’قابلیت‘ وہ خوبی ہے، جو ایک لیڈر کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ عوام میں اپنا اعتبار قائم کرسکے۔ منظم انداز میں مکمل توجہ کے ساتھ بروقت اپنے فرائض انجام دینا قابلیت کی معراج ہے۔ ایک قابل لیڈر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دُور اندیش ہو، عمدہ حکمت ِ عملی تیار کرسکتا ہو اور پیشہ ورانہ انداز میں مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ایسے واقعات سے جگمگاتی ہے، جن کی بدولت زندگی کے ہرمیدان میں آپؐ کی مہارت اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ مثال کے طور پر لوگوں کو منظم کرنا، سفارت کاری ، امن معاہدے، عسکری مہارت ، اُمت کی تعلیم و تربیت، مذاکرات کا طریقہ، فنِ تعمیر، شہسواری، تجارت، اندازِ گفتگو، گھریلو کام کاج جیسے کھانا پکانا اور کپڑوںکی سلائی اور جوتوں تک کی مرمت وغیرہ۔
نبوت سے پہلے بھی لوگ آپؐ کی معاملہ فہمی اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت کے معترف تھے۔ آپؐ تقریباً پینتیس برس کے تھے جب قریشِ مکہ نے کعبہ کی تزئین و آرائش کا فیصلہ کیا، جس کے لیے حجرِاسودکو اس کی جگہ سے ہٹانے کی ضرورت پیش آئی۔ جب اسے واپس لگانے کا وقت آیا تو مختلف قبیلوں میں اختلاف پیداہوا کہ یہ سعادت کس کے حصے میں آئے گی؟ یہ جھگڑا چار دن تک جاری رہا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ خوں ریزی کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔
اس جھگڑے کو نمٹانے کے لیے پانچویں دن وہاں پر موجود بزرگ ترین سردار ابواُمیہ ابن مغیرہ نے تجویز دی کہ اگلے دن جو بھی شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوگا، اسی سے اس معاملے کا فیصلہ کروایا جائے گا۔ اگلے دن سب سے پہلے داخل ہونے والے انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جنھیں دیکھ کر سب پکار اُٹھے کہ ’امین‘ آگیا۔ آپؐ نے اپنی چادر زمین پر بچھائی، حجرِاسود کو اس پر رکھا اور تمام سرداروں سے کہا کہ وہ اس چادر کا ایک ایک کونا تھام کر اسے اُٹھا کرلے چلیں۔ اس کے بعد آپؐ نے اپنے ہاتھوں سے حجرِاسود کو اُٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کردیا۔ جنگ کی جانب بڑھتی ہوئی صورتِ حال کو ایسی عمدگی سے حل کرنا، جس سے فریقین مطمئن ہوں، آپؐ کی دانائی اور معاملہ فہمی کا روشن ثبوت ہے۔
یہ آپؐ کی ایمان داری اور لوگوں کا آپؐ پر اعتبار ہی تھا جس کی بنیاد پر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو اپنے کاروبار پر نگران مقرر کیا ، اور آپؐ کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور مہارت سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ کچھ ہی عرصے بعد آپؐ کو نکاح کا پیغام بھجوایا۔ رفتہ رفتہ آپؐ ایک کامیاب تاجر سے ایک پیغمبر بنائےگئے اور بالآخر ایک ایسے بااثر راہ نما بن کر دُنیا میں اُبھرے جنھیں ماننے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا گیا۔ مختلف ریاستی اُمور کی انجام دہی کے لیے موزوں ترین افراد کو نامزد کرنے کا معاملہ ہو یا ریاست ِ مدینہ کے پہلے آئین کی تشکیل، ریاستی اُمور میں آپؐ کی قابلیت و معاملہ فہمی اور تحمل و دُور اندیشی بے نظیر تھی۔ اسی قائدانہ مہارت کے نتیجے میں مدینہ میں ایسا منفرد معاشرہ وجود میں آیا، جہاں پر رنگارنگ ثقافتوں اور الگ الگ مذاہب کے ماننے والے لوگ رواداری اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔
اسلام کے پہلے آئین کی نمایاں خصوصیات میں مساوات، عدل و انصاف، پس ماندہ طبقے کی مدد اور تحفظ، مذہبی رواداری، قتل و غارت کی ممانعت اور نبی پاکؐ کی اجازت کے بغیر جنگ کا اعلان کرنے کی ممانعت شامل ہیں۔ اسی آئین میں خارجہ پالیسی اور اس جیسے دیگر اہم ریاستی اُمور انجام دینے کے لیے باہمی مشاورت کا نظام قائم کیا گیا، جس میں مسلمان اور غیرمسلم بشمول یہودی قبیلے شامل تھے۔ آئین میں واضح کیا گیا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ ایک جیسا رویہ اختیار کیا جائے گا اور کسی یہودی کو محض اس کے مذہبی عقائد کی بناپر بدسلوکی کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ یہ ایک ایسے معاشرے کی بنیاد تھی، جس میں الگ الگ قومیں اور مذاہب ہم آہنگی کے ساتھ پُرامن زندگی گزار سکیں اور اچھے اور بُرے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔
مکہ میں مسلمانوں کی قلیل تعداد اور انھیں پیش آنے والے خطرات اور تکالیف کے برعکس مدینہ میں حالات کافی مختلف تھے۔ مسلمان تعداد میں زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی اور عسکری لحاظ سے مضبوط تھے اور ان کی طاقت میں روز بہ روز اضافہ ہورہا تھا، لیکن ایک نئی ریاست کی تشکیل اوراس کا انتظام بخوبی چلانا بذاتِ خود ایک بڑا چیلنج تھا۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف ہوکر اکثر دشمن قبیلے ان پر حملہ آور ہونے اور ان کا نام و نشان مٹادینے کے درپے تھے۔ بدر، اُحد اور خندق کے غزوات ان کی ایسی ہی چند کوششیں تھیں جن میں آنحضورؐ کی عسکری مہارت، عزم اور قائدانہ صلاحیت کی بناپر، محدود وسائل کے باوجود مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی۔
مدینہ میں گزرے آخری برسوں کے دوران میں مذاکرات کے حوالے سے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ اور پھر صلح حدیبیہ کا مرحلہ وہ موقع تھا جب آپؐ نے اپنی اس مہارت کا دانش مندانہ استعمال کرتے ہوئے کمالِ حکمت کے ساتھ صلح نامے کی شرائط طے کیں، جس کے نتیجے میں بالآخر کسی قسم کی خوں ریزی کے بغیر مکہ فتح کرلیا گیا۔ آپؐ کی قائدانہ مہارت اور اعلیٰ ظرفی کا نتیجہ عام معافی کی صورت میں سامنے آیا اور وہی لوگ جو کبھی آپؐ کی جان کے دشمن ہوا کرتے تھے، نہ صرف آپؐ کے زیراقتدار امن اور آزادی سے زندگیاں گزارنے لگے بلکہ آنے والے دنوں میں اسلام کی قوت بن کر اُبھرے۔
وقت کا بہترین استعمال (ٹائم مینجمنٹ)ایک ایسی مہارت ہے، جس سے انسان کے پیشہ ورانہ رویے اور قابلیت کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ حضوؐر مثالی ڈسپلن کا عملی مظاہرہ خود بھی کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی تاکید کرتے تھے کہ وہ اپنے وقت کو مثبت اور تعمیری سرگرمیوں پر صرف کریں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ وقت ایک دولت ہے، لیکن آپؐ کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو وقت خود زندگی ہے، اس لیے وقت ضائع کرنے کا مطلب زندگی کو ضائع کرنا ہے۔ وقت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روزانہ کی پانچ فرض نمازوں کے اوقات مخصوص ہیں اور مسلمانوں کو تاکیدکی گئی ہے کہ وہ ہر نماز اپنے مقررہ وقت کے اندر اندر پڑھ لیں۔ گھڑی یا الارم کلاک ایجاد ہونے سے پہلے کے اس زمانے میں آپؐ نے مسلمانوں کو سورج کے ذریعے نماز کے وقت کا تعین کرنا سکھایا، جب کہ آج مختلف آلات اور ایجادات کے باوجود ٹائم مینجمنٹ بہت سوں کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اسی طرح آپؐ نے فارغ وقت کو فضول گفتگو اور بے جا گپ شپ میں برباد کرنے کی بھی حوصلہ شکنی کی اور اس کے بامقصد استعمال پر زور دیا۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مضبوط ایمان رکھنے والا، کمزور ایمان رکھنے والے سے بہتر ہے۔ یہ اصول انسانی زندگی کے جسمانی، ذہنی اور پیشہ ورانہ پہلوئوں پر لاگو ہوتا ہے۔ قیادت کے لیے مضبوط اُمیدوار درحقیقت وہی ہوتا ہے جو ہرلحاظ سے اس کے لائق ہو۔ دُنیا میں کئی مضبوط اور قابل راہ نما آئے، لیکن ان میں ایسے افراد بہت کم تھے جنھوں نے اپنے جانشین تیار کیے ہوں۔ حالانکہ ایک طاقت ور اور لائق لیڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ قابل اور باصلاحیت افراد کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ اس کے جانے کے بعد کامیابی سے نظام چلا سکیں۔ اس لحاظ سے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک حقیقی مربی یعنی سرپرست تھے، جنھوں نے ہر زاویے سے صحابہ کرامؓ کے اخلاق اور کردار کی تربیت کی اور انھیں ذمہ داریاں سونپتے وقت ان کی شخصیت اور اہلیت کو مدنظر رکھا۔ آج ہیومن ریسورس سے تعلق رکھنے والے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ فرد کی کامیابی کے لیے فنی مہارت کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیت کا ہونا بھی لازم ہے۔ لیڈرشپ محض ایک اندازِ فکر نہیں بلکہ ایک صلاحیت ہے، جس کی جامع مثال آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک ہے۔
جب کبھی آپؐ کسی وجہ سے نماز کی امامت کروانے سے قاصر ہوتے تو یہ ذمہ داری حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حوالے کر دیتے تھے۔ پہلے امامت اور بعدازاں پہلے خلیفہ کے طور پر حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب اسی لیے کیا گیا کیوں کہ ان کی قابلیت اور اہلیت اس منصب کے لیے موزوں ترین تھیں۔ بطور سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ کئی معروں میں اپنی عسکری مہارت منوا چکے تھے، جس کی وجہ سے بہت سی جنگی مہمات ان کے سپرد کی گئیں حالانکہ اس پر چند بزرگ صحابہؓ کو اعتراض بھی ہوا۔ اسی طرح حضرت بلال حبشیؓ کی سُریلی آواز کی بنا پر انھیں اسلام کا پہلا مؤذن بننے کا شرف حاصل ہوا۔ پُراثراندازِ گفتگو اور سفارت کاری میں مہارت رکھنے والے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کو نمائندہ بناکر حبشہ بھیجا گیا۔ حضرت مصعب ؓ بن عمیر میں قدرتی طور پر معلّمانہ خصوصیات موجود تھیں، جس کی وجہ سے انھیں مدینہ بھیج دیا گیا تاکہ وہ وہاں پر لوگوں کو تعلیم دے سکیں۔ حضرت معاذؓ بن جبل میں معلّمانہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ اجتہاد اور علمی بصیرت جیسی خوبیاں پائی جاتی تھیں، اس لیے انھیں یمن کی طرف روانہ کردیا گیاتاکہ وہ وہاں پر دین اسلام کو پروان چڑھا سکیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی بہترین عسکری حکمت عملی کی وجہ سے جنگی معاملات میں ان سے مشورہ کیا جاتا تھا۔ حضرت حسانؓ بن ثابت عمدہ شاعری کیا کرتے تھے اور انھیں منبر رسولؐ سے بھی اپنے اشعار سنانے کا شرف حاصل ہوا۔
قابلیت کی بنیاد پر لوگوں کا انتخاب آپؐ کی قائدانہ خصوصیات کا ایک اہم پہلو ہے اور اس کی کئی مثالیں آپؐ کی زندگی میں موجود ہیں۔ اس ضمن میں آپؐ کی حضرت ابوذر غفاریؓ کو دی جانے والی ایک مشہور نصیحت ہے، جب اُنھوں نے آپؐ سے کوئی عہدہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپؐ نے ان کے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے ابوذرؓ! تم کمزور ہو اور یہ عہدہ عوام کی امانت ہے۔ جو انسان اس ذمہ داری اور اس سے وابستہ فرائض احسن طریقے سے پورے نہیں کرپائے گا اسے آخرت میں ندامت اُٹھانا پڑے گی‘‘ (مسلم)۔ ایک اور موقعے پر آپؐ نے حضرت ابوذرؓ سے کہا:’’مجھے تمھارے اندر کمزوری دکھائی دیتی ہے۔ کبھی کوئی عہدہ قبول نہ کرنا، چاہے اس میںتمھیں صرف دو لوگوں پر ہی نگران کیوں نہ بنایا جائے اور کبھی کسی یتیم کے مال کی رکھوالی کی ذمہ داری مت لینا‘‘۔ (مسلم)
آپؐ کی ان باتوں کا مقصد حضرت ابوذرؓ کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ یہ سمجھانا تھا کہ لیڈرشپ کے لیے صرف خلوص اور نیک نیتی کافی نہیں بلکہ اہلیت بھی انتہائی ضروری ہے۔
خلفائے راشدین بھی باصلاحیت لوگوں کی قدروقیمت سے بخوبی آگاہ تھے۔ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اپنی کوئی خواہش بیان کرو۔ ان کے ایک ساتھی نے کہا: میری خواہش ہے کہ یہ تمام جگہ سونے سے بھر جائے تاکہ میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر سکوں۔
ایک اور ساتھی بولے: میں چاہتا ہوں کہ یہ جگہ ہیرے جواہرات، موتیوں اور زیورات سے بھر جائے تاکہ میں انھیں اللہ کی راہ میں خیرات کرسکوں۔
اس پر حضرت عمرؓ نے کہا: میری خواہش ہے کہ یہ جگہ ابوعبیدہؓ بن الجراح، معاذؓ بن جبل، سالمؓ اور حذیفہؓ بن یمان جیسے لوگوں سے بھر جائے۔
پروفیسر ایڈیئر کا کہنا ہے کہ ایک قابل اور بااثر لیڈر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہرفرد کام کو مکمل طور پر سمجھ لے۔ یعنی وہ جانتا ہو کہ اس کام کو کرنے کا کیا مقصد ہے؟ اس کے ذریعے کیا حاصل ہوگا؟ اس میں کون سے کام کیے جائیں گے؟ اور ان سب چیزوں کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟ اسی طرح ٹیم میں توازن اور ہم آہنگی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ ایک باصلاحیت لیڈر اپنی ٹیم میں موجود لوگوں کا انفرادی طور پر بھی خیال رکھتا ہے۔ ایسا کرنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، جن میں لوگوں کی ذاتی ضروریات کا خیال رکھنا، معاوضے اور مواقع دینے میں انصاف سے کام لینا اور ان کی دل داری اور حوصلہ افزائی کی کوشش کرنا شامل ہیں۔ ایک عمل پسند قیادت ( Action Centred Leadership)کا یہ ماڈل ان تین عوامل کے توازن سے مل کر بنتا ہے:
کام
ٹیم
فرد
نتیجہ خیز ماڈل میں یہ تینوں عوامل ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اورکسی ایک کو نظرانداز کر دیا جائے تو باقی دونوں بھی اپنا کام صحیح طور پر انجام نہیں دے پاتے۔ اگر ٹیم کے کچھ افراد ناخوش ہوں تو مطلوبہ مقصد پوری طرح حاصل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ٹیم کا جوش اورلگن ہی برقرار رہتی ہے۔ اسی طرح صرف افراد کی خوشی عمدہ ٹیم ورک کی ضمانت نہیں ہوسکتی اور نہ صرف عمدہ ٹیم ورک کے ذریعے کام کی تکمیل کرنا ممکن ہے۔ لہٰذا ایک قابل لیڈر ایک ایسا نظام تیار کرتا ہے، جس کے تحت کاموں کی نگرانی کی جاسکے۔ ٹیم ممبران کے ساتھ فرداً فرداً ملاقاتوں کے ذریعے ان کی خوشی اور کارکردگی کا اطمینان کرلیا جائے، ٹیم ممبران میں اعتبار اور دوستانہ تعلقات قائم ہوں اور کسی قسم کے اختلافات پیدا ہونے کی صورت میں انھیں فوراً حل کرلیا جائے۔
جب اس ماڈل کے تینوں عوامل اپنی اپنی جگہ حرکت میں آجائیں اور نظام چل پڑے تو لیڈر پیچھے ہٹ کر لوگوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور کامیابیاں حاصل کرسکیں۔ لیڈر ہر چھوٹی چھوٹی بات کا انتظام سنبھالنے کے بجائے ایسے عوامل پیدا کرتا ہے کہ لوگ بآسانی اپنا کام انجام دے سکیں۔ایڈئیر کا کہنا ہے کہ لیڈر کے پیچھے ہٹ جانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس ماڈل کے تینوں عوامل سے بے خبر ہوجائے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ نظام کے چلنے سے باخبر رہے۔ ایڈئیر اس عمل کو ہیلی کاپٹر ویو (Helicopter View) کا نام دیتا ہے۔ اس طرز کی نگرانی کا مقصد یہ ہے کہ کام، فرد اور ٹیم کی کارکردگی پر نظررکھی جائے اور جہاں کوئی پہلو کمزور پڑتا نظر آئے تو نیچے آکر اس کی اصلاح کی جائے اور پھر واپس اُونچائی کی طرف پرواز کرلی جائے۔ایڈئیر کا کہنا ہے کہ اس لحاظ سے ایک قابل لیڈر کی زندگی ضرورت کے مطابق اُوپر اور نیچے آنے جانے کا نام ہے، جس کے ذریعے بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
حقیقی معنوں میں قابل انسان وہ ہےجو دوسرے باصلاحیت لوگوں سے مسابقت کرسکتا ہو۔ اس لحاظ سے اگر آج کی دُنیا میں مسلمانوں کی قابلیت اور صلاحیتوں کا جائزہ لیا جائے تو صورتِ حال زیادہ خوش آئند دکھائی نہیں دیتی۔ نبویؐ تعلیمات سے جنم لینے والی سائنسی ریسرچ، جدت اور ایجادات کی روایات صدیوں تک اعلیٰ پائے کے محققین پیدا کرتی رہیں، لیکن صرف ابن سینا، ابن الہشام اور الخوارزمی کے شان دار کارناموں کے گُن گانے سے ہماری موجودہ نااہلی اور بدعملیاں ختم نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے اندر ہمت اور قوتِ عمل کو جگانا ہوگا تاکہ ہم میں وہ اہلیت پیدا ہوسکے جو لیڈر شپ کا خاصہ ہے۔
علّامہ ابن القیم کا قول ہے:’’عزم وہ بیج ہے جس سے ساری عظمتیں جنم لیتی ہیں۔ عظیم لیڈر بھی اسی عزم کی بہ دولت وجود میں آتے ہیں‘‘۔
مستقل مزاجی سے نئی مہارتیں سیکھنے اور اپنے اندر بہتری لانے کی کوشش مسابقت کے عمل کو پروان چڑھاتی ہے۔ ابن ماجہ میں روایت درج ہے کہ حصولِ علم ہرمسلمان پر فرض ہے۔ اس فرمانِ رسولؐ میں ’ہرمسلمان‘ کہہ کر مرد اور عورت کی تفریق ختم کرتے ہوئے، بلاامتیاز دونوں کے لیے علم کا حصول لازم قرار دیا گیا ہے۔
علم انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ علم و حکمت کا حصول اسلام کے اعلیٰ مقاصد میں سے ایک ہے۔
کسی قوم کی سیاسی اور معاشی کامیابی کا براہ ِ راست تعلق وہاں پردی جانے والی تعلیم اور اس کی نوعیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ معاشرہ ہر شعبے کے لیے موزوں ترین افراد کا انتخاب اور ان کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ لہٰذا سب سے زیادہ باصلاحیت، ماہر اور قابل لوگ ایسے معاشروں ہی میں پائے جاتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں اس سے قریب ترین مثال اندلس (موجودہ اسپین اورپرتگال) کی ہے جب وہاں اسلامی سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ مگر آج عبرت کا مقام ہے کہ جدید دُنیا کا کوئی مسلمان اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا ہے۔ دُنیا کی سو بہترین یونی ورسٹیوں میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو کسی مسلمان ملک میں قائم کی گئی ہو۔ شاید ہی کوئی مسلم کمپنی یا برانڈ ایسا ہوگا جسے بین الاقوامی شہرت یا مقام حاصل ہوگا۔ گاڑی سے لے کر ہوائی جہاز اور موبائل فون سے لے کر لیپ ٹاپ تک ہمارے استعمال کی ہرچیز غیرمسلم ذرائع سے حاصل کردہ ہے۔
ٹکنالوجی کے میدان کا نقشہ بدل دینے والے الگورتھم (Algorithm)، کمپیوٹنگ (Computing) کی بنیاد ہیں، جنھوں نے آج ایپل (Apple) برانڈ کو دُنیا بھر میں مقبول کردیا ہے۔ حساب کا یہ کلیہ نویں صدی کے عظیم ترین محقق اور حساب دان الخوارزمی نے اپنی کتاب حساب الجبر والمقابل میں پیش کیا لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اس سے مسلمان کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔ اسی طرح طبّ کے میدان میں ابن سینا اور بصری علوم میں ابن الہشام کے کارنامے صدیوں تک جدید ایجادات کی بنیاد بنے رہے۔ آج بھی اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی بوڈلیئن (Bodleian) لائبریری میں عربی زبان میں لکھی گئی ایسی کئی تاریخی تصنیفات موجود ہیں۔ حصولِ علم سے بے پرواہی اور دانش و حکمت کے حصول میں دلچسپی نہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ آج دُنیا کے کامیاب ترین اداروں اور راہ نمائوں میں مسلمانوں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دُنیا کے کم و بیش تمام مشہور ترین برانڈز کا تعلق غیرمسلم دُنیا سے ہے۔ فوربز میگزین نے ایک دفعہ ایک مضمون شائع کیا تھا، جس کا عنوان تھا: ’وہ چارکمپنیاں جو ان ۴۷ کمپنیوں کو کنٹرول کرتی ہیں جو دُنیا کی ہر شے کی مالک ہیں‘۔ اس کی اَن گنت وجوہ ہوسکتی ہیں جیساکہ حکومتوں کے غیرجمہوری رویے، افراد یا کمپنیوں کے غیرقانونی ہتھکنڈے یا پھر بادشاہت کے خاتمے کے بعد ملکوں کی ترقی میں عدم توازن وغیرہ۔ لیکن وجوہ چاہے کچھ بھی ہوں غیرمسلم بہرحال اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ ترقی کے لیے نت نئی مہارتوں کا حصول اور اپنی قابلیت میں اضافہ ناگزیرہے۔ ہرمیدان میں کامیابی غیرمسلموں کے حصے میں آتی ہے کیوں کہ اب مسلمانوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ اور سیکھنے کی لگن نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف ماضی کی عظمتوں کے گُن گاتے رہنے سے حال کے چیلنجوں اور بدحالی کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ماضی کی طرح علم و حکمت کی جستجو اور اپنی اہلیت میں اضافے کی مسلسل کوشش کرکے ہی بین الاقوامی پیشہ ورانہ معیار کے حامل افراد تیار کیے جاسکتے ہیں، جو اپنے اداروں اور معاشرے کی ترقی میں بھرپور حصہ ڈال سکیں۔
ایک کامیاب انسان زندگی کے مختلف پہلوئوں پر دسترس رکھتا ہے اور مختلف شعبوں میں اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ عمومی دانائی اور حکمت کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے مخصوص شعبوں میں اعلیٰ درجے کی مہارت یا اسپیشلائزیشن حاصل کرنے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر ٹکنالوجی کے شعبے میں جدت اور تخلیقی صلاحیت بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اکائونٹنگ کے شعبے میں ان دونوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں بلکہ وہاں پر باریک بینی اور حساب کتاب میں حاضر دماغی زیادہ اہم ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ اپنی ٹیم سے بھرپور طریقے سے کام لینے کے لیے ضروری نہیں کہ لیڈر خود شعبے میں مکمل تکنیکی مہارت رکھتا ہو۔ لیڈر کے پاس علم اور ہنر دونوں ہونے چاہئیں، لیکن اس کا اصل ہنر لوگوں کی مہارتوں اور صلاحیتوں کو موزوں ترین طریقے سے استعمال کرکے ان کے بہترین نتائج حاصل کرنا ہے۔ ہرشعبے کو احسن طریقے سے سنبھالنا اور اس سے بہترین نتائج حاصل کرنا نبی کریمؐ کے قائدانہ کردار کی ایک اور اعلیٰ خصوصیت تھی، جس کی عملی مثالیں آپؐ کی زندگی کے ہر ہر پہلو میں دیکھی جاسکتی ہیں۔(نبیل الاعظمی کی کتاب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم: گیارہ قائدانہ اوصاف کا باب، انگریزی سے ترجمہ: رافعہ تحسین)