حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سائل بن کر آیا۔ آپؐ نے پوچھا کیا تمھارے گھر میں کوئی چیز بھی نہیں ،اس نے عرض کیا ،کیوں نہیں؟میرے گھر میں ایک موٹا کمبل ہے جس کے ایک حصے کو ہم بچھونا بناتے ہیںاور ایک حصے کو اوڑھتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا!جاؤ،ان دونوں چیزوں کو میرے پاس لے آو،وہ چلا گیا اور دونوں چیزوں کو لے کر حاضر ہوگیا۔ آپؐ نے دونوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور حاضرین سے پوچھا،ہے کوئی جو اِن دونوں چیزوں کو خریدے؟اس کے جواب میں ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں انھیں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔اس پر آپؐ نے پوچھا کہ کوئی ہے جو اس سے زیادہ پر خریدے ؟آپؐ نے تین مرتبہ سوال کیا۔ اس پر ایک صحابیؓ نے عرض کیا یارسولؐ اللہ ! میںانھیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔آپؐ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم اس سے لے کرسائل کو دے دیے اور فرمایا جاؤ، ایک درہم سے گھرکے لیے کھانے پینے کا سامان خریدو اور دوسرے درہم سے کلہاڑا خرید کر لے آؤ۔ وہ کلہاڑا لے کر آگیا،آپؐ نے اس میں لکڑی کا دستہ پیوست کیا اور فرمایا: جاؤ،اس سے لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور فروخت کرو۔اس کے بعد ۱۵دن تک میں تجھے نہ دیکھوں۔وہ آدمی چلا گیا اور لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرنا شروع کردیں،اس کاروبار سے اسے ۱۰ درہم مل گئے۔کچھ رقم سے کپڑے خریدے اور کچھ سے کھانے پینے کا سامان۔ پھر رسولؐ اللہ کی خد مت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے فرمایا یہ محنت اور کاروبار تیرے لیے اس ذلت سے بہتر ہے جو قیامت کے روز تمھارے چہرے پر زخم کی صورت میں نمایاں ہوگی۔
سوال صرف تین ا ٓدمیوں کے لیے درست ہے ایسے تنگ دست کے لیے کہ تنگ دستی نے اسے زمین سے لگادیاہو،ایسے مقروض کے لیے جس پر قرض کا ہولناک بوجھ ہو ،ایسے شخص کے لیے جس کے ذمے دیّت کی اتنی رقم واجب ہو جس نے اسے دکھ میں مبتلا کر دیا ہو۔(ابوداؤد،ترمذی، ابن ماجہ، نسائی)
حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ سے روایت ہے کہ ہم نو،آٹھ یاسات افراد کی تعداد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپؐنے فرمایا: تم رسولؐ ا للہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر لیتے۔ ہماری بیعت کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم توپہلے سے بیعت کر چکے ہیں۔ آپؐ نے دوبارہ فرمایا: کیا تم رسول ؐاللہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر لیتے ؟ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم بیعت کر چکے ہیں۔پھر فرمایا: کیا تم رسولؐ اللہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرلیتے، کہتے ہیں پھر ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا دیے اور عرض کیا: یارسول ؐاللہ!ہم نے آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے،اب کس چیز پر بیعت کریں؟ آپؐ نے فرمایا: ان باتوں پر کہ اللہ کی عبادت کرو گے ،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے ،پانچ نمازیں پڑھو گے،اطاعت کرو گے اورپھر ایک بات آہستہ سے فرمائی: لوگوں سے کوئی سوال نہ کرو گے۔
میں نے ان آدمیوں میں سے بعض کو دیکھا کہ اگر ان کے ہاتھ سے کوڑا گر جاتا تھا تو کسی سے اٹھا کر دینے کے لیے بھی سوال نہیں کرتے تھے،خود گھوڑے سے اتر کر اٹھاتے تھے(مسلم)
انسان عزت کی زندگی اسی صورت میں گزار سکتا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو،اپنے حصے کا کام خود کرے، اپنی گزر اوقات کے لیے دوسروں سے مانگنے کے بجاے خود محنت کرے۔اس وقت مسلمان معاشروں میں گداگری اور دوسروں کے سہارے جینے کا کلچر رواج پا گیا ہے۔ شہروں، دیہاتوں، بازاروں، مساجدکے دروازوں پر مانگنے والوں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔صحت مند اور جسمانی صلاحیتوں سے بھرپور لوگوں نے بھی گداگری کو پیشہ بنایا ہوا ہے۔حکومتیں اپنے بجٹ اور منصوبے غیر ملکی امدادکو بنیادبنا کر تیار کرتی ہیں۔اس کے عوض مدد دینے والے ملکوں کے منصوبوں اور ایجنڈے کو عملی جامہ پہناتی ہیں۔ان کی ناجائز خواہشات کو پورا کرتی ہیں۔اپنے بھائیوں کا خون بہاتی ہیںاورملکی آزادی اور خود مختاری کو داؤ پرلگا دیتی ہیں۔
آج اس امداد کی بدولت مسلمان ممالک ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں ۔استعماری طا قتوں کی طرف سے مداخلت کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔نبی کریمؐ کے ان ارشادات کی روشنی میںمسلمان اپنا انفرادی اور اجتماعی نظام تشکیل دے دیں ۔دوسروں کے سامنے دستِسوال دراز کرناچھوڑدیں،امداد کے نام سے دیے جانے والے غیر ملکی سودی قرضوں کا انکار کر دیں،ان کی غلامی ترک کردیں توکھوئی ہوئی عزت دوبارہ بحال ہو سکتی ہے۔
o
حضرت انسؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک کھجور کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ کھجور کا یہ دانہ صدقے والی کھجوروں میں سے ہے،تو میں اسے کھا لیتا۔(متفق علیہ)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گھر تشریف لائے، آپؐ نے دیکھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا ہے، آپؐ نے اسے اٹھایا،صاف کیاپھر کھالیا، اور فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں تمھاری پڑوسی بن جائیں، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ (حسن سلوک سے پیش نہ آؤ گے تو بھاگ جائیں گی)اور جس قوم سے یہ بھاگ جاتی ہیں،ان کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آتیں۔(ابن ماجہ)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے شیطا ن تمھارے پاس ہر کام کے وقت آجاتاہے۔ یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی آجاتا ہے۔پس جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھا لے۔ اس کے ساتھ جو مٹی لگ گئی ہو اسے دور کردے، پھراسے کھا لے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ جب فارغ ہوجائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے،پتا نہیں کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔(مسلم)
آپؐ نے پیالے ،پلیٹ کو صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : تم نہیںجانتے کہ برکت کس حصے میں ہے۔ (مسلم)
آج صبح،دوپہر،شام کے معمول کے ناشتوںاورکھانوں،دعوتوں اور ضیافتوں میں رزق کی جو ناقدری، اسراف اور ضیاع ہوتا ہے،اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔نبیؐ کے سامنے کھانا آتا،آپؐ کاجی چاہتا تو کھالیتے،چاہت نہ ہوتی تو واپس کردیتے،لیکن کھانے کی کبھی برائی بیان نہ کی۔آج اگرہم اپنے گھروں، ہوٹلوں،دعوتوںاور تقریبات میں کھانے کو ضائع کرنا چھوڑ دیں،ضرورت کے مطابق کھانا پکائیں اور ضرورت کے مطابق پلیٹ میں ڈال کر کھائیں تو ہرگھراور کھانے کی ہرتقریب میں رزق کی اتنی بچت ہوجائے کہ ایک ایک گھر سے دو،دو اور تین تین آدمیوں کو کھانا دیا جاسکے،کھانا ضائع ہونے کے بجاے کسی بھوکے کے کام آجائے گا۔گھروں میں بھی احتیاط نہیں ہوتی،پلیٹوں میں کھانا بچ جاتا ہے،جسے کوئی دوسرا آدمی کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسے گٹر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ روٹیاں بھی ضرورت سے زائد ہوتی ہیں ،انھیں بھی ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے،اور تقریبات میں تو بعض اوقات سوآدمیوں کے لیے اتنا کھانا پکایا جاتا ہے جو دو سو،تین سو کے لیے کافی ہو،نتیجتاً بہت سارا کھانا بچ جاتا ہے اورضائع کر دیا جاتا ہے۔ نبیؐ نے اس نامعقول عمل پر نکیر فرمائی،زمین پر کھجور کے ایک دانے،روٹی کے ایک معمولی ٹکڑے،پلیٹ میں بچے ہوئے تھوڑے سے سالن کو چھوڑ کر ضائع کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا،اسے نعمت کی ناقدری اور ناشکری قرار دیتے ہوئے، اس سے محرومی کاسبب قرار دیا۔
آج حکمران طبقہ دولت کا جو ضیاع کرتا ہے، ان کے محلات میںکھانے کی جس طرح اسراف و تبذیر ہوتی ہے،وہ عذابِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ایک طرف لوگوں کا حال یہ ہے کہ انھیں اتنی روٹی نہیں ملتی کہ اپنا پیٹ بھر سکیں، آٹے کے حصول کے لیے سٹوروں پر لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں، ملک میں آٹے ،بجلی،گیس کا بحران ہے اور دوسری طرف ایک ایک آدمی کے کھانے پر ہزاروںروپے خرچ ہورہے ہیں۔ سرکاری افسران،حکومتی عہدے دار، بیوروکریٹ، فوجی جرنیل، سرمایہ دار ،مل مالکان کے پیٹوں کوبھرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی اس دولت کے ضیاع کو روکنا چاہیے،تعلیم وتربیت اورقانون سازی کے ذریعے اس عمومی وباکے آگے بند باندھنا چاہیے۔جو لوگ اسلامی تعلیمات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ناآشنا ہیں،ان کو تواس کا ہوش نہیں ہے،لیکن اسلام کو سینے سے لگانے والوں کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔اپنے گھروںمیں نبی کریمؐ کی سیرت کی روشنی میں ،اپنی معیشت میں رزقِ حلال کی قدر اور اسے ضیاع سے بچانے کا ضروری اہتمام کرنا چاہیے،کہ یہ شکر گزاری کا تقاضا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پھر معاشرے اور اونچی سوسائٹی کی عیاشی،پیٹ پرستی اور شہوت پرستی کے فتنے سے امت مسلمہ کو نجات دلانے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جائے۔ اللہ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
o
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آپ کو بددعا نہ دو،اپنی اولاد کو بددعانہ دو،اپنے خادموں کوبددعا نہ دو،اپنے مال مویشی کو بددعا نہ دو،کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ وہ بددعا ایسی گھڑی میںہو جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں تو وہ بددعا قبول ہو جائے(مسلم ،ابوداؤد )
لوگ پریشانی اور غصے میں بے قابو ہوجاتے ہیں۔ اپنے آپ کو، اولاد، اہل خانہ اور نوکر چاکر وںکو برابھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔بعض اوقات بددعائیں بھی دے دیتے ہیں۔تو مرجائے،تیرا خانہ خراب ہو، اے اللہ! آج سے مجھے اس کی شکل نہ دکھا،ان کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائیں وغیرہ وغیرہ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں تنبیہ فرمائی کہ غصے اور پریشانی کی حالت میں اپنی زبان کو قابو میں رکھو،گالی گلوچ اوربددعاؤں سے پرہیز کرو،اس لیے کہ بددعا لگ بھی سکتی ہے اور اگربددعا لگ گئی تو پھررونادھونا کام نہ آئے گا۔بعض لوگ غصے میں بے قابو ہوکر بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں،جس سے ہنستا بستا گھر اجڑ جاتا ہے۔ اس قسم کے جذباتی لوگوں کے لیے اس حدیث میں بہت بڑا درس ہے ۔صبر، بعد کی پریشانیوں سے بچنے کا بہترین سامان ہے۔