ڈاکٹر نبیل الاعظمیؒ


مسلم دنیا پرنظرڈالی جائے تو کچھ قومیں مادی اعتبار سے ترقی کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں، لیکن مجموعی تصویر بہت تشویش ناک اورمایوس کن ہے۔سوال یہ ہے کہ ’اس صورت حال کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے؟‘ جواب ہے :’اچھی قیادت سے‘۔

ہم دنیامیں آج کس قسم کی قیادت چاہتے ہیں؟اور اتنے سارے قائدین ہماری توقعات پر کیوں پورے نہیں اُترتے؟

دنیابھر میں کمزور قیادت کی ناکامیوں کے پیش نظر ان سوالات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ابراہم لنکن [م:۱۸۶۵ء]کا معروف قول ہےکہ ’’ مشکل تو عموماً تمام لوگ برداشت کرسکتے ہیں، لیکن اگرآپ کسی فرد کے کردارکو آزماناچاہتے ہیں تواسے اختیارات دے دیں۔‘‘ اختیارات انسان پر جس طرح اثر اندازہوتے ہیں کوئی اورچیز اس طرح نہیں ہوتی۔اس میں، انسانوں کوان کے رویوں اور ان کے افعال کو بدل دینے والاایساحیران کُن داعیہ ہے،جس سے ان کے کردار کے بارے میں پتا چلایا جاسکتاہے۔اختیارات کمزورقیادت کومکمل طور پر بدعنوان بنادیتے ہیں۔ قیادت اور اختیارات کے طلب گارایسے کمزورکردارکے حامل لوگوں کی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی ۔

اختیاربہت سی شکلیں تبدیل کرسکتاہےاوریہ مختلف صورتوں میں نمودار ہوسکتا ہے۔ اختیار صرف سیاسی اورتنظیمی ہی نہیں بلکہ یہ معاشی،سماجی اور مذہبی بھی ہوسکتاہے۔ان میں سے ہرقسم میں ہمارے کردارکوآزمانے کاسامان موجودہے (اگرا ٓپ کا یہ خیال ہے کہ مذہبی اختیارسے کردارکو نہیں آزمایاجاتاتویہ آپ کی خام خیالی ہے)۔

اگر کوئی فرد کسی دیانت دار شخص کو اپنا رہبر قرار دے تو سوال پیداہوتاہے کہ کتنا دیانت دار؟ اس سوال کے جواب میں بندہ چکراکر رہ جاتاہے کہ ’کیا ہر فردکی دیانت داری کا پیمانہ الگ ہوگا؟ ‘

اچھی قیادت کی ضرورت صرف مسلمانوں ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہاں مارٹن لوتھرکنگ [م: ۱۹۶۸ء]کی وہ بات درست معلوم ہوتی ہے، جس میں اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی نے انسان اور اس کی روح کوپیچھے چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے جہاں ایک میزائل کا اپنے ہدف پر پہنچنا یقینی ہے، وہاں ایک انسان کا صراطِ مستقیم پر رہنا غیریقینی ہے‘۔

ہم ایک ایسے دورمیں رہ رہے ہیں، جہاں مشرق ہو یا مغرب، دنیاکوواضح طورپر بہتر قیادت کی طلب ہے۔کرپٹ اور ظالم قیادت کےخلاف بےچینی، قائدین اورتنظیموں پرعدم اعتماد، بڑے پیمانے پر میڈیاپر عدم اعتماد معاشرے میں بالعموم واضح طورپر نظرآرہاہے۔

اسلام نے صرف عمومی اورمعاشی دیانت داری پر زور نہیں دیا بلکہ معاہدوں کی پاس داری کوبھی بہت اہمیت دی ہے۔ قرآن کی سب سے بڑی سورۃ البقرہ کی آیت ۲۸۲، اسی موضوع پرہے۔اہم بات یہ ہے کہ کرپشن کا تعلق: ناانصافی،استحصال ،دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اورمختلف سانحات میں انسانی جانوں کے ضیاع سے ہے۔یہ معاملہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بدعنوان ماحول میں مقاصد ِشریعہ پرسمجھوتا کیاجاتاہے۔حالانکہ مقاصدِ شریعہ(انسانی جان، ذہانت، آزادی، عزّت و احترام اور عدل وانصاف) کی حفاظت ہرحال میں ہونی چاہیے۔

دنیاکواس خرابی کا سامنا اس وجہ سے نہیں ہے کہ اچھے قائد کی خصوصیات کے بارے میں معلومات اورحقائق ناپید ہیں۔دنیا میں قائدانہ اوصاف کے فروغ کے پروفیسرجان اڈیر (John Adair) نے جب اس وقت کےبرطانوی وزیراعظم جم کلاہان سے پوچھاکہ ’’آپ نے قائدانہ اوصاف کا مطالعہ کیا ہے؟‘‘ ان کاجواب تھا:’’میں نے نہیں کیا،اگرمیں کرچکاہوتاتوشایدمیں ایک بہتر قائد ثابت ہوتا‘‘۔

اگرہم نےبہترمعاشرے ،تنظیمیں اوربہتردنیاتشکیل دینی ہے، تو موجودہ اور آنے والے وقتوں کے لیےسماجی ،سیاسی اورتنظیمی اورہرسطح پر تعلیم وتربیت کے ذریعےاچھی قیادت کی تیاری اور آبیاری ایک اہم اورفوری ضرورت ہے۔لیڈرشپ کی بہت ساری صفات میں سے سب سے اہم خوبی تعلیم ازحد ضروری ہے، پھر دیانت داری اوراصولوں کی پاس داری ہے،جوکسی فرد کے کردارمیں اخلاقیات کوجمع کرتی ہیں۔

ابراہام لنکن جیسے معروف لیڈرقیادت کے میدان میں قدم رکھنے والے کےلیے دیانت داری کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔اس صفت کے حامل لیڈروں کی تعد ادبہت قلیل ہے۔تاہم حالیہ تاریخ میں دیانت داری اوراصولوں کی پاس داری کی بدولت عظمت حاصل کرنے والوں کی بھی ایک تعداد ہے۔

لیکن جب ہم تمام زمانوں کے لیے عظیم ترین قائدین کی بات کرتے ہیں تو نہ صرف دنیابھر کے مسلمانوں کے سامنے بلکہ غیرمسلم محققین اورمؤرخین کے سامنے بھی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام سب سے پہلے آئے گا۔مائیکل ہارٹ اس کی بہترین مثال ہے جس نے دنیاکے ۱۰۰عظیم ترین قائدین کی تاریخ مرتب کرتے وقت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو سرفہرست تسلیم کیا۔

ہم جانتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک قیادت کی کتنی اہمیت تھی ۔آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہرایک چرواہا ہے اورہر ایک سے اپنےریوڑ کے بارے میں پوچھاجائے گا‘‘ (بخاری ، مسلم)۔ خود ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ابتدائی مراحل میں گلہ بانی کی تھی ۔دراصل گلہ بانی پیغمبروںؑ کوانسانوں کی قیادت کےلیے تربیت کاذریعہ تھی۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہےکہ ہم سب کسی نہ کسی صورت میں چرواہے ہیں۔

لیڈرشپ کی اہمیت کے بارے میں ایک اورحدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تین آدمی سفرکررہے ہوں توان کواپنے میں سے ایک کو امیربناناچاہیے‘‘(ابوداؤد)۔ اتنے مختصر گروہ کے لیے قائد کاتعین بظاہر کتناحیران کن ہے ۔ذہن میں یہ بات آسکتی ہےکہ اتنے چھوٹےسے گروہ کےلیے امیرکی آخر کیاضرورت ہے؟لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تعلیمات امیر کےتعین پرزوردیتےہیں۔

مثالی قائد کی صفات

یہاں پر یہ جاننا اَزحد ضروری ہے کہ لیڈرکس قسم کاہوناچاہیے؟حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی قائد کی کون سی خصوصیات بیان فرمائی ہیں؟

سیرت اور دنیابھر میں مختلف محققین کے کاموں، بالخصوص دنیا میں لیڈرشپ کے پروفیسر جان اڈیر (جنھوں نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت پر ۲۰۱۱ءمیں کتاب لکھی) کے تجزیے کے بعد ہم نے پچاس پیغمبرانہ اوصاف کی ایک فہرست بنائی اور پھر کئی اوصاف کوباہم ملانے کے بعد ہم نے گیارہ انتہائی اہم اورنہایت ضروری اوصاف کی ایک جامع فہرست مرتّب کردی ہے:

  • دیانت وامانت: د یانت وسچائی کی شہرت حاصل کرنا،مثالی نمونہ بننا۔
  • بصیرت: حکیمانہ سوچ کے ساتھ منزل بتانا،اورترغیب کے ذریعے سے منزل کی طرف گامزن کرنے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت۔
  • شجاعت وبہادری: نامساعدحالات میں ہمت،حوصلے اوربہادری کامظاہرہ کرنا۔
  • قابلیت: مؤثر،قابل اعتماد۔
  • انصاف(شفافیت): معاملات میں سب کے ساتھ (بشمول غیرمسلم )عدل وانصاف پرمبنی برتائو۔
  • فیصلے کی قوت: معاملے کے تمام پہلوؤں کو زیرغورلاکرواضح اوردوٹوک فیصلہ کرنا۔
  • عملی نمونہ: عملی مثال پیش کرنا،دکھ سُکھ میں لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونا۔
  • حکمت: علم اور دُوراندیشی کی بنیادپرفیصلے کی صلاحیت۔
  • صبر: ممکن حدتک لچک اور درگذر کی صلاحیت۔
  • ہمدردی و گرم جوشی ،محبت وملائمت: شفقت ،رحم اور قدردانی کے جذبے سےمعموردل۔
  • جذباتی وروحانی ذہانت: امید کوجگاسکے،لوگوں کومقصد اوراس کے مفہوم سے آشناکرسکے۔

اسوۂ رسولؐ

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے درج بالااوصاف کی بے شمار مثالیں تلاش کرنا کوئی مشکل نہیں۔

ہر ایک کےساتھ معاملات میں تسلسل کے ساتھ سچائی اور دیانت داری کی بدولت کم عمری ہی میں مکہ کے لوگ آپؐ کو صادق و امین تسلیم کرنے لگے۔حجراسود کی تنصیب کے تنازعے کے موقعے پر جب آپؐ حرم میں تشریف لائے،اس وقت لوگوں نے کہا: ’’الامین آگئے ہیں، یہی ہمارے تنازعے کاتصفیہ کریں گے‘‘۔پھر آپؐ کی حکیمانہ بصیرت صلح حدیبیہ کے موقعے پرسامنے آئی، جب آپؐ نے مشرکین مکہ کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پردستخط کیے، جس پروقتی طورپر آپ کے اپنے پیروکار مایوسی کا شکار ہوئے لیکن یہی معاہدہ بعد میں فتح مکہ کا ذریعہ بنا۔

آپؐ کی شجاعت وبہادری جنگ اورہرمشکل گھڑی میں سامنے آئی۔مدنی دور کی بات ہے، ایک دفعہ رات کوصحابہ کرامؓ ایک خوفناک آوازسے جاگ اُٹھے۔ لوگ جمع ہوکر اُس طرف چل پڑے جس طرف سے آواز آئی تھی۔ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے، جو آواز کی طرف سب سے پہلے تشریف لے گئے تھے۔ آپ ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار تھے جو ننگی پیٹھ تھا اور تلوار آپؐ کے زیب تن تھی اور آپؐ فرما رہے تھے: گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب شجاعت النبیؐ، حدیث: ۴۳۶۷)

آپؐ قرآنی خصوصیات کے مطابق قوی بھی تھے اورامین بھی۔ آپؐ کی قوت، صلاحیت، شفقت ،محبت ،بصیرت اوررہنمائی پر ہر کسی کو اعتماد تھا۔آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اچھے لوگ زیادہ باصلاحیت نہیں ہوتے،اسی طرح زیادہ باصلاحیت لوگ ہمیشہ اچھے لوگ نہیں ہوتے۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں رول ماڈل تھے۔

آپؐ ایک بہترین مبلغ تھے۔ پیدایشی طورپر جوامع الکلم، یعنی کم الفاظ میں بڑی بات مؤثر اندازمیں کرنے والے تھے۔ آپؐ ایک ماہر جنگجو ،ایک بہترین گھڑسواراورتعمیرات اوراپنے کپڑے کی چھوٹی موٹی سلائی کرنے جیسی روزمرہ کی مہارتوں سےلیس تھے۔ سراپا عدل تھے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور یہودی کے درمیان کسی معاملے پر تنازع ہوا ۔آپؐ نے شہادتوں کی روشنی میں یہودی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اسی طرح آپؐ نے ان صحابہ کرامؓ کوذمہ داری دینے سے انکار کیا، جن سے ناانصافی کاخدشہ تھا۔

آپؐ پوری توجہ سے فیصلہ کرتے،اور اس کےبعد اس پر جلدازجلد عمل درآمدکویقینی بناتے۔ آپؐ جہاں اہم امور میں شوریٰ کےمشورے سے فیصلے کرتے،وہاں آپؐ یہ بھی جانتے تھے کہ کون ساوقت باہم مشورے کے لیے ہے اور کون ساوقت عمل کےلیے۔ایک موقعے پر آپ نے اسلحہ اٹھالیا اور فوجی مہم کےلیے تیارہوگئے۔ایک صحابی آئے، اور انھوں نے مہم کےمنصوبے پر سوال اٹھایا۔ آپؐ نے صحابی سے فرمایا:’’جب ایک دفعہ پیغمبر ہتھیاراٹھالے پھر پیچھے مڑنے کی گنجایش نہیں رہتی‘‘۔

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا: ’’قوم کاسردار قوم کاخادم ہوتاہے‘‘۔ آپؐ نے مسجد نبویؐ کی تعمیرسے لے کرجنگ کے دوران میں خندق کی کھدائی تک ، زندگی بھر اس کاعملی نمونہ پیش کیا۔آپؐ ذاتی مفادات پر اعلیٰ مقاصد کوترجیح دینے والے قائد تھے۔ا س کے ساتھ آپؐ حددرجہ منکسرالمزاج تھے۔آپؐ کے لیے کوئی تخت وتاج نہ تھا۔آپؐ عام لوگوں کے درمیان اس طریقے سے بیٹھتے کہ دُورسے آنے والےاجنبی پہلی نظرمیں آپ کو پہچان نہ سکتے۔

آپ ؐحکمت ودانائی سے کام لیتےتھے۔ایک دفعہ بدومسجدنبوی کےصحن میں بیٹھ کرپیشاب کرنے لگا۔ صحابہ کرامؓ کو اس بات پرغصّہ آیا اور وہ مارنے کے لیے دوڑپڑے۔آپؐ نے نہ صرف ان کوبدوکومارنے سے منع کیابلکہ انھیں بتایاکہ اس کوپیشاب کرنے دیں۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو بتایا کہ یہ غصّہ کرنے اورمارنے کاموقع نہیں بلکہ اس کوآداب سکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بدومسجد کے آداب سے ناواقف ہے ۔ یہ آپ ؐکی حکمت ودانائی تھی۔

آپؐ کاایک وصف غیرمعمولی صبر تھا۔۱۳برسوں تک آپ نے مشرکین مکہ کے مظالم کو برداشت کیا۔جس میں آپؐ کے ساتھیوں کومارپیٹ،تشدداوربعض اوقات قتل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ نمازپڑھتے ہوئے آپؐ پرغلاظت بھری اونٹ کی اوجھڑی پھینک دی گئی۔طائف کی گلیوں میں آپؐ کو پتھروں سے ماراگیاکہ آپؐ کاپوراجسم لہولہان ہوگیا اورجوتے خون سے تر ہوگئے۔ اس کے باوجود آپؐ نے صبرکادامن تھامےرکھا۔ آپؐ کےصبروتحمل نےآپؐ کے ساتھیوں کو بھی طاقت دی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آسانی عطافرمائی ۔

’جذباتی ذہانت‘ سے مراد اپنے جذبات کواس طرح منظم کرناہے، جس کی مددسے دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات استوارکیے جاسکیں۔آپؐ نے فرمایا کہ ’مسکراناصدقہ ہے‘۔اس سے آپؐ  نےیہ بات سکھائی کہ مثبت جذبات کے ذریعے سےخودبھی خوش رہناہے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنا ہے۔اس سے اگلا درجہ روحانی ذہانت ہے۔ جس کے ذریعے سے اپنااور دوسروں کا رُخ منزل مراد کی طرف رکھنا ہے۔ اس کے ذریعے سے اقدارکی قوت کوزیادہ سے زیادہ استعمال کرکے مقصدیت پیدا کرنا اور لوگوں پر اثرانداز ہوناہے۔

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے مقصداندازمیں زندگی گزارنے سے منع فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو عظمت کی طرف بلایا۔ایک دفعہ ایک عرب سردارثمامہ ابن اثل گرفتارہوکر  آپؐ کے سامنے پیش ہوا۔ اس پر بے شمارمسلمانوں کے قتل کی فردجرم عائدہوئی۔آپؐ نے اس کی بڑی مہمان نوازی کی اور اس کے ساتھ نرمی کاسلوک کیا۔اس دوران میں آپؐ نے بارہاثمامہ کے دل کوٹٹولااوراسے کچھ کہنےکی ترغیب دی ۔ ثمامہ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت فاتح عالم اورآپؐ کے سخنِ دل نوازکااسیربنتا جارہا تھا۔آپؐ نے ثمامہ کو غیرمشروط طورپر رہاکیا،لیکن اس وقت تک ثمامہ برضا و رغبت غلامی اختیار کرچکاتھا۔اس نے وہیں پر اپنے ایمان کا اعلان کیا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دلائل سے جیتنے کی بجائے دلوں کوجیتنے پرزوردیتے تھے۔اسی کانام روحانی ذہانت ہے۔

قیادت کے یہ گیارہ پیغمبرانہ اوصاف مستند،تمام زمانوں کے لیے اورآفاقی ہیں۔یہ ماضی میں بھی اہم تھے، آج بھی ان کی ضرورت ہے اورمستقبل میں بھی اہم رہیں گے۔ان اوصاف کاتعلق کردارسازی اورروحانی تربیت سےہے۔یہ کرپشن کے خاتمے اوراختیارات کےساتھ وابستہ دیگرخطرات کوکم کرنے کےلیے انتہائی اہم ہیں۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں‘‘۔

کردارسازی کے حوالے سے امام غزالی نے پیغمبرانہ قیادت کو گہرائی کے ساتھ سمجھا اور انھوں نے حکمرانوں کو اپنی مشہورنصیحت میں کہاہے:’’اگربادشاہ دیانت دار ہیں توان کے وزیر و مشیر اور افسران بھی دیانت دارہوں گے۔لیکن اگروہ بددیانت،بےپروااورتن آسان ہیں تو ان کی پالیسیوں کونافذکرنے والے افسران بہت جلد سست اوربدعنوان بن جائیں گے۔‘‘

غزوۂ حنین :حقیقی قیادت کا بہترین نمونہ

سیرت کاایک قابل ذکرواقعہ غزوۂ حنین کے موقعے پر پیش آیا۔یہ ایساواقعہ ہے، جس کا ذکر پروفیسر جان اڈیرنے مختلف حصہ داروں کےمطالبات کو دیانت داری اوراصولوں کی پاس داری کے ساتھ پوراکرنےکے متعلق بطورخاص ذکرکیاہے۔حنین ایک بہت مشکل مرحلہ تھا۔اس موقعے پر آپؐ نے کمال دانش مندی،بے مثال حکمت اوربھرپور بصیرت کے ساتھ لیڈرشپ کی درج بالا گیارہ صفات کامظاہرہ کیا۔کسی نے کہاہے کہ ’’لیڈرشپ ایک ٹی بیگ کی طرح ہے، جس کے متعلق یقین سے نہیں کہاجاسکتاکہ یہ کتنی دیرتک گرم پانی میں بہتررہےگا‘‘۔غزوۂ حنین کے موقع پر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کیاکہ وہ دُنیا کے سب لیڈروں میں عظیم ترین کیوں تھے۔

مکہ کی پُرامن فتح کے بعد بعض پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت پر اشتعال میں آئے۔ بنوہوازن نے بطورخاص جنگ کاراستہ اختیارکیا اورمسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی۔وادیٔ حنین میدان جنگ بن گئی، جہاں۱۲ ہزارمسلمانوں کو چار ہزار دشمنوں کا سامنا تھا۔ یہ پہلاموقع تھا جب مسلمانوں کو واضح عددی برتری حاصل تھی(اس کے برعکس بدرمیں مسلمانوں کی تعداددشمن کے مقابلے میں بہت کم تھی، لیکن فتح مسلمانوں کوملی )۔ اس عددی برتری کی بدولت بہت سارے لوگوں کایہ خیال تھاکہ یہ جنگ آسان ہے۔

تاہم جونہی مسلمانوں نے وادی میں قدم رکھا تو گھات میں بیٹھےدشمن کے فوجیوں نے تیربرسانے شروع کر دیئے۔مسلمان خلاف توقع گھیرے میں آچکے تھے۔بہت سے مسلمان میدان چھوڑکر بھاگ گئے۔حوصلہ مندپیغمبر ؐ دشمن کے سامنے اکیلے ڈٹ کرکھڑے رہے۔حضورنبی کریمؐ اور آپؐ کے وفادارساتھیوں نے بھاگنے والوں کو واپس بلایا۔اس طرح آپؐ کی قیادت میں مسلمانوں نے میدانِ جنگ کاکنٹرول سنبھالا،اوربنوہوازن پر غالب آگئے۔بھاگنے والوں کے لیے سبق سورۂ توبہ میں نازل ہواجو ہمیں یاد دلاتاہے کہ اسباب جمع کرنااوراللہ پر بھروسا رکھنا دونوں ضروری ہیں۔محض دنیاوی اسباب جمع کرنے اورعددی برتری پر فتح کادارومدار نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے، وہی فتح دے سکتاہے۔یہ سبق بھی ہے کہ اللہ کی مدداورنصرت کے مستحق وہ لوگ ہیں جن کاکردار اچھاہو،جوامین ہوں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کے جوہر اس وقت اورنمایاں ہوکرسامنے آتے ہیں، جب ہم حنین کےمشکل وقت میں آپؐ کو مختلف لوگوں کے جذبات کاخیال کرتے دیکھتے ہیں۔ مثال کے طورپرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیامہ بنت حلیمہ میدان جنگ میں گرفتارہو کر آگئیں۔ انھوں نے بتایاکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن ہوں۔پہلے کسی کویقین نہ آیا۔انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی درخواست کی ۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائی گئیں۔ آپؐ ان کونہ پہچان سکے پھرانھوں نے اپنے بازوپر وہ نشان دکھایاجوبچپن میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کاٹ کر لگایاتھا۔پہچاننے کے بعدآپ ؐنے بڑی گرم جوشی سے ان کااستقبال کیااوران کے بیٹھنے کےلیے اپنی چادربچھائی۔میدان جنگ کے ناخوش گوارماحول میں گرم جوشی، صبر اور جذباتی ذہانت کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔

ایک اوراہم موقع وہ تھا،جب شکست خوردہ بنی ہوازن کے قیدیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رحم کی درخواست کی ۔ان کی درخواست کی منظوری ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ جنگی قیدی اور مال غنیمت لڑنے والوں کاحق ہوتاہے۔تاہم جان اڈیر کے مطابق ا ٓپؐ نے درمیانی راہ  نکالی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنی مرضی سے اپناحق چھوڑنے کے لیے تیارہیں، وہ سامنے آئیں۔ قیدیوں کے بدلے میں منہ مانگےفدیہ کایہ نادرموقع تھا، تاہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان پر بہت سارے لوگوں نے بغیر کسی فدیے کے قیدیوں کو رہاکردیا۔ بعض لوگ فدیہ لیےبغیررہائی سےہچکچارہے تھے۔ آپؐ نےان کواونٹ اور بکریاں دےکر قیدی رہاکروائے۔یہ آپؐ کی حکمت ودانائی ،دیانت وامانت اور شفافیت کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے۔

انصارمیں سے آپؐ کے قریبی ساتھیوں کاایک گروہ ایسابھی تھاجن کاخیال تھاکہ وہ نظراندازہوگئےہیں اور ان کومال غنیمت میں سے بہت تھوڑاحصہ ملا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کواس تھوڑی سی بےچینی کاجونہی پتاچلا، آپؐ نے اس احساسِ محرومی کونظراندازنہیں کیا،جس طرح اکثرلیڈر کرتے ہیں بلکہ آپؐ ان کےپاس گئے اور ان سے پوچھاکہ ان کویہ احساس کیوں ہے؟ ساتھیوں نے ہچکچاتے ہوئے کہاکہ دوسرے لوگوں کوزیادہ حصہ ملاہے، جب کہ ہم محروم رہ گئے، حالانکہ ہماری قربانیاں زیادہ ہیں۔ یہاں وہ موقع تھاجب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی ذہانت اور بصیرت سامنے آئی۔

آپؐ نے فرمایا:جس وقت دوسرے لوگ اپنے گھروں میں اُونٹ اور بکریاں لے کر جارہے ہوں گے، انصاروہ خوش قسمت ہیں جواپنے ساتھ اللہ اوراس کے نبی کو لے کر جائیں گے۔ اس بات پر انصار روپڑے اور چندلمحے پہلے کے اپنے احساسات پر نادم ہوئے۔ گویا کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر ان صفات کو بروئے کار لاکربڑے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔

اچھی قیادت اور آج کی دنیا کی تکثیریت

بلاشبہہ مندرجہ بالاگیارہ صفات کاحامل، بہت اچھااورقابل اعتماد لیڈربن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے نصف صفات کو بھی اختیار کرنے والا آج کے دورمیں قیادت کے خلا کو پُر کرتا ہوا نمایاں نظرآئے گا۔لیکن ان صفات کاپیداکرنامحض خواہش پالنے سے ممکن نہیں ہے۔

ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔انسان کی عظمت یاذلت کاانحصاراس کے کرداراور خوبیوں پر ہوتاہے۔اسلامی تاریخ میں درج بالاصفات کے مضبوط حوالے پائے جاتے ہیں۔ یہ صفات بذات خود آفاقی ہیں۔ہم نے ان کوعالمی طورپرمسلم اورغیرمسلم سب کے لیے  قابلِ عمل بناناہے۔آج کل کےکثیرثقافتی اورکثیرمذہبی ماحول میں آفاقیت کی اہمیت سدابہار ہے۔ آج مذہب اور سرحدوں سے ماوراقیادت کوپیش کرنے کی اشدضرورت ہے۔مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ جس جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں، وہاں اخلاق کے چمکتے دمکتے روشن مینار کا کردار اداکریں۔ وہ سب کو ساتھ لے کرچلنے والے ہوں۔ نہ صرف مسلمانوں کی خدمت کریں بلکہ جس اکثریتی یا تکثیری (Plurist) معاشرے میں رہتے ہیں، اس پورے معاشرے کو فائدہ پہنچائیں۔

اکثر پوچھاجاتاہے کہ ’مسلمانوں کا منڈیلاکہاں ہے؟درحقیقت یہ ایک سلگتاہوا سوال ہے۔ اس وقت ہم ایسے مسلمان لیڈرکو ڈھونڈرہے ہیں جس میں ان صفات میں سے کچھ ہوں۔ تاہم منڈیلانے ان میں سےبیش تر اوصاف کو اختیار کیا، اور وہ مرکزِ نگاہ بنا۔ یہ صرف مسلمانوں ہی کا مسئلہ نہیں ہے، دنیابھر میں اس وقت کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا۔

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ جیسے لیڈر بھی نہیں آسکتےلیکن کوئی وجہ نہیں کہ کوئی دوسرا منڈیلابھی پیدانہ ہوسکے۔آئیے لیڈرشپ کے یہ گیارہ پیغمبرانہ اوصاف اپنے آپ میں پیداکریں، اور اپنی قابلیت کے جوہر دکھائیں۔ دنیا آپ کی منتظرہے!