مضامین کی فہرست


مارچ ۲۰۲۵

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’موجودہ زمانہ دُنیا کا ترقی یافتہ ترین اور حددرجہ مہذب عہد ہے‘، مگر یہ کیا کہ پندرہ ماہ تک آسمان سے آگ اور بارود برستا رہا، انسانی جسموں کے چیتھڑے اُڑتے رہے، مریضوں کی دوا اور شہریوں کے لیے خوراک، پانی اور چھت تک ناپید ہوگئے۔ بڑی اور کھلی جیل کے لاکھوں انسانوں پر موت، دن رات جھپٹتی رہی۔ دُنیا بھر کے انسان چیخ اُٹھے کہ ظلم بند کرو، مگر امریکی اور مغربی قیادتوں کی پشت پناہی درندہ صہیونیت کا راستہ روکنے کے بجائے وحشت کی سرپرستی کرتی رہی۔ فلسطین کا مسئلہ پاکستان کے لیے محض ایک بین الاقوامی معاملہ نہیں بلکہ دینی، اصولی اور قومی سلامتی کا معاملہ بھی ہے۔ جس طرح کشمیر، پاکستان کی ریاستی پالیسی کا ایک غیر متزلزل حصہ ہے اور اس پہ تاریخی طور پر مکمل قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور انڈیا نے اس پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، بالکل اسی طرح فلسطین کے حوالے سے بھی پاکستان کی ریاستی اور عوامی پالیسی بالکل واضح ہے۔

فلسطین، فلسطینیوں اور عربوں کی سرزمین ہے اور اسرائیل کا اس پر قبضہ سراسر ناجائز ہے۔ یہ مسئلہ تقریباً ۱۲۵ برسوں پر محیط ہے۔ فلسطینی عوام نہایت بہادری اور استقامت کے ساتھ قربانیاں دے رہے ہیں۔ انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہے، اور پوری دنیا سے صہیونیوں کو لا کر وہاں آباد کیا جا رہا ہے، جو بہت بڑا ظلم اور انسانی تاریخ کا المیہ ہے۔

یہ معاملہ ۱۸۸۰ء کے عشرے میں اس وقت شروع ہوا جب یورپ کے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۸۹۷ء میں’صہیونی تحریک‘ کے آغاز کے بعد اس عمل میں تیزی آگئی، اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے محروم کر کے ان پر ظلم وجبر کیا جا رہا ہے۔یہ ظلم اور ناانصافی ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکتی۔ ہمارا فرض ہے کہ مسلمان،پاکستانی اور انصاف پسند انسان کی حیثیت سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں ہر ممکن اقدام کریں اور ان کے حق کے لیے آواز بلند کریں۔

۱۹۱۷ء کا ’اعلانِ بالفور‘ انسانی تاریخ پر ایک سیاہ دھبہ ہے جس کے تحت یہودیوں اور صہیونیوں کو طاقت، دھونس اور جبر کے زور پر یہاں لا کے بسانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پھر اس شیطانی منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا۔ ازاں بعد ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل نے یک طرفہ طور پر اپنی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا، اور جب فلسطینیوں نے اس پر ردِ عمل کا اظہار کیا، تو انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔

آج کچھ لوگ تمام حقائق کی نفی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ’’اس معاملے میں جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ حماس کے اقدامات پریشانی کا باعث بن رہے ہیں‘‘۔ یہ بات ہر خاص و عام پر واضح رہنی چاہیے کہ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کا واقعہ کسی علیحدہ اور غیر متعلقہ عمل کا نتیجہ نہیں تھا۔ فلسطین کے اس المیے کی تاریخ۷؍ اکتوبر سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس وقت سے چلی آ رہی ہے جب فلسطینی سرزمین پر باہر سے لا کر لوگوں کو بسایا گیا اور پھر ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا، ہزاروں کو شہید کیا گیا، عورتوں اور بچوں کا قتل عام ہوا، اور اسرائیل نے اسی وقت سے نسل کشی اور دہشت گردی کا آغاز کر دیا تھا۔

تب سے لے کر آج تک فلسطینی مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوان اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جہاں سے ان کی رہائی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ حالیہ جنگ بندی کے دوران ایسے قیدی رہا کیے گئے، جو۱۶،۲۰ یا ۲۵ سال بعد جیل سے باہر آئے۔ اگر حماس نے ۷؍ اکتوبر کا اقدام نہ کیا ہوتا، تو کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ فلسطینیوں کی آواز دنیا تک پہنچتی؟ جب لاکھوں افراد کو جیل میں ڈال دیا جائے، غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ بنا دیا جائے، ان کے تعلیمی اور معاشی مواقع برباد کر دیے جائیں، ہر وقت ان پر نگرانی رکھی جائے، اور انھیں کسی قسم کی بھی طبّی امداد نہ پہنچنے دی جائے، تو ایسے حالات میں ہر غیرت مند، باضمیر اور ایمان رکھنے والا شخص مزاحمت کرے گا۔ یہی وہ حق ہے جو حماس نے استعمال کیا ہے۔

حماس کے اقدامات نہ صرف دینی اور شرعی لحاظ سے درست ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی بالکل جائز ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اگر کسی علاقے پر قابض قوت موجود ہو، تو اس کے خلاف مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ فلسطین پر نہ صرف غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے بلکہ قابض فوج مسلسل فلسطینیوں کو شہید کر رہی ہے۔

امریکا، جو خود کو عالمی انصاف اور جمہوریت کا چیمپئن کہتا ہے، وہ ہر جگہ اپنی مرضی کی حکومتیں چاہتا ہے۔ اسے وہ جمہوریت پسند نہیں آتی جس میں حماس الیکشن جیت جائے، اسے وہ جمہوریت پسند نہیں جہاں اخوان المسلمون کامیاب ہو، یا الجزائر میں اسلامی فرنٹ اکثریت حاصل کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا صرف ان آمریتوں اور حکومتوں کی حمایت کرتا ہے، جو اس کے مفادات کے مطابق ہوں۔جمہوریت کا جنازہ تو ہر اس موقعے پر نکل جاتا ہے جب اقوامِ متحدہ میں پوری دنیا کسی موقف پر کھڑی ہوتی ہے، اور امریکا اسے ویٹو کر کے اسرائیلی ظلم کی حمایت کرتا ہے۔

ہمیں امریکا سے جمہوریت اور انسانیت اور تہذیب کا سبق لینے کی ضرورت نہیں، اور نہ اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو دہشت گرد قرار دے۔خود امریکا کی تاریخ ظلم اور جبر سے بھری ہوئی ہے۔ اس کی بنیاد لاکھوں مقامی ریڈ انڈینز کی لاشوں پر رکھی گئی، افریقا سے غلام لا کر ان پر ظلم ڈھائے گئے، ویت نام پر حملے کیے گئے، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے، عراق میں  لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کیا گیا، اور پورے مشرق وسطیٰ ہی کو نہیں بلکہ دُنیا بھر کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا گیا۔

یہی امریکا، جو دنیا میں اپنی چھپی اور کھلی مداخلتوں، تخریب کاریوں اور جنگوں کے ذریعے انتشار پھیلاتا ہے، آج فلسطین کی مزاحمتی تحریک کو دہشت گرد کہتا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہر قوم کا حق ہے۔ درحقیقت، سب سے بڑا دہشت گرد امریکا خود ہے۔

حماس کی جدوجہد اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک عالمی سطح پر اس کی حمایت نہیں کی جاتی۔ ہمیں آدھا سچ نہیں بولنا چاہیے، بلکہ مکمل اور سچی تصویر دنیا کے سامنے رکھنی چاہیے۔ جب  اسرائیل دہشت گردی کر رہا ہے، تو جو اس کے مقابلے میں کھڑا ہے، اس کی حمایت کیے بغیر بات ادھوری رہے گی۔ بعض لوگوں کو اس سچائی کا سامنا کرنے میں خوف محسوس ہوتا ہے، شاید اس لیے کہ انھیں مختلف حلقوں کو جواب دینا پڑے گا۔ لیکن ہمیں مضبوطی سے اور کھلے الفاظ میں دنیا کے ایک ایک فرد تک یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے اور اسرائیل کو وہاں آباد کرنے کا پورا عمل ناجائز اور ناقابلِ قبول ہے۔

قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ سے لے کر آج تک ہماری ایک ہی پالیسی رہی ہے۔ایک انصاف پسند فرد کی حیثیت سے فلسطین پہ کوئی دو ریاستی نظریہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطین ایک ہی ریاست ہے، اور وہ آزاد فلسطین ریاست ہے۔ اسرائیل ایک ناجائز وجود ہے، اور ہم اسے تسلیم نہیں کرتے اور نہ اس کے ناجائز قبضے کو قبول کرنے کے لیے ریاستی وجود تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔

اگر کوئی غاصب زبردستی آپ کے گھر پر قبضہ کر لے، تو اس کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے۔ اس میں کبھی جنگ، کبھی جنگ بندی —ہوتی ہے، اور یہی حماس کر رہی ہے۔ یہ حق صرف انھی کو حاصل ہے کہ وہ جنگ بندی یا جنگ کا فیصلہ کریں، کیونکہ وہی لڑ رہے ہیں، باقی تو سب محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ محض عربوں یا عجمیوں کا نہیں، بلکہ یہ ہمارے عقیدے، ایمان، انسانیت اور ضمیر کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اسی طرح اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، جیسے ایک باضمیر قوم یا فرد حق اور انصاف کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

جو کچھ اسرائیل نے ۷؍ اکتوبر کے بعد کیا، اگر حماس اس کارروائی کے لیے نہ اٹھتی تو کیا ہوتا؟ چند ممالک پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے۔ نام نہاد ’ابراہیمی معاہدہ‘ مزید آگے بڑھ رہا تھا، اور یہاں پاکستان پر بھی اسے تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ کچھ دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ ہمیں پھر وہی گھسے پٹے لیکچر دیے جائیں گے کہ ’جنگ سے کیا حاصل ہوگا؟تشدد مسائل کا حل نہیں ، 'مذاکرات ہی بہترین راستہ ہیں‘، وغیرہ۔

اگر ایسا ہے، تو کیا آپ ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہونے کی پوری تاریخ کو مسترد کر دیں گے؟ کیا آپ امام حسینؓ کی شہادت پر بھی سوال اٹھائیں گے؟ کیا آپ غزوہ بدر پر بھی یہی کہیں گے کہ مسلمان تعداد میں کم تھے، ہتھیار بھی پورے نہیں تھے، وسائل بھی محدود تھے، تو کیوں میدان میں اُترے؟ مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حضور دعا کی اور اللہ نے حق کو فتح دی۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ جذبات میں آ کر سر پھوڑ لیا جائے، لیکن قرآن کا یہ فرمان برحق ہے کہ جتنی استطاعت ہو، اتنی قوت جمع کرو اور حق کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو جاؤ۔ جب ایسا کیا جائے تو جھوٹ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، آخرکار ملیامیٹ ہو کر رہتا ہے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جو کچھ ہوا، اسے الگ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ وہ تاریخ کا ایک تسلسل ہے۔ اگر فلسطینی مزاحمت نہ کرتے تو کیا کرتے؟ ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے، ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں جیلوں میں قید ہیں، اور غزہ کے عوام بدترین محاصرے اور تباہ شدہ گھروں کے کھنڈرات پر کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ قریبی دولت مند اور طاقت ور عرب ممالک بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ تو ایسی صورتِ حال میں اگر وہ اپنی زندگی کا وجود منوانے کے لیے یہ قدم نہ اٹھاتے تو کیا کرتے؟

دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے زیرِ سایہ، دنیا کی پانچویں یا چھٹی سب سے طاقت ور فوج کے قائم کردہ ’آئرن ڈوم‘ اور انٹیلی جنس کے فعال نیٹ ورک کو ۷؍اکتوبر کے روز شکست ہوئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل اسی دن ہار گیا تھا، جب اس کی فوجیں غزہ میں داخل ہوئیں، تو القسام بریگیڈ نے کھلی جیل کی سرحدوں پر ان کا استقبال کیا، اور اسرائیلی فوجی پسپا ہونے لگے جس کے نتیجے میں سٹپٹا کر اور بدحواسی و بدمستی میں اس نے نہتے شہریوں پر بمباری شروع کی،بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا، خیموں کو جلایا اور ہسپتالوں تک کو مریضوں ، ڈاکٹروں سمیت کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔

حالیہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اسرائیلی نشانے بازوں نے بچوں کو چُن چُن کر قتل کیا۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی مہذب دنیا کے اصول ہیں؟

ہمیں اس صورتِ حال میں واضح موقف اپنانا ہوگا: فلسطینیوں کی جدوجہد برحق ہے، اور جب تک اس مزاحمت کی حمایت نہیں کی جائے گی، انصاف کا قیام ممکن نہیں ہوگا۔یہ کس قدر ظالم لوگ ہیں کہ پورے ظلم کے ساتھ اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، اور اس میں سب سے نمایاں کردار امریکا کا ہے، جو اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ جو بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہیں، انھیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک بڑے دہشت گرد کے حمایتی ہیں۔ ٹرمپ جس انداز میں گفتگو کر رہا ہے،  ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پراپرٹی ڈیلر بات کر رہا ہو —کہ فلسطینی نکل جائیں اور ہم یہ زمین خرید لیں۔ اس طرزِعمل اور طرزِ تکلم کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔

 پہلے اَدوار میں یہ عالمی غنڈا ریاستیں اور حکمران بی بی سی، سی این این، اسکائی نیوز، اور فاکس جیسے نیوزچینلوں پہ خبروں کو کنٹرول کر لیتے تھے اور سچائی کو دنیا کے سامنے آنے سے روکتے تھے۔ عوام کے پاس وسائل نہیں ہوتے تھے کہ وہ حقائق جان سکیں، مگر اب سوشل میڈیا نے اس صورت حال کو بدل دیا ہے۔ اگرچہ اب بھی طاقت ور قوتیں سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود بڑے تلخ حقائق سامنے آرہے ہیں۔

ہم یہاں ’الجزیرہ نیٹ ورک‘ کی بے پناہ بہادری کو سراہتے ہیں، جس کے نامہ نگاروں نے جان کی بازی لگا کر دنیا کے سامنے حقائق پیش کیے۔ میں وائل الدحدوح کو کبھی نہیں بھلا سکتا، جس سے ہماری قطر میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اس کی بیوی شہید ہو گئی، اس کی بیٹی اور اس کے پانچ بھتیجے شہید ہو گئے، اس کے خاندان کے کئی افراد شہید ہو گئے، مگر وہ جنازے دفنانے کے بعد پھر ہیلمٹ پہن کر رپورٹنگ کرنے چلا جاتا تھا۔

یہی صحافتی غیرجانب داری ہے، یہی جرأت ہے، اور یہی حقائق کو دنیا کے سامنے لانے کی اصل قیمت ہے۔ آج درجنوں صحافی شہید ہو چکے ہیں، مگر افسوس کہ عالمی سطح پر اس پہ وہ مذمتی فضا نہیں بن سکی، جو بننی چاہیے تھی۔

حماس نے جانبازی سے جو قدم اٹھایا اور مسئلہ فلسطین کو دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ پہلے یہ مسئلہ پس منظر میں چلا گیا تھا، مگر آج یہ دنیا کا سب سے اہم موضوع بن چکا ہے۔ یہی وہ قربانیاں ہیں جنھوں نے ایشو کو نمایاں کیا ہے، اور ایسی قربانیاں اور جرأتیں ہی تاریخ کا دھارا بدل دیتی ہیں۔ بظاہر کچھ لوگوں کو ناکامی نظر آتی ہے، مگر درحقیقت، یہی کامیابی کی بنیاد رکھتی ہیں۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق، امریکا میں ۲۰ فی صد لوگ براہِ راست حماس کی حمایت کررہے ہیں۔ یہ وہ برکت ہے جو مزاحمت (resistance) کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ جب ظلم کے خلاف کھڑا ہوا جاتا ہے تو اس کے حامی خود بخود پیدا ہونے لگتے ہیں۔ کولمبیا یونی ورسٹی کے طلبہ نے، نیویارک میں، واشنگٹن میں، وائٹ ہاؤس کے باہر جو بڑے احتجاج کیے، اس میں ہررنگ ، نسل اور مذہب کے لوگ شامل تھے۔ یہ وہ مزاحمت ہے جس نے دنیا کے ہر باشعور انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ پیغام دبایا نہیں جا سکتا۔ اب ضرورت ہے کہ ہم ایک مضبوط قوت بن کر اُن طاقتوں کے خلاف کھڑے ہوں جو ایک نئی نسل کشی (genocide) کو جنم دینا چاہتی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں جو بیانات دیے ہیں، ان کی شدید مذمت ہونی چاہیے۔ پوری دنیا کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ وہ کھلے عام ایک نئی وحشت و درندگی کو دعوت دے رہا ہے۔ وہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے اور اسرائیلی دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

ہم پاکستان کے حکمرانوں کو بھی واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ چاہے امریکا کا دباؤ ہو یا کسی عرب ملک کا، ہم کسی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی کوشش برداشت نہیں کریں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب کوئی نہ دیکھے۔ ہمیں کوئی بھی اپنی نام نہاد دانش کا درس نہ دے،  ہمیں حقائق معلوم ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے ہیں، وہ تاریخ کو کتنا جانتے ہیں، انھیں فلسطین کے مسئلے کا کتنا ادراک ہے۔ وہ تو کشمیر کے مسئلے سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر اتفاقِ رائے برقرار رہنا چاہیے، اور پاکستان کو وہ کردار ادا کرنا چاہیے جو مسلم دنیا کی قیادت کے لائق ہو۔ ساتھ ہی، غیر مسلم ممالک جیسے کہ جنوبی افریقہ، اسپین، آئرلینڈ —جو فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں، —ان سے روابط قائم کیے جائیں۔ پوری دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو ساتھ ملایا جائے، سفارتی سطح پر کام ہو، بین الاقوامی فورمز کو متحرک کیا جائے، اور انھیں مکمل تائیدوحمایت فراہم کی جائے۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر دنیا میں معیشت ترقی کر سکتی ہے، معاہدے ہو سکتے ہیں، یا ابراہام اکارڈ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کر کے تعلقات بہتر کیے جا سکتے ہیں، تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا! جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، خطے میں استحکام ممکن نہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جب سے اسرائیل وجود میں آیا ہے، اس نے پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ عرب ہوں یا عجم، سب کو اس معاملے پر مضبوط مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہم اس صورتِ حال کو سراہتے ہیں کہ جو کہ حالیہ دنوں میں عرب ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے خلاف آواز بلند کی، لیکن محض بیانات کافی نہیں، عمل بھی دکھانا ہوگا۔

اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب، پاکستان، انڈونیشیا اور ملایشیا پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ ایک ملک کو دوسرے کے لیے اور دوسرے کو تیسرے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ہمیں ان ممالک کی قیادتوں کو قائل کرنا ہوگا کہ یہ راستہ کامیابی کا راستہ نہیں، بلکہ تباہی کا راستہ ہے۔ اس وقت سب سے ضروری یہ بات ہے کہ پوری اسلامی تعاون تنظیم (OIC) متحد ہو، عرب ممالک کھڑے ہوں، اور اس سلسلے میں پاکستان اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ترکیہ، ایران، روس، چین، جنوبی افریقہ، اور یورپی یونین کو ساتھ ملایا جائے تاکہ یہ مسئلہ سفارتی اور سیاسی طور پر درست طریقے سے حل کیا جا سکے۔

غزہ اس وقت ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، اور اس کی تعمیرِ نو کی اشد ضرورت ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ جنگی نقصان (war reparations) اسرائیل اور امریکا ادا کریں۔ یہ امداد کے طور پر نہیں، بلکہ جنگی تاوان کے طور پر دیا جانا چاہیے!

فلسطین ہمارا ایمانی، انسانی، اسلامی اور اخلاقی معاملہ ہے، اور ہم کسی صورت اس سے دستبردار نہیں ہوں گے!

رمضان کا بابرکت مہینہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابۂ کرامؓ اور صلحائے امت ؒ بڑی بے چینی سے رمضان کا انتظار کرتے تھے اور پھر اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے۔

’صوم‘ کا معانی ہے ’رُک جانا‘، ’اپنے آپ کو روک لینا‘، ’کچھ کر ڈالنے سے روکنا‘۔ ظاہری طور پر اس کا مطلب ہے کھانے، پینے اور اور جنسی داعیہ پورا کرنے سے پرہیز کرنا۔

قرآن کریم میں آٹھ آیات ہیں، جو ’صوم‘(روزہ) کی مختلف جہتوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ روزہ تمام انبیاؑ کی شریعتوں کا جزو رہا ہے۔

روزہ ایک عظیم عبادت اور دین کے ان ستونوں میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے، جن پر اس کی پوری عمارت مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روزہ اللہ رب العزت کا اپنے بندوں پر ایک بہت ہی عظیم الشان انعام ہے اور اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

  • روزہ کی انفرادیت: اللہ کے اس انعام کا ایک پہلو ایسا ہے، جو اسے عبادات اور احکام ِالٰہی میں منفرد بنا دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ وہ عمل ہے جس کا گواہ اللہ اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔نماز دین کا ستون ہے مگر وہ دل کی حضوری کے ساتھ جسم کے ایسے اعمال و اظہارپر مشتمل ہے، جن کی وجہ سے جماعت ہی میں نہیں، تنہائی میں، حتیٰ کہ گھر کی چار دیواری میں ادا کی جانے والی نماز بھی دوسروں کی نظر سے اوجھل نہیں ہو سکتی۔ حج تو پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایک اجتماع ہے ہی۔ اسی طرح زکوٰۃ اگر مکمل اخفا کے ساتھ ادا کی جائے تب بھی کم از کم ایک شخص، یعنی اس کا وصول کرنے والا تو اس راز میں شریک ہو ہی جاتا ہے۔ لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر ایک شخص سب کے ساتھ سحری کرے اور سب کے ساتھ افطار کرے، تب بھی تنہائی میں اس کے کھانے پینے سے احتراز کرنے کا گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر ایک شخص دنیا کو دھوکا دینے کے لیے روزے کے تمام اجتماعی آداب کا احترام کرے، لیکن تنہائی میں کھا پی لے، تو دنیا کی کوئی آنکھ اس کے روزے پر شک نہیں کرے گی، البتہ اللہ اس کی حرکات سے بخوبی واقف ہوگا۔

روزہ صرف اللہ کے لیے ہے اور وہی اس کا گواہ ہے۔ اس طرح بندے کے ربّ سے تعلق کا یہ پہلو روزے کی امتیازی شان ہے___کہ جلوت اور خلوت، سب اللہ کے حکم اوراس کی رضا کے پابند ہیں۔ گویا روزہ اپنے تمام اجتماعی پہلوؤں کے باوجود صرف اللہ ہی کی رضا کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ربِّ کریم نے یہ مژدہ بھی سنا دیا ہے کہ صرف وہ اس کا اصل اجر دینے کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا  روزہ بندے اور رب کے بلاواسطہ تعلق کا عنوان ہے اورصرف رب کا بندہ بن جانے کی علامت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو اسے اسلام کی روح اور اس کے اصل جوہر کا مظہر بناتی ہے۔

صرف اللہ کا بندہ بننے اور اس کی رضا کے لیے بھوک پیاس اور شہوت کی جائز ذرائع سے تسکین سے بھی اجتناب، انسان کو تقویٰ کی اُس نعمت سے مالا مال کرتا ہے کہ جو دُنیا اورآخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے، اور انسان میں وہ صلاحیت پیدا کرتا ہے، جو اسے اللہ کی ہدایت سے فیض یاب ہونے میں معاون ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی ہدایت کے لیے جن کو اہل قرار دیا ہے وہ اصحا بِ تقویٰ ہی ہیں۔ (البقرہ ۲:۲)

روزہ انسان کے اندر وہ تقویٰ پیدا کرتا ہے جو اسے ہدایت ربانی سے مستفید ہونے اور اس کا علَم بردار بننے کے لائق بنا تا ہے:يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ (البقرہ۲: ۱۸۳) ’’اے ایمان لانے والو تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تمھارے اندر تقویٰ پیدا ہو سکے‘‘۔

رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے اور روزے اور قرآن کا تعلق یک جان اور دو قالب جیسا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ (البقرہ۲: ۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر بیان کرنے والی ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے‘‘۔

ایک اور قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ نزول قرآن کا آغاز غارِ حرا میں ہوا، جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل عبادت فرماتے اور روزے رکھتے تھے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب تورات سے نوازا گیا تو ان ایام میں آپ بھی روزے کا اہتمام فرما رہے تھے۔ روزہ اور قرآن کا یہی ناقابلِ انقطاع تعلق ہے جس کا تجربہ اور جس کی شہادت امت مسلمہ ماہِ رمضان میں قرآن سے تعلق کی تجدید کرکے کرتی ہے۔ اس طرح روزہ ہماری زندگیوں میں ہدایتِ ربانی کوحرزِ جان بنانے کا ذریعہ ا ور وسیلہ بن جاتا ہے۔ یہ اللہ کا عظیم ترین انعام نہیں تو اور کیا ہے؟

  • روزہ کی حقیقت: اس انعامِ الٰہی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ روزے کی حقیقت کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور محض روایتاً یا مسلم معاشرے کے ایک معمول کے طور پر نہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ اور اس کے مقاصد اور آداب کے پورے اِدراک اور اہتمام کے ساتھ روزہ رکھا جائے، نیزرمضان میں حاصل کی جانے والی تربیت کی روشنی میں سال کے باقی ایام گزارے جائیں۔ جس طرح چارجنگ کے بعد گاڑی کی بیٹری اپنا کام ٹھیک ٹھیک انجام دیتی ہے، اسی طرح انسانی جسم اور زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے رمضان کے روزے اور قرآن سے تجدیدِعہد، انسانی جسم وجان کی بیٹری کو چارج کرتے ہیں اور پھر باقی گیارہ مہینے اس قوت کے سہارے یہ گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔ اس سے بڑا انعام ہمارے رب کی طرف سے اور کیا ہو سکتا ہے؟

بندہ کے اپنے رب سے تعلق کے تین پہلو ہیں: lپہلا اور سب سے اہم رب کو پہچاننا، اس سے عہدِ وفا باندھنا، ہر لمحے اس عہد کا ادراک رکھنا اور ہر دوسری غلامی اور وفا داری سے نجات پا کر صرف اللہ، اپنے خالق اور مالک کا بندہ بن جانا ہے۔ lدوسرا پہلو فرد کی اپنی ذات کی تربیت، تزکیہ اور ترقی ہے تا کہ وہ اپنے رب کے انسانِ مطلوب سے زیادہ سے زیادہ قربت حاصل کر سکے۔ اس کے لیے نمونہ اللہ کے پیارے رسولؐ کا اسوۂ مبارکہ اور سنت ِمطہرہ ہے۔ اپنی ذات کی مسلسل اصلاح اور صفاتِ محمودہ کے رنگ میں اپنے کو رنگنے اور صفاتِ مذمومہ سے بچنے کی مسلسل کوشش اصلاحِ ذات اور بندگیِ رب کا اولیں اور مستقل تقاضا ہے۔ lتیسر اپہلو دنیا اور اس کے رہنے والوں سے تعلق کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اللہ کی ہدایت ہی یہ رہنمائی بھی دیتی ہے کہ دوسرے انسانوں، معاشرہ، ریاست، انسانیت اور کائنات، ہرایک سے کس طرح معاملہ کیا جائے، تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو، اور حق و انصاف کے قیام کے ذریعے انسانوں کی زندگی خیر و فلاح کا نمونہ بن جائے۔

اسلام ان تینوں جہتوں کے باب میں صحیح تعلق اور صحیح رویے کا نام ہے۔ یہ سب اللہ کی بندگی کے ایک ہی دائرے کا حصہ ہیں اور کسی بھی جہت کو نظرانداز کرنا یا عبدیت کے دائرے سے باہر تصور کرنا شرک، بغاوت اور طاغوت کا بندہ بننے کے مترادف ہے۔ روزہ ان تینوں میدانوں میں بیک وقت بندہ کا تعلق اپنے رب سے جوڑنے اور اس تعلق کی روشنی میں زندگی کے ہر دائرے اور پہلو کو ہدایتِ الٰہی کے مطابق گزارنے اور نورِ ربانی سے منور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

روزے کا مقصد دو چیزوں کا حصول ہے، جن کی طرف قرآن متوجہ کرتا ہے: ہدایت اور تقویٰ ___ قرآن اسی مہینے میں نازل ہوا، ہدایت لے کر، جو انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پھر ہے، تقویٰ۔ تقویٰ ایک بنیادی اور عقدہ کشا اصطلاح ہے۔ عمومی طور پر تو اس کا معنی ’خوف‘ لیا جاتاہے۔ لیکن کس کا خوف؟ اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ خوف ہے اللہ کی خوشی کھو دینے کا، اللہ کی ناراضی مول لینے کا اور قربٍ الٰہی سے محرومی کا۔ تقویٰ کے اس معنی و اثر کی وجہ سے ہم ایسی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جس میں اللہ کی موجودگی کا احساس ہو۔ چنانچہ ہم ہروہ کام کر گزریں جسے کرنے کا اللہ کہے اور ہر اس کام سے رُک جائیں جس سے اللہ روکے، تاکہ ہم اس کی خوشنودی پالیں۔

  • روزہ اور ضبطِ نفس: تقویٰ ضبطِ نفس ہے، یعنی خود پر قابو پانا۔ رمضان میں آپ خود پر قابو پانا اور خود کو منظم کرنا سیکھتے ہیں۔ انسان کی دو قسم کی مادی یا جسمانی ضرورتیں ہیں۔ رمضان میں دونوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کی تربیت دی جاتی ہے، اور اس بات کا سبق ملتا ہے کہ ساری زندگی ہی نظم و ضبط سے گزارنی ہے۔یہ مہینہ درحقیقت ’زمانۂ تربیت‘ ہے جس کا مقصد تقویٰ کی زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا ہے۔ رمضان کے بعد بھی،باقی گیارہ مہینے تقویٰ کے حصول پر صرف کیے جائیں رمضان کا سبق تازہ کرنے کے لیے اور تازہ دم ہونے کے لیے۔

روزہ سب سے پہلے آپ کو نظم و ضبط سکھاتا ہے، کہ آپ اپنی عادتوں کو درست کریں۔ جو کام آپ معمول کے مطابق کرتے رہتے ہیں، ایک معمول اور ایک عموم کے طور پر۔ رمضان میں آپ پر ان کے سلسلے میں کچھ پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ آپ وہ کام نہیں کرتے یا کرنے سے رُک جاتے ہیں۔ تاہم جوں ہی افطار کا وقت ہوتا ہے، آپ کے لیے جو چیز لمحہ بھر پہلے ممنوع تھی، اب جائز ہو جاتی ہے۔ اصل نکتہ زندگی میں نظم و ضبط (Discipline) لانا ہے۔ ایسی زندگی گزارنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرماںبرداری سے عبارت ہو اور قرآنی ہدایت پر استوار ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص روزہ رکھتا ہے مگر جھوٹ بولنے، لڑنے جھگڑنے، اور بُرے کام کرنے سے نہیں رُکتا تو اللہ کو اس کے بھوکے رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغابازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، حدیث ۱۹۰۳)

جو چیز اللہ کو مطلوب ہے وہ تو فرماں برداری اور نظم و ضبط ہے۔ یہی بات تو افطار و سحر سے واضح ہوتی ہے۔ سحری سے پہلے آپ کھاتے پیتے رہتے ہیں، مگر فجر کی اذان سنتے ہی رُک جاتے ہیں اور افطار کے وقت تک رُکے رہتے ہیں۔ اس سب سے آپ کی زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ سب تنہائی میں نہیں ہوتا،بلکہ دنیا بھر میں پھیلے مسلمان ایک ہی مہینے میں روزہ رکھتے اور اس کی پابندیوں پر عمل کرتے ہیں۔ اس سے معاشرے اور خاندان تک ایک بھرپورماحول بن جاتا ہے، جس سے ہر خاص و عام ، روزہ کی برکتوں سے فیض یاب ہوتا ہے۔

رمضان کی اہمیت کے حوالے سے ایک قابل توجہ پہلو اس مہینے میں تین چیزوں کا جمع ہونا ہے: ۳۰ روزے، شبِ قدر اور آخری عشرے کی طاق راتیں۔ ایک ماہ کے مسلسل روزے ایک بھرپور تربیتی ورزش کا موقع دیتے ہیں۔ شبِ قدر رمضان کی ایک رات ہے جس میں قرآن نازل ہوا: اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۝۱ۚۖ (القدر ۹۷:۱) ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اور عمل کے مطابق یہ رات نماز، تلاوتِ قرآن اور دُعا میں بسر ہونی چاہیے۔ یہ اللہ کے حضور دُعا کرنے اور اس کی قبولیت کا بہترین موقع ہے، بلکہ اسی وجہ سے تو اسے ’قدر‘ کی رات کہا جا سکتا ہے، جب قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں اور تقدیر لکھی جاتی ہے۔

آخری عشرہ، یعنی آخری دس روزے اور ان میں پانچ طاق راتیں(۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷ اور ۲۹ویں)، شبِ قدر ان راتوں میں سے ایک رات ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ شبِ قدر کی عبادت محض ایک رات کی نہیں بلکہ ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی بہتر ہے: لَيْلَۃُ الْقَدْرِ۝۰ۥۙ   خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۝۳ۭؔ  (القدر۹۷:۳) ’’شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔

اس رات کو ہم جو عبادت اور دعا کریں گے وہ ایک ہزار ماہ یا ۸۳ سال، بالفاظ دیگر پوری زندگی، کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہوگی۔ یہ اللہ کی ہم پر خاص عنایت ہے۔

فرماںبرداری، تقویٰ، صبر اور استقامت ہم کو اللہ کے قریب کرنے والی خوبیاں ہیں۔ پھر تلاوتِ قرآن، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی، جو اگرچہ فرض تو نہیں، تاہم تہجد اور تراویح قرآن سے تعلق کا اہم ذریعہ ہیں۔ مسلم تاریخ میں تراویح رمضان کے پورے دن کے پروگرام کا حصہ رہا ہے، ایک ادارہ اور ایک مستحکم روایت۔ دن بھر کے روزہ کے بعد، رات کو آپ تراویح کے لیے اللہ کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آٹھ رکعات ہوں یا ۲۰، قرآ ن کی تلاوت اور سماعت پورے مہینے جاری رہتی ہے اور قرآن کے پیغام کو سننے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ ہے دس گنا، ستّر گنا، سات سو گنا، یا اس سے بھی زیادہ، مگر روزہ کا بدلہ اور اجر دینا میری خاص عنایت ہے۔ اس کا اجر لا محدود ہوگا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے سوائے روزہ کے، کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم،۱۹۰۴)

  • روزہ اور احتساب: روزہ ایمان کے شعور اور احتساب کے احساس کے ساتھ رکھا جائے۔ ایمان سے مراد ہے خالص اللہ کے لیے، نہ کہ لوگوں کے لیے یا کسی اور غرض سے۔ اور احتساب کا مطلب ہے کہ پابندی، اجازت، جائز و ناجائز سب کو اللہ کی رضا کی خاطر قبول کیا جائے۔ روزمرہ زندگی میں ہم سے غلطیاں اور بھول چُوک ہوتی رہتی ہے، ہم کبھی کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جو نہیں کہنا چاہیے تھا، مگر رمضان میں ہمیں غلط کاموں اور باتوں سے بچنے کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھنا چاہیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’اگر کوئی تمھیں بُرا بھلا کہے، یا گالم گلوچ کرے، یا لڑے جھگڑے، تو اس کی بات یا حرکت کا جواب نہ دو بلکہ کہو کہ ’’میں تو روزے سے ہوں‘‘۔ روزہ تو تزکیۂ نفس ہے، اخلاقی تربیت ہے: فَاِنْ سَا بَّهُ أَحَدٌ، أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ اِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، ۱۹۰۴) ’’اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں‘‘۔

روزے کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ بھوک لگنے پر آپ کو ان لوگوں کا اور ان کی حالت کا خیال آتا ہے جو معاشرے میں ہمارے درمیان موجود تو ہیں مگر بھوکے پیاسے اور سہولتوں سے محروم۔ ہم میں ان کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہم زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں، یا نہیں کرتے، اس کے اثرات کا ہمیں ہمیشہ احساس رہنا چاہیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصولِ ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے، اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اورثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔(صحیح بخاری، کتاب الصوم، ۱۹۰۱)

اتنی بڑی نعمت مل جائے تو اور کیا چاہیے!

خلاصہ یہی ہے کہ روزہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان بہت ہی خاص، ذاتی اور بلاواسطہ تعلق قائم کرتا ہے۔ اس کو کوئی نہیں دیکھتا، مگر اللہ اس کا گواہ ہوتا ہے۔ اس سے تزکیہ، اپنے آپ کو پاک صاف کرنے اور رکھنے، کا کام ہوتا ہے۔ نتیجہ میں پاک صاف اور نظم و ضبط والے معاشرے کا ماحول بنتا ہے۔

اس مہینے کا اپنا ہی ماحول ہوتا ہے، اپنی ہی الگ فضا۔ اسی لیے وہ لوگ بھی جو عام طور پر نماز نہیں پڑھتے یا ہر کام شعور کے ساتھ اسلام کے مطابق نہیں کرتے، وہ بھی اس مہینے میں ملنے والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور حتی الوسع رمضان کے احترام میں عبادات میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ رمضان کی آمد پر ہمیں اس ماحول اور فضا کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا ایک بار پھر موقع مل رہا ہے۔ رمضان تو ایک آئینہ کی طرح ہے جس میں مسلمان افراد اور قوم سب ہی اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں!

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اس انداز میں فرمائی ہے کہ اس کے اندر ہمیشہ خیر اور شر کی کش مکش جاری رہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس کش مکش میں کیسے برائیوں اور کمزوریوں سے نجات حاصل کرے اور ایک بہتر انسان بن جائے؟ اسلام کے نزدیک اس کا جواب تزکیہ ہے اور تزکیہ کے دو بنیادی مفہوم بیان کیے گئے ہیں:

۱- پاکیزگی اور صفائی (Self-purification)

۲- ترقی اور کمال تک پہنچنا (Growth)

اسلام کے مطابق، انسان پیدائشی طور پر گناہگار نہیں ہوتا کہ اسے کسی پیدائشی گناہ سے پاک ہونے کی ضرورت ہو، جیسا کہ بعض مذاہب میں Born Sinner کا تصور پایا جاتا ہے۔ بلکہ، زندگی کے سفر میں انسان لاشعوری طور پر اپنے اندر حیوانی صفات سے زیادہ قریب ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اس میں ملکوتی صفات کمزور پڑ جاتی ہیں۔ یوں حیوانی خصائل (Beastly Traits)  غالب آجاتے ہیں اور ملکوتی خصوصیات (Angelic Traits ) پس پردہ چلی جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کو اسی مقصد کے لیے بھیجا کہ وہ انسانوں کا ’تزکیہ‘ کریں۔ مطلب یہ کہ وہ انسان کو برائیوں اور آلودگیوں سے پاک کریں اور اس کی چھپی ہوئی خوبیاں اور صلاحیتیں نکھار کر اسے درجۂ کمال تک پہنچائیں۔ تاکہ وہ ایک بہتر، بااخلاق، اور باکردار شخصیت بن سکے، نیک اور خداترس ہو، اپنے گھر اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو، اس کی زبان شیریں ہو، اور اس کا ہر عمل رحمت کا مظہر بن جائے۔

اسلام نے انسان کے تزکیہ کے لیے عبادات کا ایک مکمل نظام دیا ہے، اور فرد کے تزکیہ کے لیے رمضان میں روزے فرض کیے گئے۔ آیئے اب اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ روزوں اور رمضان کے ذریعے انسان اپنا تزکیہ کیسے کرتا ہے؟

ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر انسان کی دو شخصیتیں ہوتی ہیں: ایک ظاہری شخصیت، جو اس کے رنگ و رُوپ، لباس اور جسمانی خدوخال میں نظر آتی ہے، اور ایک باطنی شخصیت، جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی، مگر اس کی سوچ، رویے اور اعمال کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ عام طور پر انسانوں کی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ ظاہری شخصیت پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، مگر اپنی باطنی شخصیت کو سنوارنے کی طرف ان کا ذہن نہیں جاتا۔ حالانکہ ظاہری حسن وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتا ہے، جب کہ باطنی حسن وقت کے ساتھ نکھرتا اور بڑھتا چلا جاتا ہے۔ انسان کی شخصیت کی حقیقی جاذبیت اور کشش اس کی باطنی شخصیت میں ہوتی ہے۔ اسی کو نکھارنے اور سنوارنے کی ضرورت ہے۔ رمضان اور روزہ اس عمل میں بہترین مدد فراہم کرتے ہیں، کیونکہ یہ انسان کو اپنے باطن کی اصلاح کا موقع دیتے ہیں۔

چند لمحوں کے لیے ایک شفاف شیشے کے انسان کا تصور کیجیے، جو اندر سے بالکل صاف اور نمایاں ہو، جس کے اندر دو مختلف کیفیات ہوسکتی ہیں:

  • پہلا منظر: ایک ایسا شیشے کا انسان، جس کے باطن میں نفرت اور خباثت کی آمیزش ہو۔ اندر کنکر، پتھر، زہریلے کیڑے، سانپ، بچھو، چمگادڑیں، خاردار جھاڑیاں، اور سوکھی ہوئی لکڑیوں کا چورا بکھرا ہو۔ یہ جب بولتا ہے، تو اس کے الفاظ نشتر بن کر چبھتے ہیں، کبھی بچھو کی طرح ڈنک مارتے ہیں، کبھی سانپ کی پھنکار بن جاتے ہیں۔ یہ جب کسی کو دیکھتا ہے، تو نفرت اور تعصب کی عینک سے دیکھتا ہے، جب کسی سے برتاؤ کرتا ہے، تو سامنے والے کو زخمی کردیتا ہے۔ اس کی موجودگی سے محبت اور سکون نہیں، بلکہ گھٹن اور اذیت پھیلتی ہے۔
  • دوسرا منظر: ایک اور شفاف شیشے کا انسان، مگر اس کے باطن میں نرمی، شفقت اور روشنی ہے۔ اس کے اندر خوشبودار پھول، نرم و نازک پنکھڑیاں، چمکدار موتی، جگمگاتے ہیرے، رنگ برنگی تتلیاں، اور نورانی کرنیں ہیں۔ یہ جب بولتا ہے، تو اس کے الفاظ دلوں کو سکون دیتے ہیں۔ جب یہ کسی کو دیکھتا ہے، تو محبت، خیر اور روشنی کے زاویے سے دیکھتا ہے۔ جب یہ کسی سے معاملہ کرتا ہے، تو اس پر خوشبو نچھاور کر دیتا ہے۔

ان دونوں میں پہلا شخص وہ ہے جس نے اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کیا، جب کہ دوسرا شخص وہ ہے، جس نے اپنے باطن کی صفائی پر محنت کی ہے۔ رمضان اسی تزکیے کا مہینہ ہے، تاکہ ہم اپنے اندر چھپے زہریلے خیالات اور رویوں سے نجات حاصل کر سکیں۔

روزے کا اصل مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں، بلکہ اپنے نفس کی تربیت اور اخلاق کی تہذیب ہے۔ روزے میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ جھوٹ سے بچیں، کسی سے جھگڑا نہ کریں، اور اگر کوئی جھگڑنے آئے، تو نرمی سے جواب دیں: ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔ روزہ نگاہوں کی حفاظت، زبان کی شائستگی، اور بُرے خیالات کو روکنے کی مشق ہے۔ یہ ایک ڈھال ہے، جو جہنم کی آگ سے بچانے والی ہے۔ (ترغیب و ترہیب)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ ‌لَمْ ‌يَدَعْ ‌قَوْلَ ‌الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهٖ فَلَيْسَ لِلهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهٗ وَشَرَابَهٗ (صحیح البخاري)’’جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور جھوٹے کام کرنے نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس سے بھی کوئی سر وکار نہیں ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑے! (یعنی جب وہ روزہ کا مقصد پورا نہیں کرتا تو بھوکا پیاسا رہنے کی کیا ضرورت ہے ؟)

رمضان وہ موقع ہے جب ہم اپنے اندرونی کانٹوں کو کم کر سکتے ہیں، اپنے دل کے زہریلے سانپ اور بچھو ختم کر سکتے ہیں، اور اپنی ذات میں نرمی، روشنی اور خوشبو پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ محض خواہشات سے ممکن نہیں، بلکہ شعوری کوشش اور محنت کا تقاضا کرتا ہے۔

رمضان ایک خزانوں کے حصول (Treasure Hunt) کا مہینہ ہے۔ اس میں تزکیے اور تربیت کی کنجی موجود ہے، مگر یہ صرف انھی خوش نصیبوں کو ملتی ہے، جو اسے تلاش کرتے ہیں۔

باطنی پاکیزگی اور رمضان کی روح

انسان کی اصل حقیقت اس کا باطن ہے۔ اس کی نیت، اس کے خیالات، اس کے دل کی کیفیات، وہ چیزیں ہیں جو اللہ کے ہاں میزان میں تولی جائیں گی۔ روزہ اسی باطن کی تطہیر کا ذریعہ ہے، تاکہ انسان صرف ظاہری پرہیزگاری تک محدود نہ رہے، بلکہ اس کی باطنی شخصیت بھی نورانیت اور تقویٰ سے مزین ہو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا درحقیقت باطنی اصلاح اور نفس کے تزکیے کی بہترین التجا ہے:اَللّٰهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِيْ مِنَ النِّفَاقِ ، وَعَمَلِيْ مِنَ الرِّيَاءِ ، وَلِسَانِيْ مِنَ الْكَذِبِ ، وَعَيْــنِيْ مِنَ الْخِيَانَةِ ، فَإنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ’’اے اللہ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریاکاری سے، میری زبان کو جھوٹ سے، اور میری آنکھوں کو خیانت سے پاک کردے، کیونکہ تو جانتا ہے کہ آنکھوں کی خیانت کیا ہے اور سینوں میں کیا چھپا ہے‘‘۔(الدعوات الکبیرہ، للبیہقی)

اس دعا میں رمضان کے مقاصد کی اصل روح کو بیان کیا گیا ہے۔ روزہ صرف کھانے پینے سے رُک جانے کا نام نہیں، بلکہ یہ خود کو نفاق، ریا، جھوٹ اور خیانت سے پاک کرنے کا ایک تربیتی عمل ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: قُلِ اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً (رواہ الترمذی)’’اے اللہ! میرے باطن کو میری ظاہری حالت سے بہتر بنادے، اور میری ظاہری حالت کو صالح اور درست کر دے‘‘۔

یہ وہی چیز ہے جس کا رمضان میں تزکیہ مطلوب ہے۔ انسان اکثر ظاہری دین داری کا اہتمام تو کرتا ہے، لیکن اس کا باطن حسد، کینہ، غرور، تکبر، اور فخر کی آلودگیوں سے بھرا رہتا ہے۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے باطن کو اپنے ظاہر سے بہتر کرنے پر محنت کریں۔ جب کوئی شخص سحری سے لے کر افطار تک کھانے پینے سے رک سکتا ہے، تو وہ اپنی زبان کو جھوٹ سے، دل کو کدورت سے، اور آنکھوں کو خیانت سے کیوں نہیں روک سکتا؟

حدیث کے آخری جملے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِي النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالأَهْلِ وَالْوَلَدِ غَيْرِ الضَّالِّ وَلاَ الْمُضِلِّ(رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث غریب)’’اے اللہ! میں تجھ سے وہ بھلائیاں مانگتا ہوں، جو تو لوگوں کو مال، اہل و عیال اور اولاد کی صورت میں عطا فرماتا ہے، مگر ایسا رزق اور ایسی نعمتیں نہ ہوں جو گمراہی میں ڈال دیں یا گمراہ کر دیں‘‘۔

یہ رزق اور نعمتوں کے بارے میں ایک حسین توازن کی دعا ہے۔ آج ہم اکثر مال، عہدے، شہرت اور ترقی کی دعائیں مانگتے ہیں، مگر اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ چیزیں ہمارے لیے باعثِ خیر ہوں گی یا فتنے کا سبب بنیں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھا رہے ہیں کہ صرف دنیا نہیں مانگنی چاہیے، بلکہ خیر والی دنیا مانگنی چاہیے۔

رمضان کا حقیقی مقصد یہی تزکیہ ہے کہ انسان اپنے باطن کو پاک کرے، ریاکاری کو ختم کرے، جھوٹ سے بچے، اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرے، اور ایسی دنیا مانگے جو اسے گمراہی سے بچائے، نہ کہ گمراہ کرے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی اندرونی شخصیت کا جائزہ لیں۔ کیا ہمارے اندر نفاق، ریا، جھوٹ، اور خیانت کی جھلک ہے؟ کیا ہمارا باطن اور ظاہر یکساں ہیں؟ کیا ہم جو مانگ رہے ہیں، وہ ہمارے لیے خیر کا سبب بھی ہے یا صرف دنیا کی چمک دمک کا فریب؟ اگر ہم نے رمضان میں اپنے اندرونی سانپ اور بچھو ختم نہ کیے، اگر ہم نے اپنے باطن کی کثافتوں کو دور نہ کیا، اگر ہم نے اپنی نیت میں اخلاص پیدا نہ کیا —تو پھر روزہ محض بھوک اور پیاس رہ جائے گا، اور اس کا حقیقی فائدہ ہم حاصل نہیں کر سکیں گے۔ہم سب کو چاہیے کہ اس رمضان میں کوشش کریں:

  • اپنی نیتوں کو خالص کریں
  • اپنے دل کو نفاق اور کدورت سے پاک کریں
  • اپنی زبان کو سچائی اور شائستگی کا خوگر بنائیں
  • اپنی آنکھوں کو خیانت سے محفوظ کریں
  • مال اور دنیا کی بھلائی ضرور مانگیں، مگر ایسی جو ہمیں اللہ سے قریب کرے، دُور نہ کرے۔

اصلاح ذات کے دو پہلو

اس مضمون میں ذاتی تربیت کے لیے دو اہم نکات پر توجہ دی جائے گی۔ ان میں ایک برائی ایسی ہے جس کے اثرات زیادہ تر فرد کی ذات تک محدود رہتے ہیں، جب کہ دوسری برائی سے نہ صرف فرد بلکہ اس کا خاندان اور نسلیں متاثر ہوتی ہیں۔

بظاہر، پہلی برائی صرف فرد تک محدود دکھائی دیتی ہے، مگر یہ سماجی اور اخلاقی سطح پر بھی اپنا ایک اثر ضرور چھوڑتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص سگریٹ نوشی کرتا ہے تو اس کے بُرے اثرات اَن دیکھے نہیں ہوتے، مگر اس کے رویے سے ماحول پر ایک غیر محسوس اثر ضرور پڑتا ہے۔ اگر وہ خالی سگریٹ کے پیکٹ سڑک پر پھینک دیتا ہے، تو یہ شاید ماحولیات (Ecology) کو زیادہ نقصان نہ پہنچائے، لیکن نئی نسل کے لیے یہ ایک اخلاقی پیغام ضرور چھوڑے گا اور سماجی اخلاقیات کو ضرور متاثر کرے گا ۔ جو چیز ہمیں بار بار نظر آتی ہے، وہ ہمارے لاشعور میں گھر کر جاتی ہے۔ بچے اور نوجوان جب بار بار یہ مناظر دیکھتے ہیں، تو ان میں سگریٹ نوشی کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے، خاص طور پر وہ جو خود پر قابو پانے میں کمزور ہوتے ہیں۔ اسی طرح، اگر کسی شخص میں نمائشی مزاج پایا جاتا ہے، تو وہ بظاہر کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہا، مگر معاشرے میں نمائشی طرزِ زندگی کا ایک خاموش مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ پھر لوگ یہ سمجھے بغیر کہ اس دوڑ کا آغاز کہاں سے ہوا، اس میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔

دوسری طرف، کچھ برائیاں ایسی ہیں، جن کے اثرات براہ راست قریبی رشتوں پر پڑتے ہیں، اور ان سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ مثلاً، اگر کوئی شخص مار پیٹ کا عادی ہو، تو وہ صرف اپنی شخصیت کا نقصان نہیں کرتا بلکہ اپنے گھر کے ماحول کو زہر آلود بنا دیتا ہے۔ اس کے بیوی اور بچے اس کے ظلم کا شکار بنتے ہیں، اور یہ سلسلہ اکثر اگلی نسل تک منتقل ہو جاتا ہے۔ گھر میں موجود بچے اس رویے کو دیکھ کر خود بھی جبر اور تشدد کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پھر جب وہ اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں، تو اسی رویے کو دُہراتے ہیں، اور یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

یہ ہیں وہ دو خرابیاں جن کے ازالے کے بغیر تزکیہ ناممکن ہے۔ ان سے چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں ’ریوڑ ذہنیت‘ (Herd Mentality) سے نکل کر سوچنا ہوگا۔ یعنی وہ اجتماعی رویہ جس میں لوگ سوچے سمجھے بغیر دوسروں کے پیچھے چل پڑتے ہیں، اس سے ہٹ کر ہمیں شعوری بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ رمضان اسی بیداری کا نام ہے، تاکہ ہم نہ صرف اپنی ذات کی اصلاح کریں بلکہ معاشرے پر بھی مثبت اثر ڈال سکیں۔

اندرون کی اصلاح

رمضان المبارک ایک زریں موقع فراہم کرتا ہے کہ انسان اپنی ذات کے اندر جھانک کر یہ دیکھے کہ اس کا باطنی وجود کس حالت میں ہے؟ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل و دماغ کی گلیوں میں گرد و غبار جمی ہے، جذبات میں کدورتیں بسی ہیں، سوچ پر منفی خیالات کا پہرہ ہے، اور نفس میں ایسی اُلجھنیں سرایت کر چکی ہیں جو انسان کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ بعض لوگ غصّے اور تشدد کے غلام ہوتے ہیں، کچھ شہوت اور نفس پرستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بعض کو احساسِ برتری کا روگ لگ جاتا ہے، اور کچھ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر اپنی شخصیت کو مفلوج کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ دولت کی محبت میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ حقوق العباد کی ادائیگی بھول جاتے ہیں، جب کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اذیت دے کر سکون محسوس کرتے ہیں۔کوئی اپنے حسن کے غرور میں مبتلا ہے، تو کسی کو اپنے خاندان کی طاقت، شہرت اور پھیلائو پر ناز ہے۔ کچھ لوگ کسی کی مستقل دشمنی پال کر رکھتے ہیں، اور کچھ بددیانتی کو اپنا حق سمجھ بیٹھتے ہیں۔ بعض افراد اپنی کمزوریوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھیراتے ہیں، جب کہ افراد میں کچھ لوگ دین کے کام میں دوسروں کی خامیوں کو بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

تزکیہ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان باطنی آلودگیوں کو پہچانے اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے خود احتسابی کرے۔ یہ اور اس جیسے کئی رویے اور عادات ہیں جن سے نکلے بغیر حقیقی تزکیہ ممکن نہیں۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے باطن کا محاسبہ کریں، اپنی اصلاح کریں، اور اپنی زندگی میں وہ پاکیزگی پیدا کریں جو ہمیں اللہ کے قریب لے جائے۔

خود احتسابی: وہ برائیاں جو خود کو نظر نہیں آتیں

انسان کے مزاج میں بعض ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں، جن کے اثرات بظاہر دوسروں پر نمایاں نہیں ہوتے، مگر وہ اس کی شخصیت کی تعمیر اور باطنی ترقی کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر دیتی ہیں،  جیسے خود پسندی، نمایشی مزاج، معمولی باتوں پر غصہ، بے جا حسد، وقت ضائع کرنے کی عادت، یا دوسروں کی کامیابیوں پر دل میں ناپسندیدگی محسوس کرنا۔ یہ وہ خامیاں ہیں جو بظاہر معاشرے پر براہِ راست اثر نہیں ڈالتیں، مگر فرد کی سوچ، رویے اور فیصلوں کو متاثر ضرور کرتی ہیں۔ بسااوقات فرد محسوس نہیں کرتا کہ اس کے وہ منفی رویے اس کے تعلقات کو خراب کرنے، کامیابی کی منزلوں کو دُور کرنے، اور ذہنی سکون پر ڈاکا ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ اصل میں فرد کی ناپسندیدہ عادتیں ہی اسے نقصان پہنچاتی ہیں ۔ اکثر لوگ ان خرابیوں کو محسوس ہی نہیں کرتے کیونکہ یہ آہستہ آہستہ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں، اور جب تک انسان خود شعوری کوشش نہ کرے، وہ انھیں اپنے وجود سے الگ نہیں کر سکتا۔ رمضان خود احتسابی کا مہینہ ہے، اس موقع پر ہم ان نظر نہ آنے والی کمزوریوں پر غور کریں اور ان سے باہر نکلنے کی راہ تلاش کریں۔

ان اندرونی کمزوریوں سے باہر نکلنے کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان خود آگاہ ہو، یعنی اپنے مزاج کو سمجھے اور اس کا تجزیہ کرے۔ اس کے لیے روزانہ رات کو چند لمحے نکال کر اپنا محاسبہ کیا جائے کہ آج کے دن کیا میں نے کسی موقع پر خود پسندی دکھائی؟ کیا میں نے وقت ضائع کیا؟ کیا میں نے کسی کی برتری کو دل میں ناگوار محسوس کیا؟ کیا میں نے اخلاقی رزائل کو دبے پاؤں اپنے اندر آنے کی آہٹ کو محسوس کیا ؟کیا میں سگرٹ نوشی کی عادت چھوڑ سکتا ہوں؟ کیا میں اپنے اسکرین ٹائم کو کم کر سکتا ہوں؟ کیا میں موبائل فون کی لت سے باہر آ سکتا ہوں؟ یہ سوالات انسان کو اپنی خامیوں کا شعور دیں گے اور بہتری کی راہ کھولیں گے۔

دوسرا قدم چھوٹے چھوٹے عملی اقدامات ہیں۔ اگر کوئی شخص جلد غصے میں آتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ رمضان میں ضبطِ نفس کی مشق کرے اور اپنے ردعمل کو سنوارنے کے لیے خاموش رہنے اور برداشت کرنے کی عادت اپنائے۔ اگر کوئی دوسروں کی کامیابیوں سے حسد محسوس کرتا ہے، تو وہ شعوری طور پر دوسروں کے لیے دعا دینے اور ان کی کامیابی پر خوش ہونے کی عادت ڈالے۔ اسی طرح اگر کوئی وقت ضائع کرنے کی عادت کا شکار ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ہر دن کا ایک ہدف مقرر کرے اور دن کے آخر میں جائزہ لے کہ اس نے وقت کیسے گزارا؟ اگر وہ اخلاقی رذائل جیسے جھوٹ، بے شرمی، بے حیائی، لڑائی جھگڑا اپنے اندر پاتا ہے تو اسے چاہیے کہ منصوبہ بند طریقے سے بیک وقت ایک ایک بُرائی سے بچنے کی کوشش کرے۔ اگر موبائل فون کا کثرت سے بے جا استعمال ہو رہا ہو تو اس کے مفید استعمال کے طریقوں کو سیکھنے کا اہتمام کرے اور رمضان تبدیلی کا بہترین موقع ہے۔

شناخت کا تضاد ( Cognitive Dissonance)

انسان کی شخصیت میں موجود غیر محسوس برائیاں اکثر لاشعوری سطح پر پروان چڑھتی ہیں۔ مشہور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر کارل راجرز (Carl Rogers) کے Self-Concept Theory کے مطابق، ہر انسان کے اندر ایک ’اپنی حقیقی ذات‘ (Real Self) اور ایک ’اپنی مثالی ذات‘ (Ideal Self) موجود ہوتی ہے۔ اگر دونوں میں زیادہ فرق ہو، تو انسان اندرونی بےچینی اور عدم اطمینان کا شکار ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک شخص اپنے آپ کو بہت منظم اور باوقار سمجھتا ہے، مگر عملی زندگی میں وہ وقت ضائع کرتا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرتا ہے، یا خود پسندی میں مبتلا ہوتا ہے۔ جب اس کا اصل رویہ اس کے خیالی تصور سے میل نہیں کھاتا، تو وہ یا تو اپنے رویے کو درست کرتا ہے یا خود کو دھوکا دینے لگتا ہے۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی اصل شخصیت اور اپنے مثالی تصور کے درمیان فرق کو کم کریں، تاکہ ہماری شخصیت میں بے چینی اور داخلی تضاد ختم ہو، اور پُرسکون زندگی گزار سکیں۔

مشہور ماہرِ نفسیات لیون فیسٹنگر (Leon Festinger) نے Cognitive Dissonance Theory پیش کی، جس کے مطابق جب انسان کے عقائد، رویے اور اعمال میں تضاد ہوتا ہے، تو وہ اندرونی بےچینی (psychological discomfort) محسوس کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک شخص اپنے آپ کو دُنیا کے سامنے ایمان دار فرد کے طور پر پیش کرتا ہے اور پھر یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ واقعی ایمان دار ہے، مگر دوسری طرف معمولی مواقع پر جھوٹ بولتا ہے، یا اپنے آپ کو نیک اور خدا ترس جانتا ہے، مگر دوسروں کی برائی کرتا ہے یا حسد میں مبتلا ہوتا ہے، تو اس کے لاشعور میں ایک ذہنی تصادم پیدا ہوتا ہے، جو یا تو اسے اپنی غلطیوں کو درست کرنے پر مجبور کرتا ہے یا پھر اسے خود فریبی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

یہ ذہنی تضاد ہماری روزمرہ زندگی میں کئی جگہوں پر نمایاں نظر آتا ہے۔ ہم چاہتے کچھ اور ہیں، مگر کرتے کچھ اور ہیں۔ مثال کے طور پر، عورتیں دوسروں کے بچوں سے نرمی اور محبت سے پیش آتی ہیں، مگر اپنے ہی بچوں پر سختی برتتی ہیں۔ مرد مجلسوں میں عورتوں کے حقوق پر پُرجوش تقاریر کرتے ہیں، مگر اپنے گھروں میں بیوی کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ واعظین دینداری اور ایمانداری کی تلقین کرتے ہیں، مگر خود ان کے ادارے ان کے اصولوں کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ مقررین امت میں اتحاد کا درس دیتے ہیں، مگر ذاتی ملاقاتوں میں مسلکی تعصب اور گروہی وابستگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک شہر میں اتحاد امت کا ایک عظیم جلسہ ہوا۔ اس جلسے میں ایک مکتب فکر کے مولانا نے بہت اچھی تقریر کی۔ کچھ دنوں کے بعد منتظمین کی جماعت سے کچھ لوگ ان کی مسجد میں گئے اور ان سے کہا کہ آپ کی مسجد میں ہم ایک پروگرام کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا نے ارشاد فرمایا کہ میں تمھارے اسٹیج پر جلوہ افروز ہوا، اس پر اکتفا کریں۔ اتحاد کے مظہر کے طور پر اگر ہماری مسجد میں آپ لوگوں کا کوئی جلسہ ہوگا تو میرے مقتدی خفا ہو جائیں گے اور اس مسجد میں ہمارا کنٹرول ختم ہو جائے گا۔

یہ تضادات Cognitive Dissonance کا عملی مظہر ہیں، جہاں انسان اپنی اصلی شخصیت اور اپنے ظاہری نظریات کے درمیان تضاد سے دوچار ہوتا ہے۔ ان تضادات کو ہمیں سمجھنے اور ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ قول و فعل میں ہم آہنگی ہی اصل اخلاقی خوبصورتی ہے۔ رمضان وہ وقت ہے جب انسان کو ان تضادات کا سامنا کر کے، اپنی اصل شخصیت کو اپنے اخلاقی اور روحانی نظریات کے قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ہمارے خیالات، رویے اور اعمال میں ہم آہنگی پیدا ہو اور ہم اندرونی سکون حاصل کر سکیں۔

شناخت کے تضاد کو دُور کرنا

ماہرین نفسیات کے مطابق شناخت کے تضاد (Cognitive Dissonance) کو دُور کرنے کے لیے انسان کو یا تو اپنے رویے میں تبدیلی لانی پڑتی ہے، یا اپنے خیالات اور عقائد کو نئے طریقے سے ترتیب دینا پڑتا ہے، تاکہ اس کے ذہن میں تضاد ختم ہو اور وہ داخلی سکون حاصل کر سکے۔

اس بےچینی سے نجات کے لیے وہ تین طریقے اختیار کر سکتا ہے:

  • یا تو اپنا رویہ بدل لے (مثلاً، اگر وہ دیانت داری کو اچھا سمجھتا ہے تو خود بھی دیانت داری اختیار کرے)۔
  • یا اپنے نظریے میں نرمی پیدا کر لے (مثلاً، خود کو یہ کہہ کر مطمئن کر لے کہ آج کے زمانے میں یہ ممکن نہیں جب حالات بدل جائیں گے تو میں بھی بدل جاؤں گا)۔
  • یا اپنے اعمال اور نظریات میں ایک نیا ربط تلاش کرے (مثلاً، کسی برے عمل کے لیے کوئی جواز گھڑ لے اور کہے کہ یہ میری مجبوری ہے مجھے رعایت ملنی چاہیے)۔

اصل کامیابی تب ہوتی ہے جب انسان اپنے تضاد کو جواز دینے کے بجائے، اپنے رویے کو اپنی اصل اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔

شناخت کے تضاد کو ختم کرنے کے لیے عملی طریقے

۱- اپنے اعمال کا تجزیہ کریں –۔ اس رمضان میں کسی دن چند لمحے نکال کر یہ سوچیں کہ کیا میں واقعی وہی شخص ہوں جس کا میں دعویٰ کرتا ہوں یا جو عام طور پر میرے قدردان مجھے سمجھتے ہیں؟

۲-  اپنے نظریات کو اپنے عمل سے قریب کریں۔ – اگر آپ انصاف، دیانت، اور محبت کے قائل ہیں، تو اپنی زندگی میں ان کو عملی طور پر اپنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ بچوں کی تربیت کی بات کرتے ہیں تو ان پر وقت صرف کریں۔ اُوپر مذکور مثال میں کبھی کبھی اپنی مسجد میں دیگر مکتب فکر کے عالم دین سے خطبہ دینے کی گزارش کریں یا کسی جلسے کے بہانے انھیں اظہارِ خیال کا موقع دیں۔

الغرض اس رمضان میں ہماری کوشش ہو کہ ہم ’اپنی حقیقی ذات‘ (Real Self) اور اپنی  ’مثالی ذات‘ (Ideal Self) میں ہم آہنگی پیدا کرلیں۔ – اپنی اصل شخصیت کو مثالی شخصیت کے قریب لے آئیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ بہتری پیدا کرنے کے لیے تدریجی اور منصوبہ بند کوشش کرنی چاہیے۔ 

تباہ کن رویوں کے تواتر کو ختم کرنا

ابتدا میں ہم نے یہ ذکر کیا تھا کہ بعض افراد ایسے متشدد رویوں کے عادی ہوتے ہیں، جن کے اثرات صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ان کا پورا خاندان متاثر ہوتا ہے اور یہ رویے نسل در نسل منتقل ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل بے نتیجہ نہیں ہوتا، اور اس کا ہر رویہ دوسروں کے لیے ایک پیغام بن جاتا ہے، —چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا۔

گھر میں شوہر کا اپنی اہلیہ سے سلوک درحقیقت اس کے بچوں کے لیے ایک خاموش پیغام ہوتا ہے۔ مائیں بھی بعض اوقات بچوں کے ساتھ نرمی، ہمدردی اور شائستگی سے پیش آنے کے بجائے سختی اور درشتی اختیار کر لیتی ہیں، جو ان کی نفسیاتی نشوونما پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ نفسیات کا اصول کہتا ہے کہ ’’انسان چاہے بولے یا خاموش رہے، اس کے الفاظ، حرکات و سکنات اور طرزِ عمل ہمیشہ دوسروں تک کوئی نہ کوئی پیغام ضرور پہنچاتے ہیں‘‘۔ اسی طرح، کسی بھی فرد کے اعمال کا ایک انجام ہوتا ہے۔ اگر گھر میں حُسنِ سلوک اور محبت کا رویہ ہو تو اس کا نتیجہ ایک خوش حال اور پُرامن خاندان کی صورت میں نکلتا ہے، جہاں بیوی بچوں کی دعائیں اور محبتیں نصیب ہوتی ہیں۔ ایسے گھروں میں پروان چڑھنے والے بچے والدین کے لیے نیک نامی کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اگر رویہ سخت اور ظالمانہ ہو، تو یہی قریبی رشتے نفرت کا شکار ہو جاتے ہیں، اور بعض اوقات اس کے اثرات نسلوں تک پھیل جاتے ہیں۔

میرے پاس ایسے بے شمار کیسز آتے ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو شدید ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا سامنا ہوتا ہے، کیونکہ ان کے والدین نے گھریلو تشدد کو معمول بنا رکھا تھا، یا بچوں پر شدید دباؤ ڈالتے ہیں، یا ان کے مطالبے انتہائی سخت ہوتے ہیں۔ بعض نے اپنی ماؤں کو پٹتے دیکھا اور بڑے ہو کر وہی عمل اپنی زندگی میں دہرایا۔ اب جب ان کی شادی ہونے کو ہے، تو وہ اس عادت سے نجات حاصل کرنے کے لیے بے حد فکر مند ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گھر کے بچے جو کچھ اپنے بچپن میں دیکھتے، سہتے اور محسوس کرتے ہیں وہ لاشعور میں ثبت ہو کر شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر اس رویے کو درست نہ کیا جائے، تو یہی زنجیر نسل در نسل منتقل ہو کر ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ بن جاتی ہے۔

اس کی بے شمار مثالیں میرے پاس موجود ہیں۔یہاں ایک لڑکے کی کہانی نقل کی جاتی ہے جو شدید ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس نے اپنی کہانی یوں بیان کی ہے:

میری والدہ ایک تعلیم یافتہ اور خوشحال خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، جب کہ میرے والد بالکل اَن پڑھ اور غریب خاندان سے تھے۔ دونوں کے درمیان ذہنی مطابقت نہیں تھی۔ میرے والد میری والدہ پر ذرا ذرا سی بات پر تشدد کرتے تھے۔

ایک مرتبہ ہم دوسرے شہر جا رہے تھے کہ راستے میں میرا پیٹ خراب ہوگیا تھا۔ جیسے ہی ہم کسی بستی میں پہنچے، میری والدہ نے والد سے کہا کہ بس اسٹینڈ پر رک کر مجھے دھو لیں۔ والد نے بس رکوا دی، لیکن جب وہ مجھے صاف کر رہی تھی، تو بس والا چلا گیا۔ والدہ نے والد سے پوچھا کہ بس والا کہاں ہے؟ تو والد نے کہا کہ وہ تو چلا گیا اور میں نے اس سے باقی کے پیسے واپس لے لیے ہیں۔ یہ کہہ کر میرے والد نے والدہ کو اتنے زور سے طمانچہ مارا کہ وہاں موجود لوگ دیکھنے لگے۔

یہی سب ہوتا رہا، اور جیسے جیسے ہم بڑے ہوئے، ہم بھی اپنی والدہ کے لیے سہارا بننے کے بجائے انھیں مارنے لگے۔ میں خود کئی بار اپنی ماں کی لیٹی ہوئی چارپائی پلٹ چکا ہوں، کئی بار دودھ کے برتن پھینک کر مارے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں میری والدہ کو شوگر ہو گئی۔ ایک دن میری نانی انھیں ہسپتال لے گئیں، تو ڈاکٹر نے شوگر لیول چیک کیا، جو اتنا زیادہ تھا کہ وہ چھوٹی مشین میں آ ہی نہیں رہا تھا۔ بڑی مشین سے چیک کیا تو اتنا زیادہ نکلا کہ فوراً ICU میں داخل کر دیا گیا۔ والد ہسپتال آئے اور زور زور سے چلّانے لگے کہ یہ کھانا بنانے سے بچنے کے بہانے کر رہی ہے۔ ایک دن فجر کے بعد میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ مگر ان کے انتقال سے ایک روز پہلے بھی میرے والد نے اُن سے درشتی اور سنگ دلی سے طعنہ زنی کی جس پر میرا جی چاہا کہ میں اپنے والد کو جان سے مار ڈالوں۔

طویل خط کا ایک مختصر حصہ یہاں پیش کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو اس گہرے نفسیاتی مسئلے کی نشاندہی ہو، جسے Intergenerational Transmission of Trauma یعنی ’نسلی صدمے کی منتقلی‘ کہا جاتا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد وہ صدمات ہیں جو ایک نسل کے تجربات سے پیدا ہوتے ہیں اور اگلی نسلوں پر نفسیاتی اور جسمانی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

یہ منتقلی مختلف ذرائع سے ہوتی ہے، جن میں خاندانی رویے اور حرکیات (Family Dynamics) بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ باپ کس طرح کا رویہ اپناتا ہے، ماں کا کردار کیا ہوتا ہے، اور والدین کے درمیان ہونے والی گفتگو اور رویے کس انداز میں بچوں پر اثر ڈالتے ہیں؟ یہاں تک کہ یہ عمل حیاتیاتی طور پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، جہاں اسٹریس ہارمونز (Stress Hormones) اور دیگر نفسیاتی عوامل نسل در نسل منتقل ہو سکتے ہیں۔

اس موضوع پر ماہرین نفسیات یھیل ڈینیئلی (Yael Danieli) اور جینیٹ نیبٹ (Janet Nebbit) نے تفصیلی تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق، اگر ایک نسل کسی تکلیف دہ تجربے (جیسے تشدد، ظلم، یا ذہنی دباؤ) سے گزرتی ہے، تو وہ شعوری یا لاشعوری طور پر یہی رویے اگلی نسل میں منتقل کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی بچہ بچپن میں والدین کے تشدد کا مشاہدہ کرتا ہے، تو اس کے اندر بھی یہی رویہ پروان چڑھنے لگتا ہے، اور بعد میں وہ اپنے تعلقات میں اسی طرزِ عمل کو دُہراتا ہے۔

اُوپر کے خط میں آپ نے دیکھا کہ بچوں میں بھی تشدد کا رجحان غیر شعوری طور پر جڑ پکڑ لیتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بیٹا خود اپنے باپ پر تشدد کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ نفسیات میں اس عمل کو Coping Mechanisms یعنی ’مقابلہ کرنے کی حکمت عملی‘ کہا جاتا ہے۔ جب گھر کا ماحول مسلسل خراب رہتا ہے، تو بچے اسی ماحول میں جینے کے لیے ڈرے سہمے خاموش، بے زبان ہو جاتے ہیں اور زندگی کے کسی معاملے میں فیصلہ لینے کی ان کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے یا وہ اسی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ مار پیٹ اور تشدد ایک عام سی بات بن جاتی ہے، اور بچے اپنے والدین کے طرزِ عمل کی نقل کرتے ہوئے یا تو جارحیت اختیار کرتے ہیں یا بالکل خاموش اور اجتناب کی راہ اپنا لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، وہ اپنے تعلقات میں بھی انھی رویوں کو دُہرانے لگتے ہیں۔

نسلی صدمے سے متاثرہ بچوں میں نفسیاتی پیچیدگیاں

  • جذباتی مسائل اور ذہنی دباؤ: یہ بچے شدید اضطراب (Anxiety)، افسردگی (Depression)، اور احساسِ جرم (Guilt) میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اگر یہ کیفیت مزید بڑھ جائے، تو خودکشی کے خیالات (Suicidal Thoughts) بھی جنم لے سکتے ہیں۔
  • سماجی رویوں میں مسائل: یہ بچے سماجی طور پر غیر موزوں رویے اپناتے ہیں اور اسکول میں ان کا برتاؤ اساتذہ، ساتھی طلبہ، اور اسکول مینجمنٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔

ان میں غیر مہذب رویہ، جھگڑالو طبیعت، یا بالکل تنہائی پسندی پیدا ہو سکتی ہے۔

  • رشتے بنانے میں مشکلات:ان بچوں کے لیے دوسروں سے صحت مند تعلقات بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔چونکہ بچوں کے لیے پہلا رشتہ والدین کے ساتھ ہوتا ہے، اور اگر یہ رشتہ تلخیوں اور تشدد سے بھرا ہو، تو وہ اسی طرزِ عمل کو دوسرے تعلقات میں بھی دہرانے لگتے ہیں۔

یہ تمام مسائل درحقیقت وہی نفسیاتی زخم ہیں جنھیں والدین نے اپنی نسل میں حل نہیں کیا، اور اس کی لعنت بچے بھگتتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے، جب تک کہ کوئی شعوری طور پر اس سائیکل کو توڑنے کا فیصلہ نہ کرے۔

رمضان میں تشدد کی زنجیروں کو توڑنا آسان ہے

ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں۔اس موقع پر آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس مسئلے کا رمضان سے کیا تعلق ہے؟

اس موضوع کو چھیڑنے کا مقصد یہ ہے کہ اکثر لوگ رمضان کو محض نیکیاں کمانے اور ثواب جمع کرنے کا مہینہ سمجھتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ان کی زندگیوں میں کوئی عملی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ حالانکہ رمضان المبارک شخصیت کی تربیت اور اس کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ روزے داروں کی ایک بڑی تعداد اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہے کہ رمضان ان کی شخصیت کو نیا رُخ دے سکتا ہے، اور ان کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لا سکتا ہے۔

عمومی طور پر خطبے، گفتگو اور تقاریر زیادہ تر ’ثواب تولنے‘ کے تصور پر مرکوز رہتی ہیں، لیکن اس پہلو پر کم ہی زور دیا جاتا ہے کہ رمضان فرد کی شخصیت کو سنوارنے کا ایک نادر موقع ہے۔ یہ مہینہ خود احتسابی اور شعورِ ذات (Self-Awareness) کو بیدار کرنے کے لیے آیا ہے، تاکہ انسان اپنے اندرونی تضادات کو ختم کرے، رویے میں متانت اور بردباری پیدا کرے، برتاؤ میں وقار پیدا ہو، اور وہ اپنے گھر اور معاشرے کے لیے رحمت بن جائے۔

اس کے لیے سب سے پہلی شرط ’شعورِ ذات‘ ہے، —یعنی انسان خود کو سمجھے، اپنی خامیوں اور خوبیوں کو پہچانے، اور اپنی اصلاح کے لیے رمضان کو ایک عملی موقع بنائے، نہ کہ صرف ظاہری عبادات تک محدود رہے۔

نسل در نسل منتقل ہونے والے صدمے سے نجات

اب ہم ان اقدامات پر بات کریں گے جو ایک فرد کو نسل در نسل منتقل ہونے والے صدمات (Generational Trauma) کے چکر کو ختم کرنے اور روحانی و نفسیاتی زخموں سے شفا پانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ یہ ایک نیا سفر ہوگا، جہاں پرانے تشدد اور ظلم کے سلسلے کو روکنا ہوگا اور سائیکل آف وائلنس پر بریک لگانی ہوگی۔

جو شخص ’سائیکل بریکر‘ (Cycle-Breaker) بنے گا، وہ آنے والی نسلوں کی دعاؤں کا حق دار بنے گا۔ لیکن اگر یہ زنجیر نہ توڑی گئی، تو ظلم، تشدد، مار پیٹ اور تذلیل کے رویے کا نقصان دونوں جہانوں میں اٹھانا پڑے گا۔

۱- —یہ رویے اگلی نسلوں کو برباد کر دیں گے، اور ان کی بددعائیں قیامت تک جاری رہیں گی۔

۲- آخرت میں —ہر شخص کو اللہ کے حضور تنہا جواب دہ ہونا ہے، اور اس کا حساب دینا ہے کہ اس نے اپنی نسلوں کے لیے کیسا نمونہ چھوڑا۔

جو فرد اپنے خاندانی پس منظر میں نقصان دہ رویوں اور عادات کو پہچانےگا، جن کی جڑیں مضبوط ہو چکی ہوں اور ان میں مثبت تبدیلی لائے گا، وہ شخص قابل مبارک باد ہے۔ ان شاءاللہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک پُرامن زندگی کی بنیاد رکھ سکے گا۔ اس کے نتیجے میں اس کا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل نسل در نسل منتقل ہونے والے تشدد سے آزاد ہوگا۔

اگلے مرحلے میں، ہم ان نکات پر روشنی ڈالیں گے جو نہ صرف جذباتی صدمے کو پہچاننے میں مدد دیں گے، بلکہ خاندانی پس منظر میں موجود مضبوطی، صبر، اور استقامت کو بھی نمایاں کریں گے۔

سائیکل بریکر: ایک نئی شفا بخش وراثت کی بنیاد

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ذہنی سکون ملے اور اس کے خاندانی تعلقات میں مفاہمت ہو۔ کچھ لوگوں میں یہ خواہش بہت طاقت ور ہوتی ہے، جب کہ کچھ میں یہ احساس مضمحل ہوجاتا ہے۔ ہم اپنی اگلی نسلوں کی جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لیے انتھک محنت کرتے ہیں، لیکن اکثر اپنے رویوں سے ان کی ذہنی صحت پر گہرے منفی اثرات چھوڑ دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ اثرات اس قدر شدید ہو جاتے ہیں کہ وہ زندگی میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔

کچھ عادات اور رویے ایسے ہوتے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں، جیسے:l✔ غیر معمولی غصہ اور تشدد l✔ گھر میں مار پیٹ اور بدزبانی l✔ بچوں پر غیر ضروری سختی اور بے جا دباؤ l✔ بے اعتدالی اور جذباتی بے قابو پن۔

انسانی اَنا اور شیطان ان زنجیروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انسان خدا کا نائب ہونے کا شرف نہ پا سکے۔ مگر جو لوگ ان زنجیروں کو توڑنے کی ہمت کرتے ہیں، وہ درحقیقت ایک شفا بخش وراثت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ان کے مثبت اور خوشگوار رویے خاندان کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے مینارِ نور ثابت ہوں گے۔ جب کبھی زندگی میں مشکلات اور اندھیروں کا سامنا ہو، تو ان کے بچے اپنے والدین کے رویوں سے حوصلہ اور عزم حاصل کریں گے۔

ایسے افراد جو یہ پہلا قدم اٹھاتے ہیں، وہی درحقیقت ’سائیکل بریکر‘ کہلاتے ہیں۔

سائیکل بریکنگ یعنی خاندانی صدمے اور منفی رویوں کے سلسلے کو توڑنا ایک بہت بڑا قدم ہے۔ یہ اس بات کا شعوری فیصلہ ہے کہ ماضی سے چلے آ رہے نقصان دہ رویوں کو ختم کرنا ہے اور ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھنی ہے۔

یہ صرف بقا (Survival) کی کوشش نہیں، بلکہ حقیقی شفا، نشوونما، اور تبدیلی کی طرف ایک مضبوط قدم ہے۔ جو لوگ اس سفر کا آغاز کرتے ہیں، وہ نہ صرف خود کو بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اس تکلیف دہ دائرے سے آزاد کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ محض ایک ذاتی کامیابی نہیں، بلکہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو نسلوں کے لیے شفایابی کا نیا باب کھول سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں گھر اور خاندان میں مثبت تبدیلی آئے گی، جہاں محبت، برداشت اور ہم آہنگی کی فضا پروان چڑھے گی۔

سائیکل بریکنگ میں پہلا قدم: پہچان اور قبولیت

کسی بھی زخم کو بھرنے کے لیے سب سے پہلے اس کا اعتراف ضروری ہے۔ ہمیں اپنی خاندانی روایات اور طرزِ زندگی پر اثر انداز ہونے والی تکلیف دہ حقیقتوں کو پہچاننا اور قبول کرنا ہوگا۔ شفا کا پہلا قدم یہی ہے کہ ہم اپنی اندرونی تکلیفوں اور غلطیوں کا سامنا کریں، ورنہ ہم ان پر قابو نہیں پا سکیں گے۔

لیکن صرف ماضی کے زخموں کو تسلیم کرنا کافی نہیں۔ ہمیں اپنے اندر خیر کی خواہش، خدا کا خوف، اور اپنی اصلاح کی شدید تمنا کو بھی بیدار کرنا ہوگا۔ اپنی غلطی تسلیم کرنا ہمت کا کام ہے، اور جب ایک ہمت کر لی جائے، تو دوسری ہمت آسان ہو جاتی ہے، —یعنی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا عزم۔

ہمارے ماضی کے رویے اور عادتیں ہماری شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں، اور ہمیں خود بھی احساس ہوتا ہے کہ ہمارے کون سے رویے زہریلے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے ساتھی ہماری کسی کمی یا برے رویے کی نشاندہی کریں، تو انا اور ضد ہمیں اسے تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔

رمضان کا روحانی ماحول ایک موقع ہے کہ ہم اپنی ذات میں گہرائی سے جھانکیں اور اپنے آپ سے سوال کریں:

  • کیا میرے اندر غصے، خود پسندی، یا بے حسی کی زنجیریں ہیں؟
  • کیا میں نے اپنے قریبی رشتوں کو اذیت دی ہے؟
  • کیا میں معافی مانگ کر اپنے خاندان کے لیے سکون کا راستہ ہموار کر سکتا ہوں؟

جواب ہمیشہ ہمارے اندر سے آتا ہے، اور وہی حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہی خود آگہی (Self-Awareness) ہے، اور ہر انسان اس صلاحیت سے مالا مال ہے۔ رمضان ہمیں اس شعور کے دروازے پر لے آتا ہے، اب یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم اس دروازے سے گزر کر ایک بہتر انسان بننے کا سفر شروع کریں۔

یونانی مفکر سقراط کے زمانے سے لے کر آج تک ماہرینِ نفسیات اس بات سے متاثر رہے ہیں کہ انسان نہ صرف سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بلکہ یہ بھی جانچ سکتا ہے کہ وہ کس طرح سوچتا ہے اور کیوں ایسے سوچتا ہے؟ آج کے دور میں، یہی خود آگہی کی صلاحیت (Self-Awareness) عصبی سائنس (Neuroscience) کا میدانِ تحقیق بن گئی ہے ۔اس سوچنے کے عمل کو میٹا کگنیشن (Metacognition) کہا جاتا ہے۔

یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں ہم اپنی کہانی کو ایک نئے زاویے سے لکھ سکتے ہیں اور ایک بہتر زندگی کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس سفر میں خود آگہی (Self-Awareness) سب سے مؤثر ذریعہ ہے، اور جرنلنگ (Journaling) اس کا بہترین عملی طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔

جرنلنگ: اپنی ذات سے ملاقات

خود احتسابی کا یہ عمل، جسے ہم یہاں جرنلنگ کہہ رہے ہیں، صرف خیالات قلم بند کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے اندرونی تجربات اور تبدیلیوں کو محفوظ کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ اس کے ذریعے ہم اپنے سفر کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اپنی ترقی کا احساس کر سکتے ہیں۔

رمضان میں روح کا میلان خدا کی طرف زیادہ ہوتا ہے، نفسِ امّارہ کی اکساہٹیں کمزور پڑجاتی ہیں، اور ماحول شخصیت میں تبدیلی کے لیے سازگار ہو جاتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب سائیکل بریکر بننے اور اس کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

خود احتسابی کے عمل کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ احساسِ جرم کے بوجھ کو ہلکا کر دیتا ہے، ہمیں اپنے ماضی کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے، حال میں غیر شعوری زندگی گزارنے کے بجائے شعوری فیصلے لینے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے، اور مستقبل کو بہتر بنانے کی راہ دکھاتا ہے۔

معافی: سائیکل بریکنگ کا تیسرا عملی قدم

اگر شوہر نے بیوی کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہو، تو اسے اپنی آخرت کی ناکامی سے بچنے کے لیے دنیا میں اپنی بیوی سے معافی مانگ لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

اسی طرح، اگر بیوی کا رویہ شوہر کے لیے تکلیف دہ رہا ہو، تو رمضان کی ساعتوں میں معافی مانگ لینا ’سائیکل کو بریک‘ کرنے کا اہم قدم ہوگا۔

والدین نے اگر اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ہو، تو انھیں اپنے بچوں کے سامنے ندامت کا اظہار کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

بچوں نے اگر والدین کے ساتھ نازیبا سلوک کیا ہو، تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی آغوشِ رحمت میں جا کر معافی طلب کریں، ورنہ وہ بھی اپنے بچوں سے وہی سلوک دیکھیں گے جو انھوں نے اپنے والدین کے ساتھ کیا تھا۔

خود آگہی مایوسی نہیں، بہتری کا راستہ

جب انسان اپنی ذات کی گہرائی میں جھانکتا ہے اور اپنی خامیوں کو پہچانتا ہے، تو بعض اوقات مایوسی کا احساس بھی پیدا ہو سکتا ہے، مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ غلطیوں کا صدور انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ انسان ہمیشہ کامل نہیں ہوتا، لیکن اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور بہتری کی طرف بڑھنا بھی اسی فطرت کا ایک لازمی جزو ہے۔

قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کی اصلاح کی صلاحیت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی مثال ہمارے لیے بہترین سبق ہے۔ انھوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا کر ایک غلطی کی، مگر جب انھیں اپنی لغزش کا احساس ہوا تو وہ ندامت اور شرمندگی کے ساتھ اللہ کی طرف پلٹے اور معافی طلب کی۔

یہی وہ روشنی ہے جو ہمیں مایوسی سے نکال کر اصلاح کے راستے پر ڈالتی ہے۔ اصل کامیابی یہ نہیں کہ ہم کبھی غلطی نہ کریں، بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو پہچان کر خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ جو شخص اپنی کوتاہیوں کو پہچان کر انھیں سدھارنے کی نیت کرتا ہے، وہ درحقیقت اپنی شخصیت میں حقیقی تبدیلی کا آغاز کر دیتا ہے۔

خود آگہی: سزا نہیں، شفا کی راہ

خود احتسابی کو مایوسی یا بوجھ سمجھنے کے بجائے، اسے ایک نئے آغاز کا موقع سمجھنا چاہیے۔ انسان اپنی کسی بھی کمزوری کو اپنی تقدیر نہ سمجھے، بلکہ اسے بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اللہ کی رحمت ہمیشہ پکار رہی ہوتی ہے کہ جو پلٹنا چاہے، اس کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے سائیکل بریکر بننے کا حقیقی سفر شروع ہوتا ہے:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا  ۝۰۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۲۳ (اعراف ۷:۲۳)دونوں بول اٹھے:’’اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔

رمضان: ایک نئی زندگی کی ابتدا

رمضان محض ثواب کمانے کا مہینہ نہیں، بلکہ اپنی زندگی کو بدلنے کا مہینہ ہے۔ یہ موقع ہے کہ ہم اپنی ذاتی زندگی کی خامیوں کو پہچانیں اور انھیں دور کریں، اور ان رویوں کی زنجیروں کو توڑیں جو نسل در نسل منتقل ہو کر آنے والی نسلوں کو بھی جکڑ لیتی ہیں۔

اس تبدیلی کے لیے اعتراف پہلا قدم ہے۔ غلطی کرنا انسانی فطرت ہے، اور توبہ کرنا حضرت آدم علیہ السلام کی سنت۔ اگر ہمارے سخت رویے کسی کی دل شکنی کا باعث بنے ہوں، یا ہم نے کسی کو نفسیاتی اذیت میں مبتلا کیا ہو، تو ہمیں ان سے معافی مانگنے میں تردد نہیں کرنا چاہیے۔

غلطیوں کو جان لینے کے بعد ان پر اکڑ جانا شیطانی رویہ ہے۔ لہٰذا، رمضان میں خود احتسابی کا آغاز کریں، تاکہ ہم اپنی زندگی کا رخ درست کر سکیں۔

اس خود احتسابی کے عمل کو مؤثر بنانے کے لیے جرنلنگ کی جائے، تحریری طور پر اپنا جائزہ لیا جائے تاکہ وہ آئینہ ہمارے سامنے رہے جسے دیکھ کر ہم اپنی زندگی کو سنوارنے کا سفر جاری رکھ سکیں۔

امید کی شمع روشن رکھیں!

رمضان کے روزے اور عبادات کا اصل مقصد تزکیۂ نفس اور اصلاحِ کردار ہے۔ یہ مہینہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی شخصیت میں چھپی ہوئی برائیوں کو پہچانیں اور انھیں دُور کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ آیا ہم بھی لاشعوری طور پر انھی غلطیوں کو دُہرائے جا رہے ہیں جو ہمارے بڑوں سے ہمیں ملی تھیں؟ اگر ہاں، تو یہی وہ وقت ہے جب ہم اس سلسلے کو توڑ سکتے ہیں اور ایک نئی، بہتر زندگی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

وہ دیکھو وہ نظر آرہا ہے، وہ بادلوں کے پیچھے۔ کہاں ہے؟ مجھے تو کہیں نظر نہیں آرہا، ارے بھئی وہ سامنے دیکھو باریک سا نظر آرہا ہے۔ نہیں بھئی مجھے تو اب تک نظر نہیں آیا۔ میری انگلی کی سمت میں دیکھو ، وہ دیکھو، وہ دیکھو! یہی منظر ہوتے تھے کہیں چھتوں پر چڑھ کر، کہیں کھلے میدانوں میں جمع ہو کر۔

وہ سعید روحیں جو رجب اور شعبان ہی سے اللہ تبارک و تعالیٰ سے رات کی تنہائیوں میں اور دن کے اجالوں میں گڑگڑاکر ربّ سے برکت مانگا کرتی تھیں: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ ۔ اپنی دُعاؤں کی قبولیت پر مسحور ہوجاتی ہیں اور مومنین اپنے اندر ایک نئی قوت محسوس کرتے ہیں، نیا عزم پاتے ہیں، نیا ولولہ ہوتا ہے، عجیب سی خوشی ہوتی ہے۔ اپنے محبوب سے قرآن کی زبانی ہم کلام ہونے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ مسجد جاتے وقت کہیں سے امّاں کی آواز آتی ہے کہ فلاں فلاں چیزیں واپسی پر بازار سے لیتے آنا اور کہیں بیگم صاحبہ لسٹ پکڑا دیتی ہیں۔ یہ تو تھا وہ منظر نامہ جو کبھی ہمارے معاشروں میں نظر آتا تھا، لیکن اب اس کی جگہ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور موبائلوں نے لے لی ہے۔ اب چاند دیکھنے کے لیے کہیں لوگوں کا ہجوم نہیں لگتا، کوئی چھت پر نہیں چڑھتا، اب مبارکبادیں واٹس ایپ پر آتی ہیں، اور مبارکبادوں کا یہ کام فیس بک، انسٹا گرام اور اسی طرح کے دیگر سوشل میڈیا پر ایک فرض سمجھتے ہوئے پورا ہو رہا ہوتا ہے۔ اصل چیز جو ختم ہوگئی وہ مسلم اُمہ کا تعلق ہے، نہ یہ تعلق اب برادریوں میں رہا، نہ محلوں میں رہا، نہ گاؤں دیہات میں رہا، نہ شہروں میں ، نہ ملکوں میں اور نہ ایک جسم کی مانند ہوتے ہوئے مسلم اُمہ میں۔ رمضان کا مبارک مہینہ جہاں ہمیں تقویٰ کی تعلیم دینے آتاہے، وہیں مختلف انداز سے ہماری تربیت کا سامان ساتھ لاتا ہے جس میں ایک تربیت اجتماعیت کی بھی ہے۔

 بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ رمضان کے آتے ہی شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ جس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے‘‘۔ [صحيح البخاري : ۳۲۷۷ ، صحيح مسلم : ۱۰۷۹]۔ ظاہر ہے جب نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمادیا تو حق کے سوا یہ کچھ اور ہو نہیں سکتا۔ لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی زمین پر نافرمانی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہوتی ہے، چوریاں بھی ہوتی ہیں، ڈکیتیاں بھی، جوا بھی ہوتا ہےتو شراب بھی پی جاتی ہے، غرض ہمارے علم میں جتنے بھی گناہ کے کام ہیں سب ہورہے ہوتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے ہورہے ہوتے ہیں۔ پھر انسان کی سوچوں میں آتا ہے کہ جب شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے تو گناہ کیوں جاری رہتے ہیں؟ حد تو یہ ہے کہ مسلمان روزہ رکھنے کے باوجود بھی گناہوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کو سوچنے اور سمجھنے کے لیے عقلِ سلیم عطا فرمائی ہے جس سے وہ کھرے کھوٹے کی تمیز بھی کرتا ہے، اور ذہن میں اُٹھنے والے مختلف سوالات کے جوابات بھی تلاش کرتا ہے۔ جب شیاطین کے جکڑے جانے سے متعلق سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو اسی عقل نے ایک مختلف انداز میں تجزیہ کرکے ہمیں دیا جو پیش ہے۔

سب سے پہلی بات جو ہمیں سمجھنا ہوگی وہ یہ ہے کہ انسان جو گناہ یعنی اللہ کی نافرمانی کے کام کرتا ہے وہ سب شیطان کے بہکاوا نہیں ہیں ، البتہ شیطان کی جانب سے ہمارے دلوں میں داخل کیا گیا وسوسہ ایک بڑا سبب ضرور ہے۔ اس کی وجوہ پر غور و فکر کرنے سے جو اسباب سمجھ میں آتے ہیں، ان میں سب سے پہلی وجہ انسان کی خواہشات اور اُس کا نفسِ اَمّارہ ہے۔ دوسری وجہ ایسی عادات کا بن جانا ہے جس کی بنا پر گناہ کیے جاتے ہیں۔ گویا کہ عادتاً بھی گناہ کیے جاتے ہیں۔ تیسری وجہ حرام مال کا پیٹ میں داخل ہونا ہے۔ چوتھی وجہ گناہوں کی کثرت سے دلوں پر لگنے والے داغ ہوتے ہیں جو دلوں کو سیاہ کردیتے ہیں، جب کہ پانچویں وجہ انسان کے اختیار کی آزادی ہے جو ربّ تعالیٰ نے اُسے عطا فرمائی ہے جس کا وہ ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے، اور چھٹی وجہ ماحول کا اثر ہے۔

  • انسان کا اپنا نفس: وَمَآاُبَرِّئُ نَفْسِيْ۝۰ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوْۗءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ۝۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۵۳ (یوسف۱۲: ۵۳) ’’اور میں اپنے آپ کو پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس (نفس امارہ انسان کو) برائی سکھاتا ہے، مگر یہ کہ میرا اللہ رحم کرے ۔یقیناً وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔ مشہور قول ہے کہ انسان کا نفس ایک بدکا ہوا گھوڑا ہے، اسے جتنا چارہ ڈالو گے یہ اتنی ہی سرکشی دکھائے گا۔ لہٰذا رمضان مبارک کے روزو شب اگر نفس کی تربیت کرتے ہوئے نہ گزارے جائیں بلکہ دن میں محض کھانا پینا چھوڑ دیا جائے اور رات میں نوافل (تراویح)ادا کرکے ہم سمجھیں کہ ہمارا کام مکمل ہوگیا تو ایسا ممکن نہیں۔ بلکہ اس کے لیے اپنی جبلت کو مارنا پڑے گا اور خود کو حقیقی معنوں میں ربّ کے آگے جھکانا پڑے گا۔

اللہ تعالیٰ نے اسی نفس کو قابو رکھنے کے لیے کم و بیش سوا لاکھ انبیا علیہم السلام اس دنیا میں بھیجے ہیں۔ اس نفس ہی کی بدولت انسانی دل میں طرح طرح کی خواہشات جنم لیتی ہیں اور جب انسان ان خواہشات کے پیچھے دوڑتا ہے تو وہ اچھے برے کی تمیز کھودیتا ہے اور نفس کے رحم و کرم پر چلا جاتا ہے۔ اسی نفس امارہ نے آج کے معاشروں میں فحاشی و عریانیت کا ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے۔گھر، خاندان، انفرادی و اجتماعی ماحول، خوشی اور غمی، عبادات و معاملات، حتیٰ کہ ہمارے تعلیمی ادارے ہی کیوں نہ ہوں، ہر جگہ اور ہر سطح پر اللہ کی نافرمانیوں کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ نفس امارہ کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر سے حیا کا وصف نکال دیتا ہے۔ اور حیا ہی وہ اہم صفت ہے جس کے خاتمے سے سب سے گہری ضرب انسان کے ایمان پر پڑتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو‘‘۔ لہٰذا اگر رمضان المبارک میں کسی مومن کے گناہ جاری و ساری رہتے ہیں تو یہ صرف شیطان کا بھڑکاوا نہیں ہے بلکہ اُس کے نفس کی کارروائی بھی ہوسکتی ہے، لہٰذا اُسے اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ضروری ہے۔ اسی نفس کو لگام ڈالنے کےلیے اللہ تعالیٰ نے روزہ ہر نبیؑ کی اُمت پر فرض کیا ہے۔

  • انسان کی اپنی عادت:ایک گاڑی کسی راستے پر ۱۲۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کررہی ہو اور اچانک اُسے روکنے کی ضرورت پیش آجائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اُسے بریک لگایا جاتا ہے فوری طور وہ وہاں کبھی بھی نہیں رُکتی بلکہ رُکتے رُکتے کچھ وقت لیتی ہے۔ انسان کی عادتوں کی مثال بھی گاڑی کی رفتار کی طرح ہے جسے قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ انسان کی شخصی عادات بھی گناہوں کی طرف لے جانے کا ایک اہم سبب ہوتی ہیں جو برسہا برس سے انسان کے معمولات میں غیر محسوس طریقے سے شامل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بارہا تو یہ بچپن کی تربیت، ماحول اور تعلیم کا ایک ایسا اثر ہوتی ہیں جن سے انسان زندگی بھر پیچھا نہیں چھڑا پاتا۔ بڑے ہونے کے بعد بھی خارجی حالات اور ترغیبات کے تحت لوگ ایسی عادات اختیار کر لیتے ہیں، مثلاً غیبت ، جھوٹ بولنا، بد زبانی و دشنام طرازی ، وعدہ خلافی ، طنز ، تکبر ، تجسس وغیرہ۔

دراصل ایسی عادتوں سے جان چھڑانے اور خوداحتسابی کے عمل سے خود کو گزارنے کا نام رمضان ہے۔ لہٰذا اگر کوئی مومن خود کو خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزارتا اور گناہ کا ارتکاب جاری رکھتا ہے تو یہ گناہ محض شیطان کے وسوسوں کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے کرنے میں اُس کی اپنی عادتوں کا دخل بھی کارفرما ہوتا ہے ۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ انسان رمضان آنے سے پہلے ہی ربّ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرکے اپنی غلط عادتوں کو درست کرنے کی طلب اور ساتھ سعی کرے۔ اس کے لیے ہر وہ عادت جو گناہ اور نافرمانی کی سمت لے جانے والی ہے، اس کی اصلاح کی بھرپور کوشش کرے۔ اس کے لیے دوسروں کی مدد لے۔ اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کرے۔ اپنا احتساب کرتا رہے۔ اپنے لیے کچھ مطلوبہ معیارات مقرر کرے۔ ان کی خلاف ورزی کی صورت میں خود پر جرمانہ مقرر کرے، وغیرہ۔

  • حرام مال کی آمیزش : يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ؗۖ  (البقرہ ۲:۱۶۸)’’اے لوگو ! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں ، انھیں کھاؤ‘‘۔ آج معاشرے میں والدین کو اپنے بچوں سے گِلہ رہتا ہے کہ وہ اُن کا کہنا نہیں مانتے باوجود اس کے کہ وہ اُن کی ہر قسم کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں، اچھی تربیت کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن اُن کے رویے برقرار رہتے ہیں۔ اسی طرح آج کے دور میں دیکھا جائے تو یہ رویہ عام ہوگیا ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں کی اطاعت سے باہر نکل رہی ہیں اور طلاق کی شرح پہلے کے مقابلے میں کہیں بڑھ گئی ہے۔ مسلمانوں کو شکوہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ رمضان آتے ہی شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا تو پھر رمضان میں بھی ایسا کیوں ہوتا رہتا ہے؟ اس کے لیے تنہائی میں بیٹھ کر ہمیں اپنی ذات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھیں کہ ہم جن بیوی بچوں کی ضروریات کا ہر طرح خیال رکھ رہے ہیں، ان کے لیے ضروریاتِ زندگی کا جو انتظام کرتے ہیں، اُس میں کہیں حرام کی آمیزش تو نہیں ہو رہی۔ حرام مال سے مُراد سُود کی رقم، رشوت کا مال، چوری اور ڈاکا زنی کا مال، جھوٹی قسم کھاکر کمایا گیا مال، زنا و شراب اور جُوے سے کمائی گئی رقم، جھوٹی گواہی اور وکالت کے ذریعے کمایا ہوا مال، یتیم کی اجازت کے بغیر اُس کا استعمال کیا جانے والا مال، بھائی، بہنوں اور دیگر کی وراثت کا مال، گانا بجانا اور اخلاق باختہ فلم کے ذریعے کمایا ہوا مال، ناپ تول میں کمی کرکے یا دھوکا دہی سے فروخت کیا گیا مال وغیرہ۔

اسلام میں ایسے حرام مال کے کمانے، کھانے اور استعمال سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اس طرح کا مال کمانے سے ایک طرف جہاں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی نافرمانی ہوتی ہے، تو دوسری طرف ایسے مال کے کمانے، کھانے اور استعمال سے معاشرے میں مختلف طرح کے بگاڑ بھی پیدا ہوتے ہیں، جس سے معاشرتی زندگی بُری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔ لہٰذا رمضان ہمیں دعوتِ عمل دیتا ہے کہ ہم خود کو خوداحتسابی کے عمل سے گزارتے ہوئے سچی توبہ کریں اور جن حق داروں کا حق ہمارے ذمہ ہے اور ہم انھیں جانتے ہیں تو فوری طور پر ادا کریں۔ اگر ہم ایسا کرنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتے تو پھر شیطان کو بھی دوش نہ دیں کہ اُس کے جکڑے رہنے کے بعد گناہ کیوں عام ہیں اور دھڑلے سے ہو رہے ہیں؟ میرے بچے، میری بیوی، بھائی بہن اور میں خود اگر رمضان پانے کے باوجود، روزہ رکھنے کے باوجود، قیام اللیل کرنے کے باوجود گناہ نہیں چھوڑ پا رہا تو اس کا سبب ان پیٹوں میں حرام کا مال جانا ہے کیونکہ اُن کے جسم کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے اور حرام اُن کے رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے، اُن کے جسم کا حصہ بن چکا ہے۔ گویا کہ شیطان کیا ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالے گا بلکہ وہ تو خود چلتا پھرتا شیطان بن چکے ہیں۔ احادیث میں ملتا ہے کہ حرام پر پلنے والے جسم کی اللہ تعالیٰ کوئی عبادت قبول نہیں کرتا اور ہرعبادت کو اس کے منہ پر مار دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ کے درمیان ایک ایسے شخص کا نقشہ کھینچا جو کہ لمبا سفر کر کے بیت اللہ کی زیارت کے لیے آیا۔ اس کے سرکے بال گرد و غبار سے اَٹے ہوئے تھے اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا: یَارَبِّ یَارَبِّ وَمَطْعَمُہ حَرَام وَمَشْرَبُہ حَرَام وَمَلْبَسُہ حَرَام وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ، ’’اے میرے ربّ! اے میرے ربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، 'اس کا پینا حرام کاہے ، اس کا لباس حرام کا ہے اور حرام مال اس کی غذا ہے تو اس کی دعا کہاں سے قبول کی جائے؟‘‘

  • گناہوں سے دل کا سیاہ ہو جانا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے اور گناہ کو ترک کردیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو صاف ہوجاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو وہ داغ بڑھ جاتا ہے، یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ یہی وہ ’ران‘ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے : کَلَّا بَلْ سکتہ  رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَّا کَانُوا يَكْسِبُوْنَ۝۱۴(المطففین ۸۳:۱۴)’’ ہرگز نہیں بلکہ ان کے (بُرے) کاموں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے‘‘، میں کیا ہے (مسند البزار: ۱۵/۳۵۸) ۔ اس روایت کے آخر میں جس آیت کی طرف اشارہ فرمایاگیاہے اس سے واضح ہوجاتاہے کہ دل پر زنگ پڑنے کے نتیجے میں جب دل سخت وسیاہ ہوجاتاہے تو اس میں حق قبول کرنے کی صلاحیت نہایت کمزور یا ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد حق قبول کرنے کے بجائے اس میں طرح طرح کے شبہات واعتراضات نکالے جاتے ہیں۔

امام بیہقی ؒ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:’’مومن کا دل شیشے کی طرح سفید ،صاف اور روشن ہوتا ہے۔ شیطان اس میں گناہ کے کسی بھی راستے سے نہیں آسکتا،مگر اس کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح وہ اپنے چہرے کو شیشے میں دیکھتاہے۔ پھر جب وہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ داغ لگایا جاتاہے۔اگر وہ اپنے گناہ سے توبہ کرے تو اس کے دل سے داغ کو مٹایا جاتاہے اور وہ صاف ہو جاتا ہے اور اگر توبہ نہیں کرتا اور دوبارہ ایک کے بعد دوسرا گناہ کرتا رہا تو اس کے دل پر ایک داغ لگایا جاتا ہے، یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا قول کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ ہے۔ فرمایا:گناہ پر گناہ کرنا یہاں تک کہ دل سیاہ پڑ جائے،اس دل میں نصیحت داخل نہیں ہوتی ،پھر اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور وہ داغ اس کے دل سے شیشے کی طرح صاف ہوجاتا ہے‘‘۔(شعب الایمان: ۹/۳۷۵)

اب ایسے میں، جب کہ دل گناہوں کے راستے پر چلنے کا عادی ہو ، تو رمضان کے آتے ہی اچانک درست راستے کی جانب کیسے مُڑ سکتا ہے؟ ظاہر ہے یہ جب ہی ممکن ہے کہ گناہ کا رسیا انسان توبہ و استغفار کرے، گناہوں کو چھوڑنے کا عزم کرے، اُس کے لیے عملی اقدامات اُٹھائے، دنیاوی لذتوں کو ٹھکرائے، تب ہی جا کر کہیں وہ معصیت کے کاموں سے جان چھڑا سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر شیطان کا زنجیروں میں جکڑے رہنا بے معنی ہوجاتا ہے کیونکہ اُس کے اپنے اندر کے شیطان نے اُس کے دل کو سیاہ کردیا ہوتا ہے۔ اُس کو چاروں طرف سے گناہوں کی تاریک گھٹاؤں نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے میں اُس پر رمضان المبارک میں برسائے جانے والے انوار کی تجلیات کیسے پڑیں؟

  • انسان کو اختیار کی آزادی:اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ قرآن مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے: وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِ۝۱۰ۚ (البلد۹۰: ۱۰) ’’اور کیا ہم نے اُسے (انسان کو) دو راستے نہیں دکھادیے؟‘‘۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو محض عقل و فکر کی طاقتیں عطا کر کے چھوڑ نہیں دیا کہ اپنا راستہ خود تلاش کرے، بلکہ اس کی رہنمائی بھی کی اور اس کے سامنے بھلائی اور برائی، نیکی اور بدی کے دونوں راستے نمایاں کر کے رکھ دیے تاکہ وہ خوب سوچ سمجھ کر ان میں سے جس کو چاہے اپنی ذمہ داری پر اختیار کرلے۔یہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حکمت اور عدل کا تقاضا بھی تھا کہ انسان پرجن کاموں کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ان میں اُسے آزاد وخود مختار رکھے کیونکہ انسان پر ایسے کاموں کی ذمہ داری ڈالنا جواس کی طاقت اور توازن سے باہر ہو ،انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ۔ یہ اس لیے کہ اُسی کے مطابق اُس نے انسان سے باز پرس کرنی ہے، جزا و سزا کا فیصلہ کرنا ہے۔

کسی شخص نے امام جعفر صادقؒ سےپوچھا : کیا خدا نے انسان کو مختلف کاموں پر مجبور کیا ہے ؟امام نے فرمایا:خداوند تعالیٰ عادل ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی شخص کو کسی کام پر مجبور کرے پھراسے اس کی سزا بھی دے ۔ اب ایسے میں کوئی انسان کراچی سے مکہ مکرمہ کی فلائٹ میں بیٹھنے کے بجائے ویٹیکن سٹی کی فلائٹ میں بیٹھے تو ظاہر ہے وہ مکہ المکرمہ تو نہیں پہنچ سکتا، بلکہ فطرت کے مطابق اُسے ویٹیکن سٹی ہی پہنچنا ہوگا۔ بالکل یہی مثال نیکی اور بدی کے راستے کی ہے کہ انسان نیکی کے راستے پر چلنے کی طلب اور جدوجہد کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اُسے اُسی راستے کی آسانی بہم پہنچادیتا ہے۔اگر کوئی فرد اپنے لیے بدی کے راستے پر چلنے کا انتخاب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے اُس مشکل راستے کی آسانی بہم پہنچادیتا ہے۔ قرآن میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہماری اس طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے:

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى۝۵ۙ  وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى۝۶ۙ  فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْيُسْرٰى۝۷ۭ  وَاَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰى۝۸ۙ  وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰى۝۹ۙ  فَسَنُيَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰى۝۱۰ۭ (اللیل۹۲: ۵-۱۰) تو جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا، اور بھلائی کو سچ مانا، اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اور جس نے بُخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی ، اور بھلائی کو جھٹلایا، اُس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔

 پھر جب انسان اپنے اختیار کردہ راستے میں سے جس راستے پر بھی چل کر اُس کے حضور پیش ہوگا تو وہ اُسی تناظر میں اُس سے باز پُرس کرے گا۔ اب اگر انسان یہ تصور کرے کہ اُس نے انتخاب تو بدی کے راستے پر چلنے کا کیا لیکن رمضان کے آتے ہی چونکہ شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، لہٰذا وہ خود مختار نظام (Automatic System)کے تحت اچانک نیک راہ پر چلنے لگے گا اور شوال کا چاند نظر آتے ہی اُسی خود مختار نظام کے تحت اپنی پُرانی راہ پر واپس آجائے گا۔ یقیناً ہرصاحبِ عقل اس چیز کی نفی کرے گا۔ ہر کوئی یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ جب اُس انسان نے خود اپنے دل کی رضا سے بدی کے راستے کو اختیار کیا اور نیکی کے راستے پر چلنے کا اُس کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا، تو اُس کا شیطان تو خود اُس کے اندر پرورش پا رہا ہے، جو اپنے دائرے میں آزاد ہے اور اُسے اللہ تعالیٰ نے بزور زنجیریں نہیں ڈالیں ہیں۔

  • ماحول کا اثر: ایک انسان اپنے نفسِ امّارہ کو بھی نفسِ لوّامہ میں تبدیل کرلے، جس سے اُس کی عادات بھی اپنا قبلہ درست کرلیں، اپنے رزق کے حصول میں بھی وہ بے حد احتیاط کرے اور خالص حلال حاصل کرنے کی کوشش کرے،انفرادی گناہوں سے ہر ممکن اجتناب کرے اور نیکیوں کو پروان چڑھانے میں مصروفِ عمل رہے، اور اپنے اللہ کے عطا کردہ اختیار کی آزادی کا بھی بہترین استعمال کرتے ہوئے نیکی کی راہ چلنے لگے، تب بھی وہ اسلام پر مکمل اور آزادی کے ساتھ عمل نہیں کرسکتا ۔ ہمارے اس جواب پر آپ حیران بھی ہوں گے اور سوچ بھی رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اگر نظام باطل قوتوں یا اُس کے ہرکاروں کے ہاتھوں میں ہو تو وہ نظام کے ہاتھوں مجبور ہوگا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اُس نظام پر چلے۔ اگر اُس نظام میں شیطانی افعال کا غلبہ ہے تو رمضان کیا سارا سال بھی شیاطین کو قید رکھا جائے تو وہ ماحول، وہ نظام اُس سے معصیتوں کا ارتکاب کرواتا رہے گا جو کبھی دانستہ ہوں گی اور کبھی نادانستہ۔ مثال کے طور پر آپ ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سود کی عمل داری ہو، بے حیائی، فحاشی و عریانی عام ہو، حلال و حرام کی تمیز مٹ چکی ہو، رشوت کا بازار گرم ہو، میڈیا کے ذریعے جھوٹ فخر کی علامت ہو، تو بتائیے کہ باطل نظام کے ہوتے ہوئے یعنی ایسے ماحول کے ہوتے ہوئے کیسے اِن گناہوں کے اثرات سے بچ سکیں گے؟ آپ چاہیں یا نہ چاہیں کسی نہ کسی طرح سود کی گندگی میں اپنے ہاتھ آلودہ کرنے پر مجبور ہوں گے، لاکھ نہ چاہتے ہوئے بھی بے حیائی اور فحاشی و عریانی کی دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے۔ کروڑوں بار جدید میڈیا کی خرابیوں کو بیان کرنا اپنا وطیرہ بنالیں لیکن یہ غلاظت آپ کے گھروں کے اندر داخل ہو کر رہے گی۔ یہی حال حلال و حرام کا ہوگا، علیٰ ہذالقیاس۔

اسی لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاؑ اور نبی ٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے کےلیے بھیجا ، جس کی نشاندہی قرآن پاک میں اس طرح کی کہ ہُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝۹ (الصف ۶۱:۹)’’ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔  یہاں بتایا جارہا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جو ہدایت اور دینِ حق وہ اللہ کی طرف سے لایا ہے اسے پورے دین، یعنی نظام زندگی کے ہر شعبے پر غالب کر دے۔

حاصلِ کلام یہ کہ اگر واقعی ہم شیاطین کے رمضان المبارک میں زنجیروں میں جکڑے جانے سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے نفس کے شیطان کو خود زنجیر ڈالنا ہوگی، اپنی عادات و اطوار کو تبدیل کرنا ہوگا، رزقِ حلال کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا، اللہ کی طرف سے دی گئی اختیار کی آزادی کو نیکی کے راستے کی جانب موڑنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر اپنے ماحول کو تبدیل کرنے کی جدوجہد یعنی نظامِ حیات کی تبدیلی کی جدوجہد یا اقامتِ دین کی جدوجہد میں اپنا حصہ دامے درمے سخنے ڈالنا ہوگا۔ تب ہی ہم رمضان کے اصل فیوض و برکات کو سمیٹ سکیں گے، تب ہی رمضان ہمارے لیے باعث مغفرت ہوگا اور تب ہی ہمیں شیاطین زنجیروں میں قید نظر آئیں گے۔

اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں زندگی، ایمان اور صحت کی حالت میں ایک دفعہ پھر رمضان گزارنے کی سعادت عطا کی، جوکہ ہمارے گناہوں کی مغفرت اور جنت کے حصول کے ساتھ ہماری تربیت کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کی مہلتِ عمل اس رمضان کی آمد سے پہلے ہی ختم ہو گئی اور وہ زندگی کے سفر کے اگلے مرحلے میں داخل ہو گئے، جہاں اب اپنے اعمال کے ذریعے مغفرت اور بلندیٔ درجات کا موقع ختم ہو گیا۔ البتہ صدقۂ جاریہ کے کاموں اور اولاد کی دعاؤں کے فیض سے اجر کا ایک راستہ باقی رہ گیا۔

 فرضیت و فضیلتِ رمضان

رمضان کی فرضیت، فضیلت اور مقاصد کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمھیں بتایا جا رہا ہے تاکہ روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ (یہ بات تم انھیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پا لیں‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۸۵- ۱۸۶)

اب جب ہم نے رمضان کو پا لیا تو ہم پر اس ماہ کے تمام روزے رکھنا فرض ہوگئے۔ کتنا رحیم ہے وہ پروردگار جس نے فرضیت کے حکم کے ساتھ ہماری کمزوریوں اور مجبوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس میں استثنیٰ بھی عطا فرما دیا، یعنی بیماری یا حالتِ سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت۔ البتہ عذر دور ہونے کے بعد ان روزوں کی تعداد بصورتِ قضا پوری کرنا ہوگی۔ مرض میں رخصت سے مراد کسی قسم کا دائمی مرض بھی ہے جیسے ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور گردوں کے امراض وغیرہ، اور انتہائی شدید مرض جیسے کینسر یا ہیپیٹائٹس و دیگر، یا معمولی تکلیف جیسے بخار ہو جانا اور ڈائریا و ہیضہ وغیرہ ہوجانا۔ نیز خواتین کے لیے حمل کی صورت میں، جب کہ خاتون یا بچے کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو، اور رضاعت کے دوران بھی اگر بچے کا محض ماں کے دودھ پر انحصار ہو اور ماں بھوک پیاس برداشت نہ کر پائے تو اسے اس شرعی عذر سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے۔ اگر کسی بھی قسم کا شرعی عذر دور ہو جائے تو ان روزوں کی قضا لازم ہوگی اور ماہانہ مخصوص ایّام میں چھوڑے گئے روزوں کی بھی قضا ہوگی۔ دائمی مرض کی صورت میں فدیہ دینا ہوگا اور وقتی عذر کی صورت میں فدیہ لازم نہیں، لیکن دے دینا افضل ہوگا کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں، کیا معلوم قضا رکھنے کی مہلت ہی نہ ملے۔ یہ تمام آسانیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب ہیں جو اپنے احکام کے ذریعے ہمیں تکلیف اور مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ مغفرت اور اجر عطا کرنا چاہتا ہے۔

رمضان کی فضیلت کی وجہ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں قرآن کے نزول کو قرار دیتے ہوئے اس ہدایت عظمیٰ پر شکر گزار ہونے کی تاکید کی ہے۔ دورانِ رمضان ہرروز اپنی نیت کو تازہ کریں، اپنے عزم کو پختہ کریں کہ رمضان کی اہمیت، فضیلت، پیغام اور مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے معمولات کو ترتیب دوں گی اور روزوں کے مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کروں گی۔

قرآن مجید سے تعلق

اس ماہ مبارک میں ہمیں جس چیز کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا ہے وہ قرآن مجید کی صحبت اور معیّت ہے۔ تلاوت و سماعتِ ترجمہ و تفسیر دورۂ قرآن اور قیام اللیل کے ذریعے قرآن کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ضروری ہے۔ تلاوت کی مقدار کے حوالے سے تراویح کے ذریعے ایک پارہ روزانہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگر دورۂ قرآن کی محفل میں شرکت ممکن نہ ہو تو واٹس ایپ پر ترجمہ و تفسیر کے گروپ میں شمولیت اختیار کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ناظرہ قرآن پڑھتے وقت کم از کم ایک رکوع کا ترجمہ ہی سمجھ کر پڑھ لیا جائے اور رفتہ رفتہ ترجمے کو بعد از رمضان مکمل کر لیں۔ اگر کسی جگہ خواتین کی تراویح کا اہتمام ہو تو ضرورشرکت کی کوشش کریں۔ بصورتِ دیگر گھر میں ہی تراویح پڑھیں۔ ایسی صورت میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی بھی اجازت ہے۔ دیگر اوقات میں بھی فون، کمپیوٹر، ٹیبلٹ وغیرہ پر بہترین قراء حضرات کی تلاوت سنی جا سکتی ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ

ایک حدیثِ رسولؐ میں روزے کو ہمدردی کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے جس میں کسی روزہ دار کو افطار کروانے کے جو ذرائع بھی میسر ہوں اجر کا باعث بتائے گئے ہیں، خواہ ایک کھجور، دودھ ، لسی اور پانی کا ایک گھونٹ ہی ہو۔ البتہ اپنے وسائل کے مطابق مستحق روزہ داروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کا اہتمام ضرور کریں کہ اس کا اجر قیامت کے دن حوضِ کوثر سے سیرابی ہے۔ مستحق اور سائل کو گھر سے بھی اناج، پھل اور دیگر چیزیں دی جا سکتی ہیں۔ عید کے حوالے سے بھی خاندان میں محروم افراد یا دیگر کے لیے کپڑوں جوتوں وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ فرائض کے ستّر گنا اجر کی بنیاد پر اکثر لوگ ترجیحاً رمضان میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ اپنے پاس موجود سونے کے زیورات، جائیداد یا جمع شدہ رقم پر اہتمام کے ساتھ تعین کر کے اپنی زکوٰۃ ادا کریں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کی ذاتی ملکیت (زیورات، جائیداد و نقد رقوم) پر شوہر کے لیے زکوٰۃ دینا لازم نہیں۔ یہ شوہر کا حُسنِ سلوک ہے کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے زکوٰۃ ادا کر دے۔ چنانچہ اگر شوہر کے لیے ممکن نہ ہو تو اپنی زکوٰۃ ادا کرنا ایک خاتون کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ کا کوئی ذریعۂ آمدنی نہ ہو تو اپنے زیورات میں سے بیچ کر ادا کریں۔ کیونکہ اس معاملے میں لاپرواہی آخرت میں بہت بڑے عذاب سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں زکوٰۃ کے احکام کو رمضان سے پہلے یا دورانِ رمضان پڑھنے اور سمجھنے کی ضرور کوشش کریں۔

ذکر و دعاؤں کا اہتمام

آغازمیں بیان کردہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن اور رمضان کے ساتھ دعاؤں کے خصوصی تعلق کا ذکر کیا ہے۔ دعا درحقیقت ذکر ہی کی ایک صورت ہے۔ ذکر کی اگرچہ قلبی، قولی اور عملی صورتیں بھی ہوتی ہیں لیکن رمضان المبارک میں آپ کو چاہیے کہ خصوصی طور پر زبان سے ذکر کا اہتمام کریں۔ کلمۂ شہادت، تیسرا اور چوتھا کلمہ، استغفار کے مختلف کلمات، صبح و شام کے اذکارو دیگر انتہائی توجہ اور یکسوئی سے ادا کریں۔ رمضان کی راتوں میں روزہ افطار کے وقت بلکہ سارا دن ہی توجہ اور یقین کے ساتھ اپنے مسائل، پریشانیوں، نعمتوں کے حصول اور مغفرت کی دعائیں مانگیں۔ اپنے ملک کی فلاح، خوش حالی اور استحکام کے ساتھ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بھی دُعا کریں۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ عرش کے حامل فرشتوں کو بھی کہتے ہیں کہ وہ دعا کرنے والوں کی دعا پر آمین کہیں۔ اور حدیث مبارکہ میں افطار کے وقت دعاؤں کی قبولیت کو بھی لازم بتایا گیا ہے۔

رمضان اور احتساب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے، اور جس نے رمضان میں راتوں کو قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کر دیے گئے، اور جس نے شب قدر میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔ (متفق علیہ)

اس حدیث مبارکہ میں رمضان کے روزوں، قیام اللیل یعنی تراویح اور شب ِقدر کی عبادت کے اجر میں گذشتہ گناہوں کی معافی کا زبردست پیکج دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی تینوں مراحل میں ایمان اور احتساب کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس شرط سے مقصود اللہ تعالیٰ پر ایمان، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بحیثیت رہبر اور راہنما ایمان، آخرت کے مراحل اور جواب دہی پر ایمان کے تقاضوں کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونے کی نیت اور کوشش کرنا ہے۔ دوسری اہم بات ایمانیات، اخلاقیات اور معاملات کے حوالے سے اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہے کہ کیا مطلوب ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ مجموعی طور پر ہم اپنی زندگی اور روزمرہ کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کو خالق، مالک، رازق تسلیم کرتے ہوئے اپنے عمل میں ان صفات میں کتنی مطابقت قائم کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کو رحیم، رحمان، شفیق، غفور، حلیم سمجھتے ہوئے اپنے گناہوں اور غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے کس طرح آہ وزاری سے استغفار کرتے ہیں؟ اور ان صفات کو انسانوں سے معاملات میں کس حد تک اپنانے کی کوشش کرتے ہیں؟ آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے آخرت کے تمام مراحل، میدانِ حشر کی حاضری اور جواب دہی، میزانِ اعمال، نامۂ اعمال، پل صراط اور شفاعتِ رسولؐ کو اپنے ذہن میں مستحضر رکھنے اور ان مراحل کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کی کتنی فکر اور عملی کوشش کرتے ہیں؟

احتساب کا عمل ایمانیات کے بعد ہمارے اخلاق اور معاملات سے متعلق ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہے کہ ہم اخلاقی معیار سے فضائلِ اخلاق سے کتنا قریب اور رزائل اخلاق سے کتنا دُور ہیں؟ سچائی، قناعت، حیا، امانت داری، ایفائے عہد، ہمدردی، ایثار و قربانی، بہادری اور بُردباری کا ہماری زندگیوں میں کتنا عمل دخل ہے؟ کہیں جھوٹ، غیبت، چغلی، عیب جوئی، خیانت، وعدہ خلافی وغیرہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے عمل کا حصہ تو نہیں؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ سے اپنے اخلاق کی بہتری کی دعا کرتے ہوئے برے اخلاق کو دور کرنے اور اچھے اخلاق کو اختیار کرنے کی شعوری کوشش کریں۔

معاملات کے حوالے سے اپنے تمام رشتوں بحیثیت بیٹی، بہن، ماں، ساس، بہو، نند، بھابی، خالہ، پھوپھی اور دیگر میں دیکھیں کہ اپنے فرائض کی ادائیگی پر میری کتنی نظر اور کتنی کوشش ہے؟ محض حقوق طلب کرنا اور فرائض کی عدم ادائیگی معاشرت میں حسن پیدا نہیں کر سکتی۔ آپ کے حقوق کسی نے ادا نہ کیے تو اُس سے بازپُرس ہوگی، جب کہ آپ کو اپنے فرائض کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی۔ رزق حلال کے بارے میں محتاط رہیں۔ اس حوالے سے اپنے شوہر کی بھی مدد کریں اور ان کی استطاعت سے زیادہ مالی وسائل طلب نہ کریں۔ احتساب کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرماتے ہوئے کہ میں تمھاری پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں یہ بھی فرمایا کہ پھر میری بات کو بھی سنو اور مجھ پر ایمان لاؤ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو دل سے قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔

رمضان ایک تربیت گاہ

اسلام میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کی عبادات بذات خود مقصود نہیں ہیں، بلکہ یہ ہمہ وقت اللہ کی رضا اور تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ہرسال رمضان کا مہینہ جو پوری امت کو سال کے ایک ہی دورانیہ میں گزارنا ہے، مسلمانوں کے لیے ایک تازگیِ ایمان و عمل کی تربیت گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ چنانچہ اس سے انھی فوائد کا حصول مطلوب ہے جو تربیت کا حاصل ہونے چاہئیں۔

اس تربیت گاہ سے گزرنے کے بعد اولاد کو چاہیے کہ والدین کا ماتھا چومے اور انھیں بتائے کہ وہ ان کی تمام محبتوں اور خدمات کے شکر گزار ہیں اور ان سے محبت کا اظہار کریں۔ شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کا شکریہ ادا کرے کہ اس نے تمام گھر والوں کے لیے کھانا پکانے، صفائی ستھرائی اور بچوں کی تربیت میں کتنی محنت کی ہے۔ بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی شکر گزار ہو کہ وہ دن بھر مصروفِ عمل رہ کر بیوی بچوں اور والدین کے لیے وسائل زندگی مہیا کرتا ہے اور گھر والوں سے محبت و شفقت کا برتاؤ کرتا ہے۔ اس تربیت گاہ سے گزرنے والا فرد اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب سے کسی تکلیف پہنچانے پر تہ دل سے معافی بھی مانگ سکتا ہے، اور اپنے ملازمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنھوں نے اپنی خدمات سے انھیں سہولیات باہم پہنچائیں ان کی تواضع اور دلجوئی کرسکتا ہے۔ والدین اس تربیت گاہ سے گزرنے کے بعد اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے اور ان کی زندگی میں بڑے بڑے خوابوں کی تکمیل کے لیے عملی تعاون فراہم کرنے اور ان کی بہتر سے بہتر اخلاقی، معاشرتی اور روحانی تربیت پر توجہ دینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ رمضان کے اختتام پر ہم رُک کر ضرور سوچیں کہ ہم نے اس تربیت گاہ سے کیا کیا فوائد حاصل کیے؟

ان مختصر گزارشات کے ساتھ یہ عرض کرنا ہے کہ اپنی مصروفیات اور اپنے مشاغل میں ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے یہ ماہ مبارک گزاریں۔ بچوں اور بوڑھوں کے کام کو مشقت نہ سمجھیں۔ ان کے حوالے سے فرائض کی ادائیگی پر ستّر گنا اجر کی نوید ہے۔ بےجا خریداری سے گریز کریں اور وسائل سے محروم افراد پر خرچ کریں۔ اپنے کاموں اور نیند کے اوقات میں اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔ روزے کو ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے بہلانے کے بجائے ایک ایک لمحے کو بامقصد گزارنے کی کوشش کریں۔ رمضان، نماز اور زکوٰۃ کےمتفرق مسائل جاننے کے لیے متعلقہ کتب کا مطالعہ کریں یا اہلِ علم سے معلوم کریں۔ سحری اور افطاری میں سادگی اختیار کریں، البتہ گھر والوں کی بنیادی غذائی ضروریات کا خاص خیال رکھیں۔ بچوں کو رمضان کے فضائل بتاتے ہوئے انھیں اپنی عمر کے لحاظ سے مختلف نیکیوں کی ترغیب دلائیں۔ اس ماہ میں ان کی روحانی اور دینی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ روزے کو وجہ بناتے ہوئے غصے سے پرہیز کریں۔ اگر آپ ملازمت کرتی ہیں تو اپنی ڈیوٹی اور فرائض کو بخوبی انجام دیں۔ ملازمین کو روزے میں سہولت دیتے ہوئے ان کے کاموں میں کچھ تخفیف کر دیں۔

اگر حالات اجازت دیں تو کم از کم زندگی میں ایک دفعہ آخری عشرہ میں مسنون اعتکاف کریں، بصورتِ دیگر دوران رمضان کسی بھی وقت ایک، دو یا تین دن کا نفلی اعتکاف کریں۔ رمضان کے آخر میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے کفارے کے لیے دل کی خوشی سے صدقۂ فطر ادا کریں۔ یکم شوال کی رات لیلۃ الجائزہ میں مختصر سی عبادت کے ساتھ اپنے اجر کی وصولیابی کے لیے خصوصی دعا کریں، کیونکہ نبی آخر الزماںصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس رات میں مزدور کو اس کی مزدوری کی اُجرت دی جاتی ہے۔ ممکن ہو تو عید کی نماز کے لیے مسجد جانے کی کوشش کریں۔ آپؐ نے خواتین کو بھی عید کی نماز میں شرکت کی خصوصی تاکید فرمائی ہے۔

عید کے دن گھر والوں، رشتہ داروں اور احباب کی حسب ِاستطاعت خاطر مدارت کریں۔ شوہر، بچوں، والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں کو بھی تحائف دینے کا اہتمام کریں۔ بچوں کے لیے عید کے معمولات میں دلچسپی پیدا کریں تاکہ وہ اپنے تہواروں پر خوشی و فرحت محسوس کریں۔ عید کے دن یا بعد کے دنوں میں بچوں کے دوستوں کو اکٹھا کر کے ایک پارٹی کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان خوش قسمت افراد میں شامل کرے جن کے لیے رمضان میں مغفرت کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رمضان کے بعد ہمیں اپنی تربیت سے حاصل کردہ تقویٰ، شکر گزاری اور عبادتوں پر قائم و دائم رکھے، آمین!

ماہِ رمضان فضیلت و عظمت اور برکت والا مہینہ ہے۔ گناہوں کی مغفرت اور جنت کی ضمانت کا مہینہ ہے ۔قرآن کے نزول اور قرآن سے تعلق جوڑنے کا مہینہ ہے ۔ایک پاکیزہ اور گناہوں سے پاک ماحول میں آگے بڑھ چڑھ کر نیکی کے کاموں میں حصہ لینے اور عملِ خیر کرنے کا مہینہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ رمضان کے آتے ہی تقویٰ، خوفِ خدا اور نیکی کا ایک نیاجوش اور ولولہ دیکھنے میں آتا ہے ۔ہر شخص کچھ نہ کچھ نیکی کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے ۔مساجد میں رونق بڑھ جاتی ہے، تلاوتِ قرآن کا اہتمام ہوتا ہے، اور ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت انفاق اور حاجت مندوں کی امداد کی جاتی ہے۔اجتماعی طور پر نیکی کا ماحول ہوتا ہے ۔گویا نیکیوں کے لیے موسم بہار کا سماں ہوتا ہے ۔کم و بیش پورا ماہ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے بلکہ آخری عشرے میں اعتکاف کا خصوصی اہتمام خصوصاً شب قدر کے موقع پر عبادات ،نوافل کی ادائیگی اور شب بیداری کے لیے لوگوں کا جذبہ دیدنی اور ایمان افروز ہوتا ہے ۔

دوسری طرف رمضان کے گزرتے ہی بلکہ چاند رات ہی کو یہ صورتِ حال بدلتی محسوس ہوتی ہے ۔جذبۂ ایمانی سرد پڑنے لگتا ہے اور روزے کی وجہ سے لوگ جن غلط کاریوں سے رُکے ہوتے ہیں ان کا پھر سے ارتکاب کرنے لگتے ہیں ۔ نماز کی ادائیگی میں کمی آجاتی ہے اور مسجدوں کی رونق ماند پڑنے لگتی ہے ۔قرآن کی تلاوت اور قرآن سے وہ تعلق نہیں رہتا جو اس ماہ میں لوگوں کا معمول بن جاتا ہے ۔عبادت کے ذوق و شوق میں کمی آجاتی ہے ۔حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی وہ تمیز کم ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کا رمضان کے تقدس و احترام میں اہتمام کیا جاتا ہے ۔گویا رمضان میں اگر قید یا پابندی تھی تو رمضان کے بعد ایک دفعہ پھر بے قیدی ہو جاتی ہے ۔

  • آخر اس کا سبب کیا ہـے؟ : اگر غور کیا جائے تو اس کے دو بنیادی اسباب ہیں ۔پہلا سبب تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں عبادت کا رسمی تصوّر پایا جاتا ہے ،حقیقی شعور نہیں ۔لوگوں کے نزدیک نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی ادائیگی اور کچھ نیک کام کر لینے کا نام ہی عبادت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ان عبادات کا پوری طرح اہتمام کرتے ہیں ۔گویا ان کے لیے چند افعال کی ظاہری شکلوں کی ادائیگی کا نام ہی عبادت ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ رمضان میں روزے کے آداب اور دیگر عبادات کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں لیکن رمضان کے گزرتے ہی ان کے معمولات میں فرق آجاتا ہے۔
  • عبادت کا حقیقی تصور: کیا عبادت کے لیے کچھ لمحات اور اوقات مخصوص ہیں کہ ان میں اللہ کی بندگی کی جائے؟ ان لمحات میں تو میں اللہ کا بندہ ہوں اور بعد میں اپنے نفس کا بندہ بن جاؤں؟

عبادت دراصل ہر وقت اور ہر حال میں خدا کی بندگی اور اطاعت کا نام ہے ۔درحقیقت نماز ،روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کے ذریعے پوری زندگی میں خدا کی بندگی اور اطاعت کی مشق کروائی جاتی ہے۔ نماز دن میں پانچ مرتبہ یہ یاد دلاتی ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں، اسی کی بندگی کرنی ہے۔ روزہ سال میں ایک مرتبہ مہینہ بھر خدا خوفی اور خدا کی اطاعت کی اجتماعی مشق کرواتا ہے ۔ہم اللہ کے حکم پر کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں اور کھاتے پیتے اور دیگر نفسانی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ہمیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہمارا مال حقیقت میں خدا کا عطیہ ہے اور ہمیں اسے خدا کی مرضی کے مطابق خرچ کرنا ہے اور اس میں ہمارے غریب بھائیوں کا حق شامل ہے۔ حج کے ذریعے خدا کی محبت اور اس کی بندگی کا گہرا نقش ثبت کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ تمام عبادتیں انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتی ہیں جو کہ حقیقی عبادت ہے یعنی خدا کی کامل اطاعت و بندگی ۔

اسلام میں عبادت کی اہمیت اس قدر ہے کہ اسے مسلمان کا مقصد زندگی قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶ (الذاریات ۵۱:۵۶)’’میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں‘‘ ۔

اگر ایک مسلمان اپنے مقصد زندگی کو ہی نہ پا سکے تو کتنی بڑی ناکامی اور خسارہ ہے۔لہٰذا عبادت کے حقیقی شعور کا اُجاگر ہونا ناگزیر ہے۔ مسلمانوں میں جب عبادت کی حقیقی روح بیدار ہوگی تو پھر رمضان کے بعد بھی وہ خدا کی عبادت میں مصروف رہیں گے بلکہ رمضان جیسے بابرکت مہینے کی مشق ان میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے اضافہ کا باعث ہوگی ۔

رمضان کے بعد عبادات میں کمی کا ایک دوسرا بنیادی سبب اجتماعی ماحول اور اجتماعیت کی کمی ہے ۔ماہ رمضان میں پورے ماحول پر نیکی کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔نیکی کرنا آسان اور برائی کا ارتکاب مشکل ہوتا ہے ۔رمضان کے رخصت ہوتے ہی ماحول میں بڑی حد تک تبدیلی آ جاتی ہے اور نیکی کرنا مقابلتاً مشکل ہو جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نیکی کا جذبہ سرد پڑنے لگتا ہے اور عبادات میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ رمضان کے بعد نیکی کرنے کے جذبے کو تروتازہ رکھنا ایک مسلمان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے اور اس کے مقابلے کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اجتماعیت کی اسی اہمیت کو واضح کیا ہے ۔جیسا کہ آپؐ نے بیان فرمایا :’’بھیڑیا اسی بھیڑ کو کھاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے الگ ہو جاتی ہے ‘‘۔لہٰذا رمضان کے بعد نیکی اور پرہیزگاری کے عمل کے تسلسل کے لیے اجتماعیت سے جڑے رہنا اور نیک صحبت اختیار کرنا جہاں بے حد ضروری ہے وہاں نیکی کے جذبے کے ماند پڑ جانے کا علاج بھی ہے۔

  • بـے روح روزہ :درحقیقت روزے کی اصل روح یہ ہے کہ ’’آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور اپنی بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہو جائے اور وہ ایسا مطیع امر ہو کر یہ لمحات گزارے کے ہراُس چیز سے رُکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہر اس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نےدیا ہے ۔روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا، یہ کیفیت جتنی زیادہ ہو روزہ اتنا ہی مکمل ہے، اور جتنی اس میں کمی ہے اتنا ہی وہ ناقص ہے۔

اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام اُن افعال کا ارتکاب کرتا چلا گیا،جنھیں خدا نے حرام کیا ہے، تو اس کے روزے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مُردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں جن سے صورتِ انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہہ سکتا اسی طرح اس بے روح روزے کو کوئی بھی روزہ نہیں کہہ سکتا ‘‘۔(اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، از سیّد مودودی)

یہی بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ’’جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ آدمی اپنا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘(بخاری) ۔ اسی بات کوایک دوسرے انداز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا:’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور کتنے ہی رات کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنھیں اس قیام سے رات جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔(دارمی )

  • آیئے! اب ذرا اپنا احتساب کرلیجیے :
    • کیا ہم نے رمضان کے حقیقی مقصد کو اب تک جانا؟
    • کیا ہم نے روزے کی اصل روح کو پایا ؟
    • زندگی میں اب تک جتنے رمضان ہم نے پائے کیا ہم نے ان سے فائدہ حاصل کیا یا درحقیقت انھیں گنوا دیا ؟
    • کیا ہر دفعہ کی طرح یہ رمضان بھی ہمارا اسی طرح گزر جائے گا؟

روزے تو پچھلی امتوں پر بھی فرض تھے (البقرہ۲:۱۸۳)۔ہمارےلیے رمضان کی خصوصی بات اس میں قرآن کا نزول ہے ۔رمضان دراصل قرآن کا مہینہ ہے ۔کیا ہم نے اس رمضان میں قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کیا ؟

ہم مشکل سے مشکل دُنیوی علوم حاصل کر سکتے ہیں ۔ اگر کچھ نہیں ممکن ہے تو بس قرآن کو سمجھ کر پڑھنا اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا اور عمل کرنا۔خدا نخواستہ اگر روزِ قیامت ہم سے اللہ نے یہ سوال کر لیا اور ہم پر قرآن سے بے پروائی کا مقدمہ دائر کر دیا کہ دنیا کے دیگر مشکل علوم تو ہم نے سیکھ لیے مگر قرآن کو کبھی اس قابل ہی نہ سمجھا کہ اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش  کی، یا ارادہ بھی کیا، تو محشر کی عدالت میں ہمارے پاس اس بات کا کیا جواب ہوگا ؟

اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں رمضان کی خیر و برکات کو بہترین انداز میں سمیٹنے کی توفیق دے ۔ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق دے ۔ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرے اور نیکی کی راہ پر استقامت دے۔ صحیح معنوں میں عبادت و بندگی کی توفیق دے۔ قرآن سے حقیقی تعلق قائم کرنے اور اس کی ہدایات کے مطابق عمل کرنے اور دوسروں تک پیغام پہنچانے کی توفیق دے، نیز ضرورت مندوں اور مستحقین کا حق ادا کرنے کی توفیق دے ۔اور اس سب کے نتیجے میں ہماری مغفرت کا سامان کر دے اور جہنم سے نجات اور جنت کا مستحق ٹھیرا دے، آمین !

بامقصد اور روشن مستقبل کے حصول کا عزم اور اس کا عملیت پسندانہ تصور کسی فرد یا ادارے کا ’وژن‘ (بصیرت)کہلاتا ہے۔ نظریہ ایک راہ نما ہدایت نامے کی طرح ہوتا ہے، جس کی مدد سے اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ انسان کس سمت میں جانا چاہتا ہے اور کس طرح کی دُنیا بسانے کا خواہش مند ہے؟ لیڈرشپ کی خصوصیات میں سے یہ ایک بڑی اہم خصوصیت ہے کیوں کہ اگر لوگ اپنی جدوجہد کے مقاصد اور اس کے متوقع نتائج سے ناواقف ہوں تو وہ بددلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ایک عظیم لیڈر کا وژن عام لوگوں سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حالات اور واقعات کو بہتر طور پر سمجھ کر ان کے بارے میں زیادہ مؤثر طریقے سے رائے دے سکتا ہے، اور ان سے نمٹنے کے لیے موزوں ترین حکمت عملی اختیار کرسکتا ہے۔ لیڈر کی سوچ میں بڑی وسعت ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ مسائل اور حالات کو الگ زاویے سے دیکھتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کرسکتا ہے، جو عام لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ کامیاب ترین ادارے اپنے وژن اور مشن ہی کی بدولت لوگوں کے لیے پُرکشش ٹھیرتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ وژن میں ایسی کون سی طاقت ہے، جس کی بدولت حالات و واقعات کا رُخ موڑا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان میں فطری طور پر یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد ہو اور وژن اس خواہش کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نامور محقق ڈینیل پنک کا کہنا ہے: ’’کسی مہارت پر عبور، خودمختاری اور مقصد وہ تین عوامل ہیں جو انسان کو کسی کام پر آمادہ کرنے کا محرک بنتے ہیں‘‘۔ اسلام اسے فطرت کا نام دیتا ہے جو اللہ کی طرف سے انسان کو ودیعت کی جاتی ہے۔ اس لیے جب کسی وژن کی صورت میں انسان کو اپنی زندگی کا مقصد مل جاتا ہے، تو وہ اسے پورا کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیتا ہے۔ بعض اوقات کسی کا پیش کردہ نظریہ زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرپاتا، یا لوگ اس سے غیرمتفق ہوتے ہیں۔ اکثریت کی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ بات لازم ہے کہ قائد کا تجویز کردہ نظریہ لوگوں کے جذبات، ان کی اقدار اور ترجیحات سے ہم آہنگ ہو۔


حکمت عملی کی تشکیل

عام طور پر لیڈرشپ کی ابتدا ایک وژن سے ہوتی ہے، جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے پہلے مطلوبہ اقدار کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر ان سے ہم آہنگ ایک مؤثر حکمت ِ عملی تیار کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک تفصیلی ایکشن پلان بنایا جاتا ہے جس پر عمل درآمد کے دوران میں ’عمل درآمد کے مرکزی معیارات‘  (Key Performance Indicators-KPI)کی مدد سے کارکردگی کی جانچ پرکھ کی جاتی ہے۔ تاہم، اس سے زیادہ کارآمد طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ایسی ہمہ گیر نوعیت کی اقدار کا تعین کرلیا جائے، جنھیں فروغ دینا مقصود ہے اور پھر ان اقدار سے ہم آہنگ ایک ایسا نصب العین یا نظریہ متعارف کروایا جائے، جس کے حصول کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی مدد سے عملی منصوبے بنائے جاسکیں۔

اداروں کی سطح پر حکمت ِ عملی کو سمجھنے کے لیے ایک عرصے تک کسی ادارے کو مطلوبہ سمت میں رواں رکھنا اور اسے وسعت دینا حکمت ِ عملی کے زمرے میں آتا ہے۔ مارکیٹ کی ضروریات، فریقین کی توقعات اور دیگر چیلنجوں سے نمٹنے میں ایک عمدہ حکمت عملی، ادارے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ حکمت عملی کو اکثر شطرنج کے پیچیدہ کھیل سے تشبیہ دی جاتی ہے کیوں کہ اس میں بھی گہری سوچ بچار کے بعد موقع کی مناسبت سے اگلا قدم اُٹھایا جاتا ہے۔ اس فریم ورک کا خاکہ ذیل میں دیئے ٹیبل سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کس طرح ہرمرحلے پر مختلف سوالوں کی مدد سے اس فریم ورک کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا جاسکتا ہے:

پیغمبرانہ بصیرت

یکسوئی، اُولوالعزمی اور ثابت قدمی، لیڈرشپ کی نمایاں خصوصیات ہیں، جن کا بہترین عملی نمونہ سیرت النبیؐ میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی روشنی میں ایک اسلامی معاشرہ قائم کرنا آپؐ کی زندگی کا واحد مقصد تھا، جس کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ آپؐ کو کبھی کسی نے غیرتعمیری کام میں وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا بلکہ آپؐ ہمیشہ کسی کام میں مصروف ہی نظر آئے:

نظریے کی تکمیل کے مراحل اقدامات تفصیل
اس وقت ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ اپنا محاسبہ کرنا (خود احتسابی) گذشتہ ریکارڈ اور اعداد و شمار کی مدد سے ماضی کا جائزہ لیں۔
ہم کس سمت میں جارہے ہیں؟ مروجہ رجحانات کا تجزیہ کرنا اعداد و شمار اور حقائق کی مدد سے موجود اور آئندہ کے رجحانات کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں۔ مستقبل کا ممکنہ خاکہ بنائیں۔
ہم کس مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں؟ نظریے کو الفاظ کی شکل دینا (اقدار کا تعین) اپنے اور ادارے کی اقدار کی مناسبت سے فیصلہ کریں کہ آپ کیسا مستقبل چاہتے ہیں؟
ہم وہاں تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ مشن اور لائحہ عمل ترتیب دینا اپنے نظریے اور دعوت کو دو یا تین عبارتوں میں تقسیم کریں جن سے یہ واضح ہو کہ آپ اپنے نظریے کو کس طرح
کیا ہم مطلوبہ ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوپارہے ہیں؟ طے شدہ سرگرمیوں پر عمل درآمد اور ان کی نگرانی کرنا عملی جامہ پہنائیں گے؟ ایسی سرگرمیاں منتخب کریں جو آپ کے نظریے اور نصب العین (مشن)کو تقویت دیں۔
طے شدہ سرگرمیوں پر عمل درآمد کے لیے جامع منصوبہ بندی کریں اور ان کی نگرانی کا باقاعدہ نظام تیار کریں جس میں ممکنہ رکاوٹوں سے نمٹنے کا طریق کار موجود ہو۔

 

 

سورئہ تکویر کی چھبیسویں آیت: فَأَیْنَ  تَذْھَبُوْنَ کا مفہوم ہے: ’’پھر تم لوگ کدھر چلے جارہے ہو؟‘‘ یہ سوال ہر انسان کے لیے ہے کہ وہ سوچے کہ اس زندگی کا مقصد کیا ہے، وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور کس مقام پر پہنچنا چاہتا ہے؟

 قرآن کریم کے اس منطقی سوال کا بہترین جواب سیرۃ النبیؐ ہے۔آپؐ سے عقیدت اور محبت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و افعال کا بغور مطالعہ کریں، ان کی وجوہ اور نتائج کا تجزیہ کریں اور ان کی مناسبت سے اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کی سمت متعین کرنے کی کوشش کریں، کیوں کہ غوروفکر اور تحقیقی اندازِ فکر اپنائے بغیر ایک اعلیٰ وژن تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔

بعثت سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں کسی بھی قسم کی لاپروائی دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ اس کے برعکس آپؐ اپنی ایمان داری اور جذبۂ خدمت کی وجہ سے مشہور تھے۔ زندگی میں کسی بامعنی مقصد کا حصول اور اپنے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا عزم ہی تھا، جو آپؐ کو غارِحرا میں کئی کئی دن تک غوروفکر میں مشغول رکھتا تھا۔ اسی دوران میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی زندگی کو سمت بخشی اور آپؐ کی لیڈرشپ کے انداز کا تعین ہوا۔ یہ تمام حضرت عائشہؓ کے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا بہت عمدہ اور سچّے خوابوں سے ہوئی۔ پھر آپؐ تنہائی پسند ہوگئے اور کئی کئی دن غارِحرا میں عبادت میں مشغول رہنے لگے۔ اس دوران میں آپؐ وقتاً فوقتاً صرف اشیائے ضروریہ لینے کے لیے حضرت خدیجہؓ کے پاس واپس تشریف لاتے اور پھر  واپس جاکر عبادت میں مصروف ہوجاتے تھے۔ یہ سلسلہ پہلی وحی کے نزول تک جاری رہا۔ جب حضرت جبرئیل امینؑ سورئہ علق کی پہلی پانچ آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے: ’پڑھو، اپنے ربّ کے نام سے‘۔ اس کے بعد آپؐ سیدھا حضرت خدیجہؓ کے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپؐ پر شدید لرزہ طاری تھا۔ آپؐ کے کہنے پرحضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو کمبل اوڑھایا۔ جب آپؐ کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کو سب رُوداد سنائی اور اپنے اضطراب کا ذکر کیا۔ جس پر وہ بولیں: ’’آپؐ ہرگز غمگین نہ ہوں، بخدا! اللہ کبھی آپؐ کی بے قدری نہیں ہونے دے گا۔ آپؐ رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، سچ بولتے ہیں، غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں، اپنے مہمانوں کے ساتھ فراخ دل ہیں اور مصیبت زدوں کو سہارا دیتے ہیں‘‘۔

اس واقعے کے ذریعے یہاں پر یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ اللہ کی وحدانیت پر ایمان لاکر خود کو اس کی رضا کے تابع کرلینا اسلام کا پہلا سبق اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وژن اور مشن کی بنیاد ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ رَدعمل صرف ایک غم گسار رفیق کی جانب سے کی جانے والی دل جوئی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اسلامی اقدار کا پہلا تعارف بھی ہے۔ انسان کے کردار، عادات اور اعمال کا کوئی بھی پہلو اس کی بیوی سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، لہٰذا یہ بیان اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں آپؐ کے پیغمبرانہ اوصاف کی گواہی موجود ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے کسی مافوق الفطرت قوت یا کسی معجزے کا حوالہ نہیں دیا بلکہ آپؐ کے اعلیٰ کردار، عزیز واقارب کے ساتھ حُسنِ سلوک، خدمت خلق اور ایمان داری کی بناپر آپؐ کے بیان کی تصدیق کی۔

جب اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ حق کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانا شروع کر دیں تو آپؐ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر مکہ والوں کو پکارا۔ جب سب جمع ہوگئے تو آپؐ نے ان سے سوال کیا: ’’اگرمیں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کی دوسری جانب سے گھڑسواروں کا ایک دستہ تم پر   حملہ کرنے آرہا ہے تو کیا تم میری بات پر یقین کرو گے؟‘‘ ان سب نے کہا: ’’ہاں، کیوں کہ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں‘‘۔ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے اللہ نے تم لوگوں کو تنبیہہ کرنے کے لیے بھیجا ہے تاکہ تم ایک خدا پر ایمان لائو اور اسی کی عبادت کرو اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو نہ میں اس دُنیا میں تمھیں اس کی سزا سے بچا سکتا ہوں اور نہ آخرت ہی میں‘‘۔ حضورؐ نے قریش کو تاکید کی کہ وہ اقرار کریں کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، اور ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ ایمان لانے والوں کے لیے بڑا اجر ہے۔

توحید کا یہ تصور انسانیت کی فلاح کے نظریے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ دُنیا میں پائی جانے والی ناانصافیوں اور استحصال کے خاتمے اور انسانی حقوق اور عزّتِ نفس کی حفاظت کے مشن کا نکتۂ آغاز ہے۔ تمام اخلاقی بُرائیوں میں مبتلا، دولت مند اور طاقت ور اہل مکہ کے لیے یہ ایک کھلا چیلنج تھا، جسے اُنھوں نے یک سررَد کر دیا۔ یہاں تک کہ آپؐ کے چچا ابولہب نے شدید طیش کے عالم میں آپؐ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا (نعوذ باللہ)۔ اس کے باوجود آپؐ نے دعوتِ حق کا کام جاری رکھا اور متعدد مواقع پر اپنے عمل کے ذریعے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ اپنے نظریے کی خاطر ڈٹ جائیں اور اس کی خاطر ہرقربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔

اسی جذبے کے بل پر غزوئہ بدر میں مٹھی بھر مسلمان، کفّار کی کئی گنا بڑی فوج سے ڈرنے کے بجائے ان کے مقابلے پر ڈٹ گئے اور غزوئہ خندق کے دوران میں بھوک کی شدت برداشت کرتے رہے۔ ان تمام موقعوں پر ان کی ہمت بندھائے رکھنے میں ان کے محبوب ترین لیڈرؐ کا ہاتھ تھا، جنھوں نے جنگ کے ہرمرحلے میں دیگر مسلمانوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ یہ آپؐ کے وژن کی کامیابی ہی تھی، جس کی وجہ سے آخرت میں کامیابی، رضائے الٰہی اور جنّت کا حصول ہر مسلمان کا محبوب ترین مقصد بن گیا۔

حکمت عملی

اسلامی نظریے کی بقا کے لیے حضوؐر اور صحابہ کرامؓ بہترین لائحہ عمل اختیار کیا کرتے تھے۔ ہجرت کے موقعے پر حضورؐ اور حضرت ابوبکرؓ کو معلوم تھا کہ ان کا تعاقب کیا جائے گا، اس لیے اُنھوں نے مدینہ جانے کے لیے عام راستے سے ہٹ کر ایک دشوار راستے کا انتخاب کیا، جس کی وجہ سے پیچھا کرنے والوں کو کافی مشکلات پیش آئیں۔ اسی طرح غزوئہ بدر کے دوران میں ایک صحابیؓ کے مشورے پر اپنی فوج کو اس واحد کنویں پر تعینات کیا جہاں سے دشمن فوج پانی حاصل کرتی تھی۔ شدید گرمی سے تپتے ہوئے صحرا میں دشمن پیاس سے نڈھال ہوگیا، جب کہ مسلمان پانی دستیاب ہونے کی وجہ سے تروتازہ رہے۔ ایسے وقت میں جب مسلمان تعداد میں بے حد کم تھے اور ان کے پاس جنگی سازوسامان بھی نہ ہونے کے برابر تھا، یہ حکمت ِ عملی کافی مفید ثابت ہوئی۔ غزوئہ خندق کے موقع پر حضرت سلمان فارسیؓ نے تجویز دی کہ دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیے اہلِ فارس کا طریقہ اپنایا جائے یعنی خندقیں کھودی جائیں۔ حضوؐر نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور اس کے ذریعے دشمن کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔

صلح حدیبیہ اور آپ ؐ کی دُور اندیشی

بلند سوچ اور بہترین حکمت عملی ایک نظریاتی راہ نما کی پہچان ہیں۔ تنگ دل اور کم ظرف انسان کبھی ایک اچھا لیڈر نہیں بن سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے بنیادی مقصد کو پورا کرنے، مسلسل بدلتے ہوئے حالات اور ان کے تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنے اور دیرپا کامیابی کے حصول کے لیے اپنائے جانے والے تمام طریقے حکمت عملی میں شمار ہوتے ہیں۔

ہجرت کے لیے غیر متوقع راستے کا انتخاب کرکے قریش کے تعاقب میں رکاوٹ ڈالنے سے لے کر خندق کھود کر دشمن کا مقابلہ کرنے تک کے واقعات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمعمولی ذہانت اور معاملہ فہمی کی عمدہ مثالیں ہیں۔ لیکن آپؐ کی دُور اندیشی اور حکمت کا عروج ’صلح حدیبیہ‘ کے موقع پر کیے جانے والے معاہدے کی صورت میں سامنے آیا، جس کی شرائط بہ ظاہر مسلمانوں کے لیے ناموافق تھیں۔ وقت نے ثابت کردیا کہ آنے والے وقتوں میں انھی کی بنیاد پر مسلمانوں کو عظیم کامیابیاں نصیب ہوئیں۔

قریش کی مسلمانوں سے عداوت سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود، اگر آپؐ نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ حج کی نیت سے مکہ کا سفر اختیار کرلیا تھا، تو اس کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ حج ادا کرنے کی ایک کوشش کرلی جائے، بلکہ درحقیقت یہ آپؐ کے نظریے اور مقصد کی جانب ایک بڑی پیش رفت تھی۔ اس سفر سے قریش کو یہ باور کرنا مقصود تھا کہ حج بیت اللہ مسلمانوں کا حق ہے، لیکن جب اس بارے میں حتمی فیصلے کا اختیار غیرمتوقع طور پر قریش کو دے دیا گیا تو وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔ اس کے علاوہ چوں کہ مسلمان نہایت کم ہتھیار لے کر آئے تھے۔ اس لیے غیرمسلح لوگوں پر حملہ کرنا قریش کے لیے بدنامی کا سبب بن سکتا تھا۔ ساتھ ہی وہ اس قافلے کی عددی برتری سے خائف بھی تھے۔ کیوں کہ اگر اتنے بڑے گروہ کو روکا جاتا تو ہرجگہ یہ خبر پھیل جاتی کہ مکہ کے دروازے حج کے لیے آنے والوں پر بند کر دیئے گئے ہیں، جس سے ان کی تجارتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ حضورؐ نے اپنی دُور اندیشی سے کام لے کر ان تمام عوامل کا فائدہ اُٹھایا اور ایسی صورتِ حال پیدا کردی جس میں صلح کے سوا قریش کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ معاہدے میں تحریر کیا گیا کہ اس سال مسلمان بغیر حج کیے واپس جائیں گے۔اگر مکہ سے کوئی شخص فرار ہوکر مدینہ پہنچ جائے تو اسے واپس بھیج دیا جائے گا، لیکن اگر مدینہ سے کوئی شخص بھاگ کر مکہ چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

صلح حدیبیہ کی شرائط بہ ظاہر مسلمانوں کے خلاف اور قریش کے حق میں تھیں، اس لیے فطری طور پر مسلمان بہت افسردہ تھے۔ لیکن حضوؐر کی زیرک نگاہ مستقبل پر تھی اور ان کا مقصد تھا کہ اس دس سالہ معاہدے کی مدد سے قریش کی شرپسندی کو قابو میں رکھا جائے تاکہ مسلمان ان کی طرف سے بے فکر ہوکر پورے عرب میں اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دے سکیں۔ اس معاہدے کا طے پاجانا بذاتِ خود ایک بڑی کامیابی تھی، کیوں کہ اس کی بنا پر پہلی بار قریش کو ادراک ہوا کہ مسلمان اتنے طاقت ور اور اہم ہوچکے ہیں کہ اب ان کے ساتھ معاہدہ کرنے کی ضرورت پیش آچکی ہے۔ مسلمانوں کی قوت اور اہمیت کے اس احساس کی بدولت ان کی مخالفت کی شدت میں کمی آگئی اور مدینہ کے حکمران کے طور پر حضورؐ کی حیثیت مستحکم ہوگئی۔ صلح حدیبیہ کے بعد قائم ہو نے والے امن و امان کی وجہ سے تبلیغ کے عمل میں تیزی آئی اور اُمت مسلمہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔

فتح مکّہ ___ بہترین حکمت عملی کا مظہر

اپنی فطری ایمان داری کی بنا پر صلح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کی تمام شرائط پر سختی سے عمل کیا، لیکن شاید آپؐ کو اندازہ تھا کہ قریش بالآخر اپنی فطرت سے مجبور ہوکر عہدشکنی کے مرتکب ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔قریش کے حلیف قبیلے بنوبکر نے مسلمانوںکے حلیف بنوخزاعہ پر حملہ کیا اور ان کے بہت سے افراد کو قتل کرڈالا۔ اس وقت تک مسلمانوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوچکا تھا۔ آپؐ نے ایک بڑی فوج تشکیل دی اور بغیر کسی اعلان کے اچانک مکہ کا محاصرہ کرلیا۔

بعض روایات کے مطابق آپؐ نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ رات میں ہرشخص الگ الگ آگ جلانے کا اہتمام کرے۔ اس سے پہلے رواج تھا کہ دس افراد کے لیے ایک جگہ پر آگ جلائی جاتی تھی، جسے دیکھ کر مخالف فوج کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ لیکن اس ترکیب کی وجہ سے قریش کو مسلمانوں کی فوج تقریباً دس گنا زیادہ معلوم ہوئی اور ان پر ہیبت طاری ہوگئی۔ فتح مکہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور تاریخی کامیابی ہے، کیوں کہ اس دوران میں کسی قسم کی کوئی خوں ریزی نہیں ہوئی اور فاتح انتہائی پُرامن انداز میں مکہ میں داخل ہوگئے۔

یہ حضوؐر کی دیدہ ور قیادت کا اوجِ کمال تھا، جس کا اعتراف دُنیا بھر میں کیا گیا۔ آپؐ نے تہیہ کررکھا تھا کہ فتح کا عمل کسی قسم کی قتل و غارت کے بغیر انجام پائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ مذاکرات میں اپنی حیثیت تسلیم کروانا، دُور اندیشی سے کام لینا اور اپنے حریفوں کو اس حد تک کمزور کر دینا کہ وہ خود ہی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ تمام اوصاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریاتی اور دُوربین قیادت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

کامیابی بہت سے عوامل کا مجموعہ ہوتی ہے۔ بہترین منصوبہ بندی اور سرگرمیوں کی مدد سے کسی جدوجہد میں ایک حد تک کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن ان کی مدد سے مکمل کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح بغیر ہاتھ پائوں ہلائے صرف عبادت کے زور پر بھی کسی مقصد میں کامیابی ممکن نہیں۔ اُونٹ کو باندھ کر اس کی ذمہ داری اللہ کو سونپ دینا اصل توکّل ہے، نہ کہ اسے  کھلا چھوڑ دینا اور یہ سوچنا کہ اللہ خود ہی اس کی حفاظت فرمائے گا۔ تدبیر، حکمت اور عمل اللہ کی جانب سے انسان کو عطا کردہ صلاحیتیں ہیں، جن کا بہترین استعمال کرنا انسان پر فرض ہے۔ لہٰذا، بطورِ مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اعلیٰ اسلامی اقدار کی مناسبت سے اپنا نظریہ تشکیل دیں۔ اس کے حصول کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کریں اور اس کے تمام ممکنہ نتائج کا جائزہ لیں۔

اس سارے عمل کے دوران میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل ایمان رکھیں اور کسی رکاوٹ سے مایوس ہونے کے بجائے اسے آئندہ کے لیے بطورِ سبق استعمال کریں۔ توکّل اور حکمت عملی کا یہ امتزاج ایک بہترین مسلمان لیڈر کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے، جس کا ثبوت جابجا سیرت النبیؐ میں پایا جاتا ہے۔ بطور ایک نظریاتی راہ نما آپؐ صرف گھر بیٹھ کر عالمانہ گفتگو کرنے والے دانش ور نہ تھے اور نہ خاموشی سے منظر دیکھنے والے تھے، بلکہ عمل پر یقین رکھتے تھے اور اپنے اصحابؓ کے ساتھ ہر سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اس طرزِعمل کی وجہ سے آپؐ کی کامیابی اور مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ نیلسن منڈیلا کا ایک قول ہے کہ ’’کسی نظریے کے بغیر کیا جانے والا عمل محض وقت گزاری ہے اور اسی طرح عمل کے بغیر نظریہ دیوانے کا خواب ہے، لیکن دُنیا میں تبدیلی صرف اسی عمل سے لائی جاسکتی ہے جس کی بنیاد کسی نظریے پر ہو‘‘۔

گفتگو کا فن

گفتگو کے ہنر کی قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے پروان چڑھانے کے لیے دُنیا بھر میں ڈھیروں وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی ادارے یا فرد کی کامیابی میں ابلاغی مہارتوں (Communication Skills) کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ایک راہ نما کے لیے اس کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہے کیوں کہ کوئی بھی نظریہ یا اس کے حصول کی حکمت عملی اس وقت تک نامکمل ہوتی ہے ، جب تک عوام اس کے لیے رضامند نہ ہوں۔ رائے عامہ کو اپنے نظریے کی طرف راغب کرنے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لیڈر گفتگو کے ہنر میں مہارت رکھتا ہو اور اپنا نظریہ مؤثر طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکے۔

حضوؐر جامع الکلام تھے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا یعنی مختصرالفاظ میں جامع اور مدلل بات کرنے کی صلاحیت رکھنا آپؐ کی ایک اور خصوصیت تھی۔آپؐ بے جا طور پر طویل گفتگو سے پرہیز کرتے اور لفاظی سے کام لینے کے بجائے واضح انداز میں براہِ راست اپنا مدعا بیان فرماتے تھے۔ آپؐ اپنے الفاظ کا چنائو سوچ سمجھ کر اور محتاط انداز میں کیا کرتے تھے۔ جدید تحقیق کے مطابق ایک عام انسان کی توجہ کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ بیس منٹ تک ہوتا ہے، جس کے بعد اس کا دھیان بھٹکنے لگتا ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپؐ کے کسی خطاب کا دورانیہ بیس منٹ سے زیادہ نہیں رہا ہوگا۔ انسانی فطرت کی باریکیوں سے اس حدتک واقفیت اور ان کی توقعات اور ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی جدوجہد نبویؐ قیادت کا ایک خاص پہلو ہے۔

حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی ہوتا تھا، جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حبشہ پر حکمران تھا۔ اس کانام اصحمہ بن ابجر تھا۔ یہ نام تاریخ میں اصحمہ بن ابحر بھی بیان ہوا ہے، مگر ہمارے نزدیک زیادہ صحیح اصحمہ بن ابجر ہے۔ اس بادشاہ کی شخصیت تاریخ انسانی کی نادر اور یادگار شخصیات میں سے ہے۔ اس کا والد جب حکمران تھا تو ملک کے اندر مکمل امن وامان تھا۔ مؤرخ ابن ہشام نے حضرت عروہ بن زبیرؓ، حضرت عائشہؓ صدیقہ اور حضرت ام سلمہؓ کی بیان کردہ روایات کی روشنی میں ایک دل چسپ واقعہ لکھا ہے۔ دیگر مؤرخین نے بھی اس کو اپنی تواریخ میں جگہ دی ہے۔

ابن ہشام کے مطابق اصحمہ کا باپ ابجر بادشاہ نہایت دانش مند، صاحب ِحکمت، عادل اور بہادر انسان تھا۔ بدطینت سردارانِ قوم اور بدعنوان مذہبی رہنما اس صاحب ِخیر بادشاہ کے خلاف سازش کرنے لگے۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا، جب کہ اس کے دوسرے بھائی کے بارہ بیٹے تھے۔ سرداروں نے آپس میں مشورہ کرکے سوچا کہ بادشاہ کے خلاف سازش کا مضبوط منصوبہ بنایا جائے۔ وہ نہ خود بدعنوانی کرتا ہے، نہ کسی کو اس کا موقع دیتا ہے۔ سوچ بچار ہوئی کہ دیگر لوگوں اور ساری رعایا کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے کیا حربہ اختیار کیا جائے؟ انھوں نے طے کیا کہ عوام کو بتایا جائے، اگر اس بادشاہ کو کچھ ہوگیا اور اس کا نوعمر بیٹا حکمران بنا تو وہ اکیلا کیا کرسکے گا؟ بہتر یہ ہے کہ اس بادشاہ کو میدان سے ہٹا دیا جائے اور اس کے بھائی کو تاج پہنا دیا جائے۔ اس کے بارہ بیٹے ہیں جو اس کی قوت کا راز ہیں اور اس کے بعد حکومت کی مضبوطی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔

اس سازش کے تحت انھوں نے طے کیا کہ بادشاہ کو قتل کردیا جائے اور اس کے بھائی کو بادشاہ بنا دیا جائے۔ چنانچہ سازشی ٹولے نے اس عادل ومنصف اور نیک سیرت وپاکیزہ اخلاق حکمران کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سازشی سردارانِ قوم کے بُرے عزائم کی راہ میں وہ نیک حکمران ایک مضبوط رکاوٹ تھا، اس وجہ سے وہ اس سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے۔ حبشہ کی تاریخ میں ایک دیانت دار حکمران کے قتل کا یہ اقدام ایک انتہائی دردناک سانحہ تھا، مگر اس سے آگے مزید سانحات بھی اس ملک کے نصیب میں تھے، البتہ اللہ تعالیٰ جو تنہا کائنات کا خالق ومالک ہے، شر میں سے خیر نکالنے پر پوری طرح قادر ہے۔ بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہوگئی کہ ربِّ کائنات ظالموں کو ڈھیل ضرور دیتا ہے، مگر جب چاہے ان کی رسّی کھینچ لیتا ہے۔ اسی طرح وہ اہلِ حق پر آزمائشیں ڈالتا ہے، مگر جب وہ ان آزمائشوں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی نصرت ان کے شاملِ حال ہوتی ہے۔ اس کے فرشتے ان اللہ والوں کے دلوں کو سکینت دیتے ہیں اور نصرتِ خداوندی ان کے دشمنوں کی تمام چالوں کو انھی پر الٹ دیتی ہے۔ ان صاحب ِ کردار بندوں کے مقدر میں کامیابی اور فتح لکھ دی جاتی ہے اور مخالفین کے حصے میں شکست اور رُسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا۔

والد کے قتل کے وقت یتیم اصحمہ کی عمر بہت کم تھی اور وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس معصوم بچے کے دل پر قیامت گزر گئی، مگر وہ بے چارہ کیا کرسکتا تھا۔ بہرحال اس کے چچا نے تخت نشین ہونے کے بعد اسے بھی اپنے محل میں اپنے ساتھ رکھ لیا۔ سردارانِ قوم اس نوعمر یتیم لڑکے کو بھی حسد کی نظر سے دیکھتے تھے۔ انھیں ڈر تھا کہ اگر کبھی یہ لڑکا بڑا ہو کر بادشاہ بن گیا تو اپنے باپ کے قاتلوں سے ضرور بدلہ لے گا۔ انھوں نے بادشاہ کے کان بھرنا شروع کیے اور اسے آمادہ کرنا چاہاکہ اس بچے کو راستے سے ہٹا دیا جائے ،کیونکہ وہ بڑا ہو کر باپ کا بدلہ لینے پر تل گیا تو بادشاہ کو بھی نہیں بخشے گا۔ جب انھوں نے بادشاہ سے یہ بات کی تو اس نے کہا: ویلکم! قتلت اباہ بالامس واقتلہ بالیوم! ’’تمھاری  بربادی ہو، کل میں نے اس کے باپ کو (ناحق) قتل کیا ، آج اسے قتل کردوں‘‘۔ درباریوں نے کہا کہ چلیے ٹھیک ہے، اسے قتل نہ کریں ،لیکن جلاوطن کردیں۔ اس بات پر ان بدبختوں نے اتنا اصرار کیا کہ بالآخر بادشاہ نے بادل ناخواستہ اس تجویز سے اتفاق کرلیا، چنانچہ شہزادہ چھ سو درہم میں فروخت کردیا گیا۔

اس مظلوم شہزادے کو بازار سے خریدنے والا تاجر اس کو اپنے ساتھ کشتی میں سوار کرکے اپنے وطن لے گیا۔ جب شام ہوئی تو آسمان پر ایسے سیاہ اور خوف ناک بادل چھائے ،جن کی چمک اور گرج نے زمین اور پہاڑ ہر چیز کو ہلاڈالا۔ بادشاہ گھبرا کر محل سے باہر نکلا تو آسمانی بجلی نے اسے مارڈالا۔ ہرجانب گھپ اندھیرا چھا گیا اور ساری قوم لرز اٹھی، کہ اب کیا ہوگا؟سازش کرنے والے شریر سرداران وپادریان جن کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ کل بیس تھے، سبھی کے سبھی اندھے ہوگئے اور پھر ذلت کی موت مرگئے۔ (سیرۃ ابن ہشام، ص۳۳۸-۳۴۰)

چند دنوں تک پورے ملک میں مصیبت اور افراتفری کی یہی کیفیت رہی۔ ہر شخص اس صورتِ حال سے پریشان تھا، جو بدکردار موت کے گھاٹ اترگئے، وہ تو نشانِ عبرت بن گئے، مگر اب حبشہ کے دیگر اربابِ حل وعقد اور سردار جو بچ گئے سب کے سب گھبراہٹ میں سرگرداں تھے۔ بادشاہ مرچکا تھا اور تخت خالی تھا۔ جب اس بادشاہ کے بیٹوں کا جائزہ لیا گیا تو وہ اتنے عیاش تھے کہ ان میں سے کوئی بھی حکومت کی قابلیت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا۔ سب نشے میں دھت تھے۔ اب پورے ملک میں سراسیمگی پھیل گئی۔ سمجھ دار لوگوں نے سردارانِ قوم کو لعن طعن کیا اور کہا کہ یہ سب تمھارا کیا دھرا ہے۔ پوری قوم یک زبان ہوگئی کہ اب اس عذاب الٰہی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اس شہزادے کو تلاش کرو، جسے تم نے ظلم وستم سے دیس نکالا دیا ہے۔ شہزادے کی تلاش میں کتنا عرصہ لگا، اس کا صحیح اندازہ تو مشکل ہے، البتہ اس کے تلاش کنندہ اسے فوراً تلاش نہ کرسکے۔

امام حلبی لکھتے ہیں: فـخرجوا فی طلبِہٖ وطلبِ الرجلِ الَّذِی باعوہ حتی ادرکوہ فاخذوا منہ ثم جاؤابہ، فعقدوا علیہ التاج واقعدوہ علٰی سریرالملک فملّکوہ ،’’یعنی یہ لوگ اس شہزادے اور جس شخص کے ہاتھ اس کو بیچا گیا تھا، کی تلاش میں نکلے، یہاں تک کہ اسے پالیا، پھر اس سے شہزادے کو زبردستی واپس لے لیا اور اپنے ملک میں لے آئے۔ اس کے سرپر تاج رکھا اور اسے تخت نشین کیا‘‘۔ یوں اس عظیم نوجوان کی حکومت قائم ہوئی۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج۱، ص۴۷۷-۴۸۲)

یہ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ تاجر نہیں جانتا تھا کہ یہ نوجوان کون ہے؟ جب اس سے زبردستی اس کا غلام چھین لیا گیا تو وہ حبشہ پہنچا اور بادشاہ کے دربار میں آکر شکایت کی۔ اس نے کہا کہ یا تو اس کا غلام اسے دیا جائے یا اس سے وصول کی گئی قیمت لوٹائی جائے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ جو غلام اس نے خریدا تھا وہ اب اس ملک میں تاج وتخت کا مالک ہے۔ اس پر وہ گھبرا گیا، مگر بادشاہ نے فیصلہ دیا کہ مدعی کا دعویٰ ٹھیک ہے، اسے وصول کی گئی قیمت واپس دی جائے یا پھر اس کا غلام اس کے سپرد کیا جائے۔ پس اس تاجر کو قیمت ادا کی گئی۔ یہ اصحمہ بن ابجر کا پہلا فیصلہ تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قدر عالی اخلاق کا مالک، عادل اور منصف مزاج تھا۔

تاریخ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جس تاجر نے شہزادہ اصحمہ کو خریدا تھا، وہ عرب تھا اور اس کا تعلق قبیلہ بنی ضمرہ سے تھا۔ وہ شہزادے کو لے کر اپنے علاقے میں گیا، جو بدر کے قرب و جوار میں واقع تھا اور وہاں شہزادے کو بکریاں چرانے پر لگادیا۔ جب حبشہ میں بجلیاں کڑکنے کا واقعہ رُونما ہوئے کچھ عرصہ بیت چکا تھا۔ اس وقت شہزادہ جوانی کی عمر کو پہنچ گیا تھا۔ جب اس کی تلاش میں لوگ نکلے تو اسے جزیرۂ نمائے عرب میں جاپایا، اسے وہاں سے لے کر حبشہ آگئے۔

نور الدین الحلبی بیان کرتے ہیں کہ جب بدر میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوئی اور یہ خبر نجاشی تک پہنچی(وہ اس وقت تک مسلمان ہوچکے تھے،اگرچہ ابھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا) تو انھوں نے تخت سے اُتر کر زمین پر سجدہ کیا۔ لوگوں نے پوچھا بادشاہ سلامت آپ نے یہ کیا کیا؟ جواب دیا: انجیل میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اللہ بندے کو کوئی نعمت عطا فرمائے تو اسے اس کی زمین پر سجدہ کرنا چاہیے۔

سجدہ کرنے کے بعد حضرت نجاشی نے فرمایا: آج اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی خوشی اور عظیم نعمت سے ہمیں نوازا ہے اور وہ یہ ہے کہ محمدؐ اور ان کے دشمن آپس میں بدر کے میدان میں ٹکرائے ہیں۔ اس جنگ میں اللہ نے اپنے نبی کو شاندار کامیابی سے نوازا ہے۔ میں میدانِ بدر کو اس کی جھاڑیوں سمیت اچھی طرح جانتا ہوں۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج۱، ص۴۸۰)

دنیا میں ہر چیز کا مقصد اور اس کے استعمال کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ جب ہمیں کسی مشین کے بارے میں معلومات نہ ہوں تو کسی جاننے والے سے اس کا مقصد اور طریقۂ استعمال معلوم کرلیتے ہیں یا اس کی ’عملی ہدایات‘(Operation Manual) سے اسے سمجھ لیتے ہیں، جواس کے بناے والے نے اس میں بیان کیا ہوتا ہے۔

ہمیں اپنے جسم کےہر عضو مثلاً ہاتھ پاؤں، آنکھ اور زبان وغیرہ کا مقصد اور استعمال معلوم ہے، لیکن جب ہم سے یہ سوال کیا جائے کہ بحیثیت انسان ہماری زندگی کا مقصد اورطریقہ کیا ہے؟ تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب جاننے کے لیے ہمیں اپنےبنانے والے (خالق) کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہماری تخلیق کا مقصد اورزندگی گزارنے کے طریقے کے لیے ’عملی ہدایت‘ (Operation Manual) قرآن کی صورت میں عطا کی ہے اوراس کا پورا عملی نقشہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ انسانوں کی ضرورت بھی ہے اور اللہ کا بہت بڑا کرم بھی کہ مقصدِ حیات اور طریقۂ زندگی معلوم کرنے کے لیے انھیں بے یارو مددگار نہیں چھوڑا گیا ۔

ڈاکٹر بننے کے لیے ہر شخص کو چند مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ سکول اور کالج میں تقریباً سوکتابیں پڑھتا ہے اور اچھے نمبر لے کر میڈکل کالج میں داخل ہوتا ہے،جہاں وہ مختلف مضامین کی کم ازکم مزیدبیس کتابیں پڑھتا ہے ، ان کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے تاکہ امتحان میں صحیح جوابات دے کر پاس ہو سکے۔اگر وہ کسی کتاب کے بارے میں ممتحن کو یہ کہہ دے کہ میں نے پڑھی ہے بلکہ مجھے ساری کتاب زبانی یاد ہے (یعنی اسےحفظ کیاہے) لیکن مجھے اس کی سمجھ نہیں ہے ،تو کیا ممتحن اسے پاس کرے گا؟ وہ یقیناً فیل ہوگا اور وہ ڈاکٹر بننے کا حق دار نہیں ہوگا۔

 اگر اس طالب علم کی طرح اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ہم سے یہ پوچھ لیا کہ ’’جوکتاب میں نے تمھارے لیے بھیجی تھی کیاتم نے پڑھی ہے ؟‘‘ اوراس وقت ہمارا جواب یہ ہو کہ ’’پڑھی ہے،بلکہ حفظ بھی کیاہے لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں کہ اس میں کیا لکھا تھا‘‘، تو کیا اس جواب کے ذریعے ہم آخرت کے امتحان میں پاس ہونے کے حق دار ہوسکتے ہیں ؟ اللہ ہمیں اس حالت سے محفوظ رکھے اور قرآن کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کیوں کہ آخرت میں تو سپلیمنٹری امتحان بھی نہیں ہوگا! قرآن ہماری کتابِ زندگی ہے، یہی ہماری رہنما ہے،اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہوگا۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’میرے پاس جبرئیلؑ آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ؐ! آپؐ کی امت آپؐ کے بعد اختلافات میں پڑجائے گی۔ میں نے پوچھا کہ جبرئیلؑ! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: ’قرآن کریم اسی کے ذریعے اللہ ہر ظالم کو تہس نہس کرے گا، جو اس سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ یہ بات انھوں نے دو مرتبہ کہی‘‘ (متفق علیہ)۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے برحق فرمایا تھا:’’ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عزّت بخشی،اگر ہم نےعزت کو اسلام کے علاوہ کسی اور نظام میں تلاش کیا تو اللہ ہم کو ذلیل کر دے گا‘‘۔ اگر ہم پھر سے دنیا میں ایک اعلیٰ مقام اور غلبہ چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کی طرف پلٹنا ہوگا، اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہے۔

بدقسمتی سے آج عملی زندگی میں قرآن ہمارا راہ نما نہیں ۔نتیجتاًمسلمان مذہبی فرقہ واریت اور تعصب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ نظامِ زندگی کے لیے قرآن کی بجائے عملاً دوسروں کو رہنمابنا لیا ہے۔ ہمیں قرآن کی اہمیت اور افادیت کا صحیح ادراک ہی نہیں ہے، اس لیےاوروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

قرآن کا مقصد

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا مقصد خود ہی بیان فرما دیا ہے: وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۵۵ (الانعام۶:۱۵۵) ’’اور یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیروبرکت والی، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحم ہو‘‘۔

 اور سورۂ صٓ میں فرمایا:كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۹ (صٓ  ۳۸:۲۹) ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ!) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘۔

یعنی قرآن برکت والی ایسی کتاب ہے جس کا مقصد اس کی پیروی کرنا ہے اور یہ سمجھ اور غورو فکرکے بغیر نہیں ہوسکتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصدبھی قرآن کی تعلیم دینا اوراس کے ذریعے لوگوں کا تزکیہ کرناہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۲۹ (البقرہ ۲:۱۲۹) ’’اے ہمارے پروردگار ان میں ایک پیغمبر انھی میں سے بھیج، (جو) انھیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور انھیں کتاب (الٰہی) اور دانائی کی تعلیم دے اور انھیں پاک (وصاف) کرے، یقیناً تو تو بڑا زبردست ہے، بڑا حکمت والا ہے ‘‘۔

سورۃ الرحمٰن سے اس کتاب کی عظمت کا اندازہ لگائیں، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلرَّحْمٰنُ۝۱ۙ  عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۝۲ۭ  خَلَقَ الْاِنْسَانَ۝۳ۙ  عَلَّمَہُ الْبَيَانَ۝۴ (الرحمٰن ۵۵:۱-۴) ’’وہ رحمٰن ہے،اس نےقرآن کی تعلیم دی، انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا‘‘۔ذرا تصور کریں کہ یہ کتا ب براہِ راست ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اللہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معلّم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معلّم ہیں ، تو کیااس کتاب کے علاوہ کوئی دوسری کتاب ہماری اولین ترجیح کی مستحق ہو سکتی ہے؟

ہماری موجودہ حالت

 آج اُمت کا عمومی رویہ معاذاللہ ایسا لگتا ہے، جیسے یہودیوں کا تورات کے بارے میں تھا۔ سورۂ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْہَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا۝۰ۭ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۵ (الجمعہ ۶۲:۵) ’’جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انھوں نے اس کا بار نہ اُٹھایا ، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے، ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي، أَوْ سَيَكُونُ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ  يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ فِيهِ  هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ (سنن ابن ماجہ)’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے گلوں سے آگے نہیں بڑھے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بننے والے جانور میں سے گزر جاتا ہے، پھر وہ (دین میں ) واپس نہیں آئیں گے۔ وہ تمام مخلوقات میں سے بدترین افراد ہوں گے‘‘___ قرآن حلق (گلے) سے آگے نہ گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں پر قرآن کا اثر نہیں ہو گا یا ان کے دل قرآن مجید کو سمجھنے سے عاری ہوں گے۔ہمیں انتہائی سنجیدگی سےسوچنا ہوگا کہ آج ہماری حالت رسولؐ اللہ کی اس حدیث کے مصداق تو نہیں ہے؟

کیا قرآن سیکھنا فرض ہـے؟

قرآن سیکھنے سے کوئی مسلمان انکارنہیں کرتا، لیکن وہ اسے بس ثواب کا کام سمجھتا ہے۔ عام طور پر یہ فہم و احساس کم ہی ہے کہ قرآن سیکھنا کتنا اہم فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ۝۰ۭ (القصص ۲۸:۸۵) ’’اے نبیؐ! ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمھیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے‘‘۔ یعنی اس قرآن کو خلقِ خدا تک پہنچانے اور اس کی تعلیم دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق دنیا کی اصلاح کرنے کی ذمہ داری تم پر ڈالی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورئہ زخرف میں ارشادفرمایا:فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِيْٓ اُوْحِيَ اِلَيْكَ ۝۰ۚ اِنَّكَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۴۳ وَاِنَّہٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۝۰ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ۝۴۴ (زخرف۴۳:۴۳-۴۴) ’’(اےپیغمبرؐ!) تم اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے۔ یقینا تم سیدھے راستے پر ہو۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم سےاس کی بابت باز پُرس ہو گی‘‘۔

 یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کرنے کے بعد مسلمانوں کو اس کی جوابدہی کا مسٔول بنایا۔ انسان کسی کتاب کے بارے میں تب ہی مسؤل ہو سکتا ہے، جب اسے معلوم ہو کہ اس کتاب میں میرے لیے کیا احکام ہیں جن کا میں نے حساب دیناہے۔پس، جس طرح اللہ نے مسلمانوں کے لیے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ فرض کیے ہیں، جن کی ادائیگی اس وقت تک صحیح طور پر نہیں ہو سکتی جب تک ان کے بارے میں احکام کی بنیادی تفصیلات معلوم نہ ہوں۔اسی طرح زندگی گزارنے کے لیے قرآن کے بنیادی احکامات کو سیکھنا ، ماننا اور اس پر عمل کرنا بھی فرائض میں سے ہے اور یہی قرآن کی فرضیت ہے، لیکن یہ احساس کم ہی ہے کہ قر آن سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ویسے ہی فرض ہے جیسے نماز اور روزہ فرض ہے۔

قرآن نہ سمجھنے/چھوڑنے والوں کا انجام!

  • روز محشر اندھا اُٹھایا جانا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴  قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا۝۱۲۵  قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَہَا۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى۝۱۲۶ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴- ۱۲۶) ’’اور جو میرے ’ذکر ‘ (قرآن) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ‘‘۔ وہ کہے گا ’’ پروردگار ، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا ‘‘ ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو ،جب کہ وہ تیرےپاس آئی تھیں، تُو نے بھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھلایا جارہا ہے‘‘۔
  • قرآن چھوڑ نے والوں کے خلاف رسولؐ  اللہ  کی گواہی : سورئہ فرقان میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۝۳۰ (الفرقان ۲۵:۳۰)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا ترجمہ یوں بیان فرمایا ہے: ’’اس روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: اے میرے پروردگار اس قوم نے اس قرآن کریم کو ، جو واجب العمل اور واجب الاعتقاد تھا، بالکل نظر انداز کر رکھا تھا کہ اس کی طرف التفات ہی نہیں کرتے تھے اس پر عمل تو درکنار(تفسیر ابن عباس)۔ اور ابن کثیرؒ نے تشریح میں لکھا ہے کہ روزِ محشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی اُمت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کریں گے کہ ان لوگوں نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا،یعنی اسے سمجھتے نہ تھے اور اس پر عمل نہ کرتے تھے،بلکہ اس کے سوا اور کلاموں سے دلچسپی لیتے تھے اور ان پر عامل تھے۔ یہی اسے چھوڑ دینا ہے۔
  • اللہ کا انتقام:اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی گناہ کے ارتکاب کے بارے میں خود انتقام لینے کا ذکر کم ہی کیا ہے، لیکن قرآن کو پسِ پشت ڈالنے پر فرمایا: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْہَا۝۰ۭ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ۝۲۲(السجدہ ۳۲: ۲۲) ’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے۔ ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے‘‘۔

دنیا میں شیطان سے قربت اور گہری دوستی

وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَہٗ شَيْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِيْنٌ۝۳۶ وَاِنَّہُمْ لَيَصُدُّوْنَہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۳۷ (الزخرف ۴۳:۳۶-۳۷) جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔

شیطان کا اصل اور بنیادی ہتھیار یہ ہے کہ دنیا کو خوشنما بنا کر پیش کرے تاکہ انسان دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگے۔ شیطان انھیں راہِ حق پر چلنے سے روک دیتا ہے،فسق وفجور کا خوگر بنا لیتا ہے،دنیا کی ہوس ان کے دلوں میں یوں بھڑکا دیتا ہے کہ وہ ساری قوم کا خون چوسنے کے باوجود تشنۂ لب دکھائی دیتے ہیں۔ ان تمام کھلی گمراہیوں کے باوجود وہ اپنے بارے میں بڑا حسن ظن رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں بس وہی صحیح ہے۔ شیطان کے اس بہکاوے کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے:قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاُزَيِّنَنَّ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَلَاُغْوِيَنَّہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۳۹ۙ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِيْنَ۝۴۰(الحجر۱۵: ۳۹-۴۰) ’’وہ (شیطان)بولا :اے رَبّ! اس وجہ سے کہ تو نے مجھے بھٹکا دیا ہے، میں ان کے لیے زمین میں (برے کاموں کو) ضرور خوشنما بنادوں گا ، اور میں ضرور گمراہ کروں گا ان سب کو، سوائےتیرےان بندوں کے جنھیں ان میں سے  چُن لیا گیاہے‘‘۔ اور اکثر لوگوں کی حالت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مصداق ہو جاتی ہے: قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا۝۱۰۳ۭ اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۝۱۰۴ (الکہف ۱۸: ۱۰۳-۱۰۴) ’’اے محمدؐ، ان سے کہو، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں‘‘۔

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن حکیم سے اعراض پر قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے۔ ان آیات کے بارے میں ہم پوری سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں کہ قیامت کے دن:

  • ہم اندھے اٹھائے جائیں ؟ اور اللہ کو ہماری کوئی پروا نہ ہو؟
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے خلاف اللہ کے دربار میں گواہی دیں؟
  • قرآن کو نظر انداز کرنے کی پاداش میں اللہ ہم سے انتقام لے؟
  •  دنیا میں ہر وقت شیطان ہمارا قریبی اور گہرا ساتھی بنا رہے؟

یقیناً ہر مسلمان اس کا جواب نفی ہی میں دے گا۔ پس ہمیں سنجیدگی سے قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا کیوں کہ خود رب العالمین ہم سے کہہ رہا ہے کہ یہ نہیں کرو گے تو پھر بیان کردہ انجام کے لیے تیار رہو۔ ہم میں سے ہر ایک کو انفرادی اور اجتماعی طور پر موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ قرآن کو پڑھنا، سمجھنا،اس پرانفرادی اور اجتماعی زندگی میں عمل کی کوشش کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ یہی ہماری دنیوی اور اُخروی کامیابی کی شاہ کلید ہے :

گر تو می خواہی مسلماں  زیستن 

نیست ممکن جز  بقرآن  زیستن

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف

نام نہاد جمہوریہ انڈیا کی نسل پرست اور فسطائی حکومت نے تہذیب و شائستگی کی تمام حدوں کو پامال کرتے ہوئے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو حالیہ اقدامات کیے ہیں، انھوں نے انڈین سیکولرازم اور جمہوریت کے داغ دار چہرے کو اور زیادہ بے نقاب کر دیا ہے۔

کشمیر کے طول و عرض میں انڈین پولیس اور عسکری عہدے داروں کی نگرانی میں عملے نے درجنوں دکانوں پر چھاپے مار کر دینی و سماجی موضوعات پر بڑے پیمانے پہ کتب ضبط کرلی ہیں۔ اسی طرح کئی جگہوں پر جماعت اسلامی کے فعال کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہوئے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ یہ سب کارروائیاں انڈیا نے اپنے زیرانتظام کشمیر کے علاقے میں اختلاف رائےدبانے کے لیے کی ہیں۔

انڈیا کے اخبار دی وائر (۱۴فروری ۲۰۲۵ء) کے مطابق: ’’سری نگر کے سب سے بڑے کاروباری مرکز لال چوک میں کتب کے ایک تاجر کے بقول: جمعرات (۱۳ فروری) کو ساڑھے تین بجے پولیس کا ایک گروہ ہماری دکان پر آن دھمکا اور اس کے افسر نے کہا: بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا(BNSS)  ۲۰۲۳ء کی دفعہ ۱۲۶ کے تحت ہم مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی کتب ضبط کریں گے، اور اس کے بعد کچھ کہے سنے بغیر دکان پر دھاوا بول دیا‘‘۔

روزنامہ گارجین  لندن (۱۹فروری ۲۰۲۵ء) نے لکھا ہے: ’’سیّد مودودی بیسویں صدی کے جید عالم ہیں، جن کی تحریریں دُنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں۔ کتابوں کی دکانوں پر یہ چھاپے سری نگر سے شروع ہوئے اور پھر دوسرے بڑے چھوٹے قصبوں تک پھیل گئے۔ یہ کتب زیادہ تر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی نے شائع کی ہیں۔ جماعت اسلامی برصغیر (پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش، جموں و کشمیر) کی سب سے بڑی دینی و سیاسی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے‘‘۔

ڈان نیوز (۲۰ فروری) کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے قصبوں سے مولانا مودودی کی کتب ضبط کرتے ہوئے پولیس نے کہا: ’’ابوالاعلیٰ کی تمام کتابوں کو ہم اس لیے ضبط کر رہے ہیں کہ ان پر پابندی ہے اور جماعت اسلامی سے وابستہ اس ممنوعہ لٹریچر کی تشہیر اور گردش کو روکنے کے لیے ہم سخت جانچ اور عملی اقدامات کرتے ہوئے ان کتب کے خلاف سخت کارروائی کریں گے‘‘۔

یاد رہے فروری ۲۰۱۹ء میں نسل پرست اور دہشت گرد تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (RSS) کی تابع فرمان بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی عائد کردی تھی۔ پھر اسی سال ۵؍اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو مختلف انتظامی حصوں میں تقسیم کرکے جبروظلم کے تمام ریکارڈ مات کر دیئے تھے، جس کے بعد اس پورے علاقے میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں شدت آگئی تھی۔

مقبوضہ کشمیر کے مختلف رہنمائوں، اخبار نویسوں، وکیلوں، یونی ورسٹی استادوں، ادیبوں اور دانش وروں نے مولانا مودودی کی کتب کی ضبطی اور ان پر پابندی کو غیرمنصفانہ، غیرآئینی قدم اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس فسطائی حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ یہ کتب ایک سو سال سے نہ صرف انڈیا بلکہ پوری دُنیا میں شائع ہورہی ہیں اور پڑھی جارہی ہیں۔ انڈین حکومت کا یہ قدم غیر مہذبانہ اور غیرمنصفانہ ہے۔

اخبار دی وائر کے مطابق:جماعت اسلامی کا دفاع کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کی جماعت ’پیپلزڈیموکریٹک پارٹی‘ (PDP) کی لیڈر التجامفتی نے الزام لگایا: ’’کتابوں کی یہ ضبطی، مطالعے کی آزادی پر حملہ ہے‘‘۔ نیشنل کانفرنس (NC)کے رکن پارلیمنٹ آغا سیّد روح اللہ مہدی کے بقول: ’’یہ جموں و کشمیر کے عوام کے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔ جس کے تحت مولانا مودودیؒ کی کتب ضبط کرلی گئی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب [انڈین] ریاست کشمیریوں کو یہ بتائے گی کہ وہ کیا پڑھیں، کیا سیکھیں اور کس پر ایمان و یقین رکھیں؟ یہ ناقابلِ تصور ہے، اسے فوراً منسوخ کیا جائے‘‘۔

اخبار دی ہندو کے مطابق سیّد روح اللہ مہدی نے مزید (ٹویٹر) ’ایکس‘ پر لکھا: ’’ریاست [انڈیا] کی جانب سے کشمیریوں کو ہراساں کرنے سے باز رہنا چاہیے اور ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت بند کرنی چاہیے ،کیونکہ اس غیر ذمہ دارانہ اقدام کی بھاری قیمت چکانا ہوگی‘‘۔

میرواعظ عمرفاروق نے اس کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اسلامی لٹریچر پر حکومت کا یہ کریک ڈائون نہایت قابلِ مذمت، حددرجہ افسوس ناک اور سخت مضحکہ خیز فعل ہے۔ اس طرح کتابوں کو ضبط کرکے اور خیالات پر پہرے بٹھا کر دھونس جمانا قطعی طور پر ایک بے معنی عمل ہے، خاص طور پر ایسے زمانے میں، جب کہ معلومات ’ورچول ہائی ویز‘ سے دُنیا بھر میں آسانی سے دستیاب ہیں‘‘۔ ’الجزیرہ‘ نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق: ’’عمر فاروق نے مزید کہا: ’’ضبط کی گئی کتابیں قانونی طور پر نئی دہلی سے شائع ہورہی ہیں اور جب پورے خطّے میں کتابوں کی دکانوں پر فروخت ہورہی ہیں تو ان پر کشمیر ہی میں پابندی کیوں؟‘‘

روزنامہ نوائے وقت کے مطابق ’’شمیم احمد نے کہا ہے: ’’مولانا مودودی کی یہ کتب لوگوں کے اخلاق سنوارنے اور ذمہ دار شہری بننے کی تعلیم دیتی ہیں۔ ان پر کریک ڈائون کرنا، ایک ناقابلِ فہم اور غیرمنطقی قدم ہے‘‘۔

اس افسوس ناک انڈین قدم پر وزارتِ خارجہ پاکستان کے ترجمان شفقت علی خاں نے کہا ہے: ’’یہ عمل اختلاف رائے کو کچلنے اور مقامی لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے مسلسل اقدامات کی کڑی ہے۔ اپنی پسند کی کتب پڑھنے کی آزادی کشمیریوں کا حق ہے‘‘۔

مولانا مودودی کی کتب کے ساتھ سیّد علی گیلانی مرحوم کی کتب بھی ضبط کی گئی ہیں۔ اس پابندی اور ضبطی کے افسوس ناک واقعے کے علاوہ جو دوسرا حددرجہ اذیت ناک قدم مودی حکومت نے اُٹھایا ہے، وہ یہ کہ ۱۴فروری کو سیّد علی گیلانی مرحوم و مغفور کی رہائش گاہ میں ان کے ذاتی کمرے کو سربمہر کردیا گیا ہے، اور ان کے ذاتی کاغذات، مسودات ، خطوط اور ڈائریاں وغیرہ قبضے میں لے لی ہیں۔ یہ کارروائی اُس وقت کی گئی جب محترم گیلانی صاحب کی اہلیہ اپنی بیٹی سے ملنے نئی دہلی گئی ہوئی تھیں۔ یہ اقدام گھر کے کسی فرد کے نوٹس میں لائے اور اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔ یہ تمام واقعات دُنیا بھر کے اہلِ دانش کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔

 گذشتہ شب (۲۴ فروری ۲۰۲۵ء) یوٹیوب پر محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک تازہ گفتگو سننے کا موقع ملا۔ یہ گفتگو فلسطین کی تحریک مزاحمت کے سلسلے میں تھی۔ اس گفتگو میں بھی مجھے وہی خلل نظر آیا، جو عام طور سے مسلمان دانش وروں کے یہاں پایا جاتا ہے۔ وہ بیانیہ تو اپنی سوچ اور مزاج کے مطابق بناتے ہیں، پھر قرآن کریم کی کسی آیت کے ٹکڑے یا حدیث کے کسی حصے کو حسب منشا چسپاں کرکے اپنے طبع زاد بیانیے کو قرآن و سنت کا بیانیہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔

غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ’’فلسطین کے باشندوں کو نیز پوری امت کو صبر سے کام لینا چاہیے۔ اللہ سے لو لگانا چاہیے۔ اپنے اخلاق درست کرنے چاہئیں۔ علم کے میدان میں ترقی کرنی چاہیے۔ صہیونی غاصبوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ صہیونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ اللہ تعالیٰ موجود ہ نظامِ عالم کو خود تبدیل نہ کردے‘‘۔

اپنی اس سوچ کو قرآنی قرار دینے کے لیے موصوف قرآن مجید سے دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو مکہ سے باہر نکال دیا گیا تو اللہ نے انھیں حکم دیا (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو)۔ جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ جب تک جنگ جیتنے کا یقین یا غالب امکان نہ ہو، قرآن جنگ سے باز رہنے کا حکم دیتاہے، ورنہ وہ جنگ خود کشی ہے۔ ہمیں یہاں پر عرض کرنا ہے کہ قرآن مجید میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو) کی ہدایت نہیں فرمائی۔ قرآن کی ایک آیت میں یہ خبر تو دی گئی:’’ لوگوں سے کبھی کہا گیا تھا کہ ہاتھ روکو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو‘‘، لیکن پورے قرآن مجید میں کسی ایک بھی مقام پر اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو) کا حکم نہیں دیا گیا۔ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ والی آیت ملاحظہ فرمالیں کہ اس آیت میں بھی قتال سے بھاگنے والوں کی مذمت کی گئی ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۝۰ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـيَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَۃً۝۰ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ۝۰ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۝۰ۭ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ۝۰ۚ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۝۰ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا۝۷۷(النساء۴:۷۷) تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو تو جب ان پر جنگ فرض کردی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، کچھ اور مہلت کیوں نہ دی؟ کہہ دو اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے، اور تمھارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔

 اصل میں كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ ایک وقتی پالیسی تھی، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے نکلنے کے بعد نہیں بلکہ مکہ میں رہتے ہوئے وہاں کے دعوتی مصالح کے تحت اختیار فرمائی تھی۔ قرآن مجید میں وہ بطور مستقل ہدایت کہیں مذکور نہیں ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ قاتلوا :جنگ کرو، کا حکم تو قرآن مجید میں متعدد مقام پر ہے، لیکن كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ  کا حکم کسی ایک مقام پر بھی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے اور بار بار کہنے کی ہے کہ قرآن مجید میں قتال کے سلسلے میں بہت اصولی اور بنیادی ہدایت یہ ہے کہ جو جنگ کرے اس سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور زیادتی نہ کرو:

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝۱۹۰ (البقرہ۲:۱۹۰) اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں اور حد سے بڑھنے والے نہ بنو۔ بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

 یعنی اسلام جنگ میں پہل کرنے کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن جنگ کی پہل کرنے والوں سے جنگ کرنے کی پُرزور تاکید کرتا ہے۔ قرآن مجید کا ایک اور پہلو سامنے رہنا چاہیے کہ قرآن کہیں یہ نہیں کہتا ہے کہ جب فتح یقینی ہو یا اس کا غالب گمان ہو تبھی جنگ کرو۔ قرآن تو بہت واضح، کھلے اور واشگاف الفاظ میں کمزور مظلوموں کو طرح طرح سے اس امر کے لیے آمادہ کرتا ہے کہ ’ظالم کتنا ہی زیادہ طاقت ور ہو تم اس کا مقابلہ کرو‘۔

سورۂ بقرہ میں طالوت کی فتح اور جالوت کی شکست کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا جس کا بنیادی پیغام یہ ہے جب دشمن کو دیکھ کر بہتوں کے حوصلے پست ہوجائیں، تو بھی ایمان والے اس یقین سے سرشار رہتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے چھوٹی فوج بڑی فوج کو شکست دے سکتی ہے:

فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ھُوَوَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ۝۰ۙ قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْيَـوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ۝۰ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہِ۝۰ۙ كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۲۴۹ (البقرہ ۲:۲۴۹) پھر جب طالوت اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ایمان پر ثابت قدم رہے دریا پار کر گئے تو یہ لوگ بولے کہ اب ہم میں تو جالوت اور اس کی فوجوں سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ جو لوگ یہ گمان رکھتے تھے کہ بالآخر انھیں اللہ سے ملنا ہے انھوں نے للکارا کہ کتنی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئی ہیں، اللہ تو ثابت قدموں کے ساتھ ہوتا ہے۔

 سورۂ مائدہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ تفصیلی مکالمہ ذکر کیا گیا ہے، اس کا پیغام بھی یہ ہے کہ اللہ کے مومن بندے دشمن کی بڑی طاقت کو دیکھ کر حوصلہ نہیں ہارتے:

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْہَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ۝۰ۤۖ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَا حَتّٰي يَخْرُجُوْا مِنْہَا۝۰ۚ فَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْہَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۝۲۲  قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمَا ادْخُلُوْا عَلَيْہِمُ الْبَابَ۝۰ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ۝۰ۥۚ وَعَلَي اللہِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۲۳ (المائدہ ۵:۲۲-۲۳) وہ بولے کہ اے موسی! اس میں تو بڑے زور آور لوگ ہیں۔ ہم اس میں نہیں داخل ہونے کے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہوں گے۔ دو شخصوں نے جو تھے تو انھی ڈرنے والوں ہی میں سے، پر خدا کا ان پر فضل تھا، للکارا کہ تم ان پر چڑھائی کر کے شہر کے پھاٹک میں گھس جاؤ۔ جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسا کرو اگر تم مومن ہو۔

 سورۂ انفال میں جنگ بدر کا نقشہ کھینچا گیا کہ بظاہر فتح کے امکانات معدوم تھے، اس وجہ سے بعض لوگوں کو تو لگ رہا تھا کہ خودکشی کے راستے پر انھیں لے جایا جارہا ہے:

كَـمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۝۰۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِہُوْنَ۝۵ۙ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَہُمْ يَنْظُرُوْنَ۝۶ۭ  (انفال۸:-۵-۶) اسی طرح کی بات اس وقت ظاہر ہوئی جب تمھارے رب نے ایک مقصد کے ساتھ تم کو گھر سے نکلنے کا حکم دیا اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو یہ بات ناگوار تھی۔ وہ تم سے امرِ حق میں جھگڑتے رہے باوجود یکہ حق ان پر اچھی طرح واضح تھا، معلوم ہوتا تھا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور اس کو دیکھ رہے ہیں۔

 سورۂ آل عمران میں جنگ احد کے واقعے کی تفصیل ہے، اس میں بھی یہی پیغام دیا گیا ہے کہ لوگوں کی کثرتِ تعداد سے ایمان والے ذرا نہیں ڈرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ دین کے دشمنوں سے ڈرانا شیطان کا کام ہے:

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۝۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۝۱۷۳ فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوْۗءٌ۝۰ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ۝۱۷۴ اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَہٗ ۝۰۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۷۵ (اٰل عمرٰن۳: ۱۷۳-۱۷۵) یہ وہ ہیں کہ جن کو لوگوں نے سنایا کہ دشمن نے تمھارے لیے بڑی طاقت اکٹھی کی ہے تو اس سے ڈرو تو اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ سو یہ لوگ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کے ساتھ واپس آئے، ان کو ذرا گزند نہ پہنچی، اور یہ اللہ کی خوشنودی کے طالب ہوئے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ یہ شیطان ہے جو اپنے رفیقوں کے ڈراوے دے رہا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو، مجھی سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔

 سورۂ احزاب میں قبائل کے متحدہ لشکر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دشمن بہت بڑی قوت کے ساتھ آیا تھا:

اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللہِ الظُّنُوْنَا۝۱۰ ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا۝۱۱ (احزاب۳۳:۱۰-۱۱) یاد کرو، جب کہ وہ تم پر آچڑھے، تمھارے اُوپر کی طرف سے بھی اور تمھارے نیچے کی طرف سے بھی، اور جب کہ نگاہیں کج ہوگئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم اللہ کے باب میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اس وقت اہل ایمان امتحان میں ڈالے گئے اور بالکل ہلا دیے گئے۔

پھر سورۂ توبہ میں بتایا گیا کہ تبوک کے لیے جب نکلنے کا حکم ہوا تو وہ بڑی مشکل گھڑی تھی:

لَقَدْ تَّابَ اللہُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ فِيْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِہِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۱۷ (التوبہ۹:۱۱۷) اللہ نے نبی اور ان مہاجرین و انصار پر رحمت کی نظر کی جنھوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت میں دیا، بعد اس کے کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہوچکے تھے۔ پھر اللہ نے ان پر رحمت کی نگاہ کی۔ بے شک وہ ان پر نہایت مہربان اور رحیم ہے۔

 سورۂ انفال میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ تعداد کے بڑے فرق سے قطع نظر قتال پر اُبھاریں:

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۝۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۝۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝۶۵(انفال۸:۶۵) اے نبیؐ! مومنین کو جہاد پر ابھارو۔ اگر تمھارے بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر بھاری ہوں گے۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ بصیرت سے محروم ہیں۔

 غرض یہ کہ قرآن مجید میں تاریخِ اسلام کے متعدد مواقع کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور ان مواقع کا ذکر کیا گیا ہے جب اہلِ اسلام کے مقابلے میں دشمن کی تعداد اور مادی قوت خوف ناک حد تک زیادہ تھی۔ لیکن کہیں بھی كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ کی تعلیم نہیں دی گئی۔ ہر موقعے پر قاتلوھم کی تاکید کی گئی۔ اس لیے محترم جاوید احمد صاحب سے گزارش ہے کہ اپنی رائے وہ شوق سے پیش کریں، لیکن قرآن مجید کے ساتھ ظلم نہ کریں۔ قرآن مجید ظلم سے روکتا ہے، لیکن ظالموں سے ڈرنا اور ان کے ظلم کو قبول کرلینا نہیں سکھاتا ہے۔ ظالم کتنا ہی طاقت ور ہو وہ اللہ سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتا۔ اللہ کی نصرت کے آگے کسی طاقت ور ظالم کی نہیں چلنے والی ہے۔

آخر میں استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے اس ایمان افروز بیان کو ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، جو انھوں نے طالوت اور جالوت کے واقعے کی تفسیر میں تحریر کیا ہے :

وہ حقیقی شجاعت جو خدا کی راہ میں موت کو زندگی سے بھی زیادہ عزیز و محبوب بنا دیتی ہے وہ مومن کے اس عقیدے سے پیدا ہوتی ہے کہ خدا کی راہ میں قتل ہونے والے مرتے نہیں ہیں بلکہ حقیقی زندگی اور اپنے رب کی ملاقات سے مشرف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے ہمت چھوڑ بیٹھنے والے ساتھیوں کو اُبھارا کہ فلسطینیوں کی کثرتِ تعداد سے مرعوب ہو کر ہمت نہ ہارو اصل شے تعداد نہیں بلکہ اللہ کی تائید اور اس کی نصرت ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ نہایت قلیل التعداد گروہ محض اللہ کے حکم اور اس کی تائید سے دَل با دل فوجوں [بہت بڑی فوج] پر غالب آگیا ہے۔ خدا کی تائید حاصل کرنے کے لیے جو چیز مطلوب ہے وہ صبر و استقامت اور عزم و ہمت ہے نہ کہ تعداد کی کثرت و قلت۔(تدبر قرآن، ج ۱ ص ۵۷۸)

’’جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور ہمارے مفاد میں تو ہرگز بھی نہیں۔ بھلا کون ہے جو ایٹمی طاقت سے لیس ملک کا غلیل سے مقابلہ کرنا چاہے گا؟ آخرکار جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ وار رپورٹر ہیں، آپ ہی بتائیں: کیا آپ کو جنگ پسند ہے؟‘‘ یہ سوال ۲۰۱۸ء میں اطالوی صحافی فرانسسکو بوری کو انٹرویو میں ’طوفان الاقصیٰ‘ کے منصوبہ ساز اور حماس کے شہید سربراہ یحییٰ سنوار نے کیا تھا۔ ان کا یہ انٹرویو شہ سرخیوں کی زینت بنا، جسے سیاسی حل کی طرف پیش قدمی کی کوشش قرار دیا گیا۔

 یحییٰ سنواراسرائیل اور مصر کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ بحری ، فضائی اور زمینی ناکہ بندی کا خاتمہ چاہتے تھے، جس نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا تھا۔ کیا کرۂ ارض پر ایسا کوئی دوسرا مقام ہے، جس کی ۲۳ لاکھ انسانوں پر مشتمل آبادی مسلسل ۱۸ سال سے محاصرے کی حالت میں ہے؟ زراعت، تجارت اور ماہی گیری، سب تباہ کر دیئے گئے۔ صرف چار گھنٹے کے لیے بجلی فراہم کی جاتی، ۶۲فی صد آبادی کو خوراک کے لیے امداد کی ضرورت تھی، جب کہ بے روزگاری کی شرح ۴۶فی صد پر پہنچ چکی تھی ۔ اس ناکہ بندی کو ختم کرنے کے لیے تمام بااثرعرب ممالک نے کوئی خاص کردار ادا نہ کیا۔ جمہوریہ ترکیہ کے ادارے نے ۲۰۱۰ء میں فریڈم فلوٹیلا بھیجا، جس پر اسرائیل نے حملہ کرکے ۹؍ افراد کو شہید کردیا ۔

۲۰۰۸ء، ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء کی غزہ اسرائیل جنگیں اسی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے ہوئی تھیں۔ ۲۰۱۷ءمیں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالنے والے یحییٰ سنوار ناکہ بندی کے خاتمے کے بدلے جنگ بندی پر آمادہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور ہمارے مفاد میں تو ہرگز بھی نہیں‘‘۔ انھوں نے نئی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مارچ ۲۰۱۸ء میں ’گریٹ مارچ آف ریٹرن‘ ' کے نام سے ہر جمعے کے بعد مظاہروں کا اعلان کیا۔ فلسطینی ہزاروں کی تعداد میں جمعہ کی نماز کے بعد غزہ کی سرحد پر مظاہرہ کرتے۔ اسرائیل نے ان پرامن مظاہرین کو بھی نہ بخشا۔ ۳۰ مارچ ۲۰۱۸ءسے ۲۷ دسمبر ۲۰۱۹ء تک پونے دو سال تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں اسرائیل نے ۲۲۳ فلسطینی شہریوں کو شہید کیا ، اور ایک سال مکمل ہونے پر بتایا گیا تھا کہ شہداء میں ۴۱ بچے بھی شامل تھے، جب کہ زخمیوں کی تعداد ۲۹ ہزار سے زیادہ تھی ۔

ماہرین نے ان پُرامن مظاہروں اور یحیٰی سنوار کے بیان کو پالیسی شفٹ قرار دیا تھا ۔ شاید عرب ممالک ، مسلم دُنیا اور بین الاقوامی برادری غزہ اور اہل غزہ کو بالکل فراموش کرچکے تھے۔ عرب حکمران ناکہ بندی تو کیا ختم کراتے، اب ان کی دلچسپی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والے نام نہاد ’معاہدہ ابراہیمی‘ میں تھی۔ فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے ۲۰۲۰ء میں نام نہاد ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط نے دو ریاستی حل کی اُمید کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مراکش اور سوڈان نے ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط کرکے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ اس سے پہلے۲۰۱۸ء میں امریکا، مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرچکا تھا۔ دو ریاستی حل ٹھیک ہے یا غلط؟ اب اس بحث کی گنجائش بھی نہ بچی تھی۔ سعودی عرب کی طرف سے ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط کے ساتھ ہی دو ریاستی حل ماضی کا قصہ بن جانا تھا، اس کے شواہد ہم آگے پیش کردیں گے۔

یہ طویل تمہید ہمیں حماس ، فلسطین اور دو ریاستی حل سے متعلق، نہایت قابل احترام دانش ور کے بیان کی وجہ سے باندھنا پڑی، جو مختلف سوشل میڈیا صفحات پر زیر بحث ہے۔ کسی مسئلے پر افراد کی آراء میں اختلاف کا پایا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ محترم دانش ور نے حماس کے ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کے اقدام پر قرآن و سنت اور تاریخ کے تعلق سے جو بات کی، اس کا بہتر جواب تو علما، اسکالرز اور مؤرخین ہی دے سکتے ہیں۔ ہم یہاں ان کی گفتگو کے کم از کم چار ایسے مقامات کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو ہمارے علم کی حد تک درست بات نہیں ہے۔یہاں وہی الفاظ نقل کیے جارہے ہیں، جو محترم صاحب ِدانش دوست نے ادا کیے:

            ۱-         ’کیا سعودی عرب سے پوچھ کر(حماس نے ۷؍اکتوبر کا) حملہ کیا تھا؟ تین دن بعد فیصلہ ہونے والا تھا۔ دو ریاستیں بن جاتیں اب تک ، اناؤنس ہوجاتیں ، امریکا ضامن تھا اس کا‘۔

             ۲-        ’جہاں اسرائیلی یرغمالی رکھے گئے وہاں [اسرائیل کی طرف سے] بمباری غلطی سے بھی نہیں ہوئی، صرف تین کی اموات اس وجہ سے ہوئیں کہ عین اس وقت یہ لوگ ان کو زبردستی اسپتال کی بیسمنٹ [تہہ خانے] میں لے گئے تھے۔ ان [یعنی اسرائیل]کو سب معلوم تھا کہ کیا کہاں ہے؟‘

             ۳-        ’حماس کے ۷؍اکتوبر کے اقدام کے پیچھے ایران تھا‘۔

             ۴-        ’حماس نے عرب سرپرستی کو چھوڑ کر جو ایرانی سرپرستی کو قبول کیا، یہ سخت ناعاقبت اندیشی کا فیصلہ تھا۔ انھیں اپنے بانی شیخ احمد یٰسین کے نقش عدم پر رہنا چاہیے تھا۔ شیخ احمد یٰسین تمام پیش کشوں کے باوجود کبھی ایران کی طرف نہیں بڑھے‘۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے والے ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط کے بعد دو ریاستی حل کے نعرے کی زبانی کلامی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ ’طوفان الاقصیٰ‘ سے دو ہفتے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ۲۲ ستمبر ۲۰۲۳ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مشرق وسطیٰ کا جو نقشہ ساری دنیا کو دکھایا تھا، اس میں فلسطینی ریاست کا کوئی وجود نہیں تھا۔ نقشے میں بیت المقدس کے مشرقی علاقے، غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیلی ریاست کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اسی تقریر میں قاتل نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا: ’اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ طے پانے کے قریب ہے‘۔

 نیتن یاہو نے مصر، اردن اور ۲۰۲۰ء میں دیگر ممالک کے ساتھ اسرائیلی معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے حاضرین سے کہا تھا: ’’غور کیجیے سعودی عرب کے ساتھ امن کا کیا نتیجہ نکلے گا؟‘‘۔ ساتھ ہی اس نقشے کی دوسری جانب ایک تصویر پر اسرائیل کے ارد گرد وسیع سبز علاقے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’امن کے نتیجے میں پورا مشرق وسطیٰ تبدیل ہو جائے گا‘‘۔اس سے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل پر مشتمل ایک علاقائی راہداری بنے گی، جو ایشیا کو یورپ سے ملائے گی‘‘۔

نیتن یاہو نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان جس معاہدے کی بات کی تھی، اس میں دو ریاستوں کی کوئی بات نہیں تھی، سوائے ’معاہدہ ابراہیمی‘ کے، اور جس پر امارات، بحرین ، مراکش اور سوڈان تو پہلے ہی دستخط کرچکے تھے۔ اگر سعودی عرب بھی اس معاہدے پر دستخط کرنے جارہا تھا، جس کے لیے آج بھی سخت دباؤ ہے تو پھر کون سی اور کہاں کی دو ریاستیں؟ یوں فلسطین کا معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا تھا۔ جس طرح ۱۹۴۸ء کے بعد سے آج تک فلسطینیوں کی جبری بے دخلی جاری ہے، غزہ اور مغربی کنارے سے یہ عمل بھی جلد یا بدیر مکمل کرلیا جاتا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے برابر میں بیٹھ کر اسی منصوبے کا تو اعلان کیا ہے یعنی ’فلسطینیوں سے خالی غزہ!‘___ معترض دانش ور صاحب وہ بات نہ کہیں، جس کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ اگر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان کوئی معاہدہ ہونا تھا تو وہ ’معاہدہ ابراہیمی‘ ہی تھا، جس کا ذکر نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں کیا تھا اور اس کا دو ریاستی حل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

 سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سخت بیان بازی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر چین کے سخت ردعمل نے ’دو ریاستی حل‘ کو ایک بار پھر زندہ کردیا ہے کہ جس کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ۲۲ ستمبر کو نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں کیا تھا۔ [تاہم، اپنے جائز تصور کے مطابق مسلم اُمہ کو بھی دو ریاستی حل قبول نہیں کہ اس میں غاصب ریاست کو زبردستی تحفظ دیا جارہا ہے۔ادارہ]

یہ بات بھی ریکارڈ پر رہنی چاہیے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو ریاست کے نام پر ایک انچ بھی نہیں دینا چاہتا۔ ان کا ایجنڈا فلسطینیوں سے غزہ مکمل خالی ہے اور ٹرمپ نے نتین یاہو کے ساتھ بیٹھ کر یہی اعلان بھی کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ موصوف کی یہ بات بھی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی کہ ’’صرف تین یرغمالی اسرائیل کی قید میں مارے گئے اور اسرائیل نے غلطی سے بھی ان مقامات پر بمباری نہیں کی جہاں یرغمالیوں کو رکھا گیا تھا‘‘۔ حقیقتاً اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مارے گئے یرغمالیوں کی تعداد کم از کم ۳۳ ہے۔ ۲۰ فروری ۲۰۲۵ءکو حماس نے بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے چار یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرتے ہوئے اسرائیلی خاندانوں کے نام پیغام میں کہا تھا: ’’ہم آپ کے بچوں کو زندہ واپس بھیجنا چاہتے تھے، مگر آپ کی فوج اور حکومتی رہنماؤں نے انھیں قتل کرنا پسند کیا۔ چارمزید مغویوں کی لاشیں اسرائیل کو آئندہ ہفتے واپس کی جائیں گی‘‘۔

دانش ور صاحب نے فرمایا ہے: ’’۷؍اکتوبر کے حملے کے پیچھے ایران تھا‘‘۔ یہ بھی حقیقت کے خلاف ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے۱۶ نومبر۲۰۲۳ء کو یہ خبر دی تھی کہ ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے تہران میں حماس رہنما اسماعیل ہنیہ سے ملاقات میں واضح پیغام دیا :’’آپ نے ہمیں ۷؍ اکتوبر کے حملوں سے باخبر نہیں کیا تھا اور ہم آپ کی طرف سے جنگ میں داخل نہیں ہوں گے‘‘۔

رائٹرز نے حماس اور ایرانی اعلیٰ حکام کے حوالے سے بتایا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کو آگاہ کیا: ’’ہم آپ کی سیاسی اور اخلاقی حمایت تو جاری رکھیں گے، مگر براہِ راست مداخلت نہیں کریں گے‘‘۔حماس نے رائٹرز کی اس رپورٹ کی تردید کی تھی، مگر ایرانی وزیرخارجہ نے اس دوران یہ بات کئی بار کہی کہ ’’ہم نہیں چاہتے کہ اسرائیل حماس کی لڑائی پورے خطے میں پھیل جائے‘‘۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں بتایا کہ ’’ایران امریکا کو آگاہ کرچکا ہے کہ وہ اس بات کے حق میں نہیں کہ حماس، ایران تنازع پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے‘‘۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ایران یہ بات کئی بار کہہ چکا ہے کہ ’’اسے ۷؍اکتوبر کے حملے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور امریکا بھی ایران کی اس بات سے اتفاق کرتا ہے‘‘۔

 ایران اور حماس کے تعلقات پر امریکی جریدے Foreign Policy میں شائع مضمون The 7 Reasons Iram Won't Fight for Hamas میں بتایا گیا ہے: ’’یہ سمجھنا غلط ہے کہ حماس اور حزب اللہ ایران کی پراکسیز ہیں ، تاہم یہ ایران کے نان اسٹیٹ اتحادی ہیں ۔ ماسکو اور بیجنگ میں ایران کے اسٹرے ٹیجک پارٹنرز نے حماس کی مکمل حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اسرائیلی اور امریکی انٹیلی جنس کے مطابق ایران کے اعلیٰ عہدے داران ۷؍اکتوبر کے حملے سے واقف نہیں تھے۔ Foreign Policy کے مطابق:

 There is no top-down relationship between Tehran and Hamas. Even as Hamas aligns its actions with Iran, its approaches could diverge,  as they notably did during the Syrian civil war when Hamas supported the Sunni anti-Assad rebels. American and Israeli intelligence has suggested that Iran’s top officials were not aware of the Hamas operation.

واجب الاحترام دانش ور نے اسی موضوع پر اپنی اگلی پوڈ کاسٹ میں یہ بھی کہا: ’’حماس نے عرب سرپرستی کو چھوڑ کر جو ایرانی سرپرستی کو قبول کیا، تو یہ سخت ناعاقبت اندیشی کا فیصلہ تھا، انھیں اپنے بانی شیخ احمد یٰسین کے نقش قدم پر رہنا چاہیے تھا۔ شیخ احمد یاسین کبھی ایران کی طرف نہیں بڑھے‘‘۔ ہماری رائے میں اگر موصوف ’سرپرستی‘ کے بجائے ’تعاون‘ کا لفظ استعمال کرتے تو یہ زیادہ مناسب تھا۔ پھر یہ بات بھی یاد دلانا چاہیں گے کہ حماس کے سربراہ شیخ احمد یاسین نے ۱۹۹۸ء میں ایران کا دورہ کیا تھا اور ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی تھی۔ ایران اور حماس کے درمیان تعلقات ۱۹۹۲ء میں قائم ہوگئے تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ایران، ’الفتح‘ کی بھی حمایت کرتا رہا ہے۔ حماس نے ۱۹۹۹ء میں، جب کہ شیخ احمد یاسین حیات تھے اپنا سیاسی بیورو اردن سے ایران کے قریب ترین اتحادی ملک شام میں منتقل کرلیا تھا ۔ یہ فیصلہ اُردن کی جانب سے تنظیم کے خلاف پابندی ،خالد مشعل اور موسیٰ ابو مرزوق جیسے سینئر رہنماؤں کی گرفتاریوں اور دفاتر کی بندش کے بعد کیا گیا ۔ مگر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ حماس اپنے فیصلوں میں آزاد رہی ہے۔ اسی لیے جب شام میں بشار الاسد نے مارچ ۲۰۱۱ء میں اپنے ہی عوام کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا، تو حماس نے ایران سے تعلقات کی خرابی کا خطرہ مول لیتے ہوئے فروری ۲۰۱۲ء میں قطر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ غزہ میں حماس کی منتخب حکومت کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بشار کے خلاف شامی عوام کی حمایت کا اعلان کیا اور اس طرح ایران کو ناراض کیا ۔ حماس کا سیاسی دفتر قطر میں ہے۔ کیا قطر عرب ملک نہیں ہے؟ محترم دانش ور صاحب نے اپنی گفتگو میں ۱۹۹۳ء میں ہونے والے معاہدے کا بھی ذکر کیا اور ایڈورڈ سعید کے کردار کی تعریف کی ہے، حالانکہ ایڈورڈ سعید کا ’اوسلو معاہدے‘ پر تبصرہ یہ تھا:

"It is an instrument of Palestinian surrender, a Palestinian Versailles".

 ہمیں اسرائیلی پالیسی اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی کارکردگی پر حماس کے Foreign Policy  چیف اسامہ حمدان کا یہ تجزیہ بالکل درست نظر آتا ہے: Abbas had given Israel everything but on other hand has received nothing in return. (عباس نے اسرائیل کو وہ سب کچھ دیا جو وہ چاہتا تھا، مگر دوسری جانب کچھ بھی وصول نہ کیا)

اللہ تعالیٰ غیب کی باتوں کو جاننے والا اور اس کا علم تمام علو م پر محیط ہے:

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ  ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا  وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ    ۝۵۹  (الانعام۶:۵۹ )آسمانوں اور زمین کی چابیاں اسی کے پاس ہیں ، اس کے سوا کوئی ان کے بارے میں نہیں جانتا۔ وہی جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ سمندر میں ہے۔ اور کوئی پتّا بھی گرتا ہے تو اسے بھی وہ جانتا ہے۔ زمین کی تہوں میں موجود دانے کو بھی وہی جانتا ہے، اور ہر خشک و تر کو اس نے واضح کتاب میں درج کر رکھا ہے۔

اللہ کا علم قدیم زمان و مکان سے ماورا ہے، جب کہ انسان کا علم کسبی ہے جسے وہ پیدائش کے بعد سے بتدریج کسب و تجربے سے حاصل کرتا ہے ۔

اوّلین وحی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ’صفت العلیم‘ کا تعارف دیا گیا ۔وہ ذات جو تمام علوم کا سرچشمہ و منبع ہے۔ اس کے علم اور انسان کے علم میں کوئی نسبت نہیں ہے۔ اللہ کا علم لامحدودہے، جب کہ انسان کا علم محدود اور ناقص ہے ۔ العلیم ہستی ہی جانتی ہے کہ انسانوں کی اصلاح اور خیر و بھلائی کن امور میں پوشیدہ ہے، اس کا علم ہر علم والے کے علم پر حاوی اور محیط ہے: وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ۝۷۶(یوسف۱۲:۷۶) ’’اور ایک علم والا ایسا ہے جو ہر صاحب ِعلم سے بالاتر ہے‘‘ ۔

اللہ کے مطلق ،قدیم، لامحدود، کامل و اکمل علم کی مثال سورۂ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے دوران سامنے آتی ہے:

اور لوگ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے سوائے اس کے جووہ خود چاہے۔(البقرہ ۲:۲۵۵)

دُنیا کے بے شمار علوم کی اگر درجہ بندی کی جائے تو امام غزالیؒ کے مطابق چار طرح کے علوم سیکھنا لازم ہیں :

  • العلم باللہ ، اللہ کے بارے میں علم
  • العلم بامرہ، اس کے احکامات کے بارے میں علم
  • العلم بارادتہ     ، اس کی مرضی کا علم
  • العلم  بخلقہ، اس کی مخلوقات کا علم

 

  • العلم باللّٰہ: اللہ وحدہٗ لا شریک اور اس کے اسماء و صفات اور افعال کے علم کا نام ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :من مات وھو یعلم انہ لا الہ الا اﷲ دخل الجنة (صحیح مسلم)،’’جو اس حال میں مرگیا کہ وہ اس بات کا علم رکھتا تھا کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو یہ آدمی جنت میں داخل ہوگا‘‘۔

 ابن عباسؓ کا قول ہے: عرفت ربي بربي،’’ میں نے اپنے رب کو اپنے رب کے ذریعے سے پہچانا ‘‘۔

فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ  (محمد۴۷:۱۹)، پس اے نبیؐ! خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ۔

  • العلم بامرہ : یہ جاننا کہ رب انسان سے کیا اور کیوں چاہتا ہے؟ یعنی اوامرونواہی، فرائض و واجبات کو جاننا، سمجھنا ، قرآن کریم، سنت رسولؐ اور شریعت الٰہی کے علم کا حصول۔

فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶ (الذاریات۵۱:۵۶)، یعنی بندگی (عبادات) کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ اس کا طریقہ جاننے کے لیے، صراط مستقیم پر چلنے ، اندھیروں سے روشنی میں آنے کے لیے، راستے کے خطرات سے آگاہ ہونے اور مفید اور غیر مفید کے فرق کو جاننے کے لیے اور حق و باطل میں فرق کرنے کے لیے اوامر و نواہی کا علم ضروری ہے:

قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۝۱۵ۙ  يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَيَهْدِيْهِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ۝۱۶ (المائدہ۵:۱۵-۱۶) تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے اُن کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ  وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطٰنُی  (الزخرف ۴۳:۶۱-۶۲)سیدھا راستہ ہے، ایسا نہ ہو شیطان تم کو اُس سے روک دے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہی سے بچنے کا ماخذ بتایا:عَنْ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: تَرَکْتُ فِيْکُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا: کِتَابَ اﷲِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ.(رواه مالک، والحاکم عن أبي هريرة.) ’’حضرت مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان تک یہ خبر پہنچی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمھارے پاس دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، اگر انھیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ کی کتاب اور اُس کے نبی کی سنت‘‘۔

فلاح کا طریقہ جاننا اور اسےانسانوں تک پہنچانا، اللہ تعالیٰ کی طرف سےایک امانت ہے جس کا بار انسان نے اٹھایا ہے :

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ (احزاب۳۳:۷۲) ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیاتو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے ، مگر انسان نے اُسے اٹھا لیا ۔

یہ علمِ نافع صدقۂ جاریہ ہے جس کا اجر انسان کے مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا۔

عن ابي هريرة رضي الله عنه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا مات الإنسان انقطع عمله إلا من ثلاث , صدقة جارية , وعلم ينتفع به , وولد صالح يدعو له (جامع ترمذی) حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقۂ جاریہ ہے، دوسرا ایسا علم ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرے‘‘۔

 قبر کے سوالوں کے جواب کی تیاری بھی وہی کر سکتا ہے جس نے علم حاصل کیا اور اس کے مطابق زندگی گزاری:

وَیَأْتِيْهِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِهِ فَیَقُوْلاَنِ لَهُ : مَنْ رَبُّکَ؟ فَیَقُوْلُ : رَبِّيَ اللهُ۔ فَیَقُوْلاَنِ لَهُ : مَا دِيْنُکَ؟ فَیَقُوْلُ : دِيْنِيَ الْإِسْلَامُ۔ فَیَقُوْلاَنِ لَهُ : مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيْکُمْ؟ قَالَ : فَیَقُوْلُ: هُوَ رَسُوْلُ اللهِ فَیَقُوْلاَنُ : وَمَا یُدْرِيْکَ؟ فَیَقُوْلُ : قَرَأْتُ کِتَابَ اللهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ۔ رَوَاهُ  أَبُوْدَاوُدَ  وَأَحْمَدُ (سنن ابو داؤد ، مسنداحمد ) ایک روایت میں ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، پس اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔ دونوں فرشتے اس سے پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے۔ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : یہ ہستی کون ہے جو تمھاری طرف مبعوث کی گئی تھی؟ وہ کہتا ہے : یہ تو محمد رسولؐ اللہ ہیں۔ دونوں پوچھتے ہیں : تمھیں کیسے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھی، لہٰذا ان پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی‘‘۔

  • العلم بارادتہ : کائنات کی تسخیر اور اس کے اندر اشیا کی تخلیق سے اللہ تعالیٰ کا مقصد، ارادہ اور غرض و غایت کیا ہے؟ اس کو جاننے کا علم العلم بارادتہ ہے۔اپنی مخلوق کے معاملے میں اس کی رضا کیا ہے؟ اس وسیع و عریض کائنات کو انسان کے لیے بنانے کا مقصد کیا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب کے لیے تحقیق و تدبر اور ان کے معاملے میں کارفرما حکمت و مصلحت کو جاننے کی کوشش کرنا لازم ہے۔
  • العلم بالخلقہ: اللہ تعالیٰ کی کائنات کے سربستہ راز اور انواع و اقسام کی مخلوقات کے جاننے کے علم کو العلم بالخلقہ کہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا ۭ  اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ (الفاطر۳۵: ۲۸)حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے ۔

اس آیت کا پچھلی آیات سے ربط دیکھیں :

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۚ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہَا۝۰ۭ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ۝۲۷ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ كَذٰلِكَ۝۰ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ۝۲۸(الفاطر: ۲۷-۲۸)کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس کے ذریعے طرح طرح کے پھل نکالے، جن کے رنگ مختلف ہیں۔ اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ قطعے ہیں جن کے رنگ مختلف ہیں اور کچھ گہرے سیاہ ہیں۔ اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں بھی مختلف رنگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں، بے شک اللہ سب پر غالب اور بہت بخشنے والا ہے۔

 یہاں علم سے مراد اللہ تعالی ،اس کی قدرت، اس کی طاقت، اس کی تخلیقی عظمت اور خلاّقی و فن کی معرفت ہے جو عقلوں کو حیرت زدہ کر دے ۔

صرف ان آیات میں ہی غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بارش کے نظام (Water Cycle)،  زراعت کے نظام (Agriculture)،علم نباتات (Botany) سے متعلق، پہاڑوں کی دنیا سے متعلق، علم الارض (Earth Science) اور علم زمین شناسی (Geology) کے موضوعات، انسانوں اور حیوانات کی دنیا (Zoology)، رنگ و نسل و زبان کا اختلاف (Dialects)، بولیاں (Linguistics)، سب سے متعلق اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے آفاقی علم کی نشانیاں ہمیں نظر آتی ہیں:

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً ۭ (لقمان۳۱: ۲۰)کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمھارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں؟ 

درحقیقت اللہ نے آسمان و زمین میں جو کچھ بھی ہے، انسان کے تابع کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان نے اللہ کے دیے ہوئے علم و عقل کی بنیاد پر آسمانوں کو پرکھا، سمندروں کو چیرا ، پہاڑوں کو سر کیا اور زمین کی تہوں میں جھانکا اور وقت کے ساتھ ساتھ ہر شے کے علم کی بنیاد رکھتا چلاگیا۔ یہ علوم و مشاہدات جدید سائنس سے ہزاروں سال پہلے بھی موجود تھے اور قیامت تک ان کی دریافت جاری رہے گی۔

 تدبر اور غور و فکر کی دعوت: انسان علم کے جس شعبے میں جتنی گہرائی سے مطالعہ کرتا جائے گا، جتنی زیادہ مہارت و کمال حاصل کرے گا، اسی قدر ہی اس میں رب تعالی کی معرفت و خشیت بڑھے گی جو اس کے دل و دماغ کا حصہ بن جائے گی اور وہ اس کی قدرت و حکمت و عظمت کا قائل ہوتا جائے گا۔

 ان علوم کے حصول کے بعد بھی اگر کوئی رب کو نہ پہچان سکا، تو یہ بات اس کے سطحی علم کی نشاندہی کرتی ہے ۔ اسی طرح قرآن میں متعدد آیات میں انسان کی توجہ سورج، چاند، ستاروں اور سیّاروں کی طرف مبذول کرائی گئی۔ ان کی حرکات اور مدار میں حرکت اور باہم توازن پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے، تاکہ اللہ کی حکمت و منصوبے کو سمجھے۔ تمام کائناتی اشیا زبانِ حال سے قدرتِ الٰہی کی حقانیت کا اقرار کرتی محسوس ہوتی ہیں لیکن اس کو جاننے کے لیے نورِ ایمان، کامل علم اور درست فکر درکار ہے: سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۝۰ۭ (حم السجدہ ۴۱:۵۳)’’عنقریب ہم انھیں اپنی قدرت کی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل کر واضح ہو جائے گی کہ یہ قرآن بالکل حق ہے‘‘۔

 کائنات میں قدرت کی نشانیوں پر غور کرنے کے بعد عالم فلکیات(Astronomist)ہی بہتر سمجھ سکتا ہے جو آج کہکشاؤں اور بلیک ہولز کو دیکھ کر سرگرداں ہے۔ اسی طرح اپنے وجود کے اندر نشانیاں جن کی جانب قرآن میں کئی مقامات پر اشارہ کیا گیا۔ یقینا علم الابدان (Anatomy)، الافعال (Physiology)،یا علم النفس (Psychology) کا ماہر، علم الامراض (Pathology ) کا ماہر ہی اس کو سمجھ سکتا ہے۔

 لیکن ایمان و توحید کی روشنی میں غور و فکر درکار ہے۔ جدید سائنسی علوم درحقیقت اس کائنات میں ہمیشہ سے موجود حقائق اور قدرت کی نشانیوں کی جستجو اور تحقیق میں مصروف ہیں، اس لیے علم کے تمام شعبوں کی اسلامائزیشن کی ضرورت ہے۔ہمیں ایسے محقق (Researchers)اور ماہرین تیار کرنے کی کی ضرورت ہے جو اسلامی فکر اور ایمان کی بنیاد پر ان علوم کی عمارت تعمیر کریں تاکہ دیگر اقوام و مذاہب کے محققین بھی الحاد سے ہٹ کر صحیح فکر پر آ سکیں۔

 ماہر علم جادوگروں کی مثال: جب درست بات سامنے آئی تو وہ اللہ ربّ العالمین کے آگے خود بخود سجدے میں گر گئے کیونکہ وہ جادو کی حقیقت اور معجزے میں فرق سمجھ گئے تھے۔

 درحقیقت قرآن دینی اور دنیاوی علوم کی کوئی تخصیص نہیں کرتا بلکہ ہر اس علم کی طرف توجہ دلاتا ہے جو معرفت ِرب کی طرف رجوع کا موقع فراہم کرے۔بقول سیّد مودودی:

جو تعلیم بندے کو اللہ سے نہیں ملاتی، توحید کا تصور واضح نہیں کرتی، اللہ کی حدود میں رہ کر زندگی بسر کرنے کا شعور نہیں دیتی ، اخلاق کو نہیں سنوارتی اور محب وطن اور محب اسلام نہیں بناتی، وہ تعلیم جہالت ہے اور جہالت چاہے قدیم ہو یا جدید بہر صورت جہالت ہے۔

 اس لیے عالم وہی ہے جو رب کی حقیقی معرفت کو پہنچ جائے خواہ وہ قرآن، حدیث، فقہ کا عالم ہو یا سائنسی علوم کا ماہر وہی رب کی خشیت سے بہرہ مند اور عبادت کی لذت سے آشنا ہو سکتا ہے۔

اللہ پر توکّل ، ایمان لانے کا لازمی تقاضا، اور آخرت کی کامیابی کے لیے ایک ضروری وصف ہے۔ توکّل کے معنی یہ ہے کہ:

  • اوّلًا، آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پر کامل اعتماد ہو اور وہ یہ سمجھے کہ حقیقت کا جو علم، اخلاق کے جو اصول، حلال و حرام کے جو حدود، اور دُنیامیں زندگی بسر کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اللہ نے دیئے ہیں وہی برحق ہیں اور انھی کی پیروی میں انسان کی خیر ہے۔
  • ثانیاً، آدمی کا بھروسا اپنی طاقت و قابلیت، اپنے ذرائع و وسائل، اپنی تدابیر، او ر اللہ کے سوا دوسروں کی امداد و عانت پر نہ ہو، بلکہ وہ پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھے کہ دُنیا اور آخرت کے ہرمعاملے میں اُس کی کامیابی کا اصل انحصار اللہ کی توفیق و تائید پر ہے، اور اللہ کی توفیق و تائید کا وہ اسی صورت میں مستحق ہوسکتا ہے، جب کہ وہ اُس کی رضا کو مقصود بنا کر، اُس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کرتے ہوئے کام کرے۔
  • ثالثا ً ، آدمی کو اُن وعدوں پر پورا بھروسا ہو، جو اللہ تعالیٰ نے ایمان و عمل صالح کا رویّہ اختیار کرنے والے اور باطل کے بجائے حق کے لیے کام کرنے والے بندوں سے کیے ہیں، اور انھی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ اُن تمام فوائد اور منافع اور لذائذ کو لات مار دے جو باطل کی راہ پر جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتے نظر آتے ہوں، اور اُن سارے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کرجائے جو حق پر استقامت کی وجہ سے اُس کے نصیب میں آئیں۔

توکّل کے معنی کی اِس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کا کتنا گہرا تعلق ہے ، اور اُس کے بغیر جو ایمان محض خالی خولی اعتراف و اقرار کی حد تک ہو، اُس سے وہ شاندار نتائج کیوں نہیں حاصل ہوسکتے جن کا وعدہ ایمان لاکر توکّل کرنے والوں سے کیا گیا ہے؟ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۵،عدد۷، مارچ ۱۹۶۵ء، ص ۲۸)