ہلال احمد تانترے


جموں و کشمیر کی موجودہ صورتِ حال نہایت سنگین ہے۔ نہ صرف سیاسی بلکہ انتظامی اعتبار سے بھی صورتِ حال نہایت مخدوش نظر آرہی ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی خونیں جھکڑوں سے عوام کو دوچار ہونا پڑ رہا ہے ۔ اکتوبرکے مہینے سے لے کر اب تک (۲۰ نومبر ) ۴۱ عسکریت پسند وں کے ساتھ ساتھ ۲۰شہریوں کو مارا گیا ، جن میں ایک چھے مہینے کی حاملہ خاتون بھی شامل ہے ، جو ایک نہیں بلکہ دو جانیں تھیں۔ خونیں مہینوں کے اس نہ تھمنے والے سلسلے نے عوام کو آہوں اور سسکیوں میں  ماتم کناں چھوڑ دیا۔اِدھر حکومتی ذرائع کے مطابق وادی کشمیر میں ’گذشتہ ۱۰ مہینوں میں ۱۶۴ نوجوانوں نے مختلف عسکریت پسندوں کی صفوں میں شرکت کی‘۔ اور انداز ہ لگایا گیا ہے کہ سالِ رواں میں وادی میں سرگرم جنگجوئوں کی تعداد ۳۵۰/۴۰۰  تک پہنچ سکتی ہے۔

۲۱؍ اکتوبر کو کولگام ضلعے کے لارو گائوں میں تین عسکریت پسندوں کے قتل کے بعد مظاہرین اور حکومتی فورسز کے درمیان پُر تشدد کارروائیوں میں ۲۵عام شہری گولیوں اور پیلٹ چھروں سے بُری طرح زخمی ہوئے۔ جس مکان میں عسکریت پسند چھپے ہوئے تھے، اس کو بھی بارودی مواد سے زمین بوس کر دیا گیا۔ جیسے ہی مقامی لوگ مکان کی طرف آگ بجھانے کے لیے بھاگے تو مکان کے ملبے میں موجود ایک طاقت ور بم زوردار دھماکے سے پھٹ گیا، جس کی زد میں آگ بجھانے والے ہی آگئے ، اس طرح سات انسا نی جانیں تلف ہو گئیں۔ مواصلاتی نظام کو بھی ضلعے بھر میں بند کر دیا گیا، اور پھر مزید اضلاع میں انٹرنیٹ سہولت پر پابندی لگا دی گئی۔

جس طرح سے کشمیری اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان انتہائی اقدامات کی طرف مائل ہورہے ہیں ممکن ہے کہ یہ بات بھارت اور اِس کے ہم نوائوں کے لیے باعث تشویش نہ ہو، لیکن یہاں کے  درد دل اور صاحب ِبصیرت افراد کو ایک بڑے سوال کی طرف متوجہ ضرور کر رہی ہے۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر جما ہوا ہے اور عملی طور پر اسے کوئی فکر نہیں کہ کون مرے یا کون جیے۔ اُس کے حربوں اور منصوبوں سے تو یہ واضح ہو چکا ہے کہ کشمیر کی پوری آبادی اُس کے لیے ’دہشت گرد‘ ہے اور یہاں کے باسیوں کو مختلف نام دے کر ختم کرنا ہی اصلی ہدف ہے۔ نہ صرف محاصروں کے پُر تنائو آپریشنز اور جھڑپوں کے جنگی جنون کے ذریعے سے، بلکہ مختلف حربے استعمال کرکے ڈرایا دھمکایا جانا بھی شامل ہے تاکہ کشمیریوں کی جانی و مالی حیثیت کو بکھیر دیا جائے۔

کشمیر یونی ورسٹی کے شعبہ سماجیات سے ہر دل عزیر استاد ڈاکٹر رفیع بٹ کا مئی کے مہینے میں جاں بحق ہونا، پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ہونہار اسکالر کا ۱۱؍اکتوبر کو ظلم وستم کی نذر ہو جانا، بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ۱۸ ؍ اکتوبر کو ہی کشمیر یونی ورسٹی کے شعبۂ ادویہ سازی سے فارغ التحصیل طالب علم شوکت احمد بٹ، پلوامہ میں شوٹ آئوٹ کے دوران جاں بحق ہو گئے۔ شوکت احمد محض آٹھ دن پہلے عسکریت سے منسلک ہوئے تھے۔ اسی طرح اکتوبر کے آخری ہفتے میں ایک اور نوجوان اسکالرڈاکٹر سبزار احمد کے اپنے ایک اور ساتھی سمیت نوگام سرینگر میں گولی کا نشانہ بننے پر پوری وادی غم و اندوہ کی لہر میں ڈوب گئی ۔ ۲۴ ؍اکتوبر کو بیج بہاڑا کے آرونی علاقے میں ۴ مزید عسکریت پسند جاں بحق ہوئے۔ ۲۵؍ اکتوبر کو دو مختلف کارروائیوں کے دوران آرونی بیج بہاڑا اور کریری بارہمولہ میں چھے عسکریت پسند جاں بحق ہوئے۔ اگلے روز جمعے کے دن پازل پورہ رفیع آباد میں مزید دوعسکریت پسند حکومتی فورسز کی کارروائیوں میں جاں بحق ہوئے۔

نومبر کا مہینہ بھی اس حوالے سے خونیں واقعات دہراتا ہوا آیا۔ نومبر کے مہینے میں ۱۸عسکریت پسندوں کے جاںبحق ہونے کے ساتھ ساتھ حریت رہنما (ضلع اسلام آباد) میر حفیظ اللہ کو مسلح افراد نے ۲ ؍ نومبر کو گھر میں گھس کر گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس حملے میں اُن کی اہلیہ بھی  شدید زخمی ہوئیں۔ میر حفیظ اللہ، جنوبی کشمیر سے مزاحمتی جدوجہد کے سرکردہ لیڈر تھے۔ وہ پہلے ہی سے نصف درجن سے زیادہ مقدمات کے سبب ۱۴  سال قید کاٹ کر آئے تھے۔اُن کے گھر کے اردگرد پچھلے کئی دنوں سے مشکوک حالت میں کچھ افراد گھوم رہے تھے۔ بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی کے مطابق ’جس طرح سے حکومت نواز بندوق بردار اخوانیوں نے ماضی میں نے چُن چُن کر جماعت اسلامی کے ارکان کو ختم کرنے کا گھنائونا سلسلہ قائم کیا تھا، اُسی طرز پر آج حریت رہنمائوں کو قتل کیا جارہاہے‘۔ حریت رہنما محمد اشرف صحرائی کے مطابق:’ حکومتی ایجنسیوں کے سامنے تحریکِ حریت اور جماعت اسلامی کے کارکنان اصلی اہداف ہیں‘۔

اس طرح آئے روزیہاں کے نوجوانوں کا کسی نہ کسی محاصرے میں جاں بحق ہونا معمول بن چکا ہے۔ ہر کوئی اس بات پر مضطرب ہے۔ ایسی صورت حال میں اس بات پر غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کے لیے کیا کوئی اور راستہ مہیا نہیں ہو سکتا جس میں  وہ اپنی صلاحیتوں سے قوم کی خدمت ذرا مختلف پہلوئوں سے کر سکیں۔

دنیا میں کس انسان کو امن، ترقی، سُکھ ، شانتی جیسی حسین اصطلاحات پسند نہیں؟ بے روزگاری اور سیاسی انتقام سے کس کو نجات نہیں چاہیے؟ دنیا میں ایسا کون سا تعلیم یافتہ نوجوان جو اپنے کیریئر کے بارے بے فکر ہوگا؟ لیکن جس ماحول میں کشمیر کے لوگ اور یہاں کے نوجوانوں کو دھکیلا جا رہا ہے ، اُس میں انھیں آنکھیں بند کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ جب سیاسی اور انتظامی معاملات میں بھی اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں تو وہ اپنے جذبات کے اظہا ر کا حق دنیا کے باقی انسانوںکی طرح رکھتے ہیں، جس پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتا۔

اس کے بالمقابل بھارت کا حکمران طبقہ محض اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ بھارت اور اس کے ہم نوائوں کے لیے یہ ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہے کہ آٹھ لاکھ پر مشتمل فوجیوں سے وہ کب تک یہاں کے لوگوں کو خموش کرا سکتے ہیں؟ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر کی موجودہ نوجوان نسل ایسے ماحول میں پلی بڑھی ہے کہ جب یہاں عسکریت کا دور دورہ تھا۔ پھر انھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنوں کو قتل ہوتے دیکھا ہے، انھوں نے اپنوں کے جنازوں کو کندھے دیے، اپنے ہی بزرگوں کی توہین انھوں نے برداشت کی ہے، اپنی مائوں بہنوں کی عصمت دری اور بے عزتی کے واقعات بھی انھوں نے بچشم سر دیکھے ہیں۔ اسی نوجوان نسل نے اعلیٰ تعلیمی اسناد اپنے ہاتھوں میں ہونے کے باوجود مختلف محکمہ ہاے شعبہ جات میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ یہاں کی انتظامی بدحالی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور سیاسی غنڈا گردی کی اصل ستم زدہ یہی نسل ہے۔ ایسے نو جوانوں کو طاقت کے بل پر روک لینا محال ہے۔

مسئلہ کشمیر کو موجودہ کشمیری نسل کے تشخیصی رموزات (identity aspects) میں اگر دیکھا جائے تو انھوں نے اپنی زندگی کی ایک صبح بھی عزت و وقار کے ساتھ جی کر نہیں دیکھی ہے۔ پھر جب ایسی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہو، دنیا کے حالات و واقعات کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتی ہو، سائنس و ٹکنالوجی میں بھی نمایاں ہو، انٹرنیٹ کے ذریعے باقی اقوام کے لوگوں کی زندگیوں کا علم رکھتی ہو، تو اسے سوچنے سمجھنے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ یہ ہے وہ خطرناک صورت حال جس کی طرف نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بھارت سمیت اقوامِ عالم کے ایوانوں کو خموشی توڑ کر مسئلہ کشمیر کی طرف اوّلین فرصت میں توجہ کرنی ہوگی ، نہیں تو یہاں سے ایسا انسانی بحران اُٹھنے کے خدشات ہیں، جو نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ اقوامِ عالم کے امن کو تباہ کر سکتا ہے۔

انھی حالات میں یہاں پر ایک اور اُبھرتے ہوئے انسانی حقوق کے مسئلے کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ وادی میں ۹۰ ء کے عشرے کے دوران میں گھروں کی تلاشی جیسی کارروائیاں عمل میں لاتی جاتی تھیں، جن کا مقصد یہ تھا کہ کسی عسکریت پسند کو پناہ تو نہیں دی گئی ہے۔ مسجدوں کے لائوڈ اسپیکروں کو استعمال میں لا کر لوگوں کو بلا لحاظِ جنس، عمر اپنے گھروں سے باہر نکلنے کا حکم دیا اور گائوں کے کسی بڑے میدان میں، جو کہ عمومی طور پر بستی سے الگ ہوتا، جمع کیا جاتا تھا۔ پھر گھر گھر کی تلاشی کا وسیع و عریض جال بچھایا جاتا تھا ۔یہ ایک ایسی ا ذیت ناک صورت حال ہوا کرتی تھی، جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس تلاشی کے دوران گھر کا ساز و سامان بکھیر دینا، گھر کی نایاب چیزوں کا غائب کر دینا، ایک اذیت ناک صورت ہو ا کرتی تھی۔ یہ عمل آج بھی جاری و ساری ہے۔ اگرچہ آج اس عمل کو ’CASO‘ (کارڈن اینڈ سرچ آپریشنز)کی اصطلاح سے بدلا گیا ہے، لیکن اس کی اذیت ۹۰ ء کے عشرے سے کئی درجے زیادہ ہے۔ تب کشمیریوں کو گھروں سے نکال باہر کرکے توڑ پھوڑ ، اور ماردھاڑ کی کارروائیاں کی جاتی تھیں، اور اَب انھیں گھر میں رکھ کر، ان کے سامنے توڑ پھوڑ اور لُوٹ مار کی کارروائیاں انجام دی جاتی ہیں۔

اسی طرح کی ایک اور کارروائی کا نام ’جامہ تلاشی‘ ہے۔جس میں کپڑوں کو کھنگالا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کپڑوں کے اندر کسی ’متنازعہ‘ چیز کو چھپا رکھا ہو۔گھر گھر تلاشی اور جامہ تلاشی کے بعد اب ایک اور تلاشی کی کارروائی نے جنم لیا ہے، جس سے ’موبائل تلاشی ‘ کی اصطلاح سے موسوم کرسکتے ہیں۔

اس معاملے میں بات کرنے سے پہلے ’موبائل فون ‘ کوسمجھنا ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس سے آپ دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ نہایت آسانی سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ پہلے پہل  یہ صرف ذاتی دوستوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ ٹکنالوجی کی ترقی سے اس میں لکھ کر پیغام بھیجنے کی سہولیت بھی آگئی۔ اور اب موبائل کے اندر انٹرنیٹ اور باقی سہولیات کی مدد سے، اس چھوٹے سے آلے کے ساتھ آپ کی پوری زندگی منسلک ہے۔ آپ کا کاروبار، آپ کی تعلیم، آپ کا باقی دنیا کے ساتھ رابطے میں رہنا ، آپ کی نجی ضروریات، آپ کی شاپنگ، آپ کا بنک، آپ کے راز، بالفاظِ دیگر آپ کی پوری زندگی اس میں مقید ہے۔ اگر اِس کو آپ کی زندگی سے کاٹ دیا جائے، تو آپ اپنے آپ کو اپاہج محسوس کر سکتے ہیں۔ اس صورتِ حال سے دنیا کا امیر سے امیر ترین اور غریب سے غریب ترین انسان بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ گھر میں تو آپ کی چیزیں عیاں ہوتی ہیں، لیکن اگر کوئی شخص آپ کے موبائل میں جھانک کر آپ کی نجی تصاویر دیکھ لے تو یہ آپ کے لیے ناگوار صورت حال ثابت ہوسکتی ہے ۔اسی طرح سے کوئی شخص اگر آپ کے موبائل کے اندر آپ کے بنک کھاتے کی معلومات حاصل کرلے، آپ کی نجی فون کالز، آپ کے بھیجے گئے پیغامات، یا اسی طرح کی باقی واقفیت کو کرید کرید کر ٹٹول لے تو اس سے بڑھ کر اذیت ناک صورتِ حال اور کیا ہوسکتی ہے۔

اسلامی شریعت نے دوسروں کے رازوں کی ٹوہ لگانے یا کسی کے نجی معاملات میں بے جا مداخلت کو سخت ممنوع قرار دیا ہے (ملاحظہ ہو، سورۃ الحجرات۴۹:۱۲، اور تفہیم القرآن  ، سورۃ الحجرات، حاشیہ ۲۵ )۔’موبائل تلاشی‘ اصل میں انسان کے رازداری کے حقوق(Right to Privacy) پر براہِ راست شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ رازداری کے حق کو اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے بالفعل نافذکیا ہے۔ البتہ عام طور پر رازداری کے حقوق کو مغرب کی ’روشن خیالی‘ سے اخذ کردہ سمجھا جاتا ہے، جو کہ حقیقت سے انحراف کے مصداق ہے ۔ مغرب کو اس حق کا خیال ۱۹۴۸ء میں اُس وقت آیا، جب اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر عالمی اعلامیہ براے انسانی حقوق کی دفعہ۸ میں  یہ تذکرہ کیا گیا کہ کسی بھی انسان کی رازداری کے اندر بے جا مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ اس کے   پس منظر میں انسانی حقوق کی انجمنوں کی اپیل پر بھارتی عدالت عالیہ نے اگست میں رازداری کے حقوق کو آئین ہند میں بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے، اس کے تحفظ کا حکم جاری کیا۔ مگر بھارتی انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز کے لیے ایسے پروٹوکولز اور احکامات کی جو حیثیت ہے، اس کا مظاہرہ جموں و کشمیر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

بدنصیب وادیِ کشمیر میں ’موبائل تلاشی‘ کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے اپنے موبائل کے اندر کوئی ایسی تصویر، ویڈیو یا کوئی ایسی فائل تو نہیں رکھی ہے، جو یہاں کے ’امن و قانون‘ کی صورت حال کے لیے خطرہ ہو۔ نوجوانوں کے موبائل کے اندر ایسے مواد کو ایک بڑے ثبوت کے طور پر دیکھا اور موبائل کے مالک کو دھر لیا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں موبائل فون پر کسی ویڈیو ، آڈیو، یا کسی بھی خبر کا موصول ہونا یا اس کی آمد کو روکنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ کسی نے آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر، کسی واٹس ایپ گروپ میں شامل کرکے اُس گروپ میں کوئی مواد ڈال دیا ہے تو یہ آپ کے موبائل کے جمع خانے (storage ) میں داخل ہوگیا۔ جس میں آپ کا کوئی اختیار نہیں ۔پھر     اسی طرح سے آج ٹکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ یہ خودبخود’اَپ ڈیٹ‘ یا تازہ ہوتی رہتی ہے۔جس پر انسان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، خاص کر ایک عام صارف کوا یسی باتوں کا علم تک نہیں ہوتا ۔

رازداری کے حقوق، انسانی زندگی کے عزتِ نفس کے ساتھ منسلک ہیں۔ ایسے حق کا  سلب ہونا انسان کو ذہنی اذیت سے دوچار کرتا ہے، جس سے بہت ساری نفسیانی اُلجھنیں جنم لیتی ہیں۔ موبائل تلاشی جیسی کارروائیاں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں میں سے ایک ہے ۔ انسانی حقوق کےعلَم برداروں کو انسانی حقوق کے اس اُبھرتے ہوئے مسئلے کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔

اب رہی بات اربابِ اقتدار کے جملہ رویوں کی، تو اس کی شدت کا اندازہ ۲۱ ؍ اکتوبر کے  اُس سرکاری حکم نامے سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں گیتا اور رامائن کو کشمیر کے اسکولوں کے نظام میں متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ سرکاری کتب خانوں میں بھی اس کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے جائیں۔ اگرچہ بعدازاں اس حکم نامے کو عوامی دبائو کے پیش نظر واپس لے لیا گیا، لیکن یہاں کی انتظامی مشینری کے ذہنی سانچے کو سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ اِن متعصب حکم ناموں کے پس پردہ کون کون سے مقاصد کار فرما ہیں۔ یہاں پر یہ نکتہ بحث طلب نہیں ہے کہ کسی مخصوص مذہب کی کتابوں کو اسکولوں میں متعارف کرنا صحیح ہے یا غلط، حالاںکہ امرواقعہ بالکل واضح ہے کہ وادی کی ۹۶ فی صد سے زیادہ آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہاں کے اسکولی نظام کو چلانے کی خاطر جموں خطے کے مقابلے میں الگ سے ایک ڈائریکٹوریٹ کام کررہا ہے۔ مگر اس کے باوجود اربابِ اقتدار اپنے مقاصد کی آبیاری کے لیے تمام تر پیشہ ورانہ اخلاقیات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور یہاں کی سیاسی کشیدگی کوانتظامی احکامات میں ڈھالا جا رہا ہے۔ آئے روز کی خوں ریزی سے لوگ ابھی سوگوار ہی ہوتے ہیں کہ اگلی صبح انھیں ایک اور سوگ کے اندر دھکیل دیا جاتا ہے۔

عوامی مفاد اور وقت کی ضرورت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے دنیابھر میں ایسے خاطر خواہ انتظامات کیے جاتے ہیں کہ جس سے لوگوں کا فائدہ ہو۔ لیکن یہاں جو بھی پالیسی بنائی جاتی ہے،  اُس کا کسی پیشہ ورانہ اخلاقیات سے دُور تک کا کوئی واسطہ دکھائی نہیں دیتا۔ شاید اسی لیے یہاں جن  فلاحی اسکیموں کا بہ ظاہر سرکاری تقریبات میں بڑے مبالغانہ آمیز انداز میں بیان کیا جاتا ہے، وہ بھی    اپنا حقیقی مقصد حاصل کرنے سے پرے ہوتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک حکم نامہ ضلع بارہمولہ کے پٹواری حضرات کے نام نکالا اور اُن سے کہا گیا تھا کہ استادوں کی جگہ اب انھیں بورڈ امتحانات میں ڈیوٹیاں انجام دینی ہوں گی۔ متعلقہ حکم نامے کو بھی اگرچہ واپس لے لیا گیا ہے، لیکن یہاں کی انتظامی مشینری کی ذہنیت کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ایک مثال ہے ۔

دورِ جدیدکی برق رفتار ترقی کے پیچھے انسان کی غور وفکر اور سوچ بچار کی صلاحیتوں کا ہاتھ ہے۔ سوچ بچار ایک ایسا انسانی عمل ہے، جس سے انسان آس پاس کی چیزوں کا مشاہدہ کر کے نئی نئی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔ لیکن سوچنا اگر محض براے سوچ ہو تو وہ سوچ کسی کام کی نہیں ۔ سوچنے کے بعد انسان جو خیال یا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے اس کا کسی دلیل سے ثابت ہونا از بس ضروری ہے۔ اگر وہ کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر رہے تو اُس نقطۂ نظر کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ دلیل پیش کرنے کے بعد دلیل کا صحت مند اور پیش کردہ نکتے کے ساتھ موافق ہونا بھی لازمی ہے، ورنہ پیش کردہ نقطۂ نظر بذاتِ خود غلط ثابت ہوگا۔

غور وفکر کا قرآنی تصور

سوچنے کی صلاحیت خالصتاََ مخلوقِ انسانی کو بخشی گئی ہے۔ اس طرح سے انسان کا سوچنا اُسے انسانیت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کردیتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک استثنا ہے، اگر انسان کی سوچ محض سوچ ہی تک محدود ہو اور وہاں سے وہ کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر رہے ،تو ایسی سوچ کا کوئی ماحصل ہی نہیں ۔ سورئہ آل عمران میں عقل اور اِس سے اخذ کردہ نتائج کے مابین اس طرح سے ربط قائم کیا گیا ہے کہ:’’زمین اورآسمان کی پیدایش میں،رات اور دن کے باری باری سے آنے میں عقل مند لوگوں کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں‘‘(اٰل عمرٰن۳: ۱۹۰)۔ انسان کے پاس عقل ہونے کے باوجود اگر وہ اُسے ا ستعمال میںلا کر صحیح نتائج برآمد نہ کرسکے اور اپنی زندگی کے جملہ معاملات اُن اخذ کردہ نتائج کے مطابق نہ سنوارے، تو ایسے انسان بھی پھر غیر انسانی مخلوقات کی طرح ہوتے ہیں،    فرق بس اتنا ہوتا ہے کہ یہ انسانی شکل میں ہوتے ہیں اور وہ غیر انسانی ا شکال میں۔اِن ہی اشخاص کو قرآن کریم نے یہ کہہ کر پکارا ہے کہ:’’ اِن کے پاس محسوس کرنے کے لیے دل تو ہوتے ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس دیکھنے کے لیے آنکھیں تو ہوتی ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں، اُن کے پاس سننے کے لیے کان تو ہوتے ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوگئے ہیں‘‘۔(الاعراف۷: ۱۷۹)

ایک دوسری جگہ ایسے انسانوں کو بدترین جانوروں سے تشبیہ دی گئی ہے ، جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ عقلِ سلیم کو استعمال کرنے کی ہدایات اس حد تک قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں کہ ایک تو اس نعمتِ عظمیٰ کا آخرت کے دن حساب دینا ہوگا: ’’جب کہ انسان سے آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۲)۔ دوسری طرف اسے استعمال نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی وعید سناتے ہوئے متنبہ کیا گیاہے کہ:’’ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اُن پر ہم گندگی ڈال دیتے ہیں‘‘۔ (یونس۱۰:۱۰۰)

قرآن کا طرزِ تفہیم

قرآن پاک نے جس اندازِ فہمایش کو پسند و پیش کیا ہے ، اُس کا سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ انسانی عقل کو آزاد چھوڑدیاجائے۔ اُسے کوئی نکتہ سمجھانے میں کسی زور زبردستی یا دھونس دبائو سے کام نہ لیا جائے۔ جیسا کہ فرمایا گیا:’’ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں‘‘(البقرہ۲: ۲۵۶)۔ اُس کی عقل کی آزادی کی سطح کو سمجھنے کے بعد اُسے اُسی کی فہمایش کے مطابق بات سمجھائی جائے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف الفکر انسان دین سیکھنے کے لیے آتے تھے اور سوالات پوچھتے،لیکن آپؐ ہر کسی کو دین کے متعلق ایک ہی جواب نہیں دیتے۔ قریبی صحابہ سے اندازِ بیان طویل ، جامع اور موقع و محل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہوتا تھا، وہیں کسی بدوی صحابیؓ کے سوال کے جواب کا طرزِ تفہیم بہت ہی سادہ اور مختصر ہوتا تھا۔ اسی چیز کو قرآن پاک نے اس انداز میں پیش کیاہے کہ:’’ اے نبیؐ، اپنے رب کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘(النحل ۱۶: ۱۲۵)۔ یہ آیت موجودہ دور کے اُن مناظرہ پسند حضرات اور سوشل میڈیا پر بیٹھے جذباتی نوجوانوں کے لیے بھی ایک اہم ذریعۂ رہنمائی ہے جو اپنے طرزِ بیان میں بہت ہی شدت پسندہیںاور جو اپنی بات کو ’منوانے ‘ میں گالم گلوچ کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ غور کرنے کے لائق یہ مقام ہے کہ یہ آیت مشرکین ، یہود ، نصاریٰ وکفّار کے ساتھ بات یا مجادلہ کرنے کے تناظر میں نازل ہوئی ہے کہ اُن سے بھی اخلاقی حدود میں ہی بات کرنی ہے، لیکن کیا ہوا ہے کہ موجودہ دور میںمسلمان اپنے فروعی مسئلوں کے اندر اس حد تک متعصب ہوگئے ہیں اور اپنی بات کو منوانے میں اتنی شدت اختیار کرتے ہیں جہاں اخلاقی حدود و قرآنی احکام کا پاس و لحاظ ہی نہیں رکھا جاتا ہے۔

سوچ بچار کی موجودہ صورت حال

موجودہ دنیا کی جنگیں افکار و نظریات کی بنیادوں پر لڑی جارہی ہیں۔ ان جنگوں میں جو کوئی بھی اپنی بات کو سچ ثابت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ، وہی بازی اپنے نام کرلیتا ہے، قطع نظر اس کے کہ بات کو سچ ثابت کرنے میں کن’ ناروا اصولوں‘ کو بروے کار لایا گیا ہو۔ اس طرح کی جنگیں آج کل عام طور پر ٹی وی ، اخبارات و دیگر نشرو اشاعتی اداروں، خاص کر سوشل میڈیا کے ایوانوںکے اندر لڑی جارہی ہیں۔ دو مختلف نظریات کے حامل اشخاص ایک دوسرے سے بحث صرف اور صرف اس لیے کر رہے ہوتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، نہ کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ جس سے سماج میں نفرتوں و عداوتوں کا بازارگرم ہوتاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپس کے بحث و مباحثہ سے یہ پتا لگایا جائے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا، لیکن جس طرح صحیح کہنے والا اپنے نقطۂ نظر کو سچ ثابت کرنے میں بہت شدت برتتا ہے، اُسی طرح غلط کہنے والا اپنی عزتِ نفس کو بچانے کی خاطر نِت نئی دلیلیں پیش کرتا ہے۔ اپنی کج روی میں بد مست ہونا اور اپنے پیش کردہ نظریات سے اس حد تک محبت کرنا کہ انسان اندھا ہو جائے، انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ قرآن پاک کے اسلوب کی طرف نظر ڈال کر یہ بات بآسانی کہی جاسکتی ہے کہ عقل مند وہ لوگ ہیں جو اپنی غلطی کو غلطی مان کر بر وقت رجوع کر یں۔ ایسے انسانوںکے لیے ہی انعامات کی خوشخبری ہے، بلکہ اُن سے یہ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے کہ جیسے اُنھوں نے وہ کام کیا ہی نہیں ۔

حق شناسی کا اصول اور آثارِ اکابرین

انسانی عقل محدود ہے۔ اُس کے دماغ میں اِس کائنات کی حقیقت یک بارگی سے نہیں  اُتر سکتی،بلکہ یہ ایک ترتیب وار اور مسلسل عمل ہے۔ اس طرح سے جس وقت بھی انسان کے سامنے عقل کے نئے دریچے کھل جائیں اور وہ جان جائے کہ اس کا وقتِ حاضر سے پہلے پیش کردہ نظریہ غلط ثابت ہورہا ہے،تو اُسے اپنی پچھلی راے سے رجوع کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر فکری انحطاط کی بنیادی وجہ یہی رہی ہے کہ ہر کوئی اپنی راے کو سچ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے اورکوئی بھی اپنی غلطی کو غلطی مان کر رجوع نہیں کر رہا ہے، بلکہ اُلٹا ہدایات والی آیات و آثار سے گمراہی مول لی جاتی ہے۔ جیسے کہ حضرت عمر بن عبدا لعزیز ؓ منکرین تقدیر سے فرمایا کرتے تھے کہ اے قدریہ کے گروہ ! جن آیات سے صحابہ کرام ؓ تقدیر کو ثابت کیا کرتے تھے تم انھی آیات کو پیش کرکے تقدیر کا انکار کرتے ہو۔ اِس کے بالمقابل سائنس کی دنیا میں اگر ایک سائنس دان کوئی ایک راے قائم کرلے اور کسی دوسرے محقق نے اُس راے کو منطق کے اعتبار اور صحیح الاسناد دلائل سے غلط ثابت کیا، تو پہلے حضرت نے اپنی راے سے (اگر حضرت زندہ نہ رہے تو اُس کے شاگردوں نے ) رجوع کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ اس معاملے میں مسلمانوں کے اکابرین بڑے ہی دریا دِل رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ کا اسمِ گرامی اس حوالے سے بڑے ذوق و شوق سے لیا جاسکتا ہے۔چاہے وہ تجسس کرنے کے معاملے میں آپ ؓ کا اپنے طرزِ عمل سے رجوع کرنا ہو یا نبی اکرمؐ کے رحلت کے وقت حضرت ابوبکرؓ کی بات مان کر خاموشی اختیار کرنی ہو، یا حضرت حسان بن ثابت ؓ کا مسجد نبویؐ کے باہر نعتیہ اشعار پڑھنے پر غصہ ظاہر کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دلیل سننے کے بعد اجازت باقی رکھنا ہو۔(بخاری، مسلم ، ترمذی، مکارم الاخلاق)

یاد رہے یہ وہ عمر ؓ ہیں جو اپنے جلال اور شان و شوکت میںاپنی مثال آپ تھے۔اسی طرح سے باقی صحابہؓ و قرونِ اولیٰ کے اکابرین ؒ کی بھی یہی روش رہی ہے کہ حق بات کو پانے کے بعد اپنی مخالف راے سے فی الفور رجوع کرنا، جن کی کئی ایک مثالیں احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔  حتیٰ کہ علمی و عملی لحاظ سے گراں قدر خدمات دنیاے انسانیت کے حق میں انجام دینے کے بعد بھی اِن حق گو اللہ کے بندوں نے آخر میں یہ کہا کہ ہماری ذاتی راے کے مقابلے میں اگر آپ کو کوئی بھی بات کتاب و سنت کے خلاف معلوم ہو تو ہماری راے کو دیوار پر دے مارنا۔ خیال رہے کہ یہ کوئی اُن کا چیلنج نہیں تھا کہ ہماری بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی بلکہ یہ اُن کی اپنی آخرت کی فکرتھی۔ اسی لیے پوری نیک نیتی کے ساتھ اپنی غیرمعصومیت کا اعتراف کرتے ہوئے حق تلاش کرنے کی راہوں کے دروازے اہلِ علم کے لیے ہمیشہ کھلے چھوڑ دینا اُن کو مطلوب تھااور یہی اِن عظیم انسانوں کے حق گو ہونے کی واضح دلیل ہے۔

قرآن کا طرزِ استدلال

قرآن پاک کا مرکزی موضوع جیسا کہ انسان ہی ہے، وہ انسان سے براہِ راست یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ تم میری بات مان لو، بلکہ اس سے اسی کی فہمایش کے مطابق اُن باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے جو کہ وہ پہلے ہی سے جانتا ہو۔ توجہ دلانے کے بعد وہ اُن باتوں کے متعلق اُس سے سوالات پوچھتا ہے۔ سوالات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی عقل کو اپیل کرتے ہیں۔ انسان چاہے جواب دے یا نہ دے لیکن اس کی عقل کی سطح کے مطابق انسان خود ہی جوابات اخذ کرلیتا ہے۔  اُن اخذ کردہ باتوں سے وہ اس سے بڑے شفیقانہ انداز میں اپنی اصل بات کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت کے بعد تیرہ سال مکہ میں قیام کیا۔ اس دوران آپ ؐ نے دین کے بنیادی عقائد کو سمجھانے کے حوالے سے جو طرزِ استدلال اختیار کیا اور جس کو قرآن نے   عمومی طور پرمکی سورتوں میں بیان کیا، وہ یہی تھا کہ انسانی عقل کے دریچوں کو پہلے ہی سے اخذ کردہ علم سے کھول دیا جائے۔

مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا کہ:’’اچھا ، تو کیا انھوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے۔ اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میںپہاڑ جمائے اور اُس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اُگادیں۔ یہ ساری چیزیںآنکھیں کھولنے والی اور سبق دینے والی ہیں ہر اُس بندے کے لیے جو حق کی طرف رجوع کرنے والا ہو‘‘(قٓ ۵۰: ۸)۔ سورۂ عنکبوت میں اس چیز کو بالکل ہی واضح انداز میں بیان کیا گیاہے۔ وہاں پر حق سے منہ موڑنے اور دہرا معیار اختیار کرنے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ:’’ اچھا تو ـجب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے ایمان و یقین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے ،اس سے دعا مانگتے ہیں۔ پھر جب وہ انھیں بہ صحت و سلامت خشکی پر پہنچاتا ہے تو یکایک یہ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں‘‘( العنکبوت۲۹: ۱۰۴)۔ کبھی وہ انسان کو تواریخ کی طرف نظر دوڑانے کے لیے کہتا ہے، کہ شاید وہ حق کی طرف رجوع کرے۔ کبھی وہ زمان و مکان کی گواہی پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا کہ:’ ’اے نبیؐ، اگر یہ لوگ تمھیں جھٹلاتے ہیں، تو ان سے پہلے قومِ نوحؑ اور عادؑ اور ثمودؑ اور قومِ ابراہیم ؑ اور قومِ لوطؑ اور اہلِ مدین بھی جھٹلا چکے ہیں اور موسٰیکی قوم بھی جھٹلا چکی ہے۔ ان سب منکرین کو ہم نے پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا‘‘ ( الحج ۲۲: ۴۴)۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ:’ ’قسم ہے زمانے کی (یعنی زمانہ گواہ ہے )، کہ انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے ، سواے اُن لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘۔(العصر۱۰۳:۱-۳)

حصولِ علم کے اصول وضوابط

 قرآن پاک کے مطالعے کا یہ پہلا ہی اصول ہے کہ انسان اپنے ذہن کی تمام پراگندگی کو دُور کر کے آئے، کھلے ذہن کے ساتھ کسی پیشگی مفروضے (Pre-conceived Assumptions) کے بغیر اس نسخے کو ہاتھ لگائے۔ اس طرح سے انسان کو ایک مثبت سوچ (Positive Thinking) کے ساتھ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ اصول نہ صرف قرآن کے ساتھ وابستہ ہے بلکہ  علم کے باقی تما م ذخائر کی تہہ تک جانے میں بھی کارگر ثابت ہوا ہے۔ انسان کے علم حاصل کرنے کی پیاس جب تک نہ بجھے ،اُس سے کلام جاری رکھنا چاہیے۔ لیکن اگر انسان اپنی عقل کے دریچے خود ہی بند کردے یا اپنے موقف کو لے کر کٹ حجتی سے کام لے، اس سے پھر مزید بات کرنا آسمان کی طرف منہ کر کے تھوک دینے کے مترادف ہے۔انھی جیسے انسانوںکے متعلق فرمایا گیا کہ:’’یہ لوگ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں، یہ اب پلٹنے والے نہیں ہیں‘‘ (البقرہ۲: ۱۸)۔ اس کے بعد کس انسان کو یہ اختیارہے کہ جبر کرکے ایسے لوگوں کو حق کی طرف مائل کرے، کیوں کہ فرمایا گیا کہ: ’’اچھا تو اے نبیؐ ، نصیحت کیے جائو ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘(الغاشیہ ۸۸:۲۲- ۲۱)۔ ایسے انسان فطرت کے قوانین کا عذاب خود ہی چکھتے ہیں اور وقت انھیں جھوٹا ثابت کرنے میں کوئی تشنگی نہیں رکھتا۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآن پاک کے کلمات سے بڑھ کر کوئی چیز سچ نہیں۔ اِس کتاب کے طرزِ بیان کی اس دنیا میں اور کوئی نظیر نہیں۔ صدق و سچائی کا یہ منبع ہے۔ لیکن انسان کے ساتھ کلام کرنے میں اِس کتاب کا انداز انسانی ہی ہے، جس کی رُو سے یہ انسانی عقل کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا بھر پورموقع فراہم کرتی ہے اور آخر میں جس چیز کی طرف رُخ کر کے   یہ کتاب اتمامِ حجت کرتی ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس اس کتاب کے پیش کردہ دلائل کے مقابلے میں کوئی اور دلیل ہو تو اسے پیش کیا جائے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ:’ ’اپنی دلیل پیش کرو، اگر  تم اپنے دعوے میں سچے ہو‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۱۱، الاحقاف۴۶:۴)

نبوی ؐ  انقلاب کا منہج اور موجودہ  صورت حال

دھونس، دبائو ، زور و زبردستی، کٹ حجتی یا جذبات کی بنیادوں پر لائی گئی تبدیلی کبھی دیر پا نہیں ہوتی۔ایسی تدبیریں سماج میں نفرت و عداوتوں کے ماحول کو پنپنے کے سوا کچھ فراہم نہیں کرتیں۔ طاقت کی بنیاد پر لوگوں کو کچھ دیر کے لیے چپ کروایا جاسکتا ہے، لیکن ایسے سماج میں خروج و بدامنی کے بیج مو جود رہتے ہیں اور جو کبھی بھی موافق ماحول پا کر سر نکال سکتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عظیم انقلاب کو برپا کیا، اُس میں سیاسی و معاشی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ علمی مواد (Intellectual Appeal) بھی بدرجہ اُتم موجود تھا۔گو کہ اسلام ہی لوگوںکی اصل کامیابی کا واحد ضامن ہے، لیکن باوجوداس کے آپؐ نے اسلامی انقلاب کو لوگوں پر نہیں تھوپا۔ لوگوں کو پہلے اس سطح پر پہنچانا کہ وہ سمجھ سکیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، اسلام اُن سے کیا مطالبہ کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے، اصل کامیابی کیا ہے اور دنیا کا لہو و لہب ہونا اپنے اندر کیا معنٰی رکھتا ہے، حسنات اور سیأت کے مابین کیوں کر اتنا بڑا فرق ہے___اُس کے بعد ہی اسلامی انقلاب کی تیاری کرنی ہوگی، بلکہ ایسی تیاری کرنے کے بعد لوگ بذاتِ خود اسلام کی ترویج و تلقین کی دعوت اپنے آپ دینا شروع کریں گے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ کسی بچے یا کسی بدمست انسان کے ہاتھ پیسوں کی ایک تھیلی تھما دی جائے اور اس سے کہا جائے کہ جا ! خوب ترقی کرو۔ لیکن کیا اس سے وہ بچہ ترقی کرے گا جسے پیسوں کی تھیلی کیا، ایک روپیہ کی اہمیت کا بھی ادراک نہیں ہے۔ لوگوں کو اس طرح سے ترقی کی طرف بلانے کا مقصد سماج میں بدامنی و انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہے۔

انسان کو چاہے مادی اعتبار سے ترقی کرنی ہو یا روحانی اعتبار سے بلندیوں کو چھو نا مقصود ہو، پہلے اُس کے اندر یہ فہم و فراست پیدا کرنی ہوگی کہ ترقی کس چیز کا نام ہے اور اس کے کیا کیا فائدے ہوتے ہیں ۔ جب وہ اُس ترقی اور اُن فائدوں پر غیر متزلزل ایمان لے آئے، اُس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت اُسے ترقی سے روک نہیں سکتی۔یہ ہے وہ نبویؐ حکمت عملی جس کا فقدان مسلمانوں کے اندر دیکھا جارہا ہے۔ آپ تو لوگوں کو دنیا و آخرت ، دونوں کی ترقی کی طرف دعوت دے رہے ہیں، لیکن لوگ اس انقلاب سے کیوں بدک رہے ہیں، جو اُن کی کامیانی کا ضامن ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر ملّت کا درد رکھنے والے ہرفرد کو سوچنا چاہیے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اسلام کے ماننے اور اس کے انقلاب کی خاطر محنت و کوشش کرنے والے نبویؐ منہج سے دُور چلے جارہے ہیں۔ نبویؐ منہج کا خاصا یہی ہے کہ عوام کی عقل کو اپیل کیا جائے، اُنھیں اس حد تک تیار کیاجائے کہ وہ اصل کامیابی کو سمجھ سکیں، اُن سے علمی اور احسن طریقے سے گفتگو کی جائے، اور اُن سے پیار و محبت سے پیش آیا جائے۔

دنیا کو اسلام کے سانچے کے اندر ڈھالنے والے کے نزدیک باقی تمام لوگ بچوں کی طرح ہونے چاہییں، جنھیں نہ اپنی کوئی فکر ہوتی ہے اور نہ دنیا کی۔ بچوں سے غلطیاں سر زد ہونے سے  کیا کوئی ان سے نفرت کرتا ہے؟ کیا کوئی انھیں اپنے سے دُور کرتا ہے؟ نہیں ، بلکہ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ بچہ ہے، آہستہ آہستہ اسے زندگی کے جملہ معاملات کا ادراک ہوجائے گا۔ بالکل اسی طریقے سے بہکی ہوئی دنیا کے باسیوں کو آہستہ آہستہ اصل زندگی کا ادراک حاصل کرانا ہے۔ نفسیات میں تحقیق سے یہ واضح ہوا ہے کہ بچے کو اگر اس کی کم عمری میں ہی دھونس اور دبائو سے سمجھایا جائے، یا اس سے زور زبردستی کی جائے، یا سب کے سامنے اس کی تذلیل کی جائے، تو آگے جا کر یہی بچے جرائم کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔اس کے بالمقابل اگر بچے کو عزت و احترام کے ساتھ بات سمجھائی جائے تو عجب نہیں کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرلے اور اپنی اصلاح کرلے۔ پھر وہ دن دُو ر نہیں کہ جب یہی بچہ سماج کا ایک ذمہ دار شہری بن کر اپنی خدمات بہم پہنچاتا ہوا نظر آئے گا، ان شاء اللہ۔

جو مسلمان یہ کہتے ہیں کہ: ’دین اسلام کے غلبے کا کام آسا ن ہے اور اس کو انجام دینے کے لیے کسی خاص مشقت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ کام آسانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ’غیبی مدد‘ کے ساتھ انجام دیا جاسکتا ہے، اور جو اپنی زندگی کے شب و روز اسی زعم میں گزار رہے ہیں، ان کے لیے دو چیزیں سمجھنا ضروری ہیں۔ ایک ، سورۂ مزمل و مد ثر یا نبوت کی ذمہ دار ی پر فائز ہونے کے فوراً  بعد کی نازل شدہ آیات میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خطاب کہ: ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں، جس کے تقاضوں کو انجام دینے کی خاطر آپ ؐ رات کے آدھے حصے سے کم یا زیادہ وقت نماز میں گزاریں، قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھیں،اور ساتھ ساتھ اپنے ربّ پر توکل و بھروسا اورصبروثبات سے کام لینے کی مشق بھی کیا کریں۔

بالفاظِ دیگر فرمایا گیا کہ نبوت کا کام اتنا آسان نہیں ہے کہ کسی داخلی طلب کی گئی استعانت کے بغیر آپ ؐ اس کو انجام دے سکیں، بلکہ اس کارِ عظیم کو انجام دینے کی خاطر اپنے آپ کو ذاتی طور، اخلاق و روح کے بے پایاں ہتھیاروں سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسرا اہم نکتہ جو اسی نکتے سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نبوت کے مدعا و مقصد کو انجام دینے کی خاطر آپ ؐ کو بڑی بڑی طاقتوں سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔جن کے پاس ہر قسم کے وسائل مہیا ہیں، وقت کی طاقت ور مشینری پر کنٹرول کے ذریعے افواہ سازی اور پروپیگنڈا میں ہر کسی سے آگے، اپنے جاسوسوں کو کام پر لگائے پل پل کی خبر رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کی صفوں کے اندر بھی اپنے ہی زر خرید ایجنٹ و منافقین بھرتی کرنے والے آ پ کے کسی بھی کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے ہی اس کی بیخ کنی میں مصروف ہیں۔

 اِن حالات میں جو ہمہ گیر دعوت آپ ؐ نے برپا کی ، وہ ان تمام(اندرون و بیرون) چیلنجوں کا پورا ادراک رکھے ہوئے تھی۔ اُس انقلابی دعوت سے وابستہ افراد میں آپؐ نے اِن تمام چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کی تھی۔ اگرچہ اِن افراد سے تشکیل دی گئی جماعت مخالف سمت سے ٹکرانے والی پارٹی کے مقابلے میں انسانی اور مادی وسائل میں کمی کا شکار تھی۔ لیکن اِن تمام کمیوں کے باوجود وہ اُن تمام صفات سے متصف تھی جس کا تقاضا وقت کر رہا تھا اور جو انھیں ’حزب اللہ‘ کا لقب دینے کے لیے کافی تھا۔مسلمانوں کے اندر جس قدر جذبۂ جہاد اور شوقِ انفاق فی سبیل اللہ سرایت کر چکا تھا، وہ مخالفین کے تمام وسائل کو مات دینے کے لیے حد درجہ مؤثر تھا۔

معرکہ ٔ حق و باطل:

اس صورتِ حال سے ہمیں اپنے آج کا اور خود اپنا موازنہ کرنا چاہیے کہ ہمارے لیے وہی اصل معیار ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام سے وابستگی رکھنے والی اُمت اور اس قافلۂ حق سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد، غالباً حق و باطل کے مقابلے میں آرام کی زندگی بسر کر رہی ہے اور اس کے پاس کسی قسم کا مدافعانہ سامان (بصورتِ دلیل و بیان) غالباً موجود نہیں۔ باطل جس طریقے سے اپنے حربے آزما رہا ہے، باطل کے دفاتر جس سرعت و جان فشانی سے کام کررہے ہیں، ان کے مقابلے میں اہلِ حق کی سرگرمیوں کا موازنہ کس صورت میں کیا جائے؟ باطل سویا ہوا نہیں ہے، و ہ اپنا کام دن رات کرتا ہے کہ اس کے پاس مادی وسائل اور اختیارات فراواں ہیں۔ اس فضا میں یہ اُمید کیسے کی جاسکتی ہے کہ حق کا بول بالا ہو، ظالم اپنے ہی ہاتھوں خودکشی کرکے میدان طشتری میں رکھ کر پیش کرے گا؟ مقامی سطح سے لے کر عالمی معاملات تک کا یہ نقشہ ایک معقول اور سنجیدہ غوروفکر کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ باطل کے ہرکارے روزِ اوّل سے ہی اس کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کیسے اور کس طرح حق کے چراغ کو اپنی پھونکوں سے بجھایا جائے۔

حق کے ماننے و چاہنے والوں کا کام ہے کہ وہ اپنی محنت و لگن سے حق کو اس کا وہ مقام  عطا کریں، جس کا تذکرہ قرآن وحدیث میں موجود ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ اس وقت ہوگا جب اس کے علَم بردار نظریاتی حدوں کے اندر خواب دیکھتے اور پوری دیانت داری سے ان کی تعبیر کے لیے فکرمند ہوتے ہیں۔ بقولِ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی: ’’ہمیں عوام میں عوامی تحریک (mass movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے، جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر ِ افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوسرے فرائض کو بھی سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلا دینے کے لیے جلدی نہیں کر رہا ہوں، بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہلِ دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور ان کو کھنگال کر صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے، جو آگے چل کر عوام کے لیڈر بن سکیں ‘‘۔(رُودادِ جماعت اسلامی، حصہ اول)

 عصرِحاضر کے تقاضے:

اس صورتِ حال میں اگر ہم آج کی تیز رفتار ٹکنالوجی سے منضبط نظامِ زندگی کی طرف نظر دوڑائیں، تو کچھ اہم باتیں نمایاں ہوکر سامنے آتی ہیں:

۱- محض انسانی وسائل اور ٹکنالوجی کی فراہمی کچھ معنی نہیں رکھتی، بلکہ مقصد سے وابستگی اور اسے رُوبۂ عمل لانے کے لیے پیشہ ورانہ صلاحیتوں (professional skills) کی موجودگی اہم تر ہے۔

۲- انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ انھیں ایسے آلات و اختیارات کی ضرورت ہے، جن کو استعمال میں لا کر وہ اپنے اہداف حاصل کرنے کی طرف پیش رفت کرسکیں۔

 ۳- انسانی وسائل اور اُن سے جڑے اختیارت و آلات کو تبھی سرعت دی جاسکتی ہے ، جب کچھ مالی وسائل بھی ہاتھ میں ہوں۔

 ۴- اِن تمام چیزوں کو جو ایک اہم بنیاد، اثرپذیری اور تیزی بخشتی ہے اور اسے ایک    ہم آہنگ کُل (inter-related whole) کے طور پر منضبط کرتی ہے، اس کا نام انسانی مشینری ہے،  جس کو بالفاظِ دیگر تنظیم ، جماعت ، حلقہ،پارٹی وغیرہ کی اصطلاحات سے بھی جانا جاتا ہے۔

سیاسی ہو یا غیر سیاسی، سرکاری ہو یا غیر سرکاری، قومی ہو یا بین الاقوامی، دینی ہویا لا دینی، کوئی بھی تنظیم ہو، اگر اُس میں پیشہ ورانہ انسانی وسائل کے پاس اختیارات، قوتِ فیصلہ ، مادی وسائل اور ٹکنالوجی نہ ہو، تو وہ ہمہ پہلو مقابلے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ محض تنظیم کا وجود اس بڑے معرکے کا بدل نہیں ہوسکتا۔

 یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حق و انصاف کا ساتھ ہمیشہ کم لوگوں نے ہی دیا ہے۔ آبادی کا غالب حصہ یا تو باطل و ظلم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے یا لاعلمی کے عالم میں مزے سے سو رہا ہوتا ہے۔ تحریکی پس منظر میں جنھیں یہاں زیربحث لایا جارہا ہے، ان سے مراد ایسے ا فراد ہیں جن کے پاس غیرمعمولی طور پر مقصد سے وابستگی، پیشہ ورانہ صلاحیتیں، جوش ، جذبہ اور حق کے تعین کے لیے کچھ کرنے کا جذبۂ عمل اور رفتارِ عمل موجود ہو۔ ’وسائل‘ سے مراد انسانوں کا افرادی قوت کے اعتبار سے محدود مگر مربوط ہونا ہے اور’نظم‘ سے مراد ایسا طریق کار کہ جس کو عمل میں لاتے ہوئے  کم سے کم(محدود) انسانی وسائل سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جاسکے۔ 

اِن چار اہم نکات میں انسانی وسائل کی شناخت ، تربیت، احتساب، ترقی اور ان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ دعوت و تبلیغ اور دنیا کو بدل دینے کاکام لینا، ایک بہت بڑے علم کی حیثیت رکھتا ہے۔ تحریکاتِ اسلامی جتنی جلد اس سرمایے کی شناخت کرکے فیصلہ سازی کی اہمیت و افادیت کا ادراک کرلیںگی،اسی قدر ترقی اور پیش قدمی کرپائیں گی۔ دوسری صورت میں ڈھانچے تو موجود ہوں گے، مگر زندگی کی رمق کا وجود نہیں ہوگا اور مقابلے میں باطل سہولت سے ترقی کرتا رہے گا۔ تحریک کا اصل سرمایہ تو انسانی وسائل ہی ہیں۔ حتیٰ کہ مشین نما انسان(robot) کا بھی کنٹرول انسانوںکے ہاتھوں میں ہی ہوتا ہے۔ احادیث کی کتابوں ، بلکہ خود قرآن پاک میں حق کے غلبے کی جو بشارت دی گئی ہے، وہ اپنی جگہ برحق ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی کثیر تعداد حق کے اُس غلبے کا غلط مفہوم لے کر اِس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ’’ کسی سرعت سے کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، حق کو غالب ہو کر رہنا ہے۔ اس سے پہلے یہ زوال، یہ کسمپرسی ، یہ تباہی، یہ ذلت و مسکنت تو پیش گوئیوں کے عین مطابق ہمارے نصیب میں ہے‘‘۔ درحقیقت اس تصور کو ذہنوں سے نکالنا بے حد ضروری ہے۔

ابلاغ عام اور موثر تنظیم:

اسلامی تنظیمات انسانی وسائل کے ایک مخصوص حصے کو تنظیم کا حصہ بناکر عام لوگوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتیں، بلکہ اصل مسئلہ زیادہ سے زیادہ افراد کو   اس کے اندر سمونے کا ہے، جس کے لیے دعوت و تبلیغ کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لوگوں تک دعوت پہنچائی جاتی ہے ، انھیں اُن کے اصل مسائل کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، اُن کی عقل کے دریچے کھولے جاتے ہیں، اُن کے ساتھ بحث و تمحیص اور تبشیر و انذار سے کام لیا جاتا ہے اور انھیں اِس جماعت کی طرف راغب کرنے کے لیے ہر قسم کی محنت و کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد جتنے بھی لوگ اِس کاروان کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، اُن کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔ منصوبہ بندی دراصل ایک مخصوص عمل کا نام ہے جس میں متذکرہ انسانوں کی تعداد، اُن کی سکونت، اُن کے پاس صلاحیتیں، اُن کی مالی و جسمانی حیثیت وغیرہ کا پورا ریکارڈ مدنظر رکھا جاتا ہے، جس پر تنظیم کے اعلیٰ  ذمہ داران یہ غور و خوض کرتے ہیں کہ کس انسان کی جگہ کہاں پر موزوں ہے یا کس انسان سے کس جگہ پر زیادہ سے زیادہ کام لیا جاسکتا ہے۔

بالفاظِ دیگر منصوبہ بندی سے انسانی وسائل کی کمی و بیشی کو تنظیم کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جاتا ہے ۔ ایک جہاں دیدہ اور دُور اندیش قیادت اس چیز کا خاص خیال رکھتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تنظیم کے پاس پیشہ ورانہ انسانی وسائل کی کمی کے نتیجے میں تنظیم اپنے مشن کی آبیاری کی راہ میں ہچکولے ہی کھا رہی ہو، یا کہیں ایسا بھی نہ ہوکہ انسانی وسائل کی فراوانی کو لے کر تنظیم ان کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا موقع ہی فراہم نہ کر سکے ۔ اس صورتِ حال میں یہ بات غور کرنے کے لائق ہے کہ انسانی وسائل کی کمی کا معاملہ جتنا درد انگیز ہوتاہے ، اتنا ہی ان وسائل کی فراوانی میں، انھیں سلجھے انداز سے استعمال نہ کرنا بھی ایک تاریخی المیہ ہوتا ہے۔ ترقی کی منازل کی کوئی حد نہیں۔ اس لیے انسانی وسائل کی کثرت میں تحریکات کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے دست و بازو بننے والے افراد کو ترقی وپھیلائو کے مواقع فراہم کرنے کی خاطرنئے نئے چیلنج تخلیق کرے۔ ایسا نہ ہو کہ مواقع نہ پانے کی صورت میں قیمتی افراد، تنظیم میں عدم دل چسپی یا فرار کا راستہ اختیار کریں۔

 یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ تنظیم کے مددگار اور متفق افراد تین مقاصد کے لیے اپنے آپ کو تنظیم سے وابستہ کرتے ہیں: mایک ، تنظیم کے مشن کی آبیاری کرنے کا مقصد m دوسرا، تنظیم کی کارکردگی ، استحکام و نشوونما میں پیش پیش رہنے کا ہدف m اور تیسرا، اپنی ذاتی تربیت و شناخت کو قائم رکھنے کی منزل۔ انھی  تین مقاصد کو لے کر تنظیم اپنے مشن کی طرف رواں دواں ہو سکتی ہے، اور انھی سے باقی معمولات و مشمولات کا نظام آگے بڑھ سکتا ہے۔

 فرض شناسی اور افراد شناسی:

تنظیم میں کسی فرد کو ذمہ داری سونپ دینے میں اس بات کا خاص خیال رکھنا لازمی ہے کہ فرد کو اپنی ذمہ داری کا پورا ادراک ہو۔یہ نہیں کہ اسے محض ذمہ داری کے ٹائٹل کی پہچان حاصل ہوجائے اور بس۔اوراگر وہ نہیں جانتاہے تو اس کو اپنی ذمہ داری سمجھائی جائے۔ عام طور پر یہاں ان کارکنان کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے، جنھوں نے متعلقہ ذمہ داری کے خدو خال سمجھ لیے ہوں۔ افراد شناسی کے اعتبار سے یہ ایک بہترین فارمولا ہے مگر تنظیم کے لیے یہ ایک خطرے کی گھنٹی اُس وقت بنتا ہے، جب بہترین فرد کی جگہ بہتر آدمی کو ذمہ داری دی جائے یا بہتر فرد کی جگہ غیر بہتر فرد کو سونپ دی جائے۔ اس حوالے سے پیش نظر رہنا چاہیے کہ فرد کے لیے اپنی ذمہ داری کو انجام دینے میںجتنی اہمیت ’فرض شناسی ‘کی ہے، اتنی ہی اہمیت قیادت کے لیے’ افراد شناسی‘ کی ہے۔

 ذمہ داریوں میں تغیر و تبدل:

افراد کی تربیت کے حوالے سے ایک اور ذریعہ کار گر ثابت ہو سکتا ہے کہ اُن کی ذمہ داریوں کو کچھ وقت کے بعدبدل دیا جائے، جس کو job rotation کی اصطلاح سے بیان کیا جاتاہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کا تنظیم کی داخلی ضروریا ت تقاضا کرتی ہیں۔مثال کے طور پر زمان، مکان، ٹکنالوجی وغیرہ کے بدلنے سے افراد کی ذمہ داریاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ مزید برآں ، اس سے افراد کے اندر مختلف النوع ذمہ داریاں انجام دینے کا فن پیدا ہو تا ہے اور اُن کی صلاحیتیں بھی پروان چڑھتی ہیں۔ ایسی تبدیلیا ں تنظیم کے مختلف شعبہ جات کے اندر بھی لائی جاسکتی ہیں۔ اسلامی تحریکا ت اس حوالے سے اپنے افراد کی تربیت کے لیے اگر ایسا کوئی لائحہ عمل مرتب کرلیتی ہیں تو یہ ایک انقلابی افادیت کا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی سے وابستہ کسی کارکن کو ایک مقررہ وقت کے لیے پاکستان، ترکی یا بنگلہ دیش وغیرہ میں تحریک اسلامی کے نظامِ کار میں کچھ عرصہ گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے یا اسی طرح سے پاکستان کے کسی کارکن کوترکی، ملائشیا یا انڈونیشیا وغیرہ کی تحریک اسلامی کے خدو خال سمجھنے کا موقع دیا جائے۔ تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ میں ایسا شاید کم ہی ہوا ہوگا، لیکن اگر اس حوالے سے ایک منصوبہ بند طریقے سے اقدامات اٹھائے جائیں تویہ تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھے گا اور اس کے ثمرات بہت دُور رس ہونے کی اُمید ہے۔ اسی طرح یہ بھی عرض ہے کہ اگر کسی فرد نے اپنی پچھلی ذمہ داری سے انصاف کا تقاضا پور ا نہ کیا ہو تو اسے اُس سے بڑھ کر کسی بلند درجے کی ذمہ داری سو نپ دینا نامناسب ہوگا۔

افراد کی تربیت ،اُن کی صلاحیتوں کی دریافت، اُن صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اور انھیں اپنی صلاحیتوںکے مطابق ذمہ داریاں سونپنا، اُن کی عزتِ نفس کی قدرکرنا، اُنھیں اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے پر مبارک باد یاانعام سے نوازنا اور اُن کی مزید تربیت کرنا وغیرہ ایسے اقدام ہیں، جن سے انسانی وسائل کے فر وغ میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔

معاشی دباؤکا سامنا:

تحریکات ِ اسلامی کے اندر کام کرنے والےلوگ بھی باقی انسانوں کی طرح جائز خواہشات رکھتے ہیں، اُن کی بھی ایک نجی زندگی ہوتی ہے، اُنھیں بھی اہل و عیال کی ذمہ داریاں انجام دینا ہوتی ہیں، بالفاظِ دیگر انھیں بھی معاشی معاملات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ خاص کر موجودہ دور میں، جب کہ انسان کی ضروریات کئی گنا بڑھ گئی ہیں اور باقی دنیا کے ساتھ زندگی گزارنے میں ایک سے بڑھ کر ایک مشکل پیش آرہی ہے۔ اس صورت میں تحریک کے ساتھ ہمہ وقت کام کرنے والے افراد سے یہ مطالبہ مناسب نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ توازن کے ساتھ کسی معاشی مقصد کو پیش نظر نہ رکھیں۔ تاہم، یہیں پر اس چیز کی طرف توجہ مبذول کرانا نہایت ضروری ہے کہ تحریکات سے منسلک افراد کو اپنے معاشی مقصد کوثانوی حیثیت دینی چاہیے، بنیادی اور     پہلی حیثیت تنظیم کے مشن کی آبیاری ہونی چاہیے۔ ورنہ، معاش کو اوّلیت دینے کے نتیجے میں افراد کہیں تنظیم کے مشن کو ہی معاش کمانے کا ذریعہ نہ سمجھ لیں۔ اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ تحریک یا تحریکی ذمہ داریوں کے وسیلے سے محض مادی وسائل کی کشش ہی انھیں کھینچ نہ لے جائے۔

قدامت پرستی اور روایت پسندی کا دور اب اس دنیا سے رحلت کر رہا ہے۔ نہ صرف انسانوں کو بلکہ تنظیمات کو بھی دنیا کے بدلتے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً جب اس کے مخالف شر پسند عناصر اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اعلیٰ درجے پر فائز ہوں تو وہاں اسلامی تحریکات کو بھی اپنے افراد کو بدلتے تقاضوں کے پیش نظر تربیت دینا ہوگی۔ 

 اختلافات و تنازعات:

آخر میں جس چیز کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، وہ تحریکات کے اندر اختلافات کا وجود ہے۔ اختلافات یا تنازعات کا پیدا ہونا کوئی معیوب بات نہیں، اگر انھیں اخلاقی حدوں کے اندر پیش کیا جائے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اگر کسی تنظیم میں اختلاف راے پیدا نہ ہو، اور وہ بھی آج کی دنیا میں، جب کہ ’معلومات‘ کی بہتات ہے، تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ لوگ غور نہیں کر رہے یا کام میں دل چسپی نہیں لے رہے۔ جہاں پر مختلف عملی صلاحیتوں کو لے کر ایک سے زیادہ انسان کام کر رہے ہوں، وہاں پر اختلاف کا پیدا ہونا معیوب بات نہیں، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اختلافات کا نہ اٹھنا حیرت کی بات ہے۔ تاہم، اختلافات کے نبٹانے میں علم و اخلاق کے حدود کو مدِ نظر رکھنا اور افراد کے نئے خیالات کو وقعت دیتے ہوئے باہم صلاح و مشورے سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے تنظیمات کو ہمیشہ سے تیار رہنا چاہیے۔

 تنظیمات کے اندر صورتِ حال تب دگر گوں ہوتی ہے، جب کسی ایک فرد کے تنظیم میں  اختلاف کی صورت میں اسے خاطر خواہ اہمیت نہ دی جائے۔ ایسی سردمہری کے نتیجے میں فرد تنظیم کے ساتھ رسمی طور پر وابستہ رہتا ہے، لیکن دل اورعمل اُس کی گواہی نہیں دیتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے اختلاف کی وجہ سے تنظیم کے معمول کے کام کاج پر منفی اثر پڑتا ہے۔ دراصل ایسا فرد جسمانی زبان سے، اپنے ساتھیوں سے متوقع طور پر کم باتیں کرتا، کام میں لیت و لعل یا کام نہ کرنے پر بے جا معذرتیں پیش کرتا اور بغیر کسی مسئلے کے چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف کا اظہار کرتا ہے۔ پیٹھ پیچھے اختلاف ظاہر کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر تنظیمی اُمور پہ نکتہ چینی، باقی ساتھیوں کی عزت نہ کرنا اور چہ مہ گوئیوں کا بازار گرم کیے رکھنا وغیرہ ایسے اشارے ہیں ، جہاں پر تنظیم کو دیر کیے بغیر اِن مسائل اور اس فرد کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ان چیزوں کو نظرانداز کرکے فرد کو فنا ہونے کے لیے چھوڑ دینا تنظیم کے لیے زہرقاتل ہے کہ جس میں ممکن ہے ایسے فرد سے جان چھوٹ جائے، مگر تنظیم کا بھی نقصان ہوگا۔ آخر اہلِ نظم کا کام یہی تو ہے کہ وہ اپنے ساتھی کو ساتھ لے کر چلے،اس کے اشکالات دُور کرے۔

 تنظیم کے اندر کچھ اختلافات ایسے ہوتے ہیں جن کو نظر انداز (avoid) کرنے ہی کے نتیجے میں اُن کا حل سامنے آتا ہے۔ کچھ اختلافات میں فریقین میں سے کسی ایک فرد کو ضرور پیچھے ہٹنا، accommodate کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح سے کچھ اختلافات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے، جہاں پر پنجہ آزمائی (compete)کرنا پڑتی ہے۔ کبھی ایسا بھی اختلاف سامنے آجاتا ہے، جہاں پر مفاہمت (compromise) کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور لے دے کے مسئلے کو سلجھانا پڑتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کی بات بہت معقول ہو، مگر اپنے موقف سے ہٹ جانے کے بعد دوسرے کی بات کو تسلیم کرنے سے انصاف کا تقاضا پورا ہوتا ہو۔

یہ نکات قیادت سے باریک بینی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی تحریک کے لیے ایمان، اخلاق اور افراد میں سے کسی ایک چیز کو بھی سو فی صدبنیادی درجے کی ضرورت سے کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسی چیز سے افراد یا انسانی وسائل کی درست منصوبہ بندی کی نیو اُٹھائی جاسکتی ہے۔

 انسان کی دنیاوی زندگی کو پانچ اَدوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: نومولودیت (infancy)، بچپنا (childhood)، بلوغت (adolescense)، جوانی (adulthood) اور بڑھاپا         (old age)۔ زندگی کے ان تمام مراحل میں انسان اپنے آپ کو مختلف حالات سے لڑتا ہوا پاتا ہے۔ویسے بھی زندگی ایک جہدِ مسلسل کا نام ہے، چاہے وہ دودھ پیتا بچہ ہو یا کوئی نوجوان، ہر کسی کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے آس پاس کے ماحول سے کسی نہ کسی صورت میں نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ نومولود بچہ گھر کا چشم و چراغ ہوتا ہے۔ اُس کے ساتھ والدین اپنی زندگی کی بہت سی اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔ فطری جذبۂ اُلفت و محبت کے سایے میں وہ پروان چڑھتا ہے۔

تاہم، جب زندگی کے آخری مرحلے میں انسان پہنچتا ہے تو وہ عملاً نومولودیت کے عالم میں واپس جا پہنچتا ہے، جس کو ہم بڑھاپے کے نام سے جانتے ہیں۔انسانی زندگی کے سائیکل کا یہ ایسا مرحلہ ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ قرآن پاک میں بھی اسی چیز کا تذکرہ کچھ اس طرح سے کیا گیا؛’’اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمھاری پیدایش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمھیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمھیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا‘‘(الروم۳۰: ۵۴)۔ بڑھاپا ان تمام مراحل میں ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے، جس کو انسان نہ چاہتے ہوئے بھی آنے سے روک نہیں سکتا۔ انسان بہت ساری مشکلات سے دوچار ہوتاہے ۔ جسمانی ، نفسیاتی، سماجی اور مالی ، کسی نہ کسی صورت میں انسان دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔ جسمانی سہارے اور مالی ضروریات کا  وہ متلاشی ہوتا ہے۔ یہ کمی کسی نہ کسی صورت میں پوری ہونے کی سبیل بھی نکلتی ہے، لیکن نفسیاتی ضروریات کا زندگی کے اِس مرحلے میں شاذ ہی کسی کو احساس ہوتا ہے ۔ یہاں پر ہم کچھ بات سماجی و نفسیاتی ضروریات کے متعلق کریں گے۔

پچھلے سال کی بات ہے کہ ایک یورپی نوجوان جوے (Joe)نے بزرگوں کی سماجی و نفسیاتی ضروریات اور ان سے وابستہ حالات و کوائف کو سمجھنے کے لیے طے کیا کہ وہ پورے ایک ہفتے ایک ایسی جگہ پر گوشہ نشین ہو گا، جہاں اُسے نہ کسی سے بات کرنے کا موقع ملے اور نہ کسی سے ملنے جلنے کا۔ اس تجربے کا مقصد یہ تھا کہ ہم جو بزرگوں سے اتنے دور ہوتے جارہے ہیں کہ اُن سے اب بات کرنے کی بھی فرصت نہیں ہے، یہ دیکھا جائے کہ بزرگ حضرات اپنی زندگی کے یہ آخری ایام کن حالات و کوائف سے دوچار ہوکر گزارتے ہیں۔ اپنے اِس تجربے کے دوران انھوں نے ایک ایسے گھر کا انتخاب کیا جہاں پر کھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے لیے تو سب کچھ موجود ہے ، لیکن صرف انسان اور انسانی روابط نہیں ہیں، جن سے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں بات کر سکتا ہو۔ اس صورتِ حال میں رہتے ہوئے وقفے وقفے سے ایک ویڈیو بھی بناڈا لی، جس میں وہ بہت زیادہ گھبرایا ہوا نظر آتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ دیانت داری سے بتائوں، مجھے یہ تجربہ بہت مشکل لگ رہا ہے‘‘۔

اگلے دن جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو کہتا ہے کہـ’ ’جب میں صبح جاگا تو ہمیشہ اپنی عادت کے مطابق موبائل فون کو چیک کرنا چاہا، جو عام حالات میں نارمل ہوتاہے ، لیکن یہاں پر میرے پاس کوئی فون یا ذرائع ابلاغ مہیا نہیں ہیں، اس سے سخت مایوس ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ اصل معاملہ ہماری زندگیوں کو منضبط کرنے والی ٹکنالوجی کا نہیں ہے ، بلکہ انسانی رشتوں کا ہے۔ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ زندگی کی اصل غرض و غایت انسانوں کا باقی انسانوں کے ساتھ ایک رشتے کا احساس ہوتا ہے‘‘۔ یاد رہے ایک بڑے عالی شان بنگلے میں انسانوں کے بغیر ہر طرح کی آسایش کی چیز اِس نوجوان کو مہیا ہے۔ انھی حالات میں وہ اپنی ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں مزید کہہ رہا ہے کہ’ ’میں باہر کی دنیا میں رہنے والے لوگوں کی آوازیں سن سکتا ہوں ، جو کہ اپنے دن کے کام کا آغاز کرنے کے لیے اپنے اپنے مقامات کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ مجھے یہ چیز بہت کھٹک رہی ہے کہ لوگ باہر کی دنیا میں کام کر رہے ہیں اور میں یہاں اکیلا پڑا ہوں‘‘۔

اگلی رات آتے وقت مذکورہ نوجوان کہتا ہے کہ ’’مجھے لگتا ہے مجھے سونا چاہے ، کیوں کہ میرے لیے دن کا نہ کوئی آغاز ہوتا ہے اورنہ کوئی اختتام، بس بیٹھا رہتا ہوں کچھ بھی کام نہ کرتے ہوئے‘‘۔ اگلے دن صوفے پر بیٹھے مذکورہ نوجوان کہتا ہے کہ’’ بس میں اپنی زندگی کے ایام گن رہا ہوں۔ میں انسان نما مشین(robot) میں تبدیل ہو چکا ہوں۔ اب، جب کہ میں یہاں پر کوئی کام کیے بغیر اور کسی انسانی رابطے کے بغیر اپنی زندگی ایک مشین کی طرح جی رہا ہوں، تو غیر ضروری خیالات کا ہجوم میرے دماغ میں یلغار کرتا ہے جو پھر میرے لیے ایک نہ بیان کرنے والی پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں‘‘۔

ایک ہفتے تنہائی میں گزارنے کے بعد جب جوئے کو باہر کی دنیا میں لے جایا گیا تو اس سے ایک بزرگ نے پوچھا کہ: ’’کیا لگ رہا ہے اب آپ کو ایک ہفتہ کسی انسانی رشتے یا سماجی رابطے کے بغیر زندگی جینے میں ؟‘‘ جس کے جواب میں اس نوجوان نے کہا:’’ میں اپنے آپ کو  خوش رکھنے کے لیے بہت زیادہ کوشش کر نے کے بعد بھی خوش نہ رکھ سکا اور میرے اندر ایسی نفسیات پیدا ہوگئی، جس سے مجھے احساس ہو ا کہ مجھ جیسا فرد اکیلا،تن تنہا اور الگ چھوڑ دیا گیا ہے، اور میرا اِس دنیا میں زندہ رہتے ہوئے بھی کوئی وجود نہیں ہے‘‘۔اس کے بعد بزرگ مذکورہ نوجوان سے کہتے ہیں کہ:ـ’’ ڈھائی سال پہلے میری بیوی کا انتقال ہوا، جس کے بعد میرے پاس کوئی بھی، ہمسایہ، رشتہ دار ، دوست، حتیٰ کہ کوئی انسان تک نہیں آیا، جس سے کہ میں باتیں کرتا ، اپنے دکھڑے سناتا، حالاںکہ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ دنیا میں آئے ہوئے ہر ایک انسان کو بڑھاپے کا  یہ مرحلہ پار کرتے ہوئے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے‘‘۔

پوری دنیا میں ہمارے بزرگ حضرات مختلف حالات سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ہرکوئی انھیں بوڑھا سمجھ کر ان کی سنی اَن سنی کر رہا ہے۔’ ’اس کے نتیجے میں بے چارے بوڑھے پتا نہیں  آخر میں کیا کیا بہانے بھی گھڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی بیماری کا بہانہ بناتے ہیں،   نئے نئے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں، اور جو آجائے اُس سے پورا پورا دن مغز کھپائی کرتے رہتے ہیں کہ کہیں مختصر بات کے بعد وہ چلا نہ جائے‘‘۔ سمجھنے والی بات ہے کہ کیا وجہ ہے کہ بزرگ حضرات ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں اور جس کے جواب میںہمارا رویہ اُن کے ساتھ مردم بے زاری کا کیوں ہوتا ہے؟ کوئی بھی مسئلہ بذاتِ خود جنم نہیں لیتا ہے، بلکہ اُسے مختلف پہلو جنم دیتے ہیں۔ یہی حال بزرگوں کے اِس رویے کاہے۔

جیسا کہ اوپر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں انسان بچے کی طرح  بن جاتا ہے اور عادات و اطوار بھی بچوں کی طرح ہوجاتے ہیں۔ جس کی صرف ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ بڑھاپے میں انسان کو بالکل بچے کی طر ح دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، لامحالہ ہمیں بھی اُن کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی ضرورت ہے۔بیماری خود بخود کسی انسان کو گلے نہیں لگالیتی۔ پہلے اُس کی آمد کے لیے انتظامات کیے جاتے ہیں، بزرگوں کو معاشرے سے الگ سمجھا جاتا ہے، اُن سے کسی کو بات کرنے کی فرصت نہیں ہوتی، اُن کی ضروریات کی کوئی قدر نہیں کی جاتی، نتیجتاً وہ اُن بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جنھیں ہم جیسے بھاگتے پھرتے جوان اُن کی ’بہانہ سازی‘ قرار دیتے یا سمجھتے ہیں۔ ٹکنالوجی سے منضبط موجودہ دور کے انسان کے پاس اپنی آسایش و آسانی کے لیے تو بہت سے آلات موجود ہیں، لیکن یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ ٹکنالوجی کبھی انسان اور انسانی رشتے کی جگہ نہیں لے سکتی۔ نہ صرف اپنے بزرگ والدین کو بلکہ دنیا کے کسی بھی انسان کو اگر رشتے کے احساس سے محروم رکھا جائے، تو وہ دولت یا سہولیات کی فراہمی کے باوجود ایک نیم مُردہ لاش کی طرح بن کر رہ جائے گا۔ بزرگ حضرات کے لیے انسانی رشتوں کا یہ مرہم بدرجہ اُتم اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اپنے لاڈلے بچے کے لیے انسان اِس امید کے ساتھ کہ یہ بچہ زندگی کے آخری مرحلے میںمیرا سہارا بن جائے گا اپنی راتوں کی نیندیں حرام کر سکتا ہے، تو کیا وجہ ہے والدین کے انھی جیسے احسانات کو بھلا کر ہم اُن کی سماجی و نفسانی ضروریات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے؟

 عالمی تنظیم براے صحت (WHO)کے مطابق دنیا بھر میں ۲۰ فی صد سے زیادہ بزرگ لوگ کسی نہ کسی شدید ذہنی پریشانی میںمبتلا ہیں۔ ۶ء۶ فی صد بزرگ صرف اور صرف اس وجہ سے جسمانی طور ناکارہ ہوچکے ہیں، کہ وہ نفسیاتی الجھنوں میں جکڑے گئے ہیں۔نفسیانی بیماریوں میں سب سے زیادہ عام بیماری بھولنے کی ہے ، جسے dementia  کی اصطلاح سے جانا جاتا ہے اور جس نے بزرگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق بزرگوں کی طرف سے شکایت کردہ تکالیف کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ہم اُن کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے ہیں۔ نرم گوشہ بالکل ایسا ہی ہے، جیسے ہم بچوں کو اکیلا اور تن تنہا نہیں چھوڑتے ہیں،  اور قدم قدم پر انھیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ کوئی ان سے بہت سارا پیار کرتا ہے اور اُن کی ضروریات کا خیال بھی رکھتا ہے۔

اب اگر اپنے بچے کے لیے انسان اتنی ساری مصیبتیں اٹھاتا ہے، تو موجودہ دور کے معاشرے کے اس دور کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنے بزرگ والدین کے بے پناہ احسانات کے باوجود ہم انھیں اپنے لیے بوجھ سمجھ رہے ہیں؟ایک تحقیق کے مطابق بڑھاپے میں بھولنے کی بیماری (dementia) کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ کسی بوڑھے انسان سے اگر دن میں محض اس کے بچے ایک گھنٹے تک اس کے پاس بیٹھ کر دو چار باتیں کرلیں اور سن لیں تو ممکنہ حد تک بھولنے کی بیماری کو روکا جاسکتا ہے۔ گھر کے اندر داخل ہونے کے بعد اگر ان سے بھی سلام دُعا ہوجائے ، ان کو بھی اس بات کا احساس دلایا جائے کہ کوئی اُن کی بھی عزت کرتا ہے، انھیں کوئی اضافی چیز نہیں سمجھتا، انھیں بھی اپنے معاشرے کا نہایت اہم حصہ تصور کرتا اور سمجھتا ہے ، تو نہ کسی بیماری پر زیادہ پیسے خرچ کرنے کی ضرورت پڑے گی، اور نہ گھر کا ماحول دگرگوں ہونے کا خطرہ پیدا ہوگا۔ اتنا ہی نہیں آخرت کے اندر بھی اس عمل کے بدلے جنت کے انعام کے ملنے کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، بھلا اُن سے بڑھ کر اور کون سچا ہوسکتا ہے؟