قناعت سچے مسلمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔مومن اللہ تبارک وتعالیٰ کے دیے ہوئے رزق پر راضی ہوتا ہے اور اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ تھوڑی چیز جو (ضروریات کے لیے )کافی ہو، بہتر ہے اُس چیز سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دینے والی ہو۔یہ ان کامیاب لوگوں کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی طرف ہدایت دی اوراپنی طرف سے ایسارزق عطا کیا جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہے اور غفلت میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے ،اور اللہ تعا لیٰ نے انھیں جو کچھ دیا اس پر وہ راضی ہو گئے۔
حضرت فضالہؓ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’یقینا کامیاب ہو گیا وہ شخص جسے اسلام کی طرف ہدایت دی گئی، اورجو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دیا اس پروہ راضی ہو گیا‘‘۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ہمارے درمیان نو کھجوریں تقسیم کیں،چونکہ ہم نو افراد تھے،اس لیے آپؐ نے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دے دی۔
کھجور جیسی معمولی سی چیز جس کی طرف کسی کو رغبت نہ تھی لیکن صحابہ کرام ؓنے اسی پر قناعت کی اور خو شی خو شی اسے قبول کر لیا۔ان کی عادت ہی یہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے جو کچھ انھیں ملتاتھا، اس پر وہ راضی ہو جاتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے کہتا ہے: اے ابن آدم! تیرے پاس اتنا کچھ ہے جو تیرے لیے کافی ہے لیکن تو وہ کچھ طلب کرتا ہے جو تجھے سرکشی میں مبتلا کر دے۔ اے ابن آدم! تو تھوڑی چیز پر قناعت نہیں کرتااور زیادہ سے تیرا پیٹ نہیں بھرتا‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ جب آدمی خطرات سے محفوظ ہو،اس کا جسم صحیح سلامت ہو ، اسے کسی قسم کی کوئی بیماری لاحق نہ ہو،بلا خوف وخطر پُرامن زندگی بسر کر رہا ہو اور اس کے پاس روز مرہ ضروریات کی اشیا موجود ہوں، تو اسے اور کیا چاہیے!
نبی اکرمؐ ،اللہ تعالیٰ سے قناعت کی دعاکیاکرتے تھے ۔انھوں نے صحابہ کرامؓ اور ہمیں بھی یہی تعلیم دی ہے کہ ہم اپنے رب سے قناعت طلب کیا کریں۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاخْلُفْ عَلَیَّ کُلَّ غَائِبَۃٍ لِیْ بِخَیْرٍ ، اے اللہ! جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر مجھے قناعت نصیب فرما اور اس میں میرے لیے برکت پیدا کر،اور میری وہ تمام چیزیں جو میری آنکھو ں سے اوجھل ہیں ان کی حفاظت فرما۔
نبی کریم ؐ کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اوردرخواست کی:اے اللہ کے رسولؐ !مجھے کوئی مفید دعا سکھائیے۔آپؐ نے فرمایا کہ یوں دعا کرو:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ وَوَسِّعْ فِیْ خُلُقِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْ کَسْبِیْ وَقَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ ، اے اللہ! میری مغفرت فرما،میرے اخلاق میں وسعت پیدا کر،میری کمائی میں برکت عطا کر اور جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر قناعت نصیب فرما۔
جب ہمیں یہ پختہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جو کچھ ہے درحقیقت وہی خیروبھلائی ہے تو دنیا کی زندگی کی حیثیت ایک مہمان خانے سے زیادہ نہیں رہے گی،اور مہمان کو مہمان خانے میں موجود اشیا سے کوئی خاص دل چسپی نہیںہوتی۔ وہ محض اپنی ضرورت پوری کرنے کی حد تک بڑے قرینے اور قناعت سے ان چیزوں کو استعمال کرتا ہے،اور اپنی منزل کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ دنیا کی زند گی کے بارے میںانسان کایہ پختہ یقین قناعت کے حصول میں اسے مدد دیتا ہے۔
حضرت سلمان فارسی ؓ کاشمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ان کے بارے میں نبی مہرباںؐ نے فرمایا:ـ’’سلمان ہمارے اہلِ بیت میں سے ہے‘‘۔ آپؓ خلفاے راشدینؓ کے دور میں اور ان کے بعد کے ا دوار میں مختلف اہم حکو متی مناصب پر فائز رہے۔ جب آپ ؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے رونا شروع کر دیا۔پوچھا گیا ،اے ابوعبداللہ ! روتے کیوں ہو؟آپ ؓنے جواب دیا:مجھے خدشہ ہے کہ ہم نے نبی کریم ؐکی اس وصیت کی حفاظت نہیں کی کہ تمھیںمسافر کے زادِ راہ کی مانند دنیا سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہیے، جو صرف اپنی انتہائی ضرورت کی چیزیں ہی اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے۔
جب حضرت سلمان فارسیؓ اس دنیا سے رخصت ہو ئے اور لوگوں نے ان کے ترکے میں موجود اشیا کا جائزہ لیاتو ان کی قیمت ۳۰ درہم بھی نہیں بنتی تھی ۔اس کے باوجود آپؓ نبی کریمؐ کی وصیت پر عمل درآمد نہ ہونے سے ڈرتے تھے ۔ یہ مثال ہمیں عملی نمونہ فراہم کرتی ہے کہ کس طرح نبی اکرمؐ نے اپنے صحابہؓ کی تربیت کی تھی۔
۲۔انسان کے ذہن میں یہ تصور پختہ ہو جائے کہ اُس مال کو جمع کرنے کا کیا فائدہ جس سے وہ خودمستفید نہ ہو سکے۔
ایک عقل مند آدمی جب غور وفکر کرتا ہے تو اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہے کہ ضروریات سے زائد ایسا مال جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے، جسے نہ میں کھاسکتا ہوں نہ پی سکتا ہوں، نہ اس سے لطف اندوزہو سکتا ہوں اور نہ اسے کسی مفید کام میں خرچ کر سکتا ہوں؟
ہمارے پیارے نبیؐ نے فرمایا: ’’جب بھی سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں اطراف پر دو فرشتے کھڑے ہوکر منادی کرتے ہیںاور ان کی آواز کو جن و انس کے سوا زمین میں موجود تمام اشیا سنتی ہیں۔وہ کہتے ہیں :اے لوگو! اپنے رب کی طرف آئو، تھوڑی چیز جو(ضروریات کے لیے) کافی ہو، بہتر ہے اس چیز سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دینے والی ہو۔
اے ابن آدم، تیرا (مال) توصرف وہی ہے جسے تو نے کھایا اور ختم کردیا، یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا خرچ (صدقہ) کر کے آگے بھیج دیا۔ اس کے علاوہ جو مال بھی ہے اسے اکٹھا کرنے میں تم تھک جاتے ہو اور اس کے خرچ نہ کرنے پر تمھارامحاسبہ کیا جائے گا، اور اللہ کے سامنے اس کے بارے میں تجھ سے پوچھا جائے گا‘‘۔
دل کو قناعت سے سرشار کرنے والی بات یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ اس مال کو جمع کرنا جس میں کوئی فائدہ اور نفع نہیں ہے، بے فائدہ تھکاوٹ ہے اور یہ کہ وہ اللہ کی دی ہوئی چیزپر راضی اور قانع ہو۔
۱- قناعت کرنے والا شخص سب سے زیادہ غنی ہوتا ہے۔اس لیے کہ نبی کریمؐ کی حدیث کے مطابق غنی وہ نہیں ہوتا جس کے پاس زیادہ مال و دولت ہو،بلکہ غنی وہ ہے جو دل کا غنی ہو۔ وہ غیراللہ سے حاجت روائی کی امید نہیں رکھتا،لوگوں سے اور ان کے مال سے مستغنی ہوتا ہے۔ یہ حقیقی غنی ہوتاہے ، پس قناعت کرنے والا شخص سب سے بڑا غنی ہے۔
روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے سوال کیا :اے میرے رب! تیرے بندوں میںسے تجھے سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جو ان میں سے سب سے زیادہ میرا ذکر کرتا ہے ۔ آپ ؑ نے پوچھا :تیرے بندوں میں سے سب سے زیادہ غنی کون ہے؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میرے عطا کردہ مال پر ان میں سے سب سے زیادہ قناعت کرنے والا۔ آپ ؑ نے پوچھا :ان میں سے سب سے زیادہ عادل کون ہے ؟اللہ تعا لی نے جواب دیا:جس نے اپنے نفس کو (بری خواہشات سے)بچا لیا۔
بنی امیہ کے ایک بیٹے نے ایک عابد وزاہد انسان ابی حاتم کوخط لکھا کہ وہ اپنی ضروریا ت کے بارے میں اسے آگاہ کریں۔ابی حاتم نے اس خط کا جواب یوں دیا :حمدوثنا کے بعد ،آپ کا خط مجھے ملا،جس میں آپ نے میری ضروریات جاننے اور انھیں پورا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔یہ بہت بعید ہے ۔میں نے اپنی ضروریات اپنے پیارے رب کے سامنے پیش کر دی ہیں،ان میں سے جو اس نے مجھے عطا کر دیں میں نے انھیں قبول کر لیا، اور جو نہیں عطا کیں ان سے میں نے قناعت کر لی___ یہ ہے صالحین کا عمل۔
آدمی جب قناعت کرتا ہے تواسے آزادی ملتی ہے، جب وہ حرص وطمع میں پڑجاتا ہے تو غلام بن جاتا ہے___ درہم ودینار کا غلام،لباس کا غلام،جو چیز بھی اسے اچھی لگے اس کا غلام،جو چیزیں اسے دی گئی ہیں ان کا بھی غلام اور جو نہیں دی گئی ہیں ان کا بھی غلام۔
جب آدمی ان تمام غلامیوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو اسے قناعت کی دولت نصیب ہوتی ہے اور وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا کسی کا غلام نہیں رہتا۔