سرمایہ داری اور اشتراکیت نے انسان کو زندگی آسان تر بنانے، فلاحی و عدم طبقاتی معاشرے بنانے اور عمومی مساوات قائم کرنے کے اعلانات بہت دیے۔ ان پر عمل درآمد کے مراحل میں انسان کو تجربہ ہوا کہ معاملہ تبدیل ہو کر مسئلہ بن گیا ہے۔
’عورت‘ کا مقام و مرتبہ بھی اسی طرح سے ان دونوں نظاموں کا مرغوب مشغلہ رہا ہے۔ اشتراکیت نے عورت کو طبقہ قرار د ےکر جدلیاتی کش مکش کا ایندھن بنا دیا۔ سرمایہ داری نے اس ایندھن کو استعمال کرتے رہنے اوراس آگ کو سلگانے کا ذریعہ بنائے رکھا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ عورت چنگاری بن رہی ہے اور یہ سمجھ رہی ہے کہ اس کی تپش سے اس کی آزادی اور خود مختاری کا سورج روشن ہے۔
عورت گھر سے نکلی یا نکالی گئی ، اس سے قطع نظر کہ وہ نت نئے مسائل سے دوچار ہوتی رہی۔ ’حرکت میں برکت‘ والی اصطلاح کا لوگوں نے یہاں بھی استعمال کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گھر بیٹھی رہتی تو وہ انسانیت پر محض بوجھ ہی بنی رہتی۔ اس لیے عورت کو ورکنگ ویمن بنایا گیا اور وہ آزادی ، خود مختاری اور عوامی زندگی میں کردار ادا کرنے کی توقعات لے کر گھر سے باہر نکلی۔ اس طرح نکلنا اس کے اپنے لیے مسائل سے اٹا پڑا راستہ ثابت ہوا۔
ہم آج کی ورکنگ ویمن کے حالات پر نگاہ دوڑائیں، تو وہ مجسم شکایت نظر آتی ہے۔ وہ جنسی مسائل سے کہیں زیادہ دوچار ہے، اور کچھ نہیں تو نگاہوں کے نشتر (Eye Teasing)ہی اس کی روح کو گھائل کیے دیتے ہیں ۔ وہ تشدد زدہ بھی ہے اور خوف زدہ بھی،لیکن اس کو آگے لانےکی کوشش کرنے والوں نے گردن سے دبوچ کر اسے ان مسائل میں دھکیل رکھا ہے۔ وہ مرد سے زیادہ کام کرتی ہے، لیکن اس سے نصف اُجرت بھی مشکل سے پاتی ہے۔
یہ مسائل تب ہی شروع ہوگئے تھے ،جب عورت، ورکنگ ویمن بن رہی تھی۔ ان مسائل نے ایسی شدت اختیار کی کہ ان کی نوعیت امریکا میں بھی مقامی نہ رہی، ملکی اور قومی بنتی گئی۔ سرمایہ داری ان مسائل کی وجہ تھی اور اشتراکی علاج ڈھونڈنے والوں نے ۲۸فروری ۱۹۰۹ء کو یہ فیصلہ کیا کہ ’’اس تاریخ اور دن کو انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمن ڈے کے طور پر منایا جائے گا‘‘۔یہ تجویز جرمن خاتون کلارا زیٹکن (Clara Zetkin)نے پیش کی تھی۔ اسی دن کو ،پھر بین الاقوامی ویمن ڈے کہا گیا۔ گویا اشتراکیت نے سرمایہ داری کے پیدا کردہ مسئلے کو امریکا کے مقامی مسئلے کے بجاے عالمی بنا دیا۔
۱۹۱۷ء میں سابق سوویت یونین میں عورت کو بالغ راے دہی کے ذریعے ووٹ کا حق دیا گیا۔ یاد رہے کہ مغرب نے اس وقت تک عورت کو ووٹ کا حق نہیں دیا تھا۔ اس کامیابی پر جشن منانے کے لیے ۸مارچ کا انتخاب سوویت حکومت اور سوشلسٹ اداروں نے کیا۔ دنیا بھر کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ملکوں میں اسی سال یہ دن منایا گیا۔ اسے تحریک نسائیت (Feminism) نے ۱۹۶۷ء میں قبول کیا، لیکن مزید آٹھ سال بعد، ۱۹۷۵ء میں اس دن کو اقوام متحدہ نے عالمی یومِ نسواں قرار دیا۔
سرمایہ داری سے اس دن کا واضح تعلق ۱۹۷۵ء کے بعد سے ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۰۹ء کے بعد اگست ۱۹۱۰ء میں یا اس کے لگ بھگ دو اہم واقعات رُونما ہوئے۔ سیکنڈ سوشلسٹ انٹرنیشنل کا انعقاد ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ہوا۔ اس کے بعد امریکا کے شہر نیویارک میں ۱۹۱۰ء میں انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمن کانفرنس ہوئی۔ اس سے ایک سال قبل سوشلسٹ خاتون ورکر تھریسا مالکیل(Theresa Malkel)نے بھی یہ دن منانے کی تجویز دی تھی۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ یہ دن ۸مارچ ۱۸۵۷ء میں نیویارک میں گارمنٹس صنعت کی خواتین کارکنان کی حالتِ زار پر احتجاج کے طور پر منایا گیا تھا، تاہم اس کی زیادہ تفصیل سامنے نہیں آسکی۔
۱۹۱۱ء میں یہ دن ۱۹مارچ کو منایا گیا۔ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی، سوئٹزر لینڈ وغیرہ میں بھی یہ دن ۱۹مارچ کومنایا گیا۔ اس دن سیکڑوں جلوس نکالے گئے اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔ امریکامیں ہر سال فروری کے آخری اتوار کو یہ دن منایا جاتا رہا۔اس کی سال بہ سال تاریخ کا حوالہ ضروری نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس دن کو اشتراکیت ا ورسرمایہ داری نے مختلف حوالوں سے منایا۔
۸مارچ کی مناسبت سے دیکھا جائے تو تحریک نسائیت سرگرم عمل ملتی ہے۔ اس تحریک (Feminism)کو عرف عام میں تحریک نسواں بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے موضوع میں عالمی یومِ نسواں کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اسی مناسبت سے ہمارے ہاں اسے عالمی یوم خواتین کہا جاتا ہے۔
ہم پہلے اس پر غور کرتے ہیں کہ یہ عالمی یوم خواتین سوشلسٹ طبقات کی نمایندگی کرے تو اس سے کیا مفہوم برآمد ہوتا ہے؟ اس بارے میں یاد رہے کہ تحریک نسائیت کے چار بڑے مکاتب ِفکر ہیں۔ ان میں تقسیم موجود ہے۔ سوشلسٹ فکر کے قریب کے دو مکاتب قرار دیے جاسکتے ہیں:
- سوشلسٹ نسائیت: اس سے مراد وہ نسائی حلقے (Feminists)ہیں، جو کارل مارکس اور اینجلز کے نظریات پر کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق:
__ مرد اور عورت دو طبقات ہیں (بعدازاں سارے طبقات صنف (Gender)پر رضا مند ہوئے)۔ معاشرے میں دوسری طبقاتی کش مکش کی طرح یہ بھی ایسے ہی متحارب طبقات ہیں۔ اس طرح عورت اپنے مفادات کے حصول کے لیے مرد کے مقابلے پر کھڑی ہے اور مرد عورت کے مدمقابل ہے۔
__ عورت کو نظام سرمایہ داری نے غلام بنا رکھا ہے۔ وہ اس کی وجہ سے دوہری مشقت میں ہے۔ ایک مشقت وہ ہے ،جو وہ فیکٹری میں مزدور بن کر کرتی ہے اور رات کو گھر واپس آکر شوہر اور گھر کے لیے کرتی ہے۔ یوں وہ پیداوار اور عمل پیداوار میں ایک کل پُرزے کے طور پر کام کرتی ہے۔
__ عورت خاندان کی صورت میں ایک پدرسری (Patriarchal)نظام میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس کی تقدیر کے فیصلے باپ، بیٹا ، بھائی یا شوہر کی صورت میں مرد کرتا ہے۔
__ اس کی آزادی، خود مختاری کا ذریعہ یا راستہ اس پدرسری سماج، یعنی خاندان کا خاتمہ ہے۔
l لبرل اور ریڈیکل نسائیت: سرمایہ داری کی نمایندہ تحریک ہے۔ اس کے مطابق:
__ عورت اور مرد برابر کی صنف (Gender)ہیں۔ ان میں مساوات ضروری ہے۔ اسے صنفی مساوات(Gender Equality)کہا جاتا ہے۔
__ ہر ملک کے قانون، معاشرتی، مذہبی اور تہذیبی ضابطوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ عورت بھی مرد کے مساوی فیصلہ سازی میں کردار ادا کرے۔ بجٹ سازی میں صنفی تصورات (Gender Concepts)کے مطابق کام کیا جائے تاکہ وسائل، پراجیکٹس اور ان کی فیصلہ سازی میں عورت برابر کی سطح پر شریک رہے۔
__ عورت کا جسم اس کی ملکیت ہے۔ کسی کو اس کے جسم پر کسی نوعیت کا تصرف حاصل نہیں ہے۔ کوئی مذہب، قانون، اخلاق یا معاشرہ کسی عورت سے یہ تصرف کسی شادی، نکاح، طلاق ، اکٹھے رہنے یا نہ رہنے کے نام پر یا کسی بھی طرح حاصل نہیں کر سکتا۔ عورت کو اپنے جسم کے مکمل اور جملہ استعمالات میں خود مختاری حاصل ہے۔
__ عمل تولید عورت کے فیصلے سے مشروط ہے۔ وہ نکاح یا شادی کے باوجود چاہے تو شوہر کو حقوق زوجیت سے روک سکتی ہے۔ بچے پیدا کرنے، نہ کرنے، بچوں کی پیدایش میں وقفہ، اپنے بچے کے لیے کرایے کی کوکھ لینے، کسی کے بچے کو اپنی کوکھ میں پالنے کا فیصلہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کا اسے اختیارِ کلی حاصل ہے۔ ریڈیکل اور لبرل حلقے اس کی تائید کرتے ہیں۔
یہاں مزید دو نکات بھی زیرغور ہیں:
- پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام اور مسلمان کا اس دن سے کیا تعلق ہے؟ دنیا میں اس دور میں بہت سے کام ہو رہے ہیں، بہت سے ایام منائے جا رہے ہیں۔ یہ کام نئے بھی ہیں اور پرانے بھی۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ ہم کسی بھی کام یا ایام کے حوالے سے فیصلہ کریں کہ اسلام ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
ہمارا فیصلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ عصر حاضر میں اسلام اور مسلمان ان سے کس طرح سے اور کس حد تک متاثر ہو رہے ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ جب ہم ویلنٹائن ڈے کا ذکر سنتے ہیں، تو فیصلہ کرتے ہمیں دیر نہیں لگتی۔ اسی طرح ماں کا عالمی دن، باپ کا عالمی دن، استاد کا عالمی دن، خاندان کا عالمی دن، غرض یہ کہ کوئی بھی دن ہو، ہمیں فیصلہ کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ عالمی یوم خواتین یا عالمی یوم نسواں کے بارے میں بھی یک سو رہنا چاہیے کہ یہ ہمارا دن نہیں ہے۔ یہ اسلامی یا غیر اسلامی کی بحث نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے :
__ اس دن کے دونوں پس منظر ہمارے سامنے ہیں ۔ ان کے لیے کام کرنے والوں سے ہم واقف ہیں۔ یہ دنیا میں تہذیبی شناخت کا معاملہ ہے۔ ہماری تہذیبی شناخت ہمیں ان دنوں کے پس منظر سے الگ کرتی ہے ،تو ان کا حل بھی متفقہ کیوں کر ہو سکتا ہے؟
__ یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہم اس دن کو چھوڑ دیں تو عورت کے بارے میں ہمارے تصورات کون جان پائے گا؟ سیدھی سی بات ہے کہ آپ اس دن ان تصورات سے ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں گے، جن پر آپ کاربندہیں۔ فرق ظاہر کرنے کے لیے اس دن کو نظر انداز کر دیں۔ ایسا دن اپنے وقت، تاریخ اور اہمیت کے مطابق منایا جاسکتا ہے۔
__ یہ امر پیش نظر رہے کہ یہ دنیا نظریاتی تضادات کی دنیا ہے۔ مسلم عورت پر ہونے والے اعتراضات، حملے اور الزامات ایک طرف، اسلام اور عورت کو جدا کرنے کے ایجنڈے کا، خواہ وہ کسی بھی طرح سے اشتراکی ہو یا سرمایہ دارانہ ، حصہ نہیں بننا چاہیے۔
- دوسرا نکتہ اسلامی یا مسلم نسائیت کے حوالے سے بیان کرنا ضروری ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے ہمارے معاشروں میں بعض رجحانات راہ پاتے جا رہے ہیں، جس کے تحت ہر تصور اور نظریے کو ہم ’مسلمان‘ یا ’اسلامی‘ بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہ رجحان عمومی یا مقامی نہیں ،بلکہ یہ خصوصی اور عالمی ہے۔ یہ عمومی اس لیے نہیں ہے کہ اس کی ابتدا کرنے والے عامتہ المسلمین میں شمار نہیں ہوتے۔ وہ خصوصی پہچان کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اسلام کو بنیاد پرست، رجعت پرست، قدامت پرست، توحید پرست وغیرہ بنانے کے مظاہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ سارے کام عام مسلمان نہیں کرتا۔ اسی طرح سے نسائیت ہے۔ اسلامی نسائیت یا مسلم نسائیت کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ ان کو جاننا کیوں ضروری ہے؟مسلمانوں میں ’مسلم نسائیت‘ کا فتنہ عجیب و غریب تصورات پیش کرتا ہے، جیسے:
٭ قرآن ایک پدرسری کتاب ہے، مرد کی حکمرانی عورت پر مسلط کرتا ہے۔ اللہ کی تذکیر و تانیث کو مرد کی مثال سے پیش کرتا ہے۔ کچھ نسائی خواتین اس سے اختلاف ضرور کرتی ہیں، تاہم خاندان کو عورت کے محکوم و مجبور بنانے کا مرکز قرار دیتی ہیں۔
٭ قرآن کے مفسرین مرد تھے، عورتیں بھی تھیں ،لیکن ان مرد مفسرین نے قرآن کی دعوت اور پیغام کو جس طرح سے تفاسیر میں پیش کیا، وہ عورت سے نفرت کا کلچر بنا۔ اس طرح سے تفسیر قرآن دراصل عورت سے نفرت کو وسعت دینے کا سبب بنی(اس سے محتاط بات شاید نہیں لکھی جاسکتی )۔
٭ قرآن سمجھنے کے لیے کسی شارح کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر شارح نے ہی سمجھانا ہوتا تو قرآن کی قدر کم ہو جاتی اور شارح کی بڑھ جاتی۔ ہر دور میں انسان اپنی عقل سے ہی قرآن سمجھ سکتا ہے۔
٭ سنت اور حدیث کا علم اسلام کا ماخذ نہیں ہے۔ یہ بعد کی اختراعات اور ایجادات ہیں۔
آپ غور کریں تو اس مختصر و محتاط تعارف سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حکیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں فقط یہ تعلق ہے کہ آپؐ پہنچانے اور منتقل کرنے والے تھے۔ اہل مغرب نے بہت کوشش کی کہ قرآن اور رسالتؐ کو الگ الگ کر دیا جائے۔ یہ کام ’مسلم نسائیت‘ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔
المختصر ! ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اسلام نے جن ایام، اصطلاحات اور امور تک ہمیں راستہ دیا ہے، ان سے ہم اس لیے تو تجاوز نہیں کر رہے کہ دنیا کا ساتھ دے سکیں۔ اگر ایسا ہے، تو ہم دنیا کا ہی ساتھ دے رہے ہیں۔ اسلام میں ایسے معذرت خواہانہ کردار کی کتنی گنجایش ہے؟ فیصلہ خود کیجیے!
کیا ہم اپنے معاشرے کو جانتے ہیں؟ اور کیا ہمارا معاشرہ ہمیں جانتا ہے؟
ان بنیادی سوالات کا جواب تب ہی مل سکتا ہے یا اسی وقت دیا جاسکتا ہے، جب یہ واضح ہو کہ ’جاننے‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ عمل کیا ہے اور اس عمل کے تقاضے کیا ہیں؟
ہمارا فوری جواب یہی ہوگا کہ ’ہم معاشرے کو جانتے ہیں اور ہمارا معاشرہ ہمیں جانتا ہے‘۔ ممکن ہے کہ یہ جواب درست ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’جاننے‘ کے عمل سے ہم لاتعلق ہوں اور یوں دونوں سوالات تشنۂ جواب ہی ہوں۔ کسی فلاسفر نے کہا تھا کہ: ’میں یہ جانتا ہوں کہ میں کیا نہیں جانتا‘۔ تاہم، عمومی چلن کے مطابق: جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ ’میں جانتا ہوں‘ اسی کو عالم سمجھا جاتا ہے۔
چند لمحوں کے لیے مان لیجیے کہ: ’’ہم اپنے معاشرے کو نہیں جانتے اور اسی طرح سے یہ معاشرہ بھی ہمیں نہیں جانتا‘‘۔ گذشتہ دو عشروں میں جوان ہونے والی نسل اگر ہمیں نہیں جانتی تو اس کی بنیادی وجہ یہ خوش فہمی ہے کہ ’ہم معاشرے کو جانتے ہیں‘۔
آئیے چند پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ کسی معاشرے کو جاننے کے لیے کیا ضروری ہے:
یہاں داعیانہ پہلوئوں کی طرف کہیں کہیں اشارہ اس لیے کیا ہے، تاکہ ہم اپنے ’جاننے کے دعوے‘ کو جان سکیں۔ ہم میں سے ہرکارکن خود سے یہ سوال ضرور پوچھے: ¤ ان پہلوئوں کو پورا جانتا ہے یا نہیں جانتا ہے! ¤ ان پہلوئوں کو ادھورا جانتا ہے یا کچھ کو جانتا ہے! ¤ جس قدر جانتا ہے، اس کا استعمال کرتا ہے ہیں یا نہیں کرتا!
پہلی صورت کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اگر ہم ان پہلوئوں کو نہیں جانتے، تو گویا اپنی دعوت کو بھی کماحقہ نہیں جانتے۔ اس کمی کو دُور کرنے کے لیے ہمیں داعی اور دعوت کے بارے میں بنیادی لٹریچر کا بھرپور مطالعہ کرنا چاہیے،اور یہ مطالعہ سمجھ کر ہی کرنا چاہیے، ورق گردانی نہیں!
یہاں ایک مثال پیش ہے۔ امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی حراست کے دنوں میں ایک ورکشاپ میں ہمارے ناظمین نشرو اشاعت شریک تھے۔ جماعت اسلامی اس معاملے کو پوری قوت سے لے کر چل رہی تھی۔ راقم نے نشست میں سوالات پیش کیے: ¤ یہ قاتل کتنے دنوں سے اور کہاں قید ہے؟¤ اسے ریمانڈ کے لیے کب اور کہاں پیش کیا گیا؟¤ متاثرہ پاکستانی خاندانوں کا وکیل کون ہے؟¤ امریکی سفارت خانے کی گاڑی نے کس نوجوان کو کچل کر مار ڈالا؟
اسی طرح کے دس بارہ سوالات اُٹھائے، مگر کسی کے پاس ان کا مکمل جواب نہیں تھا۔ تقریباً ۲۵فی صد نے تاریخ صحیح بتائی۔ کئی شرکا کو مقتول عباد الرحمٰن کے نام کا علم نہیں تھا۔ ۵۰فی صد کو علم نہیں تھا کہ وکیل کون ہے اور وکیل کا جماعت سے کیا تعلق ہے؟
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت کارکن زیادہ تر، موقف کی چند سطروں کی واقفیت تک محدود رہتے ہیں۔ جس دن اس کیفیت سے نکل کر معاشرے میں اُتریں گے اور جماعت اسلامی میں رہنے لگیں گے تو ہم معاشرے میں بھی رہنے لگیں گے۔ محض تصور میں رہ کر ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی پالیسی اور پروگرام کے تحت کام کر رہے ہیں، جو درست مفروضہ نہیں ہے۔ جب کارکن پالیسی کو پوری طرح سمجھ نہ رہا ہو، تو وہ گہری لگن کے ساتھ کام بھی نہیں کرسکے گا۔
مثال کے طور پر مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد ارکان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ:
اگر اپنا بے لاگ جائزہ لیں تو اپنے بارے میں درست فیصلہ کرنا کچھ مشکل محسوس نہیں ہوگا کہ کیفیت کیا ہے؟ اگر ہم کو سارے یا بیش تر امور کا علم ہے، نظم سے رابطہ کر کے فہم حاصل کیا ہے تو ہم جماعت میں رہتے ہیں۔ دوسری صورت میں ہم جماعت سے محض ثقافتی یا واجبی سا تعلق رکھتے ہیں، حقیقی تعلق نہیں رکھتے۔ یہ ایک خطرناک صورت ہے جس سے ہماری خاصی تعداد متاثر ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم کنارے پر چلنے کے بجاے جماعت اسلامی میں رہنا شروع کر دیں۔ حالات و واقعات پر گہری نگاہ رکھیں۔ پھر ہماری دعوت کو بھی معاشرے سے جدا اور تصوراتی نہیں ہونا چاہیے، کہ اس کے بغیر ہم دعوت نہیں پھیلا سکتے ۔
یقین مانیے، جماعت سے جدا رہنے کا مطلب، معاشرے سے جدا رہنا ہے۔ اسی لیے ہم کسی حلقے میں دس افراد ہیں تو دس سال بعد بھی غالباً دس یا گیارہ ہی ہیں، یعنی ’کوئی خود ہم سے آن ملے، ہم کسی سے کیوں جاکر ملیں‘۔ جب کارکن اس عادت سے ہٹ کر کام کرتا ہے تو معاشرے کے قریب ہو جاتا ہے۔
ہم درس قرآن، ہلکا پھلکا اجتماعی مطالعہ یا دیگر پروگرام کرتے ہیں، لیکن اپنے اردگرد کے ماحول کو نظر انداز کرکے۔ یہ نہیں جانتے کہ اڑوس پڑوس میں کیا صورتِ حال ہے؟ ہمارے بارے یہ تاثر رہا ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت ہے۔ ہمارے حلقے میں ایک رکن جماعت ہوا کرتے تھے، انھیں پورا محلہ نہیں بلکہ پورا علاقہ جانتا تھا کہ یہ رکن جماعت ہیں ۔ ہر موقعے پر موجود، ہر مسجد میں حاضر، ہر خوشی اور غمی میں لوگوں کے ساتھی تھے۔ وہ سرگرم رہے، کوشش کرتے کرتے ربّ کے حضور پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ والے اب بھی موجود ہیں، لیکن وہی چار، چھے اور کبھی دس۔ وجہ یہ ہے کہ عام آدمی سے رابطہ نہیں ہے۔ جماعت کا نام موجود ہے، مگر جماعت کا تصور موجود نہیں ہے اور کسی سےرابطے کی طلب اور پیاس بھی کم تر ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا معاشرہ ہمیں جانتا ہے؟ یہاں چند سوالات غور طلب ہیں:
یہ محض چند مثالیں ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ ہم ان مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر ہم اس دبائو میں زندہ ہیں کہ اب معاشرہ لٹریچر کا نہیں ہے، اور الیکٹرانک میڈیا کا دبائو ہے۔ ایسا نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اسے لٹریچر کی طرف لانا بھی ہماری اور معاشرے کی ضرورت ہے۔
ہم کھلے دل سے یہ تسلیم کرلیں کہ ہم اور معاشرہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنتے دکھائی دیتے ہیں، جو اس درجہ پہلے نہیں تھا۔ ایسا ماننا ہی ہم کو مسئلے کے حل کی جانب لے جائے گا (اس اجنبی پن کی وجوہ بہت سی ہیں، تاہم اس وقت وہ پہلو زیربحث نہیں)۔ زیربحث بات یہ ہے کہ ہم اس اجنبیت کی دیوار کو کس طرح توڑ سکتے ہیں؟
اس دیوار کو گرانے کے لیے ہمیں پہلے مرحلے میں دیوار کے اس پار جانا ہوگا، جہاں معاشرہ بس رہا ہے۔ ہم اکیلے یہ دیوار نہیں گرا سکتے، اس کام کے لیے ہمیں معاشرے کا ساتھ درکار ہے۔ ہم اس دیوار کے اس پار کس طرح اور کیوں کر جاسکتے ہیں؟ یہ ایک چیلنج بھی ہے اور دعوت و تحریک کا تقاضا بھی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا وسائل ہیں، جن سے یہ سفر طے کیا جاسکتا ہے:
اجنبیت کی دیوار گرانے کے یہ چند پیمانے ہیں۔ ان کے بیان میں متبادل انداز بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں خیر خواہوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ نیکی اور خیر خواہی کے جذبے سے عوام سے ملنا ہوگا۔ جب یہ جذبہ عام آدمی کی ضرورت بنے گا، تب ہم کہہ سکیں گے کہ ہماری بات سنی جا رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ دنیا کا ایسا خطہ ہے، جس کو سیال ڈالر کا خطّہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی پہچان ہے جس نے اسے مسلسل ہیجان خیز اور ہنگامہ پرور حالات سے دوچار کر رکھاہے۔ تاہم، یہ پہچان ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اصل اہمیت یہ ہے کہ یہ اسلام اور عالم اسلام کا قلب ہے اور دولت و ثروت یہاں کی باندی ہے۔ اسلام کا مرکز حرمینِ مقدس ہونے کی و جہ سے اسلامیان عالم کے لیے یہ ایمان و عقیدت کا محور ہے۔ مسلمان خواہ کسی بھی خطۂ ارضی میں ہو، کوئی زبان بولتا ہو، اس کے لیے اہم یہ ہے کہ یہاں قبلۂ اول، یعنی مسجد اقصیٰ و بیت المقدس بھی ہیں اور خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ بھی یہیں ہیں۔
سو سال قبل ۱۹۱۸ء میں یہاں تنازعے کی مستقل بنیاد برطانیہ اور فرانس نے ’سائیکس پیکوٹ‘ کے رسواے زمانہ خفیہ معاہدے [۱۶مئی ۱۹۱۶ء] کے تحت رکھ دی۔ بہت کم مسلمان آج یہ حقیقت جانتے ہیں کہ یہ معاہدہ اپنے مقاصد کے حصول میں جغرافیائی اعتبار سے ۸۰ فی صد ناکام رہا تھا۔ اسے برطانیہ سے ’اعلان بالفور‘ [۲نومبر۱۹۱۷ء] اور امریکا سے صدر آئزن ہاور کا ساتھ نہ ملتا تو فلسطین کا تنازع بھی پیدا نہ ہوتا۔ آج پھر شام ویمن اور لیبیا و عراق کے حالات دیکھ کر مسلمان خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خطے مسلمانوں کی شکستِ حاضرہ کو تو پیش کر رہے ہیں، لیکن یہ ممالک، امریکا و روس اور یورپ کی ناکامی سے پیدا شدہ بے چینی کے مظہر زیادہ ہیں، جو دام اور بے دام مقاصد کی سراسر ناکامی ہے۔
اسی صورت حال میں جس ۲۰ فی صد ناکامی کا ہمیں سامنا ہے، وہ ’اعلان بالفور‘ کی پیدا کردہ ہے۔ اس اعلان نے اسرائیل کے قیام کو یقینی بنایا تھا۔ فلسطین چھین لیا گیا اور وہاں اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز یہودی ریاست بنا دی گئی۔ اب یہی ریاست مستقل فساد کا مرکز ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کو الگ تھلگ کر کے ختم کرنے کی جس حکمت عملی کا آغاز ۱۹۴۸ء سے کیا گیا تھا، وہ آج پورے عروج پر ہے۔ کوئی فلسطینی اس یقین کے ساتھ رات کو سو نہیں پاتا کہ صبح ہوگی۔ اسی سے تکلیف کی اُس شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جس میں آج کا فلسطینی مبتلا رکھا گیا ہے۔
اسی درجے کی تکلیف اور غم میں ہر مسلمان گرفتار ہے۔ یہ مسلمان عرب و عجم کی تمیز سے بالاتر ہوکر مبتلا ہے۔ اس کرب سے نکلنے کا آسان ترین راستہ یہ ہے کہ وہ فلسطین کو بھول جائے، یہ سوچ کر کہ اس کے جسم کا ایک حصہ اس کے لیے تکلیف کا سبب بنا ہوا ہے، اسے کاٹ کر پھینک دیا سو پھینک دیا۔ اب کوئی درد، کوئی تکلیف، کوئی دکھ باقی نہیں رہا۔ لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے۔ جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر پھینکا جاسکتا ہے اور نہ کسی کا اس پر قبضہ ہی برداشت کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کو عالم اسلام سے جدا کرنے کے لیے اس گھنائونے کھیل کا آغاز ۱۹۴۸ء سے شروع کیا ہوا ہے۔ فلسطینی اسے نکبہ کا نام دیتے ہیں، یعنی بڑی قیامت ۔۱۹۴۸ء، ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں اسرائیل نے، تن تنہا نہیں، امریکا و برطانیہ اور یورپ، کی مدد سے عربوں سے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ تین نشان ہیں ورنہ یہ جنگ تو ہمہ وقت جاری ہے۔ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے حملہ کر کے دریاے اُردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ دریاے اُردن کا مغربی کنارہ ہے اور غزہ جو کوسوں دُور مصری سرحدی علاقے پر مشتمل ہے، جسے ایک طرف سے سمندر نے گھیررکھا ہے اور دیگر اطراف سے مصر کی مدد سے اسرائیل نے گھیرا ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی غزہ میں ناکہ بندی کی وجہ یہ ہے کہ یہاں آزاد انتخابی عمل سے حماس کو کامیابی ملی تھی۔
مصر اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ کیمپ ڈیوڈ [۱۷ستمبر ۱۹۷۸ء]، جب کہ ’تنظیم آزادیِ فلسطین‘ اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدہ [۱۹۹۳ء]کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نام نہاد فلسطینی ریاست اسی غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل ایک بلدیہ نما انتظام ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس دو حصوں پر مشتمل ہے۔ فلسطینیوں کا حصہ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کہلاتا ہے اور اسے اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں۔ لیکن یہ یروشلم نہیں، مقبوضہ مشرقی بیت المقد س ہے۔ اس فلسطینی ریاست پر ۱۲ سال سے یاسر عرفات کے جانشین محمود عباس کی حکومت ہے۔ اسے برقرار رکھنے میں امریکا، برطانیہ، اسرائیل، یعنی سبھی شرانگیزوں کا مفاد ہے۔
اس تنازعے میں جوہری طور پر فلسطین (اصلی فلسطین جو سارے اسرائیل پر محیط ہے) اور عالمِ اسلام کو شکست ہوئی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے:
اس کے پس پردہ کیا ہو رہا ہے؟ اسے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
شرق اوسط کے تنازعے میں یہاں کی حکومتیں، امریکا ، برطانیہ ، فرانس ، اسرائیل ، امریکی اور برطانوی تھنک ٹینک [مرکز دانش] اور ذرائع ابلاغ فریق ہیں۔ ذرائع ابلاغ اس لیے فریق یا فریق نما ہیں، کیوں کہ یہ اسرائیل زدہ ہیں، امریکی و برطانوی ہیں یا ان کے زیر اثر ہیں، حتیٰ کہ ان میں سکنڈے نیوین ممالک بھی شامل ہیں۔
ان فریقوں کے ذریعے امن کے نام پر کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد ان میں تیزی اور نوعیت میں تبدیلی آگئی ہے۔ نائن الیون کے بعد عراق، لیبیا، شام اور یمن میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، وہ ایک کوشش ہے جس سے عرب اسرائیل تنازعے کے نام سے، شرق اوسط کے تنازعے سے بقیہ عالم اسلام کو الگ کرنے میں کامیابی حاصل کی جا رہی ہے۔ عالم اسلام کی یہ نفسیاتی شکست ہے کہ وہ ذہنی طور پر اس تنازعے کو نسلی و قومی مسئلہ تسلیم کر چکا ہے اور اب اسے عرب اسرائیل تنازع کہتا ہے، حالاںکہ یہ اسلام کا تنازع ہے، خود انسانیت کا تنازع ہے۔ عملی طور پر اس کو ’عرب اسرائیل‘ کہنے والوں کا (امریکا و برطانیہ اور اسرائیل) کہنا ہے کہ پہلے بائیس (۲۲) مسلم ممالک سے یہ معاملہ حل کرا لیا جائے، یعنی خطے کی عرب حکومتیں راضی ہو جائیں تو ۵۷ مسلم ممالک میں سے ۳۵ممالک خود بخود مان لیں گے۔ رفتہ رفتہ یہ حکمت عملی کامیابی کی سمت بڑھ رہی ہے۔ اگر عرب مان لیں گے اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کو جائز ریاست مان لیں گے تو ایک بلدیاتی ریاست فلسطینیوں کے لیے بن بھی جائے، جو کسی نہ کسی صورت میں اب بھی ہے تو اس طرح تنازع حل ہو جائے گا۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں امریکی مراکز دانش کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ صرف جیمز اے بیکر انسٹی ٹیوٹ کو دیکھیے: اس لیے کہ اس ادارے کا محور شرق اوسط ہی ہے۔ دوسرے، جیمز اے بیکر امریکا کے وہ سابق وزیر خارجہ ہیں، جو نائن الیون سے پہلے اور بعد میں امریکی حکمت عملی کے معمار رہے ہیں۔ انھی کے ادارے کی سفارشات میں عرب اسرائیل تنازعے کا حل تجویز کیا گیا ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ عرب ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کس طرح استوار ہوں، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ذ ریعہ بن سکیں۔ ادارےنے سات نکات بطور حکمت عملی پیش کیے ہیں:
ان نکات کی وضاحت میں کہا گیا کہ تصادم زدہ علاقوں بالخصوص غزہ اور مغربی کنارہ، وغیرہ میں امداد اور ترقی کے پروگرام متعارف کرائے جائیں۔ جہاں جنگ سے تباہی ہو، ان خطّوں کی دوبارہ تعمیر کی جائے۔ اس کے لیے سعودی عرب، امارات، کویت اور قطر اپنے مالی وسائل سے بھرپور کردار ادا کریں۔
اس پیپر میں بہت سے دیگر نکات بھی ہیں، تاہم اوپر بیان کردہ نکات سے بات سمجھی جاسکتی ہے۔ اگر ہم صرف ’عرب امن اقدام‘ (Arab Peace Initiative) کی طرف ہی توجہ دیں تو نائن الیون کے بعد ایک سرگرمی ہمیں ۲۰۰۲ء سے اب تک نظر آتی ہے۔
۲۰۰۶ء میں بھی ایسی ہی کوشش کی گئی مگر وہ ناکام ہوگئی۔ ٹونی بلیئر بھی مکمل کامیاب رہے اور نہ ناکام ہی رہے۔ پھر ۲۰۰۹ء میں ایک اور کوشش کی گئی۔ ۲۸ستمبر ۲۰۰۹ء کو جنرل اسمبلی سے خطاب اور سائیڈ لائن پر رابطوں میں امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے اومان، سعودی عرب، کویت، بحرین ، قطر اور متحدہ عرب امارات کے سربراہوں کو پیغام دیا کہ یہ ممالک اپنی فضائی حدود اسرائیلی تجارتی طیاروں کے لیے کھول دیں، تاکہ رات کے وقت یہ طیارے اسرائیلی سامان لے کر جا سکیں۔ ۲۰۱۱ءمیں بھی ایسی ہی کوشش کی گئی۔ ۱۶جنوری ۲۰۰۹ء کو دوحہ قطر میں خصوصی عرب کانفرنس ہوئی، جس میں ۲۲ عرب ممالک نے شرکت کی۔ ایران کے صدر احمدی نژاد بھی اس میں شریک ہوئے۔ تاہم، اس کانفرنس میں مصر اور سعودی عرب شریک نہ ہوئے۔ غالباً وجہ احمدی نژاد کی موجودگی تھی۔ شریک ممالک میں ترکی، شام، فلسطین اور قطر بھی تھے۔ قطری وزیراعظم نے اعلامیہ پڑھا جس میں کہا گیا کہ ’عرب امن اقدام‘ کو منجمد کر دیا جائے تاکہ غزہ پر اسرائیلی تازہ جارحیت پر احتجاج کو مؤثر بنایا جاسکے۔ شام نے اسرائیل سے امن مذاکرات معطل کر دیے۔ قطر اور موریطانیہ نے سفارت کاری منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔
اب ہم آتے ہیںکہ اہم ممالک کے کردار اور عمل کی جانب۔ اس سلسلے سے پہلے متحدہ عرب امارات کا تذکرہ۔ امارات کی جملہ سلامتی کی ذمہ داری، تیل و گیس کے کنوئوں اور تنصیبات کی نگرانی اور حفاظت ، شہروں میں جرائم کی روک تھام، ہنگامی صورت حال میں فوری اقدام جیسے نازک اور اہم ترین امور کی انجام دہی، اسرائیل کی ایجنسی ’ایشیا گلوبل ٹیکنالوجیز‘ (AGS) کرتی ہے۔ اس کا سربراہ متی کوشوی ہے جس نےایرک کے ساتھ بلیک واٹر کی بنیاد رکھی تھی۔ امارات کی دو کمپنیاں اس اے جی ایس سے مل کر یہ کام کرتی ہیں۔ ان میں ایک کمپنی’ایڈوانس انٹگریٹڈ سسٹم، (AIS) کہلاتی ہے۔ اس کا سربراہ خلفان الشمسی ہے۔ دوسری کمپنی’ایڈوانس ٹیکنیکل سولوشنز‘ (ATS) ہے۔ اس کا سربراہ محمد زیدالنابلسی ہے۔ یہ تینوں کمپنیاں مل کر ایک منصوبہ چلاتی ہیں جسے Falcon Eye (شاہین کی آنکھ)کا نام دیا گیا ہے۔ ان تینوں کمپنیوں نے مل کر ان کاموں کے لیے پرائیویٹ آرمی تشکیل دی ہے، جسے اسرائیلی فوج کی تکنیکی مدد حاصل ہے۔ متحدہ عرب امارات میں یہ کمپنیاں ۶۰کروڑ ڈالر کے معاہدے کے تحت کام کر رہی ہیں۔ اس پراجیکٹ کی مجموعی مالیت ۸۱کروڑ ۶۰لاکھ ڈالر ہے۔ جیمز اے بیکر انسٹی ٹیوٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کی یہ ایک مؤثر مثال ہے۔ امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید کے بارے میں وکی لیکس نے بتایا تھا کہ وہ اسرائیل کی وزیر خارجہ زیپی لیونی کے ذاتی دوستوں میں سے ہیں۔ ایک اور کردار ڈیوڈویکس بھی ہے، جو ’فالکن آئی پراجیکٹ‘ کا ۲۰۰۶ء سے ۲۰۱۳ء تک نائب صدر آپریشنز رہا ہے اوریہ بھی اسرائیلی ہے۔
آئیے اب قطر کی بات کرلیں۔ قطر نے اسرائیل کو وہ چھوٹ نہیں دی، جو امارات نے دے رکھی ہے۔ قطر کے بارے میں اہم عرب ممالک کا رویہ سخت خراب ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عرب اسرائیل تنازعے میں مطلوبہ کردار ادا نہیں کر رہا۔ تاہم، الجزیرہ ٹی وی میں بہت سے لوگ اسرائیل سے ہیں۔
اومان حالیہ واقعات کے ساتھ اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یا ہو نے اکتوبر کے اواخر میں اومان کا دورہ کیا اور سلطان قابوس سعید سے ملاقات کی۔ یہ سرکاری دورہ تھا۔ اس کے بعد فالو اپ میں اسرائیل کی سپورٹس اور کلچر کی وزیر میری ریگیف بھی آئیں ۔ ان کے ساتھ کھلاڑی بھی آئے۔ جوڈو مقابلے ہوئے، اسرائیلی ترانہ پڑھا گیا۔ میری ریگیف نے عبرانی زبان میں جذباتی خطاب کیا اور موصوفہ کی آنکھیں آنسوئوں سے نم تھیں۔ یہ ۲۸اور ۲۹؍اکتوبر کے واقعات تھے۔ نیتن یاہو ۲۰سال میں پہلے حکمران تھے جس نے اسرائیل کی طرف سے اومان کا دورہ کیا۔
اسی سرگرمی کا ایک اہم حصہ مسقط میں بھی ہوا۔ وہاں اسرائیل کے وزیر ٹرانسپورٹ کاٹز نے کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کوTracks for Regional Peaceکا نام دیا گیا۔ اس کانفرنس میں سعودی عرب بھی شریک ہوا۔ منصوبے کے مطابق اسرائیل سے حیفہ شہر (فلسطین کا شہر) سے ترکی تک ریلوے لائن بچھائی جائے گی، جو متعدد عرب ممالک سے گزرے گی۔ یہ کانفرنس اومان اور اسرائیل نے مل کر کی۔
مصر اور اردن سے اسرائیل کے تعلقات بہت واضح ہیں، کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم، یہاں پر ایک اور بات ضروری ہے۔ پاکستان میں بہت شوربلند ہوا کہ اسرائیلی طیارہ پاکستان آیا ہے۔ پورے زور و شور سے تردید کی گئی۔ بین الاقوامی سطح پر سوالات بھی اُٹھے۔ اس سے قطع نظر قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی رکن نے بالکل بے جوڑ، مگر اسرائیل کے موجودہ سیاق و سباق کے مطابق اور حقیقت میں اسلام کی توہین پر مبنی خطاب کیا۔ موصوفہ کو نہ تاریخ کا علم ہے اور نہ تفسیر و سیرت جانتی ہیں۔ حیرت ہے کہ کسی نے پوائنٹ آف آرڈر پر نہیں ٹوکا کہ محترمہ آپ غلط بات کر رہی ہیں۔
بہرحال رفتہ رفتہ مسلم دنیا میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرانے کی کوشش اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔
یورپ کی نشاتِ ثانیہ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس سے افکارو نظریات میں بہت زبردست انقلاب رونما ہوا۔ یہ انقلاب اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ جہت تھا، جس نے انسانیت کوہراعتبارسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ اس فکری و عملی انقلاب کا دائرہ اور اثرات انقلاب فرانس اور انقلاب امریکا کا بھی سبب بنے۔ اس طرح مذہب ، سیاست، معیشت، معاشرت پر نئے افکارونظریات نے تبدیلیوں کے راستے کھولے۔ یہ تبدیلیاں تعمیر و تخریب کی دُہری صفات کی حامل تھیں۔ فرد کی سطح پر تعلیم، تربیت، شخصیت اور کردار متاثر ہوئے تو رویوں میں بھی کش مکش ، نئے پن اور پرانے پن میں فاصلوں، مخالفت، حتیٰ کہ نفرت نے بھی جگہ بنائی۔
ان ہمہ گیر تبدیلیوں کو جس انقلاب نے جنم دیا، صورت دی یا وہ ان تبدیلیوں کا جواز ٹھیرا، وہ ’لبرل ازم‘ کا ابھرنا اور براہ راست مذہب و معاشرت کو چیلنج کرنا تھا۔ ’لبرل ازم‘ نے بادشاہت اور پاپائیت کی جنگ سے جنم لیا تھا۔ اس طرح جنگ ، کش مکش، تصادم اور تبدیلی اس کی پیدایشی صفات تھیں۔ سب کچھ تبدیل کرنے والا ’لبرل ازم‘ اپنی ان صفات سے کبھی بھی پیچھا نہیں چھڑا سکا۔ آج بھی لبرل حکومتوں کا ریکارڈ انھی صفات سے بھرا پڑا ہے۔
’لبرل ازم‘ نے ان صفات میں سے تبدیلی کی صفت سے انسانیت اور معاشرے کو ہمہ گیر طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ اعتراف کرنا ناانصافی ہوگی کہ ’لبرل ازم‘ نے یورپ کو تاریک دور سے نکالا اور اس کے دور خوش حالی اور روشن خیالی کا ایک نیا باب تحریر کیا۔
o لبرل ازم:’لبرل ازم‘ کیاہے؟ یہ بہت آسان سوال ہے۔ ابتدا ہی میں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ ’لبرل ازم‘، سیکولرازم نہیں ہے۔ سیکولرازم منزل ہے،جب کہ ’لبرل ازم‘ راستہ ہے۔
’لبرل ازم‘ ایک سیاسی نظریہ ہے۔ یہ مذہب، اعتقاد یا ایمان سے مختلف ہے۔ اس نظریے یا فلسفے کی بنیاد دو اصولوں پر رکھی گئی ہے: پہلا اصول آزادی ہے اور دوسرا اصول مساوات۔ جس کام، کردار، عمل، رویے، فکر یا عقیدے میں یہ دو اصول موجود نہیں، یا ایک ہے اور دوسرا نہیں، اسے ’لبرل ازم‘ نہیں کہا جاسکتا۔ ان اصولوں سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کیا فرق ہے جو انسانی زندگی پر مرتب ہوتا ہے، اسے ذیل میں آسان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔
ہم پہلے ’آزادی‘ کے اصول کو لیتے ہیں۔ ’آزادی‘ سے سادہ الفاظ میں مراد یہ ہے کہ انسان ایک فرد کی حیثیت سے ہر طرح سے آزاد ہے۔ اس پر کسی قدغن، پابندی، ضابطے ، اخلاق، قید یا سزا کے اطلاق سے اسے انسانی فطرت سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کوئی مذہب، الہامی، روحانی ہدایت یا فلسفہ اسے اس کی آزادیوں سے محروم نہیں کر سکتا۔ انسان کی حیثیت برتر ہے۔ کسی کی حاکمیت، خواہ وہ اللہ، خداوند ، رام، دیوتا ہی کیوں نہ ہو، وہ حاکمیت اعلیٰ نہیں۔ اس لیے معاشروں میں انسان کے سوا کسی کی حاکمیت اعلیٰ تسلیم نہیں کی جاسکتی ۔ اسی اصول کی رو سے ریاست اور حکومت کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتا۔ ریاست سیکولر ہوتی ہے اور حکومت اپنے کام، کردار اور پالیسی میں سیکولر ہوتی ہے۔
اب آئیے مساوات کے اصول کی بات کرتے ہیں۔ جس قدر آزادی کا اصول ہمہ گیر سمجھا جاتا ہے مساوات کا اصول بھی اتنا ہی اہم ہے۔ تاہم اس کی اطلاقی حیثیت اور عملی کیفیت ابھی تک وہ نہیں ہے جو آزادی کے اصول کو حاصل ہو چکی یا دی جا چکی ہے۔ اسے یوں بیان کیا جاسکتاہے:
آزادی اور مساوات کے ان دو اصولوں کو تسلیم کرنا ’لبرل ازم‘ کا اولین تقاضا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ دو اصول مختلف اور متنوع اطلاق رکھتے ہیں۔ ان کا اظہار اور استعمال فرد، گروہ ، معاشرت، قوم اور ملک میں مختلف ہے۔ ان کی تشریحات مذہب، عقیدے، نظریے کی رُو سے یکساں نہیں ہیں۔ مغربی معاشروں میں آزادیِ اظہار مذہبی شخصیات کے بارے میں جو کچھ نتائج پیدا کرتی ہے، مسلم معاشروں میں اس سے مزاحمت، نفرت، جارحیت، بے بسی اور مایوسی کے رویے اور جذبات پیداہوتے ہیں۔ ان کیفیات میں ’لبرل ازم‘ ان دونوں اصولوں کو ہی مقدم رکھتا ہے۔
بظاہر تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ’لبرل ازم‘ کا پیروکار، اس کا ماننے اور اس پر عمل پیراہی لبرل ہے، تاہم اس سوال کا نہایت آسان جواب یوں دیا جاسکتاہے کہ لبرل وہ ہے جو:
اُوپر بیان کردہ کیفیات اور شرائط کسی بھی لبرل کی ذات یا شخصیت کا احاطہ کرتی ہیں۔ معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے لبرل کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے:
o قدامت پرست کون؟ اب ہم دیکھیں گے کہ قدامت پرست کون ہے؟ قدامت پرست کو لبرل کا متضاد کہا جاتا ہے۔ جو فرد لبرل نہیں وہ اس اعتبار سے قدامت پرست ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہے، اس کا مذہب کچھ بھی ہے، وہ قدامت پرست ہے۔ تاہم قدامت پرست کا متضاد ہرحال میں لبرل نہیں ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ قدامت پرست کون ہے اور لبرل کون؟ عام طور پر جب کسی کو ’قدامت پرست‘ کہا جاتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے کہ کسی نے اسے گالی دی ہے۔ اس سے جارحیت ابھرتی اور اشتعال پیدا ہوتا ہے۔
یہ بالکل فطری سوال ہے کہ قدامت پرست کون ہے؟ پہلا جواب تو یہی ہے کہ یہ لبرل کا متضاد ہے۔ یہ معاشرت کے طے شدہ اصولوں اور مروجہ نظام کا دفاع کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ یہاں یہ خلط مبحث بھی ہو جاتا ہے کہ ایک طرف قدامت پرست ہے یا روایت پرست ہے تو اس کے مقابل دوسرا فرد روشن خیال ہے، سیکولر ہے یا لبرل ہے یا پھر جدیدیت پرست، جسے انگریزی زبان میں ماڈرن کہا جاتا ہے۔
o لبرل ازم اور قدامت پرستی کا فرق:ان اصولوں اور کیفیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی بڑے خلط مبحث کا خطرہ ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایک مختصر سا موازنہ و تقابل یہاں پیش کر رہے ہیں جس سے واضح طور پر یہ فرق اور قدامت پرستی کا مفہوم سامنے آجائیں گے۔
امریکا میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ جاری ہے۔ ان کے حوالے سے ہم یہ جاننا چاہیں کہ دائیں بازو والا کون ہے اور بائیں بازو سے کس کا تعلق ہے، تو ری پبلکن پارٹی قدامت پرست ہے، اسے گرینڈ اولڈ پارٹی(GOP)بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مضبوط وفاق کی حامی ہے اور اس کے نظریات کو ان کی انتہائی صورت میں فاشزم کے قریب کہا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو ری پبلکن صدارتی امیدوار بننا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ صدر بن گئے تو مسلمانوں کا امریکا میں داخلہ بند کر دیں گے۔ ری پبلکن امیدوار امیگریشن قوانین سخت بنانے کے حامی ہیں۔ یہ جمہوری ہونے کے باوجود ری پبلک کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔دوسرے ممالک بالخصوص مسلم ممالک کو قوت کے استعمال سے جمہوری بنانا چاہتے ہیں۔عراق اس کی مثال ہے۔
ڈیموکریٹ پارٹی لبرل اور ترقی پسند جماعت سمجھی جاتی ہے۔ جمہوریت کو اولیت دیتی ہے اور ہر ریاست کے واضح تشخص کی بات کرتے ہوئے ڈھیلے ڈھالے وفاق پر یقین رکھتی ہے۔ یہ بائیں بازو کی پارٹی ہے اور اپنی انتہائی نظری صورت میں کمیونسٹ نہ ہونے کے باوجود کمیونزم کے قریب چلی جاتی ہے۔
ہم آسان الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دنیادار فرد ہے۔ یہ مذہب کو ماننے کے باوجود مذہبی نہیں ہے۔ یہ مذہبی اشرافیہ سے بہت فاصلہ رکھتاہے۔ اپنی ذات اور شخصی اوصاف کے اعتبار سے لبرل ہے، قدامت پرست نہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ ’لبرل ازم‘ ابتدا ہے ، راستہ ہے، جب کہ سیکولرازم اظہارہے، منزل ہے۔ ایک سیکولر فرد، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، مذہب یا الحاد کو اپنی شناخت نہیں بناتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ ’لبرل ازم‘ سے فاشزم کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ لبرل نظریات پر عمل کراتے ہوئے یہ خود بھی فاشزم کا اظہار کرنے لگے ۔ امریکا اس کی مثال ہے۔ سیکولر سمجھتا ہے کہ معاشرتی اور معاشی معاملات میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس لیے سرمایہ داری کو معاشی راستہ بھی سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا کے معاشی مسائل کے حل میں مذہب ناکام ہوچکاہے۔ وہ اس بحث کو غیر ضروری سمجھتا ہے کہ مذہب کو ایسا حل پیش کرنے کی اجازت ہی کب دی گئی ہے۔پاکستان کی مثال سامنے ہے جس میں سود کے بغیر کاروبار زندگی کا چلنا ناممکن قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دینی جماعتوں کو مسترد کرنے کی بڑی وجہ بھی ہے۔
o لبرل مسلمان؟ اس مختصر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ جامع انداز میں بتایا جائے کہ ’لبرل ازم‘، قدامت پرستی، لبرل، قدامت پرست اورسیکولر کیا ہیں؟ کون ہیں اور ان کے خیالات کیا ہیں؟ اب ہم نسبتاً متنازع معاملہ زیر بحث لاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آیا مسلمان لبرل ہوتا ہے، ہو سکتا ہے؟ یاد رہے کہ لبرل طبقات کا کہنا ہے کہ لبرل مسلمان ایک گمراہ کن تعارف ہے۔
اس پہلو کو سمجھنے کے لیے ایک مثال مستعار لی جا رہی ہے۔ لبرل کہتے ہیں کہ ایک چڑیا گھر کا تصور کیجیے۔ اس میں پنجروں میں مختلف جانوروں کو قید رکھا جاتا ہے۔ لبرل مسلمان بھی ایک جانور ہے جو مذہب کے چڑیاگھر میں بند کر دیا گیاہے۔ یہ بہت سخت مثال ہے لیکن پورا مفہوم واضح کر رہی ہے۔ بعض مسلمان جب کسی مخصوص طرز یا انداز کااظہار یا مظاہرہ کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ روایت سے الگ ہے، روایت مخالف ہے یا روایت شکن ہے۔ مثال کے طور پر :
ایسی مثالیں اور بھی ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ لبرل طبقات کا کہنا ہے کہ ان مثالوں سے ان کی توہین ہوتی ہے حالانکہ ’لبرل ازم‘ کا کھلا پن کہتا ہے کہ: ’’توہین اور غیرت نام کی کوئی شے وجود ہی نہیں رکھتی‘‘۔ وہ آزادیِ اظہار کے نام پر کیسی کیسی توہین کے مرتکب ہو جاتے ہیں، اس کا انھیں احساس بھی نہیں ہوتا۔
o ایک غور طلب پھلو: بات سمیٹنے سے پہلے ایک اہم پہلو پر غور کر لیا جائے تو موجودہ حالات سے بھی قدرے مطابقت پیدا ہوگی۔ جب کسی مسلمان یا اہل ایمان کو قدامت پرست، رجعت پرست یا بنیاد پرست کہہ کے پکارا جاتا ہے تو سننے والا، مخاطب یا جس تک بات پہنچتی ہے، فوری طور پر دو طرح کے ردعمل کا شکار ہو جاتاہے۔ وہ اس ردعمل پر کیوں اتر آتا ہے یہ الگ بحث اور نفسیاتی معاملہ ہے۔ ردعمل کی نوعیت یہ ہوتی ہے:l معذرت خواہی کا ردعملlجارحیت کا ردعمل۔
ظاہرہے کہ یہ دونوں ردعمل نارمل نہیں ہیں۔ جب کوئی کہتاہے کہ: ’’آج کا مسلمان زمانے کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے‘‘ تو فوری ردعمل یہ ہوتا ہے کہ اس دعوے کو باطل ثابت کیا جائے اور اپنے طرزِ عمل کو حق ثابت کیا جائے۔ اس طرح اس فوری ردعمل سے گویا کہ حق و باطل کا معرکہ چھڑ جاتا ہے۔ یہ معرکہ بحث کا ہو تو اس کا انجام نظر نہیں آتا۔ یہ معرکہ آمنے سامنے ڈٹ جانے کا ہو تو جنگ و جدل کی نوبت آجاتی ہے۔ یہ دونوں نہ ہو سکیں تو بے بسی اور مایوسی کا گھیرا تنگ ہو جاتا ہے۔
یہاں پر دو طرح کے ردعمل بیان کیے گئے ہیں۔ ان پر الگ سے بات کی ضرورت ہے۔ صرف اتنا کہنا ضروری ہے کہ معذرت خواہی کے رویوں نے ہمارے معاشروں میں ایک تعداد کو دین، اس کی تعلیمات، ایمان و اعتقاد اور اس کے اطلاقی پہلوئوں کے بارے میں شک میں مبتلا کردیا ہے، اور پھر قدیم و جدیدکی جنگ کا منظرسامنے آجاتا ہے۔ کچھ تو شکست خوردگی کے عالم میں یہ کہنے لگے ہیں کہ: ’’دین اسلام بعض امور میں عاجز ہے ۔ معاشی مسائل کا حل پیش نہیں کرتا، حالانکہ صورتِ معاملہ یہ ہے کہ بہت سے راست فکر اہلِ دین بھی قرآن و سنت، حدیث و فقہ اور تفسیر و تعبیر کے ذخائر رکھنے کے باوجود عصری امور و مسائل پر ان کے اطلاق کی صلاحیت ، زمانی تبدیلیوں کی تشریح و تعبیر کی ذمہ داری سے خود کو سبکدوش کر چکے ہیں۔
اس عالم میں جارحیت کا ردعمل ابھرتا ہے تو کچھ لوگ مسئلہ بندوق سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ یوں اپنے ہی ملکوں کو تباہی سے دوچار کرتے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ: ’’چونکہ مسلم ممالک کی سرحدیں استعمار نے کھینچی تھیں، اس لیے ہم ان کو اپنے قدموں سے روند دیں گے‘‘۔ یہ ایسا ردعمل ہے جو نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ ردعمل کبھی بھی نتیجے پیدا نہیںکرتا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عراق و شام تباہ ہوگئے۔ یمن و لیبیا برباد ہوگئے۔ افغانستان کئی بار لٹ گیا۔ پاکستان میں بربادی نے ڈیرے ڈال لیے۔ اس کے باوجود ردعمل سے پیدا ہونے والی جارحیت ترک کرنا گویا ’’جہاد کا انکار کرنا خیال کیا جاتا ہے‘‘۔ فی الحقیقت جھنجھلاہٹ میں خود اہلِ دین پر یہ الزام تھوپ دینا ایک گمراہ کن تصور ہے۔
ان سب پہلوئوں پر گہرے غوروغوض کی ضرورت ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ ہرمعرکہ اور ہرنوعیت کا ردعمل جہاد نہیں ہوتا۔ مسلمان طعنہ سن کر بے مزا نہیںہوا کرتا۔ آج وہ طعنہ سنتے ہی شمشیرِ بے نیام بن جاتا ہے۔ علم کے موتی کو جہالت کے اندھیروں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اس خلجان سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ردعمل، اغیارکی پیروی اور اپنے آپ سے علیحدگی سے وہ تباہی بڑھتی جائے گی جس نے آج مسلم اُمہ کو گھیرے میںلے رکھا ہے۔ اسلامی تحریک کو علم و عمل کی دنیا آباد کرنا ہوگی:’’ اجتماعیت سازی کے بغیر عدلِ اجتماعی کی جدوجہد بے معنی ہے‘‘۔ یہی ہمارے افکار ہیں۔ یہ نہ تو ’لبرل ازم‘ ہے اور نہ قدامت پرستی۔ مسلمان کا راستہ اسلام سے وابستگی ہے، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہے، تب ہی وہ فرقہ فرقہ ہونے سے بچ سکتا ہے۔ ہمیشہ ذہن میں رہے کہ مسلمان صرف مسلمان ہوتا ہے، وہ لبرل، قدامت پرست، رجعت پسند یا بنیاد پرست نہیں ہوا کرتا: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف (اٰل عمرٰن ۳:۱۹) ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔
بے نظیر بھٹو کے سانحے کے بعد پاکستان بھر میں ہونے والے ردّعمل نے بہت سے سوالات کو اہل فکر و عمل کے سامنے رکھا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ردّعمل متشدد اور بے قابو کیوں کر ہوتا گیا؟ اس امر سے کسی کو اختلاف نہیں ہو گا کہ اس بڑے واقعے پر ردّعمل کا رونما ہونا بھی بڑے پیمانے پر ہی متوقع تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یوں بھی محسوس ہوا کہ یہ متوقع کے ساتھ ساتھ مطلوب بھی تھا۔ اس میں فطری ردّعمل کو غیر فطری ردّعمل سے الگ کرنا، تشدّد اور تخریب کو سمجھنا، ان کے محرکات پر غور کرنااور مستقبل کے لیے ایسا لائحہ عمل بھی تیار کرنا اسی طرح سے ضروری ہے جس طرح اس نوعیت کے واقعات کا سدّباب کرنا، ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی لہر کو سمجھنا اور روکنا اور امن قائم کرنا لازمی ہے۔
یہاں ان واقعات، بیانات اور ان سے پیدا شدہ نتائج کو بیان کرنے اور زیر بحث لانے سے کہیں ضروری ہے کہ ہم متعین انداز میں تجزیہ کریں کہ یہ سب کیا ہوا، کس نے کہاں اپنے فرائض سے پوری طرح انصاف نہیں کیا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اس بڑے واقعے کے قومی و بین الاقوامی مضمرات کا سامنا کرنے سے قاصر حلقے بھی چاہتے تھے کہ قتل سے توجہ کہیں اور مبذول ہو، دبائو کی نوعیت تبدیل کی جائے اور اس وقفے میں ان مضمرات کا جائزہ لے کر حکمت عملی تیار ہو جس سے تزویراتی مقاصد حاصل ہو سکیں۔ بظاہر حالات ان مقاصد کی تائید کرتے ہیں۔ اگر ہم نقصانات کی نوعیت پر ایک نگاہ ڈالیں تو چیدہ چیدہ نکات یوں مرتب کیے جا سکتے ہیں:
ان نکات کو سامنے رکھیں تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ غم و غصے کی لہر کو بعض متعین مقاصد کی طرف موڑنے والوں کو مطلوبہ اثرات مرتب کرنے میں واضح مدد ملی۔ بے نظیر بھٹو کے اپنے والد کی طرح جان دینے کے تصور کو عام کرنے والوں نے پنجاب سے ایک اور سندھی وزیراعظم کی لاش پر سیاست کی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے نوڈیرو چلے جانے سے بے نظیر بھٹو کے غم میں نڈھال وابستگان کو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کسی فوری اور سنجیدہ رہنمائی کی ضرورت تھی۔ یہ ضرورت پوری طرح سے اپنے تقاضوں کے ساتھ موجود تھی۔ ان تقاضوں کو پورا کرنے والی قیادت میسر نہ رہی۔ جہاں پر قیادت موجود تھی، وہاں احتجاج اپنے فطری انداز سے آگے نہ بڑھ سکا،تاہم اِکَّا دُکَّا واقعات ضرور ہوئے۔
ملکی سیاسی فضا ایسے بڑے سانحے کے لیے ’سازگار‘ تھی جس کا ردّعمل بڑے پیمانے پر ہوتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پورے ملک میں سیاسی کارکن پوری طرح سے متحرک تھے۔ انتخابی مہم میں حصہ لینے والے اپنے انداز میں کام کر رہے تھے۔ بائیکاٹ کی مہم چلانے والے اس انداز سے متحرک نہ تھے لیکن عام حالات کی نسبت بہرحال ان میں تحرک موجود تھا۔ اس فضا میں بے نظیر بھٹو کا قتل ہوجانا ایک شدید دھچکا تھا۔
بے نظیر بھٹو کے قتل پر امریکا کا ردّعمل پیپلز پارٹی کے لیے بھی غیر متوقع تھا۔ اگرچہ اس کا براہِ راست احتجاج اور تشدد سے تعلق نہیں ہے لیکن پیپلز پارٹی کے کارکن کو واضح پیغام مل رہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے بعد اسے اب امریکی اشیرباد نہیں ملے گی۔ یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ بے نظیر کے وطن واپسی کے بعد حالات، بے نظیر بھٹو کے بیت اللہ محسود سے رابطے، عبدالقدیر خان کے بارے میں تبدیل شدہ رویے (یاد رہے کہ بیان نہیں)، اور اپنی نجی گفتگوئوں میں بیان کردہ حکمت عملی سے الگ راستے کے اشارے، غیر اہم نہیں تھے۔ پیپلز پا رٹی نے مخدوم امین فہیم کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد کیا تھا تاکہ امریکی رویوں کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ میاں محمد نواز شریف سے امریکی سفارت کاروں کے رابطوں نے تبدیلی کا اشارہ دے دیا تھا۔ اگر ہم یہ محسوس کر سکیں کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے تین دنوں کے اندر ہی بہت سے نشانات نظر آ رہے تھے تو بے جا نہ ہو گا۔
احتجاجی ردّعمل کو جب ہم فطری اور غیر فطری میں تقسیم کرتے ہیں تو اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کی قیادت موجود نہیں تھی۔ حالات اس کے کنٹرول میں نہیں تھے۔ سب لاڑکانہ اور نوڈیرو میں تھے۔ پورا شہر ایم کیو ایم کے لیے ایک کھلا میدان تھا۔ اگر ٹی وی چینلوں پر نوڈیرو سے براہِ راست نشر ہونے والے پروگراموں کو دیکھا جائے تو کراچی کے بڑے بڑے راہ نما وہاں موجود تھے۔ کارکن بھی کثیر تعداد میں شہر چھوڑ گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ فطری ردّعمل کو غیر فطری ردّعمل میں تبدیل کرنے والے عناصر کون تھے۔ گھیرائو جلائو میں کون شریک تھا، تنصیبات کو کون تباہ کر رہا تھا، ٹرانسپورٹروں سے پرانی خلش کسے تھی، بنکوں، محکمہ جات کے دفاتر کو، پٹرول پمپوں کو تباہ کرنے والے کہاں سے آئے۔ یقینا یہ پیپلز پارٹی کے لوگ نہیں تھے۔ یہ جرائم پیشہ گروہ تھے، یہ منظم ٹولیاں تھیں، یہ احتجاج کرنے والے عام لوگ ہرگز نہیں تھے۔ عام لوگ تونشانہ بنے۔
اس صورتِ حال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ملک کے اندر ایسے منظم گروہ، مخصوص انداز میں مخصوص حلقوں کے پروردہ، بھتہ خور اور مافیا موجود ہیں جو کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر اس نوعیت کی پُرتشدد کارروائیاں کر سکتے ہیں جن کا سامنا پوری قوم کو کرنا پڑا۔ ریلوے، بنک، کارخانے، پٹرول پمپ جلانا عام سیاسی کارکنوں کا کام ہے، اور نہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اگر عامر چیمہ شہیدؒ کے سانحے میں ۱۴ فروری کو لاہور میں ہونے والے احتجاج کے ہائی جیک ہو جانے کا واقعہ ذہنوں میں تازہ ہو تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں کہ پُر امن احتجاج کرنے والوں کو اگر یہ شناخت نہ رہے کہ ان کی صفوں میں کون گھس رہا ہے تو پھر نتائج کنٹرول نہیں کیے جا سکتے۔
اس سارے رد عمل میں حکومت کا کردار بھی حیرت انگیز رہا۔ یہ کردار بہت سے سوالات چھوڑ گیا۔ تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا۔ تین دن کے سرکاری بیانات، الیکٹرانک میڈیا اور اقدامات کو دیکھیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک بڑے پیمانے پر رد عمل کا حکومت کو بہرحال علم تھا۔ یہ محض اندازہ نہیں تھا۔ اس ردّ عمل کے فطری اور غیر فطری، پُر امن اور پُر تشدد کے مراحل میں داخل کرنے میں حکومت بھی برابر کی ذمہ دار تھی۔ کراچی شہر میں ۳۰ ہزار پولیس اور رینجرز کے اہل کار کس کے ایما پر خاموش رہے۔ اندرون سندھ ریل گاڑیوں پر حملے روکے کیوں نہ جا سکے۔ جواب یہ ہے کہ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ ماضی کے واقعات کو دہرائیں تو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ریلوے ٹریک پراحتجاج ٹرین روک دینے تک محدود رہا۔ اس مرتبہ ریل گاڑیاں جلا دی گئیں، ٹریک اُکھاڑ دیا گیا، ریلوے اسٹیشن جلا دیے گئے۔ روکنے والے کہاں تھے۔ حکومت نے سوگ کے دنوں کو مجرموں کے لیے کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ لاہور میں احتجاج کو لیجیے۔ جہاں انتظامیہ متحرک تھی وہاں محض ٹائر جلائے گئے۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے کامقصد بے نظیر بھٹو کے قتل سے پیدا ہونے والے دبائو کا رخ تبدیل کرنا تھا۔
ایک اور عجیب فیصلہ یہ سامنے آیا کہ جن کا نقصان ہوا ہے، ان کو معاوضہ دیا جائے۔ اس کے لیے کمیشن بنا دیا گیا کہ وہ نقصان کا اندازہ لگائے۔ درست ہے ایسا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نقصان کیوں ہوا، احتجاج کیوں بے قابو ہو گیا، پورے ملک میں شدید بد نظمی، بد امنی اور عام آدمی کی بے بسی کن وجوہات کی بنا پر سامنے آئی، اس کا احاطہ کرنا ضروری تھا، یہ کام نہیں کیا گیا۔ فساد کرنے والوں سے سختی سے نپٹنے کا حکم بھی دیر سے آیا۔
یہ صورت حال خود بتا رہی ہے کہ یہ خود پیدا نہیں ہوئی۔ اسے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد فطری ردّ عمل سے بڑھ کر ایک بڑے غیر فطری ردّ عمل کی صورت میں تخلیق کیا گیا۔ ایک ایسے کمیشن کا مطالبہ اب وہ حیثیت نہیں رکھتا جو سوگ کے خاتمے کے ساتھ ہی ہونا چاہیے تھا۔
آخری نکتہ یہی رہ جاتا ہے کہ ہم آئندہ ایسے حالات سے کس طرح ملک و قوم اور خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس بارے میں چند گزارشات ہیں۔ تفصیلی جائزہ اور لائحہ عمل کی تیاری سیاسی جماعتوں اور حکومت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
___ ملک میں موجود سیاسی قیادت کے خلا کا برقرار رہنا محض ایک سیاسی خطرہ ہی نہیں ہے، بلکہ ایک حقیقی اور فوری خطرہ ہے۔ اس کا ازالہ ضروری ہے۔ اس کے لیے جملہ اقدامات سیاسی جماعتوں کے مطالبات کی صورت میں موجود ہیں، اس لیے تذکرہ ضروری نہیں۔
___ خودکُش حملوں، دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام اور خاتمے کی حکمت عملی اسی صورت میں کارگر ہو سکتی ہے کہ پاکستان امریکا کی مسلط کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے الگ ہو جائے۔
___ حکومت کے انٹیلی جنس اداروں کے سیاسی کردار کو ختم کیا جائے۔ ان میں قائم سیاسی، صحافتی اور دیگر حسّاس شعبہ جات کو، جن کا براہ راست عوامی نمایندگی سے کسی طور سے تعلق ہے، ختم کیا جائے۔
___ حکومت کے انتظامی اداروں کو ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں خود مختار بنایا جائے تاکہ وہ ایسے حالات میں منتخب اداروں کو جواب دہ ہوں اور ان کا احتساب کیا جا سکے۔
___ سیاسی جماعتوں کے اندرقائم مافیا، جرائم پیشہ افراد کے گروہوں اور بھتّہ خوروں کا خاتمہ کرنے کے لیے خود سیاسی قیادت کردار اداکرے۔
___ ۲۷ دسمبر۲۰۰۷ء کے بعد کے واقعات میں تشدد اور تخریب کے در آنے کی وجوہات کا تعین کیا جائے اور آیندہ ان کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں۔
یقینا ہمارے معاشرے میں بہت بنیادی اور اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہماری معاشرتی زندگی ایک بے ہنگم اور غیر حقیقی زندگی ہے۔ اس میں انصاف، قانون کا احترام اور رواداری کی قلّت کو عدلیہ پر شب خون مارنے کے واقعات نے دوآتشہ کر رکھا ہے۔ ہمیں ایک نظریے ایک منزل کا تعین کرنا ہو گا۔ ہم محض نعروں سے دل بہلاتے رہے تو آنے والا سورج ہمیں زندگی کی تمازت دینے سے انکارکر دے گا۔
ڈونلڈ رمز فیلڈ نے امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے مستعفی ہونے سے ایک ماہ پہلے یہ اعتراف کیا تھا کہ افغانستان کا تعارف مجھے بڑی قوتوں کے قبرستان کے طور پر کرایا گیا تھا۔ اس کے باوجود امریکی حکومت نے اس قبرستان میں امریکا کے لیے جگہ مختص کرانے کا فیصلہ کیا۔
افغانستان کے منظرنامے میں آج سب سے اہم تصویر طالبان کے ظہورثانی کی ہے۔ برنیٹ آر روبن‘ جو اقوام متحدہ کے نمایندے کے طور پر بون کانفرنس میں شریک تھے‘ نے افغانستان میں ناکامی کے تجزیے میں لکھا ہے کہ طالبان کے دوبارہ عروج کی ایک وجہ نا اہل اور کرپٹ افغان حکومت بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں… ’’جب تک افغانستان کی متزلزل حکومت کو وسائل اور قیادت نہیں ملتی تاکہ وہ ان علاقوں میں عمومی خوش حالی کے نتائج سامنے لا سکے‘ جہاں یہ مزاحمت کار موجود نہیں‘ اس وقت تک افغانستان میں بین الاقوامی موجودگی بالکل ایک غیر ملکی قبضے کی شکل میں سامنے آتی رہے گی… ایک ایسا قبضہ جسے آخر کار افغان مسترد کر دیں گے‘‘۔ (فارن افیئرز‘ جنوری‘ فروری ۲۰۰۷)
یہ اعتراف تو ہر جگہ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کی حکومت مسلسل زلزلے کی زد میں ہے۔ طالبان نہ بھی ہوں تو شمالی اتحاد کے متحارب دھڑے ہی اس کے مسلسل حالت نزع میں رہنے کے لیے کافی ہیں۔ دوسرا اعتراف یہ کیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی موجودگی دراصل غیر ملکی قبضہ ہے۔ تیسرا اعتراف یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ افغان قوم غیر ملکی قبضے کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ وہ اسے مسترد کرتی ہے۔ امریکا حقائق سے آگاہ ہے۔ وہ اس کے باوجود یہ تسلیم نہیں کر رہا کہ اس کا مشن ناکام ہو چکا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ مختصراً اس ناکامی کا حال بیان کر سکیں۔
امریکا کے ان چار معلوم مقاصد کے علاوہ وسط ایشیا میں توانائی کے ذخائر تک رسائی‘ امریکا‘ بھارت اور افغانستان اسٹرے ٹیجک کولیشن کا قیام، چین کے خلاف اقدامات کے لیے درکار حالات کی تیاری اور پاکستان کو افغان مسئلے سے الگ تھلگ کرنا بھی اس کی حکمت عملی کا حصہ تھے۔ ایران کے ساتھ مستقبل میں کیا کرنا ہے، پاکستان کے ایٹمی توانائی کے وسائل کے لیے محفوظ راستہ کہاں سے کدھر ہو سکتا ہے، نیز جنرل پرویز مشرف کے بعد کے حالات کی ممکنہ منصوبہ بندی کس طرح سے کی جاسکتی ہے، یہ بھی اس کے وسیع تر ایجنڈے کا حصہ تھے۔ ان مقاصد میں افغانستان میں ایک مرکزی حکومت قائم کرنا ضرور شامل تھا۔ سیاسی استحکام اس ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں تھا۔
امریکا اپنے بیان کردہ مقاصد میں کس قدر کامیاب رہا؟ امریکا نے سرکاری طور پر تسلیم کیا ہے کہ وہ افغانستان میں القاعدہ نیٹ ورک کے صرف ۲۵ فی صد کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ طالبان کی تباہی کا تناسب ۳۰فی صد رہا۔ گویا اس کے اپنے اندازوں کے مطابق القاعدہ نے اپنا ۷۵فی صد نیٹ ورک اور افرادی قوت بچالی۔ طالبان اپنے دفاع میں ۷۰ فی صد کامیاب رہے۔ امریکا کے اعداد وشمار کے اداروں اور پنٹاگان کے مطابق تقریباً ۸۰۰ افغان اور عرب مارے گئے۔ ۵۰۰ افغان اور عرب مجاہدوں کو پکڑ کر گوانتا ناموبے بھیج دیا گیا۔ شمالی اتحاد کے ہاتھوں بہت بڑی تعداد میں وہ پاکستانی مارے گئے جو شریعت محمدی تحریک کے کہنے پرافغانستان گئے تھے۔ شمالی اتحاد کے ہاتھوں مارے جانے والوں میں دوسری بڑی تعداد ازبک باشندوں کی تھی۔ طالبان کا قتل عام شمالی اتحاد بھی نہ کر سکا۔ اس کی بڑی وجہ قبائل کے معاملات اور مستقبل میں نئی دشمنیوں سے گریز کے محرکات تھے۔
اس کامیابی یا ناکامی کا دوسرا رخ یہ تھا کہ ملا محمد عمر گرفتار نہ ہو سکے۔ اسامہ بن لادن کے بارے میںعلم نہ ہو سکا۔ طالبان کی بڑی تعداد پشتون آبادی میں غائب ہو گئی۔ خود افغان حکومت‘ اور شمالی اتحاد کے وارلارڈز نے مقامی قبائلی اور سیاسی مصالح کے تحت یہ راستہ کھولا تھا کہ طالبان کمانڈر حکومت کے ساتھ مل جائیں، ہتھیار پھینک کر عام حیثیت اختیار کر لیں یا خاموشی ہی اختیار کرلیں۔ طالبان نے ان تینوں سہولتوں سے فائدہ اٹھایا اور پشتون آبادی میں ضم ہو گئے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ اس معرکے میں جو دو ماہ جاری رہا، طالبان اور القاعدہ کے مارے جانے والے بڑے لیڈروں کی کل تعداد ۱۲ تھی۔ اس کی واحد کامیابی طالبان حکومت کا خاتمہ تھا۔ طالبان کا خاتمہ ایک الگ معرکہ تھا جو کامیاب نہ ہو سکا۔ فوجی ماہرین نے طالبان کے بارے میں اپنے تجزیوں میں ان اسباب کو بیان کیا جو ان کے بچ نکلنے کا باعث ہوئے۔ ان میں نمایاں یہ تھے:
۱- امریکا صف اول کی قیادت پر حملہ کر رہا تھا۔ دوسرے درجے کی قیادت روپوش ہوگئی۔
۲- امریکا نے طالبان کی صف میں سے حامی تلاش کرنے پر وقت ضائع کیا۔ حامی نہ مل سکے لیکن حالات کی نزاکت سے فائدہ اٹھا کر تحلیل ہونے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔
۳- طالبان مخالف گروہوں کو پشتونوں کی مخالفت سے بچنے کی بھی ضرورت تھی۔ انھوں نے طالبان کو راستہ دیا۔ نسلی اور قبائلی وابستگیوں نے جو کام کیا، امریکا اس کا اندازہ نہ کرسکا۔
۴- پہلے دو ماہ کے جنگی معرکے کے بعد امریکا نے تعمیرنو سے انکار کر دیا۔ امریکی حکام نے اعلان کردیا کہ اب دنیا تعمیر نو کرے۔ اتنی جلدی امریکا کی بے وفائی نے عام افغان کو یہ پیغام دیا کہ طالبان سے دشمنی درست نہیں۔
۵- ایف بی آئی اور سی آئی اے نے طالبان اور القاعدہ کے ۶۰ راہنمائوں کی فہرست تیار کی۔ ان میں سے صرف ۱۲ گرفتار ہو سکے۔ یہ گرفتاریاں پاکستان کے تعاون سے ممکن ہوسکیں۔
۶- طالبان حکومت کے بعد بھی بم باری شہری ہلاکتوں کا سبب بنتی رہی۔
امریکی آپریشن کی حکمت عملی پر ایک ریسرچ پراجیکٹ کے تحت ایک تجزیہ تیار کیا گیا۔ اس میں کے جی کے ہیرنگ نے لکھا کہ آپریشن پایدار آزادی کامیاب نہ ہو سکا۔ افغانوں کے دل و دماغ فتح نہ کیے جا سکے۔ امریکا بارودی سرنگیں بھی صاف نہ کر سکا۔ طالبان ختم نہ کیے جاسکے۔ عالمی حمایت میں کمی آتی گئی‘جب کہ امریکا نے تمام تر فوجی و سفارتی وسائل استعمال کیے۔ اس تجزیے میں یہ کہا گیا کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو فوجی ذرائع سے توڑا نہیں جاسکتا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا نے پانچ برسوں میں اس بم باری کو مسلسل جاری رکھا۔ ایک شادی کی تقریب پر بم باری کا بھی بہت چرچا ہوا۔ اس بم باری میں طالبان کی ہلاکتیں بہت کم رہیں۔ نیوز ویک نے اکتوبر ۲۰۰۶ء کے شمارے میں غزنی کے علاقے میں بم باری پر ایک رپورٹ شائع کی۔ اس کے مطابق امریکا نے دعویٰ کیا کہ ۳۸ طالبان مارے گئے‘ جب کہ صرف چارطالبان مار گئے تھے۔ شہری ہلاکتوں نے افغان ردعمل کو مزید مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور تباہی کے دہانے پر بیٹھے افغانوں کو قبروں میں منتقل کرنے کی حکمت عملی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔
طالبان کے ظہور ثانی کی ایک وجہ تباہ حالی سے نجات کا نہ ملنا بھی ہے۔ امریکا کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پالیسی پلاننگ کے انچارج رچرڈ ہیس‘ نے ۲۰۰۲ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ امریکا اب افغانستان میں تعمیر نو کا کام نہایت ہی محدود پیمانے پر کرے گا اور اس پر سختی سے عمل کرے گا۔ تعمیرنو کا عالم یہ ہے کہ افغانستان سے کیے جانے والے غیر ملکی امداد کے وعدوں میں سے نصف بھی پورے نہیں ہو سکے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے اعدادوشمار کے مطابق فی افغان ۶۷ ڈالر فی سال امداد دی گئی‘ جب کہ بوسنیا میں یہ رقم ۲۴۹ ڈالر اور مشرقی تیمور میں ۲۵۶ ڈالر تھی۔ افغان حکومت ۲۷ ارب ڈالر طلب کررہی ہے‘ جب کہ اسے بون کانفرنس کے وعدے کے مطابق ۱۵ ارب ڈالر بھی نہیں مل سکے۔
یونوکال (Unocal) کی طالبان سے کش مکش نے بھی یہی پیغام دیا کہ افغان عوام کے لیے امریکی منصوبوں میں مفاد کا پلڑا امریکا کے حق میں ہی رہے گا۔ طالبان کے دور میں امریکی تاجروں اور صنعت کاروں نے اپنے دورے کے اختتام پر یہ رپورٹ دی تھی کہ یہاں سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا ہی مشورہ سوویت یونین کے آنے سے قبل بھی دیا گیا تھا۔ اس پر امریکا نے افغانستان کو اپنے ایجنڈے سے خارج کر دیا تھا۔ جب امریکا کو سوویت یونین کو افغانستان میں لانے میں کامیابی ملی تو وہاں ’سرمایہ کاری‘ کا فیصلہ کیا گیا۔
گلبدین حکمت یار کو ایران میں پناہ ملنا اور کمانڈر اسماعیل کے ان سے پرانے گہرے تعلقات افغانستان میں ایک بظاہر نئے اور درحقیقت بہت پرانے عامل (factor) کی نشان دہی کرتے تھے۔ کمانڈر اسماعیل خان طالبان کا سب سے کٹر دشمن تھا۔ امریکا بھی طالبان کا دشمن تھا اور ایران بھی۔ گویا طالبان‘ دشمن کے دشمن تھے۔ طالبان کو دشمن کے خلاف استعمال کرنے کا گُر ایرانیوں کو خوب آتا تھا اور انھوں نے اس کا استعمال بھی کیا۔ یہ بات خالی از دل چسپی نہیں ہو گی کہ جب افغانستان پر حملے کا آغاز ہوا تو وائٹ ہائوس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ طالبان اور القاعدہ کے وہاں سے فرار ہونے کے بڑے راستے ایران اور پاکستان ہوں گے۔ اس لیے پاکستان کو ساتھ ملایا گیا۔ امریکا کے کہنے پر ایران نے اپنی ۷۰ہزار افواج افغان سرحد پر لگا دیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان رابطے خفیہ طور پر موجود رہے اور طالبان ان کا مشترکہ ہدف رہے۔ جنیوا‘ نیویارک اور لندن میں ایسے اجلاس ہوئے جن میں ایران، امریکا، برطانیہ اور اقوامِ متحدہ کے حکام شرکت کرتے رہے۔ دشمن کے دشمن سے بھی دشمنی کو پس منظر میں رکھ کر بہت سے کام کیے گئے۔ سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا نے ایران کا ان دنوں دورہ کیا اور امریکی مطالبات پیش کیے۔
امریکا نے کبھی کھل کر ایران پر طالبان کی حمایت کا الزام نہیں لگایا۔ اس کی وجہ درپردہ رابطے بھی تھے اور یہ حقیقت بھی کہ ایران بھی طالبان کا مخالف ہے۔ لیکن ایران امریکی حملے کے دنوں میں طالبان حکومت کو تیل دیتا رہا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس کی خبریں شائع کیں۔ امریکی کمانڈوز تیل کے قافلوں کو تباہ کرتے رہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ رابطے بعد میں بھی رہے۔
اس وقت بھی طالبان افغانستان کے مختلف علاقوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ ان میں وہ اثرات بھی موجود ہیں جن کی جانب ہلمند، زابل، قندھار کے حکام اشارہ کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایران کی انٹیلی جنس کے حکام اور ایرانی فوج کے جرنیل ان علاقوں میں کئی بار دیکھے گئے ہیں۔ وہ مبینہ طور پر طالبان کمانڈروں کو اسلحہ اور رقم دے کر جاتے ہیں۔ ایران نے ان دعوئوں کی کبھی تردید کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ہے۔
ملا محمد عمر نے اس مزاحمت کو منظم کرنے کے لیے ۱۰ رکنی رہبر کونسل بنائی۔ طالبان کے پانچ آپریشنل زونز بنائے گئے۔ ہر زون کا ایک کمانڈر مقرر کیا گیا۔ اس سال‘ یعنی ۲۰۰۶ء میں ان گروہوں نے افغانستان کے جنوب اور مشرق میں، بالخصوص ہلمند، قندھار، زابل، غزنی، پکتیکا‘ پکتیا‘ خوست، کنڑ، لوگر اور نورستان میں کارروائیاں ہی نہیں کیں بلکہ وہ ان علاقوں میں عملی طور پر موجود رہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں امریکی اور ناٹو افواج موجود ہیں۔ اتحادی کمان اب ناٹو کے پاس ہے۔ چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات میں طالبان کی حکومت قائم ہے۔ آپریشن میڈوسا، آپریشن مائوئنٹین فیوری اور ایسے ہی کئی آپریشن ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں۔
افغانستان میں امریکی حکمت عملی ناکامی سے دو چار ہے۔ جب تک افغانستان کو انسانوں کی سر زمین تسلیم نہیں کیا جاتا، وہاں کے بسنے والے غیر ملکی قبضے کے خلاف ایسی ہی جدوجہد کرتے رہیں گے۔ برطانیہ وہاں سے ناکام ہو کر نکلا تھا‘ اب ناٹو کا حصہ بن کے گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ سیاسی حل کے سوا دوسرا راستہ نہیں ہے۔ سوویت یونین بکھر گیا اور آج روس کنارے بیٹھا وہی تماشا دیکھ رہا ہے جو اس کی مداخلت کے ایام میں امریکا دیکھ رہا تھا۔ برزنسکی کے الفاظ میں پکنک منائی جارہی تھی۔ طالبان کے دوبارہ ظہور نے مقامی حالات سے قوت پائی ہے اور پکنک پر آنے والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ جانے کا راستہ کھلا ہے‘ ورنہ نتائج اس سے بھی بھیانک ہوں گے۔
پاکستان کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں دنیا بھر سے مسلم اور مسیحی ادارے اور تنظیمیں امدادی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے مسیحی اداروں کے ریلیف کے کاموں سے متاثر ہونے والوں میں عام آدمی سے لے کر پالیسی ساز افراد اور اہم ذمہ داریوں پر موجود شخصیات بھی شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان اداروں کو بے پناہ مادی وسائل میسر ہیں جن کا ایک اظہار ان کی مالی و فنی خود کفالت سے بھی ہوتا ہے اور تکنیکی صلاحیت بھی کسی طرح سے کم نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ادارہ کسی نہ کسی اعتبار سے مسیحیت کے فروغ سے بھی وابستہ ہے۔ بعض ادارے تو اپنے نام سے پہچانے جا سکتے ہیں کیونکہ وہ کسی چرچ کی توسیعی شاخ کے طور پر دنیا بھر میں کام کرتے ہیں۔ ان کے مشن اور سرگرمیوں کے بارے میں ان کی ویب سائٹس معلومات فراہم کرنے کا کھلا ذریعہ ہیں۔
ان کی مشنری سرگرمیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ کچھ ادارے ایسے ہیں جو صرف انسانی ہمدردی کے عنوان سے میدان میں ہیں۔ ان اداروں میں بھی یہ تخصیص بہرحال موجود ہے کہ یہ سیکولر ادارے نہیں ہیں۔ اگر ہم ان تمام اداروں کے ناموں کو سامنے رکھیں اور سیکولر اداروں کو بھی پیش نظر رکھیں تو ہم پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ انسانی ریلیف کا کام زیادہ تر مذہبی ادارے کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے زلزلہ زدہ علاقوں میں ان اداروں نے بلاشبہہ کام کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ پورے امدادی کینوس کو سامنے رکھیں تو تعلیم اور علاج کے شعبہ جات میں اور وہ بھی خصوصی طور پر بچوں اور خواتین میں کام زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ صوبہ سرحد میں بالاکوٹ کا علاقہ ان سرگرمیوں کا خصوصی مرکز ہے۔ آزاد کشمیر کے علاقوں میں باغ میں زیادہ اہم سرگرمیاں ہیں۔
ایک مشنری جب کام کرتا ہے تو اس کو مکمل تربیت حاصل ہوتی ہے‘ ایک لٹریچر اس کے کام میں اس کی معاونت کرتا ہے اور مغربی دنیا کے وسائل اس کی پشت پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ اس کے مشن کا حصہ ہے کہ وہ کبھی فارغ نہیں ہوتا۔ وہ مسلسل کام کرتا ہے۔ اسی لیے مشنریوں کے کام کے نتائج ایک غیرمسیحی کی توقعات سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے قبل کمبوڈیا میں تعداد ۲۰۰ تھی جو اب بڑھ کر ایک لاکھ ہو گئی ہے۔ گویا ۱۰برسوں میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوگیا۔ اس تیز رفتار تبدیلی مذہب کی وجہ زیر ہدف علاقے کا آفت زدہ یا مصیبت زدہ ہونا‘ وہاں کے مقامی مذہب کی گرفت کا ڈھیلا پڑ جانا‘ الہامی کتب کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ ہونا اور ان کے ساتھ ساتھ مشنری مسیحی اداروں کا مسلسل فلاحی سرگرمیوں‘ بہبود کے کاموں میں اور امدادی سرگرمیوں میں مقامی آبادی کا ساتھ دینا تھا۔ ان سرگرمیوں سے مشنری کو موقع ملتا ہے کہ وہ مقامی آبادی سے ربط پیدا کرے‘ ان کے ہاں آجا سکے‘ ان کی خوشی غمی میں شرکت کرسکے اور پھر انھیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دے سکے۔ ایک مشنری سے کہا جاتا ہے کہ وہ شام کے اوقات کو ان سرگرمیوں کے لیے استعمال کرے۔ وہ سارا دن ریلیف اور امداد کرے گا اور شام کو تبشیری سرگرمیاں جاری رکھے گا۔
ایک مشنری کی تربیت میں شامل ہے کہ اسے افراد میں نفوذ کس طرح کرنا ہے‘ انھیں مشتعل کیے بغیر ان کے مذہب سے انھیں کس طرح الگ کرنا ہے‘ یسوع مسیحؑ سے انھیں کس طرح وابستہ کرنا ہے۔ آپ کو زلزلہ زدہ علاقوں میں بہت سے مسیحی کارکن‘ جو ان اداروں کے ساتھ آئے ہیں‘ روزے کی حالت میں ملے ہوں گے۔ رمضان المبارک میں زلزلہ آیا اور انھوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھے۔ وہ آپ کو بہت سے ایسے مقامات پر بھی باادب بیٹھے ملیں گے جہاں صرف مسلمان ہی جمع ہو سکتے ہیں۔
خاتون مشنری کی اہمیت مرد سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ زیادہ با اثر ہے۔ اس کے ہر کام کی نگرانی ہوتی ہے۔ آپ کو مسیحی مشنری خاتون صفائی کرتی نظر آئے گی‘ کبھی کھانا طلب نہیں کرے گی‘ کبھی کوئی رعایت نہیں لے گی‘ سب کام کرے گی اور خاموشی سے چلے جائے گی لیکن اپنے پیچھے اَن گنت سوالات چھوڑ جائے گی۔ یہ اس کے کام کی کامیابی ہے۔ جاپان میں مشنری تجربات سے معلوم ہوا کہ ۷۰فی صد معاملات میں خاتون مشنری کامیاب رہی۔ جنوبی کوریا میں ایک سال میں ۳۶۵ خاندانوں کو تبدیلیِ مذہب پر آمادہ کرنے والی بھی ایک خاتون تھی۔ ایک جائزہ تیار کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ عورت کی یہ صلاحیت ایک مرد کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے۔
مشنری ہمیشہ تعلیم یافتہ ہو گا۔ وہ اپنے مذہب کے بارے میں کیے جانے والے بیشتر سوالوں کا جواب جانتا ہو گا۔ وہ آپ کو آپ کے مذہب سے دور لے جانے کے سو نکات بیان کردے گا‘ وہ تبدیلی مذہب کے عمل کے بارے میں بالکل متانت اور سنجیدگی سے بات کرے گا‘ آپ کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دے گا۔ آپ کی خانگی الجھنوں کا حل پیش کرے گا‘ آپ کے بچوں کے مسائل پر بات کرے گا‘ آپ آفت زدہ ہیں تو اس آفت کے بارے میں خداوند کی بات کرے گا‘ توحید پر اشتراک کرے گا اگرچہ وہ تثلیت کا قائل ہو گا۔
مشنریوں نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے تجربات بھی کئی ایک مقامات پر بیان کیے ہیں۔ ان تجربات کو وہ ایک دوسرے کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ ان راستوں اور طریقوں کی وضاحت ہو جن سے ایک مسلمان کو آسانی سے مسیحی بنایا جا سکتا ہے۔ ایک مشنری جولی وینزل نے نیومارک سٹی میں اگست ۲۰۰۳ء میں ایک خط میں ایک تجربہ بیان کیا۔ اس کے مطابق ایک مسلم عرب ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے گھر ڈنر میں یہ لوگ شریک ہوئے۔ جولی نے ایک حمدیہ نظم پڑھنا شروع کی جس میں نہایت پر سوز انداز میں توحید کا بیان تھا۔ جولی کا کہنا ہے کہ لبنان کے اس گھرانے کے افراد کی آنکھیں پر نم تھیں اور ان کی دو خواتین مسلمان ہونے کے باوجود سخت مضطرب تھیں اور وہ بعد میں اسلام سے مسیحیت کی جانب آ گئیں۔ اس طرح سے وہاں الجزائر کی ایک مسلم ایم بی بی ایس خاتون بھی مسیحی ہو گئی۔
مسیحیوں میں بالعموم اور مسیحی مشنریوں میں بالخصوص ریلیف سوسائٹیاں بنانے کا رواج عام ہے۔ ان سوسائٹیوں میں کام کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو مشتعل کیے بغیر انھیں تبدیلی مذہب پر آمادہ کیا جائے۔ انھیں یہ شک بھی نہ ہونے دیا جائے کہ ان پر کس نوعیت کا کام ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ دوستی اور سماجی خدمت کے پردے میں ہوتا ہے اور غیر محسوس انداز میں لٹریچر کی جانب طلب پیدا کر دی جاتی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو مسیح بنانے کے ایک ادارے کا نام دارالنجات ہے۔ اس ادارے کوGlobal Call of Hope کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ اسلام پر مختلف کورس کراتی ہے۔ اس منصوبے کو مسلم مسیحی فیلو شپ کا نام دیا گیا ہے۔ ایک اور ادارہ ہیلپنگ ہینڈ انٹرنیشنل ہے۔ یہ پاکستان میں بھی کام کر ہا ہے۔ یہ سکول قائم کرتا ہے‘ چلڈرن ہوم‘ دستکاری مراکز‘ کرافٹ سنٹر‘ زرعی تربیت کے ادارے‘ ریلیف تنظیمات اور طبی امداد کے ادارے بناتا اور ان سے کام لیتا ہے۔ یہ تنظیم بھی یہاں زلزلہ زدگان کی امداد میں مصروف ہے۔ بھارت کی آٹھ ریاستوں میں مسلمانوں میں تبدیلی مذہب پر کام کر رہی ہے۔
جب ایک مسلمان کو مسیحی بنایا جاتا ہے تو کتب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ اس سے تقریباً روزانہ نصف سے ایک گھنٹہ ملاقات کی جاتی ہے۔ اس کام کے لیے ایک لائبریری ’النور‘ کے نام سے کام کرتی رہتی ہے۔ یہ ادارہ‘ یعنی ہیلپنگ ہینڈ اس مقصد کے لیے ۱۸ کتب اور ۳۷ پمفلٹ اور ایک جامع خط و کتابت کورس تقسیم کرتا ہے۔ سونامی میں ان اداروں نے بہت کام کیا۔ امریکی اخبار نیوز ڈے نے ۸ جنوری ۲۰۰۵ء کو ایک رپورٹ میں ان کی تفصیلات بیان کیں۔ عراق ان اداروں کا ایک بنیادی ہدف ہے۔ ایوانجلیکل راہنمائوں نے ان سرگرمیوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم امدادی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی روحانی مدد بھی کرتے ہیں۔ ریورنڈفرینکلن گراہم نے اس کے دفاع میں کہا کہ امداد ایسی ہو جس سے یسوع مسیح کی محبت ہر دل میں پیدا ہو سکے۔ میری کوشش ہے کہ متاثرین میرے خداوند کو اپنے خداوند کے طو رپر پہچان لیں۔
مسیحی مشنری جب متاثرین میں کام کرتے ہیں تو بچوں کو گود لے لیتے ہیں۔ ریلیف کے سامان میں پمفلٹ رکھ دیتے ہیں‘ مستقل رابطوں کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ ایوانجلیکل مشن نامی میگزین کے ایڈیٹر سکاٹ مورائو کا کہنا ہے کہ مسیحیت کا پرچار کسی صورت بند نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے امداد دی جائے پھر اس اعتماد کی مدد سے رابطے قائم کیے جائیں تاکہ لوگوں کو تبدیلی مذہب پر آمادہ کیا جائے۔ کرسچین ریلیف ایجنسی‘ ورلڈ وژن اور کیتھولک ریلیف سروس کا بھی یہی طریقہ ہے۔
٭ Brother' Brother Foundation پاکستان میں طبی سامان بالخصوص ادویات دے رہی ہے۔ www.brothersbrother.org
(تفصیلی معلومات کے لیے ماہنامہ آئین کی نومبر اور دسمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت دیکھیے)