بامقصد اور روشن مستقبل کے حصول کا عزم اور اس کا عملیت پسندانہ تصور کسی فرد یا ادارے کا ’وژن‘ (بصیرت)کہلاتا ہے۔ نظریہ ایک راہ نما ہدایت نامے کی طرح ہوتا ہے، جس کی مدد سے اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ انسان کس سمت میں جانا چاہتا ہے اور کس طرح کی دُنیا بسانے کا خواہش مند ہے؟ لیڈرشپ کی خصوصیات میں سے یہ ایک بڑی اہم خصوصیت ہے کیوں کہ اگر لوگ اپنی جدوجہد کے مقاصد اور اس کے متوقع نتائج سے ناواقف ہوں تو وہ بددلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایک عظیم لیڈر کا وژن عام لوگوں سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حالات اور واقعات کو بہتر طور پر سمجھ کر ان کے بارے میں زیادہ مؤثر طریقے سے رائے دے سکتا ہے، اور ان سے نمٹنے کے لیے موزوں ترین حکمت عملی اختیار کرسکتا ہے۔ لیڈر کی سوچ میں بڑی وسعت ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ مسائل اور حالات کو الگ زاویے سے دیکھتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کرسکتا ہے، جو عام لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ کامیاب ترین ادارے اپنے وژن اور مشن ہی کی بدولت لوگوں کے لیے پُرکشش ٹھیرتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وژن میں ایسی کون سی طاقت ہے، جس کی بدولت حالات و واقعات کا رُخ موڑا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان میں فطری طور پر یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد ہو اور وژن اس خواہش کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نامور محقق ڈینیل پنک کا کہنا ہے: ’’کسی مہارت پر عبور، خودمختاری اور مقصد وہ تین عوامل ہیں جو انسان کو کسی کام پر آمادہ کرنے کا محرک بنتے ہیں‘‘۔ اسلام اسے فطرت کا نام دیتا ہے جو اللہ کی طرف سے انسان کو ودیعت کی جاتی ہے۔ اس لیے جب کسی وژن کی صورت میں انسان کو اپنی زندگی کا مقصد مل جاتا ہے، تو وہ اسے پورا کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیتا ہے۔ بعض اوقات کسی کا پیش کردہ نظریہ زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرپاتا، یا لوگ اس سے غیرمتفق ہوتے ہیں۔ اکثریت کی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ بات لازم ہے کہ قائد کا تجویز کردہ نظریہ لوگوں کے جذبات، ان کی اقدار اور ترجیحات سے ہم آہنگ ہو۔
عام طور پر لیڈرشپ کی ابتدا ایک وژن سے ہوتی ہے، جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے پہلے مطلوبہ اقدار کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر ان سے ہم آہنگ ایک مؤثر حکمت ِ عملی تیار کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک تفصیلی ایکشن پلان بنایا جاتا ہے جس پر عمل درآمد کے دوران میں ’عمل درآمد کے مرکزی معیارات‘ (Key Performance Indicators-KPI)کی مدد سے کارکردگی کی جانچ پرکھ کی جاتی ہے۔ تاہم، اس سے زیادہ کارآمد طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ایسی ہمہ گیر نوعیت کی اقدار کا تعین کرلیا جائے، جنھیں فروغ دینا مقصود ہے اور پھر ان اقدار سے ہم آہنگ ایک ایسا نصب العین یا نظریہ متعارف کروایا جائے، جس کے حصول کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی مدد سے عملی منصوبے بنائے جاسکیں۔
اداروں کی سطح پر حکمت ِ عملی کو سمجھنے کے لیے ایک عرصے تک کسی ادارے کو مطلوبہ سمت میں رواں رکھنا اور اسے وسعت دینا حکمت ِ عملی کے زمرے میں آتا ہے۔ مارکیٹ کی ضروریات، فریقین کی توقعات اور دیگر چیلنجوں سے نمٹنے میں ایک عمدہ حکمت عملی، ادارے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ حکمت عملی کو اکثر شطرنج کے پیچیدہ کھیل سے تشبیہ دی جاتی ہے کیوں کہ اس میں بھی گہری سوچ بچار کے بعد موقع کی مناسبت سے اگلا قدم اُٹھایا جاتا ہے۔ اس فریم ورک کا خاکہ ذیل میں دیئے ٹیبل سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کس طرح ہرمرحلے پر مختلف سوالوں کی مدد سے اس فریم ورک کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا جاسکتا ہے:
یکسوئی، اُولوالعزمی اور ثابت قدمی، لیڈرشپ کی نمایاں خصوصیات ہیں، جن کا بہترین عملی نمونہ سیرت النبیؐ میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی روشنی میں ایک اسلامی معاشرہ قائم کرنا آپؐ کی زندگی کا واحد مقصد تھا، جس کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ آپؐ کو کبھی کسی نے غیرتعمیری کام میں وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا بلکہ آپؐ ہمیشہ کسی کام میں مصروف ہی نظر آئے:
نظریے کی تکمیل کے مراحل | اقدامات | تفصیل |
---|---|---|
اس وقت ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ | اپنا محاسبہ کرنا (خود احتسابی) | گذشتہ ریکارڈ اور اعداد و شمار کی مدد سے ماضی کا جائزہ لیں۔ |
ہم کس سمت میں جارہے ہیں؟ | مروجہ رجحانات کا تجزیہ کرنا | اعداد و شمار اور حقائق کی مدد سے موجود اور آئندہ کے رجحانات کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں۔ مستقبل کا ممکنہ خاکہ بنائیں۔ |
ہم کس مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں؟ | نظریے کو الفاظ کی شکل دینا (اقدار کا تعین) | اپنے اور ادارے کی اقدار کی مناسبت سے فیصلہ کریں کہ آپ کیسا مستقبل چاہتے ہیں؟ |
ہم وہاں تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ | مشن اور لائحہ عمل ترتیب دینا | اپنے نظریے اور دعوت کو دو یا تین عبارتوں میں تقسیم کریں جن سے یہ واضح ہو کہ آپ اپنے نظریے کو کس طرح |
کیا ہم مطلوبہ ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوپارہے ہیں؟ | طے شدہ سرگرمیوں پر عمل درآمد اور ان کی نگرانی کرنا | عملی جامہ پہنائیں گے؟ ایسی سرگرمیاں منتخب کریں جو آپ کے نظریے اور نصب العین (مشن)کو تقویت دیں۔ طے شدہ سرگرمیوں پر عمل درآمد کے لیے جامع منصوبہ بندی کریں اور ان کی نگرانی کا باقاعدہ نظام تیار کریں جس میں ممکنہ رکاوٹوں سے نمٹنے کا طریق کار موجود ہو۔ |
سورئہ تکویر کی چھبیسویں آیت: فَأَیْنَ تَذْھَبُوْنَ کا مفہوم ہے: ’’پھر تم لوگ کدھر چلے جارہے ہو؟‘‘ یہ سوال ہر انسان کے لیے ہے کہ وہ سوچے کہ اس زندگی کا مقصد کیا ہے، وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور کس مقام پر پہنچنا چاہتا ہے؟
قرآن کریم کے اس منطقی سوال کا بہترین جواب سیرۃ النبیؐ ہے۔آپؐ سے عقیدت اور محبت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و افعال کا بغور مطالعہ کریں، ان کی وجوہ اور نتائج کا تجزیہ کریں اور ان کی مناسبت سے اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کی سمت متعین کرنے کی کوشش کریں، کیوں کہ غوروفکر اور تحقیقی اندازِ فکر اپنائے بغیر ایک اعلیٰ وژن تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔
بعثت سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں کسی بھی قسم کی لاپروائی دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ اس کے برعکس آپؐ اپنی ایمان داری اور جذبۂ خدمت کی وجہ سے مشہور تھے۔ زندگی میں کسی بامعنی مقصد کا حصول اور اپنے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا عزم ہی تھا، جو آپؐ کو غارِحرا میں کئی کئی دن تک غوروفکر میں مشغول رکھتا تھا۔ اسی دوران میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی زندگی کو سمت بخشی اور آپؐ کی لیڈرشپ کے انداز کا تعین ہوا۔ یہ تمام حضرت عائشہؓ کے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا بہت عمدہ اور سچّے خوابوں سے ہوئی۔ پھر آپؐ تنہائی پسند ہوگئے اور کئی کئی دن غارِحرا میں عبادت میں مشغول رہنے لگے۔ اس دوران میں آپؐ وقتاً فوقتاً صرف اشیائے ضروریہ لینے کے لیے حضرت خدیجہؓ کے پاس واپس تشریف لاتے اور پھر واپس جاکر عبادت میں مصروف ہوجاتے تھے۔ یہ سلسلہ پہلی وحی کے نزول تک جاری رہا۔ جب حضرت جبرئیل امینؑ سورئہ علق کی پہلی پانچ آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے: ’پڑھو، اپنے ربّ کے نام سے‘۔ اس کے بعد آپؐ سیدھا حضرت خدیجہؓ کے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپؐ پر شدید لرزہ طاری تھا۔ آپؐ کے کہنے پرحضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو کمبل اوڑھایا۔ جب آپؐ کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کو سب رُوداد سنائی اور اپنے اضطراب کا ذکر کیا۔ جس پر وہ بولیں: ’’آپؐ ہرگز غمگین نہ ہوں، بخدا! اللہ کبھی آپؐ کی بے قدری نہیں ہونے دے گا۔ آپؐ رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، سچ بولتے ہیں، غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں، اپنے مہمانوں کے ساتھ فراخ دل ہیں اور مصیبت زدوں کو سہارا دیتے ہیں‘‘۔
اس واقعے کے ذریعے یہاں پر یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ اللہ کی وحدانیت پر ایمان لاکر خود کو اس کی رضا کے تابع کرلینا اسلام کا پہلا سبق اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وژن اور مشن کی بنیاد ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ رَدعمل صرف ایک غم گسار رفیق کی جانب سے کی جانے والی دل جوئی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اسلامی اقدار کا پہلا تعارف بھی ہے۔ انسان کے کردار، عادات اور اعمال کا کوئی بھی پہلو اس کی بیوی سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، لہٰذا یہ بیان اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں آپؐ کے پیغمبرانہ اوصاف کی گواہی موجود ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے کسی مافوق الفطرت قوت یا کسی معجزے کا حوالہ نہیں دیا بلکہ آپؐ کے اعلیٰ کردار، عزیز واقارب کے ساتھ حُسنِ سلوک، خدمت خلق اور ایمان داری کی بناپر آپؐ کے بیان کی تصدیق کی۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ حق کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانا شروع کر دیں تو آپؐ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر مکہ والوں کو پکارا۔ جب سب جمع ہوگئے تو آپؐ نے ان سے سوال کیا: ’’اگرمیں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کی دوسری جانب سے گھڑسواروں کا ایک دستہ تم پر حملہ کرنے آرہا ہے تو کیا تم میری بات پر یقین کرو گے؟‘‘ ان سب نے کہا: ’’ہاں، کیوں کہ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں‘‘۔ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے اللہ نے تم لوگوں کو تنبیہہ کرنے کے لیے بھیجا ہے تاکہ تم ایک خدا پر ایمان لائو اور اسی کی عبادت کرو اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو نہ میں اس دُنیا میں تمھیں اس کی سزا سے بچا سکتا ہوں اور نہ آخرت ہی میں‘‘۔ حضورؐ نے قریش کو تاکید کی کہ وہ اقرار کریں کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، اور ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ ایمان لانے والوں کے لیے بڑا اجر ہے۔
توحید کا یہ تصور انسانیت کی فلاح کے نظریے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ دُنیا میں پائی جانے والی ناانصافیوں اور استحصال کے خاتمے اور انسانی حقوق اور عزّتِ نفس کی حفاظت کے مشن کا نکتۂ آغاز ہے۔ تمام اخلاقی بُرائیوں میں مبتلا، دولت مند اور طاقت ور اہل مکہ کے لیے یہ ایک کھلا چیلنج تھا، جسے اُنھوں نے یک سررَد کر دیا۔ یہاں تک کہ آپؐ کے چچا ابولہب نے شدید طیش کے عالم میں آپؐ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا (نعوذ باللہ)۔ اس کے باوجود آپؐ نے دعوتِ حق کا کام جاری رکھا اور متعدد مواقع پر اپنے عمل کے ذریعے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ اپنے نظریے کی خاطر ڈٹ جائیں اور اس کی خاطر ہرقربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔
اسی جذبے کے بل پر غزوئہ بدر میں مٹھی بھر مسلمان، کفّار کی کئی گنا بڑی فوج سے ڈرنے کے بجائے ان کے مقابلے پر ڈٹ گئے اور غزوئہ خندق کے دوران میں بھوک کی شدت برداشت کرتے رہے۔ ان تمام موقعوں پر ان کی ہمت بندھائے رکھنے میں ان کے محبوب ترین لیڈرؐ کا ہاتھ تھا، جنھوں نے جنگ کے ہرمرحلے میں دیگر مسلمانوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ یہ آپؐ کے وژن کی کامیابی ہی تھی، جس کی وجہ سے آخرت میں کامیابی، رضائے الٰہی اور جنّت کا حصول ہر مسلمان کا محبوب ترین مقصد بن گیا۔
اسلامی نظریے کی بقا کے لیے حضوؐر اور صحابہ کرامؓ بہترین لائحہ عمل اختیار کیا کرتے تھے۔ ہجرت کے موقعے پر حضورؐ اور حضرت ابوبکرؓ کو معلوم تھا کہ ان کا تعاقب کیا جائے گا، اس لیے اُنھوں نے مدینہ جانے کے لیے عام راستے سے ہٹ کر ایک دشوار راستے کا انتخاب کیا، جس کی وجہ سے پیچھا کرنے والوں کو کافی مشکلات پیش آئیں۔ اسی طرح غزوئہ بدر کے دوران میں ایک صحابیؓ کے مشورے پر اپنی فوج کو اس واحد کنویں پر تعینات کیا جہاں سے دشمن فوج پانی حاصل کرتی تھی۔ شدید گرمی سے تپتے ہوئے صحرا میں دشمن پیاس سے نڈھال ہوگیا، جب کہ مسلمان پانی دستیاب ہونے کی وجہ سے تروتازہ رہے۔ ایسے وقت میں جب مسلمان تعداد میں بے حد کم تھے اور ان کے پاس جنگی سازوسامان بھی نہ ہونے کے برابر تھا، یہ حکمت ِ عملی کافی مفید ثابت ہوئی۔ غزوئہ خندق کے موقع پر حضرت سلمان فارسیؓ نے تجویز دی کہ دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیے اہلِ فارس کا طریقہ اپنایا جائے یعنی خندقیں کھودی جائیں۔ حضوؐر نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور اس کے ذریعے دشمن کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔
بلند سوچ اور بہترین حکمت عملی ایک نظریاتی راہ نما کی پہچان ہیں۔ تنگ دل اور کم ظرف انسان کبھی ایک اچھا لیڈر نہیں بن سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے بنیادی مقصد کو پورا کرنے، مسلسل بدلتے ہوئے حالات اور ان کے تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنے اور دیرپا کامیابی کے حصول کے لیے اپنائے جانے والے تمام طریقے حکمت عملی میں شمار ہوتے ہیں۔
ہجرت کے لیے غیر متوقع راستے کا انتخاب کرکے قریش کے تعاقب میں رکاوٹ ڈالنے سے لے کر خندق کھود کر دشمن کا مقابلہ کرنے تک کے واقعات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمعمولی ذہانت اور معاملہ فہمی کی عمدہ مثالیں ہیں۔ لیکن آپؐ کی دُور اندیشی اور حکمت کا عروج ’صلح حدیبیہ‘ کے موقع پر کیے جانے والے معاہدے کی صورت میں سامنے آیا، جس کی شرائط بہ ظاہر مسلمانوں کے لیے ناموافق تھیں۔ وقت نے ثابت کردیا کہ آنے والے وقتوں میں انھی کی بنیاد پر مسلمانوں کو عظیم کامیابیاں نصیب ہوئیں۔
قریش کی مسلمانوں سے عداوت سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود، اگر آپؐ نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ حج کی نیت سے مکہ کا سفر اختیار کرلیا تھا، تو اس کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ حج ادا کرنے کی ایک کوشش کرلی جائے، بلکہ درحقیقت یہ آپؐ کے نظریے اور مقصد کی جانب ایک بڑی پیش رفت تھی۔ اس سفر سے قریش کو یہ باور کرنا مقصود تھا کہ حج بیت اللہ مسلمانوں کا حق ہے، لیکن جب اس بارے میں حتمی فیصلے کا اختیار غیرمتوقع طور پر قریش کو دے دیا گیا تو وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔ اس کے علاوہ چوں کہ مسلمان نہایت کم ہتھیار لے کر آئے تھے۔ اس لیے غیرمسلح لوگوں پر حملہ کرنا قریش کے لیے بدنامی کا سبب بن سکتا تھا۔ ساتھ ہی وہ اس قافلے کی عددی برتری سے خائف بھی تھے۔ کیوں کہ اگر اتنے بڑے گروہ کو روکا جاتا تو ہرجگہ یہ خبر پھیل جاتی کہ مکہ کے دروازے حج کے لیے آنے والوں پر بند کر دیئے گئے ہیں، جس سے ان کی تجارتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ حضورؐ نے اپنی دُور اندیشی سے کام لے کر ان تمام عوامل کا فائدہ اُٹھایا اور ایسی صورتِ حال پیدا کردی جس میں صلح کے سوا قریش کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ معاہدے میں تحریر کیا گیا کہ اس سال مسلمان بغیر حج کیے واپس جائیں گے۔اگر مکہ سے کوئی شخص فرار ہوکر مدینہ پہنچ جائے تو اسے واپس بھیج دیا جائے گا، لیکن اگر مدینہ سے کوئی شخص بھاگ کر مکہ چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔
صلح حدیبیہ کی شرائط بہ ظاہر مسلمانوں کے خلاف اور قریش کے حق میں تھیں، اس لیے فطری طور پر مسلمان بہت افسردہ تھے۔ لیکن حضوؐر کی زیرک نگاہ مستقبل پر تھی اور ان کا مقصد تھا کہ اس دس سالہ معاہدے کی مدد سے قریش کی شرپسندی کو قابو میں رکھا جائے تاکہ مسلمان ان کی طرف سے بے فکر ہوکر پورے عرب میں اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دے سکیں۔ اس معاہدے کا طے پاجانا بذاتِ خود ایک بڑی کامیابی تھی، کیوں کہ اس کی بنا پر پہلی بار قریش کو ادراک ہوا کہ مسلمان اتنے طاقت ور اور اہم ہوچکے ہیں کہ اب ان کے ساتھ معاہدہ کرنے کی ضرورت پیش آچکی ہے۔ مسلمانوں کی قوت اور اہمیت کے اس احساس کی بدولت ان کی مخالفت کی شدت میں کمی آگئی اور مدینہ کے حکمران کے طور پر حضورؐ کی حیثیت مستحکم ہوگئی۔ صلح حدیبیہ کے بعد قائم ہو نے والے امن و امان کی وجہ سے تبلیغ کے عمل میں تیزی آئی اور اُمت مسلمہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اپنی فطری ایمان داری کی بنا پر صلح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کی تمام شرائط پر سختی سے عمل کیا، لیکن شاید آپؐ کو اندازہ تھا کہ قریش بالآخر اپنی فطرت سے مجبور ہوکر عہدشکنی کے مرتکب ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔قریش کے حلیف قبیلے بنوبکر نے مسلمانوںکے حلیف بنوخزاعہ پر حملہ کیا اور ان کے بہت سے افراد کو قتل کرڈالا۔ اس وقت تک مسلمانوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوچکا تھا۔ آپؐ نے ایک بڑی فوج تشکیل دی اور بغیر کسی اعلان کے اچانک مکہ کا محاصرہ کرلیا۔
بعض روایات کے مطابق آپؐ نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ رات میں ہرشخص الگ الگ آگ جلانے کا اہتمام کرے۔ اس سے پہلے رواج تھا کہ دس افراد کے لیے ایک جگہ پر آگ جلائی جاتی تھی، جسے دیکھ کر مخالف فوج کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ لیکن اس ترکیب کی وجہ سے قریش کو مسلمانوں کی فوج تقریباً دس گنا زیادہ معلوم ہوئی اور ان پر ہیبت طاری ہوگئی۔ فتح مکہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور تاریخی کامیابی ہے، کیوں کہ اس دوران میں کسی قسم کی کوئی خوں ریزی نہیں ہوئی اور فاتح انتہائی پُرامن انداز میں مکہ میں داخل ہوگئے۔
یہ حضوؐر کی دیدہ ور قیادت کا اوجِ کمال تھا، جس کا اعتراف دُنیا بھر میں کیا گیا۔ آپؐ نے تہیہ کررکھا تھا کہ فتح کا عمل کسی قسم کی قتل و غارت کے بغیر انجام پائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ مذاکرات میں اپنی حیثیت تسلیم کروانا، دُور اندیشی سے کام لینا اور اپنے حریفوں کو اس حد تک کمزور کر دینا کہ وہ خود ہی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ تمام اوصاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریاتی اور دُوربین قیادت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
کامیابی بہت سے عوامل کا مجموعہ ہوتی ہے۔ بہترین منصوبہ بندی اور سرگرمیوں کی مدد سے کسی جدوجہد میں ایک حد تک کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن ان کی مدد سے مکمل کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح بغیر ہاتھ پائوں ہلائے صرف عبادت کے زور پر بھی کسی مقصد میں کامیابی ممکن نہیں۔ اُونٹ کو باندھ کر اس کی ذمہ داری اللہ کو سونپ دینا اصل توکّل ہے، نہ کہ اسے کھلا چھوڑ دینا اور یہ سوچنا کہ اللہ خود ہی اس کی حفاظت فرمائے گا۔ تدبیر، حکمت اور عمل اللہ کی جانب سے انسان کو عطا کردہ صلاحیتیں ہیں، جن کا بہترین استعمال کرنا انسان پر فرض ہے۔ لہٰذا، بطورِ مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اعلیٰ اسلامی اقدار کی مناسبت سے اپنا نظریہ تشکیل دیں۔ اس کے حصول کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کریں اور اس کے تمام ممکنہ نتائج کا جائزہ لیں۔
اس سارے عمل کے دوران میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل ایمان رکھیں اور کسی رکاوٹ سے مایوس ہونے کے بجائے اسے آئندہ کے لیے بطورِ سبق استعمال کریں۔ توکّل اور حکمت عملی کا یہ امتزاج ایک بہترین مسلمان لیڈر کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے، جس کا ثبوت جابجا سیرت النبیؐ میں پایا جاتا ہے۔ بطور ایک نظریاتی راہ نما آپؐ صرف گھر بیٹھ کر عالمانہ گفتگو کرنے والے دانش ور نہ تھے اور نہ خاموشی سے منظر دیکھنے والے تھے، بلکہ عمل پر یقین رکھتے تھے اور اپنے اصحابؓ کے ساتھ ہر سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اس طرزِعمل کی وجہ سے آپؐ کی کامیابی اور مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ نیلسن منڈیلا کا ایک قول ہے کہ ’’کسی نظریے کے بغیر کیا جانے والا عمل محض وقت گزاری ہے اور اسی طرح عمل کے بغیر نظریہ دیوانے کا خواب ہے، لیکن دُنیا میں تبدیلی صرف اسی عمل سے لائی جاسکتی ہے جس کی بنیاد کسی نظریے پر ہو‘‘۔
گفتگو کے ہنر کی قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے پروان چڑھانے کے لیے دُنیا بھر میں ڈھیروں وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی ادارے یا فرد کی کامیابی میں ابلاغی مہارتوں (Communication Skills) کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ایک راہ نما کے لیے اس کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہے کیوں کہ کوئی بھی نظریہ یا اس کے حصول کی حکمت عملی اس وقت تک نامکمل ہوتی ہے ، جب تک عوام اس کے لیے رضامند نہ ہوں۔ رائے عامہ کو اپنے نظریے کی طرف راغب کرنے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لیڈر گفتگو کے ہنر میں مہارت رکھتا ہو اور اپنا نظریہ مؤثر طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکے۔
حضوؐر جامع الکلام تھے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا یعنی مختصرالفاظ میں جامع اور مدلل بات کرنے کی صلاحیت رکھنا آپؐ کی ایک اور خصوصیت تھی۔آپؐ بے جا طور پر طویل گفتگو سے پرہیز کرتے اور لفاظی سے کام لینے کے بجائے واضح انداز میں براہِ راست اپنا مدعا بیان فرماتے تھے۔ آپؐ اپنے الفاظ کا چنائو سوچ سمجھ کر اور محتاط انداز میں کیا کرتے تھے۔ جدید تحقیق کے مطابق ایک عام انسان کی توجہ کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ بیس منٹ تک ہوتا ہے، جس کے بعد اس کا دھیان بھٹکنے لگتا ہے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپؐ کے کسی خطاب کا دورانیہ بیس منٹ سے زیادہ نہیں رہا ہوگا۔ انسانی فطرت کی باریکیوں سے اس حدتک واقفیت اور ان کی توقعات اور ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی جدوجہد نبویؐ قیادت کا ایک خاص پہلو ہے۔