حافظ محمد ادریس


پاکستان کے عام انتخابات ۲۰۱۸ء کے بعد نئی حکومت برسرِاقتدار آئی تو وزیراعظم نے ایک ماہر معاشیات عاطف میاں کو اپنی ٹیم میں شامل کرلیا۔ فردِ مذکورہ کے بارے میں پہلے یہ کہا گیا کہ وہ پیدایشی قادیانی نہیں مگر اصل حقیقت یہ سامنے آئی کہ اس فرد نے اسلام ترک کرکے قادیانیت قبول کی ہے۔ بالفاظِ دیگر ارتداد کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس تقرر پر شدید احتجاج ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے مثبت قدم اُٹھایا اور مذکورہ شخص کو ذمہ داری سے فارغ کردیا۔ اس فیصلے کے بعد وزیراعظم کی معاشی ٹیم کے دو مزید نام نہاد لبرل احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔

یہ فیصلہ سامنے آتے ہی سیکولر اور لبرل طبقات نے ایک طوفان برپا کردیا۔ انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ’’کیا پاکستان میں اقلیتوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں؟ کیا ان کو بحیرۂ عرب میں غرق کردیا جائے گا؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس مسئلے میں خلط مبحث یہ ہے کہ اقلیت کن لوگوں کو شمار کیا جائے گا؟ سکھ، عیسائی، ہندو، پارسی سب اقلیتیں ہیں، کیوںکہ وہ اپنے آپ کو غیرمسلم اور ہم لوگوں کو اپنے سے الگ مذہب کے پیروکار اور مسلمان سمجھتے ہیں، جو مبنی برحق ہے۔ اس کے برعکس قادیانی خود کو   ’مسلم‘ اور ہم سب اہلِ ایمان کو ’غیرمسلم‘ سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انھیں کس پیمانے سے اقلیتوں کے وہ حقوق دیے جائیں،جو حقیقی اقلیتوں کو حاصل ہیں اور جن کی اسلام اور ہمارا دستور پوری طرح ضمانت دیتا ہے؟

قادیانی نہ صرف ختم نبوت کے منکر ہیں، بلکہ وہ قرآن وحدیث اور دستور پاکستان کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ کسی ملک میں رہنے والا کوئی شخص اس ملک کے دستور کو تسلیم نہ کرے تو ساری دنیا کے ہر ضابطے کے مطابق وہ اس ملک کا غدار قرار پاتا ہے۔ ایسے شخص کو اس ملک کے مناصب پر فائز کرنے کا پوری دنیا میں کیا کہیں کوئی تصور موجود ہے؟ قادیانی آج اعلان کردیں کہ وہ غیرمسلم ہیں، دستور پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں، مسلمانوں کی اکثریت کے معترف ہیں تو انھیں بالکل اسی طرح سب حقوق مل جائیں گے جو دیگر اقلیتوں کو حاصل ہیں۔ اگر اس کے باوجود ان کے حقوق ادا نہ کیے گئے تو یہ دینِ اسلام اور دستورپاکستان کی خلاف ورزی ہوگی۔

اس دوران ۶ستمبر یوم دفاع کے حوالے سے قادیانیوں نے تاریخ میں پہلی بار ملک کے معروف قومی اخبار نوائے وقت  میں ایک اشتہار شائع کرایا اور کمال عیاری کے ساتھ اوپر نشانِ حیدر پانے والے شہدا کی تصاویر دی گئیں اور نیچے ان قادیانیوں کو بھی شہید کہا گیا جو مختلف جنگوں میں فوجی خدمات سرانجام دیتے ہوئے کام آئے۔ اس پر بھی زبردست احتجاج ہوا تو اگلے دن مذکورہ اخبار نے ایک معذرت شائع کی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ دھوکے سے یہ اشتہار دے دیا گیا ہے۔ اس حیلہ سازی پر حیرت کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ آںحضورؐ کے دور میں بھی بعض جنگوں میں غیرمسلم افراد، صحابہؓ کے ساتھ مل کر کفار سے لڑے تھے اور مارے گئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ: وہ شہید نہیں ہیں کیونکہ وہ محض عصبیت یا اپنے مادی مفادات کے لیے جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ قادیانیوں نے بھی ایمان کے بغیر جنگوں میں حصہ لیا اور مارے گئے۔ ان کو مراعات اور تمغے تو دیے جاسکتے ہیں، آںحضوؐر کی واضح تعلیمات کی روشنی میں انھیں شہید نہیں کہا جاسکتا۔

ان حالات میں قادیانیت کی حقیقت کو جاننا بہت ضروری ہے۔

عقیدۂ ختم نبوت ایمان کا بنیادی جز ہے۔ جو ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا وہ قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام سے خارج ہے۔ اس پر ساڑھے چودہ سو سال سے پوری امت کا متفقہ ایمان ہے، جس میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا اور نہ ان شاء اللہ قیامت تک پیدا ہوگا۔ قرآن پاک میں واضح الفاظ میں ارشاد فرمایاگیا ہے: مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا (احزاب۳۳:۴۰) ’’(لوگو) محمدؐ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیینؐ ہیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

حدیث پاک میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک انداز میں بیان فرمادیا کہ آپؐ آخری نبی اور رسول ہیں، آپؐ کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول: قَالَ النَّبِیُّ  کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ۔ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ، وَاِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَائُ (بخاری،کتاب المناقب باب ماذکرہ عن بنی اسرائیل) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت انبیا کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاجاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفا ہوں گے‘‘۔

امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ-۱۵۰ھ) کے زمانے میں ایک آدمی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا: ’’مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں‘‘۔ اس پر امام اعظمؒ نے فرمایا کہ ’’جوشخص اس سے نبوت کی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ ‘‘۔ (مناقب الامام الاعظم، ابی حنیفہ لابن حنبل المکی، ج۱،ص۱۶۱)

مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے اس کے لیے جانوں کے نذرانے بے دریغ پیش کیے، مگر کوئی مداہنت نہیں برتی۔ جھوٹے مدعیان نبوت میں سے طلیحہ بن خویلد اور سجاح بنت حارث نے اسلام قبول کیا ،جب کہ باقی تمام دشمنانِ اسلام بشمول الاسود العنسی، لقیط بن مالک (ذوالتاج)، سبھی کو ٹھکانے لگا دیا گیا اور پوری دنیا سے اس فتنے کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ البتہ تاریخ کے مختلف اَدوار میں یہ شیطانی فتنہ سراٹھاتا رہا۔ سب سے خطرناک فتنہ انگریز کا خودکاشتہ  جھوٹا مدعی نبوت ملعون مرزا غلام احمد قادیانی ثابت ہوا۔ اس میں کوئی راز نہیں کہ وہ انگریزوں کا ایجنٹ تھا اور اپنی تحریروں میں انگریز سرکار کی تعریف میں اس نے بہت کچھ لکھا۔ اس کا پس منظر یوں بیان کیا  گیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے ’جذبہ جہاد‘ کے تجزیے کے لیے برطانوی تھنک ٹینکس بیٹھے اور ’ہندستان میں برطانوی سلطنت کا وُرود ‘(The Arrival of British Empire in India) کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی گئی جو انڈیا آفس لائبریری (لندن) میں آج بھی موجود ہے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

ملک (ہندستان) کی آبادی کی اکثریت اپنے پیرووں، یعنی روحانی پیشواؤں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر اس مرحلے پر ہم ایک ایسا آدمی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں جو اس بات کے لیے تیار ہو کہ اپنے لیے ’ظلی نبی‘(Apostolic Prophet) ہونے کا اعلان کر دے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہوجائے گی لیکن اس مقصد کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی اپنی قوم سے   بے وفائی کرکے ہماری حمایت کرنے والوں ہی کی مدد سے ہندستانی حکومتوں کو محکوم بنایا۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہییں جن سے ملک میں داخلی بے چینی اور افتراق پیدا ہوسکے۔

اگرچہ اس موضوع پر بہت سے مستند حوالے موجود ہیں، مگر اختصار کے پیش نظر مندرجہ بالا اقتباس پر اکتفا کیا جارہا ہے، جو کافی وشافی ہے۔

۵۰کے عشرے میں جب ملک میں دستور سازی کے لیے جدوجہد جاری تھی کہ حکومتی اقدامات کی بناپر یکایک تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوگیا۔تحریک ختم نبوت نے جید علما کی سربراہی میں قادیانیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جیلوںمیں بھی رہے۔ سب سے زیادہ فیصلہ کن اور تاریخی کردار سیدمودودیؒ نے ادا کیا، جنھوں نے اپنی معرکہ آرا تحریر: قادیانی مسئلہ میں قادیانیوں کو علمی دلائل سے غیرمسلم ثابت کرکے بے دست وپا کردیا۔

اسی کتابچے پر مولانا مودودیؒ کو ۱۹۵۳ء میں مارشل لا عدالت نے سزاے موت سنائی۔ مولانا نے اس موقعے پر فرمایا تھا کہ ناموس رسالت پر جان قربان کرنا ایک سعادت ہے۔ انھوں نے رحم کی اپیل کی پیش کش نہ صرف خود ٹھکرائی بلکہ جماعت اسلامی کی قیادت اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی تنبیہہ کی کہ وہ ان کی طرف سے کوئی اپیل دائر نہ کریں۔ اس واقعے کے اکیس برس بعد ۱۹۷۴ء میں نشتر میڈیکل کالج ، ملتان کے طلبہ کو چناب نگر (ربوہ) کے ریلوے اسٹیشن پر قادیانی فتنہ پردازوں نے بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ نہتے طلبہ کے ساتھ ہونے والے اس اندوہ ناک واقعے پر پورے ملک میں قادیانیت کے خلاف زبردست تحریک اٹھی۔ جس نے ۵۰کے عشرے اور اس سے پہلے کی تحریک ختم نبوت کی یاد تازہ کردی۔

۷۳ء کا دستور منظور ہوچکا تھا۔ تحریک سے پیدا شدہ صورتِ حال پر غور اور فیصلہ کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی نے بطور عدالت کارروائی شروع کی۔ اس کارروائی کے دوران قادیانی جماعت کے مرکزی لیڈر مرزا ناصر احمد کو سوال وجواب کے لیے پارلیمان میں بلایا گیا۔ کئی دنوں تک سوال وجواب ہوتے رہے۔ ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ کیا تم لوگ ہمیں (تمام ارکان اسمبلی) کو مسلمان سمجھتے ہو یا غیرمسلم؟ مرزا ناصر نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم تم سب لوگوں کو غیرمسلم سمجھتے ہیں۔ یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ تب پاکستان کی پارلیمنٹ نے بالاتفاق ۷ستمبر۱۹۷۴ء کو دوسری دستوری ترمیم منظور کی، جس کے مطابق مرزا غلام احمد کو ماننے والے قادیانی اور لاہوری غیرمسلم اقلیت قرار پائے۔

ترمیمِ دستور منظور ہونے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پارلیمنٹ میں جو انتہائی مدلل خطاب کیا اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’ہم نے اس مسئلے پر ایوان کے تمام ممبروں سے تفصیلی طور پر تبادلۂ خیال کیا ہے، جن میں تمام پارٹیوں کے اور ہر طبقۂ خیال کے نمایندے موجود تھے۔ آج کے روز جو فیصلہ ہوا ہے، یہ ایک قومی فیصلہ ہے، یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے، خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ فقط حکومت ہی اس فیصلے کی تحسین کی مستحق قرار پائے۔ اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی ایک فرد اس فیصلے کی تعریف و تحسین کا حق دار بنے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ مشکل فیصلہ، بلکہ میری ناچیز راے میں کئی پہلوؤں سے بہت ہی مشکل فیصلہ، جمہوری اداروں اور جمہوری حکومت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا....اس مسئلے پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کے نتائج سے بخوبی واقف ہوں۔ مجھے اس فیصلے کے سیاسی اور معاشی رد عمل اور اس کی پیچیدگیوں کا علم ہے۔یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا، پاکستان وہ ملک ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت چاہتے تھے۔ اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ میں اس فیصلے کو جمہوری طریقے سے نافذ کرنے میں اپنے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کر رہا‘‘۔بلاشبہہ بھٹو صاحب کی قیادت میں یہ کارنامہ تاریخی اور یادگار اہمیت کا حامل ہے۔

اس ترمیم کی منظوری کے بعد بھی قادیانی اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہ آئے۔ وہ ہر شعبے میں اہم عہدوں پر فائز تھے۔ بعض معروف ومعلوم انداز میں اور بعض کیموفلاج کرکے۔ ۲۶؍اپریل۱۹۸۴ء کو ، جب کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کی وجہ سے ملک میں اسمبلی موجود نہیں تھی، اس لیے ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے طے کیا گیا کہ مرزائیوں کو مسلمان کہلانے کا کوئی حق نہیں، ان کے عبادت خانوں کو مسجد نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اذان اور دیگر شعائراسلامی کو استعمال کرنے کے مجاز نہیں۔ یہ حقیقت میں دستوری ترمیم ہی کی ایک وضاحت تھی، کوئی نیا قانون نہیں تھا۔ مگر افسوس کہ اس آرڈی ننس کے باوجودقرارِ واقعی قانون سازی اور عملی اقدامات نہ کیے گئے۔

  • ضرورت اس امر کی ہے کہ قادیانیت کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔ قادیانی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے وقتاً فوقتاً اقدام کرتے رہتے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے  دور میں پاسپورٹ سے قادیانی ہونے کا ثبوت کا ختم کیا جانا، میاں نواز شریف کا اپنے تیسرے دورِ حکومت (۱۸-۲۰۱۳ء)میں قادیانیت کے حق میں مختلف اقدامات اُٹھانا، بالخصوص ممبرانِ قومی اسمبلی کے حلف میں تبدیلی کرنا جس پر انھیں شدید قومی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، اور موجودہ حکومت کا اپنی کابینہ میں ایک قادیانی کو بطورِ وزیر شریک کرنا ایسے اقدامات ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ قادیانی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہیں اور ہمارے ملک میں موجود لبرل و سیکولر حلقہ ان کی تائید اور حمایت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ لہٰذا، حکومت کی ذمہ داری ہے اور تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو بھرپور عوامی دبائو کے ساتھ یہ اقدامات اُٹھانے چاہییں: lقادیانیوں کی حیثیت کے تعین کے لیے اسمبلی میں باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ اب تک جو قانونی سقم رہ گئے ہیں انھیں دُور کیا جائے۔lملک کے حساس مناصب سے قادیانیوں کو ہٹایا جائے۔ lان کی باقاعدہ مردم شماری کی جائے۔

ہم نبی رحمتؐ کی امت ہیں۔ وہ رحمت ہی نہیں رحمۃ للعالمین ہیں۔ آپؐ کی حیات طیبہ زندگی کے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی معمولی باتوں پر اچھے بھلے لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں بلکہ گھروں اور خاندانوں میں معمولی تکرار کے نتیجے میں لوگوں کے انتقامی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کتنی مار پٹائی اور خون ریزی ہوتی ہے، ہر آدمی جانتا ہے۔ دراصل یہ سب کچھ ذہنی وفکری تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے اکساہٹ کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ ایک صحابی آںحضورؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسولؐ اللہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: لَا تَغْضَبْ، یعنی غصہ نہ کیا کر۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ کچھ مزید فرمایئے۔ آپؐ نے پھر فرمایا: غصہ نہ کیا کر۔ جب انھوں نے تیسری مرتبہ درخواست کی تو بھی آپؐ نے وہی نصیحت فرمائی۔ ( بخاری، عن ابی ہریرہؓ)

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےخادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے ۱۰سال آپؐ کی خدمت کی۔ اس عرصے میں کم سنی کی وجہ سے مجھ سے کبھی کوئی کوتاہی اور غلطی بھی ہوجاتی تھی مگر آپؐ نے کبھی ایک دن بھی نہ مجھے ڈانٹا نہ سخت سُست کہا بلکہ ہرمرتبہ مجھے یَابُنَیَّ (اے میرے پیارے بیٹے) کہہ کر خطاب فرمایا۔حضرت انسؓ ہی کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: اے بیٹے! کبھی کسی کے بارے میں دل میں میل نہ رکھنا، یہ میری سنت ہے اور جو میری سنت سے محبت کرے گا وہ جنّت میں میرے ساتھ ہوگا۔

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ہمیشہ اپنے غصے کو پی جاتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کی آپؐ نے جو تربیت فرمائی اس کے مطابق صحابہ میں بھی یہ صفت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ انسان کی طبیعت میں اللہ نے نرمی وگرمی، غصہ ومحبت، شیرینی وتلخی اور عفو وانتقام کا عجیب امتزاج پیدا کیا ہے۔ یہ سارے جذبات ہر ابن آدم کے اندر پائے جاتے ہیں۔ ان کے اندر توازن، انسانی شخصیت کا حُسن کہلاتا ہے اور ان میں سے منفی جذبات کو کنٹرول کرکے مثبت جذبات کو پروان چڑھانا، حُسن وجمال اور کمال انسانیت ہے۔ یہ صفات بہت عظیم اور یہ کام بہت اچھا ہے مگر اس میں بڑی محنت لگتی ہے اور یہ رُتبۂ بلند اسی کو ملتا ہے، جسے خدا بخشے۔ خدا کی توفیق انھی کو ملتی ہے جو اس کے طلب گار ہوں۔ غصے کو پی جانا، عفوودرگزر اور مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک کرنا متقین کی علامت اور اہلِ جنت کی صفت ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور  اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جوغصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن ۳: ۱۳۳-۱۳۴)

ہمارے آقا ومولاؐ غصے کو پی جانے والے، عفوودرگزر کا مجسمہ تھے۔ آپؐ احسان وانعام سے دشمنوں کو بھی نوازدینے والے عظیم انسان تھے۔ آپؐ کی زندگی میں جو مشکل ترین لمحات آئے، ان میں سفر طائف خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ قبیلہ بنوثقیف کے تینوں سرداروں نے آپؐ کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔ یہ بدبخت آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس طرح پیش آئے وہ کمینگی کی بدترین مثال ہے۔ جوں ہی آپؐ ان کی مجلس سے نکلے، یہ بھی آپؐ کے پیچھے پیچھے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے بدقماشوں اور لونڈوں کو اشارہ کیا۔ وہ آںحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے جاتے اور آپ کا مذاق اڑاتے، تالیاں بھی پیٹتے۔ یہی نہیں آںحضورصلی اللہ علیہ وسلم پر ہرجانب سے پتھروں کی بارش بھی شروع ہوگئی۔ آپؐ پر اتنے پتھر برسائے گئے کہ آپؐ لہولہان ہوگئے، جوتے خون سے بھر گئے۔ جب آپؐ تھک ہار کر کہیں بیٹھ جاتے تو وہ آپؐ کو بازؤں سے پکڑ کر کھڑا کردیتے، جب چلنے لگتے توپھر اپنی اسی خباثت کا اعادہ کرتے۔ یہاں تک کہ آںحضورصلی اللہ علیہ وسلم شہر سے باہر نکل آئے۔

مؤرخ ابن سعد کے مطابق آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے علاقے میں دس دن گزارے اور جب آپؐ پر ظلم وستم شروع ہوا تو زید بن حارثہؓ آپ کی ڈھال بن گئے اور وہ بھی زخمی ہوئے۔ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر پتھر مارے گئے، جب کہ زید بن حارثہؓ کے سر کو نشانہ بنایا گیا۔ لیکن انھیں اپنی جان کی فکر نہیں تھی، وہ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے غم میں ہلکان ہوئے جارہے تھے۔ وادیِ نخلہ میں بھی آپ کئی دن ٹھیرے رہے۔ زید بن حارثہؓ آپؐ کے زخموں کو چشمے کے پانی سے صاف کرتے اور ان پر پٹی باندھتے۔ ایک دن زید بن حارثہؓ نے روتے ہوئے کہا: ’’یارسولؐ اللہ ! اب آپؐ قریش کے پاس کیسے جائیں گے،جب کہ انھوں نے اپنے طرزِ عمل سے آپؐ کو مکہ سے نکال دیا ہے۔‘‘ ایسی نازک گھڑی میں جس پختہ ایمان اور عزمِ صمیم کے ساتھ آپؐ نے اپنی کامیابی کو یقینی قرار دیا، وہ ایک نبی ہی کی شان ہے۔ یارب صلّ وَسَلِّمْ عَلَیْہِ! آپؐ نے فرمایا: یَا زَیْدَ! اِنَّ اللّٰہ جَاعِلٌ لِمَا تَرَی فَرَجًا وَمَخْرَجًا وَاِنَّ اللّٰہَ نَاصِرُ دِیْنِہٖ وَمُظْہِرُ نَبِیِّہٖ، ’’اے زیدؓ! کوئی غم نہ کر، یقینا اللہ تعالیٰ اس تنگی کو جو تو دیکھ رہا ہے فراخی میں بدل دے گا اور ان مشکلات کو ختم کردے گا اور یقینا اللہ اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کی کامیابی کا ضامن ہے‘‘۔ (طبقات ابن سعد، ج۱، ص۲۱۲)

طائف سے واپسی پر آپؐ وادیِ نخلہ میں مقیم تھے۔ رات کا وقت تھا، آپؐ نے اللہ کے سامنے یہ دعا مانگی:

اَللّٰہُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ وَضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَہَوَ انِیَ عَلَی النَّاسِ۔ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن، اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنِ، وَاَنْتَ رَبِّی اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ؟ اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَہَّمَنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّکْتَہٗ اَمْرِیْ؟ اِنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ غَضَبٌ عَلَیَّ فَلَا اُبَالِیْ، وَلٰکِنْ عَافِیَتَکَ ہِیَ اَوْسَعُ لِیْ، اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْہِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ مِنْ اَنْ تُنْزِلَ بِیْ غَضَبُکَ، اَوْ تَحُلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ الْعُتْبٰی حَتّٰی تَرْضٰی، لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ، اے اللہ! میں تیرے حضور اپنی مصیبت اور الم وغم، بے بسی اوربے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری وبے وقعتی کا شکوہ پیش کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! کمزوروں اور ضعیفوں کا تو رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے۔ اے اللہ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟ کسی بیگانے کے حوالے جو میرے ساتھ درشت رویہ اختیار کرے یا کسی دشمن کے سپرد کررہا ہے جو مجھ پر حاوی ہوجائے۔ اے اللہ! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو پھر مجھے کسی کی کوئی پروا ہے نہ کسی مصیبت کا غم۔ اگر تیری جناب سے مجھے عافیت نصیب ہوجائے تو اس میں میرے لیے کشادگی ہی کشادگی ہے۔ اے اللہ! تیری ذاتِ بابرکات کے اس نور کا واسطہ دے کر خود کو تیری پناہ میں دیتا ہوں جو تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیتا ہے اور دنیا وآخرت کے ہر معاملے کو درست فرمادیتا ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ کبھی تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیری ناراضی کی زد میں آجاؤں۔ میں تو تیری رضا پہ راضی ہوں اور آرزو ہے کہ تو بھی مجھ سے راضی ہوجائے۔ مولاے کریم! تیرے بغیر نہ کوئی زور ہے نہ طاقت۔ (تفسیرابن کثیر، جزالسادس، سورئہ احقاف، ص۲۹۲؛ البدایۃ والنہایۃ، جلداول، ص۵۳۷)

ابن ہشام نے اپنی تصنیف السیرۃ النبویہ کے صفحہ ۴۲۰ پر یہی دعا لکھی ہے۔ یہ دعا اتنی عظیم الشان ہے کہ اللہ کے راستے میں کام کرنے والوں کو ہرروز مانگنی چاہیے۔ کچھ بعید نہیں کہ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے نکلنے پر بھی، پھر وادیِ نخلہ میں قیام اور اس کے بعد حرا پہنچنے تک کے دنوں میں مسلسل اس کا ورد کیا ہو۔ اس کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا ہے اور اگر حضوریِ قلب اور مکمل عاجزی کے ساتھ یہ دعا رب ذوالجلال کے حضور پیش کی جائے تو اس کی قبولیت میں کوئی شک نہیں۔ آج اہلِ اسلام پوری دنیا میں ظلم کی جس چکی میں پس رہے ہیں، اسے دیکھ کر دل شق ہوجاتا ہے اور کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔

سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ ،سورۂ احقاف کے دیباچے میں لکھتے ہیں:’’دل شکستہ وغم گین پلٹ کر جب آپ قرن المنازل کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ آسمان پر ایک بادل سا چھایا ہوا ہے۔    نظر اٹھاکر دیکھا تو جبریلؑ سامنے تھے۔ انھوں نے پکار کر کہا: ’’[اے محمدؐ!] آپؐ کی قوم نے جو کچھ آپؐ کو جواب دیا ہے اللہ نے اسے سن لیا۔ اب یہ پہاڑوں کا منتظم فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے، آپؐ   جو حکم دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپؐ کو سلام کرکے عرض کیا: آپؐ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑ ان لوگوں پر الٹ دوں؟‘‘ آپ نے جواب دیا: ’’نہیں، بلکہ میں اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کریں گے۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلدچہارم، ص۵۹۷-۵۹۸ بحوالہ، بخاری و مسلم)

آپؐ کی زندگی کا نازک ترین لمحہ سفر ہجرت کے لیے نکلنا تھا۔ ہجرت کے موقعے پر آپؐ کے گھر کا محاصرہ کرنے والے چودہ افراد تھے جو آپؐ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے گیارہ بدر کے میدان میں قتل ہوگئے۔ باقی جو تین بچے انھیں فتح مکہ کے موقعے پر آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا نوازا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی سفر کے دوران جب آپؐ کو پکڑنے کے لیے لوگ آپؐ کا تعاقب کررہے تھے تو سراقہ بن مالک آپؐ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا، مگر آپؐ اللہ کی حفاظت میں تھے۔ سواونٹوں کے لالچ میں آنے والا یوں بے بس ہوا کہ مجبوراً اسے کہنا پڑا اے عبدالمطلب کے بیٹے! مجھے معاف فرمادیجیے۔ آپؐ نے کہا میں نے تمھیں معاف کردیا۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے لکھ بھی دیجیے تو آں حضوؐرنے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اسے لکھ کر دے دیں۔ یہ ایک معجزہ ہے جس میں آںحضورؐ کی علم دوستی کے ساتھ عفوودرگزر کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اس دور میں قیصر وکسریٰ کے لیے بھی ہنگامی سفر کے دوران کسی کو تحریر لکھ کر دینا ناممکن تھا۔ آںحضورؐ کے صحابہ پہلی وحی آنے کے بعد قلم ودوات اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص۴۸۸-۴۸۹)

آپؐ نے سراقہ کو یہ بھی کہا کہ اس کے ہاتھوں میں ایک دن کسریٰ کے سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ سراقہ کو یقین نہ آیا، مگر تاریخ نے دیکھا کہ یہ قولِ رسولؐ سچ ثابت ہوا اور حضرت عمرؓ کے دور میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے مدائن فتح کیا تو کسریٰ کے سونے کے کنگن بھی مالِ غنیمت میں مدینہ بھیجے۔ حضرت عمرؓ نے یہ کنگن سراقہ کے ہاتھ میں پہنائے اور پھر فرمایا کہ یہ اپنی بیوی، بیٹی یا بہو کو دے دینا۔ کیوںکہ آںحضورؐ نے آخری ایام میں اپنی امت کے مردوں کے لیے سونا اور ریشم پہننا ممنوع قرار دے دیا تھا۔ فتح مکہ کے وقت سراقہ مسلمان ہوگئے اور آنحضورؐ کی خدمت میں مکہ کے باہر وادیِ جعرانہ میں حاضر ہوئے۔ آپؐ کی تحریر کردہ امان جو چمڑے کے ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی آپؐ کو دکھائی تو آپؐ نے فرمایا آج کا دن نیکی اور وفا کا دن ہے۔ پھر صحابہؓ کو حکم دیا کہ سراقہ کو سوبکریاں دے دو۔ یہ ہے اسوۂ رسولؐ۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، ص۵۶۶-۵۶۷)

آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگوں میں پہلا معرکہ غزوۂ بدر تھا۔ اس میں ۳۱۳صحابہؓ کو کفارِ مکہ کے ایک ہزار کے لشکر پر عظیم الشان فتح ملی۔ ۷۰ دشمن تہہ تیغ ہوگئے اور ۷۰ جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ آپؐ نے اپنے شہید ہونے والے چودہ صحابہ کو جب بدر کے میدان میں دفن کیا تو صحابہ کو حکم دیا کہ کفار کی بکھری ہوئی لاشوں کو بھی ایک گڑھا کھود کر اس میں دفن کردیں۔ اسی موقعے پر آپؐ نے ان دشمنوں کے بارے میں کہا کہ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے موت کے بعد دفن کیا جائے تاکہ درندے اس کی لاش کی بے حرمتی نہ کریں۔ جہاں تک جنگی قیدیوں کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان میں سے ہر ایک کو کھانا کھلایا جائے، زخمیوں کی مرہم پٹی کی جائے اور جن کے کپڑے پھٹ گئے ہیں ان کو نئے کپڑے پہنائے جائیں۔ صحابہؓ نے اس پر عمل کیا۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں بہت سارے جنگی قیدی اسلام میں داخل ہوئے۔

ایک جنگی قیدی سہیل بن عمرو قریش کے سرداروں میں سے تھا۔ وہ شعلہ نوا خطیب تھا اور اسلام کے خلاف کفار کو ابھارتا رہتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ اس کے دانت تڑوادیں تاکہ اس کی شعلہ نوائی ختم ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے عمر یہ جنگی قیدی ہے۔ اگر میں اس کے ساتھ یہ سلوک کروں گا تو اللہ میرے دانت تڑوا دے گا، حالانکہ میں اس کا سچا رسولؐ ہوں۔ ساتھ ہی فرمایا تمھیں کیا معلوم کہ ایک دن اس کی خطابت سے تمھارے دل ٹھنڈے ہوجائیں۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص۶۳۸، ۶۴۹)

آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان آپؐ کی رحلت کے بعد مکمل طور پر امت کے سامنے آیا۔ جب ہر جانب اسلام کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی تو مکہ میں سہیل بن عمروؓ تلوار لے کر  خانہ کعبہ میں آئے اور تمام قریش کو پکارا۔ جب سب لوگ آگئے تو فرمایا: خبردار اگر کسی نے اسلام کے خلاف کوئی حرکت کی۔ اگر کوئی بغاوت کرے گا تو اس کی گردن کاٹ دی جائے گی۔ مکہ میں صورت حال ایسی تھی کہ مکہ کے گورنر حضرت عتاب بن اسیدؓ بھی مکہ سے نکل کر پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ اس موقعے پر حضرت سہیل بن عمروؓ نے صورت حال کو جس طرح سے سنبھالا اس کی خبر مدینہ میں پہنچی تو حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور انھوں نے کہا: اللہ کے رسولؐ کا ہرفرمان سچ ثابت ہوا۔ (الاصابہ، ج۲، ص۹۲، سیرۃ ابن ہشام،القسم الثانی، ص۶۶۵)

مکی زندگی میں آپؐ پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ ان کی تفصیل پڑھ کر بندۂ مومن کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ جس شہر کے لوگوں نے آپؐ سے دشمنی میں ہر انسانی اخلاق پامال کیا، اسے اللہ نے آپؐ کے سامنے سرنگوں کردیا۔ مکہ میںآپؐ رمضان ۸ھ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آپؐ کے ایک علَم بردار سعد بن عبادہؓ جوش ایمانی سے پکار اٹھے: اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃِ، اَلْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْحُرْمَۃُ، یعنی آج خون ریزی اور قتل کا دن ہے، آج حرمتیں حلت میں بدل جائیں گی۔ یہ بات، آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار صحابہ عثمان بن عفانؓ اور عبدالرحمان بن عوفؓ نے بھی سنی اور سردار قریش، ابوسفیان، جو حضرت عباسؓ کی پناہ میں تھا اور یہ منظر دیکھ رہا تھا، اس کے کان بھی اس نعرے سے آشنا ہوئے۔ جب آپؐ کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپؐ نے فرمایا: نہیں، آج کا دن خون ریزی کا دن نہیں بلکہ کعبہ کی تعظیم اور اہل مکہ کی عزت کا دن ہے۔ فاتح اعظم ؐ فتح کی گھڑی میں فرمارہے تھے کہ خون کی ندیاں نہیں رحمت کا دریا بہے گا۔ پھر آپؐ نے حضرت سعدؓ سے جھنڈا واپس لے لیا۔ یہ جھنڈا کسی اور صحابی کو بھی دیا جاسکتا تھا مگر دُوررس نگاہ رکھنے والے سالارِ اعظم نے حضرت سعدؓ کے بیٹے حضرت قیسؓ کو جھنڈا مرحمت فرمادیا۔ اب مکہ میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد آپؐ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔ خانہ کعبہ کے اندر  آپؐ کے ساتھ اسامہ بن زیدؓ، علی بن ابی طالبؓ اور سیدنا بلالؓ موجود تھے۔ (البدایۃ والنہایۃ، جلد اول، ص۸۴۸)

خانہ کعبہ میں نفل ادا کرنے کے بعد آپؐ نے خانہ کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر مجمع پر نظرڈالی۔ سرکش قریش آج مغلوب تھے۔ اکڑی ہوئی گردنیں خمیدہ تھیں۔ آپؐ نے ایک مؤثر خطبہ دیا، جس میں اللہ کی توحید وعظمت، اس کی مدد ونصرت، اس کے وعدوں کی صداقت اور اسلام دشمن قوتوں کی شکست کا ذکر تھا۔ پھر آپؐ نے انسانیت کی مساوات کا تذکرہ فرما کر کبرونخوت کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالنے کا اعلان فرمایا۔ اب قریش دم سادھے منتظر تھے کہ ان کے بارے میں کیا حکم صادر ہوتاہے۔ آپؐ مجمع سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: ’’اے اہلِ قریش، تمھارا کیا خیال ہے میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ وہ بہ یک زبان پکار اٹھے، ہمیں آپؐ سے حُسنِ سلوک کی امید ہے۔ آپؐ ، ہمارے مہربان بھائی اور مہربان بھتیجے ہیں۔ یہ بے بسی کا اظہار بھی تھا اور حقیقت کا اعتراف بھی۔ یہ انھی لوگوں کی زبان سے سامنے آرہا تھا، جنھوں نے خود کو ہمیشہ سرکش اور ناقابلِ شکست قرار دیا تھا اوراس مہربان بھائی اور بھتیجے کو ہمیشہ بے وقعت گردانا تھا۔

اب ہمارے آقا ومولا عظمتوں اور رفعتوں کے امین نے فرمایا: ’’میں تم سے وہی بات کہوں گا، جو میرے بھائی یوسفؑ نے مصر کے تخت پر بیٹھے اپنے برادران سے کہی تھی: لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ، اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاء، یعنی آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔ جاؤ  تم سب آزاد ہو۔مکہ میں داخل ہوتے وقت آپؐ نے یہ بھی اعلان فرمایا تھا کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہوجائے، اس سے کوئی مواخذہ نہ کیا جائے، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے یا اس کی دیوار کے سایے میں بیٹھ جائے، اس سے بھی کوئی مواخذہ نہ کیا جائے۔ اللہ کے گھر کی تعظیم کرنے والے نے اپنے دشمن کو بھی تکریم کا مستحق قرار دیا، سبحان اللہ۔ (البدایۃ والنہایۃ، جلد اول، ص۸۴۸، ۸۵۴)

آپؐ نے کچھ دن مکہ میں قیام فرمایا، مختلف مواقع پر خطبات عام سے بھی اہلِ مکہ کو نوازا۔ اسی دوران آپؐ کی خدمت میں ابوجہل کی بہو اور عکرمہ کی بیوی ام حکیم حاضرہوئی، جس کے ساتھ عکرمہ کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ آپؐ نے دشمن کی بیوی اور بہو کو بھی پورا پورا احترام دیا اور اپنے مدمقابل کے بچوں کے سرپہ دستِ شفقت رکھااور صرف یہی نہیں بلکہ کمالِ محبت سے ان کے باپ کا حال پوچھا اور اس کے بارے میں نیک جذبات کا اظہار کیا۔ پھر جب عکرمہ واپس مکہ آیا تو آںحضورؐ نے اسے حرم میں باب بنو شیبہ سے داخل ہوتے دیکھ کر فرمایا: ’’خوش آمدید گھر بار چھوڑ کر جانے والے‘‘ اور کھلے ہوئے بازؤں کے ساتھ اسے سینے سے لگا لیا۔ احد کے میدان میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید بدنی وذہنی زخم لگائے گئے۔ آپؐ کے محبوب چچا، سیّدالشہدا حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی لاش کا مثلہ کیا گیا۔ حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہند بنت عتبہ بھی بیعت کے لیے حاضرہوئی مگر اللہ کے رسولؐ نے نہ صرف یہ کہ اسے معاف فرمادیا بلکہ اس دردناک واقعے کی طرف کوئی اشارہ تک نہ کیا۔ انسان اگر بے بس ہو اور اپنے اعدا سے بدلہ نہ لے سکے تو بھی اس کا صبر، اس کے لیے باعث خیر ہے، تاہم وہ انتقام پر قادر ہو اور خوفِ خدا سے سرشار ہوکر انتقام کے بجاے عفوودرگزر کا مظاہرہ کرے، تو یہ انسانیت کی معراج ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الثانی، ص۴۱۸)

اسوۂ رسولؐ اس امت کی راہ نمائی کے لیے کمال حسن وخوبی کے ساتھ سیرت میں جلوہ افروز ہے۔ انسان کی عظمت یہ نہیں کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے۔ عظمت یہ ہے کہ قوت کے باوجود انسان اپنے آپ پر کنٹرول رکھے اور مدمقابل کو معاف فرمادے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرَّعَۃِ، اِنَّمَا الشَّدِیْدُ مَنْ یَّمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَ الْغَضَبِ (متفق علیہ، عن ابی ہریرہؓ)، قوت اور بہادری کسی کو پچھاڑ دینے کا نام نہیں بلکہ بہادر اور قوی وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو آپے سے باہر نہ ہونے دے۔

ہم پستی سے بلندی کی طرف اٹھنا چاہیں تو یہ ارادہ بڑا مبارک ہے۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسوۂ رسولؐ کی پیروی کامیابی کی یقینی کلید ہے۔ انسان کمزور ہے اور مغلوب الغضب ہوجاتا ہے۔ آتش انتقام بھڑک اٹھے تو اسے ٹھنڈا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان سارے مشکل اور کٹھن مرحلوں کو کامیابی سے سرکرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اتباع رسولؐ ۔ اسی سے بندہ، اللہ کا محبوب اور بخشش خداوندی کا مستحق بنتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر حقیقت میں تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔(اٰلِ عمرٰن۳:۱۳)

قارئین محترم! آئیں سچے دل سے ارادہ باندھ لیں اور اللہ سے عہد کریں کہ اتباع رسولؐ میں ہم بھی غصہ وانتقام کی آگ بھڑکانے کی بجاے عفوودرگزر کا مرہم زخموں پر رکھیں گے۔ غصے پر قابو پانا سنتِ رسولؐ ہے۔ مخالفین کو معاف کردینے والا روزِ محشر اللہ کے ہاں معافی کا مستحق قرار پائے گا اور ہر ایک کا دل اور جسم زخمی کرنے والا، انتقام کی آگ میں جلنے والا رحمت ربّانی سے محروم ہوگا۔اسوۂ رسولؐ کی پیروی کرنے والا تو ایسا عظیم انسان ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا اور مخلوق کی محبت ووفا اس کا مقدر بن جاتی ہے:

کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

 

ترکی مسلم دنیا کا وہ ملک ہے، جس کی حدود بیک وقت یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ترکی کی آبادی تقریباً ساڑھے سات کروڑ ہے۔ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ۲۰۰۲ء سے اب تک برسرِ اقتدار ہے۔ طیب اردوگان پہلے وزیراعظم تھے، اب صدر ہیں۔ اس وقت احمد داؤد اوغلو ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اس پارٹی کو مغربی قوتوں اور ان کے ہم نوا عناصر کی طرف سے ’اسلامسٹ‘ (اسلام پسند) کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ترکی میں ’اسلامسٹ‘ پارٹی کا برسرِ اقتدار آنا خطرناک ہے۔ اسی وجہ سے امریکا اور مغربی و سیکولر قوتیں اس حکومت سے ناخوش ہیں۔ جسٹس پارٹی کا اعلان ہے کہ وہ ترکی کے سیکولر دستور کو جمہوری طریقے سے تبدیل کرے گی۔  اس کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی قیادت پُرامید ہے کہ وہ اس منزل کو سر کر لے گی۔ اس وقت پارلیمان میں ان کے ۳۱۷؍ارکان ہیں، جب کہ دستور میں ترمیم کے لیے ۳۷۶؍ ارکان کی ضرورت ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ترکی میں سیکولر عناصر ہوں یا نام نہاد مذہبی طبقہ، دونوں جسٹس پارٹی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ جب جون۲۰۱۵ء کے انتخابات میں جسٹس پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکی تو انگریزی روزنامہ زمان اور حریت  جو دونوں فتح اللہ گولن کی تنظیم کے تحت نکلتے ہیں، خوب پروپیگنڈا کرنے لگے۔ ایک نعرہ انھوں نے متعارف کروایا ’’۵۲فی صد ووٹ حاصل کرنے والے صدر کو سزاے موت‘‘۔ یہ نعرہ صدر محمدمرسی کی سزاے موت کے تناظر میں گھڑا گیا۔ واضح رہے کہ طیب اردوگان نے بھی پارلیمانی انتخابات سے قبل صدارتی انتخابات میں ۵۲ فی صد ووٹ حاصل کرکے الیکشن جیتا تھا۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے بھی اردوگان کے خلاف کافی زہر اُگلا۔ نیویارک ٹائمز نے ۲۲مئی ۲۰۱۵ء کو اداریے کا عنوان رکھا: "Dark Clouds Over Turkey"(ترکی سیاہ بادلوں کی زد میں) جب کہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک اداریے کا عنوان دیا "The Sultan Emperor Erdogan Rule" (اردوگان کا  دورِ حکومت، سلطانی شہنشاہیت )۔

جون۲۰۱۵ء میں انتخابات ہوئے تو حکمران جسٹس پارٹی کو ۴۰ فی صد اور ۵۵۰ کے ایوان میں صرف۲۵۸ نشستیں ملیں۔ دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی کاوشیں ہوئیں مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ آخرکار دستوری تقاضے کے تحت صدرِ مملکت نے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔ لہٰذا نومبر۲۰۱۵ء کے انتخابات میں جسٹس پارٹی نے ۳۱۷ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے واضح اکثریت ثابت کر دی۔ ووٹوں کا تناسب ۵ئ۴۹فی صد ہوگیا۔ صدرِ مملکت کے اس فیصلے پر بہت تنقید کی گئی اور ان پر آمریت اور بادشاہت کی پھبتیاں بھی کسی گئیں۔ ترک دستور کے مطابق یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ صدر کے اختیارات میں شامل ہے کہ ایسے تعطل کی صورت میں، جب کہ بڑی پارٹی دوسری پارٹیوں کے اشتراک سے اکثریت حاصل نہ کر پائے تو وہ نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں یا دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کو حکومت سازی کا موقع دے سکتے ہیں۔ اس سے قبل بھی یہ روایت ترکی میں موجود رہی ہے۔ چنانچہ ایسے چھے مواقع (۱۹۵۷ئ، ۱۹۸۷ئ، ۱۹۹۱ئ، ۱۹۹۵ئ، ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۲ء ) ہیں جب صدر نے یہ حق استعمال کیا اور انتخاب قبل از وقت کروائے گئے۔

ماضی میں ترک فوج نے بار بار بغاوت کرکے منتخب حکومتوں کو برطرف کیا اور پاکستان کی طرح ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ سیاسی قیادت کو بغیر کسی جرم کے پھانسی بھی لگایا گیا۔ ۱۹۶۱ء میں وزیراعظم عدنان مندریس کو شقی القلب جنرل گُرسل نے تختۂ دار پر لٹکا دیا ۔ طیب اردوگان نے برسرِاقتدار آکر بڑی حکمت کے ساتھ فوج کی اس باغیانہ روش کو کنٹرول کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط اور فوجی مداخلت کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ موجودہ ترک حکومت کو امریکا اور اس کے حواری اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، حالانکہ ترکی ناٹو کا رکن بھی ہے۔ اس کی وجوہات بالکل واضح ہیں کہ ترک حکومت پوری دنیا میں امت مسلمہ کے مسائل پر جرأت مندانہ مؤقف اختیار کرتی اور ظلم کے خلاف کھل کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ غزہ کی حمایت میں جانے والا فلوٹیلا اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غنڈا گردی اب تک لوگوں کو یاد ہے۔ اہلِ غزہ اپنے ترک بھائیوں کے اس جرأت مندانہ اقدام اور قربانیوں پر آج بھی ان کی تحسین کرتے ہیں۔

۲۰مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو ترکی سے اپنی فوج کی نقل و حرکت کے لیے زمینی راستہ مانگا، جس سے ترک حکومت نے انکار کر دیا۔ امریکا نے ۱۰؍ ارب ڈالر امداد کی بھی  پیش کش کی، جو مصلحت پسندوں کے نزدیک اس زمانے میں ترکی کی بیمار معیشت کے لیے نسخۂ شفا تھا۔ جسٹس پارٹی کی غیرت مند قیادت نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ امریکا نے ہوائی راستہ مانگا تو حکومت نے اس سے بھی معذرت کردی۔ کوئی مسلمان ملک آج کے دور میں ایسی جرأت مندانہ مثال مشکل ہی سے قائم کرسکا ہے۔

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی (John Kirby) نے ایک بیان داغا ہے، جس میں ترکی میں علیحدگی پسند کردش ورکرز پارٹی اور ترک حکومت کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا ہے۔ یہ پارٹی علیحدگی پسند اور دہشت گرد سمجھی جاتی ہے۔ ترکی میں داعش کی طرح یہ بھی آئے دن دھماکے کرتی رہتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ترکی کے جنوب مشرقی علاقے کو علیحدہ کرکے اپنی حکومت قائم کرے گی۔ ۱۸فروری کو ۲۴گھنٹوں میں ترکی کی سرزمین پر دہشت گردی کے چار خطرناک واقعات ہوئے۔ انقرہ میں ہونے والے دھماکے میں ۲۸؍افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ اس کی ذمہ داری کرد علیحدگی پسندوں نے قبول کرلی۔ امریکی ترجمان کی اس ناروا مداخلت کے جواب میں ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان تانجو بالجیس (Tanju Bilgic)نے سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی یہ مداخلت ناروا ہے اور انقرہ امریکی حکومت کی طرف سے علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیم کو منتخب دستوری حکومت کے برابر درجہ دینے پر سراپا احتجاج ہے۔ (ڈان ۱۶فروری۲۰۱۶ئ)۔یہ عجیب سوے اتفاق ہے کہ روس اور امریکا دونوں بیک وقت ترکی کے خلاف اپنے اپنے انداز میں سازشیں کررہے ہیں۔ بہرحال یہ تو حقیقت ہے کہ الکفر ملۃ واحدۃ ۔

شام میں بشار الاسد کی نصیری اور آمرانہ حکومت نے اہلِ شام کو جس بدترین ظلم کا شکار بنایا ہے، اس پر بھی ترکی نے اسلامی اخوت اور غیرتِ مومنانہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینا اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی عملی کاوشیں ترک حکومت کا بہت بڑا اور انسان دوستی پر مبنی مظاہرہ ہے۔ ترکی کی یہ جہودِ مسعودہ روس کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ روس شام پر مسلط ظالم حکمران کا    پشت پناہ ہے اور اپنی عسکری قوت بشار مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے بڑی بے دردی سے استعمال کررہا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک روسی طیارہ ۲۴ نومبر۲۰۱۵ء کو ترکی کی حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہوا۔ ترک فوج نے اپنا حقِ دفاع استعمال کرتے ہوئے یہ طیارہ مار گرایا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ترکی کو سخت دھمکی دی اور ترک حکومت سے اس ’گستاخی‘ پر فی الفور معذرت اور معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ ترک حکومت نے دیگر مسلمان ملکوں کی روش سے ہٹ کر پوری جرأت کے ساتھ جواب دیا کہ انھوں نے کوئی جارحیت نہیں کی، جس پر معافی مانگیں۔ اپنی فضائی حدود کی حفاظت ان کا بنیادی حق ہے اور روس نے ان حدود کو پامال کرکے خود ایسی حرکت کی ہے، جس پر اسے معذرت کرنی چاہیے۔

روس کا صدر پیوٹن بہت رعونت پسند حکمران ہے۔ اس نے چند دنوں کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ہے۔ اس کے جواب میں ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے ۱۵فروری کو یوکرائن کے دارالحکومت کیو(Kiev)میں پریس کانفرنس کے دوران بہت جرأت مندی کے ساتھ کہا ہے کہ: ’’روس ،شام میں بالکل کھلی دہشت گردی کر رہا ہے۔ وہ نہ تو داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرتا ہے اور نہ اسے اس کی فکر ہی ہے۔ اس کے حملے عام آبادیوں پر شام کے پُرامن شہریوں کی ہلاکت کا باعث ہیں۔ عام شہری بے چارے ایک جانب روسی اور نصیری بمباری کا شکار ہیں اور دوسری جانب دہشت گرد بھی انھی کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر ہم نے شام سے ملحق اپنی سرحدوں کو مظلوموں کی مدد اور سہولت کے لیے کھول دیا ہے۔ ہر چند کہ مہاجرین کا بوجھ ہمارے لیے بڑا مسئلہ ہے، لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہم نے یہ اقدام کیا ہے۔ روس کو اس علاقے میں فوجی چڑھائی اور قتل و غارت گری کا کوئی حق نہیں۔ ترکی مظلوم شامی عوام کی حمایت جاری رکھے گا، جو ظالم بشارالاسد سے نجات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔ (ڈان ۱۶فروری ۲۰۱۶ئ)

ترکی کے معروضی حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس مسلمان ملک میں سیکولر طبقے کی قوت ختم نہیں ہوئی، البتہ اس کا زور پہلے کے مقابلے میں کافی ٹوٹا ہے۔ اس صورت حال سے مغرب اور کفر کی تمام طاقتیں پریشان ہیں۔ ترکی کے خلاف ہر طرح کی سازشیں زوروں پر ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ترکی کی معیشت تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اسی طرح ترکی کے امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے بھی کئی عناصر غیر مرئی قوتوں کی اشیرباد اور پشت پناہی سے ترکی میں ، بالخصوص بڑے شہروں کے اندر دھماکے کر رہے ہیں۔ کردوں کا مسئلہ بلاشبہہ کافی پرانا ہے، مگر کرد پارٹی انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمان میں نمایندگی حاصل کرچکی ہے۔پھر بھی علیحدگی پسند عناصر ترکی کی حدود میں موجود ہیں۔ ان کو پڑوس سے بھی شہ ملتی ہے اور عالمی دہشت گرد امریکا بھی اس کوشش میں ہے کہ موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کیا جائے۔ جسٹس پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے اس صدی کے آغاز میں    ترک کرنسی (لیرا) بالکل بے وقعت ہوگئی تھی۔ عام آدمی کے لیے روٹی کا حصول بھی جوے شیر لانے کے مترادف تھا۔ کوڑیوں سے ہلکی کرنسی کی وجہ سے ترکی کی معیشت دنیا کے کمزور ترین ممالک میں شمار ہونے لگی تھی۔ موجودہ حکومت کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ اس نے اپنی معیشت کو سنبھالا دیا۔ غیرضروری اخراجات ختم کیے، کرپشن اور بدعنوانی کے ناسور پر قابو پایا، منصوبہ بندی ٹھیک انداز میں کی اور امورِ خارجہ ، بیرونی تجارت اور ملکی صنعت کو نئے سرے سے منظم کیا۔ اس کے نتیجے میں ایک لیرا آدھے امریکی ڈالر کے برابر ہوگیا۔ بعد میں پھر ترکی کے خلاف جب گھیرا تنگ کیا گیا تو عالمی تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اب لیرا پھر پہلی پوزیشن پر چلا جائے گا۔

ترکی کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے نتیجے میں یقینا ترکی کی کرنسی نیچے تو آئی ہے، مگر اب دوبارہ سنبھل گئی ہے اور اس میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ایک لیرے کی قیمت ۶۸ئ۳۵روپے ہے۔ ترکی کی فی کس سالانہ آمدنی ۹۱ئ۸۸۷۱ امریکی ڈالر ہے۔ صرف موازنے کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی ۶ئ۱۳۱۶؍ امریکی ڈالر ہے۔ گویا اب بھی ترکی کی معیشت اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا کامیابی سے مقابلہ کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر رہے ہیں۔ شام ہو یا فلسطین، ترک حکمران بالکل یکسوئی کے ساتھ مظلوموں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ مصر میں جنرل سیسی کی ناجائز حکومت کو اگر کسی نے آئینہ دکھایا ہے تو وہ صرف ترکی ہے۔ اس وجہ سے سعودی عرب جو شاہ عبداللہ کے زمانے میں جنرل سیسی کا پرزور حامی تھا، ترکی سے ناراض ہوگیا۔ شاہ سلمان کے برسر اقتدار آنے کے بعد حالات کچھ تبدیل ہوئے ہیں اور اس وقت ترکی سعودی عرب کے ساتھ  مل کر فوجی مشقیں کر رہا ہے۔ آج بھی ترکی نے مصر کے بارے میں اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا۔   وہ کھلم کھلا صدر مرسی کو مصر کا قانونی سربراہ تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں مظالم کے خلاف سفارتی سطح پر چند مسلمان ممالک نے جو آواز اٹھائی ہے، اس میں سب سے توانا آواز ترکی ہی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں اسرائیل، امریکا اور ان کے حواری ترکی کو خطرے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ملک کے اندر ایک مضبوط مذہبی تحریک ہے جس کی جڑیں ترکی کی حدود کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اپنے تعلیمی نیٹ ورک کی وجہ سے خاصی مضبوط ہیں۔ یہ خود کو غیر سیاسی کہتے ہیں، مگر سیاست میں ان کا عمل دخل خاصا ہے۔ کتنا المیہ ہے کہ ان کا وزن اُس قوت کے پلڑے میں پڑنے کے بجاے جسے سارا عالم کفر ’اسلامسٹ‘ ہونے کے طعنے دیتا ہے، یہ مذہبی طبقہ لا دینوں کی حمایت کرتا ہے، تاکہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اقتدار سے باہر ہوجائے۔

ان حالات میں ترک حکومت بڑی حکمت اور جرأت کے ساتھ اندرونی اور بیرونی ہر محاذ پر مثبت پیش رفت کر رہی ہے۔ عرب بہار کے بعد جس طرح عرب ملکوں میں ابھرنے والی اسلامی تحریکوں کی کامیابی شیطانی قوتوں کے ہاتھوں ناکامی میں بدلی گئی، ترکی کے بارے میں بھی   اسلام دشمن یہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ دیکھیے اللہ کو کیا منظور ہوتا ہے۔ آج کا ترکی اس ترکی سے بالکل مختلف ہے، جو خلافت کے آخری دنوں میں یورپ کا مردِ بیمار کہلاتا تھا۔ اس دور میں خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ خلافت کے خاتمے اور سیکولر دستور کے نفاذ سے ترک قوم کا امتیازی مقام زوال پذیر ہوا۔ اس کے باوجود ترکوں کا عالمِ اسلام میں ایک بھرم اور تاریخ میں ان کے یادگار کارناموں کی وجہ سے اُمت ِ مسلمہ میں عزت قائم رہی۔ اب عالمِ کفر پھر سازشوں میں مصروف ہے اور مختلف عناصر کو مختلف لبادوں میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس میں نام نہاد مذہبیت کا رنگ بھی ہے اور سیکولرازم، لبرل ازم اور قومیت پرستی کی چھاپ بھی۔ تاہم، پچھلے طویل عرصے کے دوران پُلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے، اب دوبارہ اسی ڈرامے کو دہرانے کی کوشش ہو رہی ہے، جو ان شاء اللہ ناکام ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے: ’’وہ اپنی خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘ (اٰل عمرٰن۳:۵۴)۔  ان شاء اللہ ترکی میں پھر کسی مصطفی کمال کے آنے کا امکان بہت کم ہے۔

قرآن وسنت کے مطابق ایمان اور آزمایش آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ بندۂ مومن کو خوشی اور غمی ہر حال میں اجر ملتا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مومن کے لیے ہرحال میں خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے خوشی ملے اور وہ شکر کرے تو یہ اس کے لیے خیر ہے، اور اگر غم سے دوچار ہو اور اس پر صبر کرے تو یہ بھی اس کے لیے باعث خیر ہے۔ اللہ سے عافیت مانگنی چاہیے  لیکن اگر آزمایش آجائے تو اللہ سے ہمت واستقامت کی دعا کرنی چاہیے۔ آج پوری امت کسی نہ کسی صورت میں ابتلا کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور حیاتِ طیبہ بڑا سہارا فراہم کرتی ہیں۔

نبیِ رحمتؐ کو اللہ نے اپنی ساری مخلوق میں سب سے نمایاں اور اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا۔جس قدر آپؐ کا مقام ومرتبہ بلند ہے،اسی قدر آپؐ  پر شدید آزمایشیں بھی ڈالی گئیں۔بعض اوقات ایک انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ اس پر مشکلات کی یلغار کیوں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو شخص حضورِ پاکؐ کی تعلیمات سے واقف ہو وہ ان مشکلات ومصائب کے ہجوم میں بھی اللہ سے رشتہ استوار رکھے گا اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے گا۔ حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے:

اِنَّ اَشَدَّ النَّاسِ بَلَائً اَلْاَنْبِیَائُ ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ ’’بلاشبہہ تمام انسانوں میں سے سب سے زیادہ آزمایشوں سے انبیاء کو سابقہ پیش آتا ہے،پھر جو لوگ (مقام و مرتبہ میں) ان سے قریب تر ہوتے ہیں،ان کو آزمایا جاتا ہے‘‘۔(تفسیرقرطبی المجلد السابع تفسیر آیت ۳، سورئہ عنکبوت روایت حضرت ابوسعید خدریؓ بحوالہ سنن ابن ماجہ)

اسی حدیث میں آپ کا ارشاد ہے: یُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلیٰ قَدْرِ دِیْنِہٖ ،’’ہر شخص کو اس کی دین کے ساتھ وابستگی کے مطابق ابتلا میں ڈالا جاتا ہے۔‘‘(ترمذی، ابواب الزہد، باب ماجاء فی الصبر علی البلائ)

اللہ کے تمام انبیا ؑکی زندگیاں اس حقیقت کو مکمل طور پر واشگاف کرتی ہیں کہ وہ بہت زیادہ آزمایشوں سے گزرے۔حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال راہِ حق میں ماریں کھائیں، زخمی ہوئے،ستائے گئے اور استہزا کا نشانہ بنتے رہے۔سیدنا ابراہیم ؑ خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا گیا، گھربار سے نکالا گیا،بیٹے کی قربانی کے امتحان سے آزمایا گیا اور اس سے بھی قبل نوجوان بیوی  سیدہ ہاجرہؑ اور آنکھوںکے تارے، شیر خوار بیٹے اسماعیلؑ کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں تن تنہا چھوڑنے کا حکم ملا جس کی بلا چون و چراا طاعت کی گئی۔ سیدنا یعقوب ؑ ویوسف ؑ کی زندگیوں میں بھی سخت آزمایشوں کا طویل دور قرآن کے صفحات کی زینت ہے۔ اللہ کے صابر نبی حضرت ایوبؑ کی آزمایشیں ہمہ جہت وہمہ پہلو تھیں۔ جسمانی امراض وتکالیف سے لے کر اہل وعیال کی جدائی وفراق اور نہ معلوم کیا کچھ برداشت کرنا پڑا۔ حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت یحییٰ ؑ کے احوال پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھیں بے ساختہ بھیگ جاتی ہیں۔وقت کے ظالم حکمرانوں نے ان کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا مگر ان عظیم ہستیوں کی عزیمت قابل داد وتحسین ہے کہ اللہ کے در سے ذرہ برابر ادھر ادھر نہ ہوئے۔

حضرت یحییٰ (یوحنا) علیہ السلام نے جب (بنی اسرائیل کی) ان بد اخلاقیوں کے خلاف آواز اٹھائی جو یہودیہ کے فرماں روا ہیرو دیس کے دربار میں کھلم کھلا ہو رہی تھیں، تو پہلے وہ قید کیے گئے، پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمایش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کرکے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کر دیا (مرقس، باب ۶، آیت ۱۷-۲۹)۔ حضرت عیسیٰ ؑ پر بنی اسرائیل کے    علما اور سردارانِ قوم کا غصہ بھڑکا، کیوںکہ وہ انھیں ان کے گناہوں اور ان کی ریاکاریوں پر ٹوکتے تھے اور ایمان و راستی کی تلقین کرتے تھے۔ اس قصور پر ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ تیار کیا گیا، رومی عدالت سے ان کے قتل کا فیصلہ حاصل کیا گیا اور جب رومی حاکم پیلاطس نے یہود سے کہا کہ  آج عید کے روز میں تمھاری خاطر یسوع اور برابّا ڈاکو، دونوں میں سے کس کو رہا کروں، تو ان کے پورے مجمع نے بالاتفاق پکار کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے اور یسوع کو پھانسی پر لٹکا۔ (متی، باب ۲۷۔ آیت ۲۰تا ۲۶) (بحوالہ تفہیم القرآن، جلداول، ص ۸۱-۸۲)

حضور اکرم ؐ پر تو اول تا آخر آزمایشوں کی یلغار اور غم و اندوہ کی بھرمار نظر آتی ہے۔ آپؐ  کے ہر امتی کو مشکل گھڑی میں اپنے نبیِ مہربانؐ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالنی چاہیے۔آپؐ  رحمِ مادر میںتھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ نہ باپ نے اپنے عظیم بیٹے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا،نہ عظیم بیٹے نے باپ کی آغوشِ شفقت کا لطف اٹھایا۔ماں نے مامتا کی مثالی محبت دی اور اس درّ یتیم کو بڑی توجہ اور پیار سے پالا پوسا۔ بیچ میں شیر خوارگی اور ابتدائی بچپن کا دور حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر بنو سعد میں گزرا۔ واپس آتے تو ماں کی آنکھوں کا یہ نور، جوانی میں بیوہ ہوجانے والی سیدہ آمنہ کے  غم زدہ دل پر مرہم رکھ دیتا۔ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ مدینہ ومکہ کے درمیان مقام ابواپر حالت سفر میں محبوبِ کبریاؐ، ماں کی مامتا کی نعمت ِعظمیٰ سے بھی محروم ہوگئے۔یہ مالک ارض وسما کی مشیت تھی۔ غم کی ان گھڑیوں میں آپؐ  کی خادمہ امّ ِایمن نے ننھے درّیتیم کو مامتاکا بدل عطا کیا جو خود ان کے لیے ایک عظیم ترین تاریخی اعزاز اور اللہ کے ہاں بے مثال درجات کا ذریعہ بنا۔

سردار قریش،بزرگ سردارِ قبیلہ، عبدالمطلب جو اپنے پوتے کی سانس کے ساتھ سانس لیتے تھے، محبوب بیٹے کے بعد پیاری بہو کے اچانک وفات پاجانے پر اس دُہرے غم سے دوچار ہوئے تو لختِ جگر محمد و احمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو اور بھی اپنے سے قریب کر لیا۔ بوڑھا سردار مجلسوں کی صدارت بھی کرتا،قومی و قبائلی امور ومعاملات میں فرائضِ منصبی پر بھی توجہ دیتا مگر ہر چیز سے زیادہ اب اس کے نزدیک یہ گلِ نو بہارؐ عزیز تر تھا۔ اس کی صبحیں بھی اسی کے دم قدم سے روشن تھیں اور اس کی راتوں کا سکون بھی اسی روشن چراغؐ سے وابستہ تھا۔ دوسال یوں بیتے کہ دادا نے اپنے بے مثل پوتے کو شفقتِ پدری بھی دی اور ماں کی مامتا کی کمی بھی محسوس نہ ہونے دی۔دوسال کا وقت جیسے پلک جھپکنے میں بیت گیا۔ اللہ نے اب دونوں پیاروں کے درمیان پھر سے جدائی کا فیصلہ کر لیا۔ آٹھ سا ل کی عمر میں یہ شجر سایہ دا ر بھی سر سے اُٹھ گیا۔ غم کے پہاڑ تھے اور صدمات کے  ریگ زار مگر جسے خالق نے سید الانبیا وقائدِ انسانیت بنانے کا روزِ اول ہی سے فیصلہ فرمادیا تھا،اس کا قلب ِ نازک ان بھاری صدمات کو بھی سہ گیا۔عبد المطلب کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اور محمد بن عبد اللہ کے شفیق چچااپنے خانوادے کے اس درّ نایابؐ کی دل جوئی میں لگ گئے۔ سبھی چچا    غم گسار تھے مگر زبیراور ابو طالب نے تو تاریخ میں وہ مثال قائم کردی جس کی نظیر نہ اس سے قبل انسانی تاریخ میں ملتی ہے اور نہ اس کو بعد کی تاریخ میں دہرانا کسی کے بس میں ہے۔یوں بچپن جوانی میں ڈھل گیا،پاکیزہ جوانی،طیب وتقدس مآب شب وروز،ہر آلایش سے پاک،ہر خوبی سے مزین! خزف ریزوں کے درمیان چمکتا ہوا ہیرا، ہر شخص کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا قیمتی موتی!محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم!!

جوانی میں اللہ نے قدرے سکون و خوش حالی بخشی۔ تجارت خوب چمکی۔مکہ کی سب سے معزز، زیرک اور مال دار خاتون حضرت خدیجہ بنت خویلد کے ساتھ تجارتی کاروبار میں شراکت کا تجربہ طرفین کے لیے انتہائی خوش گوار ثابت ہوا۔ اس منفرد تجربے نے اس عظیم خاتون کو اتنا متاثر کیا کہ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ مکہ کا یہ انمول ہیرا اس کے نصیب میں آجائے۔ خود  محسنِ کائناتؐ نے بھی حضرت خدیجہ کی بے پناہ خوبیوں کو قریب سے دیکھ لیا تھا۔ یوں اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ مثالی جوڑا ترتیب دے دیا۔ مکہ کی مال دار بیوہ،زندگی کے ۴۰ سال گزار چکی تھیں، جب کہ آفتابِ رشدو ہدایتؐ ۲۵ بہاریں دیکھ چکے تھے۔یہ مثالی جوڑا تھا جس کی مثال تاریخ انسانی میں سب سے ارفع واعلیٰ ہے۔ اللہ نے دو بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں۔ یہ اس کا عظیم عطیہ تھا۔ دونوں بیٹے قاسم اور عبد اللہ المعروف طیّب اور طاہر یکے بعد دیگرے بالکل ابتدائی عمر ہی میں    اللہ نے واپس لے لیے۔ حضرت قاسم ہی کی نسبت سے آپؐ  کی کنیت ابوالقاسم ہے۔ اللہ نے انھیںجنت میں اپنے گل دستے کی زینت بنالیا اور اپنے محبوب کو پھر درد وفراق کی مشکل گھاٹی سے گزارا۔ وہ حکیم ہے،وہ قادرِ مطلق ہے۔ اس کے برگزیدہ بندے نے صبر ورضا کے ساتھ سر تسلیم  خم کردیا کہ یہی اس کے شایانِ شان تھا۔

قاسم اور عبد اللہ تو جوانی کاپھل تھے۔بڑھاپے میں اللہ نے ایک اور میٹھا میوہ عطا فرمایا۔ چاند سا بیٹا، جدّ امجد کے اسم گرامی پر ’ابراہیم‘ نام رکھا۔دودھ پیتا ابراہیم سید کونین کی آنکھوں کا تارا،دل کا قرار اور آنکھوں کی ٹھنڈک تھا۔ اچانک بیماری نے آلیا۔ جنت کا پھول اپنے بے بدل باپ کی آغوش میں ہے،فرشتۂ اجل اپنا فرض ادا کرنے کے لیے آگیا ہے۔وہ بے چارا تو حکم کا پابند ہے ! ابراہیم آخری سانس لیتا ہے ،اس کائنات کا سب سے بڑا انسان ا س لمحے غم کے پہاڑ کے سامنے کھڑا ہے۔تقاضاے فطرت ہے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ہیں۔ سعد بن عبادہؓ (سردار خزرج) دیکھ کر عرض کرتے ہیں: ’’ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ بھی رو رہے ہیں؟‘‘فرمایا: کہ دل زخمی ہے،آنکھیں اشک بار ہیں مگر ہم اپنے رب کی رضا پہ راضی ہیں۔ ہماری زبان سے کوئی ایسا لفظ نہیں نکلے گا جو ربّ کائنات کو نا پسند ہو، اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔

چاروںبیٹیوں میں سے رقیہؓ، ام کلثومؓ اور زینبؓ بناتِ محمد ؐ ایک ایک کرکے آپؐ  کی زندگی ہی میں آخر ت کو سدھار گئیں۔صرف فاطمۃؓ الزہرا بعد تک زندہ رہیں۔ ان کے متعلق بھی      سیدہ عائشہؓ صدیقہ کی ایک روایت ہے کہ مرض الموت میں فاطمہؓ آنحضور ؐ کے پاس بیٹھی تھیں،میں گھر کے کام کاج میں مصروف تھی۔میں نے دیکھا کہ فاطمہؓ بے ساختہ زاروقطار رو نے لگی ہیں۔  پھر تھوڑی دیر بعد ،میں نے دیکھا کہ فاطمہؓ مسکرا رہی ہیں۔میں نے بعد میں فاطمہؓ سے اس صورت حال کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ’’امی جان ! بابا جان نے مجھ سے فرمایا کہ   ان کے کوچ کا وقت آگیا ہے تو میں فرطِ غم سے رونے لگی، مگر اس کے بعد انھوں نے فرمایا: ’’لختِ جگر! میرے اہلِ بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آکر ملو گی‘‘۔ تو میں خوشی سے  مسکرا دی‘‘۔ (امام البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج ۷، مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ، ص ۱۲۱-۱۲۲)

سیدۂ خواتینِ جنت آںحضور ؐ کے وصال کے بعد چھے ماہ زندہ رہیں اور پھر اپنے عظیم والد کے پاس جنت الفردوس میں چلی گئیں۔یہ ہے حاصلِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی زندگی اور عائلی احوال کی ایک جھلک۔ہمارے لیے یہ اسوئہ حسنہ ہے۔غم کے پہاڑ آجائیں تو اس عظیم شخصیت اور قائد انسانیت کی طرف دیکھیے۔ دل کو قرار مل جائے گا۔ صبر کیجیے، اللہ نعمتوں سے نوازے گا۔ وہی غموں کا مداوا کرسکتا ہے۔

حضور نبی پاکؐ کی بے شمار دعائیں ہیں جو غموں کے ہجوم سے نجات کے لیے آپؐ  نے سکھائیں۔ یہاں حدیث پاک سے ایک مسنون دعا نقل کی جاتی ہے جو آپؐ  نے اپنے صحابی حضرت ابو امامہ انصاریؓ کو سکھائی تھی اور اللہ نے ان کو غموں اورمصیبتوں سے نجات عطا فرمادی۔ ہمارے لیے بھی یہ دعا نسخۂ شفا اور دواے مرض ہے بشرطیکہ ہم پورے یقین کے ساتھ اللہ سے    ان الفاظ میں طلب کریں۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو ایک انصاری صحابی کو (جن کا نام ابوامامہؓ تھا) آپ نے مسجد میں بیٹھے دیکھا۔ آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا: کیا بات ہے کہ تم اس وقت، جب کہ کسی نماز کا وقت نہیں ہے مسجد میں بیٹھے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: حضرتؐ! مجھ پر بہت سے قرضوں کا بوجھ ہے اور فکروں نے مجھے گھیر رکھا ہے۔ آپؐ  نے فرمایا: میں تمھیں ایسا دعائیہ کلمہ نہ بتا دوں جس کے ذریعہ دعا کرنے سے اللہ تعالیٰ تمھیں ساری فکروں سے نجات دے دے اور تمھارے قرضے بھی ادا کرادے؟ (ابوامامہ نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ضرور بتادیں۔آپؐ  نے ارشاد فرمایا کہ: تم صبح و شام اللہ کے حضور میں عرض کیا کرو: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَہْرِ الرِّجَالِ (اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر اور غم سے اور بے کسی سے، اور سستی و کاہلی سے، اور بزدلی و کنجوسی سے، اور پناہ مانگتا ہوں قرضے کے بار کے غالب آجانے سے اور لوگوں کے دبائو سے)۔ ابو امامہ نے بیان کیا کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر عمل کیا (اور اس دعا کو اپنا صبح و شام کا معمول بنالیا) تو خدا کے فضل سے میری ساری فکریں ختم ہوگئیں اور میرا قرض بھی ادا ہوگیا۔(سنن ابوداؤد)

یہ مجرّب اور آزمودہ نسخے ہیں، تیر بہدف ہیں مگر جس رسول رحمت ؐنے ہمیں یہ بتائے  اس سے حقیقی محبت اور اس پر پختہ ایمان اور جس ذات سبحانہ و تعالیٰ سے ہم طلب کرتے ہیں اس کی مکمل بندگی اور وفاداری کا اہتمام شرطِ قبولیت ہے۔ آئیے آج سچے دل سے عہد کریں کہ باری تعالیٰ اور اس کے رسولِ برحقؐ کے ہر حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کریں گے اور ان کی قائم کردہ تمام حدوں کا ہرحال میں احترام کریں گے۔ اللہ رب العزت ہر مشکل کو آسان بنادے گا اور ہر ابتلا کو اُخروی کامیابی کا ذریعہ بنا دے گا۔

نائیجیریا آبادی کے لحاظ سے براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق اس وقت ۱۷ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ آخری مردم شماری ۲۰۰۶ء میں ہوئی تھی جس میں ۱۴ کروڑ سے زائد آبادی ریکارڈ کی گئی۔ رقبے کے لحاظ سے ۹لاکھ ۲۳ہزار ۷سو۶۸ مربع کلومیٹر کے ساتھ یہ افریقہ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ صرف ایک ملک تنزانیہ کا رقبہ اس سے زیادہ ہے۔ دنیا میں اس کی آبادی پاکستان کے بعد ساتویں نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ نائیجیریا قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالامال ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی طرح بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ نے ملک کو بدحال کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے قائم کردہ معیار کے مطابق آدھی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یوں تو کم وبیش ۵۰ کے لگ بھگ قومیتی وقبائلی اکائیاں اور زبانیں اس ملک میں پائی جاتی ہیں۔ یوروبا اورہاؤسا دونوں برابر، یعنی ۲۱فی صد ہیں۔ تیسرے نمبر پریرایبوہے    جو ۱۸سے ۱۹ فی صد تک شمار کی جاتی ہے۔ چوتھی بڑی اکائی فولا(Fula) ہے جو ۱۱فی صد ہے۔     اس طرح تقریباً ۷۱ فی صد ان چار قومیتوں اور زبانوں کا حصہ ہے۔ دیگر کوئی اکائی دو ہندسوں تک نہیں پہنچتی۔ یوں ۲۹فی صد قومیتی اور لسانی آبادی بہت سی اکائیوں میں تقسیم ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہرریاستی اکائی ایوان بالا (سینیٹ) میں بڑی اکائیوں کے برابر نمایندگی رکھتی ہے۔

براعظم افریقہ کا یہ ملک تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا ایک اہم ممبر ہے۔ گذشتہ نصف صدی سے اس ملک میں بڑے عجیب وغریب قسم کے تجربات دہرائے جاتے رہے ہیں۔ آزادی ملنے کے بعد سیاست دانوں اور فوجی جرنیلوں بلکہ بعض اوقات فوج کے جونیئرافسروں اور جرنیلوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی مسلسل جاری رہی ہے۔ جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں باوردی حکمرانوں کا پلہ بہرحال اب تک کی تاریخ میں بھاری رہا ہے۔ اب ۸؍اپریل ۲۰۱۵ء کے انتخابی نتائج کے مطابق ایک سابق جرنیل بندوق سے نہیں ووٹوں سے صدر منتخب ہوگیا ہے۔ گذشتہ چندبرسوں سے، باقاعدگی سے ایوان صدر اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے انتخابات ہورہے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ تسلسل قائم رہے اور نائیجیریا کے عوام سُکھ کا سانس لے سکیں۔ حالیہ انتخابات کافی حد تک منصفانہ بھی تھے اور غیرمتنازعہ بھی۔ اس سے قبل کبھی انتخابات پر مقامی اور عالمی سطح پر اس قدر اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اس موقعے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نائیجیریا کا کچھ مزید اور عمومی تعارف قارئین سے کرادیا جائے۔

نائیجیریا کی ایک عظیم تاریخ ہے۔ مغربی افریقہ کے اس علاقے میں دو صدیاں قبل ایک عظیم مجدد عثمان بن فودیوؒ نے شمالی علاقوں میں صحیح خطوط پر اسلامی خلافت قائم کی۔ ان کی ریاست کا نام سکوٹو خلافت تھا۔ کافی عرصے تک یہ خلافتی ریاست قائم رہی۔ بعد میں انگریزی استعمار نے نائیجیریا پر قبضہ کیا تو ۱۹۰۳ء میں یہ ریاست ختم کردی گئی۔ اس ریاست کے اثرات آج بھی شمالی نائیجیریا میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ انگریزوں نے کم وبیش ڈیڑھ صدی نائیجیریا پر حکومت کی۔ ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا کی آزادی کا اعلان ہوا، جب کہ عملاً تین سال بعد یکم اکتوبر۱۹۶۳ء کو اس کو ایک مکمل آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت منظور ہوئی۔ آزادی کے بعد نائیجیریا میں مسلسل فوجی انقلاب آتے رہے۔ نائیجیریا کو جمہوری انداز میں چلانے کے لیے کئی سیاسی تنظیموں نے جدوجہد کی، مگر ہر مرتبہ فوجی جرنیل اقتدار پر قابض ہوتے رہے۔ آزادی کے بعد نائیجیریا کے پہلے صدر آزیکیوے (Azikiwe) تھے۔ آزیکیوے کے بعد نوافور اوریزو (Nwafor Orizu) صدر منتخب ہوئے۔ وہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ جب وفاقی حکومت بنی تو سر ابوبکر تفاوا بلیوا وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ ایک اچھی شہرت کے حامل سیاست دان تھے۔  ان کے ساتھ سراحمدوبیلوشمالی خطے کے وزیراعلیٰ تھے۔ نائیجیریااس زمانے میں وفاق کے تحت دوریاستوں یا صوبوں، شمالی اور جنوبی میں تقسیم کیا گیا تھا، جس طرح کبھی ہمارے ہاں مشرقی اور مغربی پاکستان تھے۔ شمالی خطہ مسلم اکثریت اور جنوبی غیرمسلم اکثریت کا حامل تھا۔

اس دور میں فوج نے سیاست دانوں پر ناروا دباؤ ڈالنا اور خود بلاجواز مراعات حاصل کرنا شروع کردیں۔ اس وقت کے صدر اوریزو نے فوج کے عزائم بھانپتے ہوئے مضبوط موقف اپنانے کے بجاے بزدلی دکھائی اور خود ہی حکومت فوج کے حوالے کردی۔ فوجیوں نے سمجھا کہ سرابوبکر اور سراحمدوبیلو ان کے راستے کی رکاوٹ ہوں گے۔ چنانچہ لیفٹیننٹ کرنل یعقوبو گوون نے ایک اور فوجی بغاوت کردی۔ فوج کے اعلیٰ افسران کو معطل کردیا اور وزیراعظم و وزیراعلیٰ کو شہید کردیا گیا۔  یہ ۱۹۶۶ء کی بات ہے۔ اس کے بعد نائیجیریا میں مختصر عرصے کے لیے سول حکومت وجود میں آئی، جس کے سربراہ مسلمان سیاست دان شیخو شغاری تھے۔ جمہوری حکومت کی کرپشن کو بہانہ بنا کر پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی دوران نائیجیریا میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور نائیجیریا دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بیافرا کی ریاست وجود میں آئی۔ کچھ عرصے کے بعد نائیجیرین آبادی کو احساس ہوا کہ اس خانہ جنگی اور تفریق کے نتیجے میں نائیجیریا برباد ہوجائے گا۔

اسی دوران نائیجیریا کے مختلف علاقوں میں تیل کی دریافت ہوئی۔ ملک متحد تو ہوگیا، مگر  فوجی انقلاب کی مصیبت ایسی شروع ہوئی کہ ایک فوجی آمر کو دوسرا فوجی آمر اقتدار سے محروم کرکے حکومت پر قابض ہوتا چلا گیا۔ ۱۹۶۶ء کے بعد ۱۹۷۹ئ، ۱۹۸۳ء اور ۱۹۹۸ء میں یکے بعد دیگرے چار فوجی بغاوتیں ہوئیں جو ناکام ہوتیں تو غداری قرار پاتیں، مگر کامیابی کے بعد انقلاب کہلائیں۔ یہ فوجی حکومتیں بھی نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ رچاتی رہیں۔ فوجی آمروں میں مسلمان بھی تھے اور عیسائی بھی۔ لیکن مسلمان نسبتاً زیادہ تھے۔ ان مسلمان حکمرانوں میں خود موجودہ صدر محمد بخاری کا نام بھی آتا ہے۔ انھوں نے ۱۹۸۴ء میں فوجی جرنیل کے طور پر مسلمان سیاست دان شیخوشغاری کا تختہ الٹا تھا۔ بہت جلد ۱۹۸۵ء میں بخاری کے خلاف بغاوت ہوگئی اور جنرل ابراہیم بابا گیڈا برسرِاقتدار آگیا۔ دیگر جرنیلوں میں، جو وقتاً فوقتاً برسراقتدار آتے رہے، جنرل مرتضیٰ محمد، جنرل ثانی اباچہ اور جنرل عبدالسلام ابوبکرکے نام آتے ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں محمدبخاری پہلی مرتبہ ۴۱سال کی عمر میں باوردی برسراقتدار آئے اور پھر اقتدار سے محرومی کے بعد بغیر وردی کے انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی ناکام کوشش کرتا رہے۔ بالآخر اب ۷۲سال کی عمر میں وہ ووٹ کے ذریعے ملک کا سربراہ منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

موجودہ انتخابات میں صدر گڈلک جوناتھن اور ان کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوگئی ہے۔ جوناتھن ملک کے چودھویں سربراہِ ریاست تھے۔ جنرل محمدبخاری کی پارٹی آل پروگیسو کانگریس فتح یاب ہوگئی ہے۔ غیرملکی مبصرین نے ان انتخابات کو منصفانہ اور غیرجانب دارانہ تسلیم کرلیا ہے۔ صدارتی انتخابات میں محمدبخاری کو پہلی بار کامیابی ملی ہے۔ اس سے قبل وہ تین مرتبہ انتخابات میں قسمت آزما چکے تھے، مگر ہرمرتبہ شکست کھاتے رہے ہیں۔ جیتنے والے مسلم صدر محمدبخاری کو ایک کروڑ ۵۴ لاکھ ووٹ ملے، جب کہ ہارنے والے امیدوا سابق صدر گڈلک جوناتھن نے جوعیسائی ہیں، بھی ایک کروڑ ۲۹لاکھ ووٹ لیے۔ دونوں امیدواروں نے اپنے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ نائیجیریا کی ۳۶ریاستیں اور ایک وفاقی اکائی، دارالحکومت ابوجا ہے۔ پچھلے پارلیمان میں گڈلک کی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل تھی۔ اب صورتِ حال   اس کے برعکس ہے۔

نائیجیریا کی وفاقی پارلیمان میں سینیٹ اور وفاقی اسمبلی شامل ہیں۔ سینیٹ میں ۱۰۹ نشستیں ہیں، جن میں سے ایک نشست وفاقی ایریا کی ہے اور باقی نشستیں ۳۶ ریاستوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ ہرریاست کے سینیٹ میں تین نمایندے ہوتے ہیں۔ وفاقی اسمبلی کی کل ۳۶۰نشستیں ہیں، جو تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے تقسیم کی گئی ہیں۔ سابق صدر کی پارٹی کو پچھلی پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی، یعنی سینیٹ میں ۹۶ اور قومی اسمبلی میں ۲۲۳؍ارکان۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو اسمبلی کی ۹۶ اور سینیٹ کی ۲۷نشستیں حاصل تھیں۔ نئے انتخابات کے بعد جنرل محمد بخاری کی آل پروگریسو کانگریس کو اسمبلی میں ۳۶۰ کے ایوان میں ۲۲۵نشستوں پر کامیابی ہوئی، جب کہ سابق صدر جوناتھن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ۱۲۵نشستیں حاصل کرپائی۔ ۱۰نشستوں پر دیگر چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار جیت گئے۔ سینیٹ میں ۱۰۹کے ہاؤس میں بخاری کی پارٹی نے ۶۰نشستیں جیتیں، جب کہ جوناتھن بھی ۴۹نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ صدر کے انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام ووٹوں کے علاوہ ریاستوں کی اکثریت میں بھی برتری حاصل کرے۔ اگر اس کے ووٹ زیادہ ہوں، مگر ریاستوں میں سے اکثر میں وہ نہ جیتا ہو تو انتخاب دوبارہ ہوتا ہے۔ ریاستوں کے حجم میں بہت بڑا تفاوت ہے۔ صدرمحمدبخاری کو نہ صرف ووٹوں میں برتری حاصل ہے ، بلکہ اکثر ریاستوں میں بھی راے دہندگان کی واضح اکثریت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ پارلیمان اور سینیٹ کے انتخابات کے نتائج ابھی مکمل نہیں ہوئے، لیکن جیتنے والے صدر کی پارٹی کو اس میں بھی واضح اکثریت مل جائے گی۔

نائیجیریا میں گذشتہ کئی برسوں سے انتہاپسند مسلم تنظیم بوکوحرام نے بہت سی پُرتشدد کارروائیاں کی ہیں۔ ملک کی آبادی اس صورت حال سے سخت پریشان ونالاں ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ۱۲سے ۱۵ ہزار لوگ اب تک پُرتشدد کارروائیوں میں مارے جاچکے ہیں۔ بے شمار لوگ انتہاپسندوں نے یرغمال بنا رکھے ہیں۔ یہ تنظیم یوں تو مقامی ہے، مگر خود کو القاعدہ کے قریب بلکہ اسی کی شاخ سمجھتی ہے۔ عام آبادی، بالخصوص شمالی اور مشرقی علاقوں میں، اس انتہاپسندی کی وجہ سے خود کو غیرمحفوظ  تصور کرتی ہے۔ امن وامان کی بحالی اور تخریب کاری کا خاتمہ موجودہ انتخابات میں امیدواروں کے منشور میں اہمیت کا حامل رہا۔ جنرل محمد بخاری نے گڈلک کے مقابلے میں اعلان کررکھا تھا کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو دہشت گردوں سے ملک کو پاک کردیں گے۔ دیگر عوامل کے علاوہ اس نعرے کا اس کی کامیابی میں نمایاں کردار ہے۔ محمد بخاری نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ برسرِاقتدار آکر تخریب کاروں اور دہشت گردوں سے کوئی نرمی نہیں برتیں گے بلکہ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے گا اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت بیرونی بنکوں سے واپس وطن لائی جائے گی۔ یہ دونوں کام خاصے مشکل ہیں اور تمام مبصرین یہ تجزیہ کررہے ہیں کہ نومنتخب صدر اور ان کی حکومت کے لیے اس مشکل صورت حال سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں ہوگا۔

دریں اثنا سابق صدر گڈلک جوناتھن نے اپنی شکست کو خوش دلی سے تسلیم کیا ہے اور نومنتخب صدر کو ملک وقوم کے مفاد کی خاطر اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ جواب میں نومنتخب صدر نے بھی سابق صدر کے ساتھ خیرسگالی اور انھیں پورا احترام دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اب مبصرین اور تجزیہ کار تبصرے کررہے ہیں کہ آیا نئی حکومت اپنے وعدوں کے مطابق کچھ مثبت اور نتیجہ خیز کام کرسکے گی یا ایک بار پھر فوج کے برسراقتدار آنے کا راستہ کھل جائے گا۔ اللہ کرے کہ صدر محمد بخاری ملک وقوم کے لیے کچھ اچھے کام کرسکیں تاکہ افریقہ کا یہ سب سے بڑا ملک امن وامان کا گہوارہ بن سکے۔

کینیا مشرقی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے۔ یہ بھی اکثر افریقی ممالک کی طرح کثیرالقومیتی اور کثیراللسانی ملک ہے۔ آبادی کے تناسب کے بارے میں سرکاری اور مغربی اداروں کے اعداد وشمار خاصے متنازعہ ہیں۔ کُل آبادی۲۰۰۹ء کی مردم شماری میں ۳ کروڑ، ۸۶لاکھ ۱۰ہزار ۹۷ ریکارڈ کی گئی۔ اس وقت آبادی کا تخمینہ اضافۂ آبادی کے حساب سے ساڑھے چار کروڑ سے زائد لگایا جاتا ہے۔ عیسائی آبادی (تمام عیسائی فرقوں کو شامل کرکے) ۴۰ سے ۴۵فی صد ہے۔ مسلمان ۲۵ سے ۳۰فی صد کے درمیان ہیں، جب کہ باقی آبادی قدیم افریقی مذاہب، روایت پرست، بت پرست یا لامذہب قبائل پر مشتمل ہے۔ مشنری ادارے اور مغربی این جی اوز مسلمانوں کے علاوہ تمام آبادیوں کو عیسائی شمار کرلیتے ہیں۔ کینیا ۱۹۶۳ء میں برطانوی استعمار سے آزاد ہوا تھا۔ یہ آٹھ صوبوں پر مشتمل ہے۔ ساحلی پٹی اور سمندری جزائر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اسی طرح شمال مشرقی صوبہ کم وبیش ۹۰فی صد مسلم آبادی پر مشتمل ہے۔ مشرقی صوبے میں بھی مسلمان عیسائیوں سے نسبتاً زیادہ ہیں۔ صومالیہ کے ساتھ ملحقہ صوبے میں مسلمان صومالی الاصل ہیں۔ اس صوبے کا دارالحکومت گریسا ہے۔

۲؍ اپریل۲۰۱۵ء کو گریسا میں سرکاری یونی ورسٹی کے گریسا کالج ہاسٹل پر صومالیہ میں برسرِپیکار عسکری تنظیم الشباب نے طلبہ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ۱۴۷؍افراد مارے گئے۔ ان میں اکثریت طلبہ کی تھی اور باقی سٹاف اور عملے کے لوگ تھے۔ یہ سب نہایت سفّاکی اور بے دردی سے ہلاک کردیے گئے۔ ایک بہت تشویشناک بات یہ تھی کہ حملہ آوروں نے ہاسٹل پر قبضہ کرکے پہلے اعلان کیا کہ مسلمان طلبہ الگ ہوجائیں۔ پھر انھیں حکم دیا گیا کہ وہ بھاگ جائیں۔ اس کے بعد باقی ماندہ طلبہ اور عملے پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ نیروبی سے نکلنے والے مسلمانوں کے  ہفت روزہ ترجمان فرائیڈے بلٹن، شمارہ۶۲۳،۱۰ اپریل کے مطابق کینیا کی مسلمان آبادی اور مسلم تنظیموں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور اسے ایک گہری سازش قرار دیا۔ نیروبی کی مرکزی جامع مسجد کے امام، شیخ جمعہ امیر اور مسلمان راہنما شیخ سُبقی نے مقتولین کے خاندانوں سے اظہار تعزیت بھی کیا اور متاثرہ خاندانوں میں امداد بھی تقسیم کی۔ انھوں نے اس موقعے پر کہا کہ کینیا میں تمام مذاہب کے لوگ آپس میں امن وامان سے رہتے ہیں۔ ہمیں اس سازش کو سمجھنا اور اس کا تدارک کرنا چاہیے۔

الشباب نے اس تازہ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس سے قبل ۱۹۹۸ء میں امریکی سفارت خانے پر بھی حملہ ہوا تھا جس میں کئی لوگ مارے گئے تھے۔ اس حملے میں کون ملوث تھے،  یہ ثابت نہ ہوسکا، مگر الزام مقامی مسلمانوں پر ہی لگا تھاجس کے بعد بہت سے نوجوانوں کو سکیورٹی اداروں نے گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ گذشتہ سال کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ویسٹ گیٹ شاپنگ سنٹر پر اچانک حملہ کرکے دن دہاڑے ۷۰گاہکوں اور دکان داروں کو قتل کردیا گیا تھا، جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ اس حملے میں تمام حملہ آور بھی سکیورٹی اداروں کی کارروائی میں مارے گئے تھے۔ ۱۰،۱۲ برسوں سے صومالیہ میں حکومت کے ساتھ الشباب کی جھڑپیں اور جنگیں ہوتی رہتی ہیں۔ الشباب کے لوگ اپنا تعلق القاعدہ سے جوڑتے ہیں۔ کینیا اور صومالیہ کی حکومتیں آپس میں ایک دوسرے سے دوستانہ تعلقات رکھتی ہیں۔ ان واقعات سے بحیثیت مجموعی کینیا میں سرگرمِ عمل اسلامی تنظیموں اور اداروں کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان واقعات کو بنیاد بنا کر بہت سے بے گناہ مسلمان علما اور اسکالر اور دیگر شخصیات کے خلاف کارروائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں فورتھ شیڈول کی طرح کینیا میں بھی اسی طرح کے قواعد وضوابط استعمال ہوتے ہیں۔

گریسا کے اس واقعے کے فوراً بعد کینیا کے صدر مسڑاوہورُو کنیاٹا (Uhuru Kenyatta) نے قوم کے نام اپنے خطاب میں مدارس اور مساجد کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا۔ مسلمان راہنماؤں نے فوری طور پر صدر کے اس بیان کی تردید کی۔ نیروبی کے مشہور وکیل اور جامع مسجد کمیٹی کے ممبر مسٹر ابراہیم لتھومے نے ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں کہا کہ مساجد ومدارس ہرگز تشدد کی تعلیم نہیں دیتے۔ دراصل یہ حکومت اور اس کے اداروں کی نااہلی ہے کہ وہ حالات کا صحیح ادراک نہیں کرپاتے اور نہ بروقت خطرات کا تدارک کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ’سپریم کونسل آف کینیا مسلمز‘ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ حسن اولے نادو نے بھی کہا کہ حکمرانوں کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنی سرکاری اور عوامی پالیسیاں ترتیب دینی چاہییں۔ ثبوت کے بغیر محض الزامات سے حالات درست ہونے کے بجاے مزید بگڑ سکتے ہیں۔

گریسا اور اس صوبے کے دیگر علاقے مسلمان آبادی پر مشتمل ہیں۔ ینگ مسلم ایسوسی ایشن نے آزادی کے بعد ۱۹۶۰ء کے عشرے میں گریسا میں ایک بہت بڑا اسلامی مرکز قائم کیا تھا۔ الحمدللہ یہ اب بھی موجود ہے۔ اس مرکز میں یتیم بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ نظام تعلیم میں عصری اور جدید دونوں نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔  چند سال قبل جب اس شہر میں سرکاری یونی ورسٹی قائم ہوئی تو اس سے اس اسلامی مرکز کو بھی خاصی تقویت پہنچی۔ اس سے قبل یہاں سے میٹرک اور انٹر کے بعد طلبہ کو نیروبی، ممباسااور کسومو یا دیگر بڑے شہروں کی طرف جانا پڑتا تھا، جو یہاں سے خاصے دُور واقع ہیں۔ گذشتہ سالوں کے دوران اسلامی مرکز گریسا اور اسلامک فاؤنڈیشن نیروبی کی طرف سے قائم کردہ دیگر شہروں میں تعلیمی اداروں سے نکلنے والے طلبہ سرکاری اور پرائیویٹ یونی ورسٹیوں سے ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اہم سرکاری اور سفارتی عہدوں پر فائز ہیں۔ یونی ورسٹیوں میں مسلم یوتھ آرگنائزیشن بھی منظم انداز میں کام کررہی ہے۔ اس طرح کے پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں اس کا کام بھی بُری طرح متاثر ہوا ہے۔

گریسا کے واقعے نے ملک بھر میں عمومی طور پر اور تعلیمی اداروں میں بالخصوص خوف وہراس کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس گمبھیر صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نیروبی یونی ورسٹی کے ایک ہوسٹل میں ۱۱اور ۱۲؍اپریل۲۰۱۵ء کی درمیانی شب، صبح صادق کے وقت دھماکے کی آواز سے خوف و ہراس پھیل گیا کہ دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے، حالانکہ یہ دھماکا بجلی کے نقص کے باعث ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں بھگدڑ سے ایک طالب علم جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔

تیسری دنیا اس وقت آتش فشاں کے دہانے پر ہے۔ اس کے پیچھے بڑی طاقتوں اور ان کی ایجنسیوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے، مگر ترقی پذیر مسلم وغیرمسلم ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو خود اپنے حالات درست کرنے کی فکر کرنا ہوگی۔ محض دوسروں کو ذمہ دار قرار دینے سے حالات نہیں سدھر سکتے۔

 

اس عالم رنگ وبو میں خالق کائنات نے انسان کو اپنا خلیفہ اور نائب بنایا اور اس کے ذمے یہ کام لگا کہ وہ اللہ اور صرف اللہ کی بندگی اختیار کرے۔ ساری مخلوق اس کے لیے مسخر کی گئی اور اسے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا پابند بنایا گیا۔ انسان کا مقصدِ حیات رضاے الٰہی اور فلاح اخروی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ انسان اپنے اس مقصد سے عموماً دور بھاگتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ o’’اورمیرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں‘‘ (سبائ۳۴:۱۳)۔ جو مخلص اہلِ ایمان اللہ کی رضا اور اس کے دین کے غلبے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ان کے سامنے مشکلات، آزمایش وابتلا اور کٹھن مراحل کا آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ اس قافلے کو اپنے عظیم مقاصد کے حصول کی خاطر جان کی بازی بھی لگانا پڑتی ہے اور قیدوبند، دارورسن کے علاوہ بھوک، خوف اور نقصانِ اموال کی منزلوں سے بھی گزرنا پڑتا  ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کمزور ہے، اسے حوصلہ پانے کے لیے کوئی سہارا درکار ہوتا ہے۔ اللہ کی ذات ہی اصل سہارا ہے اور نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی ایمان افروز زندگیاں اس کو استقامت وعزیمت کی راہ دکھلاتی ہیں۔ آج امت پر انتہائی کڑا وقت آن پڑا ہے۔ ان پرآشوب حالات میں سیرتِ رسولؐ کا مطالعہ محض روایتی انداز میں نہیں بلکہ اس کی حقیقی روح کے ساتھ ضروری ہے۔

دنیا میں ہر عظیم مقصدتک پہنچنا، عظیم قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے ہی میں ممکن ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو فریضہ سونپا گیا تھا وہ بہت مشکل تھا۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنا اور باطل کے ہر جھنڈے کو سرنگو ں کردینا، اللہ کی شریعت کا نفاذ اور ادیانِ باطلہ کو شکست سے دوچار کردینا بعثتِ رسولؐ کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ اس مقصد کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن پاک میں تین مرتبہ ایک ہی انداز اور یکساں الفاظ میں اسے دہرایا گیا ہے:  ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o( التوبۃ۹:۳۳) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔(سورۂ فتح، آیت۲۸ اور سورۂ صف، آیت۹ بھی اسی موضوع پر ہیں)۔

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے مطابق مکہ اور اس کے گرد ونواح میں دعوت دین کا کام شروع کیا تو جاہلی معاشرے میں ہل چل مچ گئی، جیسے آپ نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔ آپؐ کی مخالفت میں قریش کے تمام سردار اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور تو اور آپؐ  کا حقیقی چچا ابولہب مخالفت میں ان سب سے آگے آگے تھا۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے کا ہرحربہ اختیار کرتا۔ آنحضوؐر کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اپنے مکان کی چھت سے آنحضوؐر کے گھر میں غلاظت پھینکنے سے بھی باز نہ آتا۔کبھی کبھار تو ہنڈیا پک رہی ہوتی تو بدبخت اوپر سے غلاظت پھینک دیتا۔ ابولہب کے علاوہ آپ کے دیگر پڑوسی بھی اسی قماش کے لوگ تھے، مثلاً عقبہ بن ابی معیط، حَکم بن عاص اور عدی بن حمرائ۔ ان سب کی حرکات بھی ابولہب کی طرح ہی کی تھیں۔ یہ کس قدر اذیت ناک بات تھی اس کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی ہمت ہاری اورنہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات کہی جو آپؐ  کے شایان شان نہ ہو۔ آپؐ  اتنا فرماتے:’’ اے بنو عبدمناف تم کیسے ہمسایے ہو، کیا ہمسایگی اسی کو کہتے ہیں؟‘‘ ۔ (تفہیم القرآن،ج۶،دیباچہ سورۂ لہب، ص۱۱۱۔ بحوالہ بیہقی، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ابن عساکر، ابن ہشام)

اس سارے عرصے اور مشکل منزلوں میں آپؐ  کی سرپرستی کا حق آپؐ  کے چچا جنابِ ابوطالب نے خوب ادا کیا۔ ہرچند کہ انھوں نے اسلام تو قبول نہ کیا،مگر اپنے بھتیجے کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے رہے۔ شعب ابی طالب میں بھی انھوں نے آپؐ  کا ساتھ دیا، جہاں تین سال اہلِ ایمان اور بنوہاشم کو (ماسواے ابولہب اور اس کے اہل وعیال کے) مقید رکھا گیا۔ اس دور کی تلخ یادیں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہ بھولیں، حتیٰ کہ فتح مکہ کے وقت بھی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اس گھاٹی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے آپؐ  نے فرمایا کہ اے جابر! تمھیں معلوم ہے کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟ جب انھوں نے لاعلمی ظاہر کی تو آپؐ  نے فرمایا : ’’یہ شعب ابی طالب ہے، جہاں ہم لوگوں کو تین سال تک مقید رکھا گیا۔ ہمارے بچے بھوک سے بلبلاتے رہے، ماؤں کی چھاتیوں میں دودھ تک خشک ہوگئے تھے اور ہم لوگ درختوں کے پتے اور چھال کھانے پر مجبور کردیے گئے تھے‘‘۔ (البدایۃ والنہایۃ، المجلد الاول، ص۵۰۷)

ان سخت آزمایشوں میں بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ آپؐ  نہ صرف خود ڈٹے رہے بلکہ تمام اہلِ ایمان کو بھی حوصلہ دیتے رہے۔ اس سب کچھ کے ساتھ وہ واقعہ بھی اپنی جگہ بڑا ایمان افروز ہے، جب سردارانِ قریش نے ایک قومی وفد بنا کر آپؐ  کے چچا ابوطالب کے پاس بھیجا اور کہا کہ تمھارے بھتیجے نے گھر گھر میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس کام کو چھوڑ دے اور اس کے بدلے میں ہم اس کے ہر مطالبے کو پورا کردیں گے۔ اس پر جناب ابوطالب نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور سردارانِ قریش کی پیش کش آپؐ  کی خدمت میں رکھی۔ آپؐ  نے اس کے جواب میں فرمایا: اُرِیْدُ مِنْھُمْ کَلِمَۃً وَاحِدَۃً یَقُوْلُوْنَھَا تَدِیْنُ لَھُمْ بِھَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّی اِلَیْھِمْ بِھَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ ،’’چچا جان! میں تو ان کے سامنے ایک ایسا کلمہ پیش کرتا ہوں کہ اسے تسلیم کرلیں تو سارے عرب ان کے مطیعِ فرمان ہوجائیں اور پورا عجم ان کو جزیہ دینے لگے‘‘۔ جب آپؐ  نے ان کے سامنے کلمۂ طیبہ رکھا تو سب نے انکار کردیا۔ پھر آپؐ  نے اپنے چچاسے کہا: ’’چچا جان ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لاکر رکھ دیں اور مجھ سے کہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تو میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا۔ یا تو اللہ   اس دین کو غالب کردے گا یا میں اس راستے میں اپنی جان قربان کردوں گا‘‘(سیرت ابن ہشام، ج۲،ص۱۰۱۔ البدایۃ والنہایۃ ، المجلدالاول، ص۴۸۴-۴۸۵)۔دیگر کئی مواقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکل ترین حالات میں بارہا یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو ضرور غالب کرے گا۔ حضرت مقداد بن اسودؓ کی روایت کے مطابق آپؐ  نے فرمایا: ’’ کرۂ ارض پر کوئی پکا اور کچا گھر گھروندہ، کوئی چمڑے اور اون کا خیمہ ایسا نہیں ہوگا جس میں یہ دین داخل نہ ہو۔عزت والے عزت کے ساتھ اس میں داخل ہوں گے اور انکار کرنے والوں کو بھی آخر ذلت کے ساتھ اس میں آنا پڑے گا‘‘۔ (مسنداحمد، ج۶،ص۴)

حضرت خدیجہؓ اور جناب ابوطالب ۱۰نبوی میں وفات پاگئے۔ اس سال کو عام الحزن کہا جاتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں شخصیات سے بے پناہ محبت تھی اور دونوں نے آپؐ  کے مشن میں آپؐ  کا ساتھ نبھانے کا حق بھی بطریق احسن ادا کیا۔ غم کے باوجود آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمت ہار کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ مکہ سے ذرا فاصلے پر عرب کے دوسرے بڑے شہر طائف کا دعوتی سفر اختیار کیا۔ طائف میں آپؐ  کی دعوت ووعظ کو سن کر وہاں کے ظالم لوگوں نے آپؐ  پر ہرجانب سے پتھر برسانا شروع کردیے۔ حضرت زید بن حارثہؓ جو رفیق سفر تھے، آپؐ  کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر شہر سے باہر لائے۔ آپؐ  کو بری طرح زخمی کیا گیا تھا جس سے آپؐ  بے ہوش بھی ہوگئے تھے۔ حضرت زید بن حارثہؓ نے چشمے کے پانی سے آپؐ  پر چھینٹے ڈالے تو آپؐ  ہوش میں آئے۔ وادیِ نخلہ کی وہ رات بڑی یادگار تھی جب اچانک آپؐ  کے پاس حضرت جبریل ؑ اور پہاڑوں کا نگران فرشتہ حاضر ہوئے اور آپ کو سلام عرض کرنے کے بعد اجازت چاہی کہ اہلِ طائف کو اس ظلم وسفاکی کی پاداش میں دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے، مگر آپ نے فرمایا: ’’نہیں ہرگز نہیں۔ میں ان لوگوں کی تباہی کے لیے کیوں دعا کروں اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے تو کیا ہوا؟ امید ہے کہ ان کی آیندہ نسلیں ضرور ایک اللہ پر ایمان لے آئیں گی‘‘۔ (تاریخ طبری،ج۲، ص۳۴۵)

اس رات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا مانگی وہ بھی بہت عظیم ہے: ’’الٰہی میں اپنی کمزوری، بے سروسامانی اور لوگوں کی تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں۔ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، درماندہ عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے۔ مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے، کیا بیگانہ ترش رُوکے یا اس دشمن کے جو میرے معاملات پر قابو رکھتا ہے، لیکن مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں، کیونکہ تیری عافیت میرے لیے زیادہ وسیع ہے، میں تیری ذات کے نور کی پناہ چاہتا ہوں، جس سے سب تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دنیا ودین کے کام اس سے ٹھیک ہوجاتے ہیں، میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر اترے یا تیری نارضامندی مجھ پر وارد ہو۔ مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت، مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے۔ (مسلم، عن عائشہؓ، کتاب الجہاد والسیر،حدیث۱۷۹۵، رحمۃ للعالمینؐ،ج۱،ص۷۴، از قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری، مطبوعہ ادارہ، معارف اسلامی،لاہور)

نبوت کے تیرھویں سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلنے پر مجبورکردیا گیا۔ ہجرت کی رات آپؐ نے مکہ کی طرف منہ کرکے یہ کہا تھا :’’ اے ارض مکہ! تو اللہ کی بہترین زمین ہے۔ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں، تیرے اندر اللہ کا گھر ہے، میں تجھے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا، مگر تیرے رہنے والوں نے مجھ پر زمین تنگ کردی ہے ‘‘ (البدایۃ والنہایۃ ، المجلدالاول، ص۵۷۸)۔ ہجرت کا سفر شروع ہوا تو قدم قدم پر مشکلات اور جان کا خطرہ، مگر مجال ہے کسی مقام پر آپؐ  کے قدم ڈگمگائے ہوں یا بد دلی و مایوسی کا اظہار کیاہو۔ محسنِ انسانیتؐ نے ہر مشکل مرحلے میں امیدوں کے چراغ جلائے اور حوصلوں کو مہمیز دی۔ غارِ ثور میں یارِ غار کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ دشمن کھوج لگاتے ہوئے وہاں تک آپہنچے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن آپہنچے ہیں، ہم پکڑے گئے ہیں، مگر آپ نے فرمایا: مَاظَنُّکَ بِاِثْنَیْنِ اَللّٰہُ ثَالِثُہُمَا یَا اَبَابَکْرٍ لَاتَخَفْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا، یعنی  اے ابوبکر!تجھے ان دو کے بارے  میں کیا خطرہ لاحق ہوگیا ہے جن کا تیسرا ساتھی خود اللہ ہے، ہرگز نہ ڈرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ ، المجلدالاول، ص۵۶۴)۔ اسی مضمون کو سورۂ توبہ میں اللہ نے یوں بیان فرمایا ہے: ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبۃ۹:۴۰) ’’(یاد کرو)جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا، غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔

 ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں سفر ہجرت کی تفصیلات میں فرماتے ہیں کہ غار کے دھانے پر مکڑی نے فوراً جالا تان لیا اور کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیے۔ مشہور شاعر صرصری نے اپنی نعت کے ایک شعر میں لکھا:

فَغَمٰی عَلَیْہِ الْعَنْکَبُوْتُ بِنَسْجِہٖ

وَ ظَلَّ عَلَی الْبَابِ الْحَمَامُ یَبِیْضٗ

(ایضاً، ص۵۶۴-۵۶۵)

سیرت کا مشہور واقعہ ہے کہ اسی سفر ہجرت میں انعام حاصل کرنے کے لالچ میں دیگر مہم جو نوجوانوں کی طرح سراقہ بن مالک بن جعشم بھی آپؐ  کے تعاقب میں نکلا اور آپؐ  کے قریب پہنچ گیا، مگر اس کے گھوڑے کے پاؤں دو مرتبہ زمین میں دھنس گئے۔ وہ خوف زدہ ہوا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی: ’’اے ابن عبدالمطلب! مجھے معاف کردو‘‘۔ آپؐ  نے فرمایا: ’’میں نے تجھے معاف کردیا‘‘۔ اس نے کہا کہ ازراہِ احسان اپنی امان مجھے لکھ کر بھی دے دیجیے۔ اس زمانے میں جو قلم وقرطاس کا زمانہ نہیں تھا اور اس کیفیت میں آپ کو اپنے گھر سے نکال دیا گیاتھا، سفر کی حالت میں یہ مطالبہ بظاہر کتنا عجیب بلکہ مضحکہ خیز نظر آتا ہے، مگر دیکھیے کہ نبیِ رحمتؐ اس حال میں بھی سرتاپا جود وسخا کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی ایمرجنسی میں قیصروکسریٰ بھی کسی کو پروانہ لکھ کر نہ دے سکتے، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہؓ(یا بعض روایات کے مطابق حضرت ابوبکرؓ) سے کہا کہ اسے لکھ کر دے دیجیے۔ چنانچہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر اسے امان   لکھ کر دی گئی۔ اسی موقع پر آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ کو یہ خوش خبر بھی سنائی تھی کہ ایک دن شہنشاہِ ایران کسریٰ کے سونے کے کنگن اس کے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے۔ (البدایۃ والنہایۃ، الاول، ص۵۶۶ -۵۶۷)۔ دیکھیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مشکل ترین حالات میں بھی کس قدر جرأت مند، فیاض اور مستقبل کے حالات اور اسلام کی کامیابی سے پرامید تھے۔

ہجرت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا گیا۔ ۲؍ہجری میں ابوجہل کی سرکردگی میں قریش مکہ کا ایک ہزار کا لشکر جرّار پورے سازوسامان سے لیس، مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر ۸۰ میل کے فاصلے پر بدر کے مقام پر اس لشکر کا مقابلہ کیا۔ آپؐ  کے ساتھ صرف۳۱۳جانثار تھے، جن کے پاس نہ تو پورا اسلحہ تھا، نہ ہی جنگی لباس تھا اور نہ کھانے پینے کے لیے وافر خوراک اور راشن ہی تھا۔ اس کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے میدان میں پہنچ کر مختلف مقامات پر اپنے نیزے سے نشان لگائے اور فرمایا کہ قریش کا فلاں سردار اس جگہ اور فلاں اس جگہ قتل ہوجائے گا اور لوگوں نے دیکھا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوگئی۔ کفار کا لشکر بدترین شکست سے دوچار ہوا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مشکل گھڑی میں اتنے ثابت قدم تھے کہ آپ نے کفار سے ذرا برابر مرعوبیت اور خوف محسوس نہیں کیا بلکہ صحابہؓ کو بھی اتنا حوصلہ دیا کہ وہ لشکرجرار سے بے جگری سے لڑے اور ۷۰ کفار کو قتل کرنے کے علاوہ ستر دشمن جنگی قیدی بنا لیے۔ (ایضاً،ص۶۰۸،۶۱۱)

غزوۂ احد، خندق اور حنین سخت ترین معرکے تھے۔ احد میں تو بالخصوص صحابہؓ کی ایک اجتہادی غلطی کے نتیجے میں فتح شکست میں بدل گئی۔ ستر صحابہ کرامؓ شہید ہوئے۔ آنحضور کے محبوب چچا حضرت حمزہؓ کی لاش کا مُثلہ کیا گیا۔ اس کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم استقامت کا پہاڑ بنے میدان جنگ میں ڈٹے ہوئے تھے۔ سورۂ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: إِذْ تُصْعِدُوْنََ وَلَا تَلْوُوْنََ عَلٰٓی أحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ فِیْٓ اُخْرَاکُمْ فَأَثَابَکُمْ غَمًَّام بِغَمٍّ لِّکَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَآ أَصَابَکُمْ وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo (اٰلِ عمرٰن۳:۱۵۳)’’یاد کرو جب تم بھاگے چلے جارہے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمھیں نہ تھا، اور رسول تمھارے پیچھے تم کو پکار رہا تھا۔ اس وقت تمھاری اس روش کا بدلہ اللہ نے تمھیں یہ دیا کہ تم کو رنج پر رنج دیے تاکہ آیندہ کے لیے تمھیں یہ سبق ملے کہ جو کچھ تمھارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر ملول نہ ہو۔ اللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے‘‘۔ 

احادیث میں جنگ ِاُحد کے حوالے سے یہ تذکرہ ملتا ہے کہ آپ میدان جنگ میں ڈٹے ہوئے تھے اور مسلسل کہہ رہے تھے: اِلََیَّ عِبَادَاللّٰہ (تفہیم القرآن،ج۱،ص۲۹۵)۔ ابوسفیان نے جب پہاڑ کے نیچے کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ ہم نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کردیا ہے۔ پھر بڑ ہانکی کہ ہم نے ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکرؓ کو بھی قتل کردیا ہے، تو آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خاموش رہو۔ پھر اس نے کہا کہ ہم نے جری جوان عمربن خطاب کو بھی قتل کردیا ہے۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! جواب دو۔ حضرت عمرؓ نے کہا: نَحْنُ کُلُّنَا اَحْیَائٌ نَسْمَعُ کَلَامَکَ یَا عَدُوَّاللّٰہِ،’’یعنی اے دشمن خدا ہم سب زندہ ہیں اور تیرا کلام سن رہے ہیں‘‘۔ پھر اس نے کہا ’’ہُبل سربلند ہوا‘‘اور اس کے ساتھ ہی کہا ’’ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا ہے‘‘۔ اس کے جواب میں حضرت عمرؓ نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کہا : اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ لَا سِوَائَ، قَتَلَانَا فِی الجَنَّۃِ وَقَتَلَاکُمْ فِی النَّارِ،’’یعنی اللہ ہی بلندوبالا اور شان والا ہے ۔ بدر کا بدلہ تم کیسے لے سکتے ہو، ہمارے شہدا جنت میں چلے گئے ہیں اور تمھارے مقتولین دوزخ میں۔ ابوسفیان نے کہا اگلے سال پھر ہمارا تمھارا مقابلہ بدر میں ہوگا۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو جواب دو کہ ہمیں یہ چیلنج قبول ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ ، المجلدالاول، ص۶۸۶-۶۸۷، تفہیم الاحادیث، ج۶، ص۱۰۷، ستمبر۲۰۰۰ئ)۔اگلے سال آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ بدر کے میدان میں گئے، مگر ابوسفیان اور اس کی فوج کو ہمت نہ پڑی کہ وہ مقابلے کے لیے نکلتے۔

اسی موقعے پر شہدا کی تدفین کے بعد جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس پہنچے تو خبر ملی کہ ابوسفیان پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تاکہ مالِ غنیمت اور قیدی مکہ لے جائے۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو پکارا جو کمال جرأت وعزیمت کے ساتھ تیار ہوکر اللہ کے راستے میں نکلے۔ اس واقعہ کا تذکرہ خود قرآن مجید میں سورۂ آلِ عمران میں اللہ رب العزت نے شان دار الفاظ میں کیا ہے۔ آیت نمبر۱۷۲سے لے کر ۱۷۵ تک صحابہ کرامؓ کو اللہ نے وہ تمغہ عطا فرمایا ہے کہ جس کا کوئی بدل دنیا میں نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب منافقین اور یہودیوں نے اہلِ ایمان کو خوف زدہ کرنا چاہا تو انھوں نے کہا: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ،’’یعنی ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسازہے‘‘۔ ابوسفیان کا ارادہ واقعی واپس پلٹ کے حملہ کرنے کا تھا، مگر صحابہ کی جرأت واستقامت کی خبر پا کر وہ مدینہ کی طرف آنے کے بجاے مکہ کی طرف بھاگ گیا۔ اس جنگ کو غزوۂ حمراء الاسد کہا جاتا ہے۔

غزوہ خندق بھی بہت مشکل مرحلہ تھا۔ سورۃ الاحزاب میں اس کی شدت کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے: اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنََ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنََا (الاحزاب۳۳:۱۰) ’’جب دشمن اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے ، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے‘‘۔  اتنے مشکل حالات میں صادق الایمان اہلِ مدینہ ڈٹے رہے اور خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محاذ پر قیادت کا حق ادا کرتے رہے۔ آپؐ  کا حوصلہ اتنا بلند اور فکر اتنی عظیم تھی کہ آپؐ  مستقبل کی خوش خبریاں سنا رہے تھے۔ خندق کی کھدائی کے دوران بھی چٹان کو کدال سے توڑتے ہوئے آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو جزیرہ نماے عرب سے باہر کی فتوحات کی بشارتیں دی تھیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے اس جنگ کے دوران نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لن تغزوکم قریش بعد عامکم ہذا ولکنکم تغزونھم،یعنی اب قریش کے لوگ تم پر کبھی چڑھائی نہ کرسکیں گے۔ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے۔ ‘‘(دلائل النبوۃ للبیہقی، ج۳،ص۴۵۸)

غزوۂ حنین اور غزوۂ تبوک کے واقعات بھی قرآن وسنت میں تفصیلاً بیان کیے گئے ہیں۔ یہ دونوں مشکل مرحلے تھے، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے میدان میں بھی پیچھے ہٹنے کے بجاے آگے بڑھ رہے تھے اور مسلسل فرمارہے تھے: اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ، اَنَا بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ۔ اسی طرح غزوۂ تبوک میں بھی جب صحابہؓ نے کچھ سستی دکھائی تو اللہ نے بھی سورۂ توبہ میں ان کو جھنجھوڑا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہت موثر خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں آپؐ  نے کہا: ’’اگر کوئی بھی قیصر روم کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ نکلا تو میں تن تنہا (اللہ کے بھروسے پر) اس کے مقابلے کے لیے نکلوں گا اور اسے عرب کی سرحد پر جا کر روکوں گا‘‘۔ (البدایۃ والنہایۃ ، المجلدالاول، ص۹۰۴)

 سیرت کے یہ سارے واقعات امت کو حوصلہ دینے، پرامید رہنے اور ہمیشہ کمرِ ہمت باندھے رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آج امت کے ہر چھوٹے بڑے کو شدید ضرورت ہے کہ وہ سیرت کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کرے کہ ان پُرآشوب حالات میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے کیا درس فراہم کرتی ہے۔ قرآن کا حکم ہے: وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن۳:۱۳۹)۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک ایک ورق اس آیت کی عملی تفسیرہے۔ دنیا سے قیصروکسریٰ کی نام نہاد سپریمیسی ہمارے اسلاف نے ختم کردی تھی۔ آج ہم انھی کے اَخلاف ہونے کے باوجود ، دورِ جدید کی نام نہاد سپر طاقتوں سے مرعوب اور اپنی حقیقت سے بے خبر ہیں، نہ وہ روح ہے ، نہ سوچ، نہ ایمان ہے نہ سوزویقین۔ بس اسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر اسلام دنیا کا غالب دین بن کر رہے گا:

خداے لم یزل کا دستِ قدرت  ُتو ، زباں  ُتو ہے

یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے

مٹایا قیصروکسریٰ کے استبداد کو جس نے

وہ کیا تھا ، زورِ حیدرؓ ، فقرِ  ُبوذرؓ ، صدقِ سلمانیؓ

اسلام دینِ حق ہے۔ کلمۂ طیبہ کے اندر اللہ کی وحدانیت، ربوبیت اور حاکم مطلق ہونے کا ایمان وعقیدہ موجود ہے۔ یہ کلمہ پڑھنے کے باوجود بدقسمتی سے آج کے مسلمان بھی ان خرابیوں میں ملوث ہوگئے ہیں جن میں مشرکین عرب مبتلا تھے۔ شگون،فال گیری، جادو اور ٹونے ٹوٹکے اس حد تک ہمارے معاشرے میں رواج پا چکے ہیں کہ بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے یہ معاشرہ اسلامی نہیں جاہلی معاشرہ ہے۔ جادواور فال گیری کا دھندہ کرنے والے معاشرے میں یوں نمایاں ہوگئے ہیں کہ ملک کے درودیوار پر جابجا چاکنگ نظر آتی ہے۔ اب تو یہ بیماری یہاں تک پھیل چکی ہے کہ اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے اندر بھی اشتہار بازی کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو اس سے برا شگون لینا۔ اسی طرح اور مختلف باطل تخیلات، مثلاً کوئی پرندہ دائیں سے بائیں جائے گا تو کامیابی ملے گی اور اگر بائیں سے دائیں جائے گا تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔ جادو گروں نے عام لوگوں کا ذہن مسموم اور ماؤف کردیا ہے۔ محبت میں کامیابی وناکامی، دشمن کو زیرکرنے کے لیے گنڈے، تعویذ کا گھناؤنا دھندہ عام ہوگیا ہے۔ کمزور ایمان اور باطل عقائد کی وجہ سے کاروبار چمکانے کے لیے ان نوسر بازوں سے رجوع، یہ سال کیسا ہوگا اور یہ ہفتہ کیسا؟ غرض  کون سی بیماری ہے جو یہاں نہیں پائی جاتی۔ اس معاشرے میں منجّم اور ستاروں کا علم رکھنے کے دعوے دار بھی خوب چاندی بنارہے ہیں۔ بے چارے جہلا نہیں جانتے کہ یہ سب انجم شناس محض دعوے اور اٹکل پچو کے ذریعے ان کی جیبیں کاٹ رہے ہیں۔

بقول اقبالؒ     ؎

ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے

کہ خاکِ زندہ ہے ُتو ، تابعِ ستارہ نہیں

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں تشریف لائے وہ مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا جاہلی معاشرہ تھا۔ آپؐ نے اس معاشرے کو پہلے باطل عقائد سے پاک کیا، پھر صحیح اسلامی عقائد کے مطابق اعمال اختیار کرنے کی تربیت دی اور بالکل ایک نئی ملت کو وجود بخشا، جس کا ہر کام قرآن وسنت اور دلیل ومنطق کے معیار پر پورا اترتا تھا۔ مشرکین عرب ماہِ صفر اور ماہِ شوال کو منحوس سمجھتے تھے،  حضرت محمد بن راشدرضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اہلِ جاہلیت صفر کو  منحوس سمجھتے ہیںتو آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ یہ باطل عقیدہ ہے۔ ماہِ صفر میں کوئی منحوس بات نہیں ہے(سنن ابی داؤد، ح۳۹۱۶)۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ    عرب شوال کو منحوس سمجھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس مہینے میں شادی نہیں کرنی چاہیے اور نہ کسی مہم پر نکلنا چاہیے،کیوںکہ اس مہینے میں کوئی فعل کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ مزید فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط رسم کو ختم کیا اور آپؐ نے میرے ساتھ ماہِ شوال ہی میں نکاح کیا تھا۔ پھر یہ دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی زوجہ مجھ سے زیادہ نصیبے والی ثابت ہوئی۔ (مسلم، ح ۳۵۴۸)۔حضرت عائشہؓ اپنے خاندان کی بچیوں کی شادی کے لیے ماہِ شوال منتخب کیا کرتی تھیں تاکہ شوال کے بارے میں پرانے عقائد کہیں پھر سے سر نہ اٹھا لیں۔

قرآن پاک میں واضح طور پر بیان فرما دیا گیا ہے کہ نفع ونقصان کا تعلق نہ کسی دن اور موسم سے ہے اور نہ کسی خاص چیز اور مخلوق ہی سے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ کس کو کب نفع دے گا اور کب اس کے مقدر میں نقصان ہوگا۔ انسان کو ہر عمل شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کام بذات خود حلال اور جائز ہے یا حرام اور ناجائز۔ اگر حلال وجائز نہ ہو تو اس کا ارادہ بھی ترک کردینا ہوگا۔ حلال ہے تو اس کا آغاز اور نیت کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھنی چاہیے اور اللہ رب العالمین سے خیروبرکت مانگنی چاہیے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ نفع ونقصان کا مالک اللہ ہے۔ ساری دنیا کے انسان بھی مل کر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔  اسی طرح تمام بنی نوع انسان مل کر بھی کسی کو نفع نہیں دے سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔ صرف حوالے کے لیے ایک آیت لکھ رہے ہیں، اگرچہ اس موضوع پر بہت سی آیات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ارشاد باری ہے: وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَـلَا کَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ہُوَ وَإِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔‘‘ اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (یونس۱۰:۱۰۷)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری دعائیں ہیں جن میں آپؐ نے درپیش کام اور مہم میں کامیابی کے لیے اللہ سے رجوع کیا۔ ایک مختصر اور جامع دعا یہ ہے: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ، مَاشَائَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَائْ لَمْ یَکُنْ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ، اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں میں تجھی پر توکل کرتا ہوں اور تو عرش عظیم کا مالک ہے، اللہ جو چاہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہ چاہے وہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ میرا کوئی زور اور قوت نہیں سوائے اللہ پر بھروسے کے، جو بہت بلند اور عظمت والا ہے۔ (البیہقی، الاسماء والصفات، باب ماشاء اللّٰہ کان، ح۳۴۰، روایت حضرت ابوالدرداءؓ)۔ جو لوگ کمزور عقیدے اور توہمات کے جال میں پھنس جاتے ہیں ان کو منزل ہاتھ نہیں آتی۔ بعض اوقات ان کی حرکتیں اپنے انھی توہمات کی بدولت انھیں اضحوکہ (مضحکہ خیز) بنادیتی ہیں۔ یہ مثالیں آج بھی نظر آتی ہیں اور عربوں کے بھی بے شمار واقعات تاریخ میں مذکور ہیں۔ کالے علم کا دھندہ کرنے والے بعض اوقات اپنے ہی گاہکوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں، جب کہ کم وبیش تمام گاہک بھی اپنی عزت، آبرو اور جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس سے بڑا نقصان اور المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان اور عاقبت کو برباد کرلیتے ہیں۔

مفسرین نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک عرب اپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ذوالْخَلَصَہ نامی بت کے آستانے پر جاکر اس نے فال کھلوائی۔ جواب نکلا یہ کام نہ کیا جائے۔ اس پر عرب طیش میں آگیا، کہنے لگا:

لَوْکُنْتَ یَاذَالْخَلَصِ الْمَوْتُوْرَا

مَثَلِیْ وَکَانَ شَیْخُکَ الْمَقْبُوْرَا

لَمْ تَنْہَ عَنْ قَتْلِ الْعُدَاۃِ زُوْرَا

(اے ذوالخلصہ اگر میری جگہ تو ہوتا اور تیرا باپ مارا گیا ہوتا تو ہر گز تو جھوٹی بات نہ کہتا کہ ظالموں سے بدلہ نہ لیا جائے۔)

ایک اور عرب اپنے اونٹوں کا گلہ اپنے معبودسعد نامی کے آستانے پر لے گیا تاکہ ان کے لیے برکت حاصل کرے۔ یہ ایک لمبا تڑنگا بت تھا، جس پر قربانیوں کا خون لتھڑا ہوا تھا۔ اُونٹ اسے دیکھ کر بدک گئے اور ہر طرف بھاگ نکلے۔ عرب اپنے اونٹوں کو اس طرح تِتر بِتر ہوتے دیکھ کر غصے میں آگیا۔ بت پر پتھر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ’’خدا تیرا ستیاناس کرے۔ میں آیا تھا برکت لینے کے لیے اور تونے میرے رہے سہے اونٹ بھی بھگا دیے۔(تفہیم القرآن، جلد۳، ص۴۶۵-۴۶۶)

اللہ تعالیٰ نے سورئہ مائدہ کی آیت ۹۰ میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ ’’شراب، جوا، آستانے اور پانسے، یعنی فال گیری اور نیک وبدشگون لینا سب گندے شیطانی اعمال ہیں۔ ان سے پرہیز کرو‘‘۔  غلط رسومات اور جادو کے دھندے میں ایسے ایسے حرام کام کرنے کی اطلاعات میڈیا میں آتی رہتی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ عرب بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ سورۂ انعام آیت۱۳۸ میں  اللہ نے فرمایا کہ یہ جاہل لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ جانور ایسے ہیں جن پر سواری اور باربرداری حرام ہے اور کچھ جانور ایسے ہیں جن کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لینا چاہیے۔ یہ سب کچھ ان کی طرف سے اللہ پر افترا باندھا گیا ہے۔ بہت جلد اللہ ان افتراپردازیوں پر ان کو سزا دے گا۔ (۶:۱۳۶)

نجومیوں اور دست شناسوں کے پاس جانا اور ان سے مستقبل اور غیب کی خبریں جاننے کی کوشش کرنا ضعفِ ایمانی اور عقیدے کی کمزوری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح ستاروں اور سیاروں کے حساب اور زائچے سب لغو اور فضول اعمال ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا    ؎

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا

وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں

مختلف آفات سے بچنے کے لیے بلاشبہ اللہ کا کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون دعائیں بہت کارگر ہیں۔ مُعَوِّذَتَیْن (سورۃ الفلق و سورۃ الناس) آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے وقت میں نازل ہوئی تھیں جب آپؐ پر یہودیوں نے جادو کیا تھا۔ ان کو پڑھ کر انسان اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ اسی طرح آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی دعائیں بھی بہت بااثر ہیں۔ یہ دعائیں بے شمار ہیں مگر ایک آدھ دعا بھی یاد ہو تو انسان کو اللہ رب العالمین کی طرف سے حفاظت مل جاتی ہے۔ آپؐ صحابہؓ کو بھی تلقین کرتے تھے کہ وہ گھروں کے اندر اور بچوں کے اوپر آنے والی بلاؤں سے ان دعاؤں کے ذریعے اللہ کی پناہ حاصل کریں۔ آپ کی ایک مختصر دعا ہے: اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ، میں اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، اس کے جامع کلمات کے ذریعے، ہر مخلوق کے شر سے۔ (مسلم، ح۷۰۵۳) اسی طرح آپ نے یہ دعا بھی سکھائی: اَعُوْذُ بِعِزَّۃِ اللّٰہِ وَقُدْرَتِہٖ مِنْ شَرِّ مَا اَجِدُ وَاُحَاذِرُ، یعنی میں اللہ کی عزت وقدرت کی پناہ میں اپنے آپ کو دیتا ہوں ہر اس شر کے مقابلے پر جس سے میرا سامنا ہو کہ اللہ مجھے اس سے محفوظ رکھے۔ (مسلم، ح۵۸۶۷) ۔قرآن پاک میں بھی اللہ نے بہت سی دعائیں سکھائی ہیں: وَقُل رَّبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ہَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ o وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ o (المومنون ۲۳: ۹۷-۹۸) یعنی دعا کرو کہ ’’پروردگار، میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے میرے رب، میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں‘‘ ۔ اسی طرح ایک اور دُعا ہے: رَبِّ یَسِّرْ وَلاَتُعَسِّرْ وَتَمِّمْ بِالْخَیْرِ، ’’اے میرے رب میرے کام کو آسان بنا دے مشکلات دور فرما دے اور اس منصوبے کو خیروبرکت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچا دے‘‘۔

بنگلہ دیش میں بلدیاتی انتخابات کا جو مرحلہ وارسلسلہ ۱۹فروری ۲۰۱۴ء کو شروع ہوا تھا     وہ ۳۱مارچ ۲۰۱۴ء کو مکمل ہوگیا۔ بنگلہ دیش کی آبادی کم وبیش ۱۶کروڑ ہے اور یہاں کُل اضلاع ۶۴ہیں۔ یہاں سب ڈویژن یا تحصیل کہنے کے بجاے سب ڈسٹرکٹ یا اُوپا ضلع (Upazila) کہا جاتا ہے۔ کل ۴۸۷؍اُوپا ضلع ہیں۔ ان میں سے۴۶۹ میں انتخابات ہوسکے، جن میں سے بیش تر کے نتائج کا الیکشن کمیشن نے اعلان کردیا ہے۔ ۴۵۵ تحصیلوں میں حکومت اور اپوزیشن میں مقابلہ ہوا۔ ان انتخابات میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ بڑے چونکا دینے والے ہیں۔ حکمران عوامی لیگ نے ان انتخابات میں جو دھاندلیاں کی ہیں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مرحلہ وار انتخابات کے نتائج کو دیکھیں تو پہلے مرحلے میں عوامی لیگ کی حکومت، بی این پی جماعت اسلامی اتحاد کے مقابلے میں شکست کھا گئی تھی۔

پہلے مرحلے کی ان تحصیلوں میں سے ایک پیرگنج بھی تھی، جو حسینہ واجد کے انتخابی حلقے کا حصہ ہے۔ یہاں عوامی لیگ کا اُمیدوار براے چیرمین سیادت حسین تمام تر دھاندلی کے باوجود ۷۰ہزار۸سو۷۷ ووٹ حاصل کرسکا، جب کہ اس کے مدمقابل بی این پی کے اُمیدوار نور محمد مندل نے ۴۷ہزار۹سو۴۲ ووٹ لے کر یہ نشست جیت لی۔اس دوران بی این پی کے عہدے داران نے ایک پریس کانفرنس میں جو ڈیلی نیو ایج میں ۲۱فروری ۲۰۱۴ء کو چھپی، اس خدشے کا اظہار کیاتھا کہ اپنی شکست دیکھ کر عوامی لیگ حکومت اگلے مراحل میں انتخابی نتائج چرانے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں کو پولیس گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال رہی ہے۔ جماعت اسلامی اور بی این پی کے عہدے داران نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا مگر حکومت کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔

الیکشن کے شیڈول کے دوسرے مرحلے سے قبل ہی عوامی لیگ نے تشدد، ماردھاڑ،    قتل وغارت گری اور مخالف اُمیدواروں کے علاوہ ان کے حامیوں بلکہ عام ووٹرز کو بھی اس قدر ہراساں کردیا کہ جو لوگ ووٹ دینے کے لیے آئے وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے نکلے۔ کئی اُمیدوار اور ان کے فعال کارکنان جیل میں ڈال دیے گئے۔ اس کے باوجود عوامی لیگ اس مرحلے میں بھی شکست کھاگئی۔ تیسرا مرحلہ دوسرے مرحلے کے دو ہفتے بعد، یعنی ۱۵مارچ کو آیا تو عوامی لیگ نے ایسی صورت حال پیدا کردی کہ جس میں ووٹ ڈالنے والوں کو پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے کے لیے چھلنی سے گزارا گیا، اور ستم بالاے ستم یہ کہ بیلٹ بکس راتوں رات عوامی لیگ کے حامی اُمیدواروں کے حق میں ووٹوں سے بھر دیے گئے۔ اس ظالمانہ بندوبست کے باوجود عوامی لیگ معمولی اکثریت حاصل کرپائی۔ چوتھے مرحلے میں، یعنی ۲۳مارچ۲۰۱۴ء کو عوامی لیگ نے دھاندلی اور تشدد میں   اتنا اضافہ کردیا کہ اپوزیشن اتحاد سے متعلق نمایندوں نے اپنے ووٹرز کی جانیں بچانے کے لیے بائیکاٹ کی دھمکی دی اور عملاً ۱۵ سے ۲۰ تک حلقوں میں اپوزیشن اُمیدواروں نے بائیکاٹ کردیا۔

چوتھے مرحلے کے انتخابی معرکے میں عوامی لیگ کی حکومتی سطح پر غنڈا گردی نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر عملاً ووٹ ڈالے ہی نہ جاسکے۔ انتخابی عملہ خاموش بیٹھا رہا اور عوامی لیگ کے کارکن ٹھپے لگا لگا کر بیلٹ بکس بھرتے رہے۔ یوں حکومتی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ جب آخری اور پانچواں مرحلہ ۳۱مارچ کو ہوا تو تمام غیرملکی مبصرین نے ماحول کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اس ووٹنگ کو انتخاب کہنا انتخابات اور جمہوریت کے ساتھ بدترین اور سنگین مذاق ہے۔ بی این پی نے اس انتخاب کا عملاً بائیکاٹ کردیا۔ اسے عوامی لیگ نے یک طرفہ بلڈوز کیا لیکن عوام کی شدید نفرت کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس کے باوجود عوامی لیگ کے ۵۳چیرمین کے مقابلے میں عوام نے بی این پی کے ۱۴ اور جماعت اسلامی کے تین نمایندے کامیاب کروادیے۔    ہرچند کہ حکومتی ٹولے نے ہرمرحلے میں ظلم وستم اور بددیانتی ودھاندلی کے ذریعے نتائج کواپنے حق میں بدلا ہے۔

اب آئیے مرحلہ وار تجزیہ کرکے دیکھیں کہ حسینہ واجد کے ظالمانہ اقدامات نے کس طرح ان انتخابات کو ایک دل چسپ ڈراما بنا دیا ہے:

پہلا مرحلہ:             عوامی لیگ: ۳۷ فی صد        بی این پی +جماعت اسلامی۶۳ فی صد

دوسرا مرحلہ:         عوامی لیگ:۳۹ فی صد         بی این پی+جماعت اسلامی:۶۰ فی صد

تیسرا مرحلہ:           عوامی لیگ:۵۳ فی صد         بی این پی+جماعت اسلامی:۴۷ فی صد

چوتھاا مرحلہ:         عوامی لیگ:۶۳ فی صد         بی این پی+جماعت اسلامی:۳۷ فی صد

پانچواں مرحلہ:       عوامی لیگ:۷۶ فی صد         بی این پی+جماعت اسلامی:۲۴ فی صد

یہ صرف چیرمینوں کا تجزیہ ہے وائس چیرمینوں (مردوخواتین) کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو ۱۹فروری کو جو عوامی لیگ ۳۷ فی صد پر تھی، وہ ۳۱مارچ کو ۷۶ فی صد پر جاپہنچی۔ یاللعجب! اسی طرح جو اپوزیشن ۶۳ فی صد کی اکثریت رکھتی تھی صرف چھے ہفتے میں ۲۴ فی صد پر لے آئی گئی۔ کیا یہ منصفانہ انتخابات ہیں!!

اگر مجموعی تجزیہ کریں تو پوزیشن یہ بنتی ہے:

عوامی لیگ ٹوٹل چیرمین:     ۲۲۱        (۳۶ء۵۲فی صد)

اپوزیشن اتحاد (پی این پی اور جماعت اسلامی):  ۲۰۱        (۶۴ء۴۷فی صد)

ان انتخابات کے دوران ایک دل چسپ اور حوصلہ افزا بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جماعت اسلامی کے خلاف موجودہ بنگلہ دیش حکومت کے حد سے بڑھے ہوئے انتقامی وظالمانہ اقدامات کے باوجود جماعت کی حمایت میں کمی کے بجاے اضافہ ہو ا ہے۔ جماعت کو حسینہ واجد حکومت نے از حد غیراخلاقی وغیرقانونی حربے استعمال کرتے ہوئے خلافِ قانون قرار دے دیا ہے۔ اس کی ساری قیادت جیلوں میں بند ہے اور بیش تر راہ نماؤں کو سزاے موت سنا دی گئی ہے۔

جماعت کے راہنما جناب دلاورحسین سعیدی (سابق ممبرپارلیمنٹ) کے صاحبزادے مسعود سعیدی اپنے آبائی علاقے میں تحصیل کے چیرمین منتخب ہوچکے ہیں۔ مسعود سعیدی نے تحصیل ضیانگر کے انتخابات میں چیرمین کی نشست ۲۱ہزار۷۷ ووٹوں سے جیتی ہے۔ ان کے مدمقابل حکومتی اُمیدوار عبدالخالق غازی جو دوسرے نمبر پر تھے، صرف ۶۶۱۵ ووٹ حاصل کرسکے اور پھر پُرتشدد کارروائیوں پر اتر آئے۔ واضح رہے کہ مولانا دلاور حسین سعیدی بھی اس علاقے سے بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمانی انتخاب جیتتے رہے ہیں۔ اس طرح کے کئی دیگر واقعات بھی ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب عوامی لیگ نے قتل وغارت گری کا ایک نیا دور شروع کردیا ہے جس کا بڑا ہدف جماعت اسلامی اور چھاتروشبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کے ذمہ داران وکارکنان ہیں۔ اب تک کئی شہادتیں ہوچکی ہیں مگر عوامی لیگ سے نفرت بھی اسی تناست سے روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔

بی این پی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالم گیر، جماعت اسلامی کے   قائم مقام امیر جناب مقبول احمد اور قائم مقام سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمن صاحب نے الگ الگ بیانات میں واضح الفاظ میں اظہار کیا ہے کہ انھوں نے ان بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر عوام کی راے معلوم کرنے اور آیندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب اس غاصب حکومتی ٹولے کے خلاف بھرپور عوامی احتجاج کے ذریعے نئے سرے سے جدوجہد کا آغاز کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف کئی تجزیہ نگار یہ لکھ رہے ہیں کہ عوامی لیگ ۲۰۱۹ء تک اپنے اقتدار کے دوران ون پارٹی رول کی فضا بنانے کا پروگرام رکھتی ہے۔ وڈروولسن انٹرنیشنل سنٹر واشنگٹن میں سابق امریکی سفیر ولیم بی میلام (William B. Milam) نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ گذشتہ دوعشروں میں بنگلہ دیش کی معیشت نے جو کچھ حاصل کیا ہے موجودہ حکمرانوں کی جمہوریت کش پالیسیوں کی وجہ سے اس کے تباہ وبرباد ہوجانے کا خدشہ اور امکان موجود ہے۔ (دی ایکسپریس ٹریبون ۸؍اپریل ۲۰۱۴ء)

اس کائنات کے خالق نے انسان کو اپنا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا تو ملائکہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کیا تو دنیا میں ایک ایسی مخلوق کو آباد کرنا اور اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہے جو وہاں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا‘‘۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا: ’’میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔ اللہ نے انسان کو اس کرہ ارضی پر آباد کر دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ انسانوں کے درمیان پہلی موت قتل کے نتیجے میں واقع ہوئی۔ آدمؑ کے ایک بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو ناحق قتل کردیا۔

’’اور ذرا انھیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اس نے کہا ’’میں تجھے مار ڈالوں گا‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھائوں گا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے۔ ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے‘‘۔ آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۲۷ تا ۳۰)

اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی کسی ایک انسان کو ناحق قتل کرتا ہے تو گویا وہ پوری انسانیت کا قاتل ہوتا ہے اور جو ایک جان کو بچاتا ہے وہ پوری انسانیت کو بچانے کا انعام حاصل کر لیتا ہے۔ اس قانون کو انہی آیات کے بعد اللہ تعالیٰ نے انبیائے بنی اسرائیل کو دی گئی شریعت کے تناظر میں یوں بیان فرمایا: ’’تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۴۵)

قرآن مجید میں قصاص کو انسانی زندگی کی حفاظت کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔ یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے درد ناک سزا ہے‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۷۸ - ۱۷۹)

اب قاتل کے بارے میں حکم یہی ہے کہ مقتول کے ورثا اسے قصاص میں قتل کرانا چاہیں تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ کوئی حکمران یا مجلس قانون ساز، اس بارے میں شریعت اسلامیہ کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ البتہ ورثا کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ بغیر کسی خون بہا کے محض اللہ کی خاطر بھی معاف کرسکتے ہیں، یا خون بہا وصول کرکے جان بخشی کرسکتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی آپشن بھی وہ نہ اپنائیں تو قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا جائے گا۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون میں خون بہانے کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں خون ریزی کا لامتناہی سلسلہ رک جاتا ہے۔ اگر قاتل ورثاے مقتول کی رضا کے بغیر قصاص سے بچ نکلے تو فطری طور پر متاثرہ فریق کے دل میں انتقام کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور پھر قتل مقاتلے کا غیرمطلوب اور تباہ کن دروازہ کھل جاتا ہے۔ جو خون ریزی ایک مجرم کو سزا دینے کی صورت میں رُک سکتی تھی وہ معاشرے میں قتل مقاتلے اور خون ریزی کا متعدی مرض یوں پھیلاتی ہے کہ بسا اوقات بیسیوں اور سیکڑوں قیمتی جانیں دونوں طرف سے اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس کی مثالیں سیکڑوں نہیں ہزاروں میں موجود ہیں۔

اگر کسی معاشرے میں لاقانونیت اور بدامنی کا دور دورہ ہو اور پھر قانون قصاص بھی معطل یا منسوخ کر دیا جائے تو قاتل جری ہو جاتے ہیں اور معصوم شہری موت کا ترنوالہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ آج یہی چیز ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔ جن معاشروں میں قانون قصاص اپنی پوری روح کے ساتھ نافذ ہے وہاں اِکا دُکا خون ریزی تو ہوسکتی ہے مگر تھوک کے حساب سے قتل کی وارداتیں ہرگز پروان نہیں چڑھ سکتیں۔ دنیا کے تمام ممالک اور تمام اقوام کے درمیان یہ قانون موجود رہا ہے اور اس پر عمل صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے کیوں کہ آسمانی شرائع میں اس کے احکام کے علاوہ خود انسانی فطرت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ یہی انصاف اور امن کا راستہ ہے۔

اب یہ الٹی گنگا پچھلی صدی سے مغرب کی بے خدا تہذیب میں چل نکلی کہ مظلوم سے ہمدردی کے بجاے ظالم سے ہمدردی کے جذبات انگیخت کیے جائیں۔ اس کے لیے مغرب کے دانش وروں سے بلکہ نظام ہاے حکومت اور این جی اوز سے لے کر سرکاری ادارے اور پوری ریاستی مشینری تک اس کام میں جُت گئی کہ اپنے اس نظریہ باطل کو حق ثابت کریں اور پوری دنیا کو باور کرائیں کہ قاتل کا خون مباح نہیں۔ پھر یہ بتایا جائے کہ آخر مقتول کا خون کیوں اور کس اصول و ضابطے کے تحت مباح قرار پا سکتا ہے؟ اس کا کوئی اخلاقی و انسانی اور عقلی و منطقی جواز آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔ یہ عجیب تہذیب اور ناقابل فہم روشن خیالی ہے کہ مظلوم کے بجاے ظالم سے ہمدردی اور قاتل کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ تہذیب نہیں بلکہ یہ تو وحشیانہ پن اور سنگ دلی کی بدترین مثال ہے۔ پھر یہی نہیں کہ ان ممالک نے اپنے ہاں یہ ظالمانہ روش رائج کر دی ہے بلکہ وہ پوری دنیا کو اس پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ بھی اسے اپنائیں۔ اگر نہ اپنائیں تو ان پر ہر طرح کا دبائو ڈالا جائے اور اس ظالمانہ قانون کو مسترد کرنے کی صورت میں اس پورے معاشرے کو نشانہ انتقام بنایا جائے۔

یورپین یونین کے ممالک مالی امداد کے لیے اب تیسری دنیا کے ممالک پر یہ شرط بھی عائد کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک سے قانونِ قصاص ختم کریں اور سزاے موت کو منسوخ کر دیں۔ تجارتی دبائو کے حربے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ دنیا کے بیش تر ممالک نے وقت کی اس رو اور پروپیگنڈے کے اس طوفان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور وہاں سزاے موت منسوخ ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود دنیا کے سب سے بڑی آبادی کے تمام مشرقی و مغربی ممالک میں اب تک سزاے موت کا قانون نافذ العمل ہے۔ ان ممالک میں چین، بھارت، امریکا، انڈونیشیا، اور جاپان شامل ہیں۔ دنیا کا اہم اور واحد ایٹمی مسلمان ملک پاکستان عجیب منافقت اور مخمصے کا شکار ہے۔ قانونِ قصاص ملک میں اب تک موجود ہے مگر اسے منسوخ کرنے کے عزائم سامنے آرہے ہیں۔ گذشتہ چھے سات سالوں سے یہ معطل ہے۔ یہ طرزِ عمل انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ قرآن کے واضح حکم اور نص صریح کی بھی خلاف ورزی ہے جو اکبر الکبائر میں شمار ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرمؐ نے فتح مکہ کے موقع پر جو اہم ہدایات ارشاد فرمائی تھیں ان میں ایک یہ حکم تھا کہ اگر کوئی شخص ناحق قتل کر دیا جائے تو مقتول کے ولی (ورثا) کو یہ حق ہے کہ وہ قاتل سے خون بہا وصول کرکے اسے معاف کر دیں یا اپنے مقتول کے بدلے میں اسے قتل کرنے کا مطالبہ کریں۔ (بحوالہ مسلم، حدیث نمبر ۲۴۹۳ روایت حضرت ابوہریرہؓ)۔ پاکستان کے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے سرتابی بلکہ بغاوت کرکے وہ کس انجام سے دوچار ہوں گے۔

اسلام کا ہر حکم پوری انسانیت کے لیے پیغام حیات ہے۔ اس میں عدل و انصاف بھی ہے اور مکمل مساوات انسانی اور غیر جانبداری کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ اس قانون کے ہوتے ہوئے کوئی کمزور محض اپنے وسائل کی کمی کی وجہ سے انصاف سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور کوئی طاقت ور اپنے ذرائع و وسائل اور اثر و رسوخ کی بدولت انصاف کا گلا نہیں گھونٹ سکتا۔ اگر کسی بڑے نے جرم کیا ہے تو وہ اس کے بدلے میں ماخوذ ہوگا، چھوٹے نے کیا ہے تو وہی جوابدہ ہوگا۔ عورت اور مرد دونوں اس اصولِ انصاف کے سامنے یکساں مسئول ہیں۔ ارشاد باری پہلے گزر چکا ہے کہ: الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثٰی بِالْأُنْثٰی۔

نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں بالکل واضح احکام دیے ہیں۔ اسلام میں کسی انسان کا خون خواہ وہ کافر ہو یا مسلم مباح نہیں جب تک کہ اس نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جس پر قرآن و حدیث میں سزاے موت کا حکم دیا گیا ہو۔ علماے حق نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ خون کے مباح ہونے کی اسلام میں پانچ شرائط یا پانچ جرائم ہیں، جن کا تذکرہ آگے آ رہا ہے۔ ان میں سے جس جرم کا بھی ارتکاب کیا گیا ہو، جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا موت ہے۔ اللہ نے حکم دیا ہے کہ قتل کا ہرگز ارتکاب نہ کیا جائے سواے حق کے ساتھ۔

’’قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اس کی مدد کی جائے گی‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳)

مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’(بعد میں) اسلامی قانون نے قتل بالحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا: ایک قتل عمد کے مجرم سے قصاص، دوسرے دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ۔ تیسرے اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا۔ چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکابِ زنا کی سزا۔ پانچویں ارتداد کی سزا۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، بنی اسرائیل حاشیہ ۳۴)

اسی طرح مقتول کے وارث یا ولی کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ حد سے تجاوز نہ کرے۔

’’اصل الفاظ ہیں ’’اس کے ولی کو ہم نے سلطان عطا کیا ہے‘‘۔ سلطان سے مراد یہاں ’’حجت‘‘ ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اس سے اسلامی قانونی کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیائے مقتول ہیں، اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجاے خون بہا لینے پر راضی ہو سکتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، بنی اسرائیل حاشیہ ۳۵)

مقتول کا خاندان اور ورثا خود سے انتقام اور قصاص پر عمل نہیں کرسکتے۔ یہ ریاست اور اس کے نظام عدالت کی ذمہ داری ہے۔ مولانا مودودی تحریر فرماتے ہیں: ’’قتل میں حد سے گزرنے کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں۔ مثلاً جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا، یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا، یا مار دینے کے بعد اس کی لاش پر غصہ نکالنا، یا خوں بہا لینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ۔

چونکہ [ان آیات کے نزول] تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولا گیا کہ اس کی مدد کون کرے گا۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظامِ عدالت کا کام ہے۔ کوئی شخص یا گروہ بطور خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصولِ انصاف کے لیے اس سے مدد مانگی جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، بنی اسرائیل حاشیہ ۳۶-۳۷)

قانونِ قصاص کے خلاف جتنا بھی واویلا کیا جائے، یہ حقیقت ہے کہ ۵۸ ممالک میں آج بھی سزاے موت کا قانون موجود ہے۔ ۹۷ ممالک نے اسے قانوناً یا عملاً ختم کر دیا ہے۔ ۳۵ ممالک ایسے ہیں کہ وہاں سزاے موت کے خاتمے کا کوئی قانون منظور نہیں ہوا مگر سزاے موت پر عمل بھی دس بارہ سال سے کبھی نہیں ہوا۔ یوں عملاً یہ ان ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں سزاے موت نہیں ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق ۱۴۰ ممالک میں سزاے موت کا عمل ختم ہوچکا ہے۔ ان میں یورپین یونین کے تمام ممالک جن کی تعداد ۴۷ ہے شامل ہیں۔ ترکی واحد مسلمان ملک ہے جو ان میں شامل ہے۔ دیگر تمام مسلم ممالک میں سزاے موت یا قصاص کا قانون موجود ہے، گو پاکستان میں بھی تقریباً چھے سال سے اس پر عمل درآمد رکا ہوا ہے۔

میاں نواز شریف صاحب نے اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح مغرب کی مرعوبیت سے خوف زدہ ہوکر اس قرآنی و نبوی قانون کو تعطل کا شکار بنا رکھا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ۶۰ فی صد سے زائد عالمی آبادی کے خطوں میں یہ قانون اب تک لاگو ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل،  یواین او اور دیگر این جی اوز جن کا ضمیر مغرب کی تہذیب سے اٹھا ہے۔ اس سزا کے خلاف اپنی مہم تیز سے تیز تر کرتے چلے جا رہے ہیں اور نہ ماننے والوں پر پابندیاں لگانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں مگر امریکا اور چین جیسے ویٹو پاور رکھنے والے ممالک اور آبادی و وسائل کے لحاظ سے انتہائی طاقت ور اقوام اس کے حق میں نہیں۔ اقوام متحدہ نے جنرل اسمبلی اور سیکورٹی کونسل میں ۲۰۰۷ء، ۲۰۰۸ء اور پھر ۲۰۱۰ء میں سزاے موت کے خاتمے کے لیے قرارداد منظور کیں مگر ان کو بڑی قوتوں نے ویٹو کردیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایمنسٹی جو عدل و انصاف کی علَم بردار بنتی ہے، قاتل اور مجرم کی پشت پناہ بنی کھڑی ہے اور مظلوم کے زخموں پر نمک ہی نہیں مرچیں بھی چھڑک رہی ہے۔ آخر ان اداروں کی ایسے معاملات میں ان پالیسیوں کی موجودگی کیا اخلاقی حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔

جہاں تک مسلمان ممالک اور بالخصوص اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کا تعلق ہے تو حکمرانوں، پالیسی سازوں اور تمام اہلِ وطن کی خدمت میں ہم نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ’’حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص خطا اور بھول چوک یا نشانہ بازی میں مارا گیا یا کوڑا لگنے سے قتل ہوگیا تو اس کی دیت قتل خطا والی ہے۔ اور جو عمداً قتل کیا گیا تو قاتل سے اس کا قصاص لیا جائے گا۔ اگر کوئی اس میں رکاوٹ بنتا ہے تو اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔ (بحوالہ سنن ابی داؤد، کتاب الدیات حدیث ۳۹۹۶ ، ابن ماجہ، کتاب الدیات، حدیث ۲۶۳۱)

پاکستان کے حکمرانو، خدا کے لیے سوچو! اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کی وعید کچھ کم نہیں۔ کاش! اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کی آنکھوں سے پٹی اتر جائے!

 

اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن جنوبی افریقہ کی طرف سے ان کے سالانہ کنونشن میں شرکت کا دعوت نامہ کافی دن پہلے مل چکا تھا۔ کنونشن سے قبل کئی ایک دیگر پروگرام بھی منتظمین نے طے کررکھے تھے۔۱۴؍اپریل کوجوہانس برگ پہنچا ۔ ۳۰؍اپریل کو تین دن کے لیے جوہانس برگ سے نیروبی گیا۔ یہ تین دن صبح شام مصروفیت میں گزرے۔ اسلامک فاؤنڈیشن، ینگ مسلم ایسوسی ایشن اور دیگر اسلامی تنظیموں نے کئی پروگرام مرتب کررکھے تھے۔ ۴ مئی کو واپس جوہانس برگ پہنچا۔  ایک دو پروگرام جو رہتے تھے، بالخصوص پریٹوریا میں اسلامک سرکل کے اجتماع میں حاضر ی دی۔  نیروبی کا قیام مختصر مگر بہت دل چسپ تھا، تاہم اس کے بارے میں کچھ کہنے کی یہاں گنجایش نہیں۔ ان سطور میں انتہائی اختصار کے ساتھ جنوبی افریقہ کے کچھ احوال پیش خدمت ہیں۔

براعظم افریقہ کا سب سے طاقت ور اور موثر ملک جنوبی افریقہ ہے۔ سفید فام اقلیت سے ۱۹۹۴ء میں آز ادی کے بعد اس کا سرکاری نام بھی ری پبلک آف ساؤتھ افریقہ ہے۔ یہاں برطانوی سامراج کئی صدیوں تک مسلط رہا۔آج سے ایک صدی قبل مقامی سفید فام لوگوں نے جن کا مجموعی آبادی میں تناسب ۲۰سے ۲۵فی صد تھا، یک طرفہ طور پر برطانوی سامراج سے علیحدہ ہوکر اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ کم وبیش ایک صدی تک ان لوگوں نے مقامی آبادی پر نسلی امتیاز کی پالیسیوں کے ذریعے بے انتہا مظالم ڈھائے۔ سب سے زیادہ آبادی مقامی افریقی لوگوں کی تھی، دوسرے نمبر پر سفید فام، تیسرے نمبر پر مخلوط نسل جن کو کلرڈ کہا جاتا ہے، اور سب سے چھوٹی اقلیت ایشیائی آبادی پر مشتمل تھی جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ یہ مسلمان ہندستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاقوں سے مختلف وجوہات کی بنا پر وہاں منتقل ہوئے تھے۔ افریقی بلکہ غیر سفید فام تمام آبادی، ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم تھی۔ ان کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر تھی۔

 بیسیویں صدی کے آغاز ہی سے آزادی کے لیے لوگوں نے خفیہ طو رپر جدوجہد شروع کردی تھی۔ اس صدی کے پانچویں عشرے میں باقاعدہ تحریک آزادی نے اپنا وجود قائم کیا اور خود کو منوایا۔ نیلسن منڈیلا قومی وحدت کی علامت بن کر ابھرا اور تمام مظلوم طبقات اس کے پیچھے  کھڑے ہوگئے۔ منڈیلا کو بے انتہا اذیتوں سے گزرنا پڑا۔ کم وبیش ۲۸ برس جیل کی سلاخوں کے  پیچھے رہا۔ وہ خطرناک ترین ’دہشت گرد‘ قرار پایا۔ نسلی امتیاز کی بنیاد پر قائم نظام حکومت نے  تحریک آزادی کے کارکنان کو بری طرح کچلا، مگر طلبہ جب اس تحریک میں شامل ہوئے تو تحریک نے زور پکڑ لیا۔ طویل جدوجہد کے بعد پوری دنیا کی توجہ بھی اس مظلوم خطے کی طرف مبذول ہوئی۔ آخر اقلیتی حکمرانوں کے ساتھ تحریک آزادی کے کئی معاہدوں کے بعد جن میں عالمی اداروں نے بھی کردار ادا کیا، ۱۹۹۴ء کے انتخابات میں افریقن نیشنل کانگریس، نیلسن منڈیلا کی قیادت میں بھاری اکثریت سے جیت گئی اور آزادی کا سورج طلوع ہوا۔

 نیلسن منڈیلا باباے قوم اور انتہائی مقبول شخصیت ہے۔ چار چار سال کی دو میقات صدارتی محل میں گزارنے کے بعد پوری قوم کے مطالبے کے باوجود اس نے جارج واشنگٹن کی طرح تیسری مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ اس کے نائب مسٹر مبیکی تھابو نے بھی اسی روایت کو قائم رکھا۔ اس وقت تیسرا صدر مسٹر زوما برسراقتدار ہے۔ یہ اس کی پہلی میقات ہے۔ ملک میں کثیر الجماعتی جمہوریت ہے۔انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں، سفید فام پارٹی بھی انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور پارلیمان میں موجود ہے۔ میدانِ سیاست میں حکمران پارٹی افریقن نیشنل کانگریس کے سامنے کوئی بڑا چیلنج نہیں مگر مختلف افریقی گروپوں نے اپنی اپنی پارٹیاں قائم کررکھی ہیں جو آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہیں۔ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے کچھ زیادہ ہی حصہ امور مملکت میں حاصل ہے۔ یہ بجا طور پر تحریک آزادی میں ان کی شرکت کا صلہ ہے۔ حلال فوڈ اور گوشت بھی مجلس علما کے دوگروپوں کے سرٹیفکیٹ سے فراہم کیا جاتا ہے۔

جنوبی افریقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ افریقہ میں سب سے مضبوط اقتصادی حالت اسی کی ہے، جب کہ پوری دنیا میں معاشی میدان میں اس کا ۲۸واں نمبر ہے۔ سفید فام آبادی میں یہودی خاصی تعداد میں ہیں اور دنیا کے مال دار ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ذرائع آمدنی میں زراعت، معدنیات، بالخصوص سونا اور ہیرے، صنعت، اور سیاحت اہم شعبے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی اڑھائی سے تین فی صد ہے۔ مسلمان بڑے شہروں میں مقیم ہیں اور مالی لحاظ سے خوش حال ہیں۔ مقامی آبادی میں دعوت اسلام کے بڑے مواقع ہیں۔ مسلمانوں نے اس میدان میں آزادیِ اظہار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منظم منصوبہ بندی کرکے کوئی کام نہیں کیا۔ الحمدللہ اب کچھ پیش رفت شروع ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں جمعیت العلما اور تبلیغی جماعت کافی منظم اور مؤثر ہیں۔ ان کا بہت مضبوط نیٹ ورک پورے ملک میں موجود ہے۔ یہاں کی مساجد بہت خوب صورت اور صاف ستھری ہیں۔ مدارس میں بھی بچوں کو اچھی اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ ہندی الاصل مسلمانوں کی مساجد میں تمام سہولیات کے باجود عمومی طور پر خواتین کے لیے پروگراموں میں شرکت کی گنجایش نہیں ہوتی۔ اس مرتبہ البتہ یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض مساجد کے ساتھ خواتین کے لیے بھی نماز اور اجتماعات کا اہتمام کیا جارہا ہے، یہ بہت خوش آیند ہے۔

جمعیت العلما اور تبلیغی جماعت کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی تنظیم اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن ہے۔ یہ تنظیم بھی آزادی سے قبل قائم ہوئی تھی اور اس نے فلاحی کاموں کے علاوہ تعلیمی اور دعوتی میدان میں بھی اب قدم رکھ دیا ہے۔ یہ ایسوسی ایشن مسلمان ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم فیما (فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز) کی بھی ممبر ہے۔ اس فیڈریشن میں عمومی طور پر فلسطین، اردن، ترکی، پاکستان، ملائیشیا اور جنوبی افریقہ کے ڈاکٹر زیادہ فعال اور منظم ہیں۔ اس کے موجودہ صدر اردن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد احمد مشعل ہیں۔ پاکستان کے ڈاکٹر تنویرالحسن زبیری اور ڈاکٹر حفیظ الرحمان بھی اس کے مرکزی ذمہ داران میں شامل ہیں۔ جنوبی افریقہ کے جسمانی لحاظ سے معذور مگر انتہائی فعال اور باہمت ڈاکٹر اشرف جی دار بھی فیڈریشن کی مرکزی مجلس میں شامل ہیں۔

ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے مسلمان ہی نہیں عام افریقی اور حکومت  بھی فلسطینیوں کے ساتھ بہت زیادہ یک جہتی و ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ  نسلی امتیاز کی پالیسی نے ان کو کس قدر اذیت پہنچائی تھی۔ وہ صہیونیوں کے شدید مخالف ہیں۔ اسی طرح یہاں کے مسلمان طالبانِ افغانستان کے حامی اور امریکا و ناٹو کے سخت خلاف ہیں۔ مسئلہ کشمیر سے یہاں کوئی خاص دل چسپی نہیں پائی جاتی اور اس کی وجوہ ہیں۔

 اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ساؤتھ افریقہ گذشتہ ۳۰ برس سے باقاعدگی کے ساتھ اپنا سالانہ کنونشن منعقد کرتی ہے۔ یہ مختلف شہروں میں ہوتا رہتا ہے۔ اس کی کل حاضری عموماً ۴۰۰،۵۰۰ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ غیرڈاکٹر شرکا جو ڈاکٹروں کے اہل خانہ میں سے ہوتے ہیں، بھی شریک محفل ہوتے ہیں۔ یوں تعداد کافی زیادہ ہوجاتی ہے۔ مجھے کئی مرتبہ اس سالانہ کنونشن میں شرکت کی دعوت ملتی رہی، مگر میں اس میں دو مرتبہ ہی شریک ہوسکا۔ پہلی بار ۱۹۹۷ء میں اور دوسری مرتبہ اس سال ماہِ اپریل میں۔ ڈاکٹر حضرات تین دن کے سالانہ کنونشن میں بہت سلیقے اور ترتیب کے ساتھ اپنا پروگرام مرتب کرتے ہیں۔ بعض پروگرام اکٹھے ایک ہال میں ہوتے ہیں، جب کہ کئی ایک پروگرام تین چار مختلف ہالوں میں شرکا کو تقسیم کرکے متنوع موضوعات پر منظم کیے جاتے ہیں۔ ان پروگراموں کی جامعیت یہ ہے کہ ان میں دروس قرآن وحدیث بھی ہوتے ہیں اور مختلف اسلامی موضوعات پر ڈاکٹر اور دیگر حضرات کے لیکچر بھی رکھے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ میڈیکل کے تمام شعبوں کے متعلق ماہرین کے نہایت اعلیٰ علمی و تکنیکی لیکچر ہوتے ہیں۔ ہر پروگرام کے بعد سوال وجواب کا دل چسپ سلسلہ بھی چلتا ہے۔ نماز باجماعت کا مثالی اہتمام ہوتا ہے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے احباب ڈاکٹروں، پروفیسروں، تاجر، صنعت کار اور محنت مزدوری کرنے والے طبقات پر مشتمل ہیں۔ پاکستانی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ بیش تر لوگ یہاں کا پاسپورٹ حاصل کرچکے ہیں۔ یہاں تحریکی احباب نے اپنا ایک نظم قائم کیا ہے جو آہستہ آہستہ منظم ہورہا ہے۔ اس کا نام اسلامک سرکل آف ساؤتھ افریقہ ہے۔ ۱۷،۱۸ مقامات پر اس کے وابستگان کسی نہ کسی صورت میں خود کو حلقے کی صورت دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہر مقام کے ذمہ داران سے رپورٹ لی جاتی ہے۔ مرکزی دفتر جوہانس برگ میں ہے۔ اس وقت ڈاکٹر سید شبیرحسین صدر، ڈاکٹر فیاض حمید سیکرٹری اور ڈاکٹر طاہر مسعود خازن ہیں۔ خواتین میں بھی کام منظم ہورہا ہے۔ میرے لیے آئی ایم اے کی دعوت میں کشش اس وجہ سے تھی کہ اپنے تحریکی احباب کے کام کی کارکردگی، جس کا بیج ۱۵برس پہلے ڈالا گیا تھا،دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ الحمدللہ میڈیکل ایسوسی ایشن کے کنونشن کے علاوہ آئی ایم اے کے پروگراموں کے تحت کیپ ٹاؤن، ڈربن، کلارک سٹاپ، پولک وین (پرانا نام پیٹرزبرگ) وغیرہ میں جانے اور ڈاکٹروں کے ساتھ تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ گذشتہ سال برادرم اظہر اقبال کو دو مرتبہ یہاں آنے کا موقع ملا اور انھوں نے کام کو منظم کرنے میں مقامی ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان مقامات پر کوئی پاکستانی ڈاکٹر تو نہیں تھا، البتہ ہندی الاصل برادران وخواہران ہر جگہ پروگراموں میں   شریک ہوتے رہے۔ ان مقامات پر جہاں کہیں مساجد میں پروگرام ہوئے وہاں پاکستانی احباب نے بھی شرکت کی۔اسلامک سرکل آف ساؤتھ افریقہ کے تحت دو بڑے پروگرام ہوئے۔ ایک جوہانس برگ میں جس میں گردونواح سے مختلف صوبوں اور شہروں سے احباب نے شرکت کی۔ دوسرا بڑا پروگرام گراہمز ٹاؤن میں تھا، اس میں اس علاقے کے گردونواح سے بیش تر صوبوں اور شہروں سے لوگ آئے تھے۔ ہر دو مقامات پر خواتین بھی شامل تھیں۔ ان کے علاوہ کنگ ولیمز ٹائون اور کوئینز ٹائون میں بھی پروگرام کیے گئے۔

اسلامک سرکل کے پروگرام اردو میں ہوتے تھے، جب کہ اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور مساجد کے تمام پروگرام انگریزی میں۔ ہرجگہ یہ بات زیر غور آئی کہ مقامی آبادی میں کام کیسے کیا جائے؟ اس وقت مجموعی طو رپر اس ملک میں بہت امن وسکون ہے مگر چونکہ مقامی آبادی معاشی لحاظ سے محرومی کا شکار ہے، اس لیے وہ اپنی اس کیفیت اور حالت زار کو بہت محسوس کرتے ہیں۔ آزادی ملنے اور سیاہ فام آبادی کی اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود ابھی تک عام افریقی شہری معاشی و تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے۔ کبھی کبھار ردعمل میں کچھ باتیں خاموش سمندر کی سطح پر آجاتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی تربیت اور معاشی وسماجی ارتقا کا اہتمام نہ ہوا تو کسی وقت بھی یہ لاوا پھٹ سکتا ہے۔ مسلمانوں نے ایسے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جن میں مقامی آبادی کے وہ بچے جن کے والدین کا پتا نہیں، یا جن کی مائیں ہیں اور باپ نامعلوم، یا    جن کے والدین بہت ہی غربت کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کی تعلیم کا اہتمام نہیں کرسکتے، ان اداروں میں داخل کیے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ان بچوں کے لیے ان اداروں میں   آنے کے بعد رہایش، خوراک، لباس اور تعلیم کی مکمل ذمہ داری اسلامی تنظیمیں اپنے ذمے لے لیتی ہیں۔ ان کے والدین اور مقامی آبادی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں رکھتی کہ انھیں مسلمان بنالیا جائے۔ مجھے ڈربن کے علاقے میں ایک چھوٹی دیہاتی آبادی انچانگا میں،وہاں کے اسلامک سنٹر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک صاحب ِخیر میڈیکل ڈاکٹر جناب غلام حسین تتلہ اس کے روح رواں ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ پر مشتمل رقبے پر اس مرکز کی عمارات بھی بہت قابل دید ہیں۔ کچھ کلاسوں میں جاکر ۵ سے ۱۰سال کی عمر کے بچے بچیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تو طبیعت خوش ہوگئی۔ ان سب نے اتنی خوش الحانی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور شش کلمات پڑھ کر سنائے کہ بے ساختہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کا لہجہ بھی بہت اچھا تھا، مخارج بھی درست اور لحنِ بلالی تو تھا ہی!

اس طرح کے مراکز جگہ جگہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ الحمدللہ تمام باعمل مسلمان اس ضرورت کا احساس وادراک رکھتے ہیں۔ دوردراز کی افریقی آبادیوں میں آئی ایم اے کی موبائل ڈسپنسریاں بھی فعال دیکھیں۔ ایک دیہاتی علاقے میں ۳۰، ۴۰ خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو بہت صاف ستھری جگہ پر بٹھانے کی سہولت کے ساتھ ڈسپنسری کو برسرِعمل دیکھا، تو اُن مخیر حضرات کے لیے جو مالی ایثار کر رہے ہیں اور اُن رضاکاروں کے لیے جو میدان عمل میں سرگرم ہیں، دل سے دعائیں نکلیں۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی خدمت کی جارہی ہے وہ اس پر ممنون احسان ہیں، ورنہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خدمت کرنے والوں کو تحسین کے بجاے شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمیں اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر شبیر حسین اور کئی دیگر مسلمان ڈاکٹر آنکھوں میں موتیے کے بلامعاوضہ آپریشن کرنے کے لیے کیمپ لگاتے رہتے ہیں۔ پاکستان سے بھی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ایک کیمپ میں ۹۰کے قریب شفایافتہ مریضوں کے درمیان تقسیم تحائف کی محفل میں مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں اسلام کاتعارف بھی کرایا گیا۔ تمام مریض انتہائی خوش اور ڈاکٹر شبیر اور ان کی ٹیم کے لیے رطب اللسان تھے۔ دیگر تحائف کے علاوہ انھیں قرآن مجید اور رسالہ دینیات کے انگریزی ترجمے دیے گئے۔   یہ بڑا بنیادی کام ہے مگر ذاتی روابط اور اسلام کی عملی تعلیم و تربیت اس سے اگلی اور اصل ذمہ داری ہے۔

وطنِ عزیز پاکستان دو قومی نظریے کی اساس پر وجود میں آیا۔ اس کی بنیاد ’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘ کے ایمان افروز نعرے پر رکھی گئی تھی۔ مدینہ کی بے مثال اسلامی ریاست کے بعد ہماری تاریخ میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی دوسری ریاست ہے۔ اس ریاست کا قیام اہلِ پاکستان کے لیے جہاں ایک بڑا اعزاز تھا، وہیں بہت بڑی آزمایش بھی تھی۔ بد قسمتی ہے کہ اس سرزمین کو صبغۃ اللہ کا نمونہ بنانے کے بجاے بوجوہ غیر اسلامی رنگ میں رنگ دیا گیا۔ اگر یہ ریاست اسلامی رنگ میں رنگ جاتی تو آج عالمِ اسلام کی قیادت کر رہی ہوتی۔ آج اس کی سالمیت بھی خطرے میں ہے۔ سیکولرازم، لسانی و علاقائی تعصبات، مذہبی منافرت و فرقہ واریت اور جاہلی عصبیتوںنے اس نظریاتی ریاست کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ا سلام دشمن قوتیں بالخصوص امریکا ،بھارت اور اسرائیل کی تثلیثِ خبیثہ ہمارے ملک کی سا  لمیت کے خلاف مسلسل سازشیں کرتی رہتی ہیں۔ ان غیر ملکی دشمنوں کو ہمارے نااہل حکمرانوں کی پالیسیاں اور نالائقیاں بھی تقویت پہنچاتی ہیں۔ دشمنانِ اسلام و پاکستان کو ملک کے اندر سے بھی کچھ عناصر مل جاتے ہیں جو ان کا کھیل کھیلتے ہیں۔

اسلام دشمن قوتیں دورِ نبوت و دورِ صحابہ کرام میں بھی امت کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور فتنے اٹھانے میں مشغول رہتی تھیں۔ مدینہ کے انصار دو قبائل اوس و خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔  ان کے درمیان جاہلی دور میں قبائلی جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ مدینہ کے یہودی ان کو لڑا کر ایک طرف ان کی قوت کو ضعف میں بدلتے اور دوسری طرف ان کو سودی قرض میں جکڑتے اور ان کے ہاتھ  اپنا اسلحہ فروخت کرتے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف تھے اور بنو نضیرو بنو قینقاع کی خزرج کے ساتھ  دوستی تھی۔ اسلام کی آمد کے ساتھ دونوں قبائل کے درمیان دشمنی کی جگہ دوستی اور نفرت کی جگہ محبت کے جذبات موج زن ہوگئے۔ یہود کو اس سے بہت مایوسی ہوئی۔ آخر انھوں نے اپنا شیطانی مکر استعمال کیا۔ صحابہ کی ایک مجلس میں  جنگ ِ بعاث کا تذکرہ چھیڑ دیا اور فریقین کے شعرا کے پرجوش رجزیہ اشعار پڑھنے لگے۔ اوس و خزرج کے جذبات بھڑک اٹھے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے بارے میں سوچنے لگے۔ اسی دوران میں نبی اکرمؐ کو اس واقعے کی اطلاع ملی۔ آپؐ فوراً موقع پر پہنچے اور فریقین کو سخت سرزنش کی۔ حضور پاکؐ کی سرزنش اور تذکیر سن کر اوس و خزرج زاروقطار رونے لگے اور ایک دوسرے سے والہانہ بغل گیر ہوگئے۔

قرآن نے بھی اس واقعے کا پورا نقشہ کھینچا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمھیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔ تمھارے لیے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقع باقی ہے، جب کہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں اور تمھارے درمیان اس کا رسولؐ موجود ہے؟ جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہِ راست پالے گا…سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچالیا ‘‘۔(اٰل عمران ۳:۱۰۰، ۱۰۱ ، ۱۰۳)

دشمنانِ اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایسے فتنے اٹھا کر صحابہ کرامؓ کی قدسی جماعت کے درمیان آگ بھڑکانے سے باز نہ آئے، وہ آج کیوں نچلے بیٹھیں گے۔ ان کا آلۂ کار بن جانا کس قدر نقصان دہ ہے، ہر صاحبِ ایمان اور کلمہ گو کو اس پر غور کرنا چاہیے۔    اُمت مسلمہ کے درمیان قتل و غارت گری کے بازار گرم کرنا نہ اسلام کی خدمت ہے، نہ اُمت مسلمہ کی، نہ خود قاتلوں کی۔ یہ سراسر تباہی ہے جو خسر الدنیا والاٰخرۃ کے زمرے میں آتی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا عفریت ننگا ناچ، ناچ رہا ہے اور اتنی قیمتی جانوں کو ہڑپ کر چکا ہے کہ جسدِ ملی ’ تن ہمہ داغ داغ شد‘ کی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔ آئے دن وحشیانہ وارداتیں اور بہیمانہ قتل و غارت گری کی خبریں ذرائع ابلاغ سے شائع اور نشر ہوتی رہتی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز اس ملک میں موجود ہی نہیں ہے۔ ۲۸فروری۲۰۱۲ء کو راولپنڈی سے گلگت جانے والی چار بسوں سے مسافروں کو اتار کر شناخت کے بعد ان میں سے ۱۹؍افراد کو اندھا دھند فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔ ان مقتولین میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ اس واقعے میں ۱۰؍افراد شدید زخمی ہوئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان بسوں کو شمالی علاقہ جات کے قریب ہربن کے مقام پر ۱۴؍افراد نے صبح ۸بجے کے قریب روکا۔ یہ افراد فوجی وردیوں میں ملبوس، مسلح نقاب پوش تھے۔ اس واقعے سے ایک روز قبل نوشہرہ میں ایک سیاسی جلسے میں بم دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میںسات افراد جاں بحق اور ۳۲ زخمی ہوگئے۔ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، صدر اور وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ اور پولیس افسران تک سب واقعے کی مذمت کرتے اور قوم کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ مجرموں کو جلد پکڑ کر کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک ان گھناونے جرائم کے مرتکب افراد کو سزا نہیں دی جاسکی۔      یہ حکمرانوں کی ایسی نااہلی و ناکامی ہے جس کے باعث وہ حق حکمرانی کھو چکے ہیں۔

فرقہ واریت کے نام پر بھڑکائی گئی آگ نے شیعہ سُنّی فساد کے روپ میں بے شمار قیمتی جانوں کو ہڑپ کیا ہے۔ قتل ہونے والوں میں دونوں جانب سے بے گناہ و معصوم شہری گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ بحیثیت مجموعی یہ پوری امت کا نقصان ہے۔ اس کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے حکمرانوں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت کو سنجیدگی سے سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے نہایت بلیغ انداز میں دردِ دل کے ساتھ امت کو سمجھایا تھا    ؎

اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہُشیار باش

اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہُشیار باش

ہماری راے میں بیش تر واقعات میں امریکا ، بھارت اور اسرائیل کی ایجنسیوں کے لوگ ملوث ہوتے ہیں، جن کے پیش نظر پاکستان کی سا لمیت کو ختم کرنا ہے۔ بلوچستان میں قتل و غارت گری کے پیچھے علاقائی و قبائلی عزائم ہوتے ہیں۔ کراچی کی قتل وغارت گری میں بھی لسانی عصبیتوں کا دخل ہے، جب کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بالخصوص گلگت  بلتستان کے علاقوں میں مذہبی منافرت  اس کا سبب ہے۔ گلگت کے اس افسوس ناک واقعے سے ایک ماہ قبل شمالی علاقے دیامیر میں سُنّی مسلک کے دوافراد مارے گئے تھے۔ بعض حلقوں کے نزدیک یہ اس واقعے کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔     وقتاً فوقتاً شیعہ سُنّی فسادات کی طرح سنیوں کے درمیان بھی بریلوی اور دیوبندی، حنفی و سلفی اور اسی طرح جہادی و غیر جہادی کے نام پر منافرت پھیلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اسلام میں قتلِ ناحق کو بہت بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے [ناحق] قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا‘‘۔ (المائدہ۵:۳۲)

اس مضمون پر بہت سی احادیث میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ کسی کلمہ گو کے ناحق قتل کا مرتکب دائمی جہنمی ہوگا (ابی داؤد، حدیث ۴۲۷۰ بروایت حضرت ابوالدردائؓ)۔ کسی غیر مسلم ذمی کو    قتل کرنے کو بھی اتنا بڑا جرم قرار دیا گیا ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا حالانکہ یہ خوشبو ۴۰برس کی مسافت تک پہنچتی ہے (بحوالہ نسائی، حدیث ۴۷۵۴ بروایت حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ)۔ ایک کلمہ گو کو قتل کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ کتاب اللہ میں بھی اس کی سزا دائمی جہنم قرار دی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے‘‘(النسائ۴:۹۳)۔ یہ معاملہ اتنا نازک ہے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کا مشہور واقعہ اس کی بہت اچھی وضاحت کرتا ہے۔ ایک جنگ میں حضرت اسامہؓ نے ایک محارب و مقاتل دشمن کو قتل کیا، جب کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا۔ حضرت اسامہؓ نے اجتہاد کیا کہ وہ محض اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے ورنہ وہ تو اسلامی فوجوں کے مد مقابل لڑتا رہا تھا۔ جب آنحضوؐر کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپؐ حضرت اسامہؓ سے سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ قیامت کے دن تم اللہ کو کیا جواب دو گے جب وہ کلمہ پڑھتا ہوا اللہ کے سامنے حاضر ہوگا۔   حضرت اسامہؓ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ!دراصل اس نے جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا،    دل سے تو وہ کافر ہی تھا۔ اس پر آپؐ  نے فرمایا کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا۔ حضرت اسامہؓ خود بیان کیا کرتے تھے کہ آنحضوؐر کی ناراضی سے میں اس قدر پریشان ہوا کہ میں نے دل میں کہا: اے کاش! میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا اور یہ غلطی مجھ سے سرزد نہ ہوتی۔ (بخاری)

اسلام کی رُو سے ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ باطن کا معاملہ بندے اور رب کے درمیان ہے اور وہ قیامت کو ہر شخص کے بارے میں عدل و انصاف کا فیصلہ صادر فرمائے گا۔ پاکستان میں ہرکلمہ گو خود کو مسلمان کہتا ہے۔ عقاید و مسالک اور فروعات میں اختلافات یقینا ہیں۔ یہ صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔ ان کی بنیاد پر اختلافِ راے کی گنجایش تو یقینا موجود ہے مگر کسی بھی شخص یا گروہ کو ہتھیار اُٹھا لینے اور دوسروں کو قتل کرنے کا جواز نہ قرآن و سنت میں ملتا ہے نہ ملکی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص واجب القتل ہے تو اس کا طریقِ کار بالکل واضح ہے اور مجاز عدالتیں اور ادارے اس کے متعلق فیصلہ صادر کردیں تبھی اس کا خون مباح ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی صورت ایسی نہیں کہ کوئی فرد یا گروہ اپنی ذاتی حیثیت میںقانون کے تقاضے پورے کیے بغیر کسی انسانی جان کو ہلاک کردے۔

حکومت کی نااہلی نے حالات کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ انارکی اور طوائف الملوکی نے پوری پاک سرزمین کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان حکمرانوں سے امن و امان کی توقع بالکل عبث ہے۔ اکابر ملت کو مسالک کی حد بندیوں سے بالاتر ہو کر سرجوڑ کے بیٹھنا چاہیے۔    ملّی یکجہتی کو نسل کے انداز میں پھر سے متحد ہو کر چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ منافرتوں کی جگہ پھر سے    ہم آہنگی اور دشمنی کی جگہ اخوت کو فروغ دینے کی امید دینی شخصیات اور انھی قوتوں سے وابستہ ہے۔ جب  ملّی یک جہتی کو نسل وجود میں آئی تھی اور متحارب گروہ ایک میز پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئی تھیں اور ہر ایک نے تسلیم کیا تھا کہ ہمارے باہمی اختلافات اور ایک دوسرے کے بارے میں شدید تصورات و تحفظات حقیقت سے بہت بعید تھے۔ اب پھر وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کو جنگی اور ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ اس میں سب کا بھلا ہے ورنہ یہ آگ جس طرح اس سے پہلے بے شمار گھرانوں کو برباد کر چکی ہے اسی طرح مزید نقصان کا باعث بنے گی۔ نفرت و عصبیت کی وبا مزید پھیلے گی تو ناقابلِ تلافی نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب نصیحت فرمائی ہے جو آج بالکل ہمارے حسبِ حال ہے:

منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں