جموں و کشمیر کی موجودہ صورتِ حال نہایت سنگین ہے۔ نہ صرف سیاسی بلکہ انتظامی اعتبار سے بھی صورتِ حال نہایت مخدوش نظر آرہی ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی خونیں جھکڑوں سے عوام کو دوچار ہونا پڑ رہا ہے ۔ اکتوبرکے مہینے سے لے کر اب تک (۲۰ نومبر ) ۴۱ عسکریت پسند وں کے ساتھ ساتھ ۲۰شہریوں کو مارا گیا ، جن میں ایک چھے مہینے کی حاملہ خاتون بھی شامل ہے ، جو ایک نہیں بلکہ دو جانیں تھیں۔ خونیں مہینوں کے اس نہ تھمنے والے سلسلے نے عوام کو آہوں اور سسکیوں میں ماتم کناں چھوڑ دیا۔اِدھر حکومتی ذرائع کے مطابق وادی کشمیر میں ’گذشتہ ۱۰ مہینوں میں ۱۶۴ نوجوانوں نے مختلف عسکریت پسندوں کی صفوں میں شرکت کی‘۔ اور انداز ہ لگایا گیا ہے کہ سالِ رواں میں وادی میں سرگرم جنگجوئوں کی تعداد ۳۵۰/۴۰۰ تک پہنچ سکتی ہے۔
۲۱؍ اکتوبر کو کولگام ضلعے کے لارو گائوں میں تین عسکریت پسندوں کے قتل کے بعد مظاہرین اور حکومتی فورسز کے درمیان پُر تشدد کارروائیوں میں ۲۵عام شہری گولیوں اور پیلٹ چھروں سے بُری طرح زخمی ہوئے۔ جس مکان میں عسکریت پسند چھپے ہوئے تھے، اس کو بھی بارودی مواد سے زمین بوس کر دیا گیا۔ جیسے ہی مقامی لوگ مکان کی طرف آگ بجھانے کے لیے بھاگے تو مکان کے ملبے میں موجود ایک طاقت ور بم زوردار دھماکے سے پھٹ گیا، جس کی زد میں آگ بجھانے والے ہی آگئے ، اس طرح سات انسا نی جانیں تلف ہو گئیں۔ مواصلاتی نظام کو بھی ضلعے بھر میں بند کر دیا گیا، اور پھر مزید اضلاع میں انٹرنیٹ سہولت پر پابندی لگا دی گئی۔
جس طرح سے کشمیری اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان انتہائی اقدامات کی طرف مائل ہورہے ہیں ممکن ہے کہ یہ بات بھارت اور اِس کے ہم نوائوں کے لیے باعث تشویش نہ ہو، لیکن یہاں کے درد دل اور صاحب ِبصیرت افراد کو ایک بڑے سوال کی طرف متوجہ ضرور کر رہی ہے۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر جما ہوا ہے اور عملی طور پر اسے کوئی فکر نہیں کہ کون مرے یا کون جیے۔ اُس کے حربوں اور منصوبوں سے تو یہ واضح ہو چکا ہے کہ کشمیر کی پوری آبادی اُس کے لیے ’دہشت گرد‘ ہے اور یہاں کے باسیوں کو مختلف نام دے کر ختم کرنا ہی اصلی ہدف ہے۔ نہ صرف محاصروں کے پُر تنائو آپریشنز اور جھڑپوں کے جنگی جنون کے ذریعے سے، بلکہ مختلف حربے استعمال کرکے ڈرایا دھمکایا جانا بھی شامل ہے تاکہ کشمیریوں کی جانی و مالی حیثیت کو بکھیر دیا جائے۔
کشمیر یونی ورسٹی کے شعبہ سماجیات سے ہر دل عزیر استاد ڈاکٹر رفیع بٹ کا مئی کے مہینے میں جاں بحق ہونا، پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ہونہار اسکالر کا ۱۱؍اکتوبر کو ظلم وستم کی نذر ہو جانا، بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ۱۸ ؍ اکتوبر کو ہی کشمیر یونی ورسٹی کے شعبۂ ادویہ سازی سے فارغ التحصیل طالب علم شوکت احمد بٹ، پلوامہ میں شوٹ آئوٹ کے دوران جاں بحق ہو گئے۔ شوکت احمد محض آٹھ دن پہلے عسکریت سے منسلک ہوئے تھے۔ اسی طرح اکتوبر کے آخری ہفتے میں ایک اور نوجوان اسکالرڈاکٹر سبزار احمد کے اپنے ایک اور ساتھی سمیت نوگام سرینگر میں گولی کا نشانہ بننے پر پوری وادی غم و اندوہ کی لہر میں ڈوب گئی ۔ ۲۴ ؍اکتوبر کو بیج بہاڑا کے آرونی علاقے میں ۴ مزید عسکریت پسند جاں بحق ہوئے۔ ۲۵؍ اکتوبر کو دو مختلف کارروائیوں کے دوران آرونی بیج بہاڑا اور کریری بارہمولہ میں چھے عسکریت پسند جاں بحق ہوئے۔ اگلے روز جمعے کے دن پازل پورہ رفیع آباد میں مزید دوعسکریت پسند حکومتی فورسز کی کارروائیوں میں جاں بحق ہوئے۔
نومبر کا مہینہ بھی اس حوالے سے خونیں واقعات دہراتا ہوا آیا۔ نومبر کے مہینے میں ۱۸عسکریت پسندوں کے جاںبحق ہونے کے ساتھ ساتھ حریت رہنما (ضلع اسلام آباد) میر حفیظ اللہ کو مسلح افراد نے ۲ ؍ نومبر کو گھر میں گھس کر گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس حملے میں اُن کی اہلیہ بھی شدید زخمی ہوئیں۔ میر حفیظ اللہ، جنوبی کشمیر سے مزاحمتی جدوجہد کے سرکردہ لیڈر تھے۔ وہ پہلے ہی سے نصف درجن سے زیادہ مقدمات کے سبب ۱۴ سال قید کاٹ کر آئے تھے۔اُن کے گھر کے اردگرد پچھلے کئی دنوں سے مشکوک حالت میں کچھ افراد گھوم رہے تھے۔ بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی کے مطابق ’جس طرح سے حکومت نواز بندوق بردار اخوانیوں نے ماضی میں نے چُن چُن کر جماعت اسلامی کے ارکان کو ختم کرنے کا گھنائونا سلسلہ قائم کیا تھا، اُسی طرز پر آج حریت رہنمائوں کو قتل کیا جارہاہے‘۔ حریت رہنما محمد اشرف صحرائی کے مطابق:’ حکومتی ایجنسیوں کے سامنے تحریکِ حریت اور جماعت اسلامی کے کارکنان اصلی اہداف ہیں‘۔
اس طرح آئے روزیہاں کے نوجوانوں کا کسی نہ کسی محاصرے میں جاں بحق ہونا معمول بن چکا ہے۔ ہر کوئی اس بات پر مضطرب ہے۔ ایسی صورت حال میں اس بات پر غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کے لیے کیا کوئی اور راستہ مہیا نہیں ہو سکتا جس میں وہ اپنی صلاحیتوں سے قوم کی خدمت ذرا مختلف پہلوئوں سے کر سکیں۔
دنیا میں کس انسان کو امن، ترقی، سُکھ ، شانتی جیسی حسین اصطلاحات پسند نہیں؟ بے روزگاری اور سیاسی انتقام سے کس کو نجات نہیں چاہیے؟ دنیا میں ایسا کون سا تعلیم یافتہ نوجوان جو اپنے کیریئر کے بارے بے فکر ہوگا؟ لیکن جس ماحول میں کشمیر کے لوگ اور یہاں کے نوجوانوں کو دھکیلا جا رہا ہے ، اُس میں انھیں آنکھیں بند کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ جب سیاسی اور انتظامی معاملات میں بھی اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں تو وہ اپنے جذبات کے اظہا ر کا حق دنیا کے باقی انسانوںکی طرح رکھتے ہیں، جس پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتا۔
اس کے بالمقابل بھارت کا حکمران طبقہ محض اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ بھارت اور اس کے ہم نوائوں کے لیے یہ ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہے کہ آٹھ لاکھ پر مشتمل فوجیوں سے وہ کب تک یہاں کے لوگوں کو خموش کرا سکتے ہیں؟ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر کی موجودہ نوجوان نسل ایسے ماحول میں پلی بڑھی ہے کہ جب یہاں عسکریت کا دور دورہ تھا۔ پھر انھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنوں کو قتل ہوتے دیکھا ہے، انھوں نے اپنوں کے جنازوں کو کندھے دیے، اپنے ہی بزرگوں کی توہین انھوں نے برداشت کی ہے، اپنی مائوں بہنوں کی عصمت دری اور بے عزتی کے واقعات بھی انھوں نے بچشم سر دیکھے ہیں۔ اسی نوجوان نسل نے اعلیٰ تعلیمی اسناد اپنے ہاتھوں میں ہونے کے باوجود مختلف محکمہ ہاے شعبہ جات میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ یہاں کی انتظامی بدحالی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور سیاسی غنڈا گردی کی اصل ستم زدہ یہی نسل ہے۔ ایسے نو جوانوں کو طاقت کے بل پر روک لینا محال ہے۔
مسئلہ کشمیر کو موجودہ کشمیری نسل کے تشخیصی رموزات (identity aspects) میں اگر دیکھا جائے تو انھوں نے اپنی زندگی کی ایک صبح بھی عزت و وقار کے ساتھ جی کر نہیں دیکھی ہے۔ پھر جب ایسی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہو، دنیا کے حالات و واقعات کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتی ہو، سائنس و ٹکنالوجی میں بھی نمایاں ہو، انٹرنیٹ کے ذریعے باقی اقوام کے لوگوں کی زندگیوں کا علم رکھتی ہو، تو اسے سوچنے سمجھنے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ یہ ہے وہ خطرناک صورت حال جس کی طرف نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بھارت سمیت اقوامِ عالم کے ایوانوں کو خموشی توڑ کر مسئلہ کشمیر کی طرف اوّلین فرصت میں توجہ کرنی ہوگی ، نہیں تو یہاں سے ایسا انسانی بحران اُٹھنے کے خدشات ہیں، جو نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ اقوامِ عالم کے امن کو تباہ کر سکتا ہے۔
انھی حالات میں یہاں پر ایک اور اُبھرتے ہوئے انسانی حقوق کے مسئلے کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ وادی میں ۹۰ ء کے عشرے کے دوران میں گھروں کی تلاشی جیسی کارروائیاں عمل میں لاتی جاتی تھیں، جن کا مقصد یہ تھا کہ کسی عسکریت پسند کو پناہ تو نہیں دی گئی ہے۔ مسجدوں کے لائوڈ اسپیکروں کو استعمال میں لا کر لوگوں کو بلا لحاظِ جنس، عمر اپنے گھروں سے باہر نکلنے کا حکم دیا اور گائوں کے کسی بڑے میدان میں، جو کہ عمومی طور پر بستی سے الگ ہوتا، جمع کیا جاتا تھا۔ پھر گھر گھر کی تلاشی کا وسیع و عریض جال بچھایا جاتا تھا ۔یہ ایک ایسی ا ذیت ناک صورت حال ہوا کرتی تھی، جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس تلاشی کے دوران گھر کا ساز و سامان بکھیر دینا، گھر کی نایاب چیزوں کا غائب کر دینا، ایک اذیت ناک صورت ہو ا کرتی تھی۔ یہ عمل آج بھی جاری و ساری ہے۔ اگرچہ آج اس عمل کو ’CASO‘ (کارڈن اینڈ سرچ آپریشنز)کی اصطلاح سے بدلا گیا ہے، لیکن اس کی اذیت ۹۰ ء کے عشرے سے کئی درجے زیادہ ہے۔ تب کشمیریوں کو گھروں سے نکال باہر کرکے توڑ پھوڑ ، اور ماردھاڑ کی کارروائیاں کی جاتی تھیں، اور اَب انھیں گھر میں رکھ کر، ان کے سامنے توڑ پھوڑ اور لُوٹ مار کی کارروائیاں انجام دی جاتی ہیں۔
اسی طرح کی ایک اور کارروائی کا نام ’جامہ تلاشی‘ ہے۔جس میں کپڑوں کو کھنگالا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کپڑوں کے اندر کسی ’متنازعہ‘ چیز کو چھپا رکھا ہو۔گھر گھر تلاشی اور جامہ تلاشی کے بعد اب ایک اور تلاشی کی کارروائی نے جنم لیا ہے، جس سے ’موبائل تلاشی ‘ کی اصطلاح سے موسوم کرسکتے ہیں۔
اس معاملے میں بات کرنے سے پہلے ’موبائل فون ‘ کوسمجھنا ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس سے آپ دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ نہایت آسانی سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ پہلے پہل یہ صرف ذاتی دوستوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ ٹکنالوجی کی ترقی سے اس میں لکھ کر پیغام بھیجنے کی سہولیت بھی آگئی۔ اور اب موبائل کے اندر انٹرنیٹ اور باقی سہولیات کی مدد سے، اس چھوٹے سے آلے کے ساتھ آپ کی پوری زندگی منسلک ہے۔ آپ کا کاروبار، آپ کی تعلیم، آپ کا باقی دنیا کے ساتھ رابطے میں رہنا ، آپ کی نجی ضروریات، آپ کی شاپنگ، آپ کا بنک، آپ کے راز، بالفاظِ دیگر آپ کی پوری زندگی اس میں مقید ہے۔ اگر اِس کو آپ کی زندگی سے کاٹ دیا جائے، تو آپ اپنے آپ کو اپاہج محسوس کر سکتے ہیں۔ اس صورتِ حال سے دنیا کا امیر سے امیر ترین اور غریب سے غریب ترین انسان بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ گھر میں تو آپ کی چیزیں عیاں ہوتی ہیں، لیکن اگر کوئی شخص آپ کے موبائل میں جھانک کر آپ کی نجی تصاویر دیکھ لے تو یہ آپ کے لیے ناگوار صورت حال ثابت ہوسکتی ہے ۔اسی طرح سے کوئی شخص اگر آپ کے موبائل کے اندر آپ کے بنک کھاتے کی معلومات حاصل کرلے، آپ کی نجی فون کالز، آپ کے بھیجے گئے پیغامات، یا اسی طرح کی باقی واقفیت کو کرید کرید کر ٹٹول لے تو اس سے بڑھ کر اذیت ناک صورتِ حال اور کیا ہوسکتی ہے۔
اسلامی شریعت نے دوسروں کے رازوں کی ٹوہ لگانے یا کسی کے نجی معاملات میں بے جا مداخلت کو سخت ممنوع قرار دیا ہے (ملاحظہ ہو، سورۃ الحجرات۴۹:۱۲، اور تفہیم القرآن ، سورۃ الحجرات، حاشیہ ۲۵ )۔’موبائل تلاشی‘ اصل میں انسان کے رازداری کے حقوق(Right to Privacy) پر براہِ راست شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ رازداری کے حق کو اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے بالفعل نافذکیا ہے۔ البتہ عام طور پر رازداری کے حقوق کو مغرب کی ’روشن خیالی‘ سے اخذ کردہ سمجھا جاتا ہے، جو کہ حقیقت سے انحراف کے مصداق ہے ۔ مغرب کو اس حق کا خیال ۱۹۴۸ء میں اُس وقت آیا، جب اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر عالمی اعلامیہ براے انسانی حقوق کی دفعہ۸ میں یہ تذکرہ کیا گیا کہ کسی بھی انسان کی رازداری کے اندر بے جا مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ اس کے پس منظر میں انسانی حقوق کی انجمنوں کی اپیل پر بھارتی عدالت عالیہ نے اگست میں رازداری کے حقوق کو آئین ہند میں بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے، اس کے تحفظ کا حکم جاری کیا۔ مگر بھارتی انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز کے لیے ایسے پروٹوکولز اور احکامات کی جو حیثیت ہے، اس کا مظاہرہ جموں و کشمیر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
بدنصیب وادیِ کشمیر میں ’موبائل تلاشی‘ کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے اپنے موبائل کے اندر کوئی ایسی تصویر، ویڈیو یا کوئی ایسی فائل تو نہیں رکھی ہے، جو یہاں کے ’امن و قانون‘ کی صورت حال کے لیے خطرہ ہو۔ نوجوانوں کے موبائل کے اندر ایسے مواد کو ایک بڑے ثبوت کے طور پر دیکھا اور موبائل کے مالک کو دھر لیا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں موبائل فون پر کسی ویڈیو ، آڈیو، یا کسی بھی خبر کا موصول ہونا یا اس کی آمد کو روکنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ کسی نے آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر، کسی واٹس ایپ گروپ میں شامل کرکے اُس گروپ میں کوئی مواد ڈال دیا ہے تو یہ آپ کے موبائل کے جمع خانے (storage ) میں داخل ہوگیا۔ جس میں آپ کا کوئی اختیار نہیں ۔پھر اسی طرح سے آج ٹکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ یہ خودبخود’اَپ ڈیٹ‘ یا تازہ ہوتی رہتی ہے۔جس پر انسان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، خاص کر ایک عام صارف کوا یسی باتوں کا علم تک نہیں ہوتا ۔
رازداری کے حقوق، انسانی زندگی کے عزتِ نفس کے ساتھ منسلک ہیں۔ ایسے حق کا سلب ہونا انسان کو ذہنی اذیت سے دوچار کرتا ہے، جس سے بہت ساری نفسیانی اُلجھنیں جنم لیتی ہیں۔ موبائل تلاشی جیسی کارروائیاں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں میں سے ایک ہے ۔ انسانی حقوق کےعلَم برداروں کو انسانی حقوق کے اس اُبھرتے ہوئے مسئلے کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔
اب رہی بات اربابِ اقتدار کے جملہ رویوں کی، تو اس کی شدت کا اندازہ ۲۱ ؍ اکتوبر کے اُس سرکاری حکم نامے سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں گیتا اور رامائن کو کشمیر کے اسکولوں کے نظام میں متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ سرکاری کتب خانوں میں بھی اس کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے جائیں۔ اگرچہ بعدازاں اس حکم نامے کو عوامی دبائو کے پیش نظر واپس لے لیا گیا، لیکن یہاں کی انتظامی مشینری کے ذہنی سانچے کو سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ اِن متعصب حکم ناموں کے پس پردہ کون کون سے مقاصد کار فرما ہیں۔ یہاں پر یہ نکتہ بحث طلب نہیں ہے کہ کسی مخصوص مذہب کی کتابوں کو اسکولوں میں متعارف کرنا صحیح ہے یا غلط، حالاںکہ امرواقعہ بالکل واضح ہے کہ وادی کی ۹۶ فی صد سے زیادہ آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہاں کے اسکولی نظام کو چلانے کی خاطر جموں خطے کے مقابلے میں الگ سے ایک ڈائریکٹوریٹ کام کررہا ہے۔ مگر اس کے باوجود اربابِ اقتدار اپنے مقاصد کی آبیاری کے لیے تمام تر پیشہ ورانہ اخلاقیات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور یہاں کی سیاسی کشیدگی کوانتظامی احکامات میں ڈھالا جا رہا ہے۔ آئے روز کی خوں ریزی سے لوگ ابھی سوگوار ہی ہوتے ہیں کہ اگلی صبح انھیں ایک اور سوگ کے اندر دھکیل دیا جاتا ہے۔
عوامی مفاد اور وقت کی ضرورت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے دنیابھر میں ایسے خاطر خواہ انتظامات کیے جاتے ہیں کہ جس سے لوگوں کا فائدہ ہو۔ لیکن یہاں جو بھی پالیسی بنائی جاتی ہے، اُس کا کسی پیشہ ورانہ اخلاقیات سے دُور تک کا کوئی واسطہ دکھائی نہیں دیتا۔ شاید اسی لیے یہاں جن فلاحی اسکیموں کا بہ ظاہر سرکاری تقریبات میں بڑے مبالغانہ آمیز انداز میں بیان کیا جاتا ہے، وہ بھی اپنا حقیقی مقصد حاصل کرنے سے پرے ہوتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک حکم نامہ ضلع بارہمولہ کے پٹواری حضرات کے نام نکالا اور اُن سے کہا گیا تھا کہ استادوں کی جگہ اب انھیں بورڈ امتحانات میں ڈیوٹیاں انجام دینی ہوں گی۔ متعلقہ حکم نامے کو بھی اگرچہ واپس لے لیا گیا ہے، لیکن یہاں کی انتظامی مشینری کی ذہنیت کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ایک مثال ہے ۔