فروری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

فلسطینی موقف کی تائید اور عالمی میڈیا

افروز عالم ساحل | فروری ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

جب غزہ کی محصور فلسطینی سرزمین پر برستی گولیاں عارضی طور پر خاموش ہوئیں، ماہرین اور میڈیا ماہرین نے ترکیہ کے شہر استنبول میں جمع ہو کر فلسطینی موقف اور مقدمے کو تشکیل دینے کے لیے ایک واضح اپیل کی۔ چوتھے فلسطینی انٹرنیشنل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن فورم یعنی ’تواصُل‘ نے اُمید اور عزم کی علامت کے طور پر کام کیا، جس کا مقصد یہ امر یقینی بنانا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے ہونے والی تباہی عالمی سطح پر گفتگو کا اَٹوٹ حصہ بنی رہے۔

اس فورم نے دنیا بھر سے آوازوں کو اکٹھا کیا تاکہ فلسطینی موقف کو اُجاگر کیا جا سکے اور ان غلط معلومات کا مقابلہ کیا جا سکے، جو ان کی جدوجہد کی حقیقت کو دھندلا دیتی ہیں۔ ۱۸-۱۹ جنوری کو ’فلسطینی موقف: ایک نیا دور‘ کے موضوع کے تحت منعقدہ اس کانفرنس میں ۵۰ سے زائد ممالک سے ۷۵۰ سے زیادہ شرکاء نے شرکت کی، جن میں صحافی، مصنّفین، مدیران، نشریاتی ماہرین، فوٹوگرافر، فن کار اور ماہرینِ تعلیم شامل تھے۔ غزہ میں تباہی اور انسانی بحران کے پس منظر میں اس کانفرنس نے روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا دونوں کا استعمال کرتے ہوئے، فلسطینی موقف فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

افتتاحی تقریب کے دوران، ’تواصُل‘ کے سیکریٹری جنرل احمد الشیخ نے فلسطینیوں کی حالت زار  کی درست نمائندگی کی اشد ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے فلسطینیوں کو درپیش خوفناک حالات، – عشروں کے منظم جبر سے لے کر خوراک کی قلت، مسلسل بمباری اور نقل مکانی کی فوری ہولناکیوں تک – کی وضاحت کی۔ انھوں نے ان مظالم کو ’اسرائیلی نسل کشی‘ قرار دینے سے گریز نہیں کیا اور میڈیا ماہرین پر زور دیا کہ وہ سچائی کو اُجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں‘‘۔

الشیخ نے کہا:’’ہمیں فلسطینی مقصد کو روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے حمایت فراہم کرنی چاہیے۔ یہ ایک نئے دور میں انتہائی اہم ہے‘‘۔ انھوں نے فلسطینیوں کے عزم و استقلال کو سراہا، جو شدید مشکلات کے باوجود اپنے حقوق اور شناخت کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ کانفرنس کا ایک سنجیدہ لمحہ ان صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا تھا، جو اس خونیں جنگ کی رپورٹنگ کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یاد رہے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے اب تک غزہ میں ۲۲۰ سے زائد میڈیا پروفیشنلز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جو ان خطرات کی خوفناک یاد دہانی ہے، جن کا سامنا ان افراد کو ہوتا ہے جو مظالم کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کانفرنس میں ان صحافیوں کی تصاویر کی ایک جذباتی نمائش شامل تھی، جن میں سے کئی کو آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ذریعے متحرک کیا گیا، تاکہ ان کی آوازیں اور کہانیاں طاقت ور انداز میں گونج سکیں۔

  • کانفرنس سے حاصل کردہ سبق : فلسطینی صحافیوں کے اذیت ناک حالات سننا بذاتِ خود ایک سبق تھا کہ وہ اس جنگ کی کوریج کے دوران کس قدر بڑے خطرات کا سامنا کرتے ہیں، – خاص طور پر جب اسرائیلی قابض فوج صحافیوں کو براہِ راست نشانہ بنا رہی ہے۔ کچھ صحافیوں نے اپنے ایسے ساتھیوں کی کہانیاں بیان کیں، جو اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ یہ واقعات انتہائی دل دہلا دینے والے تھے، مگر ان واقعات کو بیان کرنے والوں کے جذبات حیرت انگیز طور پر مختلف تھے۔ ان کی آنکھوں میں موت کا کوئی خوف نظر نہیں آیا، بلکہ ایک غیرمتزلزل عزم دکھائی دیا، کہ وہ خطرات کے باوجود سچائی کو بیان کرتے رہیں گے۔ کانفرنس نے عرب اور بین الاقوامی صحافیوں کی اپنے فلسطینی ساتھیوں کے لیے ذمہ داریوں پر بھی روشنی ڈالی، اور اس نئے دور میں فلسطینی بیانیے کی حمایت اور اسے بلند کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون اور یک جہتی کی ضرورت پر زور دیا۔

کانفرنس مباحث کے دوران ۱۲ خصوصی ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا، جن میں فلسطینی بیانیے کے نئے دور کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی بحث کی گئی۔ ایک خاص طور پر مفید ورکشاپ بعنوان ’فلسطینی بیانیے کی ترقی میں جدید ڈیجیٹل ٹکنالوجیز کا استعمال‘ تمام صحافیوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی۔ ایک اور سیشن میں ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکا اور لاطینی امریکا میں غزہ کی کوریج پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس میں فلسطینی صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو درپیش چیلنجوں، ان کے حقوق اور اسرائیلی قبضے کے تحت درپیش رکاوٹوں کو بھی اُجاگر کیا گیا۔

  • تواصُل فورم: یہ فورم ایک دہائی پر محیط جدوجہد کے ذریعے فلسطینی آواز کو بلند کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران، اس نے متعدد اقدامات کیے، جن میں خصوصی میڈیا سیمینار، ورکشاپس اور مشاورتی نشستیں شامل ہیں، جو فلسطینی مسائل پر رپورٹنگ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ترتیب دی گئیں۔ ’تواصُل‘ کی دو سالہ آن لائن مہمات اسرائیلی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے دنیا بھر کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اور سرگرم کارکنوں کو شامل کرتی ہیں۔ یہ تنظیم فلسطینی صحافیوں کو پیشہ ورانہ میڈیا تربیت بھی فراہم کرتی ہے، تاکہ وہ مؤثر طریقے سے اپنے بیانیے کو پیش کر سکیں اور عوامی رائے پر اثر ڈال سکیں۔

 تنظیم کے چیلنجوں اور کامیابیوں پر ’تواصُل‘ کے ڈائرکٹر بلال خلیل نے روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا:’’گذشتہ گیارہ برسوں سے ہم صحافیوں اور اداروں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ فلسطینی مسئلے کو درست طور پر اُجاگر کریں‘‘۔انھوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ: دنیا بھر کے میڈیا آؤٹ لیٹس، بشمول بھارت، فلسطین کے بارے میں سچائی کی رپورٹنگ کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں گے۔ انھوں نے غزہ اور فلسطینی مسئلے پر مستقل اور درست رپورٹنگ کرنے والے آئوٹ لیٹس کی تعریف کی۔ فلسطینی جدوجہد کے تسلسل کے بارے میں انھوں نے کہا کہ فلسطین پر قبضہ ۷۷ سال سے جاری ہے، اور فلسطینی عوام کی جدوجہد آج بھی جاری ہے، جو ایک صدی سے زائد عرصے کی مزاحمت کا مظہر ہے۔ انھوں نے خاص طور پرکہا:’’فلسطینی مسئلہ صرف ایک انسانی بحران نہیں، جہاں ایک قوم کو زبردستی بے گھر کیا گیا اور وہ مدد کی محتاج ہے، بلکہ یہ ان لوگوں کی جدوجہد ہے جو اپنی زمین پر آزادی اور عزّت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔

 انھوں نے مزید کہا: ’’جب وہ اپنی آزادی حاصل کر لیں گے، تو وہ دنیا بھر میں ضرورت مندوں کی مدد کریں گے۔ لہٰذا، میں بین الاقوامی میڈیا سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں، اور اُن بین الاقوامی انصاف اور انسانی حقوق کے فریم ورک کی حمایت کریں، جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں‘‘۔

  • مجوزہ اقدامات : کانفرنس کے اختتام پر کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا، جن میں شامل ہیں: • غزہ میں ۲۲۰ نوجوان صحافیوں کے لیے ایک تربیتی پروگرام، • ۲۰ صحافیوں کو صحافتی آلات کی فراہمی، • شراکت دار تنظیموں کے ساتھ مشترکہ تربیتی سیشن، اور • فلسطینی بیانیے کو عالمی سطح پر مضبوط کرنے کے لیے علاقائی اجلاس۔ • فلسطین کے لیے ’میڈیا کریٹیویٹی ایوارڈ‘ کا اجراءکیا گیا ہے۔ اس کے جیتنے والے کو پہلا انعام ۱۰ہزارڈالر، دوسرا انعام ۵ہزار ڈالر اور تیسرا انعام ۳ہزار ڈالر کا اعلان ۔
  • یک جہتی اور انسانی روح کی طاقت:استنبول میں طے شدہ گفتگو، حکمت عملیاں، اور تعاون دنیا بھر میں اثر ڈالنے کی توقع رکھتے ہیں، تاکہ میڈیا پروفیشنلز کو غلط معلومات کا مقابلہ کرنے اور ایک مستند فلسطینی بیانیہ پیش کرنے کے لیے بااختیار بنایا جا سکے۔

جو لوگ اس روح پرور اور انسانیت دوست کانفرنس میں شریک ہوئے، ان کے لیے یہ صرف ایک کانفرنس نہیں تھی، بلکہ یک جہتی کی طاقت اور انسانی روح کی پائیداری کا ایک عالمی ثبوت تھی۔ شرکا کے انہماک اور شوق و جذبے کو دیکھ کر ایک صحافی نے برملا کہا: ’’ہم صرف کہانیاں نہیں سنا رہے؛ ہم ایک ایسی تاریخ کو محفوظ کر رہے ہیں جو کبھی فراموش نہیں ہونی چاہیے‘‘۔