پروفیسر خورشید احمد | مئی ۲۰۱۳ | اشارات
آج پاکستانی قوم ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے، جو اگرچہ الم ناک ہے، لیکن اپنے جلو میں ایک تاریخی موقعے کی حامل بھی ہے۔ پاکستان محض ایک ملک اور ایک خطۂ زمین کا نام نہیں___ یہ ایک تصور، ایک نظریہ، ایک آدرش ، ایک منزل اور ایک واضح وژن سے عبارت ہے جس کی شناخت اس کا اسلامی، جمہوری اور فلاحی کردار ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور اسلام ہی میں اس کی بقا اور ترقی کا راز مضمر ہے۔ اسلام اور پاکستان ایک تصویر کے دو پہلو اور ایک سکّے کے دو رُخ ہیں۔ تحریکِ پاکستان کی بنیاد نظریاتی قومیت کے تصورپر تھی اور علاقے کا حصول اس لیے تھا کہ اس نظریے کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے برملا کہا تھا کہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب ہند میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا اور علامہ اقبال نے برعظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست کی ضرورت کا جو اعلان ۱۹۳۰ء کے الٰہ آباد کے خطبۂ صدارت میں کیا تھا، اس میں اس مطالبے کے برحق ہونے کے لیے جو دلیل دی تھی وہ بڑی واضح تھی کہ اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔
تحریکِ پاکستان کے اس مقصد کو قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل جدوجہد کے دوران کم از کم ۱۰۰ بار اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴بار صاف الفاظ میں بیان کیا اور اس طرح پاکستان کی اساس اور نظریے کی حیثیت ایک معاہدئہ عمرانی (social contract) کی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو بالآخر دستور کی زبان میں قرارداد مقاصد کی شکل میں پہلے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو دستور ساز اسمبلی کی قرارداد میں سامنے آئی، اور پھر پاکستان کے ہردستور کا حصہ بنی۔ اس وقت یہ دستور کے دیباچے کے علاوہ اس کے operational (تنفیذی) حصے میں بھی شامل ہے (دفعہ ۲-الف)۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ۱۹۷۳ء کے ایک فیصلے میں اس تاریخی اور دستوری حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا نظریہ ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد میں درج ہے، جسے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا ہے… مملکت پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں لائی گئی تھی اور اسی نظریے کی بنیاد پر چلائی جائے گی۔ (پی ایل پی ۱۹۷۳ء، ص ۴۹ اور ص ۷۲-۷۳)
پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے قانون اور رہنمائی کو زندگی کے بالاتر قانون کی حیثیت حاصل ہوگی۔ قانون سازی اور پالیسی سازی دونوں میں رہنمائی کا اولیں سرچشمہ قرآن و سنت ہوں گے۔ مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل و تعمیر میں ریاست ہرممکن کردارادا کرے گی۔
اس کے ساتھ ہی یہ اصول بھی اسلام ہی کا طے کردہ ہے کہ نظامِ حکومت کو چلانے اور قیادت کو منصب ِ قیادت پر لانے اور ہٹانے کا اختیار ملک کے عوام کو حاصل ہوگا اور ریاست کا سارا نظام اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (ان کے معاملات باہم مشورے سے طے پاتے ہیں) کے قرآنی اصول کے مطابق انجام دیا جائے گا۔ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق محترم اور مقدس ہوں گے اور اربابِ اختیار اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہ ہوں گے، نیز ریاست کا کام انسانوں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ان کو ان تمام سہولتوں کی فراہمی بھی ہوگا جن کے نتیجے میں وہ عزت اور سہولت کے ساتھ زندگی گزار سکیں، زندگی کے ہرشعبے میں انصاف قائم کیا جائے اور معاشرے میں ایثار، قربانی اور احسان کا دوردورہ ہو۔ یہ وہ لائحہ عمل ہے جس کے نتیجے میں ایک حقیقی جمہوری اور فلاحی معاشرہ اور ریاست وجود میں آئے گی۔ اس ریاست میں انسانی حقوق کے باب میں تمام انسان بلالحاظ مذہب، مسلک، زبان، نسل، خون، قبیلہ برابر ہوں گے اور ہرشخص اپنی انفرادی اور خاندانی زندگی استوار کرنے میں آزاد ہوگا اور اسے اجتماعی زندگی میں بھی قانون کے دائرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے پورے مواقع ہوں گے۔ اسلام میں نہ شخصی آمریت کی گنجایش ہے اور نہ کسی بھی نوعیت کی پاپائیت کی۔ پاکستان کے لیے اصل ماڈل اور نمونہ صرف مدینہ منورہ کی وہ اسلامی ریاست اور معاشرہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں قائم ہوا اور ۱۴۰۰سال سے مسلمانوں کے لیے روشنی کا مینار اور اجتماعی زندگی کے لیے نمونہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
پاکستان کے اس تصور کی روشنی میں جب ماضی کے ۶۶ برسوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ الم ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کے چند سال کے بعد ہی ایک مفادپرست ٹولے نے اقتدار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اس میں سیاست دانوں کے ساتھ بیوروکریسی، فوجی جرنیل اعلیٰ سطح کی عدلیہ کے بعض عناصر، سرمایہ دار، وڈیرے اور جاگیردار سب ہی شریک تھے۔ ان سب نے مل کر ملک کی آزادی، نظریاتی تشخص اور تہذیبی شناخت سب کو پامال کیا، ملک کے وسائل کو ذاتی اور گروہی مقاصد کے لیے بے دردی سے استعمال کیا، کرپشن اور بدعنوانی کا بازار گرم کیا اور عوام کے لیے زندگی کو تلخ سے تلخ تر بنادیا۔ اعلیٰ ترین سیاسی دروبست میں پہلے بیوروکریسی اور پھر فوجی قیادت کی دراندازیوں نے جمہوریت، دستور اور قانون پر مبنی حکمرانی کے انتظام کو درہم برہم کردیا۔ دستورشکنی کو عدالتوں نے تحفظ فراہم کیا اور انتخابات کے نظام کو اس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال ( manipulate) کیا گیا کہ عوام کی حکمرانی کا خواب چکناچور ہوگیا۔ ناانصافیوں کا دوردورہ ہوا اور حقوق کی پامالی اس مقام پر پہنچ گئی کہ دشمنوں کی مداخلت سے ملک کا ایک حصہ بدن سے جدا ہوگیا، جو بچا ہے وہ بھی لہولہان ہے۔
گذشتہ ۱۴برس ہماری تاریخ کے سیاہ ترین سال ہیں۔ پہلے نو سال ایک فوجی طالع آزما حکمراں رہا اور اسے ارباب سیاست، کارپردازانِ معیشت، سول اور فوجی انتظامیہ سب ہی میں سے مددگار میسر آگئے۔ بیرونی ممالک نے بھی اسے ہر طرح کی سرپرستی سے نوازا۔ ۲۰۰۸ء میں حالات نے کروٹ لی لیکن بدقسمتی سے پھر این آر او کے سایے میں وجود میں آنے والی حکومت نے نہ صرف وہی تباہ کن پالیسیاں جاری رکھیں بلکہ ان میں کچھ اور بھی رنگ بھرا جو فوجی حکمران کے دور میں امریکا کے اشارے پر ملک پر مسلط کی گئی تھیں۔ اس پر مستزاد، ان کے دور کی بُری حکمرانی (bad governance) ہے جس کے نتیجے میں کرپشن اور بدعنوانی میں ہوش ربا اضافہ، عوامی مسائل کو نظرانداز کرنا، توانائی کے بحران سے غفلت، تعلیم اور صحت کے باب میں مجرمانہ عدم توجہی کی لعنتوں کا اضافہ کردیا۔ ان پانچ سال میں ملک کو جو نقصان پہنچا ہے اور عوام جن مصائب سے دوچار ہوئے ہیں وہ پچھلے ۶۰برسوں سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ دور ایسی حکومت کے اقتدار کا تھا جس میں حکمرانی ہی کا فقدان تھا۔ اس دور کی ناکامیوں اور غلط کاریوں کی فہرست بڑی طویل ہے لیکن اگر اہم ترین چیزوں کی نشان دہی کی جائے تو ان میں سرفہرست مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان اور اہلِ پاکستان کی اولیں قیمتی متاع ان کی آزادی اور خودمختاری ہے جو بڑی جدوجہد اور قربانی کے بعد حاصل کی گئی ہے۔ ایوب خان کے دور ہی میں اس آزادی پر امریکا، مغربی اقوام اور عالمی اداروں کا منحوس سایہ پڑنا شروع ہو گیا تھا اور آہستہ آہستہ آزادی اور خودمختاری میں کمی آرہی تھی۔ ہمارے قومی معاملات میں بیرونی مداخلت بڑھ رہی تھی اور ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں، خاص طور پر معاشی پالیسیاں، ملک اور قوم کے مفاد سے کہیں زیادہ بیرونی قوتوں کے مفاد میں بننے لگی تھیں مگر کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں محکومی اور امریکا کی غلامی کا جو دور شروع ہوا ہے، وہ سب سے زیادہ تباہ کن تھا اور بعد کے دور میں بھی وہ کم ہونے میں نہیں آرہا۔ ملک کی آزادی، عزت و وقار اور سالمیت پر تابڑ توڑ حملوں کے باوجود حکمرانوں کی روش میں عملاً کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ انھوں نے بہ رضاورغبت یا بہ جبر و اِکراہ اپنے کاندھے بیرونی قوتوں کے استعمال کے لیے فراہم کر دیے ہیں۔ اب قوم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کو کس طرح دوبارہ حاصل کریں۔
۲۰۰۱ء میں نائن الیون کے بعد کولن پاول نے صدر جارج بش کی طرف سے جو دھمکی ’’ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے حامی ہو؟‘‘ کی شکل میں دی تھی اور جس پر مشرف صاحب چاروں شانے چت ہوگئے تھے، وہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ غلامی اور محکومی کی یہ کیفیت ہرغیور پاکستانی محسوس کرتا ہے اور بچشم سر دیکھ رہا ہے لیکن صرف ریکارڈ کی خاطر مشرف اور زرداری اور اس کے ساتھیوں کے اس مجرمانہ کردارکو ذہن میں تازہ کرنے کے لیے چند شواہد امریکا کے کارفرما عناصر کی زبان میں پیش کرنا مفید ہوگا تاکہ ۱۱مئی کے موقعے پر سابقہ قیادت کا اصل چہرہ سامنے رہے:
نیویارک ٹائمز کا نام وَر نمایندہ ڈیوڈ سانگر اپنی کتاب Confront and Conceal میں امریکی حکم اور پاکستانی قیادت کی نیازمندی کی یوں منظرکشی کرتا ہے:
جب امریکا نے افغانستان پر حملے کی تیاری کی تو اس نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ طالبان اور القاعدہ کا ساتھ دینے یا واشنگٹن کا ساتھ دینے کے درمیان انتخاب کرے۔ پاکستان کے فوجی سربراہ پرویز مشرف کی کنپٹی پر بندوق تھی اور اس نے صرف وہی انتخاب کیا جو وہ کرسکتا تھا اور ملک افغانستان پر حملے کرنے کے لیے پلیٹ فارم بن گیا۔ (ص۱۲۹)
امریکا کی خارجہ سیکرٹری کونڈولیزا رائس نے اپنی سوانح عمری No Higher Honour میں بھی صاف لفظوں میں امریکا اور پاکستان کے حاکم اور محکوم والے تعلقات کو ستمبر۲۰۰۶ء میں مشرف اور بش کی ملاقات کے ذیل میں بیان کیا ہے۔ مشرف صاحب فاٹا میں امن کے معاہدوں کے باب میں امریکا کی اجازت چاہتے تھے مگر صدرِ امریکا نے ٹکاسا جواب دے دیا:
لیکن صدر نے اوول آفس کی میٹنگ میں ان پر یہ واضح کردیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہماری سرحدات کو کوئی خطرہ ہے، نیز اس صورت میں بھی کہ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ القاعدہ کے کلیدی رہنما ئوں کو وہاں پناہ دی گئی ہے،امریکا خود اقدام کرے گا۔ مشرف کو دوٹوک انداز میں (point blank) بتا دیا گیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام کسی کی اجازت کے بغیر اور ممکنہ طور پر اسلام آباد کے علم میں بھی لائے بغیر، ہمارا خصوصی استحقاق ہے۔
یہ ہے امریکا سے ہمارے تعلقاتِ غلامی کی اصل حقیقت۔ ۱۱مئی کو عوام کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا وہ اپنی آزادی کی بازیافت کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ یک سُو ہوکر ایسے لوگوں سے نجات پائیں جو اس ذلت کے ذمہ دار ہیں اور جو ایک بار پھر دھوکا دینے کے لیے میدان میں آگئے ہیں۔
امریکا کی غلامی اور اس کی بالادستی کے یوں تو دسیوں پہلو ہیں لیکن اس وقت ان میں سب سے اہم: ڈرون حملوں کا تسلسل ہے۔ یہ حملے پاکستان کی کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری پر حملہ اور ہمارے خلاف ایک طرح کا اعلانِ جنگ ہیں۔ امریکا نے پہلے کچھ پردہ رکھا مگر اب ایک سال سے اس نے کھل کر اعتراف کرلیا ہے کہ وہ حملے کر رہا ہے اور کرتا رہے گا___ تم جو چاہے کرلو۔ آج خود امریکا میں اور عالمی سطح پر ڈرون حملوں کے خلاف مؤثر آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ امریکا کے قانون دان امریکی قیادت کو چیلنج کر رہے ہیں کہ کانگریس کی واضح اجازت کے بغیر صدر یہ حملے نہیں کرسکتا۔ انھیں ٹارگٹ کِلنگ بھی قرار دیا جارہا ہے جو بین الاقوامی قانون اور امریکی قانون دونوں میں ممنوع ہیں۔ پھر یہ اعتراض بھی ہو رہا ہے___ اور صدرامریکا کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں___ کہ سی آئی اے جو ایک سول اور سراغ رسانی کا ادارہ ہے، اسے اس جنگی اقدام کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے کے اعتبار سے نقصان دہ ہونے (counter productive) کا بھی اعتراف کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رُوداد پیش کار (rapporteur) نے بھی انھیں اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
لیکن امریکا نے اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کوئی مؤثر کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ پرویز مشرف نے تو اب سی این این کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ اس نے ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی۔ اس سے پہلے ایک انٹرویو میں اس وقت کے پرویز مشرف کے وزیرخارجہ اور آج کے تحریکِ انصاف کے ایک قائد جناب خورشید قصوری نے بھی اعتراف کیا ہے کہ حکومت وقت نے ان حملوں کی اجازت دی تھی۔ نیز شمسی ایئربیس کوئی خفیہ چیز نہیں تھی جس کو امریکا دھڑلے سے ان حملوں کے لیے استعمال کررہا تھا اور فوجی قیادت اور وزارتِ دفاع صرف غضِ بصر ہی نہیں کیے ہوئے تھی بلکہ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے خود پاکستان کی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر لاعلمی کا اظہار کررہی تھی! جو کردار مشرف اور اس کی ٹیم کا تھا وہی زرداری، گیلانی اور کیانی کا ہے جن کے بارے میں امریکا کے سرکاری ذرائع کے بیانات کی روشنی میں لکھی جانے والی کتابوں اور مضامین میں کھلے الفاظ میں کہا جارہا ہے کہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہورہا ہے۔
اب یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ امریکی تحقیقی اداروں کے مطابق ڈرون حملوں سے مارے جانے والوں میں سے صرف ۳ فی صد کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا تعلق القاعدہ یا دہشت پسندوں سے تھا اور تقریباً ۹۷ فی صد یقینی طور پر سویلین مرد، بچے اور عورتیں ہیں۔ خود پاکستان کے سینیٹ کی ڈیفنس کی کمیٹی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرنے اور زخمی ہونے والوں کی عظیم اکثریت سویلین ہے۔ اس سب کے باوجود ڈرون حملوں کا مقابلہ کرنے اور امریکا کو انھیں روکنے اور کم از کم راہداری کی تمام سہولتوں کو ختم کرنے اور ہرممکن ذریعے سے ان کو ناکام بنانے کے واضح اعلان کا دُور دُور پتا نہیں۔ ۱۱مئی کو یہ طے ہوجانا چاھیے کہ مستقبل کی قیادت وہ ہوگی جو ان شاء اللّٰہ ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے کوئی کمزوری نہیں دکھائے گی اور سفارت کاری اور عسکری دفاع کا ہر طریقہ اس کو روکنے کے لیے استعمال کرے گی۔
جس طرح آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کا تحفظ جسمانی وجود کی حفاظت ہے، اسی طرح پاکستان کی شناخت، اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور ترقی روحانی وجود کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ پرویز مشرف اور زرداری، گیلانی، پرویز اشرف اور ان کے حلیفوں کے دور میں پاکستان کی اسلامی اساس کو کمزور اور اس کی شناخت کو تحلیل اور مجروح کیا گیا ہے۔ اسلام اب ہماری قانون سازی اور پالیسی سازی کے لیے مرکزی حوالے (point of reference) کی حیثیت سے باقی نہیں رہا ہے۔ تعلیم میں جو تھوڑا بہت اسلام اور اسلامی تاریخی روایات اور ادب کا حصہ تھا، اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کم یا ختم کیا جارہا ہے۔ میڈیا پر اسلام اور اسلامی اقدار کے خلاف ایک جنگ برپا ہے اور جو اسلام اور اسلامی اقدار کے تحفظ کی بات کریں، ان پر ’غیرت بریگیڈ‘ کی پھبتی کَسی جارہی ہے۔ دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کو استہزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور صادق اور امین جیسے مقدس الفاظ تک کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ مغرب سے اسلام کے خلاف جو یلغار ہے، اور جہاد اور شریعت کو جس طرح ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے، یہاں بھی اعتدال پسندی اور لبرلزم کے نام پر اسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور ’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ کی بزدلانہ اور منافقانہ روش کو عام کیا جا رہا ہے۔ معترضین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام، اس کے اصولوں اور تعلیمات کے دفاع کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ اگر ایک طرف قوم کو سیاسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے تو دوسری طرف نظریاتی، تہذیبی اور اخلاقی غلامی کے طوق اس کی گردن میں ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے اور حکمران طبقہ اور اشرافیہ اس میں عالمی استعماری قوتوں کے کارندوں کا کردار ادا کر رہا ہے۔ حالانکہ پاکستانی عوام امریکا سے بے زار، اس کی اسلام دشمن اور مسلم کش پالیسیوں پر آتش زیرپا اور اپنے دین اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہیں۔ الحمدللہ، عوام اور اہلِ اقتدار میں سے بھی باضمیر افراد پاکستان کے اسلامی تشخص پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں اور حسب موقع اس کا اظہار بھی ہوتا ہے لیکن برسرِاقتدار طبقے کا عمومی رویہ وہی ہے جس کا ذکر ہم نے اُوپر کیا ہے۔ ۱۱مئی کو عوام کو اس بات کا بھی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک ایسی قیادت کو برسرِکار لائیں جو دین کے بارے میں مخلص اور یک سو ہو اور جو معذرت خواہانہ رویے کی جگہ پورے اعتماد سے اپنے دین اور اپنی اقدار کا تحفظ کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔
تیسرا اہم ترین مسئلہ ملک میں امن و امان کی ناگفتہ بہ حالت اور دہشت گردی کے دوردورے کا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ‘ نہ ہماری جنگ تھی، نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ ہم اس دلدل میں اپنوں کی ہمالیہ سے بلند غلطیوں کی وجہ سے پھنس گئے ہیں اور جان، مال، آبرو اور آزادی ہر ایک کی پامالی کی شکل میں بیش بہا قیمت اداکررہے ہیں۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ اس سے دوگنے زخمی ہوگئے ہیں،۲لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں۔ معاشی اعتبار سے ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اُٹھا چکے ہیں اور پورے ملک میں جرائم اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ صرف کراچی میں گذشتہ چار سال میں ۷ ہزار سے زیادہ افراد قتل کیے جاچکے ہیں اور قاتل حکمران جماعتوں کی پناہ میں ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں۔
ملک کی فوج ملک کے دفاع کی جگہ خود اپنوں کے خلاف صف آرا ہے اور قوم اور فوج میں اعتماد اور محبت کا جو رشتہ ہے، وہ مجروح ہورہا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا کے عتاب کا بھی ہم ہی نشانہ ہیں اور ہمیں بے وفائی کے طعنے بھی سنائے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ نے تین بار متفقہ قراردادوں کے ذریعے فیصلہ دیا ہے کہ مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی کے تحت مذاکرات، ترقی اور سدِّجارحیت (deterrence) کے سہ نکاتی فارمولے ہی کے ذریعے معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ۱۱مئی کو قوم دوٹوک الفاظ میں ان کو رد کردے جو امریکا کی دہشت گردی کی اس جنگ میں قوم کو جھونکنے کے ذمہ دار ہیں، اور قیادت ان کو سونپیں جو جنگ سے نکلنے اور علاقے کو امریکا کی گرفت سے نکال کر علاقے کے تمام ممالک کے تعاون سے مسئلے کا حل نکالنا چاہتے ہوں۔
چوتھا بنیادی مسئلہ معاش کا ہے۔ یہ پانچ سال معاشی اعتبار سے تباہ کن رہے ہیں ۔وہ ملک جو ماضی میں چھے اور سات فی صد سالانہ کی رفتار سے معاشی ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا، آج معاشی جمود، کسادبازاری، افراطِ زر، بے روزگاری اور غربت کے گرداب میں گرفتار ہوگیا ہے۔ گذشتہ برسوں میں مجموعی قومی پیداوار (GDP ) کی سالانہ نمو کی رفتار ۶۰سالہ تاریخ میں سب سے کم اوسطاً ۳ فی صد کے لگ بھگ ہے، حالانکہ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک اوسط ترقی کی رفتار پانچ اور ۶فی صد سالانہ کے درمیان رہی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلسل پانچ برس تک ۳ فی صد یا اس سے بھی کم رفتارِ ترقی کا چکر ہماری تاریخ میں کبھی نہیں رہا۔ان پانچ برسوں میں افراطِ زر ۱۰ اور ۱۲فی صد کے درمیان رہا جو خود ایک ریکارڈ ہے۔ اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں ان پانچ برسوں میں تقریباً ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے، یعنی تقریباً ۲۰ فی صد سالانہ۔ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی شاہ خرچیوں پر کوئی لگام دینے والا نہیں۔ کرپشن کا یہ عالم رہا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں مجموعی کرپشن کا اندازہ ۸۰۰۰؍ارب روپے سے زیادہ کا ہے۔ تجارت میں خسارہ، بجٹ میں خسارہ اور سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں کا خسارہ ملکی معیشت پر تازیانہ بن کر گرتے رہے ہیں۔ عوام تڑپ رہے ہیں اور کوئی سننے والا نہیں۔ پاکستان میں ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۷ء تک جتنے قرضے حکومت نے لیے تھے وہ ۶ٹریلین روپے کے قریب تھے جو ان پانچ برسوں میں دگنے سے بڑھ کر ۱۲ اور ۱۳ٹریلین روپے کے درمیان ہیں اور ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۱۳ء جو اسی مہینے شائع ہوئی ہے اس کی رُو سے پاکستان میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارا شمار کم ترقی کرنے والے ملکوں کے زمرے میں ہوتا ہے اور دنیا کے ۱۸۶ممالک میں ہمارا نمبر ۱۴۶ ہے۔ شدید اور انتہائی غربت میں ہمارا مقام نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان سے بھی خراب اور نیچے ہے، یعنی آبادی کا ۴ء۲۷ فی صد شدید غربت کا شکار ہے۔ عمومی غربت کو اگر دو ڈالر فی کس یومیہ کی آمدنی کی بنیاد پر شمار کیا جائے تو آبادی کا ۷۰ فی صد اس عذاب میں مبتلا ہے۔ ایک طرف معیشت کا یہ حال ہے اور دوسری طرف حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور بدعنوانیوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شرم و حیا کا کوئی وجود ہمارے معاشرے میں باقی نہیں رہا ہے۔
صدر اور وزیراعظم کے سرکاری محلوں کا خرچہ ایک سے دو لاکھ روپے یومیہ ہے۔ معاشی پالیسی سازی کے باب میں مجرمانہ رویے کی ایک مثال یہ ہے کہ پانچ سال میں پانچ بار وزیرخزانہ تبدیل ہوئے ہیں، چھے بار وزارتِ خزانہ کے سیکرٹری بدلے گئے ہیں اور چار باراسٹیٹ بنک کے گورنر کو تبدیل کیا گیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں صرف ایس آر او کے ذریعے اپنے چہیتوں کو ٹیکس سے رعایت کی مد میں ۷۱۹؍ ارب روپے کی چھوٹ دے کر خزانے کو اس رقم سے محروم کیا گیا ہے، اور دوسری طرف سرکاری انتظام میں چلنے والے اداروں کو جن میں اپنی پسند کے ہزاروں افراد کو سیاسی بنیاد وں پر کھپایا گیا ہے اور جن کی قیادت اپنے من پسند کرپٹ اور نااہل افراد کو سونپی گئی ہے خسارے کے جہنم میں جھونک دیا گیا ہے۔ صرف ان پانچ سال میں سرکاری خزانے نے ان اداروں کو جو رقم مدد کے نام پر دی ہے وہ ۸ء۱ ٹریلین روپے ہے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ملک کو درپیش مسائل اور مصائب تو اور بھی ہیں لیکن ہم نے صرف اہم ترین چار مسائل کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ ان کا تعلق ملک کی آزادی، شناخت اور عوام کی زندگی کے سب سے اہم پہلو، یعنی امن و امان اور بنیادی معاشی ضروریات اور خوش حالی سے ہے۔ ان اور تمام دوسرے مسائل کی بڑی وجہ اربابِ اختیار اور زندگی کی ہرسطح پر خصوصیت سے مرکز اور صوبوں میں قیادت کی غفلت، نااہلی، وژن کی کمی، مفادپرستی اور بدعنوانی اور مؤثر احتساب کے نظام کے فقدان پر ہے۔ ملک کی آزادی اور خودمختاری کے باب میں غفلت اور بے وفائی، اسلام اور اس کے تقاضوں سے بے اعتنائی، عوام کے مفاد اور ضروریات سے لاپروائی اور اپنی ذات یا گروہ اور جماعت کے مفادات کی اندھی پرستش ہی بگاڑ کی اصل وجہ ہے۔ قیادت کی تبدیلی، اہل اور دیانت دار افراد کا ذمہ داری کے مناصب کے لیے انتخاب اور تقرر، اداروں کے درمیان تعاون اور باہمی احترام کا رشتہ، دستور اور قانون کی بالادستی، ہر حالات میں مکمل انصاف کا اہتمام اور ہرسطح پر جواب دہی کا مؤثر اور شفاف نظام ہی پاکستان کے استحکام اور ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ان ۱۴برسوں کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ ان میں مسلسل تنزل کے باعث پاکستان میں آج پاکستان کا اصل تصور اور مقصد ہی نایاب ہوگیا ہے اور شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو کہ آج سیاسی نقشے پر تو پاکستان موجود ہے مگر وہ تصور اور وہ وژن، جس سے پاکستان عبارت ہے، گم ہوگیا ہے۔ اب ملک کی بقا اور تعمیرنو کا انحصار تصورِپاکستان کی بازیافت پر منحصر ہے اور یہ عوام کی بیداری اور انتخاب کے موقع پر ان کے فیصلہ کن کردار ہی سے ممکن ہے۔ ۱۱مئی قوم کو ایک تاریخی موقع فراہم کررہی ہے کہ وہ اس اصل تصور اور وژن کو ایک بار پھر غالب وژن بنانے کے لیے ایک ایسی قیادت کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دے جو اس ملک کی گاڑی کو اس کی اصل پٹڑی پر لے آئے اور اصل مقصد کی روشنی اور اس حقیقی وژن کے مطابق جو قیامِ پاکستان کا محرک تھا اس کی تعمیرنو کی خدمت انجام دے سکے۔
حال ہی میں برٹش کونسل نے نوجوانوں کے جذبات، احساسات اور خیالات کا ایک سروے کیا ہے جس میں ملک کے عوام اور خصوصیت سے نوجوان نسل کی مایوسیوں اور اُمیدوں کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک نوجوان نے ملک و قوم کی موجودہ کیفیت کی عکاسی بڑے دردبھرے الفاظ میں کچھ اس طرح کی ہے کہ ’’آزادی سے پہلے ہم ایک قوم تھے اور ایک ملک کی تلاش میں تھے لیکن آج ایک ملک ہے مگر قوم مفقود ہے‘‘۔ اسلام ہی نے کل ہمیں ایک قوم بنایا تھا اور اسلام سے غفلت اور بے وفائی نے قوم کو خود اپنے شعور اور وحدت سے محروم کردیا ہے۔ اسلام ہی کو مضبوطی سے تھامنے سے ہم ایک توانا قوم بن کر ایک توانا پاکستان کی تعمیر کی منزل طے کرسکتے ہیں۔
برٹش کونسل کے اس سروے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ملک کی بالغ آبادی کے ۸۷فی صد کی نگاہ میں ملک جس سمت میں جا رہا ہے، وہ غلط ہے لیکن نوجوانوں میں یہ احساس اور بھی زیادہ ہے، یعنی ۹۴ فی صد۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے ان نوجوانوں کا اعتماد اپنے ملک اور اس کے مستقبل پر غیرمتزلزل ہے اور وہ اس کی تعمیروترقی کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کی عظیم اکثریت، یعنی ۶۷فی صد مرد اور ۷۵ فی صد خواتین اپنے کو روایت پسند (conservatives) کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور سروے کے مرتبین یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ : Conservatives seem dwarfing the number of moderates and liberals. (روایت پسند اعتدال پسندوں اور آزاد رووں (لبرل) پر تعداد میں چھائے ہوئے نظر آتے ہیں)۔
نوجوانوں میں سے ایک بڑی تعداد، یعنی ۳۸ فی صد یہ کہتی ہے کہ ملک کے لیے بہترین راستہ نظامِ شریعت کا نفاذ ہے اور ۲۹ فی صد جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ رپورٹ کے الفاظ میں:
اسلامی شریعت کو اس وجہ سے پسند کیا جا رہا ہے کہ یہ اخلاقی اور مذہبی اقدار کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شریعت کو عوام کے ان کے حقوق، آزادی، رواداری اور برداشت کے فروغ اور ملک کو ایک بہتر سرزمین بنانے کے لیے بہترین نظام بھی سمجھا جاتا ہے۔ (ص ۴۴۴)
نوجوان اس ملک میں کیسی قیادت دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس کے جواب میں ان کا نقطۂ نظر بہت واضح ہے:
جب پوچھا گیا کہ وہ سب سے زیادہ اہم صفات کیا ہیں جو آپ اپنے لیڈر میں دیکھنا چاہتے ہیں تو (جواب دیا گیا کہ) وہ دیانت داری اور کرپشن سے پاک ہونا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کو تبدیل کرنے کے لیے مضبوط خیالات۔ دوسرے الفاظ میں عملیت پسندی کافی نہیں ہے۔ نوجوان ووٹر اخلاقیات، شفافیت اور رواداری کے بارے میں سننا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ کسی ایسے کی تلاش میں ہوں جو انھیں اُمید دے سکے۔
اس رپورٹ میں جن کو روایت پسند کہا گیا ہے ان کی سوچ اور عزائم کا اظہار رپورٹ میں کچھ اس طرح ہوتا ہے:
ان کی ایک امتیازی شناخت ہے جو انھی کی نسل کا خاصّا ہے۔ وہ اُمید کرتے ہیں کہ پاکستان کو بہتر بنائیں گے۔ ایسا ملک جہاں کے ۹۸ فی صد لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خواب کے مطابق زندگی گزاریں۔
حالات کتنے بھی خراب اور تشویش ناک ہوں، امید اور تبدیلی کا عزم رکھنے والے عوام اور نوجوان ہی ہمارا اصل سرمایہ ہیں۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ؎
طولِ شبِ فراق سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے کہ جس کی سحر نہ ہو
۱۱مئی ہمیں اس سحر سے قریب لاسکتی ہے اگر ہم سب اس دن اپنی ذمہ داری خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ ادا کریں۔
جماعت اسلامی پاکستان ملک کے تمام صوبوں سے مرکزی اور صوبائی، دونوں اسمبلیوں کے لیے انتخاب میں شرکت کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں، ایک نظریاتی تحریک ہے جو دین حق کی بنیاد پر زندگی کے تمام شعبوں کی دورِ جدید کے حالات، مسائل اور وسائل کی روشنی میں تشکیل نو کرنے کی جدوجہد ۱۹۴۱ء سے کر رہی ہے۔ اس نے فکری تشکیل نو، کردار سازی اور تعمیراخلاق، تعلیم و تربیت، سماجی خدمت، نوجوانوں اور طلبہ میں اسلامی احیا کی تنظیم، جدوجہد، مزدوروں، کسانوں، وکیلوں، سائنس دانوں، تجار، غرض زندگی کے ہر میدان میں بے لوث خدمت کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ اس نے انتخابات کے ذریعے سیاسی تبدیلی کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ۱۹۶۲ء کی اسمبلی میں اس کے صرف چار ارکان تھے مگر الحمدللہ ان کی مساعی سے جنرل ایوب خان نے دستور سے قرارداد مقاصد کو خارج کرنے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ’اسلامی‘ کا لفظ نکالنے کی جو جسارت کی تھی، وہ دوسال کے اندر اسے واپس لینی پڑیں اور دستور کی اسلامی دفعات بحال ہوئیں۔
۱۹۷۱ء کی اسمبلی میں ڈاکٹر نذیر احمد کی شہادت کے بعد جماعت اسلامی کے صرف تین ارکان تھے لیکن دوسری دینی جماعتوں کے تعاون سے پروفیسر عبدالغفوراحمد، مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی کی مساعی کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور میں اسلام کو مرکزی حیثیت رہی۔ ۲۰۱۰ء کی اٹھارھویں دستوری ترمیم کے موقعے پر جماعت اسلامی کے سینیٹ میں صرف تین ارکان تھے لیکن جماعت اور جمعیت علماے اسلام کی مساعی سے اٹھارھویں ترمیم میں دستور کی تمام اسلامی دفعات کو نہ صرف مکمل تحفظ ملا بلکہ بہت سی کمزوریوں کو دُور کیا گیا، خصوصیت سے وفاقی شرعی عدالت کے نظام میں جو سقم تھے اور جس کی وجہ سے اس کی آزادی اور کارکردگی بُری طرح متاثر ہورہی تھی، ان کو دُور کرکے اس کے لیے اعلیٰ عدالت کو وہ تمام تحفظات فراہم کیے گئے جو عدالت کی آزادی کے لیے ضروری ہیں۔
پلڈاٹ (PILDAT) جو ایک آزاد ادارہ ہے، اس کی رپورٹیں گواہ ہیں کہ خواہ ۲۰۰۲ء کی قومی اسمبلی ہو یا ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۲ء تک کی سینیٹ، ہرجگہ جماعت کے ارکان نے پارلیمنٹ کی کارروائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی کارکردگی سب سے نمایاں رہی۔ سینیٹ کی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہرہرلحاظ سے ___ یعنی تقاریر میں سب سے زیادہ وقت، سب سے زیادہ سوالات، سب سے زیادہ قراردادیں، سب سے زیادہ نکتہ ہاے اعتراض___ گویا ہر معیار سے جماعت اسلامی کے ارکان کی کارکردگی سب سے اعلیٰ تھی۔
اسی طرح جب اور جس حد تک جماعت اسلامی کے نمایندوں کو لوکل باڈیز یا صوبہ خیبرپختونخوا میں ساڑھے چار سال خدمت کا موقع ملا، جماعت کی کارکردگی نمایاں رہی اور کرپشن کے ہرداغ سے پاک رہی۔ جماعت کے کارکن بھی انسان ہیں اور وہ ہرگز خطا سے پاک نہیں، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور صرف تحدیث نعمت کے طور پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ جماعت کے تمام کارکنوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری دیانت، پوری محنت اور اپنے دامن کو ہر بدعنوانی اور ذاتی منفعت سے بچاکر انجام دیں۔ اس کا اعتراف دوست اور دشمن سب نے کیا ہے۔ جماعت اسلامی کوئی مسلکی جماعت نہیں، اس نے ہرتعصب سے بلند ہوکر اسلام اور پاکستان کی خدمت انجام دی ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلی ہے۔ ۱۹۷۰ء سے اب تک مختلف اَدوار میں جماعت اسلامی کے مرد اور خواتین ممبران سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کی تعداد ۱۸۶ رہی ہے ،لیکن الحمدللہ ان میں سے ہرایک نے مقدور بھر خدمت کا ایک ایسا معیار قائم کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔
کراچی میں جناب عبدالستار افغانی (۱۹۷۹ء-۱۹۸۳ء) اور جناب نعمت اللہ خان (۲۰۰۱ء-۲۰۰۴ء) نے علی الترتیب کراچی کے میئر اور سٹی ناظم کے فرائض انجام دیے اور دیانت اور خدمت کا بہترین ریکارڈ قائم کیا۔ افغانی صاحب نے جب میئر کی ذمہ داری سنبھالی تو بلدیہ کراچی ۱۰کروڑ کی مقروض تھی اور جب ۱۹۸۳ء میں بلدیہ تحلیل کی گئی ہے اور ان کو فارغ کیا گیا، اس وقت ۱۵کروڑ کے اضافی فنڈ موجود تھے۔ ان کے دور میں بلدیہ کا بجٹ ۵۰ کروڑ سالانہ سے بڑھ کر ایک ارب ۷۰کروڑ تک پہنچ گیا تھا، نیز اس دور میں بیسیوں تعمیراتی منصوبے ہرشعبۂ زندگی میں شروع کیے گئے۔اسی طرح جب جناب نعمت اللہ خان صاحب نے ناظم کراچی کی ذمہ داری سنبھالی تو سٹی نظم کا بجٹ ۶؍ارب روپے تھا اور چار سال کے بعد جب وہ فارغ ہوئے تو یہ بجٹ ۴۲؍ارب روپے سے زائد تھا۔ دونوں اَدوار میں جو پراجیکٹس شروع ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔شہر کے انفراسٹرکچر میں غیرمعمولی ترقی ان اَدوار میں واقع ہوئی جسے ہرشخص نے بچشم سر دیکھا۔ اور سب سے بڑھ کر دونوں نے جس سادگی اور پروٹوکول کے بغیر اپنی ذمہ داریاں ادا کیں، وہ نفسانفسی کے اس دور میں تابناک مثالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ افغانی صاحب ہوں یا نعمت اللہ صاحب، دونوں نے سرکاری مکان اور مراعات سے اپنا دامن بچایا۔ افغانی صاحب اپنے ۶۰گز کے فلیٹ ہی میں رہتے رہے اور نعمت اللہ خان نے سرکاری بنگلہ لینے سے انکار کر دیا۔ تنخواہ میں ملنے والی رقم ۴۰لاکھ روپے بھی الخدمت کے اکائونٹ میں جمع کرا دیے۔
ہم نے یہ چند باتیں صرف تحدیث نعمت کے طور پر عرض کی ہیں تاکہ قوم کے سامنے یہ بات آجائے کہ آج بھی اس قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ دیانت اور خدمت کے جذبے سے معمور ہیں۔ انھیں قوم نے جب بھی جو ذمہ داری دی، اسے انھوں نے وقت اور صلاحیت کے بہترین استعمال سے انجام دیا اور دیانت اور امانت کی روشن مثال قائم کی۔
ہم قوم سے صرف یہ اپیل کرتے ہیں کہ ۱۱مئی کے تاریخی موقعے پر اپنی ذمہ داری اللّٰہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ انجام دیں۔ووٹ کے لیے لازماً گھر سے نکلیں اور دوسروں کو بھی ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیں۔ ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو امانت دار افراد کے سپرد کریں۔ جمہوریت کی کامیابی کا انحصار صرف اس امر پر ہے کہ اپنے ووٹ کا ٹھیک ٹھیک استعمال کریں اور ایسی قیادت کو بروے کار لائیں جو دیانت اور صلاحیت، دونوں معیارات پر پوری اُترتی ہو۔ اگر اسمبلیوں میں اچھی قیادت کی اکثریت ہو تو ملک کی قسمت چند برسوں میں بدل سکتی ہے۔ اگر ایسے لوگوں کی اکثریت نہ بھی ہو مگر وہ ایک معقول تعداد میں موجود ہوں تو وہ حالات کو متاثر کرنے میں ایک بڑا اور مؤثر کردار ضرور ادا کرسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے تعاون کے بغیر کوئی پایدار حکومت بن ہی نہ سکے، اور اگر ایسا نہ ہو جب بھی ایک جان دار، مؤثر اور اصول پرست اپوزیشن کی حیثیت سے وہ ملک کی پالیسیوں کو متاثر کرسکتے ہیں، احتساب کی خدمت انجام دے سکتے ہیں، عوام کی آواز کو اقتدار کے ایوانوں میں اُٹھا سکتے ہیں اور کم از کم بگاڑ کی قوتوں پر گرفت اور بگاڑ کی رفتار کو بریک لگاسکتے ہیں۔
۱۱مئی فیصلے کا دن ہے۔ اگر آپ نے صحیح فیصلہ کیا تو آپ ملک کی قسمت کو تبدیل کرسکتے ہیں اور اگر آپ نے اپنی ذمہ داری ہی ادا نہ کی تو پھر آپ نتائج کی ذمہ داری سے کیسے مبرا ہوسکتے ہیں۔ آیئے! اپنے آپ سے اور اپنے اللّٰہ سے عہد کریں کہ ۱۱مئی کو ہم پاکستان کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کریں گے جو اس کی آزادی، خودمختاری، حاکمیت، اسلامی شناخت اور فلاحی کردار کے حقیقی محافظ ہوسکیں، اور جو اپنی ذات کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ ملک کی خدمت کے لیے اپنے جان اور مال کی بازی لگانے والے ہوں۔ اگر ہم اپنے اس عہد کو ٹھیک ٹھیک پورا کرتے ہیں تو پھر اُس پاکستان کی بازیافت اِن شاء اللّٰہ ہوکر رہے گی جس کے لیے قیامِ پاکستان کی تحریک برپا کی گئی تھی اور جس پر اس ملک کے مستقبل کا انحصار ہے۔
کتابچہ دستیاب ہے، قیمت: ۱۰ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲