سوال: یہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت سرے سے اسلام میں تھی ہی نہیں؟
جواب: یہ بات غلط ہے کہ جمہوریت اسلام میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ سورئہ شوریٰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ(ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں)۔ ظاہر ہے کہ خلافت و امارت، جو مسلمانوں کا اہم ترین معاملہ ہے، اُس پر بھی یہی اُصول لاگو ہوگا کہ خلیفہ مسلمانوں کی راے عام کے مطابق منتخب ہو اور مشورے سے حکومت کرے، لیکن عام رائج الوقت جمہوریت اور اسلام کی جمہوریت میں یہ فرق ہے کہ مغربی جمہوریت میں تو باشندوں کی مجرد اکثریت ہرشے کو جائزوناجائز اور واجب و ممنوع قرار دے سکتی ہے، مگر اسلام میں مسلمانوں کی اکثریت خدا اور رسولؐ کے حرام کردہ اُمور کو حلال اور حلال کردہ اُمور کو حرام نہیں کرسکتی۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کی اکثریت اگر چاہے بھی تو وہ کسی قادیانی، کسی عیسائی بلکہ کسی فاسق و فاجر کو بھی اپنا امیر نہیں بناسکتی۔ اگر بنا لے تو اسلام کی نظر میں یہ امارت جائز نہ ہوگی۔ (ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ہفتم بحوالہ ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۷۷ء، ص ۱۱۸-۱۲۰)
س: خود کو ’روشن خیال‘ تصور کرنے والے بعض مسلم مفکرین نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے جسے وہ ’سیاسی اسلام‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاسی اسلام سے مراد ان لوگوں کا اسلام ہے، جو دین میں سیاست کو شامل قرار دیتے ہیں اور دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی شامل رہتے ہیں۔ دراصل ان لوگوں نے یہ نئی اصطلاح ان لوگوں پر تنقید کرنے کے لیے ایجاد کی ہے، جو اسلام کو مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔ کیا واقعی اسلام کا سیاست سے کوئی رشتہ نہیں ہے؟
ج: بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلم دانش وروں میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اسلام کے دشمنوں کے خطوط پر سوچتے ہیں اور انھی کی پالیسیوں کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کو عملی زندگی سے بے دخل کرنے کے لیے انھوں نے کبھی اسے نجی زندگی تک محدود کردیا، تو کبھی اس کی صورت مسخ کرنے کے لیے اس کے مختلف ماڈل بناڈالے اور اسے مختلف نام عطا کردیے، مثلاً سیاسی اسلام، اقتصادی اسلام، روشن خیال اسلام، رجعت پسند اسلام، ہندستانی طرز کا اسلام، عربی طرز کا اسلام، ترکی طرز کا اسلام اور نہ جانے اسلام کے کون کون سے ماڈل انھوں نے وضع کر رکھے ہیں۔ حالانکہ اسلام ایک ہی ہے اور یہ وہ اسلام ہے جو قرآن و سنت میں پایا جاتا ہے، اور جسے حضوؐر، آپؐ کے صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین نے اپنے عملی نمونوں سے پیش کیا ہے۔
قرآن و حدیث کی تعلیمات اور آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کے عملی نمونوں پر غور کرنے کے بعد پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلام سے سیاست کو بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ سیاست سے بے دخل ہونے کے بعد اسلام اسلام نہیں رہ سکتا۔ کوئی دوسرا ہی دین بن جائے گا، کیوں کہ:
۱- اسلامی شریعت کے بہت سارے واضح احکام عین سیاست سے متعلق ہیں۔ اسلام محض روحانی عقیدہ یا چند دینی رسم و رواج کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی اور تمام دنیوی معاملات کو بہ حُسن و خوبی برتنے کا ایک بہترین نظام بھی۔ یہ دنیوی مسائل خواہ سیاسی ہوں یا معاشرتی اور اقتصادی یا ان کا تعلق معاملات سے ہو۔ یہ مسائل چاہے حالت امن سے تعلق رکھتے ہوں یا حالت ِ جنگ سے، ان تمام اُمور میں دین اسلام کے واضح قواعد و اصول ہیں۔ ان اُصول و قواعد سے رُوگردانی اور غیروں کے نظامِ حیات کی پیروی دراصل اس خالق کائنات سے بغاوت ہے، جس نے انسانوں کی بھلائی کے لیے یہ اصول و قواعد وضع کیے ہوں اور جن کی حقانیت کا زبانی دعویٰ کیا جاتا ہے۔
غور کیا جائے تو عقیدۂ توحید محض ایک روحانی عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک انقلابی سیاسی نعرہ بھی ہے، جو انسان کو مساوات، آزادی اور اخوت و محبت کی دعوت دیتا ہے۔ انسان کو انسان کی بندگی سے نکال کر خالق کائنات کی بندگی میں لے جانا چاہتا ہے تاکہ کوئی بندہ مطلق العنان حاکم بن کر دوسرے بندوں کے سیاسی اور سماجی حقوق نہ چھین لے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر جب بادشاہوں کے نام خطوط ارسال کرتے اور انھیں اسلام کی دعوت دیتے تو آخر میں یہ آیت کریمہ ضرور نقل کرتے تھے:
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo(اٰل عمرٰن ۳:۶۴)، اے اہلِ کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔
۲- خود کو سیاسی مسائل سے الگ تھلگ کرکے کوئی مسلمان مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر ہرمسلمان پر اس بات کی ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے اس حکم کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہرمسلم شخص معاشرے کی جملہ برائیوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرے اور بھلی باتوں کو عام کرنے کے لیے سرگرم رہے۔ حضوؐر نے سب سے افضل جہاد اس عمل کو قرار دیا ہے کہ ظالم و جابر حکمران کے رُوبرو حق بات کہی جائے۔ اَفْضَلُ الْجِھَادِ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ (ترمذی) ’’سب سے افضل جہاد ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘۔
اسلام اس بات کا حکم دیتا ہے کہ معاشرے میں کمزور اور مظلوم انسانوں کی مدد کی جائے، اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَ مَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاج (النساء ۴:۷۵)، آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں۔
اللہ ان لوگوں کے لیے سخت نفرت کا اظہار کرتا ہے جو ظلم سہتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں اور کم از کم اتنا بھی نہیں کرتے کہ ظلم کی بستی سے ہجرت کرجائیں:
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ ط قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِط قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا ط فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo(النساء ۴:۹۷)، جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔
اللہ لعنت بھیجتا ہے ایسے لوگوں پر جو معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں اور انھیں دُور کرنے کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے۔ اللہ فرماتا ہے:
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَo کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنo(المائدہ ۵:۷۸-۷۹)، بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائود ؑ اور عیسٰی ؑ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیوں کہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، بُرا طرزِعمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ بُرائیاں صرف چوری، شراب اور زنا وغیرہ کا نام ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ معصوم اور بے گناہ افراد کو جیلوں میں ڈال دیا جائے اور ان پر سختی کی جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ الیکشن کے موقع پر ووٹوں کی دھاندلی کی جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیا جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ عوام کے پیسوں پر ناجائز قبضہ کرلیا جائے، جیساکہ آج کل کے سیاسی لیڈران کرتے ہیں، اور بُرائی یہ بھی ہے کہ اس مالی غبن پر خاموش رہا جائے اور اس کے خلاف آواز نہ اُٹھائی جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ سیاسی معاملات میں دل چسپی نہ لے کر سیاست اور حکومت کی مکمل باگ ڈور ظالموں اور کافروں کے ہاتھوں میں دے دی جائے۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار بُرائیاں ہیں جن کا تعلق سیاسی اُمور سے ہے اور ناممکن ہے کہ کوئی غیرت مند دین دار اور مسلمان ان بُرائیوں پر خاموش رہے اور کچھ نہ کرے۔ حضوؐر کا فرمان ہے:
اِذَا رَأیْتَ اُمَّتِی تَھْابُ اَنْ تَقُوْلَ لِلظَّالِمِ یَاظَالِمُ فَقَدْ تُوُدِّعَ مِنْھُمْ (مسنداحمد) جب تم میری اُمت کو دیکھو کہ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہو تو پھر اسے الوداع کہہ دو (یعنی ایسی اُمت کا خاتمہ قریب ہے)۔
بلاشبہہ یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ مومن شخص معاشرے اور ملک میں پھیلی ہوئی بُرائیوں کو دُور کرنے کے لیے جدوجہد کرے، خواہ یہ بُرائیاں سماجی ہوں یا ثقافتی یا سیاسی۔ ناممکن ہے کہ کوئی شخص مومن ہونے کا دعویٰ کرے اور ان بُرائیوں کو پھلتا پھولتادیکھے اور مطمئن رہے۔ حضوؐر کا فرمان ہے:
مَنْ رَأی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ [مسلم] تم میں سے جو شخص بُرائی دیکھے تو چاہیے کہ اپنی قوت و طاقت سے اُسے دُور کرے۔ ایسا نہیں کرسکتا تو اپنی زبان سے دُور کرے۔ ایسا بھی نہیں کرسکتا تو اپنے دل سے دُور کرے (یعنی دل میں اُسے بُرا سمجھے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
عین ممکن ہے کہ اکیلا شخص بُرائیوں کے اس طوفان کا مقابلہ نہ کرسکے خاص کر، جب کہ ملک کے سیاست دان اور ارباب حل و عقد ہی ان بُرائیوں میں ملوث ہوں۔ اس صورت حال میں صحیح طریقۂ کار یہ ہوگا کہ بہت سارے افراد مل کر اجتماعی طور پر ان بُرائیوںکا مقابلہ کریں۔ یہ اجتماعی کوشش کسی آزاد تنظیم یا کسی سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈال کر بھی کی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ یہ سارے کام سیاسی کام ہیں اور مذکورہ حدیث کے مطابق ایمان کا عین تقاضا ہیں۔
آج کے جمہوری دور میں معاشرے میں پھیلتی ہوئی بُرائیوں کے خلاف مزاحمت کرنا یا حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنا اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا کسی بھی شخص کا جمہوری حق تصور کیا جاتا ہے، جب کہ دین اسلام اس حق کو صرف حق ہی نہیں بلکہ واجب قرار دیتا ہے۔ اس فریضے کی ادایگی کے لیے ضروری ہے کہ مومن اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات سے مکمل اور مستقل باخبر رہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے مسائل میں دل چسپی لے اور ان مسائل کے حل کے لیے ہمہ تن کوشاں رہے۔ ذرا حضوؐر کے اس فرمان پر غور کریں: مَنْ لَّمْ یَھْتَمَّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَلَیْسَ مِنْھُمْ،’’جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں دل چسپی نہیں لیتا اور ان کی فکر نہیں کرتا وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے‘‘۔
حضوؐر نے اس شخص کی موت کو جہالت کی موت قرار دیا ہے، جو سیاست سے کنارہ کش ہوجائے اور کسی قائد یا حکمران کی تائید و حمایت کے لیے کمربستہ نہ رہے۔ حضوؐر کا فرمان ہے: مَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِی عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ لِاِمَامٍ مَاتَ مَیْتَۃَ جَاھِلِیَّۃٍ (مسلم)، ’’جوشخص اس حالت میں وفات پائے کہ اس کی گردن میں کسی قائد کی بیعت نہ ہو (یعنی وہ کسی قائد کا حامی نہ ہو) تو وہ جہالت کی موت مرتا ہے‘‘۔
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ سیاسی معاملات میں کسی ایسے حکمران، قائد یا لیڈر کی حمایت و نصرت ضروری ہے، جو مسلمانوں کے معاملات میں دل چسپی لیتا ہو، انھیں حل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہو، اور دین اسلام کے غلبے کے لیے فکرمند رہتا ہو۔ یہ نری جہالت و گم راہی ہے کہ انسان اپنے اِردگرد رُونما ہونے والے سیاسی اور سماجی معاملات سے بے خبر ہوکر زندگی گزارے اور اسی حالت میں مرجائے۔
جو لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ دین کو سیاست سے الگ کر کے رکھنا چاہیے، وہ دراصل قرآن و حدیث کی صریح اور واضح تعلیمات سے بے خبر ہیں۔ اگر وہ مذکورہ قرانی آیات و احادیث پر غور کریں گے تو انھیں معلوم ہوگا کہ دین سے سیاست کو الگ کرنا جہالت و گم راہی ہے، بلکہ سیاسی مسائل سے بے خبر رہنا اور سیاسی بُرائیوں کو دُور کرنے کے لیے کوئی کوشش نہ کرنا اُمت مسلمہ کے حق میں گناہ ہے۔
دین کا سیاست سے اس قدر گہرا تعلق ہے کہ عین نماز کی حالت میں قرآن کی ان آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے، جن میں سیاسی مسائل سے بحث کی گئی ہے، مثلاً وہ آیتیں جن میں مسلم دشمن حکمرانوں کی تائید و نصرت کی ممانعت ہے یا جن میں دنیوی معاملات کو اللہ کے قوانین کے مطابق حل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے یا جن میں جنگوں کا تذکرہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح عین نماز کی حالت میں دعاے قنوت پڑھی جاتی ہے۔ یہ دعاے قنوت اس وقت پڑھی جاتی ہے، جب مسلمانوں پر کسی قسم کی دنیوی یا آسمانی مصیبت نازل ہوتی ہے، مثلاً جنگ کی حالت ہو یا مسلمانوں پر کسی قسم کا سیاسی عذاب مسلط ہوجائے یا قحط اور زلزلہ جیسی ناگہانی آفتیں ہوں۔ اس دعا میں ان مسائل کا تذکرہ کرکے ان سے عافیت کی دعا کی جاتی ہے۔
اس پوری تفصیل اور وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تو یہ سراسر، ہٹ دھرمی ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ وقت پڑنے پر یہی لوگ دین کا سہارا لے کر دین دار اور اسلام پسند لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے ہیں، مثلاً مصر کے حکمرانوں نے جب الاخوان المسلمون کے خلاف انتقامی کارروائی کرنی چاہی اور یہ وہ لوگ تھے جو دین اور سیاست کو الگ الگ شے تصور کرتے تھے، ان لوگوں نے بعض گمراہ قسم کے علما کا سہارا لیا اور ان سے اخوانیوں کے خلاف کارروائی کے لیے فتوے حاصل کیے۔ انھی علما سے اس بات کے فتوے حاصل کیے گئے کہ اسرائیل سے مصالحت جائز ہے۔
علمی اعتبار سے سیاست ایک ایسا موضوع ہے جس کی خاص اہمیت ہے، کیوں کہ یہ موضوع ملک و ملّت کی ذمہ داریوں کو بہ حُسن و خوبی نبھانے سے تعلق رکھتا ہے۔ علما نے سیاست کی یوں تعریف کی ہے کہ سیاست ان تدابیر کا نام ہے، جو معاشرے میں فلاح و بہبود لاتی ہے اور ظلم و فساد کو دُور کرتی ہیں۔
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ عدل و انصاف پر مبنی سیاست اسلامی شریعت کے خلاف نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ عین اسلامی شریعت کا جز ہے۔ اسے ہم سیاست کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ لوگوں میں یہی نام رائج ہے، ورنہ اس کے لیے عدلِ الٰہی کا نام زیادہ موزوں ہے۔ امام غزالیؒ کہتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دنیا کے بغیر دین مکمل نہیں ہوسکتا۔ دین ایک بنیاد ہے اور حکمران اس بنیاد کا محافظ ہوتا ہے۔ اسی لیے عادل حکمرانوں کو رسولؐ کا نائب کہا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضوؐر مبلغ اور داعی ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست سیاسی انسان بھی تھے اور یہی حال خلفاے راشدین کا تھا۔ ان سب کی سیاست عدل و انصاف پر مبنی اور فلاح و بہبود کی خاطر تھی۔ بُرا ہو ان سیاست دانوں کا جو جھوٹ، دھوکا، خیانت اور مکروفریب کے ذریعے سے اپنی سیاست کو چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لفظ سیاست انھی کے گندے اعمال کا شکار ہوکر عوام الناس میں بدنام ہوکر رہ گیا ہے، اور سیاست ایک گندی شے تصورکی جانے لگی ہے۔
سیاست سے عوام الناس کی اس نفرت کو دیکھتے ہوئے مسلم دشمن عناصر کو بڑا اچھا موقع ہاتھ آگیا کہ انھوں نے ان مسلم تنظیموں کو جو مکمل دین کی طرف دعوت دیتی ہیں، انھیں سیاسی قرار دے دیا تاکہ عوام الناس ان سے بدک جائیں۔ اب تو یہ عام سی بات ہوگئی ہے کہ کسی دین دار شخص کو بدنام کرنے اور اس کی اہمیت و منزلت ختم کرنے کے لیے یہ کہنا کافی ہوتا ہے کہ یہ شخص سیاست کے چکر میں پڑ گیا ہے۔
اگر اسلام دشمنی کی یہی رفتار رہی تو وہ دن دُور نہیں جب ہمارا قرآن پڑھنا، مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنا بلکہ اسلام پر چلنا سب کچھ سیاست سے تعبیر کیا جانے لگے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہم ہوش کے ناخن لیں۔ (ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فتاویٰ، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، ناشر: دارالنوادر، اُردو بازار، لاہور، ص ۲۳۷-۲۴۴)