مشرق وسطیٰ دنیا کا ایسا خطہ ہے، جس کو سیال ڈالر کا خطّہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی پہچان ہے جس نے اسے مسلسل ہیجان خیز اور ہنگامہ پرور حالات سے دوچار کر رکھاہے۔ تاہم، یہ پہچان ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اصل اہمیت یہ ہے کہ یہ اسلام اور عالم اسلام کا قلب ہے اور دولت و ثروت یہاں کی باندی ہے۔ اسلام کا مرکز حرمینِ مقدس ہونے کی و جہ سے اسلامیان عالم کے لیے یہ ایمان و عقیدت کا محور ہے۔ مسلمان خواہ کسی بھی خطۂ ارضی میں ہو، کوئی زبان بولتا ہو، اس کے لیے اہم یہ ہے کہ یہاں قبلۂ اول، یعنی مسجد اقصیٰ و بیت المقدس بھی ہیں اور خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ بھی یہیں ہیں۔
سو سال قبل ۱۹۱۸ء میں یہاں تنازعے کی مستقل بنیاد برطانیہ اور فرانس نے ’سائیکس پیکوٹ‘ کے رسواے زمانہ خفیہ معاہدے [۱۶مئی ۱۹۱۶ء] کے تحت رکھ دی۔ بہت کم مسلمان آج یہ حقیقت جانتے ہیں کہ یہ معاہدہ اپنے مقاصد کے حصول میں جغرافیائی اعتبار سے ۸۰ فی صد ناکام رہا تھا۔ اسے برطانیہ سے ’اعلان بالفور‘ [۲نومبر۱۹۱۷ء] اور امریکا سے صدر آئزن ہاور کا ساتھ نہ ملتا تو فلسطین کا تنازع بھی پیدا نہ ہوتا۔ آج پھر شام ویمن اور لیبیا و عراق کے حالات دیکھ کر مسلمان خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خطے مسلمانوں کی شکستِ حاضرہ کو تو پیش کر رہے ہیں، لیکن یہ ممالک، امریکا و روس اور یورپ کی ناکامی سے پیدا شدہ بے چینی کے مظہر زیادہ ہیں، جو دام اور بے دام مقاصد کی سراسر ناکامی ہے۔
اسی صورت حال میں جس ۲۰ فی صد ناکامی کا ہمیں سامنا ہے، وہ ’اعلان بالفور‘ کی پیدا کردہ ہے۔ اس اعلان نے اسرائیل کے قیام کو یقینی بنایا تھا۔ فلسطین چھین لیا گیا اور وہاں اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز یہودی ریاست بنا دی گئی۔ اب یہی ریاست مستقل فساد کا مرکز ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کو الگ تھلگ کر کے ختم کرنے کی جس حکمت عملی کا آغاز ۱۹۴۸ء سے کیا گیا تھا، وہ آج پورے عروج پر ہے۔ کوئی فلسطینی اس یقین کے ساتھ رات کو سو نہیں پاتا کہ صبح ہوگی۔ اسی سے تکلیف کی اُس شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جس میں آج کا فلسطینی مبتلا رکھا گیا ہے۔
اسی درجے کی تکلیف اور غم میں ہر مسلمان گرفتار ہے۔ یہ مسلمان عرب و عجم کی تمیز سے بالاتر ہوکر مبتلا ہے۔ اس کرب سے نکلنے کا آسان ترین راستہ یہ ہے کہ وہ فلسطین کو بھول جائے، یہ سوچ کر کہ اس کے جسم کا ایک حصہ اس کے لیے تکلیف کا سبب بنا ہوا ہے، اسے کاٹ کر پھینک دیا سو پھینک دیا۔ اب کوئی درد، کوئی تکلیف، کوئی دکھ باقی نہیں رہا۔ لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے۔ جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر پھینکا جاسکتا ہے اور نہ کسی کا اس پر قبضہ ہی برداشت کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کو عالم اسلام سے جدا کرنے کے لیے اس گھنائونے کھیل کا آغاز ۱۹۴۸ء سے شروع کیا ہوا ہے۔ فلسطینی اسے نکبہ کا نام دیتے ہیں، یعنی بڑی قیامت ۔۱۹۴۸ء، ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں اسرائیل نے، تن تنہا نہیں، امریکا و برطانیہ اور یورپ، کی مدد سے عربوں سے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ تین نشان ہیں ورنہ یہ جنگ تو ہمہ وقت جاری ہے۔ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے حملہ کر کے دریاے اُردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ دریاے اُردن کا مغربی کنارہ ہے اور غزہ جو کوسوں دُور مصری سرحدی علاقے پر مشتمل ہے، جسے ایک طرف سے سمندر نے گھیررکھا ہے اور دیگر اطراف سے مصر کی مدد سے اسرائیل نے گھیرا ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی غزہ میں ناکہ بندی کی وجہ یہ ہے کہ یہاں آزاد انتخابی عمل سے حماس کو کامیابی ملی تھی۔
مصر اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ کیمپ ڈیوڈ [۱۷ستمبر ۱۹۷۸ء]، جب کہ ’تنظیم آزادیِ فلسطین‘ اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدہ [۱۹۹۳ء]کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نام نہاد فلسطینی ریاست اسی غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل ایک بلدیہ نما انتظام ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس دو حصوں پر مشتمل ہے۔ فلسطینیوں کا حصہ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کہلاتا ہے اور اسے اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں۔ لیکن یہ یروشلم نہیں، مقبوضہ مشرقی بیت المقد س ہے۔ اس فلسطینی ریاست پر ۱۲ سال سے یاسر عرفات کے جانشین محمود عباس کی حکومت ہے۔ اسے برقرار رکھنے میں امریکا، برطانیہ، اسرائیل، یعنی سبھی شرانگیزوں کا مفاد ہے۔
اس تنازعے میں جوہری طور پر فلسطین (اصلی فلسطین جو سارے اسرائیل پر محیط ہے) اور عالمِ اسلام کو شکست ہوئی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے:
اس کے پس پردہ کیا ہو رہا ہے؟ اسے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
شرق اوسط کے تنازعے میں یہاں کی حکومتیں، امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، اسرائیل ، امریکی اور برطانوی تھنک ٹینک [مرکز دانش] اور ذرائع ابلاغ فریق ہیں۔ ذرائع ابلاغ اس لیے فریق یا فریق نما ہیں، کیوں کہ یہ اسرائیل زدہ ہیں، امریکی و برطانوی ہیں یا ان کے زیر اثر ہیں، حتیٰ کہ ان میں سکنڈے نیوین ممالک بھی شامل ہیں۔
ان فریقوں کے ذریعے امن کے نام پر کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد ان میں تیزی اور نوعیت میں تبدیلی آگئی ہے۔ نائن الیون کے بعد عراق، لیبیا، شام اور یمن میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، وہ ایک کوشش ہے جس سے عرب اسرائیل تنازعے کے نام سے، شرق اوسط کے تنازعے سے بقیہ عالم اسلام کو الگ کرنے میں کامیابی حاصل کی جا رہی ہے۔ عالم اسلام کی یہ نفسیاتی شکست ہے کہ وہ ذہنی طور پر اس تنازعے کو نسلی و قومی مسئلہ تسلیم کر چکا ہے اور اب اسے عرب اسرائیل تنازع کہتا ہے، حالاںکہ یہ اسلام کا تنازع ہے، خود انسانیت کا تنازع ہے۔ عملی طور پر اس کو ’عرب اسرائیل‘ کہنے والوں کا (امریکا و برطانیہ اور اسرائیل) کہنا ہے کہ پہلے بائیس (۲۲) مسلم ممالک سے یہ معاملہ حل کرا لیا جائے، یعنی خطے کی عرب حکومتیں راضی ہو جائیں تو ۵۷ مسلم ممالک میں سے ۳۵ممالک خود بخود مان لیں گے۔ رفتہ رفتہ یہ حکمت عملی کامیابی کی سمت بڑھ رہی ہے۔ اگر عرب مان لیں گے اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کو جائز ریاست مان لیں گے تو ایک بلدیاتی ریاست فلسطینیوں کے لیے بن بھی جائے، جو کسی نہ کسی صورت میں اب بھی ہے تو اس طرح تنازع حل ہو جائے گا۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں امریکی مراکز دانش کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ صرف جیمز اے بیکر انسٹی ٹیوٹ کو دیکھیے: اس لیے کہ اس ادارے کا محور شرق اوسط ہی ہے۔ دوسرے، جیمز اے بیکر امریکا کے وہ سابق وزیر خارجہ ہیں، جو نائن الیون سے پہلے اور بعد میں امریکی حکمت عملی کے معمار رہے ہیں۔ انھی کے ادارے کی سفارشات میں عرب اسرائیل تنازعے کا حل تجویز کیا گیا ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ عرب ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کس طرح استوار ہوں، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ذ ریعہ بن سکیں۔ ادارےنے سات نکات بطور حکمت عملی پیش کیے ہیں:
ان نکات کی وضاحت میں کہا گیا کہ تصادم زدہ علاقوں بالخصوص غزہ اور مغربی کنارہ، وغیرہ میں امداد اور ترقی کے پروگرام متعارف کرائے جائیں۔ جہاں جنگ سے تباہی ہو، ان خطّوں کی دوبارہ تعمیر کی جائے۔ اس کے لیے سعودی عرب، امارات، کویت اور قطر اپنے مالی وسائل سے بھرپور کردار ادا کریں۔
اس پیپر میں بہت سے دیگر نکات بھی ہیں، تاہم اوپر بیان کردہ نکات سے بات سمجھی جاسکتی ہے۔ اگر ہم صرف ’عرب امن اقدام‘ (Arab Peace Initiative) کی طرف ہی توجہ دیں تو نائن الیون کے بعد ایک سرگرمی ہمیں ۲۰۰۲ء سے اب تک نظر آتی ہے۔
۲۰۰۶ء میں بھی ایسی ہی کوشش کی گئی مگر وہ ناکام ہوگئی۔ ٹونی بلیئر بھی مکمل کامیاب رہے اور نہ ناکام ہی رہے۔ پھر ۲۰۰۹ء میں ایک اور کوشش کی گئی۔ ۲۸ستمبر ۲۰۰۹ء کو جنرل اسمبلی سے خطاب اور سائیڈ لائن پر رابطوں میں امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے اومان، سعودی عرب، کویت، بحرین ، قطر اور متحدہ عرب امارات کے سربراہوں کو پیغام دیا کہ یہ ممالک اپنی فضائی حدود اسرائیلی تجارتی طیاروں کے لیے کھول دیں، تاکہ رات کے وقت یہ طیارے اسرائیلی سامان لے کر جا سکیں۔ ۲۰۱۱ءمیں بھی ایسی ہی کوشش کی گئی۔ ۱۶جنوری ۲۰۰۹ء کو دوحہ قطر میں خصوصی عرب کانفرنس ہوئی، جس میں ۲۲ عرب ممالک نے شرکت کی۔ ایران کے صدر احمدی نژاد بھی اس میں شریک ہوئے۔ تاہم، اس کانفرنس میں مصر اور سعودی عرب شریک نہ ہوئے۔ غالباً وجہ احمدی نژاد کی موجودگی تھی۔ شریک ممالک میں ترکی، شام، فلسطین اور قطر بھی تھے۔ قطری وزیراعظم نے اعلامیہ پڑھا جس میں کہا گیا کہ ’عرب امن اقدام‘ کو منجمد کر دیا جائے تاکہ غزہ پر اسرائیلی تازہ جارحیت پر احتجاج کو مؤثر بنایا جاسکے۔ شام نے اسرائیل سے امن مذاکرات معطل کر دیے۔ قطر اور موریطانیہ نے سفارت کاری منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔
اب ہم آتے ہیںکہ اہم ممالک کے کردار اور عمل کی جانب۔ اس سلسلے سے پہلے متحدہ عرب امارات کا تذکرہ۔ امارات کی جملہ سلامتی کی ذمہ داری، تیل و گیس کے کنوئوں اور تنصیبات کی نگرانی اور حفاظت ، شہروں میں جرائم کی روک تھام، ہنگامی صورت حال میں فوری اقدام جیسے نازک اور اہم ترین امور کی انجام دہی، اسرائیل کی ایجنسی ’ایشیا گلوبل ٹیکنالوجیز‘ (AGS) کرتی ہے۔ اس کا سربراہ متی کوشوی ہے جس نےایرک کے ساتھ بلیک واٹر کی بنیاد رکھی تھی۔ امارات کی دو کمپنیاں اس اے جی ایس سے مل کر یہ کام کرتی ہیں۔ ان میں ایک کمپنی’ایڈوانس انٹگریٹڈ سسٹم، (AIS) کہلاتی ہے۔ اس کا سربراہ خلفان الشمسی ہے۔ دوسری کمپنی’ایڈوانس ٹیکنیکل سولوشنز‘ (ATS) ہے۔ اس کا سربراہ محمد زیدالنابلسی ہے۔ یہ تینوں کمپنیاں مل کر ایک منصوبہ چلاتی ہیں جسے Falcon Eye (شاہین کی آنکھ)کا نام دیا گیا ہے۔ ان تینوں کمپنیوں نے مل کر ان کاموں کے لیے پرائیویٹ آرمی تشکیل دی ہے، جسے اسرائیلی فوج کی تکنیکی مدد حاصل ہے۔ متحدہ عرب امارات میں یہ کمپنیاں ۶۰کروڑ ڈالر کے معاہدے کے تحت کام کر رہی ہیں۔ اس پراجیکٹ کی مجموعی مالیت ۸۱کروڑ ۶۰لاکھ ڈالر ہے۔ جیمز اے بیکر انسٹی ٹیوٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کی یہ ایک مؤثر مثال ہے۔ امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید کے بارے میں وکی لیکس نے بتایا تھا کہ وہ اسرائیل کی وزیر خارجہ زیپی لیونی کے ذاتی دوستوں میں سے ہیں۔ ایک اور کردار ڈیوڈویکس بھی ہے، جو ’فالکن آئی پراجیکٹ‘ کا ۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۳ء تک نائب صدر آپریشنز رہا ہے اوریہ بھی اسرائیلی ہے۔
آئیے اب قطر کی بات کرلیں۔ قطر نے اسرائیل کو وہ چھوٹ نہیں دی، جو امارات نے دے رکھی ہے۔ قطر کے بارے میں اہم عرب ممالک کا رویہ سخت خراب ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عرب اسرائیل تنازعے میں مطلوبہ کردار ادا نہیں کر رہا۔ تاہم، الجزیرہ ٹی وی میں بہت سے لوگ اسرائیل سے ہیں۔
اومان حالیہ واقعات کے ساتھ اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یا ہو نے اکتوبر کے اواخر میں اومان کا دورہ کیا اور سلطان قابوس سعید سے ملاقات کی۔ یہ سرکاری دورہ تھا۔ اس کے بعد فالو اپ میں اسرائیل کی سپورٹس اور کلچر کی وزیر میری ریگیف بھی آئیں ۔ ان کے ساتھ کھلاڑی بھی آئے۔ جوڈو مقابلے ہوئے، اسرائیلی ترانہ پڑھا گیا۔ میری ریگیف نے عبرانی زبان میں جذباتی خطاب کیا اور موصوفہ کی آنکھیں آنسوئوں سے نم تھیں۔ یہ ۲۸اور ۲۹؍اکتوبر کے واقعات تھے۔ نیتن یاہو ۲۰سال میں پہلے حکمران تھے جس نے اسرائیل کی طرف سے اومان کا دورہ کیا۔
اسی سرگرمی کا ایک اہم حصہ مسقط میں بھی ہوا۔ وہاں اسرائیل کے وزیر ٹرانسپورٹ کاٹز نے کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کوTracks for Regional Peaceکا نام دیا گیا۔ اس کانفرنس میں سعودی عرب بھی شریک ہوا۔ منصوبے کے مطابق اسرائیل سے حیفہ شہر (فلسطین کا شہر) سے ترکی تک ریلوے لائن بچھائی جائے گی، جو متعدد عرب ممالک سے گزرے گی۔ یہ کانفرنس اومان اور اسرائیل نے مل کر کی۔
مصر اور اردن سے اسرائیل کے تعلقات بہت واضح ہیں، کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم، یہاں پر ایک اور بات ضروری ہے۔ پاکستان میں بہت شوربلند ہوا کہ اسرائیلی طیارہ پاکستان آیا ہے۔ پورے زور و شور سے تردید کی گئی۔ بین الاقوامی سطح پر سوالات بھی اُٹھے۔ اس سے قطع نظر قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی رکن نے بالکل بے جوڑ، مگر اسرائیل کے موجودہ سیاق و سباق کے مطابق اور حقیقت میں اسلام کی توہین پر مبنی خطاب کیا۔ موصوفہ کو نہ تاریخ کا علم ہے اور نہ تفسیر و سیرت جانتی ہیں۔ حیرت ہے کہ کسی نے پوائنٹ آف آرڈر پر نہیں ٹوکا کہ محترمہ آپ غلط بات کر رہی ہیں۔
بہرحال رفتہ رفتہ مسلم دنیا میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرانے کی کوشش اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔