’پرانے یہودیوں‘ (اسرائیل) کے حصے میں تاریخ کی لعنت وملامت آئی، اور دوسری طرف ’نئے یہودیوں‘ (انڈیا) کے لیے تاریخ کا تازیانہ تیار ہے۔ آج ظالموں کے خلاف فلسطینی عوام کی فداکاریوں کے تذکرے عام ہیں آسمانوں میں، تو دوسرے ظالموں کے خلاف ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری مظلوموں کا خون عالمی ضمیر کی عدالت میں سراپا سوال ہے۔ تقسیم ِہند کے نامکمل ایجنڈے کا یہ باب ۱۹۴۷ء سے آج ۲۰۲۵ء تک حل طلب ہے۔
سقوط مشرقی پاکستان (۱۶دسمبر۱۹۷۱ء)سے پہلے بھی وہاں نوجوانوں کو ہم سمجھاتے رہے، جھنجھوڑتے اور پکارتے رہے کہ’ ’ہمدردی کے زہر میں لپٹی دشمن کی یہ سرپرستی درحقیقت غلامی کا شکنجہ ہے۔ یہاں گھر میں اپنے بھائیوں سے لڑ جھگڑ کر حقوق لیے جا سکتے ہیں، لیکن دشمن کی نام نہاد ہمدردی کے نام پر حاصل کردہ غلامی سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہو گا۔‘‘ اور آج صورت حال یہ ہے کہ نفرت کا الائو بھڑکانے والے نام نہاد آزادی کے علم بردار مجیب اور ان کی بیٹی حسینہ واجد کے ہاتھوں، اسی سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش کا بال بال غلامی کی زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے۔ حکومت تو تبدیل کر لی گئی ہے، لیکن معاشی، تہذیبی، سیاسی، جغرافیائی اور دفاعی آزادی کے حصول کے لیے بنگلہ دیشی بھائیوں کو ابھی کئی دریا عبور کرنے ہوں گے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فریم ورک میں حقوق کا حصول دوچار سال میں ممکن نظر آتا تھا، لیکن اب نصف صدی بھسم کرنے کے بعد بھی بے بسی کا نیا شکنجہ، وہاں کے قومی وجود کو گرفت میں لیے سب کے سامنے ہے۔
وہ نوجوان جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہیں، یا آزاد کشمیر اور بیرون پاک و ہند میں ہیں، انھیں خوب اچھی طرح یہ بات جان لینی چاہیے کہ ’خود مختار کشمیر‘ انڈیا کی دوسری دفاعی لائن ہے، بنگلہ دیش سے بھی زیادہ بے بس سیاسی وجود۔ انڈیا کے پالیسی سازوں کی یہ پوری کوشش رہی ہے کہ استصواب رائے (Plebiscite) نہ ہو، اور اگر بظاہر پیچھے ہٹنا پڑے تو ثالثی یا سودا بازی کرکے پورے کشمیر کو ’خودمختار‘ کا درجہ دیتے ہوئے، اپنی ایک باج گذار گماشتہ ریاست بنا لیا جائے، جیسے بھوٹان وغیرہ۔ اسی لیے بڑی تیزی سے مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام پر دن رات کام کیا جا رہا ہے، اور آبادی کا تناسب بڑی تیزی سے بگاڑا جا رہا ہے۔
اس پس منظر میں ہم دعوت دیتے ہیں کہ نئی نسل ہوش کا دامن تھام کر، دشمن سے ملنے والی چمک کو روشنی نہیں بلکہ ظلمت کی سیاہی سمجھ کر جان ومال اور صلاحیت لگائے۔ جو مسائل ہیں، انھیں پاکستانی فریم ورک میں حل کرنا آسان بھی ہوگا اور فطری ومعقول بھی۔ کسی چیز میں کمی بیشی ممکن ہے، لیکن بہرحال پاکستان ہی نے کشمیری بھائیوں کا ساتھ دیا، جب کہ دشمن نے ۱۹۴۷ء سے پہلے اور ۱۹۴۷ء کے بعد بھی جان ومال کی قربانی لی ہے۔ اس لیے دور اندیشی اور سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بنگلہ دیش کے تجربے سے سبق سیکھیں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کے طے شدہ فارمولے ہی پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آزاد کشمیر حکومت، محض آزاد علاقے کی حکومت نہیں ہے، بلکہ پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے، بدقسمتی سے جو اپنا کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ اس کی منصبی ذمہ داریوں کا ادراک اور اس کے اصل کردار کا احیا وقت کی ضرورت ہے۔
آزاد کشمیر میں خواندگی کی سطح، پاکستان کے کسی بھی صوبے سے بلند تر ہے۔ مگر حکومت آزاد کشمیر کی بے سمتی کا یہ نتیجہ ہے کہ ان پڑھے لکھے لوگوں میں اپنے محکوم کشمیری بھائیوں کے لیے دکھ درد کے احساس کی وہ کسک ایک تحریک کی صورت میں دکھائی نہیں دیتی، کہ جو یہاں پیدا ہونی چاہیے تھی، اور اسے مجبور بھائیوں کی آواز بن جانا چاہیے تھا۔
پھر آزاد کشمیر حکومت نے کم و بیش ایسا رویہ اختیار کیا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح کے پروگراموں کو پروان چڑھانے کے لیے شب و روز کوششیں کرنے کے بجائے ذاتی اور گروہی مفاد کو زندگی کی کامیابی سمجھ لیا ہے۔ اس رویے کو تبدیل کرنے کے لیے کشمیری اہلِ اقتدار کو اپنا طرز عمل بدلنا چاہیے اور یہ جو وقفے وقفے سے یہاں پر بظاہر چند مطالبات کے لیے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس کی اصل بنیاد کو سمجھنا اور اس کے حل کے لیے بامعنی کوششیں کرنی چاہئیں۔ محض نوجوانوں کی پکڑدھکڑ، حکومت آزاد کشمیر کی بے عملی کا جواب نہیں۔ ایسا مریضانہ رویہ دشمن کے مقاصد پورا کرنے کے لیے زرخیز زمین تیار کرتا ہے اور قومی مفاد کو بربادی کی تصویر بنانا ہے۔
تاریخ میں بہت زیادہ دور جانے کے بجائے ہم اس المیے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، جس نے بعض ا وقات کھلنڈرے پن سے مسئلہ کشمیر اور جدوجہدِ آزادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جس طرح کہ مطلق العنان حاکم جنرل پرویز مشرف نے کشمیر میں ۷۶۷کلومیٹر طویل کنٹرول لائن پر باڑ لگانے کے لیے انڈیا کو یک طرفہ سہولت دی۔ انڈیا نے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان بجلی سے لیس خاردار تاروں کی باڑ نصب کرکے اس میں بجلی کی ہائی وولٹیج رو دوڑائی ہے، ساتھ ساتھ باردوی سرنگیں بچھائی گئی ہیں، اور جس جگہ باڑ نہیں لگ سکتی، وہاں پر لیزر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس باڑ کو لگانے کی اجازت دینے کا کوئی جواز نہیں تھا کہ بطور سرحد اسے دونوں ملک تسلیم نہیں کرتے، مگر یک طرفہ انڈیا کو سہولت دینا کسی بھی اصول اور قاعدے کے مطابق معقول حرکت نہیں تھی۔ پھر انھوں نے ’آؤٹ آف باکس‘ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ حالانکہ پاکستان کے کسی بھی حکمران کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کشمیر کے عوام کو نظرانداز کرکے کوئی ایسا قدم اُٹھائے، جو ہمارے اصولی اور بین الاقوامی طے شدہ موقف سے ٹکراتا ہو۔
اسی طرح فروری ۲۰۲۱ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے اچانک فوجی کمانڈروں کی سطح پر مذاکرات کیے۔ پھر دو ماہ بعد چند صحافیوں کو کھانے پر بلا کر یہ کہا: ’’ہم بیک ڈور مذاکرات کر رہے ہیں۔ ہمیں ماضی بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے‘‘۔ ان چیزوں کو ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ بھی کہنا شروع کیا۔ یہ سب وہ چیزیں تھیں جن سے حکومت اور قوم دونوں بے خبر تھے۔ان اقدامات نے پاکستان کے دفاعی دبدبے (deterrence) کو سخت نقصان پہنچایا اور دشمن کے حوصلے بلند کیے اور اپنے حقِ خودارادیت کے لیے کوشاں تمام متعلقہ حلقوں کو مایوس کیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی سوچ کی برملا اور واضح الفاظ میں نفی کی جانی چاہیے، تاریخ اور قوم کے موقف کو روندنے کے ہرعمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔
۵؍اگست۲۰۱۹ء کو انڈیا کی جانب سے آرٹیکل ۳۷۰اور ۳۵-اے کی یک طرفہ منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات نے تیزی سے پلٹا کھایا۔ ’نسل پرست ہندوتوا‘ نے اپنی سرپرست آرایس ایس کی نگرانی میں یہ قدم کسی الگ تھلگ عمل کے لیے نہیں اٹھایا تھا، بلکہ اس کے ساتھ باقاعدہ سلسلہ وار اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔ جن کے مطابق:
اس صورت حال میں حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام پر لازم ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے مظلوم بھائیوں کو یاد رکھتے ہوئے:
اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو وقت تیزی سے گزرتا جائے گا اور کشمیر دوسرا اسپین بن کر رہ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت پاکستان، یہاں کے اہل حل و عقد اور خردمند اس المیے کا کردار بننا چاہتے ہیں؟