۲۰۰۸ فروری

فہرست مضامین

اسلام اور جمہوریت فکری اور عصری جھت

پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۰۸ فروری | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

۲۱ویں ویں صدی کا آغاز ہو چکا اور عالم انسانیت تیسرے ہزاریے میں داخل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہماری دنیا چونکا دینے والے نئے نئے دعووں، اضطراب انگیز وسوسوں اور خدشات کے طوفان کی زد میں آچکی ہے۔

ایک طرف تو کمیونزم کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، اور اس کے ساتھ مغرب کی آزاد روی (liberalism) ، معیشت اور سیاست کی آخری فتح کے نقارے بجا کر ’تاریخ کے خاتمے، کا اعلان کیا جا رہا ہے۔۱  لیکن دوسری جانب عالمی سطح پر مذہبی احیا اور ’بنیاد پرستی، کا شور برپا ہے ، جس میں ایک نئے دور کی آمد آمد کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو مختلف تہذیبوں کے درمیان تصادم سے عبارت ہوگا۔۲

چنانچہ وقت آگیا ہے کہ متوازن سوچ کے حامل دانش ور، خصوصاً وہ جو مسلم اُمّہ کی نمایندگی کرتے ہیں، ان افکار و مسائل کی طرف متوجہ ہوں جو: علم و دانش کی دنیا اور قوت و اقتدار کی غلام گردشوں میں زیربحث ہیں۔ ان چیلنجوں کے مقابلے کے لیے اسلام اور مسلم اُمّہ کی حکمت عملی پر ازسرنو غور کریں۔ آج کے چند بڑے مسائل، جن پر انسانیت کو تشویش لاحق ہے اور جو خصوصاً مسلم اُمّہ سے براہِ راست متعلق ہیں، ان میں: عالم گیریت(globalisation) ،زندگی کے ہر شعبے (مذہب سمیت) میں آزاد خیالی(liberlisation)جمہوریت، نج کاری (privatisation) اور لادینیت (secularisation) شامل ہیں۔ ان میں مذہبی احیا  اور بین الاقوامی دہشت گردی کے آسیب بھی شامل ہیں۔

میں اس مقالے میں، جمہوریت کے حوالے سے جاری مباحث کا جائزہ لوں گا۔

اس مقالے کا استدلال یہ ہے کہ وہ جمہوریت ، جو مغربی تہذیب اور سیاست کی رُو سے فروغ پا چکی ہے، نہ تو مکمل طور پر کوئی یکساں نوعیت کا نظریہ ہے اور نہ ایسا نظریہ ہی ہے کہ جسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ، یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جمہوریت تو ایک ایسا کثیر جہتی مظہر ہے جس کے نظریاتی اور عملی اعتبار سے کئی پہلو ہیں۔ چنانچہ یہ فرض کر لینا کہ: ’’جمہوریت کا کوئی مخصوص مغربی نمو نہ پوری انسانیت اور خاص طور پر مسلم اُمّہ کے لیے مثالی نظام سیاست کے طور پر تسلیم کر لیا جانا چاہیے‘‘۔علمی طور پر ناقابل قبول اور ثقافتی اعتبار سے ناقابل مدافعت ہے۔ مسلم اُمّہ کی تو اپنی الگ اخلاقی اور نظریاتی پہچان ہے، اور مسلمان تاریخی و ثقافتی اعتبار سے اپنا الگ تشخص رکھتے ہیں۔ ہاں، عالم گیریت اپنی موجودہ شکل میں تاریخ کے رواں دور کا ایک رجحان ضرور ہے، لیکن اسے نئی استعماریت کا پیش خیمہ بننے کی  ہرگزاجازت نہیں دی جا سکتی جس کا بڑا خدشہ ہے۔

میرے نزدیک مغرب کی جمہوری فکراور تجربہ، اپنی افادیت اور تنوع کے باوجود، گہری سوچ بچار اور منطقی تجزیے کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے بلکہ ان میں کئی نقائص ہیں اور وہ عملی تضادات، تصوراتی خامیوں اور ناکامیوں سے عبارت ہیں۔ ڈبلیو جی گیلی نے بجا طور پر مغربی جمہوریت کو ’’بنیادی طور پر قابل حجت تصور‘‘ قرار دیا ہے۔۳ عالم اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک کو ، مغربی جمہوریت کی ’برآمد، (export) کوئی حقیقت پسندانہ طرزِ عمل نہیں۔چنانچہ امریکا اور دوسری مغربی طاقتوں کی خارجہ پالیسی کے واضح ہدف کے طور پر دبائو، دھاندلی، سازشوں یا براہِ راست قوت کے ذریعے کسی ملک میں مغربی سیکولر جمہوریت کو بلاامتیاز ٹھونسنے کی کوشش انتہائی نامناسب ہوگی۔

بہتر ہوگا کہ جمہوریت کی دو اہم جہتوں کے درمیان خط امتیاز کھینچ لیا جائے۔ پہلی جہت یہ کہ جمہوریت کی فلسفیانہ بنیاد: عوامی خود مختاری کا تصور اور اس کے نتیجے میں عوامی حمایت پر مبنی حکومت کے جواز کا اصول ۔ دوسری یہ کہ اس نظام کو چلانے کے طریقے، تاکہ کاروبار مملکت میں عوام کی شرکت یقینی بنائی جائے ، اور حکمرانوں کے انتخاب میں اور حکومتی پالیسیوں کی تشکیل اور منصوبوں میں عوام کی شمولیت ممکن ہو سکے ۔ میرا یہ موقف بھی ہے کہ اسلامی عقاید، ثقافت، تاریخ اور فی زمانہ تجربات کے حوالے سے ایسے رہنما خطوط موجود ہیں جو ایک واضح اور منفرد سیاسی ڈھانچے کی شکل متعین کرتے ہیں۔ جسے صحیح معنوں میں روح (spirit) اور عمل، دونوں لحاظ سے حقیقی عوامی شرکت کا حاصل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جاسکتا ہے، جو عدل و انصاف اور شوریٰ و مشاورت دونوں مقاصد کو پورا کرے۔ جو کسی بھی برسرِکار جمہوریت کی حقیقی روح ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نقطۂ نظر مغربی سیکولر جمہوریت کے کئی دیگر تضادات، نزاعات اور ناکامیوں کے لیے بھی تریاق ثابت ہو سکتا ہے۔ خود یہ بات بڑی اہم ہے کہ مسلم اُمّہ پر سیکولر جمہوریت زبردستی ٹھونسنے کی کوشش صرف جابر حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حقیقی جمہوری عمل، جس میں عوام کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنے تصورات اور خواہشات کے مطابق اپنے معاملات چلا سکیں۔ بس دین و دنیا کی تفریق اور سیکولر جمہوریت کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہوسکتی۔ مسلم دنیا میں حقیقی جمہوری عمل جہاں اور جب بھی کارفرما ہوگا آخرکار یہ عمل اسلامی نظام ہی کی طرف رہنمائی کرے گا، کیونکہ اُمت مسلمہ کے کینوس پر اسلام اور جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔

اسلامی سیاسی نظام کی بنیاد نظریۂ توحید پر ہے اور یہ نظام عوامی خلافت کی صورت میں  برگ و بار لاتا ہے ۔جس کے تحت منتخب حکمران (خلیفہ)، شوریٰ کے ذریعے امور حکمرانی بجا لاتا ہے، جو انسانوں میں مساوات کے اصول پر قائم ہوتی ہے۔ اسی نظام میں قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، حکمرانوں کا احتساب، سیاسی عمل کا صاف شفاف ہونا اور نظام کے قانونی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور بین الاقوامی پہلوئوں میں عدل اور صرف عدل کی بالادستی ہی اوّلیں ترجیح ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت ایک ایسا وسیع نظم ِریاست پیش کرتی ہے جس کے اندر رہتے ہوئے عوام، وحی الٰہی کی رہنمائی میں:ایک مہذب معاشرے اور اس کے معاشرتی ادارے، جن میں ریاست کے تمام شعبے (organs) بھی شامل ہوتے ہیں، تشکیل دیتے ہیں۔ اسلامی طرز حکومت کثیر جہتی اجتماعی اور سیاسی نظام قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ایسے معاشرے میں مختلف مذاہب اور نسلی اور لسانی گروپوں کے درمیان صحت مندانہ بقاے باہمی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان باہمی تعامل کی فضا کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی نظام کے تحت معاشرے میں ہر طرح کی ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا ہے۔ جس کے باعث، موجودہ دور میں ، جب کہ پوری دنیا ایک عالمی شہر کی شکل اختیار کر چکی ہے، امن کے قیام اور تمام انسانوں کے لیے ایک منصفانہ سماجی و سیاسی نظام کے قیام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

جمھوریت --- مغربی تناظر میں

جمہوریت (democracy)کا لفظ انگریزی زبان میں ۱۶ویں صدی میں فرانسیسی زبان کے لفظ democratie سے اخذ کیا گیا۔یہ لفظ اپنے اصل کے اعتبار سے یونانی ہے، جو یونانی زبان کے لفظ demokratie سے مشتق ہے۔اس لفظ کی اصل دو الفاظ demos یعنی ’عوام‘ اور krato ’حکمرانی‘ ہیں۔ گویا یہ لفظ دویونانی الفاظ کا مجموعہ ہے۔

جہاں تک مسلم لٹریچر کا تعلق ہے، ’جمہوریت‘ کی اصطلاح پہلی بار ۱۸ ویں صدی میں ترکی زبان میں استعمال کی گئی۔ یہ لفظ عربی کے لفظ ’جمہور‘ سے نسبت رکھتا ہے ،جس کے معانی عوام یا اسمبلی یا عوامی اجتماع ہیں۔یہ اصطلاح ’فرانسیسی جمہوریہ‘ کے حوالے سے استعمال کی گئی تھی۔۴

جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے، جس میں طبقۂ امرا، یا خواص کی حکومت، بادشاہت، آمریت یا استبدادی حکومت کے برعکس عوام ہی کو اقتدار کا حقیقی سرچشمہ تصور کیا جاتا ہے۔ حکومتی اصولوں اور طرزِ حکمرانی کا محور عوام تصورکیے جاتے ہیں، بلکہ تمام اقدار، تصورات اور پالیسیوں کا اصل منبع سمجھے جاتے ہیں۔ عوام ہی کو اقتدار اعلیٰ کا حامل تصور کیا جاتا ہے ۔جنھیں یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملک پر حکومت کریں اور ان کے حکمران بھی ان کے سامنے ہی جواب دہ تصور کیے جاتے ہیں۔

جمہوریت کی اصطلاح سے ان تصورات اور اصولوں کے علاوہ ایک سیاسی نظام بھی مراد ہے جس کے تحت حکمرانی کا نظم قائم ہوتا ہے اور ایک سیاسی و قانونی نظام معرض وجود میں آتا ہے۔ جمہوریت کا اصل امتحان تو ’جواز‘ (legitimacy)کا اصول ہے ،جس کے تحت یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اقتدار صرف اور صرف اس وقت جائز ہوتا ہے جب یہ عوامی قوت سے حاصل کیا گیا ہو اور اس کی بنیاد عوام کی مرضی پر رکھی گئی ہو۔

یورپ کی تاریخ میں ’نشاتِ ثانیہ‘ (renaissance)کے بعد کے دور میں بادشاہوں کے حق حکمرانی کے ’مقدس دعووں، کو چیلنج کیا گیا۔ یورپ کی بادشاہتوں کے خلاف عوامی بغاوت برپا ہوئی۔ عوام، خواص کی حکمرانی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے کلیسا کی اتھارٹی کو بھی   چیلنج کیا اور پادریوں کی حکمرانی (divine right to rule)کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ اسی تناظر میں عوام کی حکمرانی کا اصول وضع کیا گیا ہے، جس کے تحت مذہب اور بادشاہوں کی تقدس مآبی سے سیاست کا رشتہ منقطع کر دیا گیا، عوام کو سیاسی قوت کا اصل منبع اور اپنی قسمت کا حقیقی معمار تسلیم کیا گیا۔ تمام اقدار کی تشکیل اور اختیارات کے استعمال کا تاج ان کے سر پر سجا دیا گیا اور ہرنوع کی سیاسی جدوجہد کا اصل مقصد عوام کا اقتدار اور ان کی فلاح وبہبود قرار پایا۔

سیکولر جمہوریت کی فلسفیانہ جڑیں عوام کے اقتدارِ اعلیٰ کے نظریے میں پوشیدہ ہیں۔ جمہوریت ایک طرف تو دائمی مذہبی رہنمائی سے انکار، یا کم از کم ایسی رہنمائی سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور سیاسی حکمرانی میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو بھی تسلیم نہیں کرتی، جب کہ دوسری طرف اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ عوام اور عوام کی مرضی اور راے ہی کو ہر نوع کے اختیارات اور اقتدار کا حقیقی منبع تسلیم کیا جائے۔ مختصر یہ کہ جمہوریت کے تحت قانونی اور سیاسی اقتدار اعلیٰ، عوام کے پاس ہے، جس کے تحت جمہوری سیاست کی متعدد شکلیں سامنے آچکی ہیں۔ جن میں: براہِ راست، بذریعہ نمایندگی، پارلیمانی، متناسب نمایندگی،ری پبلکن، وفاقی اور پرولتاری جمہوریت وغیرہ شامل ہیں۔

رچرڈ جے کا دعویٰ ہے : ’’۱۹ویں صدی کے دوران جمہوری مطالبات کوآگے بڑھانے والا مرکزی اصول عوام کا اقتدار اعلیٰ ہی رہا‘‘۔۵ بہرحال ’حاکمیتِ عوام، کا نظریہ، عملی اور نظریاتی طور پر جتنا بھی مبہم اور غیر واضح ہو لیکن مغرب کی لادینی جمہوریت کی اساس یہی نظریہ ہے۔ اسلام کا تصورِ سیاست بنیادی طور پر اس سے مختلف ہے۔ حاکمیت زمین و آسمان کے مالک اور خالق کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ الہامی ہدایت اور قانونِ الٰہی کو بالادستی حاصل ہے، البتہ اس قانون کے عملی نفاذ کے لیے ذمہ دار انسان پر ہے جو ’عمومی خلافت‘ کے تصور سے عبارت ہے۔ فلسفیانہ اور فکری بنیادوں کے اعتبار سے مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں یہی جوہری فرق ہے۔

جمہوریت کے دوسرے رُخ کا تعلق عوامی حکومت کی مختلف اشکال اور سیاسی فیصلوں میں عوام کی شرکت، مثلاً ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے عوام کی مرضی معلوم کرنے کا سیاسی طریق کار طے کرنے اور اسے ترقی دینے سے ہے۔ جمہوریت کے عملی نمونوں کی بنیاد انسانی مساوات اور آزادی کے اصولوں، آئین و دستور کی پابندی، قانون کی حکمرانی، حکومت کے مختلف شعبوں، یعنی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تقسیم اختیارات، بنیادی انسانی حقوق جن میں اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی، اظہارِ راے کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی، پریس اور ابلاغ کی آزادی پر ہے۔ جمہوریت کی حقیقی روح کا اظہار اس حکومت کے وِژن میں ہوتا ہے جسے لوگ منتخب کرتے ہیں، جو عوام کی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق ان کی خدمت کرتی ہے اور ان کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔

مغربی جمہوریت کا نظام مذہب اورسیاست کے درمیان مکمل علیحدگی کے تصور پر مبنی ہے۔ چنانچہ اس کا تعلق لوگوں کی دنیاوی فلاح و بہبود تک محدود ہے۔ اس جمہوریت کے تحت قانون اور انسانی حقوق کے پورے نظام میں یہی جذبہ کارفرما ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کہ مغربی ممالک نے حکومت میں عوام کی شرکت کا نظام وضع کرنے میں نہایت قیمتی تجربات کیے ہیں۔ کئی جماعتوں پر مشتمل نظام، ایک مخصوص مدت کے لیے سیاسی قیادت کا انتخاب، مختلف النوع انتخابی طریقے، انتظامیہ سے عدلیہ کی مکمل علیحدگی، قانون سازی کے لیے اداروں کا نظام جو یک ایوانی یا دو ایوانی ہوسکتا ہے، اس سیاسی نظام کے بڑے نمایاں پہلو ہیں۔

مغرب کے جمہوری تجربات کی برکتیں بغیر ملاوٹ کے نہیں تھیں۔ بعض تاریخی کامیابیاں ضرور حاصل کی گئیں لیکن مضبوط اخلاقی بنیادیں نہ ہونے کی وجہ سے ناکامیاں اور خرابیاں بھی ان جمہوریتوں کے حصے میں آئی ہیں۔ چونکہ اس نظام میں مطلق اقدار کا کوئی مقام نہیں ہے، لہٰذاکسی بات کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار عوام کی ترنگ پر چھوڑ دیا گیا ہے، جنھوں نے اخلاقی اقدار میں بھی اسی طرح تبدیلی شروع کر دی جس طرح وہ اپنا لباس یا فیشن تبدیل کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی طرزِعمل کے نتیجے میں بڑی بڑی غیر اخلاقی سرگرمیوں اور اخلاقی برائیوں کو گناہ یا جرم قرارنہ دینے کا چلن شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں انسانی معاشرہ اخلاقی پستی میں گرتا چلا گیا۔ اکثریت کی حکومت کے نظریے سے پیدا ہونے والے ذہنی اور اخلاقی رویے، نسلی، لسانی اور طبقاتی کشیدگی،اقتصادی چشمک، استحصال اور سب سے بڑھ کر ان بنیادی خوبیوں کا زوال ہے، جنھوں نے انسانی معاشرے کو باہم منضبط کر رکھاتھا۔ یہ اخلاقی بحران اور خانگی انتشار مغربی سیکولر جمہوریت کا ثمرہے۔

مغربی جمہوریت نے خوبی و معیار کی جگہ محض تعداد اور افراد کے بدلتے ہوئے رجحانات کو دے دی۔ خیر، سچ اور عدل کے مستقل معیار کے بجاے ہاتھوں کی گنتی کو شعار بنا لیا۔ تنگ دلی پر مبنی جماعتی نظام کی سیاست، جمہوری نظام کے انحطاط کا باعث بنی۔ بعض ممالک میں یک جماعتی نظام متعارف کرا دیا گیا جس کے نتیجے میں جمہوریت کے نام پرایک پارٹی کی آمریت وجود میں آگئی۔ جمہوریت کے بعض بنیادی اصولوں میں اس قدر ملاوٹ کر دی گئی کہ جمہوریت کا تصور ہی دھندلا گیا۔ جمہوری عمل اپنے بنیادی نظریات کی پٹڑی سے اُتر گیا اور ایک مذاق بن کر رہ گیا۔

گیووانی سارتوری کا کہنا ہے:

کم از کم معیار کے مطابق بھی دیکھا جائے توتقریباً آدھی دنیا جمہوریت کے دائرہ عمل  (realm) میں ہے۔ اوسط معیار کی رُو سے دنیا میں جمہوری ممالک کی تعداد میں کمی ہوئی ہے اور اعلیٰ معیار کے مطابق تو ایک درجن یا اس کے لگ بھگ ممالک ہی اطمینان بخش جمہوری معیار کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اس بات کا تصور کرنے کے لیے کچھ زیادہ تردد کی ضرورت نہیں کہ کسی بھی ملک پر سے جمہوریت کا لیبل کس قدر آسانی کے ساتھ ’غیر جمہوری‘ میںتبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے صرف ایک معیار سے دوسرے معیار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک تو جمہوری طرزِ حکومت میں اتنا وقت گزار چکے ہیں کہ اب وہ جمہوری التباس سے گلو خلاصی کے مرحلے سے   گزر رہے ہیں…ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے، ایک جمہوری اور غیرجمہوری نظام کی حدفاصل آج بھی بالکل واضح ہے ۔لیکن جونہی ہم لفظ جمہوریت کا اطلاق تیسری دنیا، خاص طورپر نام نہاد ترقی پذیر اقوام پر کرتے ہیں،تو جمہوری معیار اتنا گرا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ انسان حیرت سے سوچنے لگتا ہے کہ کیا لفظ ’جمہوریت‘ آج بھی اپنے اصل معانی کے ساتھ موجود ہے۔۶

معروف جریدہ  فارن افیئرز کے ایک حالیہ شمارے میں تھامس کیروتھرز نے اس بات پر اظہارِ افسوس کیا ہے کہ ’’دنیا بھر میں برپا ہونے والا جمہوری انقلاب، اب ٹھنڈا پڑرہا ہے‘‘۔ تھامس نے لکھا ہے:

چند سال قبل جو بات بعض جوشیلے افراد کو متحد کر دینے والی ایک عظیم تحریک محسوس ہوتی تھی، وہ آیندہ چند عشروں میں مغربی دنیا (جس میں لاطینی امریکا، شمالی یورپ اور سابق سوویت یونین کے بعض علاقے شامل ہیں) اور غیر مغربی دنیا کے درمیان سیاسی تقسیم کو بڑھا سکتی ہے۔یہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کی کوئی پیش گوئی نہیں بلکہ سہل پسندانہ آفاقیت (یونی ورسل ازم) کے خلاف ایک انتباہ ہے۔۷

سی بی میک فرسن نے’اژدہام کی قابل نفرت حکومت‘ سے اس وقت ’عالمی محبوب‘ کا درجہ حاصل کرنے تک کے جمہوریت کے سفر کا حال اس طرح بیان کیا ہے:

جمہوریت ایک بُرا لفظ سمجھا جاتا تھا۔ ہر کوئی، وہ کوئی بھی ہو، یہ جانتا تھا کہ: جمہوریت اپنے حقیقی معنوں میں، عوام کی اکثریت کی مرضی کے مطابق حکومت، ایک بُری بات ہوگی جو فرد کی انفرادی آزادی اور مہذب زندگانی کی تمام خوبیوں کے لیے زہرقاتل ہے۔ جمہوریت کے بارے میں یہ راے، ابتدائی تاریخی دَور سے کوئی ایک سو سال تک، ہر دانش مند فرد کی راے رہی ۔لیکن اس کے بعد صرف نصف صدی کے عرصے میں جمہوریت بہت اچھی چیز بن گئی۔۸

اگرچہ اب، خصوصاً اشتراکی روس کے انہدام کے بعد، جمہوریت بہت اچھی چیز قرار پا چکی ہے لیکن زیرک مبصر، جمہوری قراردیے جانے والے نظام حکومت کی خامیوں، تضادات، اصولوں سے انحراف اور دوسری خرابیوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے ،جو اب اس نظام کا خاصا بن چکی ہیں۔

تاریخ نگار ای ایچ کیر نے جمہوریت کے بارے میں ۵۰ کے عشرے میں جو کچھ کہا تھا، ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے کے دوران بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی رہی ۹ اور آج ۲۱ویں صدی میں قدم رکھتے وقت اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ایک اور مبصر انتھونی اور بلاسٹر تو اس تکلیف دہ نتیجے پر پہنچا ہے کہ: ہر نوع کے بلند بانگ دعووں اور بعض کامیابیوں کے باوجودجمہوریت جدید سیاست کے ایجنڈے کی ایک نامکمل کارروائی ہے۔۱۰ ووٹ کا حق مل جانے کے باوجود خواتین اور مردوں کو اقتدار میں اپناصحیح حصہ نہیں مل سکا۔ ’بورژوا جمہوریت‘ بڑی حد تک ایک مصنوعی چہرہ ہے جس کے پیچھے رہ کر سرمایہ دار طبقہ معاشرے پر حکومت کر رہا ہے۱۱ اور اسی نے اپنی بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں خواتین کے حقوق کی تحریک کے احیا سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خواتین، مردوں کے مقابلے میں مساوی مقام اور اصناف کے درمیان مساوات کے حصول میں ناکام رہی ہیں بلکہ وہ ’جمہوری، معاشروں میں خواتین کے خلاف بدترین امتیازات کو ختم بھی نہیں کرسکیں۔۱۲یہی مصنف اس بات پر بھی افسوس کرتا ہے کہ ’’سیاسی اقتدار میں مساوات کا اصول جو ہرشہری کے ووٹ میں شامل ہے، سیاسی اقتدار کی تقسیم میں ناانصافی اور بدترین عدم مساوات کا شکار بن چکا ہے‘‘۔۱۳ چنانچہ اربلاسٹر بھی جمہوریت کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچا ہے جو ای ایچ کیر نے اخذ کیا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’اس لیے ہمیں کم از کم یہ نتیجہ ضرور نکالنا چاہیے کہ عام شہری جس مقصد کے لیے سیاسی جمہوریت کے طالب تھے، یا ووٹ کا حق حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ مقصد کسی بھی ذریعے سے پورا نہیں ہو رہا۔۱۴ اس نے بالکل صحیح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’یہ تصور کرنا نری حماقت ہوگی کہ مغربی جمہوریت کو ہی تمام متعلقہ بامقصد تجربات پر اجارہ داری حاصل رہے‘‘۔۱۵

میری راے میں مغربی سیکولر جمہوریت کااپنا مخصوص مزاج ہے۔ چنانچہ اس جمہوریت کی دنیا کے دوسرے خطوں کو بلاامتیاز ’برآمد‘ سے منصفانہ جمہوری اور مستحکم سیاسی نظام معرض وجود میں نہیں آسکتا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں جو مختلف جمہوری تجربات کیے گئے ہیں، بلاشبہہ ان سے متعدد سبق سیکھے جا سکتے ہیں، لیکن مغرب کے سوا دنیا کے دیگر خطوں کے عوام، خصوصاً مسلم اُمّہ کو جمہوریت کے کسی بھی مغربی ماڈل کی اندھا دھند تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بجاے انھیں خود اپنے نظریاتی اور تاریخی مآخذ کو کھنگالنا چاہیے اور ایسے ادارے قائم کرنے چاہییں جو ان کی دینی اقدار اور نظریات کے حامل ہوں۔ بنی نوع انسان نے جو تجربات حاصل کیے ہیں، ان سے سبق سیکھنے میں کوئی حرج نہیں اور مغربی دنیا سے بھی ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، لیکن صرف وہ نظام ، جس کی جڑیں ہماری تاریخ میں ہوں، جو ہمارے تجربات کا ماحصل ہوں، ہماری اقدار کے ڈھانچے کے اندر اور ہمارے قومی ثقافتی مزاج سے ہم آہنگ ہوں، ہمارے ممالک میں حقیقی معنوں میں کامیاب اور ثمرآور ہو سکتے ہیں۔

اسلام کا سیاسی نظام

اسلام مغربی فلسفہ اور مذہبی لٹریچر میں استعمال ہونے والی مخصوص اصطلاح : مذہب کے محدود معانی کے مطابق مذہب نہیں ہے۔ ’اسلام، کے لفظی معانی ہی تسلیم و رضا ہیں۔ اسلامی عقیدے کے تحت بندہ خود کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتا ہے اور اس عہد کے نتیجے میں اللہ کی مرضی کے تابع ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایت پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ کرتا ہے۔ چنانچہ اوّلین اور بہترین بات یہ ہے:

اسلام، انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک رشتے کا مظہر ہے۔

یہ ایک عہد ہے کہ بندہ اس ہدایت پر عمل کرنے کا پابند ہے جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نازل کی ہے اور جس کا بہترین نمونہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حیات طیبہ کی صورت میں موجود ہے۔

مسلمان اللہ تعالیٰ کو ماننے والوں کی جماعت، یعنی اُمہ کا رکن ہے۔ وہ جماعت جو بنی نوع انسان کو سچائی کے راستے کی طرف بلانے کے لیے قائم ہوئی ہے، حق کا کلمہ بلند کرتی ہے اور غلط باتوں سے روکتی ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطۂ اخلاق ہے، یہ ایک جامع اور ہمہ گیر طرزِحیات ہے۔ یہ ایک ’دین، ہے جو انسانی وجود کے تمام انفرادی اور عوامی، اخلاقی اور دنیاوی، مادی اور روحانی، قانونی اور سماجی، معاشی اور تعلیمی، قومی اور بین الاقوامی پہلوئوں پر محیط ہے۔ دین ہی اس وفاداری اور تشخص کی بنیاد ہے اور شریعت وہ مقررہ راستہ ہے جو عبادت ، سماجی اور اقتصادی پالیسیوں تک زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی نظام سیاست کوئی آزاد رو نظم نہیں ہے، بلکہ یہ اسلامی طرز حیات کا ایک حصہ ہے اور اسے دین کے دوسرے پہلوئوں سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

دین اسلام کے تحت زندگی ایک مکمل اکائی ہے، جب کہ ایمان ایک بیج اور نقطۂ آغاز ہے۔ اس بیج سے جو درخت پیدا ہوتا ہے اس کا سایہ انسانی وجود کے تمام پہلوئوں پر محیط ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحی جو قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے ، ازلی و ابدی، قطعی اور آفاقی ہے۔ یہ ایک ایسا نظم اور ڈھانچا فراہم کرتی ہے جس کے اندر زبردست قوت موجود ہے۔ یہ نظم اتنا وسیع و ہمہ گیر ہے کہ ہر زمانے کے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ دین اسلام، انسانی نقطۂ نظر کو انتہائی وسعت بخشتا  اور ایک تصور عطا کرتا ہے۔ ہمہ جہتی اقدار فراہم کرتا اور مختلف مقامات پر اور مختلف اوقات میں تفصیلات طے کرنے کے مواقع تفویض کرتا ہے۔ اسلام کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور آنے والی ابدی زندگی میں کامیابی کی تمنا ہے۔

دین اور معاشرہ (سوسائٹی) اور دین اور ریاست اسی طرح باہم جزولاینفک ہیں، جس طرح دین میں تقویٰ اور عبادت۔ توحید، دین کا عظیم ترین اصول ہے جس پر اسلامی زندگی کا دارومدار ہے۔ اس طرح زندگی کے ہر شعبے میں خواہ اس کا تعلق خاندان سے ہو، معاشرے سے ہو، معیشت سے ہو، سیاست سے ہو، یا بین الاقوامی تعلقات سے ہو، دین کی اصولی رہنمائی ہر شعبۂ زندگی کی رہنما اور صورت گر ہے۔ دین کی اصطلاح کا یہی جامع مفہوم ہے، جو مذہب کے محدود تصور سے یکسر مختلف ہے۔

اس بنیادی اصول کی روشنی میں اسلام کے سیاسی نظم کے کلیدی عناصر یہ ہیں:

۱- اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ خالق، مالک، پالنے والا (رب)، قانون دینے والا اور رہنما ہے۔ انسان اس کی مخلوق، اس کا عبد اور خلیفہ ہے۔ زمین پر انسان کا مشن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے، شریعت پرمبنی نظام قائم کرنا ہے جو انسان کی رہنمائی کے لیے بذریعہ وحی نازل کی گئی ہے، تاکہ انسان، اس کائنات میں اور اپنے خالق و مالک کی رہنمائی میں حسن و خوبی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ ایساکرنے سے اس کو دنیا میں امن، انصاف، روحانی مسرت اور ترقی حاصل ہو گی اور آنے والی دنیا (آخرت) میں صحیح معنوں میں نجات ملے گی۔

۲- اللہ کے ہاںتمام انسان برابر ہیں اور اسی قانون کے تابع ہیں جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اسلامی نظام سیاست کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ اور شریعت کی بالادستی پر ہے۔ اس نظام کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس سے وفاداری اور اس عزم و عہد سے عبارت ہے کہ شریعت کی پیروی کی جائے گی اور اس کو نافذ کیا جائے گا۔ قرآن حکیم کا اس بارے میں فرمان نہایت واضح اورغیر مبہم ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے (الاعراف ۷: ۵۴)

فرماںروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے۔ (یوسف ۱۲:  ۴۰)

اے نبیؐ، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔(النسائ۴: ۱۰۵)

جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں… اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں اور وہی فاسق ہیں۔(المائدہ  ۵:۴۴-۴۵)

۳- انسان کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کا ہے۔ یہ منصب ان سب لوگوں کو بخشا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا رب اور حاکم اعلیٰ تسلیم کرتے ہیں۔ ’خلافت‘ کا تصور عام نیابت کا تصور ہے اور اس میں سبھی مسلمان شامل ہیں، یعنی ہر مسلمان خدا کا نائب ہے۔ نیابت کا یہ بھی مطلب اور مقصد ہے کہ عوام کو محدود اتھارٹی تفویض کی گئی ہے تاکہ کاروبارِ حیات کو چلا سکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ نیابت کسی مخصوص فرد کو تفویض نہیں کی جاتی اور نہ کسی خاندان، قبیلے یا گروہ کو اس کا سزاوار قرار دیا جاتا ہے، بلکہ یہ نیابت ہر مسلمان مرد و زن کو تفویض کی گئی ہے۔ چنانچہ انھی لوگوں (مسلمانوں )کویہ اختیار شوریٰ کے اسلامی اصول کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی آخری الہامی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔(النور۲۴:۵۵)

قرآن حکیم کے اسی حکم اور دوسرے احکامات کے مدّنظر ریاست کا جو نظریہ اُبھر کر سامنے آتا ہے، اس کے مطابق قرآن حکیم نے دو بنیادی اصول پیش کیے ہیں۔ پہلا اصول اللہ تعالیٰ کا اقتدار مطلق اور دوسرا مسلمانوں کی عوامی ’نیابت‘ (خلافت) ہے۔ چنانچہ اسلامی سیاسی نظام کی بنیاد اولاً: اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق تسلیم کرنے اور اس کے قانون، شریعت کو بالاترین قانون تسلیم کرنے، اور ثانیاً: معاشرے پر حکومت عوام کی مرضی کے مطابق کرنے پر استوار ہے۔ جو لوگ برسرِاقتدار ہوں انھیں اُمّہ کی اور مسلمانوں کی حمایت اور تائید حاصل ہونی چاہیے کہ جو خلافت کے اصل امین ہیں۔ درج بالا قرآنی آیت سے ظاہر ہے کہ زمین پر حکومت کا وعدہ مسلمانوں کی پوری جماعت (اُمّہ) سے کیا گیا ہے،کسی خاص فرد، طبقے ، خاندان یا گروہ سے نہیں۔مسلمانوں کو جو خلافت بخشی گئی ہے، وہ عمومی نیابت کی طرح ہی ہے اور اسی کے تحت ہر مسلمان کو اور سب کو یہ فرض سونپا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمّہ کے لیے فیصلے کرنے کے طریق کو ’شوریٰ‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی مسلمانوں کے معاملات باہمی مشاورت سے چلائے جائیں گے۔ (امرھم شوریٰ بینھم) معاشرے کے ارکان کے طور پر تمام مسلمان برابر ہیں۔ ان کے معزز ہونے اور قیادت پر سرفراز ہونے کی کسوٹی ان کی اعتماد، تقویٰ اور اہلیت کی خوبیاں، یعنی اللہ پر مکمل ایمان، فرض شناسی اور احتساب کا شعور ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ (الحجرات ۴۹: ۱۳)

اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم میں سے ہر ایک گلہ بان کی طرح ہے اور ہر شخص سے اس کی زیرنگرانی لوگوں کے بارے میں احتساب ہوگا۔

ذات پات ، رنگ و نسل اور قبائلی امتیازات ختم کر دیے گئے ہیں اور انسانوں کے درمیان حقیقی مساوات قائم کر دی گئی ہے (ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ہے)۔

قرآنحکیم کے مطابق فضیلت کا انحصار تو پاک بازی اور نیکی پر ہے، جس میں علم، جسم (عمدہ صحت بدنی قوت) اور تقویٰ (خوفِ خدا اور پاک بازی)شامل ہیں۔

۴- اسلامی سیاسی نظام میں حقوق اور فرائض کے حوالے سے اطاعت کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ اول: اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرماں برداری اور دوم: عوام کا آزادیِ تقریر، بحث و مباحثہ، اختلافِ راے اور شرکت کا حق جس میں کسی امر میں اختلاف راے اور صاحبانِ اقتدار پر نقد و جرح کا حق شامل ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو ، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ (النساء ۴: ۵۹)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: بہترین جہا د جابر حکمران کے سامنے  کلمۂ حق کہنا ہے۔ نبی کریمؐ نے مزید فرمایا: اگر تم میں سے کوئی کسی برائی کو دیکھتا ہے تو ہاتھ سے اسے درست کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکتا ہو تو اسے زبان سے بُرا کہے اور اگر وہ ایسا بھی نہ کر سکے تو  وہ دل میں اس کی مذمت کرے۔ مگر آخری عمل ایمان کی کمزور ترین صورت ہے۔ (مسلم)

ان رہنما خطوط سے اسلامی نظام سیاست کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ بالکل واضح ہے۔ مسلمانوں کے معاشرے کی بنیاد اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان سے عبارت ہے۔ اس کا سب سے بڑا ستون اللہ اور اس کے رسول پاکؐ سے وفاداری ہے۔ مسلم معاشرے میں فیصلے ان اقدار، اصولوں اور احکامِ الٰہی کے تحت ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اورشریعت کی صورت میں موجود ہیں۔ اس نظام میں کسی مراعات یافتہ طبقے یا پاپائیت کے لیے کوئی گنجایش نہیں۔ دنیاوی طاقت و اقتدار میں معاشرے کے تمام افراد شریک ہوتے ہیں، جو قانون کی نظر میں بالکل برابر ہوتے ہیں۔ ان سب کے حقوق اور ذمہ داریاں بھی مساوی ہیں۔ ہر فرد کے ذاتی، شہری، سیاسی، سماجی، ثقافتی  اور اقتصادی حقوق کی الوہی قوانین کے تحت ضمانت دی جاتی ہے۔ حکمرانوں کو کوئی یک طرفہ استحقاق و اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ قانون کے سامنے سب یکساں ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ درحقیقت حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ان تمام حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیں، خصوصاً معاشرے کے کمزور افراد کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔ شریعت میں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور کسی کو ان حقوق سے صرفِ نظر کرنے یا انھیں نظرانداز کرنے کاہرگز کوئی اختیار نہیں ہے۔ آزادی اور مساوات اسلامی معاشرے کی روح رواں ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اس کا زندگی بھر کا مشن ہیں۔ شوریٰ (مشاورت اور فیصلوں میں شرکت) اس معاشرے کا طرزِ عمل ہے، فیصلے کرنے کا عمل ہر سطح پر اور ہر معاملے میں جاری و ساری رہتا ہے، خواہ یہ فیصلے سماجی ہوں یا اقتصادی، سیاسی ہوں یاکسی بھی دوسرے امور کے بارے میں ہوں۔ حکمرانوں کو عوام کا اعتماد حاصل ہونا ضروری ہے اور وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی اقتدار و اختیار کی بنیاد شریعت کی بالادستی، عوام کی مرضی اور عوامی اعتماد پر ہے۔ حاکم صرف خدا کے سامنے ہی جواب دہ نہیں، بلکہ وہ قانون اور عوام کے سامنے بھی جواب دہ اور قابل احتساب ہے۔ کسی بھی نوع کے سیاسی انتظامات ممکن ہیں لیکن یہ شریعت کی قائم کردہ اقدار اور اصولوں کے اندر ہی ہوں گے۔ چونکہ اسلام کی رہنمائی مکمل، قطعی، آفاقی، عالم گیر اور الوہی ہے، چنانچہ اُمّہ کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے معاشروں کی معاشرتی و تاریخی ضروریات کے مطابق مختلف ادارے اور نظام (مشینری) قائم کریں اور انھیں ترقی دیں۔ اسلام نے سیاسی نظام کا جو ڈھانچا فراہم کیا ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے مختلف النوع انتظامات بالکل ممکن ہیں۔ بعض ایسے انتظامات کا ماضی میں تجربہ کیا جا چکا ہے۔ آج یا کل، نئے انتظامات اور نئے تجربات روبہ عمل لانا ممکن ہے کہ یہی اسلام کی خوبی اور آزادیِ عمل کی امتیازی شان ہے۔ مسلمانوں کے تاریخی تجربات کے یہی وہ روشن پہلو ہیں، جو ۱۴ صدیوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں کے تجربات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں بندے اور خداکے درمیان مضبوط روحانی رشتے کا قابلِ تقلید نمونہ پیش کیا ،بلکہ انھوں نے ایک ایسامعاشرہ، اور ایک ایسی ریاست بھی قائم کی، جو مسلمانوں کے سیاسی و تاریخی تجربات کے لیے ایک مثال اور نمونہ بنی رہی۔ بیعت عقبہ ثانی اور میثاق مدینہ نے وہ مضبوط بنیادیں فراہم کیں جن پر مدینہ کا معاشرہ اور ریاست کی تعمیر ہوئی۔ اُمّہ کی نظر میں، اسلامی سیاسی ماڈل حضور نبی کریمؐ اور ان کے بعدچاروں خلفاے راشدین  کے ادوار میں بھی پیش کیا گیا۔ اس سیاسی نمونے کے بعض نمایاں پہلو یہ ہیں:

۱- قانون کی حکمرانی اور قانون کے سامنے مساوات ، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔

۲- قرآن و سنت کی بالادستی اور جو معاملات ان دونوں مآخذ کی ذیل میں نہ آتے ہوں، ان کے بارے میںاجتہاد کرنا (نئے قانونی نکات اور مسائل کے حل کے لیے شریعت کے عمومی اصولوں کی روشنی میں فیصلہ کرنے کا نام اجتہادہے)۔

مسلم قوانین کا مجموعہ’فقہ‘ ایک عوامی، جمہوری اور شعوری عمل کے تحت تشکیل پایا ہوا ہے، جس کے دوران علما اور متعلقہ اصحاب نے علمی بحث و مباحثہ، عملی مسائل و مشکلات کے ادراک اور تجزیہ اور باہم افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا۔ انفرادی فتووں اور قاضیوں کے فیصلوں کے ساتھ اجتماعی بحث ونظر کے ذریعے فقہ کا یہ سنہری اثاثہ وجود میں آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اسلامی قانون، مسلمانوں کا شاید سب سے بڑا تحفہ ہے۔   اُمت مسلمہ نے اس طرح جو قانون سازی کی، اسے رضاکارانہ طور پر تسلیم کرنے اور اس کا احترام کرنے ہی سے قانون کے مختلف مکاتبِ فکر وجود میں آئے۔ یہ تاریخ کا ایک عظیم اور منفرد پہلو ہے کہ مسلم معاشرے میں رواج اور نفاذ پانے والا قانون کبھی بھی حکمران کی مرضی سے نہیں بنایا گیا، جیسا کہ دوسرے معاصر غیر مسلم معاشروں اور ثقافتوں کا دستور رہا ہے۔ اسلام کا پورا نظام قانون، سیاسی قوت و اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر ہی ارتقا پذیر ہوا۔ اہلِ علم و تقویٰ کے بنائے ہوئے اس قانون کے نفاذ کے بعد حکمران بھی ایک عام آدمی کی طرح اس قانون کے پابند بن گئے۔ حکمرانوں کے جابرانہ اختیارات پر اسلامی قانون ایک زبردست تحدید ثابت ہوا، اور اسی کی بنا پر مسلمان معاشروں میں ایسی سیاست روبہ عمل آئی، جس میں سب لوگ واقعی شریک تھے۔

جان ایل ایسپوزیٹو اور جان وول نے اپنی (مشترکہ) تصنیف اسلام اور جمہوریت میں لکھا ہے: ’’مشرق میں مطلق العنانی کا جو تصور عرصہ دراز سے موجود ہے، اس میں طاقت اور اقتدار کی تقسیم یا حکمران کے اختیارات پر قدغن کا کوئی تصور نہیں۔ لیکن قدیم مسلم معاشروں میں اس نوع کے غیر محدود اختیارات کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ یہ صورت احوال سیاسی ڈھانچے کے بارے میں اسلامی قانون اور حقیقی تاریخی تجربات دونوں میں پوری طرح موجود ہے۔ اسلامی معاشرے میں کسی خلیفہ یا حکمران کے احکام یا قواعد سے نہیں، بلکہ مسلم علما کے درمیان اتفاقِ راے سے قوانین مرتب کیے جاتے تھے۔ کوئی حکمران، قانون سے بالاتر تصور نہیں کیا جاتا تھا اور تمام حکمرانوں کا احتساب بھی قانون کے مطابق کیا جاتا تھا‘‘۔ ۱۶

۳- ہرسطح پر سیاسی قیادت کے اسلامی قانون کے ارتقا اور نفاذ کے اس منفرد پہلو کا ذکر اور مختلف فیصلوں کے لیے شورائی نظام سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ پہلے چاروں خلفاے راشدین کا انتخاب (مسلمانوں کی) جمعیت ہی نے کیا تھا، اگرچہ انتخاب کا طریق کار اور پھر اس کی توثیق کا طریقہ مختلف تھا۔ اس انتخاب میں مشترکہ اصول عوام کی منظوری اور ان کا اظہارِ اعتماد ہی تھا اور   خلفا عوام کے سامنے جواب دہ تھے۔ جب عوام کے مشورے اور معاونت سے انتخاب کا طریقہ ترک کردیا گیا اور خاندانی حکومت کا طریقہ در آیا تو بھی بیعت (عوام کی طرف سے حکمران کی قبولیت)کا تصور موجود رہا۔ نصیحت، شوریٰ ، اختلافِ راے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور احتساب کے ادارے ہر دور میں، مختلف النوع طریقوں سے اہم کردار ادا کرتے رہے۔

۴- انسانی حقوق اور عوام سے کیے گئے وعدوں، خصوصاً اقلیتوں، ہمسایہ ممالک اور دوست جماعتوں، قبائل وغیرہ کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ یہ عمل مسلم سیاست کا مستقل عنوان رہا۔

۵- مسلمانوں کے حکومتی تجربے میں انتظامیہ سے عدلیہ کی علیحدگی، اور ہر سطح پر عدلیہ کی مکمل آزادی ایک نمایاں پہلو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کی حکمرانی اور ایوانِ عدل تک ہر شخص کی آسانی کے ساتھ رسائی مسلم معاشروں کا جزو لاینفک رہی ہے۔ اسی وجہ سے ، بڑی حد تک، مسلم مملکتوں میں من مانی حکمرانی کے مظالم سے لوگ محفوظ رہے۔ اقتدار اور اختیارات کی علیحدگی کا اصول جو خلفاے راشدینؓ کے ادوار میں شروع ہوگیا تھا۔ بعد کے ادوار میں بھی قائم رہا اور اس نظام میں بعض خرابیاں دَر آنے کے باوجود قائم رہا۔ آئین، یعنی اسلامی شریعت کی بالادستی مسلمانوں کی حکمرانی کا ناگزیر حصہ رہی۔

پروفیسر ایسپوزیٹو اور پروفیسر وول نے اس کے ایک اہم پہلو کا سلطنت عثمانیہ کے  حوالے سے ذکر کیا ہے۔ شاہی نظام سے منسلک علما کا یہ حق تسلیم شدہ تھا کہ وہ سلطان کے کسی بھی ایسے حکم کو کالعدم قرار دے سکتے تھے جسے وہ اسلامی قانون کے مطابق درست تصور نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ اس اختیار کا استعمال، سیاسی وجوہ کی بنا پر ، عام نہیں تھا۔ سلطنت میں علما کے نظام کا سربراہ،  شیخ الاسلام، اسلا م کے بنیادی قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میںسلطان کی معزولی کا حکم جاری کرسکتا تھا۔ اگرچہ یہ اختیار کم کم ہی استعمال کیا گیا، تاہم سلطان ابراہیم (۱۶۴۸ئ) سلطان محمود چہارم (۱۶۸۷ئ) سلطان احمد ثالث (۱۷۳۰ئ) اور سلطان سلیم ثالث (۱۸۰۷ئ) کو ان کے ادوار کے شیخ الاسلام نے معزول کیا تھا۔ ان رسمی کارروائیوں سے حکمران کے اختیارات کی تحدید اور یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ علما ہی اسلامی آئین کے نمایندہ تھے ۔ اس سے اسلامی ورثے میں اختیارات کی مکمل اور موثر علیحدگی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔۱۷

۶- مسلم تجربے کا ایک اہم پہلو سماجی تحفظ سے تعلق رکھتا ہے ۔جس کی بنیاد زکوٰۃ ، صدقات، وقف، انفاق، وصیت، وراثت کے تحت ترکہ چھوڑنا اور ہبہ ہے۔ اس سے مسلم معاشرے میں انسانی مساوات پر مبنی سماجی و اقتصادی نظام روبہ عمل آیا ۔جس کے باعث معاشرے کے تمام افراد کے لیے باعزت زندگی گزارنے کی سبیل پیدا ہو گئی۔ معاشرے کا اقتصادی نظام ایسا تھا کہ مستضعفین اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے اور سیاسی و اقتصادی عمل میں حصہ لینے لگے۔

۷- مسلم تجربے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر اختلاف اور مخالفت کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس عمل کو کوئی اجنبی چیز تصور نہیں کیا گیا۔ ہاں، اختلاف اور فتنے میں فرق ضرور روا رکھا گیا۔ یہ بات بے حد اہم ہے کہ اسلامی قانون کے بعض اہم مکاتب فکر میں، بعض مخصوص صورتوں یا مواقع پر، پہلے سے معروف شرائط کے تحت، اختلاف بلکہ مسلح بغاوت (خروج) تک کو بھی جواز بخشا گیا ہے۔ پروفیسر ایسپوزیٹو اور پروفیسر وول تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن و سنت کی حتمی اور مطلق اتھارٹی کے باعث پوری اسلامی تاریخ میں موجود حالات پر نقد و جرح کی بنیاد فراہم ہوئی۔ اسلامی بنیاد پر مخالفت کی تحریکوں، اصلاحات اور تجدید کے عمل کو اسی بنیاد پر جواز اور وجوب ملا۔ دورِحاضر میں یہی خوبیاں آئین و دستوریت کی بنیاد بن سکتی ہیں جوریاست کی تعریف اور حزب اختلاف کو تسلیم کیے جانے کا جواز پیش کرتی ہیں۔۱۸

یہ سات اصول اسلامی حکمرانی کی بے مثال روایات کا مظہر ہیں اور اس بات کی طرف بلیغ اشارہ کرتے ہیں کہ اسلام کے تحت جمہوری حکمرانی کا ایک جداگانہ اور عمدہ نمونہ وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ رہنما اصول عصرِحاضر کی دنیا میں اسلامی جمہوری ماڈل وجود میں لانے کے لیے تحرک اور رہنمائی کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔(جاری)


حواشی

۱-  فرانسس یوکوہاما ، The End of History and the Last Man ،(نیویارک، ۱۹۹۳ئ)

۲- سیموئل پی ہن ٹنگٹن The Clash of Civilizations? ،جریدہ فارن افیرز، ج ۷۲، شمارہ ۳ (موسم گرما ، ۱۹۹۳ئ،ص ۲۲-۴۹)۔ اسی طرح ’تہذیبوں کے تصادم‘ پر مباحثے کے لیے دیکھیے: جریدہ فارن افیرز، ج ۷۲، شمارہ ۴ اور ۵۔ ہن ٹنگٹن  کی کتاب The Clash of Civilization and the Remaking of World Order   (نیویارک، ۱۹۹۶ئ)

۳- ڈبلیو بی گیلی Philosophy and the Historical Understanding (لندن، ۱۹۶۴ئ)، ص ۱۵۸۔

۴- انسائی کلوپیڈیا آف اسلام

۵- رچرڈ جے کامقالہ ’ڈیموکریسی‘ Political Ideologies: An Introduction مرتبہ: رابرٹ اکلیشل، (لندن ، ۱۹۹۴ئ)، ص ۱۲۴۔

۶- انسائی کلوپیڈیا آف سوشل سائنسز، ج ۳، (میک ملن) ، ص ۱۱۳-۱۱۸

۷- تھامس کیروتھرز ،  Democracy without illusion مجلہ، فارن افیرز، (جنوری ۱۹۹۷ئ)، ص ۹۰۔

۸- سی بی میک فرسن ،  The Real World of Democracy (اوکسفرڈ ، ۱۹۹۶ئ)

۹- ’’آج اگر جمہوریت کے تحفظ کی بات کی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک ایسی بات کا دفاع کر رہے ہیں جسے ہم جانتے ہیں اور جو اگرچہ عشروں اور صدیوں پر محیط ایک حقیقت ہے مگر ایک خود فریبی اور دھوکا ہے۔ اصول یا ضابطے کا تعین کیا جاناچاہیے۔محض روایتی اداروں کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ اس بات کے پیش نظر کہ قوت کا منبع کہاں ہے اور کس طرح سے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں جمہوریت ایک متنازع مسئلہ (matter of degree ) ہے۔اگر جمہوریت کے کسی اعلیٰ پیمانے پر پرکھا جائے تو آج کچھ ممالک دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ جمہوری ہیں لیکن کوئی بھی مثالی جمہوری نہیں ہے‘‘۔ (ای ایچ کار،The New Society  لندن، میک ملن، ۱۹۵۱ئ،ص ۷۶)۔

۱۰- انتھونی اربلاسٹر Democracy (اوپن یونی ورسٹی، ۱۹۹۴ئ) ، ص ۹۶۔

۱۱- ایضاً، ص  ۹۶۔

۱۲- ایضاً، ص ۹۷۔

۱۳- ایضاً، ص ۹۸۔

۱۴- ایضاً، ص ۹۸۔

۱۵- ایضاً، ص ۱۰۰

۱۶- جان ایسپوزیٹو، جان وول، Islam and Democracy (نیویارک،  ۱۹۹۶ئ) اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۴۱۔

۱۷- ایضاً ، ص ۴۸-۴۹۔

۱۸- ایضاً،  ص  ۴۱۔

مغربی جمھوریت اور اسلامی شوریٰ : ایک موازنہ

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں بہتر ہوگا کہ دونوںنظاموں کے درمیان بعض بنیادی اختلاف اور فاصلوں کا تعین کر لیا جائے اور ایسے شعبوں اور مشترکہ امور کی بھی نشان دہی کر لی جائے جن میں ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

اسلام کی حکمت عملی بے مثال ہے۔ اسلام انسان کو، اس کے روحانی اور اخلاقی وجود اورشخصیت کو مرکز بناتا ہے۔ یہ ہر فرد کی ، مرد ہو یا عورت، روحانی بالیدگی، اخلاقی ترقی اور سعادت کی زندگی ہی اسلامی نظام کا اصل مقصد رہے۔ تبدیلی کا عمل فرد کے اپنے کو تبدیل کرنے سے داخلی سطح پر شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ایک فرد میں اخلاقی حس بیدار ہونے سے ہوتا ہے جو ایک باکردار اور منصفانہ معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرتا یا کرتی ہے۔ مسلم اُمّہ ایک عالم گیر برادری ہے۔ اسی وسیع تر اُمّہ میں چھوٹے گروپ، بستیاں اور ریاستیں بھی ہو سکتی ہیں، اس کے باوجود وہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں۔ اسلام ایک ایسے مہذب معاشرے کی تعمیر کرتا ہے، جو صحت مند اور فعال اداروں سے عبارت ہوتا ہے۔ ریاست انھی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ نہایت اہم اور کئی اعتبار سے دوسرے سب اداروں سے بلند تر ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اسلام میں سب سے بالا ادارہ اُمت مسلمہ کا ہے اورباقی سب ادارے ہر ہر مسلمان (فرد) کی تقویت کے ساتھ اُمت مسلمہ کے استحکام کے ستون ہیں۔

اسلامی معاشرے کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اصولوں میں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے اور یہ سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں جو نظریاتی سطح پر توحید و ایمان، اتباعِ سنت، فکری یگانگت اور عدل اور احسان کے حسین امتزاج کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ انسانی مساوات، اخوت، باہمی تعاون، سماجی ذمہ داری، انصاف اور سب کے لیے مساوی مواقع کی روایات کے خیر سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پابند معاشرہ ہوتا ہے جس میں ہررکن کے حقوق اور فرائض، جن میں اقلیتوں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں، کا احترام کیا جاتا ہے۔ ریاست کا مقصد معاشرے کے ہر رکن کی خدمت اور انسانوں کے درمیان عدل کا قیام ہے۔ اسلامی معاشرے میں آمریت، جوروجبر اور استبدادی مطلق العنان حکومت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

اسلامی ریاست سیکولر جمہوریت سے بالکل مختلف ہوتی ہے، کیونکہ اسلامی ریاست عوام کے اقتدار اعلیٰ کے نظریہ تسلیم نہیں کرتی۔ مسلم ریاست میں اللہ تعالیٰ ہی قانون ساز ہے اور شریعت ہی ریاست کا قانون ہے۔ جو بھی نئے نئے مسائل درپیش ہوں، ان سے نمٹنے کے لیے شریعت کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے حل دریافت کیے جاتے ہیں۔ یہ بات سیکولر جمہوریت اور مسلم ریاست کے درمیان سب سے بڑا اختلاف ہے۔

جہاں تک قانون کی حکمرانی کے اصول، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، عدلیہ کی آزادی، اقلیتوں کے حقوق، ریاست کی پالیسیوں اور حکمرانوں کے عوام کی خواہش کے مطابق انتخاب کا تعلق ہے، اسلام اپنے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے ان سب امور کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے بعض امور کے متعلق اسلام اور مغربی جمہوریت کے درمیان بعض مشترکہ بنیادیں موجود ہیں اور ان تمام میدانوں میں مسلمان اپنے معاصر مغربی ممالک کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی مسلمانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن دونوںنظاموں کے قوانین کے منابع اور فطرت میں چونکہ بنیادی اختلاف ہے لہٰذا ان اساسی امور میں دونوں نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور اپنا اپنا جداگانہ تشخص اور مزاج رکھتے ہیں۔

اسلامی ریاست میں شریعت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ کوئی مذہبی حکومت (تھیاکریسی) نہیں ہوتی، جیسی کہ تاریخ میں مذکور فرعونوں، بابلیوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوئوں یا بودھوں کی حکومتیں گزرچکی ہیں۔

ان مذہبی حکومتوں اور اسلامی حکومت میں بنیادی فرق ہے۔ یہ مذہبی حکومتیں اگرچہ’خدائی حکومت‘ کی دعوے دار تھیں، لیکن وہ ’خدائی حکومت‘ ایک مخصوص مذہبی طبقے کی حکومت ہوتی تھی،جس کے حکمران کا ہر لفظ قانون تھا، جسے نہ تو کوئی چیلنج کر سکتا تھا اور نہ اس کے خلاف آواز بلند کر سکتا تھا۔ مگر اسلام میں ایسا کوئی حاکم مذہبی طبقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور جواس کی مرضی ہے، وہ قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔ شریعت کا سبھی کو علم ہے۔ یہ کوئی ایسا خدائی راز نہیں ہے جس کاعلم صرف پادریوں کی طرح صرف مفتی یا مذہبی رہنما کو ہو۔ اسلام میں ایساہرگز کوئی امکان نہیں کہ لوگوں کا کوئی گروہ دوسروں پر اپنی ذاتی مرضی ٹھونس سکے یا اللہ کے نام پر دوسروں پر اپنی ترجیحات کو نافذ کر سکے۔ اسلامی نظام میں قوانین کھلے بحث و مباحث کے بعد ہی تشکیل دیے جاتے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ سب لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔

ان دونوں نظاموں کے درمیان اختلافات مختصراً یہ ہیں:

ا -  شریعت جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اوررضا کی حامل اور اس کا مظہر ہے، بالکل اصل صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ اس میں کسی نوع کی کوئی آمیزش نہیں ہوئی اور نہ بدلے ہوئے حالات میں کسی تبدیلی یا کسی کی مداخلت سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔

ب- اسلام میں مذہبی متوسلین کا کوئی طبقہ نہیں اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ترجمان ہے۔ اللہ کی رہنمائی مکمل ہو چکی، اب یہ اُمّہ کا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو سمجھیں، اس کا ادراک کریںاور انسانی معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس پر عمل پیرا ہوں۔

ج- فرد معاشرے کا بنیادی عنصر ہے۔ اسلام، فرد کی آزادی، قانون کی حکمرانی ، مخالفانہ آرا اور مخالفوں کی توقیر کی ضمانت خود دیتا ہے۔ اہل دانش اور عوام آزادی کے ساتھ اپنے مسائل پر بحث مباحثہ کر سکتے ہیں اور باہم مشاورت کے ذریعے ان کا حل نکال سکتے ہیں۔ پوری اسلامی فقہ ایک ایسے عمل کے ذریعے فروغ پذیر ہوئی ہے، جس کے دوران اُمّہ اور اس کے نمایندوں نے عام بحث مباحثہ میں حصہ لیا۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کا انسانوں کی طبیعی اور دنیاوی مشکلات و مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ انصاف اور سماجی بہبود کے اصولوں کے مطابق ان مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔

بلاشبہہ جسے زندگی کا سیکولر (دنیاوی) حصہ کہا جاتا ہے اس سے اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے لیکن اسلامی اور سیکولر رویوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا کی ساری زمین میرے لیے مسجد کی مانند ہے۔ چنانچہ اسلام کا دنیا کے تمام حصوں، علاقوں سے گہرا تعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ صحیح معنوں میں ایک عالم گیر اور آفاقی نظام ہے۔ اسلامی نظام انسانی زندگی کے تمام روحانی اور دنیاوی معاملات پر محیط ہے۔ اس حد تک اسلام کاسیکولرزم سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ مغرب میں سیکولرزم کے غلبے کی وجہ مذہب کا سیکولر معاملات سے لاتعلق ہوجانا اور دنیاوی زندگی کو شیطانی قوتوں کے حوالے کر دینا تھا۔ یہ پوری تحریک دراصل ان مذہبی روایات کا رَدّعمل تھی جن کی رو سے سیکولر دنیا کو نظرانداز کیا گیا اور اپنا دائرہ عمل کو صرف روحانی دنیا تک ہی محدود رکھا گیا تھا۔

اسی طرح سیکولرزم کی تحریک کو تقویت دینے والا ایک دوسرا سبب مذہبی عدم رواداری تھی جس میں جبر کے ذریعے ایک مذہب بلکہ ایک فرقے کے نظریات کو دوسرے تمام فرقوں پر مسلط کیا جاتا تھا اور ایک سے زیادہ نقطہ ہاے نظر کو کفر اور بغاوت قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسلام تکثیر (pluralism) اور رواداری کے اصول کو تسلیم کرتا ہے (قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں)۔ تمام انسانوں کو پیشہ اور مذہب کے معاملے میں انتخاب کا حق دیتا ہے۔ اسلام ثقافتی کثرت اورکسی بھی سماج کے اندازِ حیات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کے منشا کے مطابق ہے۔

سیکولرزم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے کے باعث ہے کہ سیکولرزم، مذہب سے کسی نوع کے تعلق، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے، یہ بات زندگی کے بارے میں اسلامی رویے کے بالکل برعکس ہے۔ انھی وجوہ کی بنا پر اسلام اور سیکولرازم، دو بالکل مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔

اگرچہ اب کمیونزم اور فاشزم کوئی غالب سیاسی نظریات نہیں رہے، لیکن ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ان دونوں نظریات کے مختلف پہلوئوں سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات مغربی تہذیب و تمدن کے تناظر میں بعض تاریخی اور سماجی و سیاسی حالات کی پیداوار ہیں۔ ان کی تہ میں ریاست کی مطلق العنانیت کا تصور کارفرما رہا ہے۔ مگر یہ دونوں نظریات بھی مختلف النوع آمریت کے ہی نمایندہ تھے اور ان کے تحت بھی مطلق العنان حکومت ہی قائم ہوتی رہی۔ اگرچہ ان دونوں نظاموں میں انتخابات اور پارلیمنٹ کے قیام کاڈھونگ بھی رچایا جاتا رہا۔

اسلام میں یک طرفہ یا مطلق العنان اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام میں ریاست تو اُمت کا ہی ایک ادارہ اور شعبہ ہوتا ہے۔ وہ فرد کی مرکزیت، اس کے حقوق اور سیاسی فیصلوں میں فرد کے کردار کی توثیق کرتا ہے۔ اسلامی ریاست، قانون کی تخلیق ہوتی ہے۔حکمران، ریاست کے دوسرے شہریوں کی طرح ہی قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ریاست اپنے عمال اور کارپردازوں کو وہ خصوصی مراعات اور تحفظات بھی فراہم نہیں کرتی جو کئی مغربی ملکوں کے عمال کو عام طور پر حاصل ہوتی ہیں۔

اسلام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ مقدس امانت ہیں۔ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی اور ایک پاک باز مخلوق تصور کیا جاتا ہے، جو اپنے اعمال کے لیے آخرکار اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ ہر انسان ایک قابل احترام وجود ہے اور اخلاقی طور پر اپنے تمام اعمال اور پسند و ناپسند کے لیے دنیا اور آخرت میں بھی جواب دہ ہے۔ فرد کو معاشرے میں عقل و دانش اور سماجی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنا رویہ متعین کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ ریاست کی مشین کا کوئی بے جان پرزہ نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے اسلام کے سیاسی نظم اور ہمارے دور کے مطلق العنان اور آمرانہ نظاموں کے درمیان بے حد فرق ہے۔

اسی تقابلی تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام ، دوسرے سیاسی نظریات کی بعض باتوں میں مماثلت اور مشابہت کے باوجود، بے مثال ہے۔ اسلام، اساسی اعتبار سے ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں رہتے ہوئے ایک اچھے اور نیک انسان کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ تو کسی اجڈ معاشرے میں پھنس گیا ہے یا انسانوں کو یہ احساس نہ ستائے کہ وہ تو جانوروں کے کسی باڑے میں دھکیل کر بند کر دیے گئے ہیں۔ اسلام تمام انسانوں کی ذہنی اور مادی نشوونما، ساتھ ساتھ، چاہتا ہے تاکہ انسان امن اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ زندگی کی اعلیٰ اقدار و نظریات کی پرورش کر سکیں، جن کے نتیجے میں وہ اس دنیا اور پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور الوہی سعادت کے حق دار ٹھہرسکیں۔ اسلامی ریاست ایک نظریاتی، تعلیمی اور مشاورتی بنیادوں پر مبنی ریاست ہوتی ہے جو ایک ایسا سماجی و سیاسی ڈھانچہ فراہم کرتی ہے جس میں حقیقی جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔ اس میں ایک طرف مستقل اقدار کا دائمی فریم ورک ہے جس میں پوری سیاسی اور اجتماعی زندگی مرتب ہوئی ہے تو دوسری طرف اجتہاد کے ذریعے وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کابھرپور سامان ہے۔

مجھے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ میں اس نظریے پر مکمل طور پر عمل کرسکے ہیں۔ بلاشبہہ خلافت راشدہ اس کا عملی نمونہ اور ایک مکمل paradigm کا مظہر تھا مگر بعد کے ادوار میں اصل ماڈل سے انحراف اور انحراف کے بعد اصل کی طرف مراجعت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا ہے۔ البتہ اصل ماڈل ہی تمنائوں کا محورو مرکز رہا ہے اور آج بھی اسی آورش کی روشنی میں تعمیرنو کی جدوجہد مطلوب ہے۔

احیاے اسلام اور جمھوریت

معاصر مسلم دنیا کو، تاریخ میں پہلی بار، ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار اور بالادستی حاصل نہیں رہی اور پوری مسلم دنیا نوآبادیاتی حکمرانوں کے پائوں تلے دبے ہوئی ہے۔ نوآبادیاتی اور سامراجی غلبے کی اس طویل، اندھیری رات کے دوران، جو تقریباًدو صدیوں پر محیط ہے، مسلمانوں کو ذہنی، اخلاقی، معاشی اور ثقافتی طور پر بھی سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس طویل ابتلا کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ وہ اسلامی ادارے بتدریج ٹوٹ پھوٹ اور انحطاط کا شکار ہو گئے، جن کے باعث مسلم دنیا تقریباً ۱۲ صدیوں تک اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور اندرونی و بیرونی چیلنجوں کاکامیابی سے مقابلہ کرتی رہی۔ سامراجی حکومتوں کے ادوار میں ہی مغرب سے درآمدشدہ کئی ادارے اسلامی مملکتوں میں رائج کیے گئے۔ اسے دوسروں کو نام نہاد تہذیب سکھانے کے مشن کاحصہ  (white man's burden) قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ سامراج کا بدترین استحصالی عمل تھا۔ چنانچہ اس استحصال کی وجہ سے قانون، عدلیہ، معیشت، تعلیم، انتظامیہ، زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر غرض معاشرے کے تمام عناصر کو زبردستی مغربیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔

نوآبادیاتی ، سامراجی نظام کے دوران مسلم معاشرے کے اندر سے ایک نئی قیادت پیدا کی گئی، جسے مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے ’بابو کلاس‘کا نام دیا ہے۔ یہ لوگوں کا ایک ایسا طبقہ تھا جس کی جڑیں اپنے مذہب، ثقافت اور تاریخ میں نہیں تھیں اور جس نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے سائے میں اپنا نیا تشخص بنانے کی کوشش کی۔ اس طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کی اقدار اور اخلاقی طرزِ عمل اپنانے کی سعی کی، بلکہ مقامی اور بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ غیر ملکی غلامی سے نجات کے لیے عوامی تحریک بنیادی طور پر، آزادی کے تصور اور ایمان کی قوت سے عبارت تھی۔ مسلم دنیا میں نیشنلزم کی قوتوں نے بھی اسلامی تشخص قائم کر لیا تھا لیکن اس  ’بابو طبقہ‘ اور اس کے زیراثر حلقوں نے مغربی اقدار کو ہی حرزِ جاں بنائے رکھا اور شعوری یا غیر شعوری طور پر سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا(۲۱)۔ آزادی کے بعد، ان ملکوں میں قیادت بڑی حد تک اسی مغرب زدہ قیادت کے ہاتھ میں آئی یا لائی گئی جن کی سیاسی تربیت بھی سامراجی دور میں ہوئی تھی۔ اس قیادت کا تعلق مغرب کی ثقافت اور ان کے سیاسی عزائم سے ہی برقرار رہا۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں صرف سرحدوں کا تعین ہی غیر ملکی سامراجی آقائوں نے نہیں کیا تھابلکہ نئے ادارے اور نئی قیادت بھی سامراجی دور کی ہی پیداوار تھی۔عالم اسلام میں اس وقت جو بحران اور بے اطمینانی محسوس کی جا رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی صورت احوال ہے۔

احیاے اسلام اور سیاسی عمل میں عوامی شرکت اور ان کے ذریعے تبدیلی کا عمل جو جمہوریت کی روح ہے ایک ہی صورت حال کے دو پہلو ہیں۔ اقتدار میں موثر عوامی شرکت اور اسلامی تصورات کے مطابق معاشرہ، نیز مسلم سیاست کی تشکیل نو بھی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ یہ کام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان باہمی اعتماد، ہم آہنگی اور تعاون موجود ہو۔ لیکن جن حکمرانوں نے سامراجی آقائوں سے ہی اقتدار کی وراثت پائی ہے ان کی اور عوام کی نظریاتی،اخلاقی اور سیاسی سوچ ایک جیسی نہیں ہے۔ حکمران معاشرے اور اس کے اداروں کو مغربی اقدار و نظریات اور مغرب کے نظریاتی نمونوں، سیکولرزم ، قوم پرستی، سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظم کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ’زیرتسلط‘ ملکوں میں ایسے قوانین، ادارے اور پالیسیاں روبہ عمل لانا چاہتے ہیں جو مغربی نمونوں سے اخذ کی گئی ہیں مگر عوام یہ سب کچھ اپنے ایمان (معتقدات) اقدار اور امنگوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حصولِ آزادی کے باوجود حکومتی نظام بعض استثنائوں کے ساتھ جابرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی رہا۔

تاریخ کا سبق تو بڑا ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ: مسلمان ممالک کو سیکولر مملکت بنانا اور مغربی رنگ میں رنگنا، یک طرفہ اور جابرانہ قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اقتدار میں عوام کی شرکت اور حصے پر مبنی حقیقی جمہوری نظام اور اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں۔ اس کے برعکس عوام کی آزادی، بنیادی حقوق، اقتدار میں عوام کی شرکت پر مبنی جمہوریت اور اسلامی نظام فطری حلیف ہیں۔ اصل تصادم تو عوام کی اسلامی امنگوں اور حکمران طبقے کے سیکولر مغربی نظریات اور پالیسیوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر جابرانہ اور استبدادی قوت کے بغیر غیر اسلامی نظریات و تصورات اور قوانین مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ اصل تضاد ان دونوں (اسلامی اور مغربی) تصورات میں ہے اور حقیقی جمہوریت مغربی سیکولر بلڈوزر کا پہلا شکار ہے۔ امریکا کے ایک ماہر عمرانیات فلمر ایس سی نارتھ روپ (F.C. Northrop) نے گہرے شعور کے ساتھ کہا ہے: ’’مجھے یقین ہے کہ یہی وجہ ہے جو اس قسم کے (مثلاً سیکولر) قوانین عام طور پر پہلے آمر حکمران ہی نافذ کرتا ہے۔ ایسے قوانین کسی عوامی تحریک کا نتیجہ تو ہو نہیں سکتے کیونکہ عوام تو پرانی روایات کے حامل ہوتے ہیں‘‘(۲۲)۔

پروفیسر ویلفرڈ کینٹ ول اسمتھ نے پاکستان کی صورت حال کے حوالے سے نہایت دل چسپ بات کہی ہے: ’’ایک مشرقی ملک کی حیثیت میں کوئی مملکت جب صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بن جاتی ہے تو وہ اپنی فطرت کا اظہار کرتی ہے، چنانچہ وہ جتنی جمہوری ہو گی، اتنی ہی مغربی رنگ سے دُور ہوتی چلی جائے گی… یہاں تک کہ اگر پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک ہو، محض دکھاوے کا نہیں، جس حد تک وہ جمہوری ہو گا اسی حد تک اسلامی بھی ہوگا، مغربی نہیں‘‘(۲۳)۔

کینٹ ول اسمتھ نے تو بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے بغیر جمہوریت محض ایک بے معنی نعرہ ہے جو کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ یوں جمہوریت اپنے اسلامی ہونے کے حوالے سے ان (یعنی مسلم اُمہ) کی اسلامی ریاست کی تعریف کا حصہ بن جاتی ہے(۲۴)۔

ایسپوزیٹو اوروال بھی معاصر مسلم ریاستوں کے حوالے سے اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں میں دونوں رجحانات، یعنی احیاے اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور یہ ان ریاستوں کے کردار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ معاصر مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بہت سے مسلم (اسکالر) اسلامی جمہوریت کو کھول کر بیان کرنے میں سرگرمی سے مصروف ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ عالمی سطح پر مذہبی احیا اور جمہوری عمل، مسلم ریاستوں کے تناظر میں، ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں۔(۲۵)

حال ہی میں دواسکالروں ڈیل ایکل مین اور جیمز پسکا ٹوری نے ’مسلم سیاست‘ کے حوالے سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جمہوریت کے بارے میں جو خیالات پائے جاتے ہیںاور جو ان کی اپنی اقدار اور امنگوں کے مطابق ہیں، ان پر نئے زاویوں سے غور کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں، اسلامی ریاستوں پر مغربی طرز کی جمہوریت کا پیوند لگانے کے خلاف جو نفرت پائی جاتی ہے ، اسے بھی پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ان دونوں اسکالروں نے اپنی بات اس طرح ختم کی ہے:

مسلم سیاست کے خصوصی تناظر میں طے شدہ مثالوں پر زور نہ دینے اور ان چیلنجوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جو مستقبل قریب میں پالیسی سازوں کو درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ صرف مغرب زدہ اشرافیہ کی بات نہ سنی جائے بلکہ بہت سی دیگر مسلم آوازوں پر بھی توجہ دی جائے۔ اس جانب پہلا قدم، یہ معلوم کرنا ہے کہ مسلمانوں میں سندجواز اور عدل کے تہذیبی تصورات کیا ہیں؟ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی یا غیر مذہبی منصفانہ حکومت کا تصوربھی متعین نہیں  ہے۔ مسلمانوں کے ان تصورات کی تفہیم بعض لوگوں کے اس ناروا تاثر کو دُور کرنے میں ممد ثابت ہو گی کہ دوسری اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اکثر معاندانہ ہی ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا طرزِ حکومت لازماً جابرانہ اور آمرانہ ہوتا ہے(۲۶)۔

اسلام اور مسلم اُمہ نے آمرانہ اور جابرانہ حکومت کو کبھی پسند کی نظر سے نہیں دیکھا۔ جہاں کہیں مسلمانوں میں آمرانہ یا استبدادانہ حکومتیں ہیں، وہ نوآبادیاتی سامراج اور مغرب زدگی کا نتیجہ ہیں۔ ان کا مسلمانوں کے تصورات، تاریخ یا مسلمانوں کی آج کی امنگوں اور آرزوئوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان، مغرب کی سیکولر جمہوریت کو اپنے اصولوں، اقدار اور روایات سے بیگانہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی ان شان دار روایات سے ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں جس کا تعلق اقتدار میں عوام کی شرکت جس کے نتیجے میں انصاف کی حکمرانی، ہر سطح پر مشاورت کا عمل، فرد کے حقوق اور اختلاف کے حق کی ضمانت سے ہے ۔ وہ اس کو اشد ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور سیاسی ثقافت میں تکثیر کا تسلسل یقینی ہو، ان کے بارے میں ان کے اپنے تصورات اور تاریخی روایت ہے۔ چنانچہ اسلام اور جمہوریت کی اس حقیقی روح میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں۔ بعض مسلم ممالک میں جو آمرانہ اور جابرانہ حکومتیں نظر آ رہی ہیں،وہ ان غیر ملکی اور اوپر سے بذریعہ طاقت ٹھونسی گئی روایات کا حصہ ہیں، جن کے خلاف جدوجہد میں احیاے اسلام کی قوتیں مصروف ہیں۔ اسلام اور حقیقی جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ چنانچہ استبدادانہ اور جابرانہ حکومتوں کا قیام اور فروغ، ایسی حکومتیں خواہ شہری ہوں یا فوجی آمریت، منتخب شدہ ہوں یا وراثتی، یہی جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ایسی حکومتیں مغربیت اور لادینیت کا ثمرہ ہیں، اسلام کا نہیں۔ اسی طرح عوامی جمہوریت سے انکار اور اسے دبا کر رکھنے کا عمل اسلام کا نہیں، لادینیت اور مغرب زدگی کا ایجنڈا ہے۔ اسلامی احکام اور عوام کی مرضی، خواہشات اور امنگیں تو ایک ہی ہیں۔ جمہوری عمل یقینا نفاذ اسلام میںناگزیر پیش رفت ہے۔ اسلامی امنگوں کی تکمیل جمہوری عمل کو آگے بڑھنے سے ہی ممکن ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد کے عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں آمرانہ نظام، سیکولرزم یاسوشلزم ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں، جب کہ احیاے اسلام، آزادی جمہور اور اقتدار میں عوام کی شرکت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کے باوصف مسلم اُمہ آج بھی اپنے جمہوری حقوق، اپنی سیاست کو اپنے انداز میں آزادانہ طور پر ترقی دینے، اپنے تصورات، امنگوں اور نظریات کی روشنی میں اپنے عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے مصروف ِ جہد ہے۔ مسلم اُمہ ایسے احکام، نظریاتی جبر اور ایسے جمہوری نمونوں کے تحت زندگی گزارنے سے انکاری ہے جو اس کے دین سے متصادم ہوں، اس کی اقدار کے منافی ہوں۔ اس کی تاریخ سے لگا نہ کھاتے ہوں، اور اس کی روایات کے علی الرغم ہوں۔ اگر جمہوریت کا مطلب کسی قوم کا حق خود ارادیت اور اپنے بل پر تکمیل خودی ہے، تو یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اسلام اور مسلمان روزِ اوّل سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ تو اس سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں اور نہ اس سے کم پر راضی ہوںگے۔


۲۱- ایچ اے آر گب، Modern Trends in Islam میں لکھتے ہیں کہ ’’نیشنلزم … اپنی مغربی توضیح میں صرف ان دانش وروں تک محدود ہے جن کا مغربی افکار سے براہِ راست یا گہرا ربط ہے۔ مگر قوم پرستی کے اس نظریے کی جب عام ذہن تک رسائی ہوئی تو اس کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہوئی اور اس تبدیلی سے قدیم جبلی محرکات اور مسلم عوام کے قوت محرکہ کے دبائو کی وجہ سے بچنا ممکن بھی نہ تھا‘‘ ( Modern Trends in Islam شکاگو، شکاگو یونی ورسٹی پریس، ۱۹۴۷ئ، ص ۱۱۹)۔ ولفرڈ سی اسمتھ Islam in Modern History میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں کبھی قومیت کی سوچ نے ارتقاء نہیں پایا جس کا مفہوم وفاداری یا کسی ایسی قوم کے لیے تشویش کا پایا جانا ہو، جو اسلام کی حدود کو پامال کر رہی ہو… ماضی میں صرف اسلام نے ہی لوگوں کے اندر اس قسم کے نظم و ضبط، تحریک اور قوت پیدا کی ہے‘‘۔ (Princeton N.J ۱۹۵۷ئ، ص ۷۷)۔

۲۲-  فلمر ایس- سی نورتھروپ، Colloquium on Islamic Culture (پرنسٹن، ۱۹۵۳ئ) ، یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹۔

۲۳- ولفرڈ- سی اسمتھ، Pakistan as an Islamic State (لاہور، ۱۹۵۴ئ) ، ص ۵۰۔

۲۴- ایضاً، ص ۴۵۔

۲۵- جان ایسپوزیٹو ، جان وول، op.cit  ص ۲۱۔

یہ مضمون ہارٹ فورڈ سمینری امریکا کے مجلے The Muslim World  (جنوری تا مارچ ۲۰۰۰ئ) میں شائع ہوا جس کا ترجمہ جناب نذیر حق نے بڑی محنت اور خوب صورتی سے کیا ہے جس کے لیے مقالہ نگار ممنون ہے۔ صاحبِ مضمون نے ترجمہ پر نظرثانی کرتے ہوئے چند اضافے کیے ہیں۔