ہاشمی نسب جناب ہاشم بن عبدِمَناف سے شروع ہوتا ہے۔ بلندکردار قریشی سردار، ذہانت و جرأت میں ہی نہیں صداقت و امانت میں بھی اپنی مثال آپ تھا۔ قریشِ مکہ ہرسال موسم گرما میں اپنے تجارتی قافلے شام بھیجا کرتے۔ یہ قافلے سرما میں واپس لوٹتے۔ ان رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْف میں سے ایک قافلہ جناب ہاشم کی قیادت میں جاتا۔ ۲۵ برس کی عمر تک یہ سردار نمایاں ترین مقام حاصل کرچکا تھا۔ لوگ انھیں التَّاجِرُ الصَّدُوق ’انتہائی سچا تاجر‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ ۲۵سال کی عمر میں ہاشم بن عبدِمناف تجارتی قافلہ لے کر شام جا رہے تھے کہ وادیِ سینا سے ملحق علاقے غزہ میں انھیں اچانک بیماری نے آن لیا۔ یہ بیماری مرض الموت ثابت ہوئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّامجد ہاشم بن عبدِمناف غزہ میں انتقال فرما گئے۔ غزہ کے محلے ’الدرج‘ میں آج بھی ان کی قبر موجود ہے۔ قبر کے پڑوس میں ایک شان دار تاریخی مسجد، مسجدِسیدہاشم واقع ہے۔ یہ مسجد ممالیک کے عہد میںتعمیر کی گئی۔ سلطان عبدالحمید نے ۱۸۵۰ء میں اس کی تجدید کی، غزہ کو اسی حوالے سے غزۂ ہاشم کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
مصر کی وادیِ سینا سے منسلک اور بحرمتوسط کے ساحل پر پھیلی ہوئی ۴۰کلومیٹر لمبی اور ۱۰کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی میں ۱۵ لاکھ فلسطینی بستے ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں سرزمینِ فلسطین پر قبضہ کر کے جب صہیونی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تو غزہ کی پٹی مصر کے زیرانتظام آگئی۔ مصری انتظام ۱۹ سال تک قائم رہا۔ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں دیگر وسیع علاقوں کے ساتھ ہی ساتھ غزہ پر بھی صہیونی افواج نے قبضہ کرلیا اور غزۂ ہاشم پر ابتلا کا نیا دور شروع ہوگیا۔ ۱۹۴۸ء کے بعد دیگر فلسطینی علاقوں سے بھی مہاجرین کی بڑی تعداد غزہ منتقل ہوگئی تھی، آٹھ مہاجر خیمہ بستیاں وجود میں آئیں۔ یہودیوں نے بھی یہاں اپنی ۲۵ جدید بستیاں تعمیر کیں اور غزہ کی یہ مختصر سی پٹی کثافتِ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے گنجان انسانی آبادی بن گئی۔
مفلوک الحال آبادی سسک سسک کر جی رہی تھی کہ وہاں جہاد و مزاحمت سے آشنا ایک نئی نسل نے جنم لیا۔ شیخ احمد یاسین، ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی اور انجینیریحییٰ شہید جیسے راہ نمائوں نے اس نسل کی تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ اسلامی یونی ورسٹی غزہ جیسے شان دار تعلیمی ادارے قائم کیے اور بالآخر ۱۹۸۷ء میں اسلامی تحریک مزاحمت (ح: حرکۃ م: المقاومۃ اس: الاسلامیۃ حماس ،یعنی جوش و جذبہ) وجود میں آگئی۔ آغازِکار میں پتھروں اور غلیلوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کیا گیا، معصوم بچوں نے کنکریوں سے دیوقامت ٹینکوں اور جدید ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا۔ ابابیل صفت بچے گھروں سے نکلتے ہوئے باوضو ہوکر آتے، مساجد میں نوافل ادا کرتے اور صہیونی درندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل آتے۔ بظاہر صہیونی اسلحے کے انباروں اور بے وسیلہ بچوں کا کوئی تقابل نہیں تھا لیکن دنیا نے دیکھا کہ ہزاروں شہدا، زخمیوں اور قیدیوں کا نذرانہ دینے کے بعد بالآخر بے وسیلہ تحریکِ انتفاضہ ہی کامیاب ہوئی اور ۱۹۶۷ء سے غزہ پر قابض صہیونی افواج ۲۰۰۵ء میں انخلا پر مجبور ہوئیں۔
صہیونی اور امریکی منصوبہ یہ تھا کہ اسرائیلی انخلا کے بعد غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی آپس ہی میں لڑتے لڑتے ختم ہوجائیں۔ صہیونی استعمار کے ساتھ مذاکرات و مصالحت کرنے والی الفتح تحریک خودکو فلسطینی عوام کا اکلوتا نمایندہ قرار دیتی رہی ہے۔ وہی۱۹۹۳ء کے بعد سے لے کر غزہ اور مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے سیاہ و سفید کی مالک تھی۔ صہیونی اور امریکی منصوبہ ساز اس اتھارٹی کے ذریعے فلسطینی مجاہدین کو فلسطینی ’حکمرانوں‘ کے ہاتھوں نیست و نابود کروانا چاہتے تھے۔ اربوں ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہ خطیر امدادی رقم چند جیبوں میں جارہی ہے اس کرپشن پر کوئی اعتراض نہ کیا گیا، مزید امداد کے لیے اکلوتی شرط یہی رکھی گئی کہ مزید دہشت گردوں، یعنی مجاہدین کا قلع قمع کرو۔
یہ منصوبہ اور سازش شاید کامیاب ہوجاتی لیکن جنوری ۲۰۰۶ء میں پورا نقشہ ہی بدل گیا۔ انتخابات ہوئے اور حماس نے پہلی بار انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کرلیا۔ امریکا، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی نے لاکھ دھمکیاں دیں کہ اگر حماس کو منتخب کیا گیا تو امداد بند کردی جائے گی… اسرائیل پھر فوج کشی کردے گا… محاصرہ کردیا جائے گا… لیکن فلسطینی عوام نے بھاری اکثریت سے حماس ہی کو اپنا نمایندہ منتخب کیا۔ امریکا، اسرائیل اور ان کی پسندیدہ فلسطینی اتھارٹی سب ایک مخمصے کا شکار ہوگئے۔ اپنے وضع کردہ نظام کو باقی رکھتے ہوئے حماس کو حاصل دو تہائی اکثریت تسلیم کرلیں یا سب کچھ لپیٹ کر، واپس ۱۹۹۳ء سے پہلے کی صورت حال میں جاپہنچیں۔ طویل لیت و لعل کے بعد صدر محمود عباس کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے، منتخب ارکانِ اسمبلی اور ارکانِ حکومت سے حلف لینے کی ہدایات دی گئیں۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیہ اور ان کے ساتھیوں نے کام کرنا شروع کردیا۔
کہنے کو تو ایک منتخب حکومت اور پارلیمنٹ وجود میں آگئی لیکن عملاً یہ زہریلے کانٹوں سے بھرا ایک تاج تھا جو حماس حکومت کے حصے میں آیا۔ کہنے کو تو صہیونی انخلا کے بعد غزہ سے اسرائیلی قبضہ ختم ہوگیا تھا لیکن عملاً پورا علاقہ نہ صرف صہیونی گھیرے میں ہے، بلکہ غزہ کے اندر بھی اسرائیلی افواج کی نمایندگی کرنے والے دندناتے پھرتے تھے۔ منتخب حکومت کو ایک دن بھی سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا۔ ۱۹۹۳ء میں صہیونی انتظامیہ کے ساتھ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں متعارف کروائی جانے والی فلسطینی اتھارٹی کی بنیاد ہی بیرونی مالی امداد اور اسرائیلی شراکت داری پر رکھی گئی تھی، حماس کی حکومت آتے ہی تمام بیرونی امداد یکسر بند کردی گئی۔ اسرائیلی انتظامیہ نے تعاون کے بجاے عداوت کے نئے مورچے کھول لیے اور ان سے یہی توقع تھی۔ حماس نے چیلنج قبول کیا اور کہا کہ امداد بند ہے تو بند رہے ہم اپنا جہاں خود پیدا کریں گے۔ پورے عالمِ اسلام کے عوام نے ان کے لیے مالی امداد جمع کرنا شروع کی، ایک خطیر رقم جمع ہوگئی، بعض حکومتوں نے بھی دست تعاون بڑھایا اور دنیا کو ’خطرہ‘ لاحق ہوگیا کہ حماس حکومت کامیاب ہوسکتی ہے۔ مسلمان ملکوں کے بنکوں پر پابندی عائد کردی گئی کہ کوئی بنک فلسطینی حکومت کے اکائونٹ میں ایک پیسہ بھی منتقل نہ کرے۔ کئی بنکوں نے منتخب فلسطینی حکومت کے لیے جمع شدہ رقوم ضبط کرنے کا اعلان کردیا لیکن حماس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور ذمہ دارانِ حکومت خود مالی اعانت لے کر غزہ جانے لگے۔
غزہ کو باقی دنیا اور خود فلسطین کے دیگر مقبوضہ علاقوں سے ملانے والے راستوں کی تعداد چھے ہے۔ ان میں سے پانچ تو براہِ راست اسرائیلی انتظام میں ہیں اور غزہ کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے ملاتے ہیں جب کہ ایک راستہ (رَفح گیٹ وے) غزہ کو مصر سے ملاتا ہے۔ وزیراعظم ھنیہ، وزیرخارجہ محمود الزھار اور دیگر کئی ذمہ داران حکومت کو رَفح کے راستے جمع شدہ مالی اعانت غزہ لے جانے سے روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن ہربار فلسطینی مجاہدین نے باقاعدہ مزاحمت کرتے ہوئے یہ امداد اندر پہنچائی۔ تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ یوں ہی گزرا۔ عالمی امداد بند، تمام بّری راستے جزوی طور پر بند، صہیونی فوجی کارروائیوں کا وسیع پیمانے پر دوبارہ آغاز اور سب سے بڑھ کر یہ کہ الفتح تنظیم اور صدارتی افواج کے ذریعے حماس کے ساتھ باقاعدہ مڈبھیڑ کا اہتمام، آئے روز ذمہ داران قتل، مجاہدین گرفتار… صہیونی دشمن کے ہاتھوں نہیں، اپنے ہی بھائی بندوں کے ذریعے۔ اس دوران کئی مصالحتی کوششیں ہوئیں۔ مکہ مکرمہ میں حماس اور الفتح کے درمیان کعبے کے سایے میں ایک تفصیلی معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ صدارتی افواج اور الفتح کے مسلح عناصر کے ذریعے منتخب حکومت اور حماس کے خلاف جارحانہ کارروائیاں پھر شروع ہوگئیں۔ اغوا، قتل اور جلائوگھیرائو کی یہ کارروائیاں عروج پر پہنچیں تو بالآخر ۱۴ جون ۲۰۰۷ء کو حماس کے جوانوں نے غزہ سے صدارتی کیمپ کے تمام دفاتر خالی کروا لیے۔ چند گھنٹوں کے اندر اندر غزہ میں صرف حماس ہی کی عوامی و عسکری قوت باقی رہ گئی۔ حماس نے اعلان کیاکہ یہ صرف ایک عارضی اورانتظامی کارروائی ہے، ہم معاہدۂ مکہ کی اصل روح کے ساتھ اپنے تمام فلسطینی بھائیوں سے اشتراکِ عمل چاہتے ہیں، لیکن ۱۴ جون کے واقعات کو بنیاد بناکر غزہ کو مکمل گھیرے میں لے لیا گیا۔
اس محاصرے کو سات ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ غزہ آنے جانے کے تمام راستے مکمل طور پہ بند ہیں۔ کوئی گاڑی، کوئی سواری، کوئی شخص غزہ آسکتا ہے، نہ وہاں سے جاسکتا ہے۔ اس مکمل بندش سے زندگی معطل ہوکر رہ گئی۔ ایندھن، پانی، ادویات، سامانِ خوردنوش فلسطینی مقبوضہ علاقوں سے آتا تھا، وہ بند ہوگیا۔ غزہ سے کچھ سامانِ تجارت خصوصاً فرنیچر ملبوسات اور زیتون کی مصنوعات باہر جاتی تھیں وہ بند، غزہ میں موجود ۱۸ہزار سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بند۔ غزہ سے لاکھوں افراد روزانہ محنت مزدوری کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاتے تھے، ان کے جانے پر پابندی۔ غزہ میں علاج کی سہولت محدود ہونے کے باعث سنگین امراض کے شکار افراد علاج کے لیے رَفح کے راستے مصر لے جائے جاتے تھے۔ گذشتہ سات ماہ میں کئی افراد کو انتہائی مجبوری کے عالم میں مصر لے جانے کی کوشش کی گئی لیکن انھیں کئی کئی روز راستے ہی میں روکے رکھا گیا جس کی وجہ سے ۸۲افراد راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ کئی مریض ایسے تھے کہ حصار سے پہلے مصری ہسپتالوں میں داخل تھے، انھیں علاج کے بعد واپس اپنے اہلِ خانہ کے پاس نہیں جانے دیا گیا۔ ان میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
۲۰ جنوری ۲۰۰۸ء محاصرے کی ہلاکت خیزیوں کے عروج کا دن تھا۔ غزہ کی ۱۵ لاکھ آبادی بجلی کے حصول کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور مصر سے آنے والی سپلائی کے رحم و کرم پر تھی۔ ۵ فی صد بجلی جنریٹروں کے ذریعے غزہ ہی سے فراہم ہوجاتی تھی۔ مقبوضہ علاقوں اور مصر سے آنے والی بجلی پہلے ہی بند کر دی گئی تھی۔ ۵ فی صد پر کسی نہ کسی طرح گزارا ہورہا تھا لیکن یہ جنریٹر بھی تیل سے چلتے ہیں اور ایندھن کی سپلائی گذشتہ سات ماہ سے بند تھی۔ ۲۰ جنوری کو پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ اور غزہ کے وقت کے مطابق رات ساڑھے آٹھ بجے آخری جنریٹر بھی تیل نہ ملنے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ ۱۵ لاکھ افراد پر مشتمل آبادیاں مکمل اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ غزہ مکمل طور پہ تاریک ہوگیا۔ صرف تاریکی ہوتی تو اسے برداشت کیا جاسکتا تھا لیکن برقی رَو نہ ہونے کے باعث ٹیوب ویل بند ہوگئے، پانی ناپید ہوگیا۔ ہسپتالوں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے حسّاس طبی آلات نے کام چھوڑ دیا، جن مریضوں کے آپریشن ضروری تھے یا جن کے آپریشن ہوچکے تھے، موت و حیات کی کش مکش سے دوچار ہوگئے۔ ٹیلی فون ایکسچینج اور موبائل فون کی بیٹریاں ختم ہوگئیں، ذرائع ابلاغ و مواصلات معطل، نقل و حرکت کے وسائل مفلوج، زرعی اجناس کھیت سے منڈی منتقل کرنا محال۔ اسی پر اکتفا نہیں، ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی بم باری شروع۔ حماس کے ذمہ داران اور نوجوانوں کو چُن چُن کر میزائلوں کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ منتخب وزیرخارجہ محمود الزھار کا کڑیل جوان بیٹا بھی شہید کردیا گیا (ان کا ایک بیٹا ۲۰۰۳ء میں اس وقت شہید ہوگیا تھا جب خود انھیں میزائلوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ تو محفوظ رہے ہمراہ جانے والا بیٹا شہید ہوگیا)۔ حصار و تاریکی کے تین روز کے اندر اندر ۴۰ کے قریب افراد کو شہید کردیا گیا۔ شہدا اور زخمیوں کی جو فہرست غزہ سے جاری ہوئی ہے اسے دیکھیں توان میں سے صرف تین افراد ایسے ہیں کہ جن کی عمر بالترتیب ۴۲، ۵۴ اور ۵۹ سال ہے۔ باقی سب نوجوان یا بچے ہیں۔
۱۵ لاکھ انسانوں کو اب بھی پوری دنیا کے سامنے روزانہ موت کے گھاٹ اُتارا جا رہا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ہیں، اپنے نبیؐ کے قبلۂ اول اور مقام اسراء و معراج پر صہیونی قبضہ تسلیم کرنے سے انکاری فلسطینی۔ لاکھوں افراد کے سامنے جب کوئی راستہ نہ بچا تو ۲۲جنوری کی شام سیکڑوں خواتین رفح کے سرحدی پھاٹک پر جمع ہوگئیں، انھوں نے زبردستی پھاٹک کھولنے کی کوشش کی لیکن مصری انتظامیہ نے ان پر آنسو گیس اور گولیاں چلا دیں۔ اگلے روز، یعنی ۲۳جنوری کو ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی نوجوان اکٹھے ہوئے اور انھوں نے بلڈوزر کے ذریعے غزہ اور مصر کے مابین حائل جنگلے اور آہنی دیوار مسمار کر دی۔ پھر وہاں سے لاکھوں فلسطینیوں کے قافلے مصری شہر عَرِیش اور رَفح کی جانب چل دیے۔ سب کا ہدف صرف یہ تھا کہ تیل، کھانے پینے کا سامان اور لالٹینیں، موم بتیاں خرید کر واپس جاسکیں۔ جب اتنی بڑی تعداد کو روکنا مصر کے لیے ممکن نہ رہا تو صدر حسنی مبارک نے اعلان کیا کہ ہم نے سرحد کھول دی ہے، فلسطینی سامان خوردونوش خریدنے کے لیے آسکتے ہیں۔ مصری دکان دار اور تاجر ایک انوکھی سرشاری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ معمول سے بھی کم قیمت پر جو کچھ ہے اپنے محصور بھائیوں کو پیش کر دیتے، بعض اوقات قیمت خرید سے بھی کم پر۔
یہ منظر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ ایک ہی قوم، ایک زبان، ایک ہی علاقے کے ساجھی ایک ہی نبیؐ کے اُمتی لیکن چند فٹ کی دیوار اور خاردار تاروں سے یوں تقسیم کردی گئی کہ ایک طرف ۱۵لاکھ انسانی جانیں موت کی دہلیز پر کھڑی ہیں اور دوسری جانب کے حکمران صرف امریکا و اسرائیل کے خوف سے انھیں روٹی، پانی، دوا یا تیل دینے سے انکاری ہیں۔ سرحدی دیوار روند دیے جانے پر امریکا بہادر نے خبردار کیا ہے کہ یہاں سے دہشت گرد اسلحہ اور مجاہدین غزہ جاسکتے ہیں۔ اسرائیل نے بھی دھمکی دی ہے کہ مصر یہ راستہ بند کردے وگرنہ براہ راست کارروائی کریں گے۔ اور مصر نے آمنا وصدقنا کہتے ہوئے یہ سرحدی شگاف بند کردیا۔ اب غزہ سے کسی کو مصر جانے کی اجازت نہیں البتہ فی الحال مصر کی طرف آئے ہوئے فلسطینیوں کو واپس غزہ کی سب سے بڑی انسانی جیل میں جانے کی آزادی ہے۔ سرحدی شگاف بند کردیا گیا لیکن اس اقدام سے اُمت کے جسد میں جو شگاف ڈالا جا رہا ہے اس کی کسی کو پروا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مظلوم کے سامنے جب سب راستے بند کردیے جائیں تو پھر وہ کسی طرح سرحدیں مسمار کردیتا ہے۔ دنیا نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھ لیا۔
اہلِ غزہ پر توڑی جانے والی اس قیامت پر اُمت نے بیداری و زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے پورے عالمِ اسلام میں اس پر احتجاج کیا ہے۔ موریتانیا سے لے کر انڈونیشیا تک ہر جگہ مظاہرے اور مذمتی بیانات جاری ہوئے ہیں۔ سب سے بڑے مظاہرے مصر اور اُردن میں اخوان المسلمون نے کیے ہیں۔ ایران اور لبنان میں بھی بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ موریتانیا میں خواتین کے مظاہرے میں ایک خاتون رکن پارلیمنٹ وضع حمل کے تیسرے روز بیماری کے باوجود مظاہرے کی قیادت کے لیے نکل آئی۔ خلیجی ریاستوں بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کے شہر شارقہ میں بھی مظاہرہ ہوا ہے حالانکہ وہاں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ دمشق میں ایک بڑی قومی کانفرنس ہوئی ہے۔ کئی عرب ممالک میں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے: وَلَایَھُـمُّک فِلَسْطِین - کُلنُّا صَلاحُ الدِّین ’فلسطین فکر نہ کرو ہم سب صلاح الدین ہیں‘۔ اہلِ غزہ نے بھی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بینر بلند کیے: شعب غزہ ما بینھار ’غزہ کے باسی کبھی شکست خوردہ نہیں ہوں گے‘۔ عالمی سروے بتارہے ہیں کہ اہل غزہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حماس کا ساتھ دے رہے ہیں۔
جب رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے تمام ساتھیوں کو اہلِ خانہ سمیت شعبِ ابی طالب میں محبوس کردیا گیا اور وہ خشک چمڑا اور درختوں کی چھال تک کھانے پر مجبور کردیے گئے تو ایک روز زہیر بن امیہ تڑپ اٹھا، اپنا شان دار جبہ زیب تن کرکے حرم میں آیا، بیت اللہ کا طواف کیا اور کہا: ’’ہم تو انواع و اقسام کے کھانے کھائیں، طرح طرح کے کپڑے پہنیں اور بنوہاشم ہلاک ہوتے رہیں، ان سے ہر طرح کی خرید و فروخت بند ہو…؟ نہیں، خدا کی قسم! نہیں۔ میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک بنوہاشم سے بائیکاٹ کی ظالمانہ دستاویز پھاڑ نہیں دی جاتی‘‘۔ آج خود ہاشم بن عبدِمناف کے میزبانوں کے لیے غزہ کو شعبِ ابی طالب بنا دیا گیا ہے۔ غزہ اور دیگر فلسطینی آبادیوں کے گرد ۶۵۰ کلومیٹر لمبی اور ۲۵ فٹ اُونچی جدید ہتھیاروں سے آراستہ آہنی دیوار کھڑی کی جارہی ہے۔ (دیوار برلن ۱۵۵ کلومیٹر لمبی اور ۱۱ فٹ ۸ انچ اُونچی تھی) تمام راستے مسدود کر دیے گئے ہیں۔ رسولِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّامجد کا میزبان غزہ دہائی دے رہا ہے کہ: کیا دنیابھر میں پھیلے اربوں انسانوں میں سے کوئی بھی زہیر بن اُمیہ نہیں ہے؟