تعصب اُن انتہائی خطرناک چیزوں میں سے ہے جو معاشروں کو تباہ کردیتی ہیں، اُن کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیتی ہیں۔ بلکہ یہاں تک ہوتا ہے کہ ان کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکا دیتی ہیں۔ حتیٰ کہ ایک ہی معاشرے اور ایک ہی وطن کے باشندے آپس میں برسرِجنگ ہوجاتے ہیں۔ تعصب سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی آزاد مرضی سے اختیار کیے ہوئے اپنے عقیدے اور افکار کے اُوپر فخر کرے۔ بلکہ تعصب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی فکر اور عقیدے کی محبت میں اس طرح اندھا ہوجائے کہ دوسروں کو اپنا مخالف اور دشمن قرار دے لے۔ اُن سے نقصان اور شر کا اُسے اندیشہ لاحق رہے۔ اُن کے لیے بُرا سوچے اور بُرا کرے۔ اُن کے خلاف ناپسندیدگی اور تشدد کی فضا پیدا کرے۔ جس کی وجہ سے لوگ امن و سکون کی زندگی نہ گزار سکیں۔ اور یہ امن و سکون انسانیت کے لیے اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب قریش کو اس نعمت سے نوازا تو فرمایا: فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ o الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ o (قریش: ۱۰۶:۳-۴)، ’’لہٰذا اُن کو چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک سے بچاکر کھانے کو دیا اور خوف سے بچاکر امن عطا کیا‘‘۔
قرآن مجید نے بھوک اور خوف کو معاشرے کے لیے بدترین مصیبت قرار دیتے ہوئے کہا: وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَo (النحل ۱۶:۱۱۲) ، ’’اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہرطرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کُفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھاگئیں‘‘۔
کچھ لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ دینی ایمان اور تعصب لازم ملزوم ہیں۔ ایمان کسی حالت میں بھی تعصب سے جدا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ مومن دینی اعتبار سے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور اُس کے علاوہ سب باطل پر ہیں۔ اُس کا ایمان ہی راہِ نجات ہے۔ جو انسان اُس کے اس مضبوط سہارے کو نہیں پکڑے گا وہ نجات کے راستے کی طرف ہدایت نہیں پاسکتا۔ اور جو بھی اس کی کتاب قرآنِ مجید اور اس کے رسول حضرت محمدؐ پر ایمان نہیں لائے گا وہ جہنم رسید ہوگا۔ اُسے اُس کے اچھے اور بھلے کام کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے۔ کیونکہ اُن کی بنیاد ایمان پر نہیں تھی اس لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اُن کاموں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ م بِقِیعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآئً حَتّٰیٓ اِِذَا جَآئَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا (النور ۲۴:۳۹)،’’ جنھوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بے آب میں سراب کہ پیاسا اُس کو پانی سمجھے ہوئے تھا، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا‘‘۔ مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ اَعْمَالُھُمْ کَرَمَادِ نِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْئٍ (ابراھیم ۱۴:۱۸)، ’’جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پاسکیں گے‘‘۔
محض تعصب کی بنیاد پر قائم کیے گئے اس طرح کے تصورات یقینا لوگوں کے درمیان بُغض اور عداوت پیدا کرتے ہیں۔ بہت سے مواقع پر تو یہ تصورات بعض گروہوں اور قوموں کے درمیان خوں ریز لڑائیوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ تاریخ کے مختلف اَدوار میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ دومختلف ادیان کے لوگوں کے درمیان جنگیں برپا ہوئیں، مثلاً مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان، بلکہ ایک ہی دین کے ماننے والے دینی مسالک اور گروہوں کے درمیان یہ لڑائیاں ہوتی رہیں۔ عیسائی فرقے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ باہم جنگ آزما رہے۔ مسلمانوں کے شیعہ اور سُنّی گروہ باہم متحارب رہے۔
سوال یہ ہے کہ ان فکری اور عملی مشکلات کا حل کیا ہے جو واقعتا معاشروں کو درپیش ہیں۔ جو ایسے چیلنج بن کر سامنے کھڑی ہیں کہ اُن کا مقابلہ کیا جائے۔ ایسے سوالات بن کر سامنے آئی ہیں کہ اُن کا جواب فراہم کیا جائے؟
میں یہاں بلاتردد یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام نے ان نظری تصورات اور عملی مشکلات کا حل ایسی روشن اور اصلی روایت کے ذریعے پیش کیا ہے جس روایت، رجحان اور کلچر کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہی نے رکھی ہے، اور اسلام ہی نے اپنے ماننے والوں کو اس کی تعلیم دی ہے۔ یہ وہ کلچر اور رجحان ہے جو رواداری اور برداشت کو جنم دیتا ہے، تعصب کو پنپنے نہیں دیتا۔ تعارف اور مانوسیت کا ماحول پیدا کرتا ہے، اجنبیت اور غیراُنسیت کو ختم کرتا ہے۔ محبت کے پھول کھلاتا ہے، نفرت کے بیج نہیں بوتا۔ مکالمے کی تعلیم دیتا ہے اور تصادم کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ نرمی اور ملاطفت کی فضا قائم کرتا ہے، سختی اور تشدد کے رویوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ رحم دلی کے جذبات بیدار کرتا ہے ، سختی اور سنگ دلی انسانوں کے لیے روا نہیں سمجھتااور جنگ نہیں بلکہ امن سے انسانیت کو آشنا کرتا ہے۔
۱- مسلمانوں کو دی گئی رواداری کی تعلیم کے ماخذ کئی ہیں اور یہ سب اصلی اور بنیادی ماخذ ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سب سے بڑا ماخذ قرآن کریم ہے جس نے رواداری کے اصولوں کی بنیاد رکھی ہے۔ اپنے معجزبیان اسلوب کے ذریعے مکی اور مدنی سورتوں میں ان اصولوں کو واضح کیا ہے۔ قرآن کریم کا یہ اسلوبِ بیان پورے انسانی وجود کو مخاطب کرتا ہے جس کے نتیجے میں عقل مطمئن ہوجاتی ہے، جذبات وجد میں آجاتے ہیں اور عزم بیدار ہوجاتا ہے۔ پڑھنے والا محسوس کرے گا کہ وہ شرعی اور منطقی دلائل جن کو ہم نے ’رواداری کی تعلیم‘ کے اس مضمون میں بنیاد بنایا ہے، اُن کی اساس اور بنیاد قرآن کریم ہی سے فراہم کی گئی ہے۔
۲- قرآن کے بعد سیرت و سنت ِ نبویؐ ہے جو قرآنِ مجید کی شرح، وضاحت اور تفصیل بیان کرتی ہے۔ سنت قرآن کریم کا نظری بیان اور عملی تطبیق ہے۔ جیسا قرآن کریم نے کہا ہے: وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (النحل ۱۶:۴۴)، ’’اور ہم نے یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی شرح و توضیح کرتے جائو جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غوروفکر کریں‘‘۔
۳- عملِ صحابہؓ ، خصوصاً خلفاے راشدینؓ کا عمل، ان کا طریقہ نبی کریمؐ کی سنت کا تسلسل ہے۔ یہ مدرسۂ نبوت کے طالبانِ علم ہیں، انھوں نے اسی علمِ نبوت کی پیروی کی اور ہدایت پائی، اپنے قوانین اور فیصلے سنت ِ نبویؐ ہی کی روشنی میں تیار اور نافذ کیے۔ اور صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی پائی۔
۴- اس کے ساتھ ہم اَئمہ اُمت ، فقہا اور راسخ علما کے اقوال کو بھی بنیاد بناتے ہیں کیونکہ یہی لوگ نبوت کے وارث اور اس علم کے حامل ہیں جو اہلِ غلو کی تحریفات سے، باطل پسندوں کے نظریات سے،اور جاہلوں کی تاویلات سے دین کو صاف کرتے ہیں۔
۵- مسلم رواداری کی تعلیم کے ماخذ میں ’تاریخی حالات‘ بھی شامل ہیں کیونکہ اسلام کی اس تاریخ میں مخالفینِ اسلام کے ساتھ برداشت اور رواداری کا سلوک اور برتائو سامنے آیا۔ اس معاملے میں کسی خلیفہ، سلطان، رہنما یا وزیر نے مشرق و مغرب میں مخالفت نہیں کی۔ نہ عہدبنواُمیہ میں اور نہ عہد بنوعباس و بنوعثمان میں ایسا کوئی برتائو سامنے آیا جو اس تعلیم کی نفی کرتا ہو۔ اس بات کی شہادت تو مغرب کے انصاف پسند مؤرخین نے بھی دی ہے۔
اسلامی رواداری اور برداشت کی متعدد خصوصیات ہیں۔ تاہم ایک خصوصیت بہت اہم ہے۔ وہ یہ کہ اس کا دینی رنگ، ربانی ماخذ اور اصل منبع احکامِ الٰہی اور ہدایاتِ نبویؐ ہیں۔ یہ احکام و ہدایات اسے مسلمانوں کے اُوپر ایسی قوت عطا کرتے ہیں جو اُن کے دلوں اور ضمیروں سے ازخود پیدا ہوتی ہے اور وہ اس کے سامنے سرتسلیم جھکا دیتے ہیں۔ وہ اُس قوت کے احکام کو اپنے ایمانی جذبے اور خوفِ خدا کی بنا پر نافذ کرنے کے بے حد متمنی رہتے ہیں۔
الٰہی قوانین و احکام اور انسان کے وضع کردہ قوانین میں فرق یہ ہے کہ انسانی قوانین سے لوگ جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کوتوڑتے اور ان سے تجاویز کرتے ہیں، جب کہ قوانین الٰہی کے احترام و اتباع پر اہلِ ایمان کو بشارت دی گئی ہے کہ وہ اس سے اللہ کی رضامندی، آخرت کا اجروثواب، دنیا میں دل کا سکون اور ضمیر کا اطمینان پائیں گے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo (النحل ۱۶:۹۷) ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو اُن کے اجر، اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔
یہاں ایک چیز اور ہے جو اُن حقوق کے دائرے میں شامل نہیں ہے جو حقوق قوانین کے ذریعے متعین ہوتے ہیں، عدالتوں کے ذریعے قانونی قرار پاتے ہیں، اور حکومتیں اُن حقوق کے نفاذ کی ذمہ داری پوری کرتی ہیں۔ یہ چیز رواداری کی وہ روح ہے جو معاشرت میں احسان، معاملات میں نرمی اور ہمسایگی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں نظر آتی ہے۔ یہ احسان، رحم دلی اور خیروفلاح کے انسانی جذبات میں کشادہ دلی کے مظاہروں میں سامنے آتی ہے۔ یہ وہ اُمور ہیں جن کی روزمرہ زندگی میں بہت ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں دستور و قانون اور عدلیہ کچھ نہیں کرسکتی۔ رواداری کی یہ روح ایسی ہے جو غیراسلامی معاشرے میں ملنا مشکل ہے۔
اسلام نے جن بنیادی اور مسلّمہ اصولوں کی تعلیم دی ہے اُن میں ایک اسلامی معاشرے میں غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات و معاملات میں رواداری اور برداشت کا اصول ہے، یعنی غیرمسلموں کے ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار پر مبنی برتائو کیا جائے۔ اسلام کے کسی مخالف کے ساتھ تعصب، بے جا عناد اور کینہ نہ رکھا جائے۔
یہ سلوک یوں تو ہر مخالف ِ اسلام کے ساتھ روا رکھنے کی تعلیم ہے مگر اہلِ کتاب، یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ خصوصی طور پر معاملہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس لیے کہ دراصل وہ بھی سماوی دین کے پیروکار ہیں۔ یہ اپنی نسبت اور تعلق جدالانبیا حضرت ابراہیم ؑ سے جوڑتے ہیں۔ قرآنِ مجید نے انھیں ’اہل الکتاب‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ان کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے کھانا حلال قرار دیا ہے۔ ان کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے۔ فرمایا:
اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہلِ ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔(المائدہ ۵:۵)
دینی اعتبار سے اپنے مخالفین کے ساتھ جو رواداری اور برداشت اسلام کے اندر ہے اس سے زیادہ کشادہ اور وسیع رواداری ہمیں کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ قرآنِ مجید نے غیرمسلموں کے ساتھ معاملہ کرنے کے حوالے سے ایک واضح فرق اور امتیاز قائم کیا ہے۔
اسلام کے نزدیک غیرمسلموں کی دو قسمیں ہیں: ۱- مُحارِب (برسرِجنگ) جو دین کے معاملے میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہوں، یعنی مسلمانوں کو انھوں نے مسلمان ہونے کی بنا پر اُن کے گھروں سے بے دخل کردیا ہو، یا اُن کے بے دخل کیے جانے میں کسی کی مدد کی ہو۔ ۲- مُسالِم (امن پسند) جنھوں نے مذکورہ بالا اُمور میں سے کسی بھی معاملے میں مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ نہ دیا ہو۔ یہ تقسیم اور تفریق قرآنِ مجید کی اُن آیات میں بیان کی گئی ہے جو غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات کو متعین کرنے کے لحاظ سے ایک ٹھوس دستور قرار دی جاتی ہیں:
اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔(الممتحنہ ۶۰:۸-۹)
یاد رہے کہ یہ دونوں آیات مشرکوں اور بت پرستوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کیونکہ اس سورت کے اسبابِ نزول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب مشرک اور بت پرست خیر اور انصاف کے حق دار قرار دیے گئے ہیں تو ’اہلِ کتاب‘ ان کی نسبت زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ خیروانصاف کا معاملہ کیا جائے۔
مخالفینِ اسلام کی ایک تقسیم اُوپر ذکر ہوچکی اور دوسری تقسیم میں ’معاہدین‘ آتے ہیں۔ ان معاہدین کی بھی دواقسام ہیں: ۱-وہ معاہدین جن کے ساتھ ایک متعین مدت تک کے لیے معاہدہ ہوا ہو۔ ان کے ساتھ معاہدہ، اس کی مدت تک پورا کرنا فرض ہے۔ ۲- وہ معاہدین جن کے ساتھ دائمی اور غیرمتعینہ مدت کے لیے معاہدہ ہو۔ ان لوگوں کو اسلام نے ’اہل الذمۃ‘ (ذمی) کا نام دیا ہے۔ ’اہلِ ذمہ‘ ان معنوں میں کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ اور مسلم جماعت کی طرف سے ضمانت ہے۔ اسلامی فقہ میں ان کے وہی حقوق و فرائض بیان ہوئے ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ گویا تمام حقوق و فرائض، سواے ان مطالبات اور تقاضوں کے جو دونوں ادیان کے مختلف ہونے کی بنا پرموجود ہیں۔ یہ ذمی ’دارالاسلام‘ یعنی (اسلامی ریاست) کی قومیت کے حامل ہیں۔بالفاظِ دیگر یہ اسلامی ریاست کے شہری ہیں۔
یہ ’اہل الذمہ‘ (ذمی) کے الفاظ کسی تحقیر اور تذلیل کی طرف اشارہ نہیں ہے جیساکہ کئی لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے، بلکہ یہ الفاظ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت کو مانتے ہوئے اللہ اور رسولؐ کی ضمانت کو پورا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن اگر ہمارے مسیحی بھائی اس اصطلاح کے استعمال سے تکلیف محسوس کریں تو اس کو تبدیل یا حذف کیا جاسکتا ہے۔ ہم اس کے ذریعے اللہ کی عبادت کا کوئی فریضہ ادا نہیں کرتے۔ سیدنا عمرؓ نے تو اس سے بھی اہم اصطلاح ’جزیہ‘ کو حذف کردیا تھا، حالانکہ یہ قرآن میں مذکور ہے۔ حضرت عمرؓ نے بنی تغلب جو مسیحی تھے اُن کے مطالبے پر یہ کام کیا تھا۔ بنی تغلب نے اس نام سے بے زاری کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ اُن سے جزیہ کے نام پر جو کچھ وصول کیا جاتا ہے وہ صدقہ کے نام پر وصول کرلیا جائے خواہ دگنا ہی ہو۔ حضرت عمرؓ نے اُن سے اتفاق کیا اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا، البتہ یہ فرمایا: یہ احمق قوم ہے، نام کا انکار کر رہے ہیں اور معنی کو قبول کرلیا ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کا ایک بہت اہم اصول کی طرف اشارہ ہے، یعنی مقاصد اور معانی پر نظر رکھنا ضروری ہے، نہ کہ الفاظ اور عبارتوں پر۔ اور یہ کہ اعتبار ناموں اور عنوانوں کا نہیں ہوتا بلکہ اُن چیزوں اور باتوں کا ہوتا ہے جن کے لیے یہ استعمال ہوتے ہیں۔
اس بنیاد پر ہم کہتے ہیں: لفظ ’جزیہ‘ کے ساتھ چمٹے رہنا کوئی ضروری نہیں ہے کیونکہ اس سے مصر اور دیگر اسلامی و عربی ممالک میں ہمارے مسیحی بھائی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے قومی دھارے میں پوری طرح شامل رہتے ہیں۔ اُن کے لیے کافی ہے کہ وہ ٹیکس کے نام پر کوئی رقم ادا کریں جس طرح مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ پھر یہ لوگ بھی قوم اور ملک کے دفاع میں بذاتِ خود اسی طرح شریک رہیں جس طرح اُن کے مسلمان بھائی شریک رہے ہیں۔ لبنان میں عباسی امیر جو خلیفہ کے قریب تھا، امام اوزاعی نے اس کے خلاف اہلِ ذمہ (ذمیوں) کا ساتھ دیا۔ امام ابن تیمیہؒ نے تیمورلنگ کو قیدیوں کی رہائی کے لیے کہا تو اُس نے صرف مسلمان قیدیوں کو رہا کرنے کا عندیہ دیا، مگر امام ابن تیمیہؒ نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا اور ذمیوں کو بھی رہا کرنے کے لیے اصرار کیا۔
رواداری کے بلند ترین درجات صرف مسلمانوں ہی کے ہاں پائے جاتے ہیں:
مسلمان جب رواداری کے اپنے بلند ترین درجے تک پہنچتے ہیں تو اپنے ذمی مخالفین کے ساتھ ایسا برتائو کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے تو ہر اُس امر کو احترام دیا ہے جس کا غیرمسلم عقیدہ رکھتے ہوں کہ یہ اُن کے دین میں حلال ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اُنھوں نے اُن کے حلال کو حرام یا ممنوع بنانے پر اُن کو مجبور نہیں کیا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ملکی دستور و قانون کے پیش نظر وہ بھی ان چیزوں کو حرام سمجھ لیں اور کسی تعصب اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اس کا اہتمام نہ کریں، کیونکہ اگر کسی چیز کو کسی دین نے حلال ٹھیرایاہے تو اُسے عمل میں لاکے رہنا اس کے ماننے والوں پر فرض نہیں ہے۔ اگر ایک عیسائی کا دین خنزیر کا گوشت کھانا حلال قرار دیتا ہے تو وہ اُسے کھائے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ گائے، بکری اور مرغی وغیرہ کا گوشت اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح شراب کا معاملہ ہے۔ اگرچہ بعض مسیحی کتب میں اس کی اباحت مذکور ہے، یا معدے کی اصلاح کے لیے بہت تھوڑی مقدار کی اباحت موجود ہے۔ تو یہ مسیحیت کا فرض قرار نہیں پاگیا کہ مسیحی لازمی طور پر شراب نوشی کرے، بلکہ بعض مسیحی تو اپنے دین کی رُو سے اس کو حرام سمجھتے ہیں۔
اگر اسلام ذمیوں سے کہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی خاطر شراب نوشی اور خنزیرخوری نہ کرو تو اس بات میں دینی لحاظ سے کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ ان اشیا کو ترک کردیں گے تو اپنے دین میں کسی منکر (حرام اور ممنوع) کے مرتکب نہیں ہوں گے، اور نہ کسی مقدس واجب اور فرض ادا نہ کرنے کے مجرم ٹھیریں گے۔ لیکن اس کے باوجود اسلام نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، اور نہ اسلام کا منشا یہ ہے کہ وہ حلال چیز کے بارے میں غیرمسلموں کو کسی ایسی تنگی میں مبتلا کرے۔ اسلام نے تو مسلمانوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ انھیں چھوڑ دو، وہ جو چاہیں دینی عقیدہ اختیار کریں۔
اس طرح کی رواداری قرآنِ مجید میں مشرک والدین کے معاملے میں پوری وضاحت سے سامنے آئی ہے۔ جو والدین اپنے بیٹے کو توحید سے شرک کی طرف لانا چاہتے ہوں، ان کے بارے میں قرآن مجید کا یہ حکم ہے کہ: وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا (لقمان ۳۱:۱۵) ’’دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ‘‘۔
یہ رواداری قرآنِ مجید کی اس ترغیب میں بھی نمایاں ہے جس میں مسلمانوں کو اپنے اُن مخالفین سے عدل و احسان اور مہربانی کا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو برسرِجنگ نہیں ہیں بلکہ امن پسند ہیں: ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۸)
قرآنِ مجید اللہ کے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر ۷۶:۸)، ’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی اس وقت اسیر(قیدی) تو مشرک ہی تھے مسلمان نہیں۔
قرآن مجید بعض مسلمانوں کے اس شبہے کا جواب بھی فراہم کرتا ہے کہ مشرک ہمسایوں اور رشتے داروں پر انفاق نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کا بیان ہے: ’’اے نبیؐ، لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے، اور راہِ خیر میں جو مال تم لوگ خرچ کرتے ہو وہ تمھارے اپنے لیے بھلا ہے‘‘۔(البقرہ ۲:۲۷۲)
امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مدوّن و مرتب اور اُن کے رفیق محمدبن حسن نے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں قحط کے زمانے میں اہلِ مکہ کے لیے کچھ مال بھیجا تاکہ وہ وہاں کے فقرا میں تقسیم کردیا جائے۔ رسولِؐ اکرم کا یہ رحم دلانہ اقدام اہلِ مکہ کے اُس تعذیب و تشدد اور ایذارسانی کے باوجود سامنے آیا جس سے آپؐ خود بھی اور آپؐ کے صحابہ بھی دوچار رہے۔
حضرت اسما بنت ابوبکرؓ کا بیان ہے کہ قریش سے مسلمانوں کے معاہدے کے دوران میری والدہ آئیں اور وہ مشرکہ تھیں تو میں نے رسولؐ اللہ سے پوچھا: اللہ کے رسولؐ میری والدہ آئی ہیں، اور مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ کیا میں اُن سے مل سکتی ہوں؟ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ہاں ہاں، اپنی والدہ سے ملو۔ (بخاری و مسلم)
یہ رواداری اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ کے ساتھ رسولؐ اللہ کے ذاتی معاملات میں مزید کھل کر سامنے آتی ہے۔ آپؐ اُن سے ملا کرتے تھے، ان کی عزت و توقیر کیا کرتے تھے، اُن سے احسان کا معاملہ کرتے تھے، اُن کے بیماروں کی بیمارپُرسی کرتے تھے، اُن سے روپے پیسے کا لین دین بھی کرتے تھے۔ ابن اسحاق نے السیرۃ النبویۃ میں ذکر کیا ہے کہ جب وفدِ نجران(جوعیسائی تھے) رسولؐ اللہ کے پاس مدینہ آیا تو عصر کے بعد آپؐ سے مسجد میں ملاقات کی۔ اُن کی عبادت کا بھی وقت ہوگیا تو انھوں نے وہیں مسجد میں کھڑے ہوکر عبادت شروع کردی۔ لوگوں نے انھیں منع کرنا چاہا تو رسولِؐ اکرم نے فرمایا: انھیں مت روکو۔ پھر وفد کے لوگوں نے مشرق کی طرف قبلہ رُخ ہوکر عبادت کی۔
علامہ ابن قیمؒ نے اس واقعے پر زاد المعاد میں حاشیہ لکھتے ہوئے اس کے فقہی نکات میں یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے: ’’اہلِ کتاب کے لیے اگر وہ مستقل معمول نہ بناسکتے ہوں اور عارضی طور پر مسلمانوں کی مساجد میں اور مسلمانوں کی موجودگی میں عبادت کرنا اور مساجد میں داخل ہونا جائز ہے!!
علامہ ابوعبید نے اپنی کتاب الاموال میں حضرت سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی گھرانے پر صدقہ کیا تو پھر وہ صدقہ مستقل جاری رہا۔
بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کی عیادت کی اور اس کے سامنے اسلام پیش کیا تو وہ اسلام لے آیا۔ آپؐ وہاں سے واپس ہوئے تو آپؐ کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات جاری تھے: اُس اللہ کا شکر ہے جس نے میرے ذریعے اس کو جہنم سے بچالیا‘‘۔ بخاری ہی کی دوسری روایت ہے کہ جب رسولؐ اللہ کی رحلت ہوئی تو اُس وقت آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ آپؐ نے اس سے اپنے اہلِ خانہ کے خرچ کے لیے قرض لے رکھا تھا‘‘۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ رسولؐ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل نہ تھا کہآپؐ اپنے رفقا سے قرض لے لیتے اور وہ قطعاً کوئی چیز آپؐ سے نہ روکتے۔ مگر آپؐ نے اپنے اس عمل سے اپنی اُمت کو تعلیم دینا تھی اس لیے آپؐ نے ایسا نہ کیا۔ رسولؐ اللہ نے غیرمسلموں سے تحائف بھی قبول فرمائے۔ حالت ِ امن و جنگ میں غیرمسلموں سے تعاون بھی لیا جب انھوں نے آپؐ کا ساتھ دینے کی ضمانت دی۔ پھر آپؐ نے اُن کے کسی شر اور سازش کا خوف محسوس نہ کیا۔
غیرمسلموں کے ساتھ رواداری کا یہ اظہار اصحابِ رسولؐ اور تابعین کرامؒ کے معاملات میں بھی اسی طرح نمایاں نظر آتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک یہودی گھرانے کے لیے مسلمانوں کے بیت المال سے دائمی وظیفے کے اجرا کا حکم دیا۔ پھر کہا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ (التوبۃ ۹:۶۰)، ’’صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں‘‘۔ اور یہ اہلِ کتاب کے مسکینوں میں سے ایک مسکین گھرانہ ہے۔
سفرشام کے دوران میں حضرت عمرؓ کا گزر ایک مجذوم مسیحی قوم کے پاس سے ہو ا تو آپؓ نے مسلم بیت المال میں سے اُن کی اجتماعی امداد کاحکم دیا۔ حضرت عمرؓ کی شہادت جس حملے کے نتیجے میں ہوئی وہ حملہ اہلِ ذمہ کے ساتھ انھیں حُسنِ سلوک کی تلقین کرنے سے نہ روک سکا اور آپؓ نے بسترمرگ پر بھی فرمایا: میں اس کے معاملے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذمہ (ضمانت) کی تلقین کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کی خاطر دشمن سے جنگ کی جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔
عبداللہ بن عمرو اپنے غلام کو وصیت کرتے ہیں۔ میرے یہودی ہمسائے کو قربانی کا گوشت دیا جائے۔ آپ نے یہ وصیت اتنی بار دہرائی کہ غلام خوف زدہ ہوگیا اور یہودی ہمسایے پر اِس عنایت کا راز پوچھا۔ ابن عمرو نے کہا: رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ جبرئیل ؑ مجھے اس تسلسل سے ہمسایے کے بارے میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے یقین ہو رہا تھا کہ اس ہمسایے کو وراثت میں حق دار بنا دیا جائے گا۔ حارث بن ابوربیعہ کی والدہ نصرانی تھی، فوت ہوئی تو رسولؐ اللہ کے اصحاب اُس کے جنازے کے ساتھ گئے۔
بعض اجلّ تابعین اپنے صدقۂ فطر کا کچھ حصہ نصرانی راہبوں کو دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ عکرمہ، ابن سیرین اور زہری تو زکوٰۃ میں سے بھی انھیں کچھ دینے کو جائز سمجھتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ نے جابر بن زید سے روایت کیا ہے کہ اُن سے پوچھا گیا کہ صدقہ کن لوگوں کو دیا جائے؟ تو انھوں نے کہا: اپنی مسلمان ملت اور اہلِ ذمہ کے حق داروں کو!
قاضی عیاض نے ترتیب المدارک میں ذکر کیا ہے کہ دارقطنی نے بیان کیا کہ قاضی اسماعیل بن اسحاق کے پاس عباسی خلیفہ معتضدباللہ کا نصرانی وزیر عبدون بن صاعد آیا تو قاضی اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے اور اسے خوش آمدید کہا۔ قاضی نے اپنے اس عمل پر حاضرین کی ناگواری دیکھی۔ جب وزیروہاں سے چلا گیاتو قاضی اسماعیل نے کہا:مجھے تمھاری ناگواری معلوم ہوگئی ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے فرما رکھا ہے: لاَیَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِِلَیْھِمْ اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o (الممتحنہ ۶۰:۸)، ’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
اور یہ آدمی یعنی وزیر مسلمانوں کی ضروریات پوری کرتا ہے اور خلیفہ معتضد اور ہمارے درمیان سفیر ہے، لہٰذا میں نے جو کچھ کیا ہے ، یہ بِّر (نیکی) کا حصہ ہے۔ (ماخذ: www.qaradawi.net)