فروری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

ڈھاکہ: اسلام کے شاہینوں کے درمیان

واحد بشیر | فروری ۲۰۲۵ | تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

ہم ۳۰دسمبر ۲۰۲۴ء کو ڈھاکہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اُترے تو سب سے پہلے جس جنّتی روح کا تذکرہ ہوا، وہ عبدالمالک شہیدؒ تھے۔ ’اسلامی چھاترو شبر‘ کے امور خارجہ کے سیکریٹری ہمیں ائیرپورٹ پر لینے آئے تھے۔ باہر نکلتے ہی شہید عبدالمالک کا تذکرہ چھڑ گیا، اور بنگال کی سرزمین پر اسلام کے فداکاروں کے قافلۂ سخت جان کی ساری قربانیاں چمک اُٹھیں۔

’افسو‘ (IIFSO) کی مرکزی ٹیم کے ساتھ’ اسلامی چھاترو شبر‘ کے سالانہ اجتماع ارکان میں شرکت کے احساس سے ہی دل ایک عجیب کیفیت سے سرشار تھا۔ ’اسلامی چھاترو شبر‘ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اور منظم طلبہ تحریک ہے۔ سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی ۱۵سالہ ظالمانہ حکمرانی کے اختتام پر، ملک کی یہ سب سے بڑی طلبہ تنظیم پہلی بار کھلے میدان میں اپنا اجتماع ارکان منعقد کررہی تھی، جس میں کارکردگی کے جائزے اور تربیتی و فکری پروگراموں کے ساتھ تنظیم کے نئے مرکزی صدر (ناظم اعلیٰ) کا انتخاب بھی ہونا تھا۔ اجتماع ۳۱ دسمبر ۲۰۲۴ء کو منعقد ہونے جارہا تھا۔ ہم ائیرپورٹ سے نکل کر پرانے ڈھاکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں پر دسمبر کی ہوا میں سردی کا کوئی احساس نہیں تھا۔ ڈھاکہ بڑی گنجان آبادی والا شہر ہے، اور یہاں ٹریفک کے بڑے گمبھیر مسائل ہیں۔ سڑکوں پر لوگوں اور ٹریفک کا رش ایک جیسا ہے۔

میزبانوں نے ہمیں پرانے ڈھاکہ کے ایک ہوٹل میں ٹھیرایا۔ اس دن اگرچہ کوئی پروگرام نہیں تھا، لیکن ڈھاکہ یونی ورسٹی سے متصل تاریخی ریس کورس گراؤنڈ میں شبر کے اہتمام سے بنگلہ دیش میں پہلا سب سے بڑا ’سائنس فیسٹیول‘ اختتام پذیر ہورہا تھا۔ شام کو شبر کے دوست بیرونِ ملک سے آنے والے مندوبین کو فیسٹیول میں لے گئے۔ ’ابن الہیثم سائنس فیسٹیول‘ میں شام کے وقت بھی طلبہ کی ایک بڑی تعداد آرہی تھی۔ خوب صورت انداز میں ترتیب دی گئی اس سائنسی نمائش کو کئی دلچسپ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس میں طلبہ نے اپنے بنائے سائنسی پروجیکٹوں کے نمائشی مقابلے میں حصہ لیا۔ قرآن اور سائنس کے حوالے سے مسلم سائنس دانوں، علمی شخصیات اور فلسفیوں کے کام کو اجاگر کرنے والا ایک حصہ بھی نمائش میں شامل تھا۔ جدید سائنسی ایجادات اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI)کے حوالے سے معلومات سے بھرپور ایک حصہ نمائش میں شامل تھا۔ مختلف کمروں سے گزرنے کے بعد شرکاء آخری کمرے میں اسلامی چھاترو شبر کے تعارف پر مبنی، خوب صورتی سے سجائے گئے ایک کمرے سے گزرتے تھے۔ اس کمرے میں ایک قدِ آدم اسکرین لگی ہوئی تھی، جہاں شبر کے کام سے اتفاق کرنے والے طلبہ، تنظیم میں شمولیت کا فارم بھر سکتے تھے۔ اس دلچسپ دورے کے بعد ہم واپس ہوٹل آئے۔

ہوٹل میں اسلامی چھاترو شبر کے ناظم اعلیٰ منظور الاسلام ہم سے ملنے آئے۔ چہرے پر سجی مسکراہٹ، سادگی، محبت کا پیکر اور ملک کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم کے سربراہ سے ملنا ایک خوش گوار تجربہ تھا۔ ہم براہ راست کوئی بات نہیں کرپائے، شبر کے ساتھی نے ترجمانی کی ذمہ داری انجام دی۔ اسلامی چھاترو شبر کے مرکزی نظام پر ایک مختصر سی گفتگو ہوئی۔

اگلے روز ۳۱ دسمبر ۲۰۲۴ء کو اسلامی چھاترو شبر کا اجتماع ارکان، ۱۵ سال کے طویل وقفے کے بعد پہلی بار، ڈھاکہ کے تاریخی ریس کورس گراؤنڈ میں منعقد ہورہا تھا۔ ملک بھر سے آئے ہوئے تقریباً سات ہزار ارکان کے علاوہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مرکزی قیادت، دیگر دینی و سیاسی تنظیموں کے سربراہان اور حالیہ طلبہ انقلاب میں مرکزی کردار ادا کرنے والے طلبہ رہنما بھی موجود تھے۔

’اسلامی چھاترو شبر‘ کا سالانہ اجتماع ارکان جوش و ولولے کے ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند تھا۔ شبر کے ناظم اعلیٰ کی ولولہ انگیز تقریر سے اجتماع کا آغاز ہوا۔ چھاترو شبر کے سابق قائدین کی تقاریر، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر اور قیم جماعت نے بھی خطاب کیا۔ مختلف دینی، سیاسی تنظیموں کے قائدین کے ساتھ حالیہ طلبہ انقلاب کے رہنماؤں، بیرون ملک سے آنے والے طلبہ مندوبین کی تقاریر اجتماع ارکان کے پہلے حصے میں پیش ہوئیں۔ تقاریر کے دوران اسلامی چھاترو شبر کے ارکان کا جوش اور نظم و ضبط دیدنی تھا۔

ان تقاریر میں ایک منفرد تقریر، جماعت اسلامی کے ایک مقامی ذمہ دار کی تھی، جن کا بیٹا حالیہ طلبہ تحریک میں شہید ہوا تھا۔ اس تقریر کے دوران کوئی آنکھ نم ہوئے بغیر نہ رہ سکی، اور تقریر کا اہم حصہ تو وہ تھا جب شہید کے والد نے حسینہ واجد کے آمرانہ دور کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ ’’میرے بیٹے کی شہادت بنگلہ دیش میں اسلامی نظامِ حیات کے قیام کے لیے ہوئی ہے، اور بنگلہ دیش کی سرزمین کسی بھی صورت میں اسلام دشمنی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چاہے اس کے لیے کتنے ہی بیٹوں کا لہو درکار ہو‘‘۔

ظہر اور ظہرانے کے بعد اجتماع ارکان کا دوسرا سیشن منعقد ہوا جس میں اسلامی چھاترو شبر کے ناظم اعلیٰ کا انتخاب اور نتیجے کا اعلان ہوا۔ سال ۲۰۲۵ء کی میقات کے لیے ارکان نے زاہد الاسلام کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا۔ ان کی حلف برداری کا نظارہ بڑا رقت انگیز اور ایمان افروز تھا، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اسلامی تحریکات میں کوئی بھی عہدہ اپنے ساتھ ایک بھاری احساسِ ذمہ داری اور آخرت میں بازپُرس کا احساس دلاتا ہے، اور اسی لیے اسلامی تحریکات میں عہدہ ملنے پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ زاہدالاسلام پچھلی میقات میں شبر کے سیکریٹری جنرل کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کے بعد، اب وہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کررہے ہیں۔   نرم طبیعت کے حامل زاہد بھائی کے چہرے سے ذہانت مترشح ہے، ان شاء اللہ۔ وہ سخت ترین حالات کا کامیابی سے مقابلہ کرنے والی طلبہ تنظیم کو آزاد فضا میں نئی بلندیوں تک لے جائیں گے، اور بنگلہ دیش کی تعمیر و ترقی میں ’اسلامی چھاترو شبر‘ کے ارکان کی بہترین رہنمائی اور قیادت کریں گے۔

اسی روز، شام کے وقت جماعت اسلامی ڈھاکہ سٹی (شمالی) کے ذمہ داران نے غیرملکی مندوبین کے لیے عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ جماعت اسلامی نے ڈھاکہ شہر کو جنوبی اور شمالی، دو تنظیمی اکائیوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس خصوصی نشست میں جماعت اسلامی کے دعوتی اور سماجی کام کے بارے میں واقفیت حاصل ہوئی۔ ڈھاکہ جیسے بڑے شہرمیں جماعت اسلامی کی دعوتی و سماجی سرگرمیاں کافی دلچسپ ہیں۔ جماعت اسلامی دعوتی پروگرام کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے میں سرگرمِ عمل ہے۔ خدمت خلق کے ذریعے رضائے الہٰی کا حصول، عوام سے رابطہ، اور اس ضمن میں نئے تجربات کے حوالے سے ڈھاکہ شہر کی جماعت سے معاصر دینی تحریکات کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

ڈھاکہ ایک بہت بڑا شہر ہے، اور اس طرح کے شہروں میں گھریلو سروسز کا حصول ایک مشکل عمل ہے۔ پچھلے چھ سال استنبول میں رہ کر ہم نے جس چیز میں لوگوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا، وہ قابل اعتماد اور مناسب گھریلو سروسز ہیں۔ جماعت اسلامی ڈھاکہ نے ۲۰۱۹ء سے ایک متبادل دعوتی پروگرام کے تحت اس حوالے سے ایک منظم پروگرام کا آغاز کیا ہے، جو اعداد و شمار کے مطابق ایک کامیاب تجربہ رہا ہے۔ اس تجربے کے بارے میں دنیائے عرب، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے اسلامی تحریکات کے قائدین مزید تفصیلات جاننے کے لیے سوالات کررہے تھے۔ شاید اسی منظم دعوتی پروگرام، اور جماعت اسلامی ڈھاکہ کی باصلاحیت قیادت کا نتیجہ ہے کہ صرف ڈھاکہ شہر (شمالی) ضلع میں جماعت اسلامی کے گیارہ ہزار ارکان ہیں، جن میں پانچ ہزار خواتین ارکان شامل ہیں۔ ارکان کے علاوہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب کارکنان اور ۲۵لاکھ ہمدردان صرف شہر کے ایک حصے میں جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہیں۔

یہ اعداد و شمار سن کر اگلے روز ہم نے ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اور حالیہ انقلاب میں طلبہ قیادت سے ملاقات کی، اور عام طلبہ سے بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ ملائشیا اور انڈیا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ایک استاد سے میں نے بنگلہ دیش کی تازہ صورتِ حال کے بارے میں بات کی، اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے جماعت اسلامی کے حوالے سے کافی مثبت رائے کا اظہار کیا، حالانکہ وہ بی این پی کے حامی تھے۔ اسی طرح عام طلبہ سے بات کرتے ہوئے بھی بنگلہ دیشی سیاست میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا وزن محسوس ہوتا ہے۔ عوام میں اس مقبولیت کی وجہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی دعوتی و سماجی خدمات کے میدان میں منظم جدوجہد ہے۔

اگلے روز اسلامی چھاترو شبر اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مراکز کا دورہ اور مرکزی قیادتوں سے ملاقات کا پروگرام تھا۔ صبح سویرے پرانا پلٹن ڈھاکہ میں اسلامی چھاترو شبر کے مرکز پر پہنچے۔ شبر کا مرکزی دفتر پندرہ سال تک مقفل رہا ہے۔ اس تمام مدت میں چوبیس گھنٹے پولیس ناکہ اس دفتر کی نگرانی کرتا رہا ہے۔ پندرہ سال تک بند رہنے کے باوجود دفتر کی موجودہ حالت کو دیکھ کر بے پناہ مسرت ہوئی۔ اگرچہ دفتر کی عمارت بڑی نہیں ہے، اور عمارت کی وسعت بھی کم ہے، لیکن کام کے حوالے سے یہ چھوٹا سا دفتر اپنے اندر ایک دنیا سموئے ہوئے ہے، اور اسلامی تحریک کے ساتھ وابستہ لاکھوں نوجوانوں کی امیدوں کا مرکز ہے۔

اسلامی چھاترو شبر کے نئے سیکریٹری جنرل نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ اسلامی چھاترو شبر کے مرکزی نظام کے تحت۱۶ سیکریٹریز مرکز میں ناظم اعلیٰ اور سیکریٹری جنرل کی معاونت کرتے ہیں۔ نشست میں سبھی شعبوں کے ذمہ داران موجود تھے، جنھوں نے اپنے شخصی تعارف کے علاوہ اپنے شعبہ جات کا مختصر تعارف بھی کروایا۔ شعبہ ادب کے ناظم کے مطابق اس وقت اسلامی چھاترو شبر چودہ رسائل کی اشاعت کررہی ہے، جن میں سے ہر رسالے کے مخاطب مختلف قارئین ہیں۔ ان رسائل میں ایک رسالے کی تعدادِ اشاعت ماہانہ ایک لاکھ ہے۔ میڈیا کا شعبہ دو ادارے چلاتا ہے، جہاں میڈیا کی پروفیشنل تربیت فراہم کی جاتی ہے، اور میڈیا کے شعبے میں پوسٹ گریجویشن پروفیشنل ڈپلوما بھی کروایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں سو کے قریب آرٹ کے مراکز اسلامی چھاترو شبر کے زیرانتظام کام کر رہے ہیں۔ بزنس اسٹڈیز کے لیے ایک الگ سیکرٹری ہے، جس کا کام صرف اس شعبے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے اندر دعوتی و فکری کام کی نگرانی ہے۔ اس شعبے کے تحت ششماہی مجلّہ شائع ہوتا ہے، جو اسلامی اور معاصر معاشیات کے حوالے سے تحقیقی مقالوں کی اشاعت کرتا ہے۔ ملک بھر میں ۴۰ ہزار کتب خانے موجود ہیں، جن کی نگرانی مرکزی سطح کے ایک سیکرٹری کے ذمے ہے۔ انسانی وسائل کی بہترین تربیت و تنظیم کے حوالے سے مرکزی سطح کا ایک شعبہ قائم ہے۔ عالمی سطح پر ’گلوبل وارمنگ‘ اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے جن ممالک کو فوری خطرہ درپیش ہے، بنگلہ دیش ان میں سے ایک ملک ہے۔ اسلامی چھاترو شبر کا مرکزی سطح پر اس شعبے کے حوالے سے مختلف نوعیت کی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے ایک سیکرٹری موجود ہے۔

اسلامی چھاترو شبر کا یونٹ سطح سے لے کر مرکزی سطح تک کا نظام انتہائی منظم ہے۔ اس طلبہ تنظیم کے مثبت کام کو عام طلبہ بھی سراہتے ہیں۔ حالیہ دورے کے دوران ایک بنگالی صحافی سے گفتگو کا موقع ملا، جو اس وقت ایک غیرملکی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کے بقول بنگلہ دیشی معاشرے میں جس شعبے میں بھی کسی باصلاحیت نوجوان کی ضرورت پڑ جائے، اسلامی چھاترو شبر کے تربیت یافتہ افراد ایک بہترین انتخاب ہیں۔

اسلامی چھاترو شبر کے جتنے بھی ذمہ داران اور ارکان سے ملنے اور باہم گفتگو کا موقع ملا، دوچیزوں نے بہت زیادہ متاثر کیا: تقریباً سبھی افراد کو فکری اور نظریاتی طور پر بہت ہی پختہ پایا، اور سب کی اسلامی تحریک کے ساتھ وابستگی کا جذبہ قابلِ تقلید بھی ہے اور قابلِ رشک بھی۔ لیکن دوسری جس چیز نے بہت زیادہ متاثر کیا وہ ان نوجوانوں کا تعلیمی کیرئر اور پیشہ ورانہ میدان میں کامیابی ہے۔ مرکزی ذمہ داران اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اور اپنی صلاحیتوں سے تنظیم کے کام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں تقابلی طور پر، میرے مشاہدے کے مطابق، بہت آگے ہیں۔ برصغیر، عرب دنیا، ترکی اور یورپ میں اسلامی تحریکات کے ساتھ کام کرنے والی طلبہ تنظیموں کے لیے اسلامی چھاترو شبر کے کام میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ۱۵ سال تک عتاب کا شکار رہنے کے باوجود اس تنظیم کی جڑیں اکھڑنے کے بجائے مزید گہری ہوئی ہیں، اور بنگلہ دیشی طلبہ کو متاثر کرنے، اور اسلامی بنیادوں پر ان کی فکری و عملی تربیت کرنے میں یہ تنظیم سب سے نمایاں اور ممتاز ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اس تنظیم سے فارغ ہونے والے افراد، ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔

اسی دن ظہرانے پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مرکزی قیادت کے ساتھ جماعت کے مرکزی دفتر میں ملاقات طے تھی۔ ڈھاکہ کے پرانے علاقے میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی دفتر کی عمارت جس گلی میں واقع ہے، اس کے سامنے سے گزرنے والی سڑک پر روزنامہ سنگرام کا دفتر ہے۔ عمارت پر سنگرام کا بورڈ لگا ہوا دیکھا تو سرزمین بنگال میں جماعت اسلامی کے ممتاز قائد خرم مرادؒ کی کتاب لمحات  ذہن میں آئی۔ ڈھاکہ میں جماعت اسلامی کی دعوت کو مضبوط کرنے، اور سنگرام کے قیام و اشاعت میں ان کی کوششوں کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ محترم خرم مرادؒ نے ڈھاکہ میں جس پودے کو خونِ جگر سے سینچا ہے، وہ اسلام دشمنوں کے شرپسند عزائم کے باوجود ایک تناور درخت کی صورت میں کھڑا لہلہا رہا ہے۔ اسلامی چھاترو شبر کے مرکزی دفتر کی طرح جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا مرکزی دفتر بھی گذشتہ ۱۵ سال سے مقفل تھا، اور حسینہ واجد کے آمرانہ دور میں گذشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے کے دوران جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر ناقابلِ بیان ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ لیکن جماعت اسلامی صبر و استقامت کا ایک پہاڑ ثابت ہوئی۔ اس تنظیم کے وابستگان نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردی۔ عوامی لیگ کے سیاہ دورِ اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی جماعت پر قدغنیں ختم ہوئیں اور اس نے بنگلہ دیش میں لاکھوں لوگوں کے اجتماعات منعقد کیے، اور بنگلہ دیش میں بھرپور واپسی کی۔

جماعت کی نشست میں امیر و قیم جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ جماعت کے دیگر مرکزی ذمہ داران کو سننے کا موقع ملا۔ امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر شفیق الرحمان نے شرکاء کے تعارف کے فوراََ بعد ہر خطے کے طلبہ قائدین سے وہاں کی اسلامی تحریکات کے بارے میں مختصر سوالات کرکے بنیادی واقفیت حاصل کی۔ امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے بنگلہ دیش کی تازہ صورتِ حال کے بارے میں بیرونی مندوبین کو آگاہ کیا، اور ان کے سوالات کے جوابات دیئے۔

بنگلہ دیش کا حالیہ انقلاب نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے میں نئی امیدوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش ملک کی تیسری بڑی سیاسی و دینی قوت ہے۔ ماضی میں جماعت اسلامی ملک کی دو دیگر بڑی سیاسی جماعتوں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کے ساتھ حکومت سازی میں شامل رہی ہے۔ تاہم،عوامی لیگ نے بیرونی شہہ اور مدد سے حکومت پر قبضہ جمایا اور بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کو دھونس اور دباؤ سے کچلنے کا جو ظالمانہ کھیل کھیلا، الحمدللہ وہ عمل گذشتہ سال کی طلبہ تحریک کے نتیجے میں کیفرِ کردار کو پہنچ چکا ہے۔ حسینہ واجد کا ملک چھوڑ کر بھاگ جانا، اور انڈیا میں پناہ لے کر چھپ جانا، عوامی حلقوں میں عوامی لیگ کے خلاف غصے کو مزید ہوا دینے کا سبب بن گیا ہے۔

ڈھاکہ یونی ورسٹی کے اطراف میں، تاریخی کرزن ہال کی دیواریں، ڈھاکہ ریس کورس گراؤنڈ، جو سرزمین بنگال میں تاریخ ساز لمحوں کا شاہد میدان ہے، اور ڈھاکہ کی مشہور شاہرائیں اس انقلاب کی گواہی پیش کررہی ہیں جس کے لیے طالب علموں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ظلم و زیادتی، رائے عامہ کی آواز کو دبانے، اور عوامی حقوق پر ڈاکا ڈالنے والی طاقتوں کے خلاف نعرے ہر دیوار پر نظر آرہے ہیں، اور ہر طرف اس عوامی انقلاب کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ڈھاکہ شہر میں یاد گاری مقامات اور دیواروں پر شیخ مجیب کے مجسمے اور تصاویر یا تو ہٹائی جاچکی ہیں، یا ہٹائے نہ جانے والے مجسموں اور تصاویر کی شکل کو بگاڑ دیا گیا ہے، حتیٰ کہ ائیر پورٹ سے باہر آنے والی ایک ذیلی سڑک، جوائیر پورٹ کو عام شاہراہ سے ملاتی ہے، بنگلہ دیش کی پاکستان سے الگ ہونے والے واقعات اور شخصیات کی تصاویر کی یادگار پر مبنی ہے۔ یہاں سے باہر آکر ہماری نظروں نے جو پہلا منظر دیکھا، وہ اس یادگاری دیوار پر شیخ مجیب کی تصویر کے سر والے حصے کو مٹانے کی صورت میں دیکھنے والوں کو عبرت کا درس دیتا ہے۔ گویا انقلاب کی گونج ہرطرف سنائی دیتی ہے۔

بلاشبہ اس انقلاب کے پیچھے حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف لوگوں میں موجود عدم اطمینان اور غم و غصہ تھا اور یہ کسی ایک خاص سیاسی تنظیم کی کوششوں کے نتیجے میں آنے والا انقلاب نہیں ہے، بلکہ اس انقلاب کے پیچھے بنگلہ دیشی طلبہ کا احتجاج اور ان کی حمایت و پشت پناہی کرنے والے عوام ہیں۔ عوام کی ہمدردیاں بلاشبہ سیاسی طور پر بی این پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ ہیں۔

جماعت ایک طویل عرصے تک عتاب کی شکار رہی ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی پہلی صف کی ساری قیادت شہید کردی گئی ہے، اور موجودہ قیادت کو جھوٹے مقدموں کے ذریعے آئے روز تنگ کیا جاتا تھا۔ اس انقلاب نے جماعت اسلامی کے لیے عوام کے ساتھ رابطے کا راستہ کھول دیا ہے، اور تنظیم کو ایک فطری ماحول میں پنپنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ عوامی لیگ کا سیاست کے منظرنامے سے باہر ہوجانے کے ساتھ ہی جماعت اسلامی ملک کی دوسری بڑی تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مرکزی قیادت کے بقول حالات ابھی قومی انتخابات کے لیے سازگار نہیں ہیں، اور وہ عبوری حکومت کو مزید کچھ عرصہ تک حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات کے لیے ماحول سازگار ہو۔ اسی طرح ایک دوسرا اہم مسئلہ بیرونی مداخلت ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاست میں بیرونی طاقتوں کا اپنے مفادات کے لیے مداخلت کرنا سب کو دکھائی دے رہا ہے۔ نئے انقلاب کے بعد عوام اور عوام دوست سیاست پر یقین رکھنے والے لوگ اس بیرونی مداخلت سے بہت نالاں ہیں، اور وہ اس چیز کے مستقل حل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ظاہر ہے جماعت اسلامی بنگلہ دیش اس سلسلے میں چھوٹی بڑی سبھی سیاسی تنظیموں میں ہراوّل دستے کا کام انجام دے رہی ہے۔ اسی لیے اندرونی اور بیرونی سطح، ہر دو محاذ پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو بڑے چیلنج درپیش ہیں۔

بنگلہ دیش میں کامیاب عوامی تحریک کے بعد ایک نئی سیاسی تنظیم کے وجود میں آنے کی باتیں بھی کی جاتی ہیں۔ عوامی اور خاص حلقوں میں اس حوالے سے ایک بحث چھڑی ہوئی ہے، اور شاید ملک میں عام انتخابات کا عمل شروع ہونے سے پہلے ایک نئی سیاسی تنظیم وجود میں آجائے۔ اس تنظیم کو قائم کرنے والے طلبہ تحریک کے قائدین ہی ہوسکتے ہیں۔ عوامی سطح پر اس خیال کو سراہا جارہا ہے اور دانش ور حلقے بھی اس خیال کی تائید کررہے ہیں۔ اگر یہ سیاسی تنظیم وجود میں آتی ہے، اور عام انتخابات میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کرتی ہے، تو یہ بنگلہ دیش میں جمہوری نظام کے عمل کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

اس دورے میں ایک اہم تجربہ پروفیسر غلام اعظمؒ کے مرقد کی زیارت تھی۔ پروفیسر غلام اعظمؒ بنگلہ دیش کی دینی و سیاسی تحریک کے قدآور لیڈر تھے۔ اپنے زمانۂ طالب علمی سے ہی بڑے سرگرم رہنے والے اعظم صاحب کی تربیت ایک دینی گھرانے میں ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے وہ پہلے تبلیغی جماعت کے ساتھ شامل رہے، اور بعد میں جماعت اسلامی پاکستان اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائدین میں شمار ہوئے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو عوامی سطح پر متعارف کرانے میں ان کا کردار سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ ساری زندگی اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے جدوجہد کرنے والے اس قائد کو حسینہ واجد نے انتہائی پیرانہ سالی میں قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا، اور اس مردمجاہد نے بڑی استقامت کے ساتھ اس آزمائش کا مقابلہ کیا۔ ۳؍اکتوبر۲۰۱۴ء کو ۹۱سال کی عمر میں جیل میں ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ڈھاکہ کی بیت المکرم مسجد میں ان کے جنازے میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے شمولیت کی۔ اپنے گھر کے نزدیک ایک چھوٹے سے قبرستان میں پروفیسر غلام اعظم آسودئہ خاک ہیں۔ مسجد سے متصل اس آبائی قبرستان میں ان کے مرقد کی زیارت نے اس پُرعزم قائد کے ساتھ وابستگی کے جذبے کو مزید گہرائی بخشی، اور دل میں بے اختیار ان کے لیے تشکر کے احساسات موجزن ہوگئے، اور آنکھیں نم ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس خاص بندے پر رحمتوں کی بارش کرے، جس نے عمر کے آخری لمحات میں بھی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، اور تاریخ میں ایک درخشندہ مثال بن کر اُبھرا۔