موجودہ تہذیب جس پر آج دنیا کا پورا فکری، اخلاقی، تمدنی،سیاسی اور معاشی نظام چل رہا ہے دراصل [جن] تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے، ان میں سے پہلا اصول سیکولرزم یعنی لادینی یا دنیاویت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’خدا اور اس کی ہدایت اور اس کی عبادت کے معاملے کو ایک ایک شخص کی ذاتی حیثیت تک محدود کردیا جائے اور انفرادی زندگی کے اس چھوٹے سے دائرے کے سوا دنیا کے باقی تمام معاملات کو ہم خالص دنیوی نقطۂ نظر سے اپنی صواب دید کے مطابق خود جس طرح چاہیں طے کریں۔ ان معاملات میں یہ سوال خارج از بحث ہونا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے اور اس کی ہدایت کیا ہے اور اس کی کتابوں میں کیا لکھا ہے‘‘۔ ابتداء ً یہ طرزِعمل اہلِ مغرب نے عیسائی پادریوں کی اس خودساختہ دینیات (Theology) سے بے زار ہوکر اختیار کیا تھا جو ان کے لیے زنجیرِپا بن کر رہ گئی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہی طرزِعمل ایک مستقل نظریۂ حیات بن گیا اور تہذیب.ِ جدید کا پہلا سنگِ بنیاد قرار پایا۔ آپ نے اکثر یہ فقرہ سنا ہوگا کہ ’’مذہب ایک پرائیویٹ معاہدہ ہے خدا اور بندے کے درمیان‘‘۔ یہ مختصر سا فقرہ دراصل تہذیب.ِ حاضر کا ’کلمہ‘ ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ اگر کسی کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی پرستش کرنی چاہیے تووہ اپنی انفرادی زندگی میں بخوشی اپنے خدا کو پوجے، مگر دنیا اور اس کے معاملات سے خدا اور مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ اس ’کلمہ‘ کی بنیاد پر جس نظامِ زندگی کی عمارت اُٹھی ہے اس میں انسان اور انسان کے تعلق اور انسان اور دنیا کے تعلق کی تمام صورتیں خدا اور مذہب سے آزاد ہیں۔ معاشرت ہے تو اس سے آزاد، تعلیم ہے تو اس سے آزاد، معاشی کاروبار ہے تو اس سے آزاد، قانون ہے تو اس سے آزاد پارلیمنٹ ہے تو اس سے آزاد، سیاست اور انتظامِ ملکی ہے تو اس سے آزاد، بین الاقوامی ربط و ضبط ہے تو اس سے آزاد، زندگی کے ان بے شمار مختلف پہلوئوں میں جو کچھ بھی طے کیا جاتا ہے اپنی خواہش اور دانست کے مطابق طے کیا جاتا ہے اور اس سوال کو نہ صرف ناقابلِ لحاظ، بلکہ اصولاً غلط اور انتہائی تاریک خیال سمجھا جاتا ہے کہ ان امور کے متعلق خدا نے بھی کچھ اصول اور احکام ہمارے لیے مقرر کیے ہیں یا نہیں۔ رہی انفرادی زندگی، تو وہ بھی غیر دینی تعلیم اور بے دین اجتماعیت کی بدولت اکثروبیش تر افراد کے معاملے میں نری دنیاوی (سیکولر) ہی ہوکر رہ گئی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے کیونکہ اب بہت ہی کم افراد کا ضمیر واقعی یہ گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی بندگی کرنی چاہیے۔ خصوصاً جو لوگ اس وقت تمدن کے اصلی کارفرما اور کارکن ہیں ان کے لیے تو مذہب اب ایک پرائیویٹ معاملہ بھی باقی نہیں رہا ہے، ان کا ذاتی تعلق بھی خدا سے ٹوٹ چکا ہے...
یہ نظریہ کہ خدا اور مذہب کا تعلق صرف آدمی کی انفرادی زندگی سے ہے، سراسر ایک مہمل نظریہ ہے جسے عقل و خرد سے کوئی سروکار نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ خدا اور انسان کا معاملہ دوحال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یا تو خدا انسان کا اور اس ساری کائنات کا جس میں انسان رہتا ہے، خالق اور مالک اور حاکم ہے، یا نہیں ہے۔ اگر وہ نہ خالق ہے نہ مالک اور نہ حاکم، تب تو اس کے ساتھ پرائیویٹ تعلق کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہایت لغو بات ہے کہ ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خواہ مخواہ پرستش کی جائے جس کا ہم سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ اور اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اس تمام جہانِ ہست و بود کا خالق، مالک اور حاکم ہے تو اس کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ اس کی عمل داری (jurisdiction) محض ایک شخص کی پرائیویٹ زندگی تک محدود ہو اور جہاں سے ایک اور ایک___ دو آدمیوں کا اجتماعی تعلق شروع ہوتا ہے وہیں سے اس کے اختیارات ختم ہوجائیں۔ یہ حدبندی اگر خدا نے خود کی ہے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہیے۔ اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خدا سے بے نیاز ہوکر خود ہی خودمختاری اختیار کی ہے تو یہ اپنے خالق اور مالک اور حاکم سے اس کی کھلی بغاوت ہے۔ اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو۔ اس سے زیادہ لغو بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایک شخص فرداً فرداً تو خدا کا بندہ ہو مگر یہ الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تو بندے نہ رہیں۔ اجزا میں سے ہر ایک بندہ اور اجزا کا مجموعہ غیربندہ، یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تصورصرف ایک پاگل ہی کرسکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی راہ نمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ہے، نہ محلے اور شہر میں، نہ مدرسے اور کالج میں، نہ منڈی اور بازار میں، نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہائوس میں، نہ ہائی کورٹ اور نہ سول سیکرٹریٹ میں، نہ چھائونی اور پولیس لائن میں اور نہ میدانِ جنگ اور صلح کانفرنس میں، تو آخر اس کی ضرورت ہے کہاں؟ کیوں ایسے خدا کو مانا جائے اور اس کی خواہ مخواہ پوجا پاٹ کی جائے جو یا تو اتنا بے کار ہے کہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری راہ نمائی نہیں کرتا، یا معاذ اللہ ایسا نادان ہے کہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابلِ عمل نظر نہیں آتی؟
یہ تو اس معاملے کا محض عقلی پہلو ہے۔ عملی پہلو سے دیکھیے تو اس کے نتائج بڑے ہی خوف ناک ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے جس معاملے کا تعلق بھی خدا سے ٹوٹتا ہے اس کا تعلق شیطان سے جڑ جاتا ہے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی درحقیقت کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ انسان ایک متمدن ہستی ہے اور اس کی پوری زندگی اصل میں اجتماعی زندگی ہے۔ وہ پیدا ہی ایک ماں اور ایک باپ کے معاشرتی تعلق سے ہوتا ہے۔دنیا میں آتے ہی وہ ایک خاندان میں آنکھیں کھولتا ہے، ہوش سنبھالتے ہی اس کو ایک سوسائٹی سے، ایک برادری سے، ایک بستی سے، ایک قوم سے، ایک نظامِ تمدن اور نظامِ معیشت و سیاست سے واسطہ پیش آتا ہے۔ یہ بے شمار روابط جو اس کو دوسرے انسانوں سے اور دوسرے انسانوں کو اس سے جوڑے ہوئے ہیں، انھی کی درستی پر ایک ایک انسان کی اور مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ہے۔ اور وہ صرف خدا ہی ہے جو انسانوں کو ان روابط کے لیے صحیح اور منصفانہ اور پایدار اصول و حدود بتاتا ہے۔ جہاں انسان اس کی ہدایت سے بے نیاز ہوکر خودمختار بنا، پھر نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف اور راستی۔ اس لیے کہ خدا کی راہ نمائی سے محروم ہوجانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربہ کے سوا کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جس کی طرف انسان راہ نمائی کے لیے رجوع کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس سوسائٹی کا نظام لادینی یا دنیاویت کے اصول پرچلتا ہے، اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم، بے انصافی ، بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی، طبقاتی، قومی اور نسلی خود غرضیاں مسلط ہوگئی ہیں۔ دو انسانوں کے تعلق سے لے کر قوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو۔ ہر ایک شخص نے، ہر ایک گروہ نے، ہر ایک طبقے نے، ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں، جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے، پوری خودغرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے اور قانون بنا لیے ہیں اور کوئی بھی اس کی پروا نہیں کرتا کہ دوسرے اشخاص، گروہوں، طبقوں اور قوموں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ پروا کرنے والی صرف ایک ہی طاقت رہ گئی ہے، اور وہ ہے جوتا۔ جہاں مقابلے میں جوتا یا جوتے کا اندیشہ ہوتا ہے، صرف وہیں اپنی حد سے زیادہ پھیلے ہوئے ہاتھ اور پائوں کچھ سکڑ جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ جوتا کسی عالم اور منصف ہستی کا نام نہیں ہے۔ وہ تو ایک اندھی طاقت کا نام ہے اس لیے اس کے زور سے کبھی توازن قائم نہیں ہوتا۔ جس کا جوتا زبردست ہوتا ہے، وہ دوسروں کو صرف اتنا ہی نہیں سکیڑتا جتنا سکیڑنا چاہیے،بلکہ وہ خود اپنی حد سے زیادہ پھیلنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ پس لادینی اور دنیاویت کا ماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرزِ عمل کو اختیار کرے گا، بے لگام، غیرذمہ دار اور بندۂ نفس ہوکر رہے گا، خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعۂ اقوام۔ (اسلامی نظام اور مغربی لادینی جمہوریت، ص ۱۱-۱۲، ۱۵-۱۸)