۱۹۸۴ء میں مجھے بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت ڈھاکا میں اسلامی ممالک کے وزراے خارجہ کا اجلاس ہو رہا تھا،جس کی رپورٹنگ کے لیے جنگ گروپ سے مجھے اور اخبار جہاں کے اس وقت کے مدیر نثار احمد زبیری کو بھیجا گیا تھا۔ سیّد منور حسن کی نظامت اعلیٰ کے دوران میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا مہتمم نشرواشاعت اور رکن رہ چکا تھا اور بعد میں جماعت اسلامی سے رکنیت کا تعلق تھا، جب کہ زبیری بھائی کا تعلق بھی ایک سرگرم تحریکی خاندان کے ساتھ تھا ۔ اس لحاظ سے نثار زبیری بھائی سے میری نظریاتی ہم آہنگی موجود تھی۔ چنانچہ ہم اس سفر میں پاکستان واپسی تک ساتھ ساتھ ہی رہے۔
کانفرنس ختم ہونے کے بعد ہم دونوں مزید ایک ہفتہ تک وہیں مقیم رہے۔ اس دوران ہم نے ڈھاکا میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں اور دوسرے بڑے شہر چٹا گانگ کا بھی دورہ کیا۔ جن رہنماؤں سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں ان میں حسینہ واجد (موجودہ وزیر اعظم )،پروفیسر غلام اعظم،مطیع الرحمٰن نظامی(شہید)،مشتاق احمد خوند کر اور شفیق اعظم کے نام یاد رہ گئے ہیں۔ حسینہ واجد نے تو اپنے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے دھان منڈی والے گھر میں مدعو بھی کیا اور اس کی پہلی منزل پر وہ جگہ بھی دکھائی جہاں ان کو اس وقت موجود خاندان کے تمام افراد کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔ اس وقت تک اس گھرکی ہر چیز کو اسی حالت میں برقرار رکھا گیا تھا۔ انھوں نے مجھے اور نثار زبیری کواپنے دست خط کے ساتھ اپنی تحریر کردہ ایک کتاب بھی دی جو انگریزی میں تھی اور جس میں ان کے خاندان کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔ہماری سب سے تفصیلی اور یادگار ملاقات پروفیسر غلام اعظم صاحب کے ساتھ ہوئی۔ یہ ملاقات اس لیے یادگار تھی کہ اس دوران جہاں مجھے پروفیسر غلام اعظم صاحب کی شخصیت کے کئی نئے گو شوں کو جاننے کا موقع ملا وہیں یہ معلومات بھی حاصل ہوئیں کہ بنگلہ دیش کے سیاسی دھارے میں غداری کے الزامات کے باوجود جماعت اسلامی کو کس طرح دوبارہ اہم مقام حاصل ہوا اور کس طرح خود پروفیسر صاحب کو وہاں کے سیاسی رہنماؤں کے یہاں احترام بلکہ سیاسی گُرو کا درجہ حاصل ہوا ۔
پروفیسر صاحب سے ہماری اس ملاقات سے قبل جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا ایک ا جمالی تعارف اور اس کی مالی اور افرادی حا لت زار کا علم ہمیں ہو چکا تھا۔ ہمارے ڈھاکا آنے کا علم کسی طرح اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک سابق سینیر رہنما کو ہو گیا تھا، وہ ہمارے پہنچتے ہی ہوٹل میں ہم سے ملنے آگئے تھے۔انھوں نے گفتگو میں ہمیں اختصار کے ساتھ بتا یا تھا کہ جماعت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈھاکا میں جماعت کے مرکز میں صرف ایک پرانی کار تھی۔پورے شہر میں پروفیسر صاحب کے سوا کسی رہنما،رکن یا کارکن کے پاس اپنا ذاتی ملکیتی گھر یا فلیٹ نہیں تھا۔سوائے چند کارکنوں کے کسی کے پاس موٹر سائیکلیں تک نہیں تھیں۔
جماعت کے مرکزی اور ضلعی تنظیمی ڈھانچے کو حالات کے مطابق تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کے انتخابات سالانہ اور کارکردگی کے ساتھ منسلک قرار دیے گئے تھے جس کی وجہ سے ہر سال متحرک اور باصلاحیت نوجوان قیادت اُبھر کر سامنے آتی جارہی تھی۔ اس نئی قیادت کا بڑا حصہ اسلامی جمعیت طلبہ فراہم کر رہی تھی۔اس ملک میں غدار ی کے داغ کے ساتھ کام کرنے والی جماعت اسلامی کو کام کرتے ہوئے صرف ۱۳ سال کا عرصہ ہوا تھا اور اس نے نہ صرف سیاست میں اپنی حیثیت منوا لی تھی بلکہ وہاں کی ایک بڑی سیاسی جماعت خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) نے اسے اپنا سیاسی حلیف بھی بنا لیا تھا۔اس کی پارلیمنٹ میں مؤثر نمایندگی بھی موجود تھی۔ جماعت نے وہاں یہ مقام کیسے حاصل کیا تھا اور اسے یہ کامیابی کیسے حاصل ہوئی تھی؟ یہ جاننا ضروری تھا۔اس کا جواب وہی شخصیت دے سکتی تھی جس کی فکر رسا نے جماعت کے پورے تنظیمی ڈھانچے کو نئے حالات کے مطابق تبدیل کر دیا تھا اور جماعت کے کارکنوں میں تبدیلی کی ایک نئی انقلابی روح پھونک دی تھی۔ یہ سحر انگیز شخصیت پروفیسر غلام اعظم صاحب کی تھی۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب سے میری ملاقاتیں پاکستان میں بھی کئی بار اخبار نویس اور کارکن کی حیثیت سے ہو چکی تھیں اور ان سے سب سے زیادہ ملنے کا موقع ۱۹۷۱ء میں اس وقت ملا تھا، جب وہ اور اس وقت کے امیر جماعت مشرقی پاکستان مولانا عبد الرحیم جماعت کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ اسی دوران۱۶ دسمبر کو سقوط ڈھاکا ہو گیا۔ وہ کچھ عرصہ لاہور میں رہنے کے بعد کراچی آگئے تھے۔ کراچی میں ان کا قیام جناب ابو محمد مرحوم کے نارتھ ناظم آباد اے بلاک میں نو تعمیر بنگلے میں تھا، جو کراچی جماعت کے مالیاتی امور کے ناظم بھی تھے۔ میرا وہاں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ اس لیے ان دونوں بزرگوں سے ملاقاتیں بھی ہو تیں بلکہ ان کی وجہ سے میں وہاں زیادہ جاتا اور ان سے استفادہ کرتا۔ اس لیے وہ اچھی طرح متعارف تھے۔
جب میں اور زبیری صاحب مغرب کے بعد ان سے ملنے ان کے جھونپڑی نما گھر کے ایک چھو ٹے سے دفتری ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو وہ مجھے پہلی نظر ہی میں پہچان گئے اور انھوں نے بڑی محبت سے میرے نام ہی سے پکارا۔ زبیری بھائی اس بات پر حیران رہ گئے۔ ابھی ذکر کر چکا ہوں کہ ڈھاکا شہر میں صرف پروفیسر صاحب ہی جماعت کے وہ رہنما تھے،جن کا اپنا ذاتی گھر تھا۔ جس اسٹریٹ میں ان کا گھر واقع تھا، وہ شہر کا خوش حال علاقہ تھا اور وہاں پروفیسر صاحب کے بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی درجن بھر بڑی بڑی شان دارکوٹھیاں تھیں۔ لیکن پروفیسرصاحب کے گھر کی حالت کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس لیے کہ میرے اندازے کے مطابق ایک ہزار گز کے رقبے کے اس پلاٹ کے آدھے حصے میں مسجد تھی اور بقیہ پر ان کا گھر۔ اس گھر کی شان بھی ملاحظہ کریں کہ اس کی دیواریں تین تین فٹ سیمنٹ کے بلاکس کی اور بقیہ دیواریں اور چھتیں بانس کے مضبوط ڈنڈوں کے سہارے قائم تھیں۔ اسی لیے اس کو جھونپڑی نما گھر لکھا ہے۔ جس ڈرائنگ روم میں انھوں نے ہمیں خوش آمدید کہا تھا، وہ میرے کراچی میں صحافی سوسائٹی کے نئے گھر کے کچن سے بھی چھوٹا تھا۔جس کی قدرے چھوٹی میز کے سامنے رکھی کرسیاں لکڑی کے تختوں سے بنی ویسی ہی تھیں، جیسے ہمارے یہاں آزاد کشمیر یا پنجاب کے دیہاتی علاقوں کی گزرگاہوں پر بنے چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں آپ نے دیکھی ہوں گی۔
پروفیسر صاحب نے بیٹھتے ہی یہ معذرت بھی کی کہ آپ کو ان چھوٹی چھوٹی کرسیوں پر بیٹھنا پڑ رہا ہے، حالاںکہ آپ کے یہاں تو ایسا نہیں ہے۔ میری شرمندگی کو بھانپتے ہوئے انھوں نے میری اور زبیری بھائی کی معلومات بلکہ حیرت میں مزید اضافہ کر دیا کہ: ’’اسی جگہ اور ان ہی کرسیوں پر رات گئے اکثر سیاسی مشوروں اور تعاون حاصل کرنے کی خاطر جنرل حسین محمد ارشاد، حسینہ واجد، خالدہ ضیا اور دوسرے سیاسی لیڈر آتے ہیں۔ رات کو اس لیے کہ کسی کو کانوں کان اس کی خبر نہ ہوسکے‘‘۔ اس سے اس زمانے میں پروفیسر صاحب کی قدر و منزلت اور اس وقت کی بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کی سیاسی سوجھ بوجھ،جدوجہد،حیثیت اور اثرورسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہماری زیادہ تر گفتگو اسی گتھی کو سلجھانے اور اپنی اسی حیرت کو دور کرنے کے بارے میں تھی کہ: ’’آخر یہاں کی جماعت اسلامی کو غداری جیسے سنگین الزام کے دھبے دھونے،عوام میں دوبارہ پذیرائی حاصل کرنے، سیاسی دھارے میں دوسری سیاسی جماعتوں سے برابری کی حیثیت حاصل کرنے کے اقدامات اور اس کے تنظیمی ڈھانچے میں کون سی قابل عمل تبدیلیاں کرنا پڑیں جس کے اتنے اچھے نتائج حاصل ہوئے؟‘‘ ہمارے سارے سوالات اسی صورت حال اور ان کے جوابات حاصل کرنے سے متعلق تھے۔ ہماری بات چیت کا دورانیہ کم و بیش دو گھنٹے پر محیط تھا۔ پروفیسر صاحب نے ان سوالات کو سن کر جو کچھ کہا تھا اس میں سے جس قدر اب مجھے یاد ہے وہ اختصار کے ساتھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب نے تفصیلات بیان کرنا شروع کیں تو ایسے لگا جیسے ایک مفکر اور مدّبر پے در پے حادثوں اور گہرے صدموں کے بعد دریا کی سی روانی کے ساتھ دکھ بھرے انداز میں اپنی آپ بیتی بیان کررہا ہو۔ وہ گویا ہوئے اور ہم ہمہ تن گوش ہو کر سننے لگے۔
وہ کہہ رہے تھے:’’پاکستان ہمارا وطن تھا جس کو ہم نے بھار ی جانی ومالی نقصان اور معصوم مسلمان عورتوں اور بچیوں کی عصمتوں کی اَن گنت قربانیوں کے بعد پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ کے نعروں کی گونج میں حاصل کیاتھا۔ لیکن ہم نے من حیث القوم اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کیا اور اپنے نئے ملک میں ’قرارداد مقاصد‘ کے متفقہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے بجاے علاقائی، لسانی، فرقہ ورانہ اور مختلف قومیتوں کی سیاست کو فروغ دیا۔ جس کا فائدہ دشمن نے اٹھایا اور اس پاک وطن کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ اس ملک خداداد کو متحد رکھنے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانے کے لیے جتنی قربانیاں آپ نے دیں، اس سے کچھ زیادہ ہم نے بھی دیں۔ جس سے ایک دنیا واقف ہے اور اس کا جتنا دُکھ آپ کو ہے، اس سے زیادہ ہمیں یہاں ہے۔ لیکن ایک بات جو شاید آپ کو بہت بُری لگے، لیکن آپ ہی کے سوالات کے جواب میں مجھے کہنا پڑے گی کہ پاکستان کے دولخت ہونے کا جہاں ہمیں آپ سے زیادہ دُکھ ہے وہیں جماعت اسلامی پاکستان سے ہماری علاحدگی تنظیمی طور پر ایک طرح سے Blessing in disguise، یعنی خرابی میں کچھ بہتری کا مفہوم لیے ہوئے تھی۔ مطلب یہ ہے کہ حالات کے مطابق نیا تنظیمی، تربیتی اور سیاسی ڈھانچا تشکیل دینے کا چیلنج سامنے آ گیا تھا‘‘۔
انھوں نے بتایا: ’’اب ہمارے سامنے نہ بڑے دفاتر تھے اور نہ مالی وسائل کی فکر اور نہ سہولیات کی فراہمی کی سردردی کہ جن کی وجہ سے بعض اوقات تحریکی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ تحریکی مناصب کی طلب کو نا اہلی سمجھنے کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ اور بعض مقامات پر ایسے گروہ وجود میں آجاتے ہیں جو عہدوں کے لیے نہ صرف امیدوار ہوتے ہیں، بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ جس کے بارے میں جماعت اسلامی میں کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا اور نہ دستور ہی کے مطابق ایسا کرنے کا کوئی جواز ہوتا ہے۔ ہم نہایت انہماک اور حیرت کے ساتھ جماعت اسلامی کے رہنما کی زبان سے خود احتسابی کی تلخ داستان سن رہے تھے۔
غلام اعظم صاحب بیان کر رہے تھے کہ: ’’جب ملک دو لخت ہوگیا تو جہاں دنیا نے بنگلہ دیش کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا، وہیں اب یہ ہمارا وطن بھی تھا اور اسی سے ہمارا مستقبل وابستہ تھا۔ اس لیے کہ ہم اسی سر زمین میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے تھے۔ ہمارے اس بیانیے کو دوسری قوم پرست جماعتوں کو تسلیم کرنے میں مشکل ضرور تھی، لیکن آخر کار انھوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ ہماری مخالفت میں بتدریج کمی آتی گئی اور ہم نے قومی سیاسی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ نفرتیں باہمی تعلقات میں بدلنے لگیں اور دیگر سیاسی جماعتوں سے باہمی ملاقاتیں شروع ہوگئیں جن کے بارے میں پہلے سوچنا ہی ایک بھیانک خواب تھا۔اب یہ سلسلہ اس حد تک بڑھ گیا کہ قومی لیڈر مجھ سے ملاقات اور مشوروں کے لیے رات کے وقت اسی جگہ تشریف لاتے ہیں جہاں اب آپ تشریف فرما ہیں۔
’’آپ نے جماعت اسلامی کے بکھرے اجزا کو کیسے ایک جگہ جمع کیا اور انھیں کیسے متحرک اور سرگرم کیا؟‘‘ یہ میرا اگلا سوال تھا۔ اس پر ان کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک اچھی طرح دیکھی جا سکتی تھی۔
پروفیسر صاحب نے بتانا شروع کیا: ’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں تو سقوطِ ڈھاکا کے وقت پاکستان میں معلق (stuck up) ہوگیا تھا اور کچھ عرصے بعد عمرے کی ادایگی کی اور دوبئی منتقل ہو گیا تھا۔میرا تو بنگلہ دیش میں براہِ راست جماعت کے کسی فرد سے رابطہ تک نہیں تھا۔ رابطے کا واحد ذریعہ ڈھاکا سے دوبئی آنے والے افراد تھے۔ ان کے توسط سے مطیع الرحمٰن نظامی (اب شہید ) کو ہدایات اور پیغامات کا سلسلہ شروع کیا، جو میری وطن واپسی تک جاری رہا۔ سب سے پہلا کام بچے کھچے کارکنوں سے رابطہ تھا جو جلد ہی کرلیا گیا۔ اسی طرح اسلامی چھاترو شبّر کو از سرِ نو منظم کیا گیا۔ یہ دونوں کام ایک ساتھ شروع کیے گئے اور دونوں کی اجتماعی قیادت کو اللہ تعالیٰ نے ایسے دُور رس فیصلے کرنے کی توفیق بخشی کہ ان کے نتائج اب تک بہت ہی اچھے نکل رہے ہیں‘‘۔
اس کا طریق کار یہ رکھا گیا کہ پورے بنگلہ دیش کے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جمعیت سے وابستہ کارکنوں کی ان کے آخری سال یا امتحان سے چند (تین یا چھے) ماہ قبل فہرستیں بنائی جائیں اور ان کو مرکز میں رہنماؤں کے مقررہ پینل کے پاس بھیج دیا جائے اور وہ مختلف مواقع پر باری باری انٹرویو کرکے فیصلہ کرے کہ ان طلبہ کو تعلیمی نتیجے، صلاحیت، رجحان اور تقریری اور تحریری صلاحیتوں کے اعتبار سے سرکاری یا نجی شعبوں میں سے کس میدان میں بھیجا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کسی میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں تو اس کو اس کے آبائی علاقے یا شہر کی جماعت کے حوالے کیا جائے اور اس کی اسی لحاظ سے تعمیروترقی کا عمل شروع کیا جائے۔ اس کا بھی ایک طریقہ طے کیا گیا کہ اس کے علاقے یا شہر کی جماعت کے ذمہ داروں کو اس کی اطلاع کی جائے اور جب وہ منتخب طالب علم فراغت کے بعد واپس جائے تو اس کا استقبال کیا جائے، مسجد جائے تو امامت کے لیے آگے کیا جائے، عید کی نماز کی امامت اسی سے کرائی جائے اور اگر مقامی سطح پر کوئی تنازع یا دو گروہوں میں جھگڑا ہو جائے تو کہا جائے کہ اس نئے تعلیم یافتہ یا گریجوایٹ سے فیصلہ کرایا جائے، الغرض ہر ایسا کام کرایا جائے، جس سے اس کی شخصیت محلے اور علاقے میں ایک دانا لیڈر کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے اور پھر اس کی ممکنہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے تشہیر بھی کی جائے۔ اسی طرح اگر کوئی طالب علم بہت ذہین اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا ہے تو اس کے رجحان کے مطابق اسے اعلیٰ سروسز یا پیشہ ورانہ شعبے کے مقابلے کے امتحان کے لیے منتخب کیا جائے یا شعبۂ تدریس کے لیے بھی اس کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب کہہ رہے تھے کہ: ’’ان فیصلوں اور ان پر کامیابی کے ساتھ عمل درآمد کا نتیجہ یہ ہے کہ جمعیت کے ۹۹ فی صد افراد اور کارکن نہ صرف تحریک اسلامی ہی میں شامل رہتے ہیں بلکہ اپنی پسند کے شعبوں میں جا کر اور اچھے عہدوں پر فائز ہو کر بھی اپنے کام کے ساتھ ساتھ تحریک اسلامی کا کام بھی زیادہ بہتر انداز میں انجام دیتے ہیں۔رضاے الٰہی کا حصول ہمیشہ ان کی نگاہ میں رہتا ہے‘‘۔
اس طریق کار پر عمل کے یہ ابتدائی سال تھے اور پروفیسر صاحب نے اس طرح مقابلے کے امتحانات اور دیگر شعبوں میں کامیاب ہونے والوں کے اعداد و شمار بتا کر ہم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اور میں ان نتائج اور جماعت کی خستہ مالی حالت کے باوجود سیاست سمیت ہر شعبے میں شان دار کامیابیاں دیکھ کر گہری سوچ میں پڑ گیا تھا کہ یہ وہی جماعت اسلامی ہے جو ابھی ۱۳سال پہلے تک جماعت اسلامی پاکستان کا دوسرا بازوتھی۔
یہ ہے وہ مختصر رُوداد اس ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات کی، جو میں نے برادرم ڈاکٹر نثار زبیری کے ساتھ اب سے کوئی ۳۴سال پہلے ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے عظیم فکری رہنما پروفیسر غلام اعظم صاحب سے کی تھی۔