دورِ جدیدکی برق رفتار ترقی کے پیچھے انسان کی غور وفکر اور سوچ بچار کی صلاحیتوں کا ہاتھ ہے۔ سوچ بچار ایک ایسا انسانی عمل ہے، جس سے انسان آس پاس کی چیزوں کا مشاہدہ کر کے نئی نئی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔ لیکن سوچنا اگر محض براے سوچ ہو تو وہ سوچ کسی کام کی نہیں ۔ سوچنے کے بعد انسان جو خیال یا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے اس کا کسی دلیل سے ثابت ہونا از بس ضروری ہے۔ اگر وہ کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر رہے تو اُس نقطۂ نظر کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ دلیل پیش کرنے کے بعد دلیل کا صحت مند اور پیش کردہ نکتے کے ساتھ موافق ہونا بھی لازمی ہے، ورنہ پیش کردہ نقطۂ نظر بذاتِ خود غلط ثابت ہوگا۔
سوچنے کی صلاحیت خالصتاََ مخلوقِ انسانی کو بخشی گئی ہے۔ اس طرح سے انسان کا سوچنا اُسے انسانیت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کردیتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک استثنا ہے، اگر انسان کی سوچ محض سوچ ہی تک محدود ہو اور وہاں سے وہ کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر رہے ،تو ایسی سوچ کا کوئی ماحصل ہی نہیں ۔ سورئہ آل عمران میں عقل اور اِس سے اخذ کردہ نتائج کے مابین اس طرح سے ربط قائم کیا گیا ہے کہ:’’زمین اورآسمان کی پیدایش میں،رات اور دن کے باری باری سے آنے میں عقل مند لوگوں کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں‘‘(اٰل عمرٰن۳: ۱۹۰)۔ انسان کے پاس عقل ہونے کے باوجود اگر وہ اُسے ا ستعمال میںلا کر صحیح نتائج برآمد نہ کرسکے اور اپنی زندگی کے جملہ معاملات اُن اخذ کردہ نتائج کے مطابق نہ سنوارے، تو ایسے انسان بھی پھر غیر انسانی مخلوقات کی طرح ہوتے ہیں، فرق بس اتنا ہوتا ہے کہ یہ انسانی شکل میں ہوتے ہیں اور وہ غیر انسانی ا شکال میں۔اِن ہی اشخاص کو قرآن کریم نے یہ کہہ کر پکارا ہے کہ:’’ اِن کے پاس محسوس کرنے کے لیے دل تو ہوتے ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس دیکھنے کے لیے آنکھیں تو ہوتی ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں، اُن کے پاس سننے کے لیے کان تو ہوتے ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوگئے ہیں‘‘۔(الاعراف۷: ۱۷۹)
ایک دوسری جگہ ایسے انسانوں کو بدترین جانوروں سے تشبیہ دی گئی ہے ، جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ عقلِ سلیم کو استعمال کرنے کی ہدایات اس حد تک قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں کہ ایک تو اس نعمتِ عظمیٰ کا آخرت کے دن حساب دینا ہوگا: ’’جب کہ انسان سے آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۲)۔ دوسری طرف اسے استعمال نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی وعید سناتے ہوئے متنبہ کیا گیاہے کہ:’’ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اُن پر ہم گندگی ڈال دیتے ہیں‘‘۔ (یونس۱۰:۱۰۰)
قرآن پاک نے جس اندازِ فہمایش کو پسند و پیش کیا ہے ، اُس کا سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ انسانی عقل کو آزاد چھوڑدیاجائے۔ اُسے کوئی نکتہ سمجھانے میں کسی زور زبردستی یا دھونس دبائو سے کام نہ لیا جائے۔ جیسا کہ فرمایا گیا:’’ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں‘‘(البقرہ۲: ۲۵۶)۔ اُس کی عقل کی آزادی کی سطح کو سمجھنے کے بعد اُسے اُسی کی فہمایش کے مطابق بات سمجھائی جائے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف الفکر انسان دین سیکھنے کے لیے آتے تھے اور سوالات پوچھتے،لیکن آپؐ ہر کسی کو دین کے متعلق ایک ہی جواب نہیں دیتے۔ قریبی صحابہ سے اندازِ بیان طویل ، جامع اور موقع و محل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہوتا تھا، وہیں کسی بدوی صحابیؓ کے سوال کے جواب کا طرزِ تفہیم بہت ہی سادہ اور مختصر ہوتا تھا۔ اسی چیز کو قرآن پاک نے اس انداز میں پیش کیاہے کہ:’’ اے نبیؐ، اپنے رب کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘(النحل ۱۶: ۱۲۵)۔ یہ آیت موجودہ دور کے اُن مناظرہ پسند حضرات اور سوشل میڈیا پر بیٹھے جذباتی نوجوانوں کے لیے بھی ایک اہم ذریعۂ رہنمائی ہے جو اپنے طرزِ بیان میں بہت ہی شدت پسندہیںاور جو اپنی بات کو ’منوانے ‘ میں گالم گلوچ کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ غور کرنے کے لائق یہ مقام ہے کہ یہ آیت مشرکین ، یہود ، نصاریٰ وکفّار کے ساتھ بات یا مجادلہ کرنے کے تناظر میں نازل ہوئی ہے کہ اُن سے بھی اخلاقی حدود میں ہی بات کرنی ہے، لیکن کیا ہوا ہے کہ موجودہ دور میںمسلمان اپنے فروعی مسئلوں کے اندر اس حد تک متعصب ہوگئے ہیں اور اپنی بات کو منوانے میں اتنی شدت اختیار کرتے ہیں جہاں اخلاقی حدود و قرآنی احکام کا پاس و لحاظ ہی نہیں رکھا جاتا ہے۔
موجودہ دنیا کی جنگیں افکار و نظریات کی بنیادوں پر لڑی جارہی ہیں۔ ان جنگوں میں جو کوئی بھی اپنی بات کو سچ ثابت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ، وہی بازی اپنے نام کرلیتا ہے، قطع نظر اس کے کہ بات کو سچ ثابت کرنے میں کن’ ناروا اصولوں‘ کو بروے کار لایا گیا ہو۔ اس طرح کی جنگیں آج کل عام طور پر ٹی وی ، اخبارات و دیگر نشرو اشاعتی اداروں، خاص کر سوشل میڈیا کے ایوانوںکے اندر لڑی جارہی ہیں۔ دو مختلف نظریات کے حامل اشخاص ایک دوسرے سے بحث صرف اور صرف اس لیے کر رہے ہوتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، نہ کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ جس سے سماج میں نفرتوں و عداوتوں کا بازارگرم ہوتاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپس کے بحث و مباحثہ سے یہ پتا لگایا جائے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا، لیکن جس طرح صحیح کہنے والا اپنے نقطۂ نظر کو سچ ثابت کرنے میں بہت شدت برتتا ہے، اُسی طرح غلط کہنے والا اپنی عزتِ نفس کو بچانے کی خاطر نِت نئی دلیلیں پیش کرتا ہے۔ اپنی کج روی میں بد مست ہونا اور اپنے پیش کردہ نظریات سے اس حد تک محبت کرنا کہ انسان اندھا ہو جائے، انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ قرآن پاک کے اسلوب کی طرف نظر ڈال کر یہ بات بآسانی کہی جاسکتی ہے کہ عقل مند وہ لوگ ہیں جو اپنی غلطی کو غلطی مان کر بر وقت رجوع کر یں۔ ایسے انسانوںکے لیے ہی انعامات کی خوشخبری ہے، بلکہ اُن سے یہ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے کہ جیسے اُنھوں نے وہ کام کیا ہی نہیں ۔
انسانی عقل محدود ہے۔ اُس کے دماغ میں اِس کائنات کی حقیقت یک بارگی سے نہیں اُتر سکتی،بلکہ یہ ایک ترتیب وار اور مسلسل عمل ہے۔ اس طرح سے جس وقت بھی انسان کے سامنے عقل کے نئے دریچے کھل جائیں اور وہ جان جائے کہ اس کا وقتِ حاضر سے پہلے پیش کردہ نظریہ غلط ثابت ہورہا ہے،تو اُسے اپنی پچھلی راے سے رجوع کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر فکری انحطاط کی بنیادی وجہ یہی رہی ہے کہ ہر کوئی اپنی راے کو سچ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے اورکوئی بھی اپنی غلطی کو غلطی مان کر رجوع نہیں کر رہا ہے، بلکہ اُلٹا ہدایات والی آیات و آثار سے گمراہی مول لی جاتی ہے۔ جیسے کہ حضرت عمر بن عبدا لعزیز ؓ منکرین تقدیر سے فرمایا کرتے تھے کہ اے قدریہ کے گروہ ! جن آیات سے صحابہ کرام ؓ تقدیر کو ثابت کیا کرتے تھے تم انھی آیات کو پیش کرکے تقدیر کا انکار کرتے ہو۔ اِس کے بالمقابل سائنس کی دنیا میں اگر ایک سائنس دان کوئی ایک راے قائم کرلے اور کسی دوسرے محقق نے اُس راے کو منطق کے اعتبار اور صحیح الاسناد دلائل سے غلط ثابت کیا، تو پہلے حضرت نے اپنی راے سے (اگر حضرت زندہ نہ رہے تو اُس کے شاگردوں نے ) رجوع کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ اس معاملے میں مسلمانوں کے اکابرین بڑے ہی دریا دِل رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ کا اسمِ گرامی اس حوالے سے بڑے ذوق و شوق سے لیا جاسکتا ہے۔چاہے وہ تجسس کرنے کے معاملے میں آپ ؓ کا اپنے طرزِ عمل سے رجوع کرنا ہو یا نبی اکرمؐ کے رحلت کے وقت حضرت ابوبکرؓ کی بات مان کر خاموشی اختیار کرنی ہو، یا حضرت حسان بن ثابت ؓ کا مسجد نبویؐ کے باہر نعتیہ اشعار پڑھنے پر غصہ ظاہر کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دلیل سننے کے بعد اجازت باقی رکھنا ہو۔(بخاری، مسلم ، ترمذی، مکارم الاخلاق)
یاد رہے یہ وہ عمر ؓ ہیں جو اپنے جلال اور شان و شوکت میںاپنی مثال آپ تھے۔اسی طرح سے باقی صحابہؓ و قرونِ اولیٰ کے اکابرین ؒ کی بھی یہی روش رہی ہے کہ حق بات کو پانے کے بعد اپنی مخالف راے سے فی الفور رجوع کرنا، جن کی کئی ایک مثالیں احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ علمی و عملی لحاظ سے گراں قدر خدمات دنیاے انسانیت کے حق میں انجام دینے کے بعد بھی اِن حق گو اللہ کے بندوں نے آخر میں یہ کہا کہ ہماری ذاتی راے کے مقابلے میں اگر آپ کو کوئی بھی بات کتاب و سنت کے خلاف معلوم ہو تو ہماری راے کو دیوار پر دے مارنا۔ خیال رہے کہ یہ کوئی اُن کا چیلنج نہیں تھا کہ ہماری بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی بلکہ یہ اُن کی اپنی آخرت کی فکرتھی۔ اسی لیے پوری نیک نیتی کے ساتھ اپنی غیرمعصومیت کا اعتراف کرتے ہوئے حق تلاش کرنے کی راہوں کے دروازے اہلِ علم کے لیے ہمیشہ کھلے چھوڑ دینا اُن کو مطلوب تھااور یہی اِن عظیم انسانوں کے حق گو ہونے کی واضح دلیل ہے۔
قرآن پاک کا مرکزی موضوع جیسا کہ انسان ہی ہے، وہ انسان سے براہِ راست یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ تم میری بات مان لو، بلکہ اس سے اسی کی فہمایش کے مطابق اُن باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے جو کہ وہ پہلے ہی سے جانتا ہو۔ توجہ دلانے کے بعد وہ اُن باتوں کے متعلق اُس سے سوالات پوچھتا ہے۔ سوالات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی عقل کو اپیل کرتے ہیں۔ انسان چاہے جواب دے یا نہ دے لیکن اس کی عقل کی سطح کے مطابق انسان خود ہی جوابات اخذ کرلیتا ہے۔ اُن اخذ کردہ باتوں سے وہ اس سے بڑے شفیقانہ انداز میں اپنی اصل بات کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت کے بعد تیرہ سال مکہ میں قیام کیا۔ اس دوران آپ ؐ نے دین کے بنیادی عقائد کو سمجھانے کے حوالے سے جو طرزِ استدلال اختیار کیا اور جس کو قرآن نے عمومی طور پرمکی سورتوں میں بیان کیا، وہ یہی تھا کہ انسانی عقل کے دریچوں کو پہلے ہی سے اخذ کردہ علم سے کھول دیا جائے۔
مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا کہ:’’اچھا ، تو کیا انھوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے۔ اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میںپہاڑ جمائے اور اُس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اُگادیں۔ یہ ساری چیزیںآنکھیں کھولنے والی اور سبق دینے والی ہیں ہر اُس بندے کے لیے جو حق کی طرف رجوع کرنے والا ہو‘‘(قٓ ۵۰: ۸)۔ سورۂ عنکبوت میں اس چیز کو بالکل ہی واضح انداز میں بیان کیا گیاہے۔ وہاں پر حق سے منہ موڑنے اور دہرا معیار اختیار کرنے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ:’’ اچھا تو ـجب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے ایمان و یقین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے ،اس سے دعا مانگتے ہیں۔ پھر جب وہ انھیں بہ صحت و سلامت خشکی پر پہنچاتا ہے تو یکایک یہ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں‘‘( العنکبوت۲۹: ۱۰۴)۔ کبھی وہ انسان کو تواریخ کی طرف نظر دوڑانے کے لیے کہتا ہے، کہ شاید وہ حق کی طرف رجوع کرے۔ کبھی وہ زمان و مکان کی گواہی پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا کہ:’ ’اے نبیؐ، اگر یہ لوگ تمھیں جھٹلاتے ہیں، تو ان سے پہلے قومِ نوحؑ اور عادؑ اور ثمودؑ اور قومِ ابراہیم ؑ اور قومِ لوطؑ اور اہلِ مدین بھی جھٹلا چکے ہیں اور موسٰیکی قوم بھی جھٹلا چکی ہے۔ ان سب منکرین کو ہم نے پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا‘‘ ( الحج ۲۲: ۴۴)۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ:’ ’قسم ہے زمانے کی (یعنی زمانہ گواہ ہے )، کہ انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے ، سواے اُن لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘۔(العصر۱۰۳:۱-۳)
قرآن پاک کے مطالعے کا یہ پہلا ہی اصول ہے کہ انسان اپنے ذہن کی تمام پراگندگی کو دُور کر کے آئے، کھلے ذہن کے ساتھ کسی پیشگی مفروضے (Pre-conceived Assumptions) کے بغیر اس نسخے کو ہاتھ لگائے۔ اس طرح سے انسان کو ایک مثبت سوچ (Positive Thinking) کے ساتھ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ اصول نہ صرف قرآن کے ساتھ وابستہ ہے بلکہ علم کے باقی تما م ذخائر کی تہہ تک جانے میں بھی کارگر ثابت ہوا ہے۔ انسان کے علم حاصل کرنے کی پیاس جب تک نہ بجھے ،اُس سے کلام جاری رکھنا چاہیے۔ لیکن اگر انسان اپنی عقل کے دریچے خود ہی بند کردے یا اپنے موقف کو لے کر کٹ حجتی سے کام لے، اس سے پھر مزید بات کرنا آسمان کی طرف منہ کر کے تھوک دینے کے مترادف ہے۔انھی جیسے انسانوںکے متعلق فرمایا گیا کہ:’’یہ لوگ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں، یہ اب پلٹنے والے نہیں ہیں‘‘ (البقرہ۲: ۱۸)۔ اس کے بعد کس انسان کو یہ اختیارہے کہ جبر کرکے ایسے لوگوں کو حق کی طرف مائل کرے، کیوں کہ فرمایا گیا کہ: ’’اچھا تو اے نبیؐ ، نصیحت کیے جائو ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘(الغاشیہ ۸۸:۲۲- ۲۱)۔ ایسے انسان فطرت کے قوانین کا عذاب خود ہی چکھتے ہیں اور وقت انھیں جھوٹا ثابت کرنے میں کوئی تشنگی نہیں رکھتا۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآن پاک کے کلمات سے بڑھ کر کوئی چیز سچ نہیں۔ اِس کتاب کے طرزِ بیان کی اس دنیا میں اور کوئی نظیر نہیں۔ صدق و سچائی کا یہ منبع ہے۔ لیکن انسان کے ساتھ کلام کرنے میں اِس کتاب کا انداز انسانی ہی ہے، جس کی رُو سے یہ انسانی عقل کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا بھر پورموقع فراہم کرتی ہے اور آخر میں جس چیز کی طرف رُخ کر کے یہ کتاب اتمامِ حجت کرتی ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس اس کتاب کے پیش کردہ دلائل کے مقابلے میں کوئی اور دلیل ہو تو اسے پیش کیا جائے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ:’ ’اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۱۱، الاحقاف۴۶:۴)
دھونس، دبائو ، زور و زبردستی، کٹ حجتی یا جذبات کی بنیادوں پر لائی گئی تبدیلی کبھی دیر پا نہیں ہوتی۔ایسی تدبیریں سماج میں نفرت و عداوتوں کے ماحول کو پنپنے کے سوا کچھ فراہم نہیں کرتیں۔ طاقت کی بنیاد پر لوگوں کو کچھ دیر کے لیے چپ کروایا جاسکتا ہے، لیکن ایسے سماج میں خروج و بدامنی کے بیج مو جود رہتے ہیں اور جو کبھی بھی موافق ماحول پا کر سر نکال سکتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عظیم انقلاب کو برپا کیا، اُس میں سیاسی و معاشی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ علمی مواد (Intellectual Appeal) بھی بدرجہ اُتم موجود تھا۔گو کہ اسلام ہی لوگوںکی اصل کامیابی کا واحد ضامن ہے، لیکن باوجوداس کے آپؐ نے اسلامی انقلاب کو لوگوں پر نہیں تھوپا۔ لوگوں کو پہلے اس سطح پر پہنچانا کہ وہ سمجھ سکیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، اسلام اُن سے کیا مطالبہ کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے، اصل کامیابی کیا ہے اور دنیا کا لہو و لہب ہونا اپنے اندر کیا معنٰی رکھتا ہے، حسنات اور سیأت کے مابین کیوں کر اتنا بڑا فرق ہے___اُس کے بعد ہی اسلامی انقلاب کی تیاری کرنی ہوگی، بلکہ ایسی تیاری کرنے کے بعد لوگ بذاتِ خود اسلام کی ترویج و تلقین کی دعوت اپنے آپ دینا شروع کریں گے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ کسی بچے یا کسی بدمست انسان کے ہاتھ پیسوں کی ایک تھیلی تھما دی جائے اور اس سے کہا جائے کہ جا ! خوب ترقی کرو۔ لیکن کیا اس سے وہ بچہ ترقی کرے گا جسے پیسوں کی تھیلی کیا، ایک روپیہ کی اہمیت کا بھی ادراک نہیں ہے۔ لوگوں کو اس طرح سے ترقی کی طرف بلانے کا مقصد سماج میں بدامنی و انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
انسان کو چاہے مادی اعتبار سے ترقی کرنی ہو یا روحانی اعتبار سے بلندیوں کو چھو نا مقصود ہو، پہلے اُس کے اندر یہ فہم و فراست پیدا کرنی ہوگی کہ ترقی کس چیز کا نام ہے اور اس کے کیا کیا فائدے ہوتے ہیں ۔ جب وہ اُس ترقی اور اُن فائدوں پر غیر متزلزل ایمان لے آئے، اُس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت اُسے ترقی سے روک نہیں سکتی۔یہ ہے وہ نبویؐ حکمت عملی جس کا فقدان مسلمانوں کے اندر دیکھا جارہا ہے۔ آپ تو لوگوں کو دنیا و آخرت ، دونوں کی ترقی کی طرف دعوت دے رہے ہیں، لیکن لوگ اس انقلاب سے کیوں بدک رہے ہیں، جو اُن کی کامیانی کا ضامن ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر ملّت کا درد رکھنے والے ہرفرد کو سوچنا چاہیے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اسلام کے ماننے اور اس کے انقلاب کی خاطر محنت و کوشش کرنے والے نبویؐ منہج سے دُور چلے جارہے ہیں۔ نبویؐ منہج کا خاصا یہی ہے کہ عوام کی عقل کو اپیل کیا جائے، اُنھیں اس حد تک تیار کیاجائے کہ وہ اصل کامیابی کو سمجھ سکیں، اُن سے علمی اور احسن طریقے سے گفتگو کی جائے، اور اُن سے پیار و محبت سے پیش آیا جائے۔
دنیا کو اسلام کے سانچے کے اندر ڈھالنے والے کے نزدیک باقی تمام لوگ بچوں کی طرح ہونے چاہییں، جنھیں نہ اپنی کوئی فکر ہوتی ہے اور نہ دنیا کی۔ بچوں سے غلطیاں سر زد ہونے سے کیا کوئی ان سے نفرت کرتا ہے؟ کیا کوئی انھیں اپنے سے دُور کرتا ہے؟ نہیں ، بلکہ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ بچہ ہے، آہستہ آہستہ اسے زندگی کے جملہ معاملات کا ادراک ہوجائے گا۔ بالکل اسی طریقے سے بہکی ہوئی دنیا کے باسیوں کو آہستہ آہستہ اصل زندگی کا ادراک حاصل کرانا ہے۔ نفسیات میں تحقیق سے یہ واضح ہوا ہے کہ بچے کو اگر اس کی کم عمری میں ہی دھونس اور دبائو سے سمجھایا جائے، یا اس سے زور زبردستی کی جائے، یا سب کے سامنے اس کی تذلیل کی جائے، تو آگے جا کر یہی بچے جرائم کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔اس کے بالمقابل اگر بچے کو عزت و احترام کے ساتھ بات سمجھائی جائے تو عجب نہیں کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرلے اور اپنی اصلاح کرلے۔ پھر وہ دن دُو ر نہیں کہ جب یہی بچہ سماج کا ایک ذمہ دار شہری بن کر اپنی خدمات بہم پہنچاتا ہوا نظر آئے گا، ان شاء اللہ۔