بے نظیر بھٹو کے سانحے کے بعد پاکستان بھر میں ہونے والے ردّعمل نے بہت سے سوالات کو اہل فکر و عمل کے سامنے رکھا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ردّعمل متشدد اور بے قابو کیوں کر ہوتا گیا؟ اس امر سے کسی کو اختلاف نہیں ہو گا کہ اس بڑے واقعے پر ردّعمل کا رونما ہونا بھی بڑے پیمانے پر ہی متوقع تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یوں بھی محسوس ہوا کہ یہ متوقع کے ساتھ ساتھ مطلوب بھی تھا۔ اس میں فطری ردّعمل کو غیر فطری ردّعمل سے الگ کرنا، تشدّد اور تخریب کو سمجھنا، ان کے محرکات پر غور کرنااور مستقبل کے لیے ایسا لائحہ عمل بھی تیار کرنا اسی طرح سے ضروری ہے جس طرح اس نوعیت کے واقعات کا سدّباب کرنا، ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی لہر کو سمجھنا اور روکنا اور امن قائم کرنا لازمی ہے۔
یہاں ان واقعات، بیانات اور ان سے پیدا شدہ نتائج کو بیان کرنے اور زیر بحث لانے سے کہیں ضروری ہے کہ ہم متعین انداز میں تجزیہ کریں کہ یہ سب کیا ہوا، کس نے کہاں اپنے فرائض سے پوری طرح انصاف نہیں کیا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اس بڑے واقعے کے قومی و بین الاقوامی مضمرات کا سامنا کرنے سے قاصر حلقے بھی چاہتے تھے کہ قتل سے توجہ کہیں اور مبذول ہو، دبائو کی نوعیت تبدیل کی جائے اور اس وقفے میں ان مضمرات کا جائزہ لے کر حکمت عملی تیار ہو جس سے تزویراتی مقاصد حاصل ہو سکیں۔ بظاہر حالات ان مقاصد کی تائید کرتے ہیں۔ اگر ہم نقصانات کی نوعیت پر ایک نگاہ ڈالیں تو چیدہ چیدہ نکات یوں مرتب کیے جا سکتے ہیں:
ان نکات کو سامنے رکھیں تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ غم و غصے کی لہر کو بعض متعین مقاصد کی طرف موڑنے والوں کو مطلوبہ اثرات مرتب کرنے میں واضح مدد ملی۔ بے نظیر بھٹو کے اپنے والد کی طرح جان دینے کے تصور کو عام کرنے والوں نے پنجاب سے ایک اور سندھی وزیراعظم کی لاش پر سیاست کی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے نوڈیرو چلے جانے سے بے نظیر بھٹو کے غم میں نڈھال وابستگان کو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کسی فوری اور سنجیدہ رہنمائی کی ضرورت تھی۔ یہ ضرورت پوری طرح سے اپنے تقاضوں کے ساتھ موجود تھی۔ ان تقاضوں کو پورا کرنے والی قیادت میسر نہ رہی۔ جہاں پر قیادت موجود تھی، وہاں احتجاج اپنے فطری انداز سے آگے نہ بڑھ سکا،تاہم اِکَّا دُکَّا واقعات ضرور ہوئے۔
ملکی سیاسی فضا ایسے بڑے سانحے کے لیے ’سازگار‘ تھی جس کا ردّعمل بڑے پیمانے پر ہوتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پورے ملک میں سیاسی کارکن پوری طرح سے متحرک تھے۔ انتخابی مہم میں حصہ لینے والے اپنے انداز میں کام کر رہے تھے۔ بائیکاٹ کی مہم چلانے والے اس انداز سے متحرک نہ تھے لیکن عام حالات کی نسبت بہرحال ان میں تحرک موجود تھا۔ اس فضا میں بے نظیر بھٹو کا قتل ہوجانا ایک شدید دھچکا تھا۔
بے نظیر بھٹو کے قتل پر امریکا کا ردّعمل پیپلز پارٹی کے لیے بھی غیر متوقع تھا۔ اگرچہ اس کا براہِ راست احتجاج اور تشدد سے تعلق نہیں ہے لیکن پیپلز پارٹی کے کارکن کو واضح پیغام مل رہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے بعد اسے اب امریکی اشیرباد نہیں ملے گی۔ یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ بے نظیر کے وطن واپسی کے بعد حالات، بے نظیر بھٹو کے بیت اللہ محسود سے رابطے، عبدالقدیر خان کے بارے میں تبدیل شدہ رویے (یاد رہے کہ بیان نہیں)، اور اپنی نجی گفتگوئوں میں بیان کردہ حکمت عملی سے الگ راستے کے اشارے، غیر اہم نہیں تھے۔ پیپلز پا رٹی نے مخدوم امین فہیم کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد کیا تھا تاکہ امریکی رویوں کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ میاں محمد نواز شریف سے امریکی سفارت کاروں کے رابطوں نے تبدیلی کا اشارہ دے دیا تھا۔ اگر ہم یہ محسوس کر سکیں کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے تین دنوں کے اندر ہی بہت سے نشانات نظر آ رہے تھے تو بے جا نہ ہو گا۔
احتجاجی ردّعمل کو جب ہم فطری اور غیر فطری میں تقسیم کرتے ہیں تو اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کی قیادت موجود نہیں تھی۔ حالات اس کے کنٹرول میں نہیں تھے۔ سب لاڑکانہ اور نوڈیرو میں تھے۔ پورا شہر ایم کیو ایم کے لیے ایک کھلا میدان تھا۔ اگر ٹی وی چینلوں پر نوڈیرو سے براہِ راست نشر ہونے والے پروگراموں کو دیکھا جائے تو کراچی کے بڑے بڑے راہ نما وہاں موجود تھے۔ کارکن بھی کثیر تعداد میں شہر چھوڑ گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ فطری ردّعمل کو غیر فطری ردّعمل میں تبدیل کرنے والے عناصر کون تھے۔ گھیرائو جلائو میں کون شریک تھا، تنصیبات کو کون تباہ کر رہا تھا، ٹرانسپورٹروں سے پرانی خلش کسے تھی، بنکوں، محکمہ جات کے دفاتر کو، پٹرول پمپوں کو تباہ کرنے والے کہاں سے آئے۔ یقینا یہ پیپلز پارٹی کے لوگ نہیں تھے۔ یہ جرائم پیشہ گروہ تھے، یہ منظم ٹولیاں تھیں، یہ احتجاج کرنے والے عام لوگ ہرگز نہیں تھے۔ عام لوگ تونشانہ بنے۔
اس صورتِ حال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ملک کے اندر ایسے منظم گروہ، مخصوص انداز میں مخصوص حلقوں کے پروردہ، بھتہ خور اور مافیا موجود ہیں جو کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر اس نوعیت کی پُرتشدد کارروائیاں کر سکتے ہیں جن کا سامنا پوری قوم کو کرنا پڑا۔ ریلوے، بنک، کارخانے، پٹرول پمپ جلانا عام سیاسی کارکنوں کا کام ہے، اور نہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اگر عامر چیمہ شہیدؒ کے سانحے میں ۱۴ فروری کو لاہور میں ہونے والے احتجاج کے ہائی جیک ہو جانے کا واقعہ ذہنوں میں تازہ ہو تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں کہ پُر امن احتجاج کرنے والوں کو اگر یہ شناخت نہ رہے کہ ان کی صفوں میں کون گھس رہا ہے تو پھر نتائج کنٹرول نہیں کیے جا سکتے۔
اس سارے رد عمل میں حکومت کا کردار بھی حیرت انگیز رہا۔ یہ کردار بہت سے سوالات چھوڑ گیا۔ تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا۔ تین دن کے سرکاری بیانات، الیکٹرانک میڈیا اور اقدامات کو دیکھیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایک بڑے پیمانے پر رد عمل کا حکومت کو بہرحال علم تھا۔ یہ محض اندازہ نہیں تھا۔ اس ردّ عمل کے فطری اور غیر فطری، پُر امن اور پُر تشدد کے مراحل میں داخل کرنے میں حکومت بھی برابر کی ذمہ دار تھی۔ کراچی شہر میں ۳۰ ہزار پولیس اور رینجرز کے اہل کار کس کے ایما پر خاموش رہے۔ اندرون سندھ ریل گاڑیوں پر حملے روکے کیوں نہ جا سکے۔ جواب یہ ہے کہ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ ماضی کے واقعات کو دہرائیں تو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ریلوے ٹریک پراحتجاج ٹرین روک دینے تک محدود رہا۔ اس مرتبہ ریل گاڑیاں جلا دی گئیں، ٹریک اُکھاڑ دیا گیا، ریلوے اسٹیشن جلا دیے گئے۔ روکنے والے کہاں تھے۔ حکومت نے سوگ کے دنوں کو مجرموں کے لیے کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ لاہور میں احتجاج کو لیجیے۔ جہاں انتظامیہ متحرک تھی وہاں محض ٹائر جلائے گئے۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے کامقصد بے نظیر بھٹو کے قتل سے پیدا ہونے والے دبائو کا رخ تبدیل کرنا تھا۔
ایک اور عجیب فیصلہ یہ سامنے آیا کہ جن کا نقصان ہوا ہے، ان کو معاوضہ دیا جائے۔ اس کے لیے کمیشن بنا دیا گیا کہ وہ نقصان کا اندازہ لگائے۔ درست ہے ایسا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نقصان کیوں ہوا، احتجاج کیوں بے قابو ہو گیا، پورے ملک میں شدید بد نظمی، بد امنی اور عام آدمی کی بے بسی کن وجوہات کی بنا پر سامنے آئی، اس کا احاطہ کرنا ضروری تھا، یہ کام نہیں کیا گیا۔ فساد کرنے والوں سے سختی سے نپٹنے کا حکم بھی دیر سے آیا۔
یہ صورت حال خود بتا رہی ہے کہ یہ خود پیدا نہیں ہوئی۔ اسے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد فطری ردّ عمل سے بڑھ کر ایک بڑے غیر فطری ردّ عمل کی صورت میں تخلیق کیا گیا۔ ایک ایسے کمیشن کا مطالبہ اب وہ حیثیت نہیں رکھتا جو سوگ کے خاتمے کے ساتھ ہی ہونا چاہیے تھا۔
آخری نکتہ یہی رہ جاتا ہے کہ ہم آئندہ ایسے حالات سے کس طرح ملک و قوم اور خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس بارے میں چند گزارشات ہیں۔ تفصیلی جائزہ اور لائحہ عمل کی تیاری سیاسی جماعتوں اور حکومت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
___ ملک میں موجود سیاسی قیادت کے خلا کا برقرار رہنا محض ایک سیاسی خطرہ ہی نہیں ہے، بلکہ ایک حقیقی اور فوری خطرہ ہے۔ اس کا ازالہ ضروری ہے۔ اس کے لیے جملہ اقدامات سیاسی جماعتوں کے مطالبات کی صورت میں موجود ہیں، اس لیے تذکرہ ضروری نہیں۔
___ خودکُش حملوں، دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام اور خاتمے کی حکمت عملی اسی صورت میں کارگر ہو سکتی ہے کہ پاکستان امریکا کی مسلط کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے الگ ہو جائے۔
___ حکومت کے انٹیلی جنس اداروں کے سیاسی کردار کو ختم کیا جائے۔ ان میں قائم سیاسی، صحافتی اور دیگر حسّاس شعبہ جات کو، جن کا براہ راست عوامی نمایندگی سے کسی طور سے تعلق ہے، ختم کیا جائے۔
___ حکومت کے انتظامی اداروں کو ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں خود مختار بنایا جائے تاکہ وہ ایسے حالات میں منتخب اداروں کو جواب دہ ہوں اور ان کا احتساب کیا جا سکے۔
___ سیاسی جماعتوں کے اندرقائم مافیا، جرائم پیشہ افراد کے گروہوں اور بھتّہ خوروں کا خاتمہ کرنے کے لیے خود سیاسی قیادت کردار اداکرے۔
___ ۲۷ دسمبر۲۰۰۷ء کے بعد کے واقعات میں تشدد اور تخریب کے در آنے کی وجوہات کا تعین کیا جائے اور آیندہ ان کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں۔
یقینا ہمارے معاشرے میں بہت بنیادی اور اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہماری معاشرتی زندگی ایک بے ہنگم اور غیر حقیقی زندگی ہے۔ اس میں انصاف، قانون کا احترام اور رواداری کی قلّت کو عدلیہ پر شب خون مارنے کے واقعات نے دوآتشہ کر رکھا ہے۔ ہمیں ایک نظریے ایک منزل کا تعین کرنا ہو گا۔ ہم محض نعروں سے دل بہلاتے رہے تو آنے والا سورج ہمیں زندگی کی تمازت دینے سے انکارکر دے گا۔