اس وقت، جب کہ وہ اندرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنے ممالک کو نئی بنیادوں پر قائم کرنے میں لگے ہیں، انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ امت کے مسائل کے بارے میں کیا کرسکتے ہیں۔
۳-مغرب اور بڑے بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا آج کی دنیا میں ایک طبعی امر ہے۔یہ ہماری سیاسی اور اقتصادی ضرورت ہے۔ لیکن اس کی قیمت مسئلہ فلسطین، اس میں عربوں کے کردا رکے خاتمے اور ان کی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی صورت میں نہ ہو۔ ہماری راے میں مغرب کے ساتھ تعلقات محض مراعات کے بدلے میں استوار نہیں کرنے چاہییں، اس لیے کہ عرب بہار کے ممالک اپنے عوام کے ارادے سے چلتے ہیں نہ کہ بیرونی امداد سے۔
۴- عرب اسرائیل کی کش مکش کے حوالے سے عرب ممالک اور عرب لیگ کو اپنی سیاسی سوچ کو وسیع اورحکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔انھیں حماس کے بارے میںبھی اپنے موقف میںتبدیلی لانی چاہیے۔پہلے جو کچھ تحریک کے لیے ممنوع تھا جیسے اسلحہ کی فراہمی وغیرہ، اب اس کی اجازت ہونی چاہیے۔
اب، جب کہ فوجی جنگوں کا دور نہیں رہا ،امت مسلمہ کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے آگے آناچاہیے۔ ۱۹۶۷ء سے اب تک اسرائیل کوئی جنگ نہیں جیت سکا سواے ۱۹۸۲ء کے۔ وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ لبنان سے فلسطینی تحریک کو نکال دیاگیا تھا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بعدمجاہدین کوفراہم کردہ اسلحے سے ممکن ہوا۔
اسی طرح اب فلسطین کے نام سے دولت کمانے کے پراجیکٹ ختم ہونے چاہییں ۔ اب نئی حکمت عملیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن میں حقیقی طاقت کا حصول سرفہرست ہے ۔
۵-اسرائیل کے ساتھ تصفیہ کے معاہدات اوران معاہدات کے پشت پر کھڑے ممالک کی پالیسیوںپر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ سیاسی سمجھوتے اور معاہدے، اُمت مسلمہ اور فلسطین کے حق میں نہیں ہیں۔اس لیے کہ اسرائیل نہ کبھی دوست تھا، نہ ہوگا۔عرب بہار کے بعداسرائیل سے دوستی بڑھانے کی باتیںبالکل میل نہیں کھاتیں۔
۶- فلسطین کو صرف اسلام پسندوںکی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ حماس ،جہاد اسلامی اور دیگر جہادی تحریکوںکو پوری امت کی پشت پناہی کی ضرورت ہے ،جن میں اسلام پسند، قوم پرست، لبرل اور بائیں بازو کی طاقتیں سب شامل ہیں۔
عرب بہار کے نتیجے میںہماری خواہش ہے کہ امت مسلمہ امت واحدہ بن کر اُبھرے اور فلسطین پر ایک موقف اختیار کرے۔ان کی داخلہ پالیسی عوامی خواہشات کے مطابق ہواور خارجہ پالیسی مضبوط بنیادوں پراستوار ہو تاکہ صہیونی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاسکے۔