۲۰۰۸ فروری

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| ۲۰۰۸ فروری | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

عمران ظہور غازی ‘لاہور

’انتخابی تماشا: شرکت یا بائیکاٹ‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) کارکنان تحریک کے لیے، بائیکاٹ کے سلسلے میں قدیم و جدید اور تاریخی لوازمے پر مبنی ہیں جس میں الیکشن بائیکاٹ کا مدلل تجزیہ پیش کیا گیا ہے جو اطمینان اور شرح صدر میں اضافے کا باعث بنے گا۔ ’آزادی راے اور تضحیکِ مذہب‘، ’نظریۂ ضرورت: قانون اور انصاف کا خون‘ وقت کا اہم تقاضا ہیں۔ یہ زندہ موضوعات اچھے لگے۔ نیا سرورق بہت خوب ہے۔


عبداللّٰہ ‘کراچی

’امریکی دھمکیاں اور ملکی سلامتی‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) بروقت ہے اور اسی نقشے پر عمل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس چیلنج کا بھرپور جواب دینے کی ضرورت ہے۔ ’ڈی این اے، تخلیق الٰہی کا کرشمہ‘ اپنے موضوع پر عمدہ تحریر ہے۔ ’سائنس اور مشاہدۂ فطرت پر مبنی مزید تحریریں دینا مفید ہوگا۔ شیخ فرغلی شہیدؒ کے تذکرے سے ماضی کی یادیں تازہ ہوئیں اور تحریکی کردار بھی اُجاگر ہوکر سامنے آیا، تاہم ان کے عہد کا حوالہ ضروری تھا۔


ڈاکٹر راشد محمود ‘لاہور

سیدمودودی کی تحریر: ’جب انتخابات کے ذریعے تبدیلی ناممکن بنا دی جائے‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) سے   نہ صرف برموقع رہنمائی میسر آئی، بلکہ انتخاب یا انقلاب کی بحث کے حوالے سے ایک اہم پہلو بھی سامنے آیا۔ درحقیقت تبدیلی کے لیے فیصلہ کن عامل راے عامہ کی تائید ہے۔ اس حوالے سے غوروفکر کی ضرورت ہے کہ راے عامہ کی ہمواری کے لیے کس حد تک عوامی شعور کو اُجاگر کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ انتخاب یا انقلاب تو ان مساعی کا حتمی نتیجہ ہے۔

’کامیاب زندگی: چند عملی پہلو‘ میں مفید رہنمائی دی گئی ہے، البتہ عبادات کے ساتھ ساتھ ایفاے عہد اور ہمسایے کو اذیت سے محفوظ رکھنا جیسے عملی پہلو اس لحاظ سے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان سے غفلت کے نتیجے میں ایمان تک ضائع ہوسکتا ہے۔ اس پہلو پر توجہ کی ضرورت ہے۔


عبدالرؤف‘منچن آباد، بہاول نگر

’اشارات‘ میں بائیکاٹ کے جماعتی فیصلے اور ملکی صورت حال پر تجزیہ اہلِ وطن کے لیے چشم کشا ہے۔ ’حکمت مودودیؒ ،میں واضح اشارہ موجود ہے کہ کوئی چیز بھی جبراً لوگوں پر ٹھونسی نہیں جاسکتی، جب تک عقائد و افکار نہ بدلے جائیں۔ نیز لوگوں کے دلوں میں اخلاص، قربانی اور جذبۂ ایمانی کے بغیر یہ جدوجہد اپنے نتائج حاصل نہیں کرسکتی۔ انھی چیزوں پر بنیادی توجہ مرکوز کر کے ۱۰ سالہ مؤثر لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔


حکیم محمد یحیٰی عزیز ڈاہروی‘قصور

’انتخابی تماشا، شرکت یا بائیکاٹ‘، ’آزادیِ راے اور تضحیکِ مذہب‘ اور ’ڈی این اے، تخلیق الٰہی کا کرشمہ، خاصے کی چیزیں ہیں۔ بالخصوص ڈی این اے کی معلومات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر پختگی اور  صاحب ِ بصیرت انسانوں کے لیے رہنمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس میں جو مخفی خزانے رکھے ہیں انھیں نہ تو مکمل طور پر کسی دور میں دریافت کیا گیا، نہ ہوسکتا ہے بلکہ یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔


لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد اکبر خاں ‘راولپنڈی

’نظریۂ ضرورت، قانون اور انصاف کا خون‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) میں جسٹس سردار محمد رضا کے   اختلافی نوٹ کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ مجھے جج کے اختلافی نوٹ پر کوئی اعتراض نہیں یہ اُن کا قانونی حق ہے۔ مجھے صرف اُن کے قرآنی آیات سے نظریۂ ضرورت کی نفی کا پہلو نکالنے اور قرآنی آیات سے اپنے مطلب کے معنی نکالنے پر اختلاف ہے۔ قرآن پاک سے جو چند حوالے دیے گئے ہیں ان میں سے کسی حوالے سے بھی نظریۂ ضرورت کی نفی ہرگز نہیں ہوتی۔ متعدد آیات سے نظریۂ ضرورت کا اثبات ہوتا ہے۔ حالت ِ اضطرار میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو حرام کے استعمال کی محدود اجازت دی ہے (بحوالہ البقرہ ۲:۱۷۳، المائدہ ۵:۳)، تو پھر اپنے ملک کے نظام اور اسلامی شناخت کو بچانے کے لیے انسان کے بنائے ہوئے قانون اور آئین سے انحراف کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ اسی مجبوری کا نام نظریۂ ضرورت ہے۔


ڈاکٹر سید ظاہر شاہ ‘پشاور

’انسانی وسائل کی ترقی، اسلامی نقطۂ نظر، (دسمبر ۲۰۰۷ئ) ایک اہم موضوع پر قیمتی کاوش ہے۔ شاید پہلی مرتبہ اس مسئلے کو اسلامی نقطۂ نظر سے پیش کیا گیا ہے۔ تعلیم و تربیت ہی دراصل ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ (ایچ آر ڈی) ہے جو اسلامی نظامِ زندگی کا جزوِلاینفک ہے۔ اس اہم کام سے مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں  مسلم معاشرے اخلاقی بحران کا شکار ہیں۔ مغرب کے پیشِ نظر صرف دنیاوی مفاد ہے، اس لیے نصابِ تعلیم سے دینی عنصر کو خارج کردیا گیا ہے۔ مصنف نے اصل مرض کی نشان دہی بھی کی ہے کہ ہمارے ملک میں صلاحیت اور مہارت کا فقدان نہیں، بلکہ اصل اور بنیادی مسئلہ بددیانتی (کرپشن)، بے ایمانی، خیانت اور   دھوکا دہی ہے جو سرطان کی طرح افراد، اداروں اور پورے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے۔ مرض کی تشخیص کے ساتھ علاج بھی بتا دیا گیا ہے کہ ’’مہارتوں کو اعلیٰ اقدار کے تابع ہونا چاہیے‘‘۔ مصنف نے صحیح کہا ہے کہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا اصل مطلوب وہ متوازن شخصیت ہے جو دنیا میں مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت و استعداد بھی رکھتی ہو اور ساتھ ہی آخرت میں جواب دہی کی فکر بھی۔ اس موضوع پر مزید کام اور بحث کی ضرورت ہے۔