پاکستان کے عام انتخابات ۲۰۱۸ء کے بعد نئی حکومت برسرِاقتدار آئی تو وزیراعظم نے ایک ماہر معاشیات عاطف میاں کو اپنی ٹیم میں شامل کرلیا۔ فردِ مذکورہ کے بارے میں پہلے یہ کہا گیا کہ وہ پیدایشی قادیانی نہیں مگر اصل حقیقت یہ سامنے آئی کہ اس فرد نے اسلام ترک کرکے قادیانیت قبول کی ہے۔ بالفاظِ دیگر ارتداد کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس تقرر پر شدید احتجاج ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے مثبت قدم اُٹھایا اور مذکورہ شخص کو ذمہ داری سے فارغ کردیا۔ اس فیصلے کے بعد وزیراعظم کی معاشی ٹیم کے دو مزید نام نہاد لبرل احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔
یہ فیصلہ سامنے آتے ہی سیکولر اور لبرل طبقات نے ایک طوفان برپا کردیا۔ انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ’’کیا پاکستان میں اقلیتوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں؟ کیا ان کو بحیرۂ عرب میں غرق کردیا جائے گا؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس مسئلے میں خلط مبحث یہ ہے کہ اقلیت کن لوگوں کو شمار کیا جائے گا؟ سکھ، عیسائی، ہندو، پارسی سب اقلیتیں ہیں، کیوںکہ وہ اپنے آپ کو غیرمسلم اور ہم لوگوں کو اپنے سے الگ مذہب کے پیروکار اور مسلمان سمجھتے ہیں، جو مبنی برحق ہے۔ اس کے برعکس قادیانی خود کو ’مسلم‘ اور ہم سب اہلِ ایمان کو ’غیرمسلم‘ سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انھیں کس پیمانے سے اقلیتوں کے وہ حقوق دیے جائیں،جو حقیقی اقلیتوں کو حاصل ہیں اور جن کی اسلام اور ہمارا دستور پوری طرح ضمانت دیتا ہے؟
قادیانی نہ صرف ختم نبوت کے منکر ہیں، بلکہ وہ قرآن وحدیث اور دستور پاکستان کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ کسی ملک میں رہنے والا کوئی شخص اس ملک کے دستور کو تسلیم نہ کرے تو ساری دنیا کے ہر ضابطے کے مطابق وہ اس ملک کا غدار قرار پاتا ہے۔ ایسے شخص کو اس ملک کے مناصب پر فائز کرنے کا پوری دنیا میں کیا کہیں کوئی تصور موجود ہے؟ قادیانی آج اعلان کردیں کہ وہ غیرمسلم ہیں، دستور پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں، مسلمانوں کی اکثریت کے معترف ہیں تو انھیں بالکل اسی طرح سب حقوق مل جائیں گے جو دیگر اقلیتوں کو حاصل ہیں۔ اگر اس کے باوجود ان کے حقوق ادا نہ کیے گئے تو یہ دینِ اسلام اور دستورپاکستان کی خلاف ورزی ہوگی۔
اس دوران ۶ستمبر یوم دفاع کے حوالے سے قادیانیوں نے تاریخ میں پہلی بار ملک کے معروف قومی اخبار نوائے وقت میں ایک اشتہار شائع کرایا اور کمال عیاری کے ساتھ اوپر نشانِ حیدر پانے والے شہدا کی تصاویر دی گئیں اور نیچے ان قادیانیوں کو بھی شہید کہا گیا جو مختلف جنگوں میں فوجی خدمات سرانجام دیتے ہوئے کام آئے۔ اس پر بھی زبردست احتجاج ہوا تو اگلے دن مذکورہ اخبار نے ایک معذرت شائع کی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ دھوکے سے یہ اشتہار دے دیا گیا ہے۔ اس حیلہ سازی پر حیرت کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ آںحضورؐ کے دور میں بھی بعض جنگوں میں غیرمسلم افراد، صحابہؓ کے ساتھ مل کر کفار سے لڑے تھے اور مارے گئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ: وہ شہید نہیں ہیں کیونکہ وہ محض عصبیت یا اپنے مادی مفادات کے لیے جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ قادیانیوں نے بھی ایمان کے بغیر جنگوں میں حصہ لیا اور مارے گئے۔ ان کو مراعات اور تمغے تو دیے جاسکتے ہیں، آںحضوؐر کی واضح تعلیمات کی روشنی میں انھیں شہید نہیں کہا جاسکتا۔
عقیدۂ ختم نبوت ایمان کا بنیادی جز ہے۔ جو ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا وہ قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام سے خارج ہے۔ اس پر ساڑھے چودہ سو سال سے پوری امت کا متفقہ ایمان ہے، جس میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا اور نہ ان شاء اللہ قیامت تک پیدا ہوگا۔ قرآن پاک میں واضح الفاظ میں ارشاد فرمایاگیا ہے: مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا (احزاب۳۳:۴۰) ’’(لوگو) محمدؐ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیینؐ ہیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
حدیث پاک میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک انداز میں بیان فرمادیا کہ آپؐ آخری نبی اور رسول ہیں، آپؐ کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول: قَالَ النَّبِیُّ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ۔ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ، وَاِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَائُ (بخاری،کتاب المناقب باب ماذکرہ عن بنی اسرائیل) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت انبیا کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاجاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفا ہوں گے‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ-۱۵۰ھ) کے زمانے میں ایک آدمی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا: ’’مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں‘‘۔ اس پر امام اعظمؒ نے فرمایا کہ ’’جوشخص اس سے نبوت کی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ ‘‘۔ (مناقب الامام الاعظم، ابی حنیفہ لابن حنبل المکی، ج۱،ص۱۶۱)
مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے اس کے لیے جانوں کے نذرانے بے دریغ پیش کیے، مگر کوئی مداہنت نہیں برتی۔ جھوٹے مدعیان نبوت میں سے طلیحہ بن خویلد اور سجاح بنت حارث نے اسلام قبول کیا ،جب کہ باقی تمام دشمنانِ اسلام بشمول الاسود العنسی، لقیط بن مالک (ذوالتاج)، سبھی کو ٹھکانے لگا دیا گیا اور پوری دنیا سے اس فتنے کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ البتہ تاریخ کے مختلف اَدوار میں یہ شیطانی فتنہ سراٹھاتا رہا۔ سب سے خطرناک فتنہ انگریز کا خودکاشتہ جھوٹا مدعی نبوت ملعون مرزا غلام احمد قادیانی ثابت ہوا۔ اس میں کوئی راز نہیں کہ وہ انگریزوں کا ایجنٹ تھا اور اپنی تحریروں میں انگریز سرکار کی تعریف میں اس نے بہت کچھ لکھا۔ اس کا پس منظر یوں بیان کیا گیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے ’جذبہ جہاد‘ کے تجزیے کے لیے برطانوی تھنک ٹینکس بیٹھے اور ’ہندستان میں برطانوی سلطنت کا وُرود ‘(The Arrival of British Empire in India) کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی گئی جو انڈیا آفس لائبریری (لندن) میں آج بھی موجود ہے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
ملک (ہندستان) کی آبادی کی اکثریت اپنے پیرووں، یعنی روحانی پیشواؤں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر اس مرحلے پر ہم ایک ایسا آدمی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں جو اس بات کے لیے تیار ہو کہ اپنے لیے ’ظلی نبی‘(Apostolic Prophet) ہونے کا اعلان کر دے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہوجائے گی لیکن اس مقصد کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی اپنی قوم سے بے وفائی کرکے ہماری حمایت کرنے والوں ہی کی مدد سے ہندستانی حکومتوں کو محکوم بنایا۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہییں جن سے ملک میں داخلی بے چینی اور افتراق پیدا ہوسکے۔
اگرچہ اس موضوع پر بہت سے مستند حوالے موجود ہیں، مگر اختصار کے پیش نظر مندرجہ بالا اقتباس پر اکتفا کیا جارہا ہے، جو کافی وشافی ہے۔
۵۰کے عشرے میں جب ملک میں دستور سازی کے لیے جدوجہد جاری تھی کہ حکومتی اقدامات کی بناپر یکایک تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوگیا۔تحریک ختم نبوت نے جید علما کی سربراہی میں قادیانیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جیلوںمیں بھی رہے۔ سب سے زیادہ فیصلہ کن اور تاریخی کردار سیدمودودیؒ نے ادا کیا، جنھوں نے اپنی معرکہ آرا تحریر: قادیانی مسئلہ میں قادیانیوں کو علمی دلائل سے غیرمسلم ثابت کرکے بے دست وپا کردیا۔
اسی کتابچے پر مولانا مودودیؒ کو ۱۹۵۳ء میں مارشل لا عدالت نے سزاے موت سنائی۔ مولانا نے اس موقعے پر فرمایا تھا کہ ناموس رسالت پر جان قربان کرنا ایک سعادت ہے۔ انھوں نے رحم کی اپیل کی پیش کش نہ صرف خود ٹھکرائی بلکہ جماعت اسلامی کی قیادت اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی تنبیہہ کی کہ وہ ان کی طرف سے کوئی اپیل دائر نہ کریں۔ اس واقعے کے اکیس برس بعد ۱۹۷۴ء میں نشتر میڈیکل کالج ، ملتان کے طلبہ کو چناب نگر (ربوہ) کے ریلوے اسٹیشن پر قادیانی فتنہ پردازوں نے بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ نہتے طلبہ کے ساتھ ہونے والے اس اندوہ ناک واقعے پر پورے ملک میں قادیانیت کے خلاف زبردست تحریک اٹھی۔ جس نے ۵۰کے عشرے اور اس سے پہلے کی تحریک ختم نبوت کی یاد تازہ کردی۔
۷۳ء کا دستور منظور ہوچکا تھا۔ تحریک سے پیدا شدہ صورتِ حال پر غور اور فیصلہ کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی نے بطور عدالت کارروائی شروع کی۔ اس کارروائی کے دوران قادیانی جماعت کے مرکزی لیڈر مرزا ناصر احمد کو سوال وجواب کے لیے پارلیمان میں بلایا گیا۔ کئی دنوں تک سوال وجواب ہوتے رہے۔ ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ کیا تم لوگ ہمیں (تمام ارکان اسمبلی) کو مسلمان سمجھتے ہو یا غیرمسلم؟ مرزا ناصر نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم تم سب لوگوں کو غیرمسلم سمجھتے ہیں۔ یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ تب پاکستان کی پارلیمنٹ نے بالاتفاق ۷ستمبر۱۹۷۴ء کو دوسری دستوری ترمیم منظور کی، جس کے مطابق مرزا غلام احمد کو ماننے والے قادیانی اور لاہوری غیرمسلم اقلیت قرار پائے۔
ترمیمِ دستور منظور ہونے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پارلیمنٹ میں جو انتہائی مدلل خطاب کیا اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’ہم نے اس مسئلے پر ایوان کے تمام ممبروں سے تفصیلی طور پر تبادلۂ خیال کیا ہے، جن میں تمام پارٹیوں کے اور ہر طبقۂ خیال کے نمایندے موجود تھے۔ آج کے روز جو فیصلہ ہوا ہے، یہ ایک قومی فیصلہ ہے، یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے، خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ فقط حکومت ہی اس فیصلے کی تحسین کی مستحق قرار پائے۔ اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی ایک فرد اس فیصلے کی تعریف و تحسین کا حق دار بنے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ مشکل فیصلہ، بلکہ میری ناچیز راے میں کئی پہلوؤں سے بہت ہی مشکل فیصلہ، جمہوری اداروں اور جمہوری حکومت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا....اس مسئلے پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کے نتائج سے بخوبی واقف ہوں۔ مجھے اس فیصلے کے سیاسی اور معاشی رد عمل اور اس کی پیچیدگیوں کا علم ہے۔یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا، پاکستان وہ ملک ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت چاہتے تھے۔ اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ میں اس فیصلے کو جمہوری طریقے سے نافذ کرنے میں اپنے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کر رہا‘‘۔بلاشبہہ بھٹو صاحب کی قیادت میں یہ کارنامہ تاریخی اور یادگار اہمیت کا حامل ہے۔
اس ترمیم کی منظوری کے بعد بھی قادیانی اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہ آئے۔ وہ ہر شعبے میں اہم عہدوں پر فائز تھے۔ بعض معروف ومعلوم انداز میں اور بعض کیموفلاج کرکے۔ ۲۶؍اپریل۱۹۸۴ء کو ، جب کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کی وجہ سے ملک میں اسمبلی موجود نہیں تھی، اس لیے ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے طے کیا گیا کہ مرزائیوں کو مسلمان کہلانے کا کوئی حق نہیں، ان کے عبادت خانوں کو مسجد نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اذان اور دیگر شعائراسلامی کو استعمال کرنے کے مجاز نہیں۔ یہ حقیقت میں دستوری ترمیم ہی کی ایک وضاحت تھی، کوئی نیا قانون نہیں تھا۔ مگر افسوس کہ اس آرڈی ننس کے باوجودقرارِ واقعی قانون سازی اور عملی اقدامات نہ کیے گئے۔