فروری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

کشمیر، ایک لمحۂ فکریہ!

پروفیسر خورشید احمد، سلیم منصور خالد | فروری ۲۰۲۵ | اشارات

Responsive image Responsive image

’پرانے یہودیوں‘ (اسرائیل) کے حصے میں تاریخ کی لعنت وملامت آئی، اور دوسری طرف ’نئے یہودیوں‘ (انڈیا) کے لیے تاریخ کا تازیانہ تیار ہے۔ آج ظالموں کے خلاف فلسطینی عوام کی فداکاریوں کے تذکرے عام ہیں آسمانوں میں، تو دوسرے ظالموں کے خلاف ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری مظلوموں کا خون عالمی ضمیر کی عدالت میں سراپا سوال ہے۔ تقسیم ِہند کے نامکمل ایجنڈے کا یہ باب ۱۹۴۷ء سے آج ۲۰۲۵ء تک حل طلب ہے۔

  • خود مختار کشمیر کا سراب: اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ دو آپشن سے ہٹ کر تیسرے راستے خود مختار کشمیر کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ خود مختار کشمیر کے تصور سے وابستہ بے خبر نوجوانوں اور زندگی کے گرم و سرد سے آشنا افراد کے لیے دردِ دل سے دعوت ہے کہ وہ یہاں سے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور بنگلہ دیش کی تاریخ اور منظر کو ضرور دیکھ لیں، جہاں قیام پاکستان کے چند ہی ماہ بعد جھوٹ اور سچ کی آمیزش سے ایسی فضا پیدا کی جانے لگی کہ ’پاکستان کے تصور سے الگ ہو کر خودمختاری چاہیے، (’ایسی خودمختاری‘ جس کا سرپرست اور مددگار انڈیا ہو)۔ ۲۳برس کے دوران مبالغے کی ماہر قیادت نے واقعی پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے ایک ایسی ’خود مختاری‘ حاصل کر لی، جس میں اُن کا جھنڈا بھی تھا، ترانہ بھی اور ایک نقشہ بھی۔ لیکن ۵۳برس گزرنے کے بعد اسی بنگلہ دیش کی تیسری نسل نے، انڈین غلامی کی آکاس بیل میں لپٹی نام نہاد آزادی پرچار حرف بھیج کر، ۵؍اگست۲۰۲۴ء کی دوپہر ایک عوامی انقلاب برپا کر دیا۔ اس لہر میں قوم کا بچہ بچہ اور پیروجوان کو انڈین غلامی کی زنجیروں میں اپنا دم گھٹتا دکھائی دیا۔

سقوط مشرقی پاکستان (۱۶دسمبر۱۹۷۱ء)سے پہلے بھی وہاں نوجوانوں کو ہم سمجھاتے رہے، جھنجھوڑتے اور پکارتے رہے کہ’ ’ہمدردی کے زہر میں لپٹی دشمن کی یہ سرپرستی درحقیقت غلامی کا شکنجہ ہے۔ یہاں گھر میں اپنے بھائیوں سے لڑ جھگڑ کر حقوق لیے جا سکتے ہیں، لیکن دشمن کی نام نہاد ہمدردی کے نام پر حاصل کردہ غلامی سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہو گا۔‘‘ اور آج صورت حال یہ ہے کہ نفرت کا الائو بھڑکانے والے نام نہاد آزادی کے علم بردار مجیب اور ان کی بیٹی حسینہ واجد کے ہاتھوں، اسی سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش کا بال بال غلامی کی زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے۔ حکومت تو تبدیل کر لی گئی ہے، لیکن معاشی، تہذیبی، سیاسی، جغرافیائی اور دفاعی آزادی کے حصول کے لیے بنگلہ دیشی بھائیوں کو ابھی کئی دریا عبور کرنے ہوں گے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فریم ورک میں حقوق کا حصول دوچار سال میں ممکن نظر آتا تھا، لیکن اب نصف صدی بھسم کرنے کے بعد بھی بے بسی کا نیا شکنجہ، وہاں کے قومی وجود کو گرفت میں لیے سب کے سامنے ہے۔

وہ نوجوان جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہیں، یا آزاد کشمیر اور بیرون پاک و ہند میں ہیں، انھیں خوب اچھی طرح یہ بات جان لینی چاہیے کہ ’خود مختار کشمیر‘ انڈیا کی دوسری دفاعی لائن ہے، بنگلہ دیش سے بھی زیادہ بے بس سیاسی وجود۔ انڈیا کے پالیسی سازوں کی یہ پوری کوشش رہی ہے کہ استصواب رائے (Plebiscite) نہ ہو، اور اگر بظاہر پیچھے ہٹنا پڑے تو ثالثی یا سودا بازی کرکے پورے کشمیر کو ’خودمختار‘ کا درجہ دیتے ہوئے، اپنی ایک باج گذار گماشتہ ریاست بنا لیا جائے، جیسے بھوٹان وغیرہ۔ اسی لیے بڑی تیزی سے مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام پر دن رات کام کیا جا رہا ہے، اور آبادی کا تناسب بڑی تیزی سے بگاڑا جا رہا ہے۔

اس پس منظر میں ہم دعوت دیتے ہیں کہ نئی نسل ہوش کا دامن تھام کر، دشمن سے ملنے والی چمک کو روشنی نہیں بلکہ ظلمت کی سیاہی سمجھ کر جان ومال اور صلاحیت لگائے۔ جو مسائل ہیں، انھیں پاکستانی فریم ورک میں حل کرنا آسان بھی ہوگا اور فطری ومعقول بھی۔ کسی چیز میں کمی بیشی ممکن ہے، لیکن بہرحال پاکستان ہی نے کشمیری بھائیوں کا ساتھ دیا، جب کہ دشمن نے ۱۹۴۷ء سے پہلے  اور ۱۹۴۷ء کے بعد بھی جان ومال کی قربانی لی ہے۔ اس لیے دور اندیشی اور سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بنگلہ دیش کے تجربے سے سبق سیکھیں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کے طے شدہ فارمولے ہی پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔

  • آزاد کشمیر حکومت کا بنیادی کردار: آزاد کشمیر حکومت کا بنیادی مقصد، استصواب رائے کے لیے عوامی رائے کو منظم اور تحریک آزادیٔ کشمیر کی آبیاری کرنا تھا۔ مگر مظفرآباد حکومت کے کردار کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ گنتی کی دو تین قابلِ قدر مثالوں کو چھوڑ کر، عملاً حکومت آزاد کشمیر، سیاست دانوں کی میوزیکل چیئر کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ چند لوگوں کا ایک گروہ ہے جو پارٹیاں بدل بدل کر حکومت کرتا ہے۔ یہ افسوس ناک صورتِ حال تبدیل ہونی چاہیے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آزاد کشمیر حکومت، محض آزاد علاقے کی حکومت نہیں ہے، بلکہ پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے، بدقسمتی سے جو اپنا کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ اس کی منصبی ذمہ داریوں کا ادراک اور اس کے اصل کردار کا احیا وقت کی ضرورت ہے۔

آزاد کشمیر میں خواندگی کی سطح، پاکستان کے کسی بھی صوبے سے بلند تر ہے۔ مگر حکومت آزاد کشمیر کی بے سمتی کا یہ نتیجہ ہے کہ ان پڑھے لکھے لوگوں میں اپنے محکوم کشمیری بھائیوں کے لیے دکھ درد کے احساس کی وہ کسک ایک تحریک کی صورت میں دکھائی نہیں دیتی، کہ جو یہاں پیدا ہونی چاہیے تھی، اور اسے مجبور بھائیوں کی آواز بن جانا چاہیے تھا۔

پھر آزاد کشمیر حکومت نے کم و بیش ایسا رویہ اختیار کیا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح کے پروگراموں کو پروان چڑھانے کے لیے شب و روز کوششیں کرنے کے بجائے ذاتی اور گروہی مفاد کو زندگی کی کامیابی سمجھ لیا ہے۔ اس رویے کو تبدیل کرنے کے لیے کشمیری اہلِ اقتدار کو اپنا طرز عمل بدلنا چاہیے اور یہ جو وقفے وقفے سے یہاں پر بظاہر چند مطالبات کے لیے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس کی اصل بنیاد کو سمجھنا اور اس کے حل کے لیے بامعنی کوششیں کرنی چاہئیں۔ محض نوجوانوں کی پکڑدھکڑ، حکومت آزاد کشمیر کی بے عملی کا جواب نہیں۔ ایسا مریضانہ رویہ دشمن کے مقاصد پورا کرنے کے لیے زرخیز زمین تیار کرتا ہے اور قومی مفاد کو بربادی کی تصویر بنانا ہے۔

  • پارلیمانی کشمیر کمیٹی کا مسئلہ: پاکستانی پارلیمنٹ کی ’کشمیر کمیٹی‘ ہمیشہ سے ایک معما رہی ہے سمجھنے اور سمجھانے کا۔ ایک طویل مدت سے اس کے سربراہ منتخب نمائندے ہی چلے آ رہے ہیں۔ لیکن بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ نواب زادہ نصراللہ خاں صاحب کی مثال کو چھوڑ کر کبھی یہ کمیٹی متحرک اور منصبی ذمہ داریاں ادا کرتی دکھائی نہیں دی۔ بلاشبہ کمیٹی کے سربراہ کو مراعات اور پروٹوکول کی تمام بیساکھیاں تو میسر ہوتی آئی ہیں،لیکن ۹لاکھ مسلح فوجیوں کے زیر تسلط دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تڑپتے، سسکتے اور خوف و درندگی میں محکومانہ زندگی گزارتے مظلوموں کے جسم کو ڈسنے والے سانپ کے زہر کا تریاق نظر نہیں آیا۔ مایوسی کے اندھیروں میں اُمیدوں کے ٹمٹماتے چراغوں کو روشن کرنے والے کشمیری بھائیوں کی ابلاغی اور سفارتی دست گیری کرنے میں، اگر کشمیر کمیٹی نے کچھ کام کیا ہے تو اسے ضرور سامنے آنا چاہیے اور جنھوں نے وقت اور وسائل ضائع کرکے بے نوائوں کی اُمیدوں کے چراغ گل کیے ہیں، ان کا سخت احتساب ہونا چاہیے۔ چند ملکوں کا سیاحتی دورہ اور خانہ پری کے لیے چند نام نہاد سیمینار منعقد کرنا، کشمیر کمیٹی کے دائرہ کار اور چارٹر سے کوئی نسبت نہیں رکھتے۔
  • مقتدر حلقوں کی فہم سے بالاتر پالیسی: پاکستان کی مسلح افواج کی تشکیل قوم کے آئینی فیصلے کے نتیجے میں ہوئی ہے اور وہ آئین ہی کے تابع رہ کر اپنے فرض منصبی کو انجام دینے کی پابند ہیں۔ بلاشبہ دفاعِ پاکستان میں مسلح افواج کے غازیوں اور شہیدوں کی لازوال قربانیاں قدم قدم پر عظمت کے نشان بلند کیے ہوئے ہیں۔

تاریخ میں بہت زیادہ دور جانے کے بجائے ہم اس المیے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، جس نے بعض ا وقات کھلنڈرے پن سے مسئلہ کشمیر اور جدوجہدِ آزادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جس طرح کہ مطلق العنان حاکم جنرل پرویز مشرف نے کشمیر میں ۷۶۷کلومیٹر طویل کنٹرول لائن پر باڑ لگانے کے لیے انڈیا کو یک طرفہ سہولت دی۔ انڈیا نے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان بجلی سے لیس خاردار تاروں کی باڑ نصب کرکے اس میں بجلی کی ہائی وولٹیج رو دوڑائی ہے، ساتھ ساتھ باردوی سرنگیں بچھائی گئی ہیں، اور جس جگہ باڑ نہیں لگ سکتی، وہاں پر لیزر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس باڑ کو لگانے کی اجازت دینے کا کوئی جواز نہیں تھا کہ بطور سرحد اسے دونوں ملک تسلیم نہیں کرتے، مگر یک طرفہ انڈیا کو سہولت دینا کسی بھی اصول اور قاعدے کے مطابق معقول حرکت نہیں تھی۔ پھر انھوں نے ’آؤٹ آف باکس‘ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ حالانکہ پاکستان کے کسی بھی حکمران کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کشمیر کے عوام کو نظرانداز کرکے کوئی ایسا قدم اُٹھائے، جو ہمارے اصولی اور بین الاقوامی طے شدہ موقف سے ٹکراتا ہو۔

اسی طرح فروری ۲۰۲۱ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے اچانک فوجی کمانڈروں کی سطح پر مذاکرات کیے۔ پھر دو ماہ بعد چند صحافیوں کو کھانے پر بلا کر یہ کہا: ’’ہم بیک ڈور مذاکرات کر رہے ہیں۔ ہمیں ماضی بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے‘‘۔ ان چیزوں کو ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ بھی کہنا شروع کیا۔ یہ سب وہ چیزیں تھیں جن سے حکومت اور قوم دونوں بے خبر تھے۔ان اقدامات نے پاکستان کے دفاعی دبدبے (deterrence) کو سخت نقصان پہنچایا اور دشمن کے حوصلے بلند کیے اور اپنے حقِ خودارادیت کے لیے کوشاں تمام متعلقہ حلقوں کو مایوس کیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی سوچ کی برملا اور واضح الفاظ میں نفی کی جانی چاہیے، تاریخ اور قوم کے موقف کو روندنے کے ہرعمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔

  • حکومت پاکستان سے گزارشات: آج مقبوضہ کشمیر پر خوف کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اس قبرستان کی سی خاموشی کا ایک سبب پاکستان کی مختلف حکومتوں، وزارتوں، ترجمانوں اور ذمہ دار افراد کے عاجلانہ اور غیرذمہ دارانہ بیانات ہیں۔

۵؍اگست۲۰۱۹ء کو انڈیا کی جانب سے آرٹیکل ۳۷۰اور ۳۵-اے کی یک طرفہ  منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات نے تیزی سے پلٹا کھایا۔ ’نسل پرست ہندوتوا‘ نے اپنی سرپرست آرایس ایس کی نگرانی میں یہ قدم کسی الگ تھلگ عمل کے لیے نہیں اٹھایا تھا، بلکہ اس کے ساتھ باقاعدہ سلسلہ وار اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔ جن کے مطابق:

  • مسلمانوں کو ’گھرواپسی‘ کے نام پر مرتد کرنا یا پھر اس قدر دبا دینا کہ وہ علامتی مسلمان رہیں، اور پھر ایک دو نسل بعد عملاً اسلام سے لاتعلق ہو جائیں۔
  • خطے میں مسلم آبادی، اسلامی ثقافت اور اسلامی پہچان سے دست بردار ہو جائیں یا اس سمت دھکیلا جا سکے۔ اس طرح آبادی کو گھٹا کر ہندو آبادی کو بڑھایا جائے۔
  • تعلیمی سطح پر اردو کا گلا گھونٹ کر نئی نسل کو اسلام کے علمی و تہذیبی ورثے سے کاٹ دیا جائے۔
  • میڈیا اور اخبارات پر ایسی پابندیاں عائد کی جائیں کہ آزادی کی ہر آواز کو خاموش کر دیا جائے اور دہلی حکومت کے اشارے پر کام کرنے والے میڈیا مراکز کو کشمیر کی فضائوں پہ  مکمل طور پر حاوی کر دیا جائے۔
  • یہاں سے مظلومیت کی آہوں کو باہر آزاد دُنیا میں جانے سے روک دیاجائے۔
  • مسجدوں، مزاروں اور قبرستانوں پر کنٹرول بڑھا کر عوام کو مجتمع ہونے سے روکا جائے۔
  • ہر مزاحمتی آواز کو کچل دیا جائے، یا پھر حددرجہ خوف زدہ کر دیا جائے۔ خاص طور پر دینی تنظیموں کو پابندیوں سے بے بس کر دیا جائے۔
  • اسکولوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں میں آزادی پسند اساتذہ پر کڑی نظر رکھتے ہوئے انھیں برطرف کر دیا جائے یا پھر زبان بندی پہ مجبور کیا جائے۔
  • بیرون ممالک زیرتعلیم کشمیری طلبہ کے اہل خانہ کو خوف زدہ کرکے ان کی جائیدادوں کو ہتھیایا جائے۔
  • باصلاحیت نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پکڑ کر دُور دراز جیلوں میں پھینک دیا جائے یا غائب کر دیا جائے، یا پھر شدید ظلم و تشدد کا نشانہ بنا کر ہمیشہ کے لیے زبان بندی کر دی جائے۔
  • پاکستان کو سفارتی دبائو میں لایا جائے، اور آزاد کشمیر میں بدامنی کے کسی بھی چھوٹے سے واقعے سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔

اس صورت حال میں حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام پر لازم ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے مظلوم بھائیوں کو یاد رکھتے ہوئے:

  • سفارتی کوششیں بامعنی بنائیں اور انھیں سوچ سمجھ کر تیز کریں۔
  • میڈیا اور سوشل میڈیا پر فعال حکمت عملی کے تحت پیش رفت کریں۔
  • سیاسی، دینی، سماجی، رفاعی اور ابلاغی تنظیمیں مظلوم کشمیری بھائیوں کی حمایت میں فعال کردار ادا کریں۔
  • قانون اور تحقیق کے میدان میں مربوط اقدامات کریں۔
  • اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ جدوجہد کرنے والوں کی اخلاقی تائید و حمایت کریں۔
  •  پاکستان میں امن وامان برقرار رکھنے اور ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہونے سے اجتناب کریں۔
  • حکومت اپنی سطح پر حزبِ اختلاف سے مکالمے کو آگے بڑھائے۔
  • مسلح افواج کی تمام کوششوں کا مرکز صرف اور صرف دفاع پاکستان ہو۔
  • اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کے علاوہ سامنے آنے والی کسی تجویز کے پھندے سے اپنے آپ کو بچائیں اور اس واحد تسلیم شدہ حل کے لیے پوری قوت جھونک دیں۔ سمجھ لینا چاہیے کہ نام نہاد ثالثی قسم کی تجویزیں اور ڈرائنگ روموں میں وضع کردہ فارمولے قومی خود کشی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو وقت تیزی سے گزرتا جائے گا اور کشمیر دوسرا اسپین بن کر رہ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت پاکستان، یہاں کے اہل حل و عقد اور خردمند اس المیے کا کردار بننا چاہتے ہیں؟