’قابلیت‘ وہ خوبی ہے، جو ایک لیڈر کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ عوام میں اپنا اعتبار قائم کرسکے۔ منظم انداز میں مکمل توجہ کے ساتھ بروقت اپنے فرائض انجام دینا قابلیت کی معراج ہے۔ ایک قابل لیڈر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دُور اندیش ہو، عمدہ حکمت ِ عملی تیار کرسکتا ہو اور پیشہ ورانہ انداز میں مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ایسے واقعات سے جگمگاتی ہے، جن کی بدولت زندگی کے ہرمیدان میں آپؐ کی مہارت اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ مثال کے طور پر لوگوں کو منظم کرنا، سفارت کاری ، امن معاہدے، عسکری مہارت ، اُمت کی تعلیم و تربیت، مذاکرات کا طریقہ، فنِ تعمیر، شہسواری، تجارت، اندازِ گفتگو، گھریلو کام کاج جیسے کھانا پکانا اور کپڑوںکی سلائی اور جوتوں تک کی مرمت وغیرہ۔
نبوت سے پہلے بھی لوگ آپؐ کی معاملہ فہمی اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت کے معترف تھے۔ آپؐ تقریباً پینتیس برس کے تھے جب قریشِ مکہ نے کعبہ کی تزئین و آرائش کا فیصلہ کیا، جس کے لیے حجرِاسودکو اس کی جگہ سے ہٹانے کی ضرورت پیش آئی۔ جب اسے واپس لگانے کا وقت آیا تو مختلف قبیلوں میں اختلاف پیداہوا کہ یہ سعادت کس کے حصے میں آئے گی؟ یہ جھگڑا چار دن تک جاری رہا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ خوں ریزی کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔
اس جھگڑے کو نمٹانے کے لیے پانچویں دن وہاں پر موجود بزرگ ترین سردار ابواُمیہ ابن مغیرہ نے تجویز دی کہ اگلے دن جو بھی شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوگا، اسی سے اس معاملے کا فیصلہ کروایا جائے گا۔ اگلے دن سب سے پہلے داخل ہونے والے انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جنھیں دیکھ کر سب پکار اُٹھے کہ ’امین‘ آگیا۔ آپؐ نے اپنی چادر زمین پر بچھائی، حجرِاسود کو اس پر رکھا اور تمام سرداروں سے کہا کہ وہ اس چادر کا ایک ایک کونا تھام کر اسے اُٹھا کرلے چلیں۔ اس کے بعد آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے حجرِاسود کو اُٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کردیا۔ جنگ کی جانب بڑھتی ہوئی صورتِ حال کو ایسی عمدگی سے حل کرنا، جس سے فریقین مطمئن ہوں، آپؐ کی دانائی اور معاملہ فہمی کا روشن ثبوت ہے۔
یہ آپؐ کی ایمان داری اور لوگوں کا آپؐ پر اعتبار ہی تھا جس کی بنیاد پر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو اپنے کاروبار پر نگران مقرر کیا ، اور آپؐ کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور مہارت سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ کچھ ہی عرصے بعد آپؐ کو نکاح کا پیغام بھجوایا۔ رفتہ رفتہ آپؐ ایک کامیاب تاجر سے ایک پیغمبر بنائےگئے اور بالآخر ایک ایسے بااثر راہ نما بن کر دُنیا میں اُبھرے جنھیں ماننے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا گیا۔ مختلف ریاستی اُمور کی انجام دہی کے لیے موزوں ترین افراد کو نامزد کرنے کا معاملہ ہو یا ریاست ِ مدینہ کے پہلے آئین کی تشکیل، ریاستی اُمور میں آپؐ کی قابلیت و معاملہ فہمی اور تحمل و دُور اندیشی بے نظیر تھی۔ اسی قائدانہ مہارت کے نتیجے میں مدینہ میں ایسا منفرد معاشرہ وجود میں آیا، جہاں پر رنگارنگ ثقافتوں اور الگ الگ مذاہب کے ماننے والے لوگ رواداری اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔
اسلام کے پہلے آئین کی نمایاں خصوصیات میں مساوات، عدل و انصاف، پس ماندہ طبقے کی مدد اور تحفظ، مذہبی رواداری، قتل و غارت کی ممانعت اور نبی پاکؐ کی اجازت کے بغیر جنگ کا اعلان کرنے کی ممانعت شامل ہیں۔ اسی آئین میں خارجہ پالیسی اور اس جیسے دیگر اہم ریاستی اُمور انجام دینے کے لیے باہمی مشاورت کا نظام قائم کیا گیا، جس میں مسلمان اور غیرمسلم بشمول یہودی قبیلے شامل تھے۔ آئین میں واضح کیا گیا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ ایک جیسا رویہ اختیار کیا جائے گا اور کسی یہودی کو محض اس کے مذہبی عقائد کی بناپر بدسلوکی کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ یہ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد تھی، جس میں الگ الگ قومیں اور مذاہب ہم آہنگی کے ساتھ پُرامن زندگی گزار سکیں اور اچھے اور بُرے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔
مکہ میں مسلمانوں کی قلیل تعداد اور انھیں پیش آنے والے خطرات اور تکالیف کے برعکس مدینہ میں حالات کافی مختلف تھے۔ مسلمان تعداد میں زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی اور عسکری لحاظ سے مضبوط تھے اور ان کی طاقت میں روز بہ روز اضافہ ہورہا تھا، لیکن ایک نئی ریاست کی تشکیل اوراس کا انتظام بخوبی چلانا بذاتِ خود ایک بڑا چیلنج تھا۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف ہوکر اکثر دشمن قبیلے ان پر حملہ آور ہونے اور ان کا نام و نشان مٹادینے کے درپے تھے۔ بدر، اُحد اور خندق کے غزوات ان کی ایسی ہی چند کوششیں تھیں جن میں آنحضورؐ کی عسکری مہارت، عزم اور قائدانہ صلاحیت کی بناپر، محدود وسائل کے باوجود مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی۔
مدینہ میں گزرے آخری برسوں کے دوران میں مذاکرات کے حوالے سے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ اور پھر صلح حدیبیہ کا مرحلہ وہ موقع تھا جب آپؐ نے اپنی اس مہارت کا دانش مندانہ استعمال کرتے ہوئے کمالِ حکمت کے ساتھ صلح نامے کی شرائط طے کیں، جس کے نتیجے میں بالآخر کسی قسم کی خوں ریزی کے بغیر مکہ فتح کرلیا گیا۔ آپؐ کی قائدانہ مہارت اور اعلیٰ ظرفی کا نتیجہ عام معافی کی صورت میں سامنے آیا اور وہی لوگ جو کبھی آپؐ کی جان کے دشمن ہوا کرتے تھے، نہ صرف آپؐ کے زیراقتدار امن اور آزادی سے زندگیاں گزارنے لگے بلکہ آنے والے دنوں میں اسلام کی قوت بن کر اُبھرے۔
وقت کا بہترین استعمال (ٹائم مینجمنٹ)ایک ایسی مہارت ہے، جس سے انسان کے پیشہ ورانہ رویے اور قابلیت کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ حضوؐر مثالی ڈسپلن کا عملی مظاہرہ خود بھی کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی تاکید کرتے تھے کہ وہ اپنے وقت کو مثبت اور تعمیری سرگرمیوں پر صرف کریں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ وقت ایک دولت ہے، لیکن آپؐ کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو وقت خود زندگی ہے، اس لیے وقت ضائع کرنے کا مطلب زندگی کو ضائع کرنا ہے۔ وقت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روزانہ کی پانچ فرض نمازوں کے اوقات مخصوص ہیں اور مسلمانوں کو تاکیدکی گئی ہے کہ وہ ہر نماز اپنے مقررہ وقت کے اندر اندر پڑھ لیں۔ گھڑی یا الارم کلاک ایجاد ہونے سے پہلے کے اس زمانے میں آپؐ نے مسلمانوں کو سورج کے ذریعے نماز کے وقت کا تعین کرنا سکھایا، جب کہ آج مختلف آلات اور ایجادات کے باوجود ٹائم مینجمنٹ بہت سوں کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اسی طرح آپؐ نے فارغ وقت کو فضول گفتگو اور بے جا گپ شپ میں برباد کرنے کی بھی حوصلہ شکنی کی اور اس کے بامقصد استعمال پر زور دیا۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مضبوط ایمان رکھنے والا، کمزور ایمان رکھنے والے سے بہتر ہے۔ یہ اصول انسانی زندگی کے جسمانی، ذہنی اور پیشہ ورانہ پہلوئوں پر لاگو ہوتا ہے۔ قیادت کے لیے مضبوط اُمیدوار درحقیقت وہی ہوتا ہے جو ہرلحاظ سے اس کے لائق ہو۔ دُنیا میں کئی مضبوط اور قابل راہ نما آئے، لیکن ان میں ایسے افراد بہت کم تھے جنھوں نے اپنے جانشین تیار کیے ہوں۔ حالانکہ ایک طاقت ور اور لائق لیڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ قابل اور باصلاحیت افراد کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ اس کے جانے کے بعد کامیابی سے نظام چلا سکیں۔ اس لحاظ سے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک حقیقی مربی یعنی سرپرست تھے، جنھوں نے ہر زاویے سے صحابہ کرامؓ کے اخلاق اور کردار کی تربیت کی اور انھیں ذمہ داریاں سونپتے وقت ان کی شخصیت اور اہلیت کو مدنظر رکھا۔ آج ہیومن ریسورس سے تعلق رکھنے والے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ فرد کی کامیابی کے لیے فنی مہارت کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیت کا ہونا بھی لازم ہے۔ لیڈرشپ محض ایک اندازِ فکر نہیں بلکہ ایک صلاحیت ہے، جس کی جامع مثال آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک ہے۔
جب کبھی آپؐ کسی وجہ سے نماز کی امامت کروانے سے قاصر ہوتے تو یہ ذمہ داری حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حوالے کر دیتے تھے۔ پہلے امامت اور بعدازاں پہلے خلیفہ کے طور پر حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب اسی لیے کیا گیا کیوں کہ ان کی قابلیت اور اہلیت اس منصب کے لیے موزوں ترین تھیں۔ بطور سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ کئی معروں میں اپنی عسکری مہارت منوا چکے تھے، جس کی وجہ سے بہت سی جنگی مہمات ان کے سپرد کی گئیں حالانکہ اس پر چند بزرگ صحابہؓ کو اعتراض بھی ہوا۔ اسی طرح حضرت بلال حبشیؓ کی سُریلی آواز کی بنا پر انھیں اسلام کا پہلا مؤذن بننے کا شرف حاصل ہوا۔ پُراثراندازِ گفتگو اور سفارت کاری میں مہارت رکھنے والے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کو نمائندہ بناکر حبشہ بھیجا گیا۔ حضرت مصعب ؓ بن عمیر میں قدرتی طور پر معلّمانہ خصوصیات موجود تھیں، جس کی وجہ سے انھیں مدینہ بھیج دیا گیا تاکہ وہ وہاں پر لوگوں کو تعلیم دے سکیں۔ حضرت معاذؓ بن جبل میں معلّمانہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ اجتہاد اور علمی بصیرت جیسی خوبیاں پائی جاتی تھیں، اس لیے انھیں یمن کی طرف روانہ کردیا گیاتاکہ وہ وہاں پر دین اسلام کو پروان چڑھا سکیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی بہترین عسکری حکمت عملی کی وجہ سے جنگی معاملات میں ان سے مشورہ کیا جاتا تھا۔ حضرت حسانؓ بن ثابت عمدہ شاعری کیا کرتے تھے اور انھیں منبر رسولؐ سے بھی اپنے اشعار سنانے کا شرف حاصل ہوا۔
قابلیت کی بنیاد پر لوگوں کا انتخاب آپؐ کی قائدانہ خصوصیات کا ایک اہم پہلو ہے اور اس کی کئی مثالیں آپؐ کی زندگی میں موجود ہیں۔ اس ضمن میں آپؐ کی حضرت ابوذر غفاریؓ کو دی جانے والی ایک مشہور نصیحت ہے، جب اُنھوں نے آپؐ سے کوئی عہدہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپؐ نے ان کے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے ابوذرؓ! تم کمزور ہو اور یہ عہدہ عوام کی امانت ہے۔ جو انسان اس ذمہ داری اور اس سے وابستہ فرائض احسن طریقے سے پورے نہیں کرپائے گا اسے آخرت میں ندامت اُٹھانا پڑے گی‘‘ (مسلم)۔ ایک اور موقعے پر آپؐ نے حضرت ابوذرؓ سے کہا:’’مجھے تمھارے اندر کمزوری دکھائی دیتی ہے۔ کبھی کوئی عہدہ قبول نہ کرنا، چاہے اس میںتمھیں صرف دو لوگوں پر ہی نگران کیوں نہ بنایا جائے اور کبھی کسی یتیم کے مال کی رکھوالی کی ذمہ داری مت لینا‘‘۔ (مسلم)
آپؐ کی ان باتوں کا مقصد حضرت ابوذرؓ کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ یہ سمجھانا تھا کہ لیڈرشپ کے لیے صرف خلوص اور نیک نیتی کافی نہیں بلکہ اہلیت بھی انتہائی ضروری ہے۔
خلفائے راشدین بھی باصلاحیت لوگوں کی قدروقیمت سے بخوبی آگاہ تھے۔ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اپنی کوئی خواہش بیان کرو۔ ان کے ایک ساتھی نے کہا: میری خواہش ہے کہ یہ تمام جگہ سونے سے بھر جائے تاکہ میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر سکوں۔
ایک اور ساتھی بولے: میں چاہتا ہوں کہ یہ جگہ ہیرے جواہرات، موتیوں اور زیورات سے بھر جائے تاکہ میں انھیں اللہ کی راہ میں خیرات کرسکوں۔
اس پر حضرت عمرؓ نے کہا: میری خواہش ہے کہ یہ جگہ ابوعبیدہؓ بن الجراح، معاذؓ بن جبل، سالمؓ اور حذیفہؓ بن یمان جیسے لوگوں سے بھر جائے۔
پروفیسر ایڈیئر کا کہنا ہے کہ ایک قابل اور بااثر لیڈر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہرفرد کام کو مکمل طور پر سمجھ لے۔ یعنی وہ جانتا ہو کہ اس کام کو کرنے کا کیا مقصد ہے؟ اس کے ذریعے کیا حاصل ہوگا؟ اس میں کون سے کام کیے جائیں گے؟ اور ان سب چیزوں کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟ اسی طرح ٹیم میں توازن اور ہم آہنگی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ ایک باصلاحیت لیڈر اپنی ٹیم میں موجود لوگوں کا انفرادی طور پر بھی خیال رکھتا ہے۔ ایسا کرنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، جن میں لوگوں کی ذاتی ضروریات کا خیال رکھنا، معاوضے اور مواقع دینے میں انصاف سے کام لینا اور ان کی دل داری اور حوصلہ افزائی کی کوشش کرنا شامل ہیں۔ ایک عمل پسند قیادت ( Action Centred Leadership)کا یہ ماڈل ان تین عوامل کے توازن سے مل کر بنتا ہے:
کام
ٹیم
فرد
نتیجہ خیز ماڈل میں یہ تینوں عوامل ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اورکسی ایک کو نظرانداز کر دیا جائے تو باقی دونوں بھی اپنا کام صحیح طور پر انجام نہیں دے پاتے۔ اگر ٹیم کے کچھ افراد ناخوش ہوں تو مطلوبہ مقصد پوری طرح حاصل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ٹیم کا جوش اورلگن ہی برقرار رہتی ہے۔ اسی طرح صرف افراد کی خوشی عمدہ ٹیم ورک کی ضمانت نہیں ہوسکتی اور نہ صرف عمدہ ٹیم ورک کے ذریعے کام کی تکمیل کرنا ممکن ہے۔ لہٰذا ایک قابل لیڈر ایک ایسا نظام تیار کرتا ہے، جس کے تحت کاموں کی نگرانی کی جاسکے۔ ٹیم ممبران کے ساتھ فرداً فرداً ملاقاتوں کے ذریعے ان کی خوشی اور کارکردگی کا اطمینان کرلیا جائے، ٹیم ممبران میں اعتبار اور دوستانہ تعلقات قائم ہوں اور کسی قسم کے اختلافات پیدا ہونے کی صورت میں انھیں فوراً حل کرلیا جائے۔
جب اس ماڈل کے تینوں عوامل اپنی اپنی جگہ حرکت میں آجائیں اور نظام چل پڑے تو لیڈر پیچھے ہٹ کر لوگوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور کامیابیاں حاصل کرسکیں۔ لیڈر ہر چھوٹی چھوٹی بات کا انتظام سنبھالنے کے بجائے ایسے عوامل پیدا کرتا ہے کہ لوگ بآسانی اپنا کام انجام دے سکیں۔ایڈئیر کا کہنا ہے کہ لیڈر کے پیچھے ہٹ جانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس ماڈل کے تینوں عوامل سے بے خبر ہوجائے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ نظام کے چلنے سے باخبر رہے۔ ایڈئیر اس عمل کو ہیلی کاپٹر ویو (Helicopter View) کا نام دیتا ہے۔ اس طرز کی نگرانی کا مقصد یہ ہے کہ کام، فرد اور ٹیم کی کارکردگی پر نظررکھی جائے اور جہاں کوئی پہلو کمزور پڑتا نظر آئے تو نیچے آکر اس کی اصلاح کی جائے اور پھر واپس اُونچائی کی طرف پرواز کرلی جائے۔ایڈئیر کا کہنا ہے کہ اس لحاظ سے ایک قابل لیڈر کی زندگی ضرورت کے مطابق اُوپر اور نیچے آنے جانے کا نام ہے، جس کے ذریعے بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
حقیقی معنوں میں قابل انسان وہ ہےجو دوسرے باصلاحیت لوگوں سے مسابقت کرسکتا ہو۔ اس لحاظ سے اگر آج کی دُنیا میں مسلمانوں کی قابلیت اور صلاحیتوں کا جائزہ لیا جائے تو صورتِ حال زیادہ خوش آئند دکھائی نہیں دیتی۔ نبویؐ تعلیمات سے جنم لینے والی سائنسی ریسرچ، جدت اور ایجادات کی روایات صدیوں تک اعلیٰ پائے کے محققین پیدا کرتی رہیں، لیکن صرف ابن سینا، ابن الہشام اور الخوارزمی کے شان دار کارناموں کے گُن گانے سے ہماری موجودہ نااہلی اور بدعملیاں ختم نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے اندر ہمت اور قوتِ عمل کو جگانا ہوگا تاکہ ہم میں وہ اہلیت پیدا ہوسکے جو لیڈر شپ کا خاصہ ہے۔
علّامہ ابن القیم کا قول ہے:’’عزم وہ بیج ہے جس سے ساری عظمتیں جنم لیتی ہیں۔ عظیم لیڈر بھی اسی عزم کی بہ دولت وجود میں آتے ہیں‘‘۔
مستقل مزاجی سے نئی مہارتیں سیکھنے اور اپنے اندر بہتری لانے کی کوشش مسابقت کے عمل کو پروان چڑھاتی ہے۔ ابن ماجہ میں روایت درج ہے کہ حصولِ علم ہرمسلمان پر فرض ہے۔ اس فرمانِ رسولؐ میں ’ہرمسلمان‘ کہہ کر مرد اور عورت کی تفریق ختم کرتے ہوئے، بلاامتیاز دونوں کے لیے علم کا حصول لازم قرار دیا گیا ہے۔
علم انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ علم و حکمت کا حصول اسلام کے اعلیٰ مقاصد میں سے ایک ہے۔
کسی قوم کی سیاسی اور معاشی کامیابی کا براہ ِ راست تعلق وہاں پردی جانے والی تعلیم اور اس کی نوعیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ معاشرہ ہر شعبے کے لیے موزوں ترین افراد کا انتخاب اور ان کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ لہٰذا سب سے زیادہ باصلاحیت، ماہر اور قابل لوگ ایسے معاشروں ہی میں پائے جاتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں اس سے قریب ترین مثال اندلس (موجودہ اسپین اورپرتگال) کی ہے جب وہاں اسلامی سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ مگر آج عبرت کا مقام ہے کہ جدید دُنیا کا کوئی مسلمان اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا ہے۔ دُنیا کی سو بہترین یونی ورسٹیوں میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو کسی مسلمان ملک میں قائم کی گئی ہو۔ شاید ہی کوئی مسلم کمپنی یا برانڈ ایسا ہوگا جسے بین الاقوامی شہرت یا مقام حاصل ہوگا۔ گاڑی سے لے کر ہوائی جہاز اور موبائل فون سے لے کر لیپ ٹاپ تک ہمارے استعمال کی ہرچیز غیرمسلم ذرائع سے حاصل کردہ ہے۔
ٹکنالوجی کے میدان کا نقشہ بدل دینے والے الگورتھم (Algorithm)، کمپیوٹنگ (Computing) کی بنیاد ہیں، جنھوں نے آج ایپل (Apple) برانڈ کو دُنیا بھر میں مقبول کردیا ہے۔ حساب کا یہ کلیہ نویں صدی کے عظیم ترین محقق اور حساب دان الخوارزمی نے اپنی کتاب حساب الجبر والمقابل میں پیش کیا لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اس سے مسلمان کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔ اسی طرح طبّ کے میدان میں ابن سینا اور بصری علوم میں ابن الہشام کے کارنامے صدیوں تک جدید ایجادات کی بنیاد بنے رہے۔ آج بھی اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی بوڈلیئن (Bodleian) لائبریری میں عربی زبان میں لکھی گئی ایسی کئی تاریخی تصنیفات موجود ہیں۔ حصولِ علم سے بے پرواہی اور دانش و حکمت کے حصول میں دلچسپی نہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ آج دُنیا کے کامیاب ترین اداروں اور راہ نمائوں میں مسلمانوں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دُنیا کے کم و بیش تمام مشہور ترین برانڈز کا تعلق غیرمسلم دُنیا سے ہے۔ فوربز میگزین نے ایک دفعہ ایک مضمون شائع کیا تھا، جس کا عنوان تھا: ’وہ چارکمپنیاں جو ان ۴۷ کمپنیوں کو کنٹرول کرتی ہیں جو دُنیا کی ہر شے کی مالک ہیں‘۔ اس کی اَن گنت وجوہ ہوسکتی ہیں جیساکہ حکومتوں کے غیرجمہوری رویے، افراد یا کمپنیوں کے غیرقانونی ہتھکنڈے یا پھر بادشاہت کے خاتمے کے بعد ملکوں کی ترقی میں عدم توازن وغیرہ۔ لیکن وجوہ چاہے کچھ بھی ہوں غیرمسلم بہرحال اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ ترقی کے لیے نت نئی مہارتوں کا حصول اور اپنی قابلیت میں اضافہ ناگزیرہے۔ ہرمیدان میں کامیابی غیرمسلموں کے حصے میں آتی ہے کیوں کہ اب مسلمانوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ اور سیکھنے کی لگن نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف ماضی کی عظمتوں کے گُن گاتے رہنے سے حال کے چیلنجوں اور بدحالی کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ماضی کی طرح علم و حکمت کی جستجو اور اپنی اہلیت میں اضافے کی مسلسل کوشش کرکے ہی بین الاقوامی پیشہ ورانہ معیار کے حامل افراد تیار کیے جاسکتے ہیں، جو اپنے اداروں اور معاشرے کی ترقی میں بھرپور حصہ ڈال سکیں۔
ایک کامیاب انسان زندگی کے مختلف پہلوئوں پر دسترس رکھتا ہے اور مختلف شعبوں میں اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ عمومی دانائی اور حکمت کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے مخصوص شعبوں میں اعلیٰ درجے کی مہارت یا اسپیشلائزیشن حاصل کرنے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر ٹکنالوجی کے شعبے میں جدت اور تخلیقی صلاحیت بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اکائونٹنگ کے شعبے میں ان دونوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں بلکہ وہاں پر باریک بینی اور حساب کتاب میں حاضر دماغی زیادہ اہم ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ اپنی ٹیم سے بھرپور طریقے سے کام لینے کے لیے ضروری نہیں کہ لیڈر خود شعبے میں مکمل تکنیکی مہارت رکھتا ہو۔ لیڈر کے پاس علم اور ہنر دونوں ہونے چاہئیں، لیکن اس کا اصل ہنر لوگوں کی مہارتوں اور صلاحیتوں کو موزوں ترین طریقے سے استعمال کرکے ان کے بہترین نتائج حاصل کرنا ہے۔ ہرشعبے کو احسن طریقے سے سنبھالنا اور اس سے بہترین نتائج حاصل کرنا نبی کریمؐ کے قائدانہ کردار کی ایک اور اعلیٰ خصوصیت تھی، جس کی عملی مثالیں آپؐ کی زندگی کے ہر ہر پہلو میں دیکھی جاسکتی ہیں۔(نبیل الاعظمی کی کتاب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم: گیارہ قائدانہ اوصاف کا باب، انگریزی سے ترجمہ: رافعہ تحسین)
انسانی خصوصیات میں دیانت داری کا درجہ سب سے بلند ہے۔ ایک پُرخلوص، سچا اور ذمہ دارانہ طرزِعمل رکھنے والے ایمان دار انسان کی نیت اور اعمال ہر طرح کے کھوٹ سے پاک ہوتے ہیں۔ دُنیا کے کسی بھی خطّے کے رہنے والوں کی رائے لی جائے تو وہ اس بات پر متفق نظر آئیں گے کہ ایک اچھے لیڈر کا ایمان دار اور قابلِ اعتماد ہونا اس کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہے۔ یہ خوبی اللہ تعالیٰ کو کس قدر محبوب ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے القابات میں سے ’الامین‘ کا لقب آج بھی سب سے زیادہ مرکزیت رکھتا ہے۔ اس لقب اور لیڈرشپ کا تعلق محض اتفاق نہیں بلکہ یہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ سمت کی جانب ایک واضح اشارہ ہے۔
بلند کرداری، نیک فطرت اور اعلیٰ اخلاقیات ایک مثالی رہنما کی شخصیت کے لازمی اجزا ہیں۔ اسی لیے مثالی قیادت کا تجزیہ کرتے وقت خیر اور شر کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ دیانت داری کا مفہوم صرف ایمان داری تک محدود نہیں بلکہ اس میں ہرحال میں سچ کا ساتھ دینا، حالات و واقعات کی درستی کو یقینی بنانا اور ہرمعاملے کی بخوبی تکمیل کرنا بھی شامل ہے۔ انسانی زندگی کے تمام تر معاملات کا دارومدار اس اعتبار پر ہے۔ چنانچہ ایک دیانت دار انسان ہی معاشرے میں سب سے زیادہ معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نیک سیرت لیڈر کہلانے کا حق دار وہی شخص ہوسکتا ہے، جو دیانت دار اور معتبر ہو، اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا پاس دار ہو، اور اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہو کہ اسے دوسروں کے لیے ایک عملی نمونہ بن کر رہنا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ایک ایسا لیڈر ہے جو اپنے فرائض، قرآن اور سنت کی روشنی میں انجام دیتا ہے۔
ایمان داری، دیانت اور اخلاقیات کے بارے میں باتیں کرنا اور دوسروں میں ان خصوصیات کی موجودگی یا عدم موجودگی پر تبصرے کرنا بہت آسان کام ہے، لیکن کسی انسان کے کردار کی اصل پرکھ کرنا مقصود ہو تو اسے دولت ، شہرت، اقتدار یا وسائل فراہم کرکے دیکھنا چاہیے۔ انسانی معاشروں میں شر پھیلانے میں یہ تمام عوامل مرکزی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ ان کی موجودگی انسان کی نیت میں کھوٹ کو جنم دیتی ہے ، اور وہ اپنا اصل مقصد بھول جاتا ہے۔ اس بناپر اس کے کردار میں ایسی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں جن سے غیراخلاقی طرزِعمل اور بدعنوانی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ آج کی دُنیا کو درپیش بے شمار سیاسی، کاروباری، مالیاتی اور ذاتی اسیکنڈلز اس اخلاقی بحران کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
Institute of Business Ethicsکے ریکارڈ کے مطابق حالیہ برسوں میں سرکاری اور نجی، دونوں طرح کے اداروں پر لوگوں کے اعتبار میں ۱۰ فی صد کمی آئی ہے۔ عام افراد کی نسبت صاحب ِ اقتدار اور بااختیار افراد کےکردار کی خامیاں معاشرے کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہیں کیوں کہ ان کے نتیجے میں جنم لینے والی خرابیوں کے نتائج آنے والی نسلوں تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی کردار کی اسی کمزوری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہےجو بہترین اخلاق اور کردار رکھتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)
اسی طرح سنن ترمذی میں درج ایک حدیث کا مفہوم ہے: ’’لوگوں کی ایک بڑی تعداد تقویٰ اور اعلیٰ کردار کی بناپر جنّت کی حق دار ٹھیرے گی‘‘۔ تاہم، اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں کردار کی تربیت محض لفاظی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور اس کا کوئی باقاعدہ عملی اہتمام دیکھنے میں نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ صفت کتنی اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہی تاریخی حقیقت کافی ہے کہ الرسولؐ کا منصب سنبھالنے سے بھی پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ’الامین‘ کے لقب سے معروف تھے اور لوگ ان پر اعتبار کرتے تھے۔ اس کے پیچھے یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے اور انھیں کسی مقصد کی جانب راغب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسان اپنے بلند کردار اوراعلیٰ اخلاقی اقدار کی مدد سے ایک مضبوط ساکھ قائم کرے۔ ایک معتبر اور بااثر انسان کی بات توجہ سے سنی جاتی ہے اور لوگ اس پر سنجیدگی سے غور بھی کرتے ہیں۔ اقتدار اور اختیار کے حصول کے بعد انسان کا سب سے بڑا چیلنج اپنے کردار اور اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنا اوران پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے باز رہنا ہے۔ اگر شروع ہی سے ایک اعلیٰ مقصد کے حصول پر توجہ رکھتے ہوئے باقاعدہ اخلاقی تربیت اور کردار سازی پر توجہ رکھی جائے تو مستقبل میں لیڈرشپ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔
بہت سے لوگوں کی نظر میں اسلام محض ’اوامر اور نواہی‘ کے اصولوں کا ایک مجموعہ ہے اور بعض کے خیال میں قانون کا درجہ حکمرانی کے اصولوں اور اخلاقی اقدار سے بڑھ کر ہے لیکن یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قانون کا ہراصول کسی نہ کسی ضابطۂ اخلاق سے منسلک ہوتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے قانون اور اخلاقیات کا یہ امتزاج ہرسطح پر ہونا چاہیے اور اگر کوئی قانون اسلامی اصولوں سے متصادم ہو، تو اس کا نئے سرے سے جائزہ لے کر اس میں ضروری تبدیلیاں کرنا لازمی ہے۔
کردار سازی کےعمل کی ابتدا نیک نیتی اور خلوصِ دل سے ہوتی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘ (صحیح بخاری)لیکن یہ کیسے طے کیا جاسکتا ہے کہ کون سی نیت پر عمل کیا جائے اور کس کو نظرانداز کردیا جائے؟ سیّد سلیمان ندوی کے مطابق نیت کی اخلاقی درجہ بندی اس طرح سے کی جاسکتی ہے:’’نیت کی اس درجہ بندی میں مالی یا دُنیاوی نفع کا مقام سب سے نیچے رکھا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی خواہش رکھنا یا ان کے حصول کی کوشش کرنا غلط ہے۔ قرآن و سنت میں دُنیاوی خواہشات کی تکمیل نہ صرف حلال قرار دی گئی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اسی طرح ذہنی اور روحانی اطمینان اور جنّت کا حصول ہرمسلمان کی دلی آرزو ہے لیکن رضائے الٰہی کی نیت سے کیے جانے والے اعمال کا درجہ اُن سب سے اُونچا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان دُنیا کی ہرشے سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا سیکھ لیتا ہے تو اپنے محبوب کی خوشنودی اس کی سب سے بڑی خوشی بن جاتی ہے۔ پھر چاہے کوئی لیڈر ہو یا ایک عام فرد، رضائے الٰہی کی جستجو اس کے کردار میں بہترین اوصاف پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے‘‘۔
اُوپر بیان کی گئی حدیث کا مکمل متن حضرت عمر بن الخطابؓ کے الفاظ میں کچھ یوں ہے: ’’بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور تم میں سے ہر ایک کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی، لہٰذا جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی خاطر ہجرت کی، اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے ہے اور جس نے کسی دُنیاوی فائدے یا کسی عورت کی خاطر ہجرت کی اس کی ہجرت انھی چیزوں کے لیے ہے جن کی خاطر اس نے ہجرت کی‘‘ (صحیح بخاری)۔ یہ حدیث مکہ سے مدینہ ہجرت کے تناظر میں بیان ہوئی۔ جب آپؐ کے علم میں لایا گیا کہ ایک صحابی نے اس لیے ہجرت کی کہ وہ مدینہ میں شادی کے خواہش مند تھے۔ انصار اور مہاجرین کے مابین قائم ہونے والی مواخات میں مہاجرین کو امن و عافیت کے ساتھ ساتھ بہت سی دُنیاوی آسائشات بھی ملیں جس کی بناپر یہ ارشادِ نبویؐ سامنے آیا کہ جس کسی کی ہجرت کا مقصد دُنیاوی فوائد کا حصول تھا، اسے صرف وہی فوائد ملیں گے۔ لیکن جس نے خالص اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت اور ان کی اطاعت میں ہجرت کی اُسے دُنیاوی آسائشوں کے ساتھ ساتھ روحانی سکون بھی میسر ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ ان کے لیے سب سے بڑا اجر یہ ہوگا کہ روزِ حشر انھیں اللہ تعالیٰ کے دیدار کی سعادت نصیب ہوگی۔
اپنی نیت کو خالص رکھنا بظاہر جتنا آسان معلوم ہوتا ہے درحقیقت اتنا ہی کٹھن ہے۔ متعدد مسلمان دانش وروں نے اپنی تصانیف میں نیت کے اخلاقی پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ یحییٰ بن ابوکثیر کا کہنا ہے: ’’تمھاری نیت تمھارے عمل سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اس لیے پہلے اسے مکمل طور پر سمجھ لو۔ میری نیت میرے لیے سب سے مشکل چیز ثابت ہوئی کیوں کہ یہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے‘‘۔ اور ابن المبارک کے الفاظ میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: ’’ممکن ہے کہ ایک چھوٹا سا عمل اس کے پیچھے چھپی نیت کی وجہ سے عظیم قرار پائے اور ایک عظیم عمل اس کے پیچھے پوشیدہ نیت کی وجہ سے چھوٹا پڑ جائے‘‘۔
اپنے دل پر نیکی کو نقش کر لینا اور اسے ہر بُرائی سے پاک رکھنا نیک نیتی کا پہلا اور لازمی مرحلہ ہے۔ قرآن و سنت کی رُو سے کردار سازی میں معاون نیکیوں کی فہرست کچھ یوں بیان کی جاسکتی ہے:m احسان m صدق اور اخلاص m شرح صدر m عاجزی m عزّتِ نفس اور وقار mارادے کی پختگی / اولوالعزمی m شکرگزاری m عفو اور رحم دلی m صبرm عمدگی اور بلند نظری mاعتدال اور توازن m شجاعت (بہادری) m اطمینانِ قلب m شکرگزاری۔
اس فہرست میں درج نیکیاں ایسی خصوصیات رکھتی ہیں جو ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قائدانہ کردار میں بھی نظر آئیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کا انتخاب ایک ہی ذریعے یعنی قرآن و سنت سے کیا گیا ہے۔ تاہم، اسے سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ فہرست ہرانسان کے لیے ہے چاہے وہ لیڈر ہو یا نہ ہو، وہ بالخصوص لیڈرشپ کے نقطۂ نظر سے اہمیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح قرآن و سنت کی روشنی میں کردار کو کمزور کردینے والی بُرائیوں کی ایک ابتدائی فہرست کچھ اس طرح ہوگی:m تشدد m غرور، تکبر اور نمودو نمائش m تہمت لگانا m بزدلی m غصّے میں آپے سے باہر ہو جانا m فضول خرچی اور اخلاقی پستی m فساد برپا کرنا (پھیلانا) m جھوٹ اور فریب m دھوکا دہی اور غداری m لالچ m جابرانہ سلوک m بدگوئی اور بدزبانی m خود غرضی اور نرگسیت (صرف خود سے محبت کرنا)
فرد کی کردار سازی اور معاشرے کی فلاح کے زاویوں سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اخلاقیات اور شرعی احکام کی ہم آہنگی کیوں ضروری ہے۔ اخلاق فرد کے کردار کو خوب صورت بناتاہے ،جب کہ احکام معاشرتی حقوق و فرائض اور لوگوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔ اخلاقیات روح ہیں تو قوانین اس کا جسم۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے کے بغیر بےفائدہ اور بے معنی ہیں۔ ایک مثالی قائد کے لیے لازم ہے کہ وہ نیک سیرت اور باکردار ہو اور اسلامی قوانین کے مطابق لوگوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ اور ان کی فلاح کو یقینی بنائے۔ اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مقاصد الشریعہ یعنی اسلامی قوانین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک مختصر جائزہ لینا سودمند رہے گا۔
الجوینی اور الغزالی سے لے کر القرافی اور الشاطبی جیسے فاضل علما نے قرآن وسنت سے اسلامی شریعہ کے اعلیٰ مقاصد اخذ کیے جس کے نتیجے میں یہ پانچ ضروریات سامنے آئیں جن کا پورا ہونا انسان کی بقا کے لیے لازم ہے۔
اس لحاظ سے اسلامی شریعہ کی رُو سے انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور زندگی کی حفاظت کرے، اپنی سوچ اور شعور کو استعمال کرسکے۔ اپنے ذاتی مال یا جائیداد کو محفوظ رکھ سکے اور اپنی نسل کو آگے بڑھا سکے۔ انسانی زندگی کی ان پانچوں بنیادی ضروریات سے اگلا درجہ حاجات کا ہے جن کی اہمیت قدرے کم ہے، جیسے تجارت، شادی، ذرائع آمدورفت وغیرہ۔ یہ وہ ضروریات ہیں جو اہم تو ہیں لیکن ان کا پورا نہ ہونا زندگی اور موت کی کش مکش کا سبب نہیں بنتا۔ سب سے کم تر درجہ ’زیبائش‘ کا ہے جن کی موجودگی میں انسان اچھا محسوس کرتاہے جیسے قیمتی لباس، مہنگی کار، یا جدید ترین سمارٹ فون۔بطورِ راہ نما کسی بھی لیڈر کو ان پانچ بنیادی ضروریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو حاجات کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاہم، زیبائش کا معاملہ ہرانسان کی ذاتی صوابدید پر ہے۔
دورِحاضر کے کئی محققین نے محسوس کیا کہ اس فہرست میں عزّت، آزادی اور انصاف کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ تینوں چیزیں اسلامی تاریخ کا ایک واضح حصہ رہی ہیں اور شاید اسی لیے انھیں اس مستند فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا، تاہم آج جس طرح ہرسطح پر اور ہرمیدان میں عزّت، آزادی اور انصاف کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں، ان کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں اس فہرست میں شامل کرنا بے حد ضروری ہوچکا ہے۔ لہٰذا ایک نیک سیرت لیڈر کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اختیارات کےدائرے میں رہتے ہوئے ان آٹھوں ضروریات کی تکمیل کا اہتمام کرے۔
انفرادی کردار سازی اور معاشرتی فلاح کے لیے ان تمام ضروریات سے واقفیت رکھنا اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ نبویؐ طرزِ قیادت کے مطابق دیانت داری سے زندگی بسر کی جاسکے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ دیانت داری کی جیتی جاگتی عملی مثال ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی آپؐ اپنی انتہا درجے کی ایمان داری اور اعلیٰ ترین اخلاق کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ نبوتؐ سے پہلے ہی آپؐ کا لقب ’الامین‘ پڑچکا تھا اور نبوتؐ ملنے کے بعد بھی آپؐ کے بدترین دشمن تک آپؐ کے اس وصف کے معترف تھے اور اپنی قیمتی اشیاء بطور امانت آپؐ کے پاس رکھواتے تھے۔ نوعمر ہونے کے باوجود آپؐ اس قدر قابل اور بااعتبار شخص تھے کہ ان خصوصیات کی بنا پر حضرت خدیجہؓ نے اپنے کاروباری معاملات آپؐ کے سپرد کیے اور بعد میں آپؐ کے بہترین اخلاق اور کردار سے متاثر ہوکر آپؐ سے نکاح کیا۔ اس نمایاں ترین صفت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر ایمان داری اور دیانت کی تاکید کی گئی ہے:
قرآن کی طویل ترین آیت سورئہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۲ میں لین دین کو ہرقسم کے شک سے بالاتر رکھنے کے لیے مختلف طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ مال و دولت انسان کے کردار کے لیے ایک بڑی آزمایش کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن خرید وفروخت اور لین دین کے معاملات میں مکمل پروفیشنلزم یعنی تمام شرائط کو تحریری شکل دینے اور اس پر گواہ مقرر کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نبی پاکؐ نے کچھ اس طرح سے مزید واضح کیا ہے: ’’تم میں سے جس کسی کو بااختیار عہدے پر مقرر کیا جائے اور وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی معمولی کوئی شے چھپائے تو یہ (عوامی فنڈ کا) ناجائز استعمال ہوگا اور روزِ قیامت اس کی جواب دہی ہوگی۔ (صحیح مسلم)
صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ منافق کی تین خصوصیات ہیں:جب بولے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو توڑ ڈالے، اور جب اس پر اعتبار کیا جائے تو فریب دے۔
غزوئہ حنین ایک انتہائی دشوار موقع تھا جہاں پر آپؐ کی قائدانہ خصوصیات نمایاں طور پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک ہی وقت میں مکمل ایمان داری کے ساتھ الگ الگ فریقین کے مفادات کا تحفظ آپؐ کی لیڈرشپ کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ لیڈر چائے کی پتی کی طرح ہوتا ہے جس کے معیار کا اندازہ اسے کھولتے پانی میں ڈال کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ حنین کا معرکہ ایسا ہی کھولتا پانی تھا جہاں یہ واضح ہوگیا کہ دنیا کے عظیم ترین لیڈر کا خطاب صرف آپؐ کے لیے ہی کیوں مخصوص ہے۔
فتح مکہ کے بعد کچھ پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی سے حسد میں مبتلا ہوگئے۔ ان میں سب سے پیش پیش بنوہوازن تھے جنھوں نے تقریباً چار ہزار کی فوج لے کر مسلمانوں پر چڑھائی کردی۔ طائف کے نزدیک حنین کی وادی میں برپا ہونے والے اس معرکے میں مسلمانوں کی فوج تقریباً ۱۲ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ یہ صورتِ حال غزوئہ بدر کے عین برعکس تھی، جہاں مسلمان تعداد میں انتہائی کم ہونے کے باوجود فتح یاب رہے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ کئی مسلمان حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوگئے اور اسے ایک آسان معرکہ سمجھ بیٹھے۔ جب مسلمان فوج مورچہ زن ہونے لگی تو پہلے سے گھات میں بیٹھے دشمن نے ان پر اچانک شدید حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمان فوج میں افراتفری پھیل گئی اور ان میں سے کئی افراد آپؐ کو خطرے میں چھوڑ کر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ ایسے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے کچھ ثابت قدم ساتھی میدان میں جمے رہے اور انھوں نے فرار ہونے والوں کو واپس بلایا۔ صفوں کو نئے سرے سے منظم کیا گیا اور بالآخر بنوہوازن کو شکست ہوئی۔ اس غزوہ کے دوران میں میدان چھوڑ کر فرار ہوجانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورئہ توبہ میں یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ کے بھروسے پر ہر صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار رہیں، اور فتح یا شکست کے دُنیاوی معیار سے ہٹ کر آخرت میں کامیابی کو اپنا نصب العین بنا لیں۔
اس غزوہ کے دوران میں آں حضرتؐ کی عظیم الشان قائدانہ صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب جنگ جیسی مشکل صورتِ حال میں بھی آپؐ نے مختلف فریقین اور ان کے جذبات کو قابو میں رکھا۔ اس کی مثال بنوہوازن کی جنگی قیدی شیما بنت ِ حلیمہ کا واقعہ ہے جو آپؐ کی رضاعی بہن تھیں۔ابتدا میں ان کے دعوے پر یقین نہیں کیا گیا جس پر انھوں نے آپؐ سے بہ نفس نفیس ملنے کی درخواست کی اور اس ملاقات میں بطورِ ثبوت اپنا بازو دکھایا جس پر بچپن میں آپؐ کے کاٹنے سے نشان پڑگیا تھا۔ آپؐ نے اس نشان کو پہچان کر انتہائی گرم جوشی سے شیما کا استقبال کیا، ان کے بیٹھنے کے لیے اپنا جبہ زمین پر بچھا دیا اور بہت دیر تک ان کے ساتھ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں ایسی گرم جوشی، اس درجہ صبر اور جذبات کو متوازن رکھنے کی ایسی مثال کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔
جنگوں کے اختتام پر مالِ غنیمت اور جنگی قیدیوں پر فاتح فوج کا حق ہوتا تھا۔ ایسے میں جب ہوازن کے شکست خوردہ قیدیوں نے رحم کی اپیل کی تو آپ ؐ نے کمال دانش مندی سے کام لے کر مسلمانوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو نبیؐ کے حضور پیش ہوکر ان قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے اپنا حق معاف کرسکتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں بارگاہِ رسالتؐ سے اپنے عمل کی ستائش پانا بہت سے مسلمانوں کے لیے ان کی زندگیوں کی سب سے بڑی سعادت تھی۔ اس طرح آپؐ کی حکمت ِ عملی کی وجہ سے بہت سے جنگی قیدیوںکو رہائی مل گئی اور باقی رہ جانے والوں کے بدلے میں اُونٹ اور بکریاں دے کران کے دعوے داروں کو مطمئن کر دیا گیا۔ بطورِ راہ نما آپؐ کی دانائی، ایمان داری اور انصاف پر مبنی یہ طریقہ فریقین کے لیے اس معاملے کا بہترین حل ثابت ہوا۔
تاہم، اس کے باوجود انصار میں سے کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ انھیں نہ تو کوئی شرف ملا اور نہ مالِ غنیمت ہی۔ آپؐ تک یہ بات پہنچی تو عام راہ نمائوں کی طرح ان افراد کو نظرانداز کرنے کے بجائے آپؐ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کی ناخوشی کی وجہ دریافت کی۔ کافی ہچکچاہٹ کے بعد ان اصحاب نے گلہ کیا کہ ان کی بے شمار قربانیوں کے باوجود انھیں نہ تو آپؐ کے حضور عزّت افزائی نصیب ہوئی اور نہ مالِ غنیمت میں حصہ ملا۔ اس پر آپؐ نے اپنی روحانی بصیرت اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے انھیں یاد دلایا کہ باقی سب لوگ تو اُونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن انصاراللہ کے ان محبوب لوگوں میں سے ہیں جن کے حصے میں اللہ اور اس کا رسولؐ آئے۔ اس حقیقت کا احساس ہوا تو انصار کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے اور وہ اپنی بدگمانی پر شرمسار ہوئے۔ آپؐ کی ایسی معاملہ فہمی اور ایمان دارانہ طرزِ عمل نے بطورِ راہ نما آپؐ کے اصحاب کی شخصیت پر ایسے نقوش چھوڑے جن کی بدولت آنے والے دنوں میں مسلمانوں نے حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہ کر اپنی بے مثال سیاسی بصیرت کی بدولت اپنے بدترین دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا۔ اعلیٰ صفات کا عملی نمونہ غزوئہ حُنین اور صلح حدیبیہ کے مواقع پر آپؐ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی میں نظر آتا ہے لیکن آج کے دور میں ان خصوصیات پر پورا اُترنے والے لیڈروں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ انھیں انگلیوں پر گناجاسکتا ہے۔
دانش مندی کے حوالے سے مسلمان لیڈروں کا ذکر کیا جائے تواس فہرست میں بہت سے ایسے دیگر افراد کا نام شامل کیا جاسکتا ہے جنھوں نے سیاست اور معاشرتی بہبود کے میدانوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان بااصول اور اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی شخصیت اور انھیں پیش آنے والے حالات و واقعات کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ انھوں نے مشکل ترین صورتِ حال میں بھی دیانت داری اور اصول پسندی کو کس طرح ہرشے پر مقدم رکھا۔ کچھ ایسے راہ نما بھی ہیں جن کی شہرت تو زیادہ نہیں رہی لیکن روز مرہ زندگی میں ان کا دیانت دارانہ طرزِعمل بہترین لیڈرشپ کی عکاسی کرتا تھا۔
دانش مند افراد میں دیانت داری اور شائستگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کا ہونا بھی اَزحد ضروری ہے۔ اگر اچھائی یا نیکی انسان کی اپنی ذات تک محدود رہے تو بدی کی طاقتوں کو پھلنے پھولنے کی آزادی مل جاتی ہے۔ نیکی کوعام کرنے کے لیے لازمی ہے کہ نیک لوگ دوسروں کو متاثر کرنے کا فن جانتے ہوں۔ گفتگو کا فن اور دوسروں کو قائل کرنے کی مہارت موجود نہ ہو تو کوئی بھی تحریک چند احتجاجی مظاہروں یا دوچار جلسوں سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے مصنف ڈیل کارنیگی کی مشہور کتاب ’’لوگوں کو متاثر کرنے اور دوست بنانے کا فن‘‘ میں کچھ منفرد طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔
کارنیگی کا نظریہ ہے کہ لوگوں کواپنی بات سننے پر آمادہ کرنے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے اخلاقی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک باقاعدہ طریقے سے لوگوں میں گھل مل جائے، متاثر کن اعمال اور رویوں سے اپنی ساکھ قائم کرے، ان کے دُکھ سُکھ میں دل سے شریک ہو، اور ان کے مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کرے۔ اس طرح کچھ وقت گزرنے پر فریقین میں باہمی احترام اور اعتماد کا رشتہ قائم ہوجائے گا اور لوگ نہ صرف اس کی باتوں کو غور سے سنیں گے بلکہ ان کی اہمیت کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران میں ابراہام لنکن نے عوام کو متحد کرنے کے لیے یہی طرزِعمل اپنایا تھا۔ لنکن نے اپنے خطاب میں کہا: ’’ہم دشمن نہیں دوست ہیں، ہم دشمن ہو ہی نہیں سکتے۔ ہمارے جذبات نے ہماری آپس کی محبت کو تھوڑا سرد کردیاہے، لیکن یہ اسے ختم نہیں کرسکتے کیوں کہ محبت ہماری فطرت کا حسین ترین پہلو ہے۔ جب بھی یادوں کے ساز چھیڑیں گے یہ محبت پھر سے جاگ اُٹھے گی کیوں کہ اسے تو جاگنا ہی ہے۔
حقیقی معنوں میں بااثر لیڈر وہ ہے جس کے مخالفین بھی اس کی عزّت کرتے ہوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہی احترام ان کی مخالفت کو حمایت میں بدل دیتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں جنوبی افریقہ کے لیڈر نیلسن منڈیلا گفتگو کے ذریعے معاملات حل کرنے کی بہترین صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ مذاکرات میں مصالحانہ اور لچک دار انداز اختیار کرنے کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ مذاکرات کے دوران میں آپ کو سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس بات کی مزید وضاحت ان کے قریبی ساتھی ابراہیم رسول نے کچھ اس طرح کی ہے: سمجھوتہ اپنے اصولوں کی قربانی کا نہیں بلکہ ایک عظیم تر مقصد کے حصول کے لیے حقیقت پسندانہ طریقے اپنانے کا نام ہے۔
خیروشر کی کش مکش انسانی زندگی کا لازمی جز ہے اور ایک لیڈر کے لیے اکثر ایسی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے، جب اسے نیکی یا بدی میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال میں عقل مند راہ نما کس طرح کی حکمت عملی اپنا سکتے ہیں؟ یہ سمجھنے کے لیے دوکیس اسٹڈیز کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
جواب: قانون کے مطابق کم سے کم جتنے مواقع دیئے جانے چاہییں، ان سے زیادہ مواقع فراہم کریں تاکہ آپ کی دیانت داری ہر شک و شبہ سے بالاتر ہوجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ کارکردگی کا معیار برقرار رکھنے کے لیے اگرآگے چل کر انھیں ملازمت سے برخاست کرنا ہی پڑجائے تو انھیں یہ احساس ہو کہ دیگر جگہوں کی نسبت یہاں پر انھیں زیادہ مواقع دیئے گئے۔
جواب :معاملات میں شفافیت برقرار رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ آپ اپنے ڈونرز کی رقم رشوت کے لیے استعمال کرنے سے پہلے انھیں تمام معاملات سے آگاہ کرکے ان سے مشورہ لینے کے پابند ہیں۔ یوں بھی اس شیطانی چکّر کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اسے روکنا ضروری ہے۔ مظلوم افراد تک پہنچنے کے لیے فوج کا مطالبہ مانتے رہیں گے تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اس لیے اس کے توڑ کے لیے راستے تلاش کرنا اور اس دوران میں مکمل دیانت داری اور شفافیت برقرار رکھنا ضروری ہے۔
کارنیل یونی ورسٹی میں ’کاروباری اخلاقیات‘ (Business Ethics) کے پروفیسر ڈینا ریڈکلف نے اس کش مکش کا سامنا کرنے والے لیڈروں کے لیے یہ دل چسپ سوال نامہ تیار کیا ہے:
کسی عمل کے ممکنہ نتائج کیا ہوسکتے ہیں اور مختلف فریقین کے لیے اس کے کیا متبادل ہیں؟
ان ممکنہ نتائج کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ کیا یہ صورتِ حال فریقین کی ذمہ داریوں میں اختلاف پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے، یعنی کیا یہ کش مکش کوئی منطقی وجود رکھتی ہے یا محض ایک ذہنی اختراع ہے؟
اگر یہ کش مکش حقیقی ہے تو کیا اس کے حل کے لیے اُٹھائے جانے والے اقدامات ادارے کے اصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں؟
جو اقدامات ان اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے کیا ان میں سے کوئی ایک قدم ایسا ہے جو آگے چل کر ادارے کے مشن کو پورا کرنے میں مفید ثابت ہوسکے؟
اگر تمام اقدامات ادارے کے اصولوں سے متصادم ہوں یا ان اصولوں کے مؤثر ہونے میں رکاوٹ ہوں تو ان میں سے کون سے اقدامات کا فریقین کے سامنے سرعام دفاع کرنا ممکن ہے؟
اصولی نوعیت کے فیصلے کرنے کے لیے یہ چیک لسٹ بہت مفید ہے، لیکن ممکن ہے کہ جن افراد میں روحانیت کا عنصر زیادہ ہو وہ اس میں عوامل کے سامنے جواب دہی کے ساتھ ساتھ اللہ کے سامنے جواب دہی کا پہلو بھی شامل کرنا چاہیں گے۔ اس لیے ان افرادکو ذہن میں رکھتے ہوئے اخلاقی اعتبار سے درست فیصلے کا تعین صرف عوام کے سامنے جواب دہ ہونے کے لیے نہیں بلکہ مذہبی نقطۂ نظر سے اس سوال کو ذہن میں رکھ کر کیا جاتا ہے کہ ’ہماراربّ ہم سے کیا چاہتا ہے؟‘
دانش مندی کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ:
مسلم دنیا پرنظرڈالی جائے تو کچھ قومیں مادی اعتبار سے ترقی کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں، لیکن مجموعی تصویر بہت تشویش ناک اورمایوس کن ہے۔سوال یہ ہے کہ ’اس صورت حال کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے؟‘ جواب ہے :’اچھی قیادت سے‘۔
ہم دنیامیں آج کس قسم کی قیادت چاہتے ہیں؟اور اتنے سارے قائدین ہماری توقعات پر کیوں پورے نہیں اُترتے؟
دنیابھر میں کمزور قیادت کی ناکامیوں کے پیش نظر ان سوالات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ابراہم لنکن [م:۱۸۶۵ء]کا معروف قول ہےکہ ’’ مشکل تو عموماً تمام لوگ برداشت کرسکتے ہیں، لیکن اگرآپ کسی فرد کے کردارکو آزماناچاہتے ہیں تواسے اختیارات دے دیں۔‘‘ اختیارات انسان پر جس طرح اثر اندازہوتے ہیں کوئی اورچیز اس طرح نہیں ہوتی۔اس میں، انسانوں کوان کے رویوں اور ان کے افعال کو بدل دینے والاایساحیران کُن داعیہ ہے،جس سے ان کے کردار کے بارے میں پتا چلایا جاسکتاہے۔اختیارات کمزورقیادت کومکمل طور پر بدعنوان بنادیتے ہیں۔ قیادت اور اختیارات کے طلب گارایسے کمزورکردارکے حامل لوگوں کی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی ۔
اختیاربہت سی شکلیں تبدیل کرسکتاہےاوریہ مختلف صورتوں میں نمودار ہوسکتا ہے۔ اختیار صرف سیاسی اورتنظیمی ہی نہیں بلکہ یہ معاشی،سماجی اور مذہبی بھی ہوسکتاہے۔ان میں سے ہرقسم میں ہمارے کردارکوآزمانے کاسامان موجودہے (اگرا ٓپ کا یہ خیال ہے کہ مذہبی اختیارسے کردارکو نہیں آزمایاجاتاتویہ آپ کی خام خیالی ہے)۔
اگر کوئی فرد کسی دیانت دار شخص کو اپنا رہبر قرار دے تو سوال پیداہوتاہے کہ کتنا دیانت دار؟ اس سوال کے جواب میں بندہ چکراکر رہ جاتاہے کہ ’کیا ہر فردکی دیانت داری کا پیمانہ الگ ہوگا؟ ‘
اچھی قیادت کی ضرورت صرف مسلمانوں ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہاں مارٹن لوتھرکنگ [م: ۱۹۶۸ء]کی وہ بات درست معلوم ہوتی ہے، جس میں اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی نے انسان اور اس کی روح کوپیچھے چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے جہاں ایک میزائل کا اپنے ہدف پر پہنچنا یقینی ہے، وہاں ایک انسان کا صراطِ مستقیم پر رہنا غیریقینی ہے‘۔
ہم ایک ایسے دورمیں رہ رہے ہیں، جہاں مشرق ہو یا مغرب، دنیاکوواضح طورپر بہتر قیادت کی طلب ہے۔کرپٹ اور ظالم قیادت کےخلاف بےچینی، قائدین اورتنظیموں پرعدم اعتماد، بڑے پیمانے پر میڈیاپر عدم اعتماد معاشرے میں بالعموم واضح طورپر نظرآرہاہے۔
اسلام نے صرف عمومی اورمعاشی دیانت داری پر زور نہیں دیا بلکہ معاہدوں کی پاس داری کوبھی بہت اہمیت دی ہے۔ قرآن کی سب سے بڑی سورۃ البقرہ کی آیت ۲۸۲، اسی موضوع پرہے۔اہم بات یہ ہے کہ کرپشن کا تعلق: ناانصافی،استحصال ،دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اورمختلف سانحات میں انسانی جانوں کے ضیاع سے ہے۔یہ معاملہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بدعنوان ماحول میں مقاصد ِشریعہ پرسمجھوتا کیاجاتاہے۔حالانکہ مقاصدِ شریعہ(انسانی جان، ذہانت، آزادی، عزّت و احترام اور عدل وانصاف) کی حفاظت ہرحال میں ہونی چاہیے۔
دنیاکواس خرابی کا سامنا اس وجہ سے نہیں ہے کہ اچھے قائد کی خصوصیات کے بارے میں معلومات اورحقائق ناپید ہیں۔دنیا میں قائدانہ اوصاف کے فروغ کے پروفیسرجان اڈیر (John Adair) نے جب اس وقت کےبرطانوی وزیراعظم جم کلاہان سے پوچھاکہ ’’آپ نے قائدانہ اوصاف کا مطالعہ کیا ہے؟‘‘ ان کاجواب تھا:’’میں نے نہیں کیا،اگرمیں کرچکاہوتاتوشایدمیں ایک بہتر قائد ثابت ہوتا‘‘۔
اگرہم نےبہترمعاشرے ،تنظیمیں اوربہتردنیاتشکیل دینی ہے، تو موجودہ اور آنے والے وقتوں کے لیےسماجی ،سیاسی اورتنظیمی اورہرسطح پر تعلیم وتربیت کے ذریعےاچھی قیادت کی تیاری اور آبیاری ایک اہم اورفوری ضرورت ہے۔لیڈرشپ کی بہت ساری صفات میں سے سب سے اہم خوبی تعلیم ازحد ضروری ہے، پھر دیانت داری اوراصولوں کی پاس داری ہے،جوکسی فرد کے کردارمیں اخلاقیات کوجمع کرتی ہیں۔
ابراہام لنکن جیسے معروف لیڈرقیادت کے میدان میں قدم رکھنے والے کےلیے دیانت داری کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔اس صفت کے حامل لیڈروں کی تعد ادبہت قلیل ہے۔تاہم حالیہ تاریخ میں دیانت داری اوراصولوں کی پاس داری کی بدولت عظمت حاصل کرنے والوں کی بھی ایک تعداد ہے۔
لیکن جب ہم تمام زمانوں کے لیے عظیم ترین قائدین کی بات کرتے ہیں تو نہ صرف دنیابھر کے مسلمانوں کے سامنے بلکہ غیرمسلم محققین اورمؤرخین کے سامنے بھی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام سب سے پہلے آئے گا۔مائیکل ہارٹ اس کی بہترین مثال ہے جس نے دنیاکے ۱۰۰عظیم ترین قائدین کی تاریخ مرتب کرتے وقت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو سرفہرست تسلیم کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک قیادت کی کتنی اہمیت تھی ۔آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہرایک چرواہا ہے اورہر ایک سے اپنےریوڑ کے بارے میں پوچھاجائے گا‘‘ (بخاری ، مسلم)۔ خود ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ابتدائی مراحل میں گلہ بانی کی تھی ۔دراصل گلہ بانی پیغمبروںؑ کوانسانوں کی قیادت کےلیے تربیت کاذریعہ تھی۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہےکہ ہم سب کسی نہ کسی صورت میں چرواہے ہیں۔
لیڈرشپ کی اہمیت کے بارے میں ایک اورحدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تین آدمی سفرکررہے ہوں توان کواپنے میں سے ایک کو امیربناناچاہیے‘‘(ابوداؤد)۔ اتنے مختصر گروہ کے لیے قائد کاتعین بظاہر کتناحیران کن ہے ۔ذہن میں یہ بات آسکتی ہےکہ اتنے چھوٹےسے گروہ کےلیے امیرکی آخر کیاضرورت ہے؟لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تعلیمات امیر کےتعین پرزوردیتےہیں۔
یہاں پر یہ جاننا اَزحد ضروری ہے کہ لیڈرکس قسم کاہوناچاہیے؟حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی قائد کی کون سی خصوصیات بیان فرمائی ہیں؟
سیرت اور دنیابھر میں مختلف محققین کے کاموں، بالخصوص دنیا میں لیڈرشپ کے پروفیسر جان اڈیر (جنھوں نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت پر ۲۰۱۱ءمیں کتاب لکھی) کے تجزیے کے بعد ہم نے پچاس پیغمبرانہ اوصاف کی ایک فہرست بنائی اور پھر کئی اوصاف کوباہم ملانے کے بعد ہم نے گیارہ انتہائی اہم اورنہایت ضروری اوصاف کی ایک جامع فہرست مرتّب کردی ہے:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے درج بالااوصاف کی بے شمار مثالیں تلاش کرنا کوئی مشکل نہیں۔
ہر ایک کےساتھ معاملات میں تسلسل کے ساتھ سچائی اور دیانت داری کی بدولت کم عمری ہی میں مکہ کے لوگ آپؐ کو صادق و امین تسلیم کرنے لگے۔حجراسود کی تنصیب کے تنازعے کے موقعے پر جب آپؐ حرم میں تشریف لائے،اس وقت لوگوں نے کہا: ’’الامین آگئے ہیں، یہی ہمارے تنازعے کاتصفیہ کریں گے‘‘۔پھر آپؐ کی حکیمانہ بصیرت صلح حدیبیہ کے موقعے پرسامنے آئی، جب آپؐ نے مشرکین مکہ کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پردستخط کیے، جس پروقتی طورپر آپ کے اپنے پیروکار مایوسی کا شکار ہوئے لیکن یہی معاہدہ بعد میں فتح مکہ کا ذریعہ بنا۔
آپؐ کی شجاعت وبہادری جنگ اورہرمشکل گھڑی میں سامنے آئی۔مدنی دور کی بات ہے، ایک دفعہ رات کوصحابہ کرامؓ ایک خوفناک آوازسے جاگ اُٹھے۔ لوگ جمع ہوکر اُس طرف چل پڑے جس طرف سے آواز آئی تھی۔ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے، جو آواز کی طرف سب سے پہلے تشریف لے گئے تھے۔ آپ ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار تھے جو ننگی پیٹھ تھا اور تلوار آپؐ کے زیب تن تھی اور آپؐ فرما رہے تھے: گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب شجاعت النبیؐ، حدیث: ۴۳۶۷)
آپؐ قرآنی خصوصیات کے مطابق قوی بھی تھے اورامین بھی۔ آپؐ کی قوت، صلاحیت، شفقت ،محبت ،بصیرت اوررہنمائی پر ہر کسی کو اعتماد تھا۔آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اچھے لوگ زیادہ باصلاحیت نہیں ہوتے،اسی طرح زیادہ باصلاحیت لوگ ہمیشہ اچھے لوگ نہیں ہوتے۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں رول ماڈل تھے۔
آپؐ ایک بہترین مبلغ تھے۔ پیدایشی طورپر جوامع الکلم، یعنی کم الفاظ میں بڑی بات مؤثر اندازمیں کرنے والے تھے۔ آپؐ ایک ماہر جنگجو ،ایک بہترین گھڑسواراورتعمیرات اوراپنے کپڑے کی چھوٹی موٹی سلائی کرنے جیسی روزمرہ کی مہارتوں سےلیس تھے۔ سراپا عدل تھے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور یہودی کے درمیان کسی معاملے پر تنازع ہوا ۔آپؐ نے شہادتوں کی روشنی میں یہودی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اسی طرح آپؐ نے ان صحابہ کرامؓ کوذمہ داری دینے سے انکار کیا، جن سے ناانصافی کاخدشہ تھا۔
آپؐ پوری توجہ سے فیصلہ کرتے،اور اس کےبعد اس پر جلدازجلد عمل درآمدکویقینی بناتے۔ آپؐ جہاں اہم امور میں شوریٰ کےمشورے سے فیصلے کرتے،وہاں آپؐ یہ بھی جانتے تھے کہ کون ساوقت باہم مشورے کے لیے ہے اور کون ساوقت عمل کےلیے۔ایک موقعے پر آپ نے اسلحہ اٹھالیا اور فوجی مہم کےلیے تیارہوگئے۔ایک صحابی آئے، اور انھوں نے مہم کےمنصوبے پر سوال اٹھایا۔ آپؐ نے صحابی سے فرمایا:’’جب ایک دفعہ پیغمبر ہتھیاراٹھالے پھر پیچھے مڑنے کی گنجایش نہیں رہتی‘‘۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا: ’’قوم کاسردار قوم کاخادم ہوتاہے‘‘۔ آپؐ نے مسجد نبویؐ کی تعمیرسے لے کرجنگ کے دوران میں خندق کی کھدائی تک ، زندگی بھر اس کاعملی نمونہ پیش کیا۔آپؐ ذاتی مفادات پر اعلیٰ مقاصد کوترجیح دینے والے قائد تھے۔ا س کے ساتھ آپؐ حددرجہ منکسرالمزاج تھے۔آپؐ کے لیے کوئی تخت وتاج نہ تھا۔آپؐ عام لوگوں کے درمیان اس طریقے سے بیٹھتے کہ دُورسے آنے والےاجنبی پہلی نظرمیں آپ کو پہچان نہ سکتے۔
آپ ؐحکمت ودانائی سے کام لیتےتھے۔ایک دفعہ بدومسجدنبوی کےصحن میں بیٹھ کرپیشاب کرنے لگا۔ صحابہ کرامؓ کو اس بات پرغصّہ آیا اور وہ مارنے کے لیے دوڑپڑے۔آپؐ نے نہ صرف ان کوبدوکومارنے سے منع کیابلکہ انھیں بتایاکہ اس کوپیشاب کرنے دیں۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو بتایا کہ یہ غصّہ کرنے اورمارنے کاموقع نہیں بلکہ اس کوآداب سکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بدومسجد کے آداب سے ناواقف ہے ۔ یہ آپ ؐکی حکمت ودانائی تھی۔
آپؐ کاایک وصف غیرمعمولی صبر تھا۔۱۳برسوں تک آپ نے مشرکین مکہ کے مظالم کو برداشت کیا۔جس میں آپؐ کے ساتھیوں کومارپیٹ،تشدداوربعض اوقات قتل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ نمازپڑھتے ہوئے آپؐ پرغلاظت بھری اونٹ کی اوجھڑی پھینک دی گئی۔طائف کی گلیوں میں آپؐ کو پتھروں سے ماراگیاکہ آپؐ کاپوراجسم لہولہان ہوگیا اورجوتے خون سے تر ہوگئے۔ اس کے باوجود آپؐ نے صبرکادامن تھامےرکھا۔ آپؐ کےصبروتحمل نےآپؐ کے ساتھیوں کو بھی طاقت دی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آسانی عطافرمائی ۔
’جذباتی ذہانت‘ سے مراد اپنے جذبات کواس طرح منظم کرناہے، جس کی مددسے دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات استوارکیے جاسکیں۔آپؐ نے فرمایا کہ ’مسکراناصدقہ ہے‘۔اس سے آپؐ نےیہ بات سکھائی کہ مثبت جذبات کے ذریعے سےخودبھی خوش رہناہے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنا ہے۔اس سے اگلا درجہ روحانی ذہانت ہے۔ جس کے ذریعے سے اپنااور دوسروں کا رُخ منزل مراد کی طرف رکھنا ہے۔ اس کے ذریعے سے اقدارکی قوت کوزیادہ سے زیادہ استعمال کرکے مقصدیت پیدا کرنا اور لوگوں پر اثرانداز ہوناہے۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے مقصداندازمیں زندگی گزارنے سے منع فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو عظمت کی طرف بلایا۔ایک دفعہ ایک عرب سردارثمامہ ابن اثل گرفتارہوکر آپؐ کے سامنے پیش ہوا۔ اس پر بے شمارمسلمانوں کے قتل کی فردجرم عائدہوئی۔آپؐ نے اس کی بڑی مہمان نوازی کی اور اس کے ساتھ نرمی کاسلوک کیا۔اس دوران میں آپؐ نے بارہاثمامہ کے دل کوٹٹولااوراسے کچھ کہنےکی ترغیب دی ۔ ثمامہ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت فاتح عالم اورآپؐ کے سخنِ دل نوازکااسیربنتا جارہا تھا۔آپؐ نے ثمامہ کو غیرمشروط طورپر رہاکیا،لیکن اس وقت تک ثمامہ برضا و رغبت غلامی اختیار کرچکاتھا۔اس نے وہیں پر اپنے ایمان کا اعلان کیا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دلائل سے جیتنے کی بجائے دلوں کوجیتنے پرزوردیتے تھے۔اسی کانام روحانی ذہانت ہے۔
قیادت کے یہ گیارہ پیغمبرانہ اوصاف مستند،تمام زمانوں کے لیے اورآفاقی ہیں۔یہ ماضی میں بھی اہم تھے، آج بھی ان کی ضرورت ہے اورمستقبل میں بھی اہم رہیں گے۔ان اوصاف کاتعلق کردارسازی اورروحانی تربیت سےہے۔یہ کرپشن کے خاتمے اوراختیارات کےساتھ وابستہ دیگرخطرات کوکم کرنے کےلیے انتہائی اہم ہیں۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں‘‘۔
کردارسازی کے حوالے سے امام غزالی نے پیغمبرانہ قیادت کو گہرائی کے ساتھ سمجھا اور انھوں نے حکمرانوں کو اپنی مشہورنصیحت میں کہاہے:’’اگربادشاہ دیانت دار ہیں توان کے وزیر و مشیر اور افسران بھی دیانت دارہوں گے۔لیکن اگروہ بددیانت،بےپروااورتن آسان ہیں تو ان کی پالیسیوں کونافذکرنے والے افسران بہت جلد سست اوربدعنوان بن جائیں گے۔‘‘
سیرت کاایک قابل ذکرواقعہ غزوۂ حنین کے موقعے پر پیش آیا۔یہ ایساواقعہ ہے، جس کا ذکر پروفیسر جان اڈیرنے مختلف حصہ داروں کےمطالبات کو دیانت داری اوراصولوں کی پاس داری کے ساتھ پوراکرنےکے متعلق بطورخاص ذکرکیاہے۔حنین ایک بہت مشکل مرحلہ تھا۔اس موقعے پر آپؐ نے کمال دانش مندی،بے مثال حکمت اوربھرپور بصیرت کے ساتھ لیڈرشپ کی درج بالا گیارہ صفات کامظاہرہ کیا۔کسی نے کہاہے کہ ’’لیڈرشپ ایک ٹی بیگ کی طرح ہے، جس کے متعلق یقین سے نہیں کہاجاسکتاکہ یہ کتنی دیرتک گرم پانی میں بہتررہےگا‘‘۔غزوۂ حنین کے موقع پر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کیاکہ وہ دُنیا کے سب لیڈروں میں عظیم ترین کیوں تھے۔
مکہ کی پُرامن فتح کے بعد بعض پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت پر اشتعال میں آئے۔ بنوہوازن نے بطورخاص جنگ کاراستہ اختیارکیا اورمسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی۔وادیٔ حنین میدان جنگ بن گئی، جہاں۱۲ ہزارمسلمانوں کو چار ہزار دشمنوں کا سامنا تھا۔ یہ پہلاموقع تھا جب مسلمانوں کو واضح عددی برتری حاصل تھی(اس کے برعکس بدرمیں مسلمانوں کی تعداددشمن کے مقابلے میں بہت کم تھی، لیکن فتح مسلمانوں کوملی )۔ اس عددی برتری کی بدولت بہت سارے لوگوں کایہ خیال تھاکہ یہ جنگ آسان ہے۔
تاہم جونہی مسلمانوں نے وادی میں قدم رکھا تو گھات میں بیٹھےدشمن کے فوجیوں نے تیربرسانے شروع کر دیئے۔مسلمان خلاف توقع گھیرے میں آچکے تھے۔بہت سے مسلمان میدان چھوڑکر بھاگ گئے۔حوصلہ مندپیغمبر ؐ دشمن کے سامنے اکیلے ڈٹ کرکھڑے رہے۔حضورنبی کریمؐ اور آپؐ کے وفادارساتھیوں نے بھاگنے والوں کو واپس بلایا۔اس طرح آپؐ کی قیادت میں مسلمانوں نے میدانِ جنگ کاکنٹرول سنبھالا،اوربنوہوازن پر غالب آگئے۔بھاگنے والوں کے لیے سبق سورۂ توبہ میں نازل ہواجو ہمیں یاد دلاتاہے کہ اسباب جمع کرنااوراللہ پر بھروسا رکھنا دونوں ضروری ہیں۔محض دنیاوی اسباب جمع کرنے اورعددی برتری پر فتح کادارومدار نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے، وہی فتح دے سکتاہے۔یہ سبق بھی ہے کہ اللہ کی مدداورنصرت کے مستحق وہ لوگ ہیں جن کاکردار اچھاہو،جوامین ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کے جوہر اس وقت اورنمایاں ہوکرسامنے آتے ہیں، جب ہم حنین کےمشکل وقت میں آپؐ کو مختلف لوگوں کے جذبات کاخیال کرتے دیکھتے ہیں۔ مثال کے طورپرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیامہ بنت حلیمہ میدان جنگ میں گرفتارہو کر آگئیں۔ انھوں نے بتایاکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن ہوں۔پہلے کسی کویقین نہ آیا۔انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی درخواست کی ۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائی گئیں۔ آپؐ ان کونہ پہچان سکے پھرانھوں نے اپنے بازوپر وہ نشان دکھایاجوبچپن میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کاٹ کر لگایاتھا۔پہچاننے کے بعدآپ ؐنے بڑی گرم جوشی سے ان کااستقبال کیااوران کے بیٹھنے کےلیے اپنی چادربچھائی۔میدان جنگ کے ناخوش گوارماحول میں گرم جوشی، صبر اور جذباتی ذہانت کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔
ایک اوراہم موقع وہ تھا،جب شکست خوردہ بنی ہوازن کے قیدیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رحم کی درخواست کی ۔ان کی درخواست کی منظوری ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ جنگی قیدی اور مال غنیمت لڑنے والوں کاحق ہوتاہے۔تاہم جان اڈیر کے مطابق ا ٓپؐ نے درمیانی راہ نکالی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنی مرضی سے اپناحق چھوڑنے کے لیے تیارہیں، وہ سامنے آئیں۔ قیدیوں کے بدلے میں منہ مانگےفدیہ کایہ نادرموقع تھا، تاہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان پر بہت سارے لوگوں نے بغیر کسی فدیے کے قیدیوں کو رہاکردیا۔ بعض لوگ فدیہ لیےبغیررہائی سےہچکچارہے تھے۔ آپؐ نےان کواونٹ اور بکریاں دےکر قیدی رہاکروائے۔یہ آپؐ کی حکمت ودانائی ،دیانت وامانت اور شفافیت کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے۔
انصارمیں سے آپؐ کے قریبی ساتھیوں کاایک گروہ ایسابھی تھاجن کاخیال تھاکہ وہ نظراندازہوگئےہیں اور ان کومال غنیمت میں سے بہت تھوڑاحصہ ملا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کواس تھوڑی سی بےچینی کاجونہی پتاچلا، آپؐ نے اس احساسِ محرومی کونظراندازنہیں کیا،جس طرح اکثرلیڈر کرتے ہیں بلکہ آپؐ ان کےپاس گئے اور ان سے پوچھاکہ ان کویہ احساس کیوں ہے؟ ساتھیوں نے ہچکچاتے ہوئے کہاکہ دوسرے لوگوں کوزیادہ حصہ ملاہے، جب کہ ہم محروم رہ گئے، حالانکہ ہماری قربانیاں زیادہ ہیں۔ یہاں وہ موقع تھاجب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی ذہانت اور بصیرت سامنے آئی۔
آپؐ نے فرمایا:جس وقت دوسرے لوگ اپنے گھروں میں اُونٹ اور بکریاں لے کر جارہے ہوں گے، انصاروہ خوش قسمت ہیں جواپنے ساتھ اللہ اوراس کے نبی کو لے کر جائیں گے۔ اس بات پر انصار روپڑے اور چندلمحے پہلے کے اپنے احساسات پر نادم ہوئے۔ گویا کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر ان صفات کو بروئے کار لاکربڑے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔
بلاشبہہ مندرجہ بالاگیارہ صفات کاحامل، بہت اچھااورقابل اعتماد لیڈربن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے نصف صفات کو بھی اختیار کرنے والا آج کے دورمیں قیادت کے خلا کو پُر کرتا ہوا نمایاں نظرآئے گا۔لیکن ان صفات کاپیداکرنامحض خواہش پالنے سے ممکن نہیں ہے۔
ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔انسان کی عظمت یاذلت کاانحصاراس کے کرداراور خوبیوں پر ہوتاہے۔اسلامی تاریخ میں درج بالاصفات کے مضبوط حوالے پائے جاتے ہیں۔ یہ صفات بذات خود آفاقی ہیں۔ہم نے ان کوعالمی طورپرمسلم اورغیرمسلم سب کے لیے قابلِ عمل بناناہے۔آج کل کےکثیرثقافتی اورکثیرمذہبی ماحول میں آفاقیت کی اہمیت سدابہار ہے۔ آج مذہب اور سرحدوں سے ماوراقیادت کوپیش کرنے کی اشدضرورت ہے۔مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ جس جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں، وہاں اخلاق کے چمکتے دمکتے روشن مینار کا کردار اداکریں۔ وہ سب کو ساتھ لے کرچلنے والے ہوں۔ نہ صرف مسلمانوں کی خدمت کریں بلکہ جس اکثریتی یا تکثیری (Plurist) معاشرے میں رہتے ہیں، اس پورے معاشرے کو فائدہ پہنچائیں۔
اکثر پوچھاجاتاہے کہ ’مسلمانوں کا منڈیلاکہاں ہے؟درحقیقت یہ ایک سلگتاہوا سوال ہے۔ اس وقت ہم ایسے مسلمان لیڈرکو ڈھونڈرہے ہیں جس میں ان صفات میں سے کچھ ہوں۔ تاہم منڈیلانے ان میں سےبیش تر اوصاف کو اختیار کیا، اور وہ مرکزِ نگاہ بنا۔ یہ صرف مسلمانوں ہی کا مسئلہ نہیں ہے، دنیابھر میں اس وقت کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ جیسے لیڈر بھی نہیں آسکتےلیکن کوئی وجہ نہیں کہ کوئی دوسرا منڈیلابھی پیدانہ ہوسکے۔آئیے لیڈرشپ کے یہ گیارہ پیغمبرانہ اوصاف اپنے آپ میں پیداکریں، اور اپنی قابلیت کے جوہر دکھائیں۔ دنیا آپ کی منتظرہے!