اکتوبر ۲۰۱۸

فہرست مضامین

فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

عبدالبدیع صقر | اکتوبر ۲۰۱۸ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image
  •   بـے لوث محبت:حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو میری عظمت وجلال کی وجہ سے    آپس میں محبت کرتے تھے ؟ آج، جب کہ میرے سایے کے سوا کہیں سایہ نہیں ہے ، میں انھیں اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دوں گا‘‘۔

حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ جن کی اللہ کے یہاں قدرومنزلت کو دیکھ کر انبیاؑ اور شہدا بھی رشک کریں گے ، حالانکہ وہ ولوگ نہ نبی ہوں گے نہ شہید ‘‘۔

صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: ’’یا رسولؐ اللہ!ہمیں بتایا جائے کہ وہ نیک بخت اور سعادت مند لوگ کون ہوں گے ؟‘‘

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے آپس میں اُلفت ومحبت رکھتے ہیں، حالاںکہ ان میں قرابت داری بھی نہیں ہے اور نہ کوئی مالی مفادات ہی ان کے پیش نظر ہیں۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے قیامت کے دن نورانی ہوں گے بلکہ سراسر نُور ہوں گے۔ جب لوگ قیامت کے روز حساب کتاب سے ڈر رہے ہوں گے اس وقت وہ بے خوف اور مطمئن ہوں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح وہ کسی قسم کے رنج وغم سے دوچار نہ ہوں گے۔ پھر آپ ؐ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ O(یونس ۱۰:۶۲) سنو! جو اللہ کے دوست ہیں نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

  •  عداوت: حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک کلام کرے۔ ایسا نہ ہو کہ دو مسلمان بھائی آمنے سامنے ہوں تو ایک ادھر کو منہ پھیر لے اور دوسرا دوسری سمت رخ کر لے۔ ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘۔

حضرت اُمِ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو    یہ فرماتے سنا کہ : ’’وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرانے اور اصلاح کی غرض سے ایک دوسرے کو اچھی بات پہنچائے (یعنی دروغ مصلحت آمیز سے کام لے )‘‘۔

مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت اُم کلثومؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی ؐ کو تین مواقع پر ایسی بات کی رخصت عطا فرماتے سنا جسے لوگ جھوٹ میں داخل سمجھتے ہیں۔ ایک میدانِ جنگ میں دشمن کے ساتھ چال، دوسرے لوگوں میں اصلاح کی غرض سے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا، اور تیسرے وہ خلافِ واقعہ بات جو شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے (ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لیے ) کرے‘‘۔

ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا :’’اے لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو لیکن ایمان ابھی تمھارے دلوں میں پوری طرح اُترا نہیں ہے۔ مخلص مسلمانوں کو ستانے ، انھیں عار دلانے ، شرمندہ کرنے اور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے باز رہو۔ کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کمزوریوں کی ٹوہ لگاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے یہی رویہ اختیار فرماتے ہیں۔ اور جس کسی کی کمزوری پر اللہ کی نظر ہو وہ اسے ظاہر فرما دیتا ہے چاہے وہ کسی محفوظ مقام میں جا بیٹھے ‘‘۔

  •  میانہ روی:حضرت عبداللہ ؓ بن سرجس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا: ’’اچھی سیرت ، وقار اور اطمینان کے ساتھ کام انجام دینے کی عادت اور میانہ روی ، نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے‘‘۔

حضرت مصعب بن سعد ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر چیز میںمیانہ روی اچھی ہے مگر آخرت کے معاملے میں میانہ روی کے بجاے مسابقت اور تیز روی سے کام لینا چاہیے ‘‘۔

  •  حیا اور اخلاق:حضرت عمر ؓ بن حصین کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’حیا صرف خیر ہی لاتی ہے ‘‘۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ’’حیا خیر ہی خیر ہے ‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے مجھے وہ لوگ زیادہ محبوب ہیںجن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں ‘‘۔

حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ تم جہاں اور جس حال میں ہو، یعنی خلوت میں ہو یا جلوت میں ، اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم سے کوئی برائی سرزد ہو جائے تو فوراً کوئی نیکی کرو کہ وہ اس کی تلافی کر دے گی۔ اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘۔

حضرت ابن عمرؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : ’’حیا اور ایمان ، دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اُٹھ جاتا ہے‘‘۔ (مطلب یہ ہے کہ حیا ایمان کا لازمی تقاضا ہے )۔

  •  تکبّر اور غصّہ:  حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔

 حضور ؐ نے فرمایا :’’غصہ مت کیا کرو ‘‘۔

اس شخص نے اپنی بات کئی بار دہرائی کہ مجھے نصیحت فرمائیے مگر آپ ؐ نے ہر بار یہی فرمایا کہ ’’غصہ مت کیا کرو‘‘۔

حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جس آدمی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ دوزخ کی آگ میں نہ جائے گا، اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا‘‘۔

  •  ظلم و ستم: حضرت ابن عمر ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ :’’ ظلم قیامت کے روز ظالم کے لیے اندھیرے بن جائیں گے ‘‘۔

حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (ایک مدت تک وہ لوگوں پر ظلم کرتا رہتا ہے )۔ پھر جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا ۔ پھر آپ ؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :

وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَ ھِیَ ظَالِمَۃٌ ط اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ O (ھود ۱۱:۱۰۲ ) اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ شدید اور درد ناک ہوتی ہے ۔

 حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مظلوم کی بددُعا سے بچو ۔ وہ اللہ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق دار کا حق نہیں روکتا (یعنی اسے اس کا حق مل جاتا ہے )‘‘۔

  •  امربالمعروف:حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی منکر (بُرے کام ) کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے ہاتھ سے روکے ، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے، اور اگر اس کی قدرت بھی نہ ہو تو دل میں اسے بُرا جانے اور یہ (تیسرا درجہ ) ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘ ۔

 حضرت ابو بکر ؓ کہتے ہیں : ’’اے لوگو ، تم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے ہو‘‘:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج   لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ط (المائدہ۵ : ۱۰۵) اے ایمان لانے والو اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو ۔

ابن ماجہ اور ترمذی کی روایت کے مطابق آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ    صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ’’جب لوگ کسی منکر کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کریں ‘‘۔

ابو داؤد کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اللہ تعالیٰ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔

 ابو داؤد کی ایک اور روایت اس طرح ہے: ’’جس قوم میںگناہوں اور معاصی کا ارتکاب عام ہو جائے اور اس قوم کے لوگ اسے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں ، تو وہ اللہ کے عذابِ عام کا انتظار کریں ‘‘۔

  •   دُنیا: حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کی دونعمتیں ایسی ہیں کہ ان کے بارے میں لوگ فریب کھا جاتے ہیں (یعنی ان کی قدر نہیںکرتے)۔ ایک صحت وتندرستی اور دوسری فرصت ‘‘۔

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دوزخ ان چیزوں سے ڈھانپ لی گئی ہے جو نفس کو مرغوب ہیں ۔ اور جنت ان چیزوں سے ڈھانپی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں ‘‘۔

حضرت ابن عمر وبن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! میں تمھارے بارے میں فقراور غربت سے نہیں ڈرتا لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر اس طرح کشادہ کر دی جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی ( یعنی مال ودولت اور سازو سامان کی فراوانی تمھیں حاصل ہو جائے )۔ پھر تم اس میں ایسی رغبت اور دل چسپی لینے لگو جیسی اگلے لوگوں نے لی تھی، اور یہ عمل تمھیں بھی اسی طرح ہلا ک کر دے جس طرح انھیں ہلاک کیا تھا ‘‘۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا : ’’تم میں سے کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھ لے اور ان پر عمل کرے یا آگے ایسے آدمی کو سکھائے جو ان پر عمل پیرا ہو ؟ ‘‘

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یا رسولؐ اللہ! میں وہ کلمات سیکھنا چاہتا ہوں۔

پس حضوؐر نے میرا ہاتھ پکڑا اور گن کر پانچ باتیں بتائیں ۔ آپ ؐ نے فرمایا :

  •   اللہ کی حرام کی ہوئی اور منع کی ہوئی چیزوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تو تم سب سے زیادہ عبادت گزار شمار ہو گے۔
  •  اللہ نے جو کچھ تمھاری قسمت میں لکھا ہے اس پر راضی ہو جائے، تو تم سب بے بڑھ کر غنی ہو گے۔
  •  پڑوسی پر احسان کرو، تو تم سچے مومن بن جائو گے۔
  • دوسروں کے لیے وہی پسند کرو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، تو تم اچھے مسلمان بن جائو گے۔
  •  اور زیادہ نہ ہنسا کرو ۔ اس لیے کہ زیادہ ہنسی دل کو مُردہ کر دیتی ہے ۔
  • حصولِ دولت کی غیرمعمولی کوشش: حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! ہروہ عمل جو جنت کے قریب کرنے والا ہے اور دوزخ سے دور کرنے والا ہے ، میں تمھیں بتاچکا ہوں اور اس پر عمل کرنے کا حکم دے چکا ہوں۔ اسی طرح ہر وہ کام جو دوزخ کے قریب کرنے والا اور جنت سے دُور کرنے والا ہے اس سے بچنے کا حکم دے چکا ہوں۔ اور مجھے حضرت جبریلؑ امین نے ایک وحیِ خفی کے ذریعے سے بتایا ہے کہ کسی متنفس کو اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک وہ اپنا رزق پورا نہ کر لے۔ سنو، تو پھر اللہ سے ڈرو اور دنیا کمانے کی سر توڑ کوشش نہ کرو، بلکہ حدودِ حلال وحرام کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب کوشش کرو اور زیادہ توجہ اور کوشش آخرت کے معاملات میں صرف کرو۔ اور خدا کی نافرمانی کر کے تم جو رزق حاصل کرنا چاہو گے اسے حا صل نہ کر سکو گے۔ اس لیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اسے تو اطاعت اور فرماںبرداری کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے‘‘۔

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس آدمی کی نیت آخرت کی تیاری کی ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے ، اس کی پریشانیاں سمیٹ دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر خود ہی اس کے پاس آ جاتی ہے۔ اور جس شخص کی نیت دنیا کمانے کی ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں میں بھوک پیدا کر دیتا ہے (یعنی جتنا بھی اسے مل جائے وہ سیر نہیں ہوتیں )، اس کے کاموں کو اس طرح بکھیر دیتا ہے کہ وہ ان ہی میں اُلجھا رہتا ہے، اور ملتا وہی کچھ ہے جو پہلے سے اس کے مقدر میں لکھا ہوا ہے ‘‘۔

  • ریا شرک ہـے:حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں شرک سے بے نیاز اور بے پرواہوں ۔ اگر کوئی شخص کسی نیک کام میں میرے ساتھ کسی اورکو شریک کرے تو میں اسے ردّ کر دیتا ہوں اور اس میں سے کوئی حصہ نہیں لیتا‘‘۔

اور ایک روایت میں ہے: ’’اور میں اس سے اور اس کے عمل سے بری الذمہ ہوں‘‘۔

حضرت شداد بن اوس ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: ’’جس آدمی نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ، اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے بھی شرک کیا، اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا اس نے بھی شرک کیا‘‘۔