۲۰۰۸ فروری

فہرست مضامین

نائن الیون __ پردہ اُٹھ رہا ہے

پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۰۸ فروری | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

دنیا کی سیاسی لغت میں نائن الیون کی اصطلاح ایک منفرد اضافہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اضافہ ایک لفظ کا نہیں، بلکہ اب تو ایک اصطلاح کا ہے جو ایک مخصوص عالمی جنگ یعنی وار آن ٹیرر  (war on terror) کا عنوان بن گیا ہے۔ بلاشبہہ یہ وہ دن ہے جب نیویارک میں امریکا کے تجارتی مرکز ٹوئن ٹاورز اور واشنگٹن میںامریکی وزارت دفاع کے ہیڈکوارٹر پینٹاگان پر ہوائی حملہ ہوا اور چشمِ زدن میں بش کی قیادت میں امریکا کسی تحقیقات کا انتظار کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں کود پڑا۔ چھے سال گزرجانے کے بعد بھی یہ ایک معمّا ہے کہ۱۱ستمبر کو جو کچھ ہوا، وہ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟اور وہ اصل اہداف کیا تھے جن کے حصول کے لیے یہ خونی کھیل کھیلا گیا؟-- امریکا اس کا ہدف تھا یا خود امریکا اور اس کے ایک ساجھی ملک نے اپنے اپنے سیاسی عزائم کے حصول کے لیے ایسے ہولناک اقدام کا اہتمام کیا؟ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ۲۰ویں صدی کی دوعظیم جنگوں کو کسی خاص تاریخ (date) سے نسبت نہیں دی جاتی لیکن اکیسویں صدی کی دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا عنوان نائن الیون بن گیا ہے اور اب لغت میں باقاعدہ اس ایک نئے لفظ کااضافہ ہو گیا ہے۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ اس واقعے کے پیچھے اسامہ بن لادن اورالقاعدہ کا ہاتھ ہے۔ جو    نام نہاداسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی کے سرخیل ہیں اور انھی کی سرکوبی کے لیے امریکا کی قیادت میں افغانستان ، عراق اور کسی نہ کسی شکل میں تمام دنیا میں جنگ کی جارہی ہے۔

ایک دوسرا نظریہ یہ ہے کہ نائن الیون کے پیچھے دراصل امریکا اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار ہے اور دونوں ممالک کی قیادت ہی اس کی beneficiaryہے یعنی اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور اپنے اپنے عزائم کے حصول کے لیے اسے استعمال کر رہی ہے۔

بظاہر یہ دونوںنقطہ ہاے نظر ہی اپنے اپنے انداز میں سازشی نظریوں(conspiracy theories ) کی حیثیت رکھتے ہیں اور صرف پروپیگنڈے کی قوت ہے جس کے ذریعے ایک کو حقیقت اور دوسرے کو واہمہ اور سازش بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ مگر اصل حقیقت کیا ہے، اب تک ایک معمّا بنا ہوا ہے___ لیکن کیا یہ ہمیشہ معمّا ہی رہے گا اور اصل حقیقت کبھی بھی سامنے نہیں آئے گی--؟

نائن الیون کے بارے میں چبھتے ہوئے سوالات اور ٹھوس سائنسی حقائق اور اصولوں پر مبنی اشکالات تو تواتر کے ساتھ اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسا دھماکا نہیں ہوا تھا جو اُوپر کے حلقوں کو چونکا سکے۔ اہل علم وفکر کی ساری سرگوشیوں پر امریکا کی انتظامیہ اور میڈیا کا وِژن بری طرح چھایارہا ہے۔ بی بی سی کے پروگرام پنوراما کی چار قسطیں اور Michael More کی ڈاکومنٹری Fahrenheit 9/11 بھی ذہنوں میںسوال اٹھانے کے باوجود عالمی حلقوں میں کوئی بڑا ارتعاش پیدا نہ کرسکیں۔ اب تک بیسیوں کتابیں بڑی دیدہ ریزی کے ساتھ کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر شائع ہو چکی ہیں لیکن یہ بھی بس ساحل پر ہی کچھ جنبش پیدا کرسکی ہیں اور جس سنجیدگی سے اس معمّے کو سلجھانے کی کوشش اور امریکا کی فکری یلغار کے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے اس کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوسکی۔ البتہ دسمبر ۲۰۰۷ء میں ایک بیان ایسا آیا ہے جس نے یورپ کے  حلقوں میں ہلچل مچادی ہے اس کے باوجود کہ امریکا میں اسے بالکل  ہی دَبا (kill کر)  دیاگیا ہے اور مسلم دنیا میں بھی اسے قرار واقعی اہمیت نہیںملی، حالانکہ وہ بیان ایسا ہے جس سے اب تک کے علمی، سیاسی اور صحافتی حلقوںمیں امریکی اسرائیلی وِژن کو چیلنج کرنے والوں کے کام کو بڑی تقویت حاصل ہوئی ہے اور عالمی سطح پر ایک نئی بیداری کی ضرورت سامنے آئی ہے۔

یہ بیان اٹلی کے سابق صدر فرانسیسکو کوسی گا (Francesco Cossiga)  کا ہے جو اس نے اٹلی کے سب سے مقبول اخبار Corriere della Sera کو دسمبر ۲۰۰۷ء کے پہلے ہفتے میں دیا ہے۔ اس بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نائن الیون دراصل ایک خود کیا ہوا کام (Inside Job) تھا اور اس کی اصل ذمہ داری امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد پر آتی ہے اور اب یہ حقیقت ایک نہ ایک دن پوری دنیا کے سامنے آکر رہے گی۔ اٹلی کے سابق صدر کے بیان کے بنیادی نکات یہ ہیں:

[Bin Laden supposedly confessed] to the Qaeda September [attack] to the two towers in New York [claiming to be] the author of the attack of the 9/11, while all the [intelligence services] of America and Europe... now know well that the disastrous attack has been planned and realized from the CIA American and the Mosad with the aid of the Zionist world in order to put under accusation the Arabic Countries and in order to induce the western powers to take part .. in Iraq [and] Afghanistan.

بن لادن نے مفروضہ طور پر نیویارک کے دو ٹاوروں پر القاعدہ کے ستمبر حملے کااعتراف کیا، اور دعویٰ کیا کہ وہ نائن الیون کے حملے کا ذمہ دارہے، جب کہ امریکا اور یورپ کی تمام خفیہ ایجنسیاں اب یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ صہیونی دنیا کے تعاون سے امریکی سی آئی اے اور موساد نے  اس تباہ کن حملے کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل کیا تاکہ عرب ممالک پر الزام لگایا جاسکے اور مغربی دنیا کو عراق [اور] افغانستان پر حملے کے لیے آمادہ کیا جاسکے۔

کوسی گایورپ کے واقفانِ راز میں سے ہے۔ اسے ایک جرأت منداورسچ بولنے والے سیاست دان کی شہرت حاصل ہے۔ اس نے ۱۱/۹ کے واقعے کے فوراً بعد بھی مجملاً اپنے خدشات کا اظہار چند نظری مسلّمات کی بنیاد پر کیا تھا جس کا ذکر کئی مصنفین نے بشمول Webster Tarpley نے اپنی کتا ب میں کیا تھا کہ کوسی گاکے تجزیے کی روشنی میں :

The mastemind of the attack must have been a sophisticated mind, provided with ample means not only to recruit fanatic kamikazes, but also highly specialized personnel. I add one thing: it could not be accomplished without infiltrations in the radar and flight security personnel.

اس حملے کا ماسٹر مائنڈ ایک انتہائی منظم اور اعلیٰ درجے کا ذہن ہونا چاہیے جس کو جنونی فدائیوں بلکہ انتہائی خصوصی تربیت یافتہ عملے کے بھرتی کرنے کے وافر مواقع حاصل ہوں۔ میں ایک بات کا اضافہ کرتا ہوں کہ یہ حملے راڈار اور فضائی سلامتی کے ذمہ دار عملے میں سرایت کیے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔

لیکن اب چھے سال بعد اس نے پورے یقین سے یورپ کے بیش تر خفیہ ایجنسیوں کے تجزیے کی بنیاد پر کہا ہے کہ یہ کارنامہ سی آئی اے اور موساد کے سوا کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔

کوسی گانے یہ بھی کہا ہے کہ بحیثیت صدر اٹلی اس کو یہ علم تھا کہ یورپ، امریکا اوراسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں کس طرح ہر دور میں افراد اور ممالک کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کا ارتکاب کرتی رہی ہیں، اور کس طرح ان کے ذریعے ان حکومتوں نے اپنے مخصوص سیاسی اہداف حاصل کیے ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے خودنیٹو کے ایک بڑے کارنامے Operation Gladio کا ذکر کیا ہے جس کے بارے میں اٹلی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے سارے حقائق ۲۰۰۰ء میں آئے اور جس سے ثابت ہوا کہ یہ سارا آپریشن امریکی جاسوسی ایجنسی کی سرپرستی میںخود نیٹو کی ایجنسیوں نے انجام دیا تھا۔

واضح رہے کہ فرانسیسکو کوسی گا جولائی ۱۹۸۳ء میں اٹلی کے سینیٹ کا صدر منتخب ہوا تھا اور ۱۹۸۵ء میں اٹلی کا صدر منتخب ہوا اور اپریل ۱۹۹۲ء تک اٹلی کی صدر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔  کوسی گا کو یورپ کے صاحب نظر سیاسی اکابرین میں شمار کیا جاتا ہے۔  

یہاں اس امرکا اعادہ بھی مفیدہوگا کہ امریکا کے لیے اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے صریح جھوٹ اور غلط بیانی کی بنیاد پر پالیسیاں بنانا اور اقدام کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بارے میں بعد کی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ پرل ہاربر پر حملہ ردعمل تھا ایک جاپانی آب دوز کوہوائی کے پانیوں میں بلااشتعال نشانہ بنانے کا ۔ اسی طرح اب یہ حقیقت پوری دنیا کے سامنے ہے کہ عراق پر حملہ کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (WMD) کا ڈھونگ رچایا گیا اور بعد میں خود کولن پاول نے معذرت کی کہ اس کو صحیح معلومات نہیں دی گئیں۔ اس ہفتے امریکا کی دوممتاز صحافتی تنظیموں نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں ثابت کیا ہے کہ امریکی صدر بش اور ان کی انتظامیہ نے ۱۱/۹ کے بعد کے دوسالوں میں عراق میں وسیع پیمانے کی تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کے سلسلے میں ۵۳۲بار جھوٹ پر مبنی اعلانات کیے اور عراق میں القاعدہ کی موجودگی اور عراق- القاعدہ تعاون کے سلسلے میں جھوٹ بولنے کا اسکور ۹۳۵ تک پہنچ جاتا ہے۔ جھوٹ، دھوکا اورغلط دعووں کی بنیاد پر پالیسی سازی مغربی اقوام کا وطیرہ ہے لیکن جھوٹ کی نائو ایک نہ ایک دن ڈوب کر رہتی ہے۔

امریکا اور یورپ میں بھی ۱۱/۹ پر اب نئی تحقیق اور تنقیدی کتب کا انبار لگتا جا رہا ہے لیکن افسوس ہے کہ مسلم ممالک میں عام آدمی کا احساس خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہولیکن علمی حلقوں اورپالیسی ساز اداروں کو اس کا کوئی احساس نہیں کہ پروپیگنڈے کے دھوئیں کو چھانٹ کر حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں اور آنکھیں بندکرکے امریکا اوراسرائیل کے مفاد کی دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کی حقیقت کو سمجھیں اور جس جنگ کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہیں، اس میں  آلۂ کار نہ بنیں۔

یہ بات امر واقع کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ مدیر ترجمان القرآن کو پہلے دن سے ۱۱/۹ کی امریکی توجیہہ کوتسلیم کرنے میں بڑا تردّد تھا جس کا بار بار اظہار ۹ستمبر کے بعد لکھے جانے والے اشارات میں کیا گیا ہے، جن کامجموعہ امریکا سے مسلم دنیا کی بے اطمینانی، ۹ستمبر سے پہلے اور اس کے بعد (۲۰۰۳ئ) انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔     اسی طرح اس حادثے کے صرف۷ ہفتے بعد برطانیہ میں مسلم تنظیموں کے ایک اہم اجتماع میں  اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے بڑے بنیادی سوال اٹھائے۔ یہ تقریر امریکا سے شائع ہونے والی ایک کتاب The Blackwell Companion  to Contemporary Islamic Thought (مطبوعہ ۲۰۰۶ئ) میں شائع ہو چکی ہے۔۱ ؎

امریکا اور یورپ میں پہلے ایک دوسال تو اتنا ذہنی دبائو تھا کہ اختلافی آرا حلق سے باہر نہیں آرہی تھیں مگر آہستہ آہستہ بحث وگفتگو کا دروازہ کھلا اور ایک فرانسیسی تجزیہ نگار اور محقق Thierry Meyssan وہ پہلا معروف مصنف ہے جس نے اس موضوع پر کھل کر امریکی نظریے کو چیلنج کیا اور متبادل نظریہ پیش کیا۔ اس کی اہم ترین کتاب 9/11: The Big Lie پہلے فرانسیسی زبان میں اور پھر انگریزی میں ۲۰۰۲ء میں ہی شائع ہوئی تھی جسے نیویارک ٹائمزنے ایک چیلنج قرار دیا اور لکھا ہے کہ یہ کتاب: challanges the entire offical version of the Sept. 11 attacks۔

اسی مصنف کی دوسری کتاب Pentagate لندن سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی جس میں پینٹاگان پر جہازی حملے کا پول کھولا گیا ہے۔ مسلمان محققین میں سب سے قیمتی اور مدلل کتاب پروفیسر نفیس مصدق احمد کی ہے جو ۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی ہے یعنی The War on Truth: 9/11, Disinformaton and the Anatomy of Terrorism"۔

موصوف کی ایک اور کتاب بھی بڑی قیمتی کاوش ہے گو اس کا مرکزی موضوع عراق کی امریکی جنگ ہے یعنی Behind the War on Terror: Western Strategy and the Struggle for Iraq

دواو ر کتابیں جو دونام ور صحافیوں کی محنت کا حاصل ہیں قابل ذکر ہیں۔ پہلی کتاب 9/11 Revealed ہے جو ۲۰۰۵ء میں لندن سے شائع ہوئی ہے اور اس کے لکھنے والے ایان ہینشال اور رونالڈ مارگن (Ian Henshall and Ronald Morgan)ہیں اور دوسری رونالڈ مارگن کی کتاب Flight 93 revealed ہے جو واشنگٹن میں پینٹاگان پر حملے کے پوسٹ مارٹم پر مشتمل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب تحقیقی کام میں کہیں اضافہ ہورہا ہے۔کئی ادارے نائن الیون کے بارے میں سچ کی تلاش کے مقصد سے تحقیق کا کام انجام دے رہے ہیں اور یورپ اور امریکا    کے چند چوٹی کے مفکرین اور سائنس دانوں نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس سلسلے میں


1- Khurshid Ahmed: "The World Situation after September 11, 2001", in The Blackwell Companion to Contemporary Islamic Thought, edited by Ibrahim M.Abu-Rabi, Blackwell Publishing, USA, 2006, pp 408-422

نوم چومسکی کے بعد سب سے وقیع کام کلیرمونٹ گریجویٹ یونی ورسٹی کے فلسفہ و الٰہیات کے پروفیسر ڈیوڈ رے گریفین (David Ray Griffin) کا ہے جن کی دوکتابیں علمی حلقوں میں تہلکہ مچاچکی ہیں یعنی:The New Pearl Harbour: Disturbing Questions about the Bush Administration and 9/11 (2004)   اورThe 9/11 Commission Report: Omissions and Distortions 2005

پروفیسرگریفین کی تازہ ترین کتاب جو ان کے اپنے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی ہے یعنی Christian Faith and the Truth about 9/11 اور ان کی تازہ ترین علمی کاوش ان کی مرتب کردہ کتاب 9/11 and American Empire: Intellectuals Speak Out ہے جو ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی ہے اور جس میں امریکا، کینیڈا اور یورپ کے ۱۱ مفکرین اور سائنس دانوں کے مضامین شائع کیے گئے ہیں جواپنے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر ۱۱/۹ کے بارے میں امریکی وژن کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔

ایک اور اہم مجموعہ مضامین ہالینڈ سے شائع ہوا ہے جس کا مؤلف Paul Zarmenlke ہے جو The Hidden History of 9-11-2001 کے نام سے ایمسٹرڈم سے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی ہے۔ نیز اس سے خاصا پہلے رسائل اور اخبارات میں شائع شدہ مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ لندن سے شائع ہوا تھا  Beyond September 11: An Anthology of Dissent (مرتبہ فل اسکریٹن) لیکن اس نے زیادہ تر اصولی مباحث اور استعماری عزائم پر گفتگو کی ہے اور نائن الیون کے واقعاتی پہلوئوں کو اس طرح چیلنج نہیںکیا جیسا حالیہ دنوں میں شائع ہونے والے لٹریچر میں کیا گیا۔ بہرحال اس مختصر مضمون میں سارے لٹریچر کا احاطہ تو ممکن نہیں، نہ فی الوقت یہ مقصود ہے، صرف ضروری مآخذ کی نشان دہی کی گئی ہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آسکے کہ اب پردہ آہستہ آہستہ اٹھ رہا ہے اور امریکا اور اسرائیل کا اصل کردار کھل کر سامنے آنے لگاہے۔ ۲؎ بلّی آخر کب تک تھیلے میں رہ سکتی ہے؟ لیکن کیا مسلمان دنیا کے بصیرت سے محروم قائدین کی آنکھیں بھی کبھی کھلیں گی اور وہ دوسروں کے مفاد کی خدمت کرنے کی بجاے امت مسلمہ کے مفاد کے محافظ بن سکیں گے؟


۲-            چند اہم ترین کتابوں کا پورا حوالہ دیا جارہا ہے تاکہ جو حضرات اس موضوع پر کام کرنا چاہتے ہوں، وہ ان مآخذ کی طرف رجوع کر سکیں:

1- 9/11: The Big Lie by Thierry  Meyssan, Carnot Publishing, London, 2002.

2-  Pentںagate: by Thierry Meyssan, Carnot Publishing, London, 2002

3- Beyond September 11: An Anthology of Dissented. By Phil Scranton, Pluto Press, London, 2002.

4-9.11 Revealed: Challenging the Facts Behind the War on Terror, by Ian Henshall and Rowland Morgan, Constable and Robinson, London, 2005

5- Flight 93 Revealed: What Really Happened on the 9/11 'Let's Roll' Flight? By Rowland Morgan, Constable and Robinson, London, 2006.

6- Behind the War on Terror: Western Strategy and Struggle for Iraq, by Nafees Mossadiq Ahmad. New Society Publications, Gabriele, 2002

7- The War on Truth: 9/11, Disinformation and the Anatomy of Terrorism, by Nafez Mussadiq Ahmed, Olive Branch, Northampton, MA., 2005,

8.-The New Pearl Harbour: Disturbing Questions about the Bush Administration and 9/11, by David Ray Greffin, Olive Branch, Northampton, 2005, 

9- The 9/11 Commission Report: Omissions and Distortions, by David Ray Griffin, Olive Branch Press, Northampton, 2005.

10-Christian Faith and the Truth Behind 9/11, by David Ray Griffin, Westminster, John Knox, Louisville, 2006.

11- Painful Questions: An Analysis of the September 11 Attack, by Erie Hufschmid, Endpoint Software, Golete C.A. 2002.

12- 9/11 Synthetic Terror: Made in USA, by Webster Griffin Tarpley, Progressive Press, Joshua Tree, 2005

13- 9/11 and American Empire: Intellectuals Speak Out.  Ed. By David Ray Griffin and Peter Dale Scott, Arris Books, Glostanshire, 2007.

_________________