سوال : تعزیت کا مسنون طریقہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ہاں مروجہ طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین کے بعد، میت کے وارث اپنے گھر کے دروازے پر یا گائوں کے دارا میں چٹائی بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس دوران حقہ نوشی اور گپ شپ کا دور بھی چل رہا ہوتا ہے۔ جو بھی آتا ہے منہ سے یہ لفظ نکالتا ہے: ’دعاے خیر‘ پھر تمام کے ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھ جاتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ دُعا کی کیا عبارت ادا کرتے ہیں؟
جواب :حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مَنْ عَزَّی مُصَابًا فَلَہُ مِثْلُ اَجْرِہٖ (ترمذی، ابواب الجنائز) ’’جس نے مصیبت زدہ کی تعزیت کی (یعنی اس کو تسلی دی اور اس سے ہمدردی کی) تو اس کو اتنا اجر ملتا ہے، جتنا اس مصیبت زدہ کو ملتا ہے‘‘۔
دوسری روایت میں آیا ہے کہ مَنْ عَزَّی ثَکْلٰی کُسِیَ بُرْدً ا فِی الْجَنَّۃِ (ترمذی، ابواب الجنائز) ’’جس نے اس عورت کو حوصلہ دیا جس کا بچہ مر گیا ہو تو اسے جنّت میں ایک خاص قسم کی چادر پہنائی جائے گی‘‘۔
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تعزیت ایک سنت ہے اور قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کے نتیجے میں غم زدہ کا غم ہلکا ہوجاتا ہے۔ بعض فقہاے حنفیہ نے اس کے لیے مسجد میں یا گھر پر باقاعدہ بیٹھنے اور مجلس لگانے کو مکروہ کہا ہے (شامی،ص ۸۴۲، ج۱، الجنائز)۔لیکن بعض نے اپنے گھر میں یا مسجد میں تین روز تک بیٹھنا اور لوگوں کا تعزیت کے لیے آنا جائز قرار دیا ہے (فتاویٰ عالم گیری، ج اوّل، ص ۱۶۷)۔مگر دروازے یا راستے میں بیٹھنے کو تو سبھی فقہا نے مکروہ ترین فعل قرار دیا ہے۔ (فتاویٰ عالم گیری، اوّل، ص ۱۶۷)
تکلفات کے بغیر اپنے گھر پر اگر میت کے اقربا بیٹھے ہوں تو مضائقہ نہیں ہے۔ آنے والے دُعا بھی کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ واقعی دُعا ہو صرف رسمِ دُعا نہ ہو۔ لیکن تعزیت کے مسنون الفاظ وہ ہیں، جو رسولؐ اللہ سے مروی ہیں: اِنَّ لِلہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وَکُلُّ شَیْیءٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُسَمّٰی (البخاری، کتاب الجنائز، حدیث: ۱۲۳۷)’’بے شک اللہ ہی کی ہے وہ چیز جو اس نے لے لی ہے اور اسی کی ہے وہ چیز جو اس نے دی ہے اور ہرچیز کا اس کے پاس وقت مقرر ہے‘‘۔ یا پھر یہ الفاظ کہ ’’اللہ تعالیٰ مرحوم (یا مرحومہ) کی مغفرت فرمائے، اس کی کمزوریوں سے درگزر فرمائے، اسے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے اور آپ کو اس مصیبت پر صبر کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ اگر کافر کی تعزیت کرنی ہو تو یہ الفاظ کہے جائیں:’’اللہ تعالیٰ تم کو اس کا بدل اور تمھارے کنبے کا شمار کم نہ کرے‘‘۔ (فتاویٰ عالم گیری، ایضاً)۔(مولانا گوہر رحمٰن)
سوال : ہمارے درمیان ایک اہم مسئلہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے کہ مسجد کوسیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہاں تو اس کے کیا دلائل ہیں اور اگر نہیں تو اس کی کیا توجیہہ ہے؟
جواب :عہد نبویؐ میں مسجدمسلمانوں کی تمام سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ یہ محض عبادت اور نماز کی جگہ نہیں تھی بلکہ جس طرح نماز کے لیے مسجد عبادت گاہ تھی اسی طرح حصولِ علم کے لیے جامعہ، ادبی سرگرمیوں کے لیے اسٹیج، مشاورتی اُمور کے لیے پارلیمنٹ اور باہمی تعارف کی خاطر مرکز ملاقات کا کام دیتی تھی۔ عرب کے دُور دراز علاقوں سے وفود آتے تو مسجد ہی میں آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا انتظام ہوتا اور تمام دینی، معاشرتی اور سیاسی تربیت کے لیے آپؐ مسجد ہی میں وعظ فرمایا کرتے تھے۔
آںحضوؐر کے زمانے میں دین اور سیاست علیحدہ علیحدہ چیز نہیں تھی، جیساکہ آج تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی مسائل کے حل کے لیے اور سیاسی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے حضوؐر کے پاس الگ الگ مراکز نہیں تھے۔ دونوں طرح کے مسائل مسجد ہی میں نمٹائے جاتے تھے۔
عہد نبویؐ کی طرح خلفاے راشدینؓ کے عہد میں بھی مسجد مسلمانوں کی تمام دینی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہواکرتی تھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ نامزد ہونے کے بعد اپنا پہلا سیاسی خطبہ مسجد ہی میں دیا تھا، جس میں انھوں نے اپنی سیاست کے خدوخال بیان فرمائےتھے۔ آپؓ نے اپنے خطبے میں فرمایا تھا: ’’اے لوگو! میں تمھارا خلیفہ مقرر کیا گیا ہوں، حالاں کہ میں تم میں سب سے بہتر شخص نہیں ہوں۔ اگر تم مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر باطل پر پائو تو مجھے سیدھا کردو‘‘۔ اسی مسجد میں حضرت عمرؓ نے بھی اپنا پہلا سیاسی خطبہ دیا تھا اور فرمایا تھا: ’’اے لوگو! تم میں سے جو شخص مجھ میں کجی دیکھے، تو اسے چاہیے کہ مجھے سیدھا کردے‘‘۔ کسی شخص نے دورانِ خطبہ برملا کہا کہ خدا کی قسم! اگر ہم نے آپ کے اندر کوئی کجی پائی تو تلوار کی دھار پر آپ کو سیدھا کردیں گے‘‘۔ آپؓ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’شکر ہے اللہ کا، جس نے عمر کی رعایا میں ایسے لوگ پیدا فرمائے ہیں جو عمر کو تلوار کی دھار پر سیدھا کرسکتے ہیں‘‘۔ یہ رول ہوا کرتا تھا مسجدوں کا اس زمانے میں جب مسلمانوں کو عروج حاصل تھا۔ لیکن جب اُمت مسلمہ میں انحطاط اور زوال کا دور شروع ہوگیا اورمسلم معاشرہ پس ماندگی کا شکار ہوگیاتو مسجدوں نے بھی اپنا ہمہ جہت رول کھو دیا، وہ صرف نمازوں تک محدود ہوکر رہ گئیں، اور جمعے کے خطبے بے جان اور بے اثر ہوگئے۔
مجھے نہیں معلوم کہ سیاست کو اس قدر غلیظ اور بدنام کیوں تصور کیا جاتا ہے، حالاں کہ سیاست بہ حیثیت علم نہایت سنجیدہ اور اعلیٰ و ارفع علم ہے۔ سیاست بذاتِ خود نہ بُری اور مذموم چیز ہے اور نہ جرم، لیکن جس سیاست میں اچھے بُرے کی تمیز نہ ہو اور مقصد حاصل کرنے کے لیے جائز و ناجائز ہتھکنڈے اختیار کیے جائیں، وہ سیاست اپنے غلط طریقۂ کار کی وجہ سے یقینا گندی سیاست ہے۔ رہی وہ سیاست جس کا مقصد کارہاے حکومت کو اس طرح انجام دینا ہو کہ معاشرے میں ظلم و فساد کی سرکوبی ہو، مصالح عامہ کی بازیابی اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہو تو یقینا ایسی سیاست ہمارے دین کا ایک اہم حصہ ہے۔ اور اس اہم حصے کی انجام دہی کے لیے مسجدوں کو ان کے فعال کردار سے محروم کرنا زبردست غلطی ہوگی۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہمارا دین ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ جس میں عقیدہ بھی ہے، عملِ صالح بھی اور عملِ صالح کی طرف لوگوں کو بلانا بھی۔ لوگوں کو اچھی باتیں بتانا اور بُری باتوں سے خبردار کرنا ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ ۰ۭ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) تم وہ بہترین اُمت ہو جسے انسانوں کی خاطر نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
حدیث شریف ہے: الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (مسلم) ’’دین نام ہے اس کا کہ لوگوں کو نصیحت کی جائے اور انھیں بھلی بات بتائی جائے‘‘۔
لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۷۸ كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۷۹ (المائدہ ۵:۷۸-۷۹) بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائودؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیوں کہ وہ سرکش ہوگئے تھے اورزیادتیاں کرنے لگے تھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ بڑا بُرا عمل تھا جو وہ کر رہے تھے۔
اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس اہم دینی فریضے کی ادائی میں مساجد کا بھی رول ہو اور اس عظیم الشان پلیٹ فارم سے لوگوں کی سیاسی اور فکری تربیت کا عمدہ انتظام ہو۔ ضرورت اسی بات کی ہے کہ اس عظیم منبر سے مسلمانوں کو ان کے دینی، سیاسی اور ملّی مسائل سے آگاہ کیا جائے اور ان مسائل کا حل پیش کیا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ ۱۹۵۶ء میں جب مصر پر دشمنوں نے حملہ کیا تھا تو وزارت اوقاف کی طرف سے مجھے حکم ملا تھا کہ مَیں قاہرہ کی ایک بڑی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دوں اور لوگوں میں دشمنوں کے خلاف جذبوں اور حوصلوں کا اضافہ کروں۔ وقت کا شدید تقاضا تھا کہ مَیں اس منبر کو سیاسی اور جنگی مسائل پر خطبہ دینے کے لیے استعمال کروں اور میں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے خاطرخواہ مفید نتائج برآمد ہوئے، حالاں کہ خود مصری حکومت نے اس سے قبل مجھ پر ہرقسم کی تدریسی و تقریری پابندی لگا رکھی تھی۔
مسجدوں میں ایسے خطبے بھی دیے جاسکتے ہیں جن میں حکومت کی غلط اور غیرمفید پالیسیوں پر تنقید کی جائے اور اربابِ حکومت کو ان کی کوتاہیوں سے آگاہ کیا جائے، بشرطیکہ ان خطبوں میں نام لے کر کسی خاص شخص کو لعن طعن کرنے سے پرہیزکیا جائے اور ان تمام باتوں سے اجتناب کیا جائے، جو شرعی حدود سے تجاوز کرتی ہوں۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسجدوں کے خطبے اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ شریعت کے لیے ہوتے ہیں۔ اس لیے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ برسرِاقتدار پارٹی یا اپوزیشن پارٹیاں محض سیاسی پروپیگنڈوں کے لیے مسجدوں کو استعمال کریں۔(ڈاکٹر یوسف القرضاوی)
سوال : میرا نکاح پانچ برس قبل ایک شخص کےساتھ ہوا۔مجھےبعد میںمعلوم ہوا کہ یہ صاحب پیدایشی قادیا نی (احمدی)ہیں۔نکاح کے وقت بھی قادیانی خیالات رکھتے تھے۔ افسوس کہ مجھےاورمیرےخاندان کواس جماعت کےبارےمیں پہلےکچھ علم نہ تھا۔ نکاح کے بعد مجھےزبردستی درج ذیل عقائد ماننےکو کہاگیا:
- مرزاغلام احمدقادیانی مہدی ہیں۔ان پراللہ کی طرف سے وحی آتی تھی۔
- حضرت عیسیٰؑکی وفات ہوگئی ہے۔اب وہ دنیامیںواپس نہیں آئیں گے۔
- پنجاب میں واقع قادیان مثلِ مکہ ہے، جس کی زیارت سےحج کاثواب ملتا ہے۔
مجھےایک’ بیعت فارم‘ دیاگیااوراس پر دستخط کرنے کو کہاگیا۔اس میںلکھاہوا تھا کہ ’’میں خود کو احمد یہ جماعت میں شامل کرتی ہوں ۔میرا عقیدہ ہے کہ حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ’خاتم النبیین‘ہیں اورحضرت مرزا غلام احمد وہی امام مہدی ہیں جن کی بشارت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی ۔ میں حضرت مرزا مسرور احمد کو خلیفۃ المسیح مانتی ہوں اور ان کی اطاعت کا وعدہ کرتی ہوں‘‘۔
میں نے اس فارم پر دستخط کرنےسےانکار کردیا۔ اس کےبعد مجھے جسمانی اور ذہنی طور پر اذیت دی جانےلگی اورپریشان کیاجانےلگا،جس کی وجہ سے میں بیمار رہنےلگی ہوں۔ لاعلمی میںمجھ سے جوگناہ ہوگیا ہے ، اس سے میں بہت شرم سار ہوں اوراللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی ہوں ۔ مجھے درج ذیل سوالات کے جوابات سے نوازیں:
۱- کیا ان صاحب سے میرا نکاح درست ہے؟
۲- اگریہ نکاح درست نہیں توکیا مجھے خلع یا فسخِ نکاح کے لیے کوئی کارروائی کرنی ہوگی؟
۳- اگر یہ لوگ مجھے یامیرے خاندان کو کچھ نقصان پہنچانا چاہیں اورہمارے خلاف کوئی قانونی کارروائی کریں تو اس سے بچاؤکے لیے ہم کیا کریں؟
۴- یہ نکاح درست نہیں تو نکاح نامہ اور دیگر دستاویزات کی منسوخی کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
۵- کیا اس کیس میں عدّت گزارنی ہوگی؟
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا (البقرہ ۲:۲۲۱) مشرک عورتوں سے نکاح مت کروجب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اورمشرکین جب تک ایمان نہ لے آئیں اوران سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کرو۔
لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ يَحِلُّوْنَ لَہُنَّ(الممتحنہ:۱۰)(یہ مسلمان عورتیں) نہ ان (کافروں) کے لیے حلا ل ہیں اورنہ وہ (کافرمرد) ان (مسلمان عورتوں ) کے لیے۔
قادیانیوں کے دوفرقےہیں : ایک فرقہ مرزا غلام احمد قادیانی کوصراحت سے نبی مانتا ہے۔ دوسرا فرقہ، جواحمد یہ کہلاتاہے ، وہ انھیں مہدی اور مسیح موعود قرار دیتاہے اور ان پروحی آنے کا قائل ہے۔ یہ حضرات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوخاتم النبیین تومانتےہیں،لیکن’ختم نبوت‘ کی بے جا تاویل کرتے ہیں اوراس کا دوراز کار مفہوم بیان کرتے ہیں۔
ان آیات سے واضح ہے کہ مشرکین اور مشرکات سے نکاح ممنوع ہے، پوری اُمت کا اتفاق ہے کہ قادیانی مسلمان نہیں، کافر ہیں۔ اس لیے شرعی طورپرکسی مسلمان عورت کا قادیانی عقائد رکھنے والے کسی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے اوراگر ہوچکاہے توباطل ہے ، اس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ۔
جب یہ نکاح ہوا ہی نہیں تو خلع یا فسخِ نکاح کی کسی کارروائی کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح اس صورت میں عدّت بھی نہیں۔البتہ دوسرانکاح پیش نظرہوتو تین ماہ انتظارکرلیا جائے یہ بہتر ہوگا۔
نکاح نامہ یادیگر دستاویزات موجود ہوں تواسےکینسل کروانے کے لیے کسی قانونی مشیر سے مددلینا مناسب ہوگا۔ اسی طرح اس چیز کا اندیشہ ہوکہ وہ قادیانی شخص یااس کےمتعلقین کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں،یا کوئی قانونی کارروائی کرسکتے ہیںتو اس سےتحفظ کے لیےکسی ماہر قانون سے مشورہ کرلینا چا ہیےاوراس کی بتائی ہوئی تدابیر پرعمل کرنا چاہیے۔ سماجی دباؤاور تحفظ بھی کارگر ہوسکتا ہے۔ اپنےاہل خاندان، پڑوسیوں اورمحلہ والوںسے بھی مدد لیں۔انھیں اپنا مسئلہ سمجھائیں اوران کے تعاون سے گلو خلاصی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
قادیانیت موجود ہ دورکا ایک بڑا فتنہ ہے ۔یہ امت مسلمہ کے لیے ایک ناسورہے۔ قادیانی بہت سرگرمی سےبھولے بھالے مسلمانوں کوبہکانے اوراپنے دامِ فریب میںگرفتارکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ان سےہوشیار رہنے اوران سے فاصلہ بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔(مولانا رضی الاسلام ندوی)
سوال : میری بیٹی کا نکاح تین برس قبل شرعی طور پر انجام دیا گیا ۔ مسجد میں نکاح ہوا ۔ غیر اسلامی رسوم، لین دین ، جہیز وغیرہ سے اجتناب کیا گیا ۔ اس وقت سے خاندان میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنا کہاں تک جائز ہے ؟ یہ تو نئی بدعت ہے ۔صحابۂ کرامؓ کے نکاح مسجد میں ہوئے ہوں ، یہ ثابت نہیں ہے۔
جواب :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو آسان بنانے کی ترغیب دی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے :خَیْرُ النِّکَاحِ اَیْسَرُہٗ (ابوداؤد: ۲۱۱۷) ’’ بہترین نکاح وہ ہے جو بہت سہولت اور آسانی سے انجام پائے‘‘۔ اسی طرح آپؐ نے اس کا بھی حکم دیا ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے اور اس کی تشہیر کی جائے، تاکہ آبادی کے لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت نکاح کے بندھن میں بندھ گئے ہیں ۔ آپؐ کا ارشاد ہے: اَعْلِنُوْا لنِّکاَحَ (احمد: ۱۶۱۳۰) ’’نکاح کا اعلان کرو‘‘۔
آج کل مسلم معاشرے میں نکاح کودشوار بنادیا گیا ہے ۔ اس پر اتنا صرفہ آتا ہے کہ اوسط یا معمولی آمدنی والے شخص کواس کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں اورکافی سرمایہ اکٹھاکرنا پڑتا ہے ۔ لڑکی کے نکاح کا معاملہ ہوتو وہ اس کے سرپرست کے لیے اوربھی دشوار اورپریشان کن رہتا ہے ۔ اس لیے کہ برأت کی خاطر مدارات، جہیز اور دیگر رسوم کی ادایگی کے لیے خطیر رقم کی ضرورت پڑتی ہے ، جس کے لیے بسا اوقات قرض تک کی نوبت آجاتی ہے۔
فقہا نے مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کو جائزقرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس سے دونوں فائدے حاصل ہوتے ہیں : ایک تو نکاح بہت سادگی سے انجام پاتا ہے، دوسرے اس کی تشہیر بھی ہوجا تی ہے ، البتہ انھوںنے تاکید کی ہے کہ تقریبِ نکاح کی انجام دہی کے دوران میں مسجد کے تقدس و احترام کا خیال رکھا جائے ، شور وشغب نہ ہو، بلا ضرورت اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کی جائیں ، وغیرہ۔ ( فتح القدیر ، ۲/۳۴۳- ۳۴۴)
اس موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے ، جوام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَعْلِنُوْا ہٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوْا عَلَیْہِ بِالدُّفُوْفِ(ترمذی:۱۰۸۹)’’نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس موقع پر دف بجاؤ‘‘۔
اس حدیث کی سند میں ایک راوی عیسیٰ بن میمون الانصاری کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اسی بنا پر علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس حدیث کوضعیف کہا ہے (فتح الباری ، ۹/۲۲۶)۔ البتہ اس کا ابتدائی حصہ (نکاح کا اعلان کرو)دیگر روایتوں سے ثابت ہے ، اس لیے صحیح ہے۔
مسجد میں تقریبِ نکاح منعقد کرنے کوحکمِ نبوی ثابت کرنا تو درست نہیں، لیکن اسے بدعت کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ عہدِ نبویؐ میںمسجد کونماز کے علاوہ دیگر کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا ، مثلاً تعلیم وتربیت ، معاملات کے فیصلے ، حدود و تعزیرات کا نفاذ وغیرہ۔ اس بناپر اگر مسجد کے ادب واحترام کوملحوظ رکھتے ہوئے اس میں تقریبِ نکاح منعقد کی جائے تو وہ نہ صرف جائز ،بلکہ بعض پہلوؤں سے پسندیدہ ہے۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)