فروری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

کشمیر اور خودارادیت کا اصول

ڈاکٹر غلام نبی فائی | فروری ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

اس تحریر کا مقصد قارئین کو بھارت یا پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھنے کی اپیل کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کے ضمیر، انسانی ہمدردی، اور اخلاقی حِس کو مخاطب کرنا ہے۔

حقِ خودارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر کا ایک بنیادی اصول ہے، جس کی توثیق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں کی گئی اور متعدد بین الاقوامی تنازعات کے حل میں اسے کئی بار استعمال کیا گیا ہے۔

  • حقِ خودارادیت کا تاریخی ارتقاء: یہ تصورِ حکومت فرانسیسی انقلاب کی بنیاد تھا۔ ۱۹۱۶ء میں امریکی صدر ولسن نے کہا تھا کہ خودارادیت محض ایک جملہ نہیں بلکہ عمل کا ایک لازمی اصول ہے اور اسے اپنے مشہور ۱۴ نکاتی چارٹر میں شامل کیا تھا، جس سے خودارادیت کے اصول کو نمایاں حیثیت ملی۔

۱۴؍اگست ۱۹۴۱ء کے اٹلانٹک چارٹر میں، جو برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے جاری کیا، تمام افراد یا قوموں کا اپنی حکومت کے انتخاب کا حق تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان قوموں کو خودمختار حقوق واپس دیے جائیں، جن سے زبردستی یہ حقوق چھین لیے گئے تھے۔

آخر کار، ۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ کے قیام نے خودارادیت کے اصول کو ایک نئی جہت دی اور اسے ان مقاصد میں شامل کیا گیا جنھیں اقوام متحدہ نے حاصل کرنے کا ہدف قرار دیا تھا، ساتھ ہی تمام اقوام کے مساوی حقوق کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۱.۲ میں مقاصد میں سے ایک درج ہے: ’’قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا، جو مساوی حقوق اور خودارادیت (Self-determination) کے اصول کے احترام پر مبنی ہو‘‘۔

  • اقوام متحدہ کی قراردادیں: ۱۹۵۲ء سے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے خودارادیت کے حق کو تسلیم کرنے والی متعدد قراردادیں منظور کیں۔ ان میں دو سب سے اہم قراردادیں ۱۴ دسمبر ۱۹۶۰ء کی قرارداد ۱۵۱۴ (XV) اور۲۴؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء کی قرارداد ۲۶۲۵(XXV) ہیں۔

۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشرے میں، خودارادیت کے حق کو تقریباً مکمل طور پر نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے عمل کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ قرارداد ۱۵۱۴ کا عنوان ہے: ’نوآبادیاتی ملکوں اور قوموں کو آزادی دینے کا اعلامیہ‘۔ اس میں اصول کا یہ بیان شامل ہے: ’’تمام قوموں کو خودارادیت (Self-determination)کا حق حاصل ہے؛ اس حق کے تحت وہ آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کرتی ہیں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آزادانہ طور پر آگے بڑھاتی ہیں‘‘۔

۱۹۷۰ء کی قرارداد ۲۶۲۵نے ایک دستاویز منظور کی جس کا عنوان تھا:’دوستانہ تعلقات اور ریاستوں کے درمیان تعاون سے متعلق بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ‘۔ ایک حصہ، جس کا عنوان ہے:’قوموں کے مساوی حقوق اور خودارادیت کا اصول‘، اعلامیہ میں کہا گیا: ’’اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج قوموں کے مساوی حقوق اور خودارادیت (Self-determination) کے اصول کے تحت، تمام قوموں کو حق حاصل ہے کہ وہ بیرونی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کریں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آگے بڑھائیں، اور ہر ریاست کا فرض ہے کہ اس حق کا احترام کرے، جیسا کہ چارٹر کی دفعات میں مقرر کیا گیا ہے‘‘۔

  • بین الاقوامی معاہدے : ۱۹۶۶ء میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ’شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے‘ (ICCPR) اور ’اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے‘ (ICESCR) کو منظور کیا۔ دونوں معاہدوں کے آرٹیکل ۱ میں بیان کیا گیا ہے:

’’۱.۱تمام قوموں کو خودارادیت کا حق حاصل ہے۔ اس حق کے تحت وہ آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کرتی ہیں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آزادانہ طور پر آگے بڑھاتی ہیں‘‘۔

یہ معاہدے ۱۹۷۶ء میں نافذ ہوئے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے برعکس، بین الاقوامی قانون کے تحت توثیق کرنے والی ریاستیں ان کی پابند ہیں، بشرطیکہ توثیق کے وقت کوئی تحفظات پیش نہ کیے گئے ہوں۔ بھارت نے ان دونوں معاہدوں کی توثیق ۱۰؍ اپریل ۱۹۷۹ء کو کی تھی۔

  • بین الاقوامی عدالت انصاف : بین الاقوامی عدالت انصاف نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے عمل پر کئی قراردادوں پر غور کرتے ہوئے نوٹ کیا:’’اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج غیرخودمختار علاقوں کے متعلق بین الاقوامی قانون کی بعد کی ترقی نے خودارادیت  (Self-determination) کے اصول کو ان سب پر لاگو کر دیا‘‘۔یہ رائے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے (De-colonization) کے عمل کے لیے خودارادیت کو بنیادی اصول کے طور پر قائم کرتی ہے۔
  • خود ارادیت اور مسئلہ کشمیر: جموں و کشمیر کے مخصوص معاملے پر خودارادیت کے اصول کے اطلاق کو اقوام متحدہ نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے۔ جب ۱۹۴۸ء میں مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تو انڈیا اور پاکستان دونوں نے اس اصول کی حمایت کی اور عالمی برادری کے سامنے اسے قبول کرنے کا عہد کیا۔ چونکہ انڈیا اور پاکستان کے خودمختار ریاستیں بننے کے وقت جموں و کشمیر ان میں سے کسی کا حصہ نہیں تھا، اس لیے دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کشمیری عوام کو غیر جانبدار حالات میں اور کسی بھی جانب سے دباؤ کے بغیر خودارادیت کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

یہ خیال کہ جموں و کشمیر کی حیثیت کا تنازعہ صرف عوام کی مرضی کے مطابق طے ہو سکتا ہے، جو آزاد اور غیر جانب دار استصواب رائے کے جمہوری طریقۂ کار سے معلوم ہو، پاکستان اور بھارت دونوں نے قبول کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کسی اختلاف کے بغیر اس کی حمایت کی اور اسے امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر جمہوری ریاستوں نے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

  • کشمیر اور امریکا کا کردار: جب  ۱۹۴۷ء- ۱۹۴۸ء میں مسئلہ کشمیر پیدا ہوا، تو امریکا نے یہ موقف اپنایا کہ: کشمیر کے مستقبل کی حیثیت کشمیری عوام کی خواہشات اور اُمنگوں کے مطابق طے کی جانی چاہیے‘‘۔ امریکا نے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر۴۷ کی سرپرستی کی، جو ۲۱؍ اپریل ۱۹۴۸ء کو منظور کی گئی، اور جو اس حقِ خود ارادیت کے غیر متنازعہ اور متفقہ اصول پر مبنی تھی۔

اس قرارداد کے بعد، امریکا ’اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان‘ (UNCIP) کے ایک اہم رکن کے طور پر اس موقف پر قائم رہا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بنیادی فارمولا کمیشن کی ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادوں میں شامل کیا گیا۔

امریکا اور برطانیہ نے روایتی طور پر استصواب رائے (Plebiscite)کے معاہدے کو مسئلہ حل کرنے کا واحد راستہ سمجھا ہے۔ انھوں نے سلامتی کونسل کی ان تمام قراردادوں کی سرپرستی کی، جن میں استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کی وابستگی اس وقت ظاہر ہوئی جب امریکی صدر ہیری ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے ذاتی اپیل کی کہ غیر مسلح ہونے کے تنازعے کو استصواب رائے کے منتظم، ایک ممتاز امریکی جنگی ہیرو، ایڈمرل چیسٹر نمٹز کے ذریعے ثالثی کے لیے پیش کیا جائے۔ انڈیا نے اس اپیل کو مسترد کر دیا اور بعد میں کسی امریکی کے استصواب رائے کے منتظم کے طور پر کام کرنے پر اعتراض کیا۔ ایک اور امریکی سینیٹر فرینک گراہم نے اقوام متحدہ کے نمائندے کے طور پر برصغیر کا دورہ کیا تاکہ استصواب رائے سے قبل کشمیر کو غیر مسلح کرنے پر بات چیت کریں۔ انڈیا نے ان کی تجاویز کو بھی مسترد کر دیا۔ یہ معاملہ صرف اس وقت متنازعہ ہوا جب انڈیا کو احساس ہوا کہ وہ استصوابِ رائے کے نتیجے میں تائید حاصل نہیں کرسکتا۔

  • کشمیر میں استصواب رائے پر اتفاقِ رائـے: اقوام متحدہ میں دیے گئے بیانات میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کئی امور پر اختلافات تھے، لیکن استصواب رائے کی تجویز پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ یہ بات ۲۸ جنوری ۱۹۴۸ء کو بلجیم کے سفیر فرنانڈ فاین لینگن ہووین، جو سلامتی کونسل کے صدر تھے، کے بیان سے واضح ہے۔ انھوں نے کہا:

… ہمارے پاس موجود دستاویزات فریقین کے درمیان درج ذیل تین نکات پر اتفاق ظاہر کرتی ہیں:

                        ۱-         یہ سوال کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت میں شامل ہوگی یا پاکستان میں، استصواب رائے کے ذریعے طے کیا جائے گا۔

                        ۲-         یہ استصواب رائے ایسے حالات میں کیا جانا چاہیے جو مکمل غیر جانبداری کو یقینی بنائیں۔

                        ۳-         لہٰذا، یہ استصواب رائے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں منعقد کیا جائے گا۔

  • اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انڈیا و پاکستان: اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان (UNCIP) نے، جو سلامتی کونسل نے قائم کیا تھا، انڈیا اور پاکستان کے ساتھ قریبی اور مسلسل مشاورت کے ذریعے تصفیے کی ٹھوس شرائط طے کیں۔ یہ شرائط دو قراردادوں میں واضح کی گئیں جو ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵جنوری ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئیں۔ ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء کی قرارداد کے حصہ تین میں معاہدے میں کہا گیا:

انڈیا اور پاکستان کی حکومتیں اس خواہش کا اعادہ کرتی ہیں کہ جموں و کشمیر ریاست کی آئندہ حیثیت عوام کی خواہشات کے مطابق طے کی جائے گی، اور اس مقصد کے لیے جنگ بندی معاہدے کی منظوری پر، دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مشاورت کرنے پر متفق ہیں تاکہ ایسے منصفانہ اور مساوی حالات کا تعین کیا جا سکے جن کے ذریعے آزادانہ اظہار رائے کو یقینی بنایا جا سکے۔

۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قرارداد میں یہ حکم دیا گیا کہ جموں و کشمیر ریاست میں تمام حکام استصواب رائے کے منتظم کے ساتھ تعاون کریں تاکہ کشمیری عوام کی آزادانہ رائے شماری کے لیے بنیادی حالات کو یقینی بنایا جا سکے، جس میں اظہار رائے اور اجتماع کے بنیادی سیاسی حقوق کا تحفظ شامل ہے۔

چونکہ دونوں حکومتوں نے کمیشن کی تجاویز کو رسمی طور پر قبول کر لیا تھا، اور یہ ایک بین الاقوامی معاہدے کے طور پر اتنی ہی پابند تھیں جتنی کہ ایک معاہدہ۔ فوری طور پر جنگ بندی نافذ کی گئی۔ کمیشن نے انڈیا اور پاکستانی افواج کو ریاست سے اس طرح نکالنے کے لیے منصوبہ بندی پر بات چیت شروع کی کہ کسی بھی فریق کو نقصان نہ ہو اور استصواب رائے کی آزادی کو خطرہ نہ ہو۔ اس دوران امریکی ایڈمرل چیسٹر نمٹز کو استصواب رائے کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر نامزد کیا گیا۔

  • استصواب رائے: انڈیا کی پیش کردہ تجویز: انڈیا کے مندوب سرگوپال سوامی آئینگر کے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ میں دیے گئے بیان میں یہ واضح کیا: ’’یہ سوال … کیا کشمیر ، انڈیا سے الحاق واپس لے، اور پاکستان سے الحاق کرے یا آزاد رہتے ہوئے اقوام متحدہ کا رکن بننے کا حق حاصل کرے ___ یہ سب ہم نے تسلیم کیا ہے کہ کشمیری عوام کے فیصلے سے طے ہو‘‘۔

مہاتما گاندھی نے ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اپنی حکومت کی پوزیشن ان الفاظ میں بیان کی: ’’اگر کشمیری عوام پاکستان کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی۔ انھیں اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے‘‘۔

بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ۲ جنوری ۱۹۵۲ء کو اعلان کیا:’’ہم نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا ہے اور قابلِ احترام وعدہ کیا ہے کہ ہم نے مسئلے کے حتمی حل کو کشمیری عوام کے فیصلے پر چھوڑ دیا ہے‘‘۔

  • استصواب رائے کے انتظامات: یہ بات واضح ہے کہ آج بھی استصواب رائے کے انعقاد کے طریقۂ کار میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیر کے لیے امن منصوبے پر عمل درآمد کے سلسلے میں کی گئی بات چیت کے دوران یہ مکمل طور پر طے کر دیا گیا تھا۔ دونوں طرف کی افواج کی مرحلہ وار واپسی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے استصواب رائے کے منتظم کا تقرر، ان کے اختیار میں انتخابی عمل کے ادارے کا قیام، اور اختیارات کا استعمال۔ یہ تمام امور فریقین کے علم میں ہیں۔ اگر ایک قابلِ اعتماد طریقے سے امن کا عمل شروع کیا جائے، تو محض معمولی تفصیلات پر بات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ مسئلے کے اندرونی مسائل نہیں، بلکہ حل کو نافذ کرنے کی خواہش اور عزم کی کمی ہے جس نے مسئلہ کشمیر پر طویل تعطل پیدا کیا ہے۔ یہ تعطل کشمیری عوام کے لیے ناقابلِ بیان اذیت اور انڈیا و پاکستان دونوں کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بنا ہے۔

جب ہم کشمیر سے افواج کی واپسی کی بات کر رہے ہیں، تو بھارت یہ الزام لگاتا ہے کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے کیونکہ اس نے ان قراردادوں کے تحت اپنی افواج کشمیر سے واپس نہیں بلائیں۔ یہ ہراعتبار سے غلط بات ہے۔

پروفیسر جوزف کوربل، جو ’اقوامِ متحدہ کمیشن برائے بھارت و پاکستان‘ کے پہلے چیئرمین تھے، انھوں نے اس سوال کا جواب اپنے مضمون ’نہرو، اقوامِ متحدہ اور کشمیر‘ میں دیا ہے، جو ۴مارچ ۱۹۵۷ء کو دی نیو لیڈر  میں شائع ہوا۔ جوزف کوربل لکھتے ہیں:

بھارتی مندوب کے مطابق: ’پاکستان نے اقوامِ متحدہ کمیشن کی قرارداد کے اس حصے پر عمل درآمد روک دیا جو استصوابِ رائے سے متعلق ہے، کیونکہ اس نے کشمیر سے اپنی افواج واپس بلانے کی تجویز پر عمل نہیں کیا‘۔ یہ سچ نہیں ہے۔ پاکستان سے اس وقت تک یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی افواج کشمیر سےواپس بلائے جب تک بھارت کے ساتھ افواج کی بیک وقت واپسی کے لیے کوئی متفقہ منصوبہ نہ ہو۔

  • خود ارادیت کے حق کے عوامل: اقوام متحدہ کے دو مطالعات نے خودارادیت کے حق کے لیے درکار عوامل کو درج کیا: ۱- ایک شناخت شدہ علاقہ ہونا چاہیے۔۲- خود حکمرانی کی تاریخ موجود ہو۔ ۳- عوام اپنے اردگرد کے لوگوں سے مختلف ہوں۔ ۴- عوام میں خود حکمرانی کی صلاحیت موجود ہو۔ ۵- عوام کو یہ حق خود حاصل کرنا چاہیے۔

ان تمام عوامل کے مطابق کشمیریوں کا خودارادیت کے حق کا دعویٰ غیرمعمولی طور پر مضبوط ہے۔ اس علاقے کی خود حکمرانی کی ایک طویل تاریخ ہے، جو نوآبادیاتی دور سے پہلے کی ہے۔ کشمیر نے کامیابی سے اپنی آزادی دوبارہ حاصل کی، جب اسے تیسری صدی قبل مسیح میں سکندراعظم کے دور میں اور ۱۶ویں اور ۱۷ویں صدی کے مغل دور میں زیر کیا گیا۔ کشمیر کی حدود کئی صدیوں سے واضح طور پر متعین ہیں اور دنیا کے نقشوں پر بھی واضح طور پر دکھائی گئی ہیں۔ کشمیر کا رقبہ تقریباً ۸۶ہزار مربع میل پر محیط ہے، جو برطانیہ سے کچھ بڑا اور بیلجیم، لکسمبرگ اور نیدرلینڈ کے مجموعی رقبے سے تین گنا بڑا ہے۔

کشمیری عوام کشمیری زبان بولتے ہیں، جو ہندی یا اردو سے مختلف ہے۔ ان کی ثقافت بھی ہر لحاظ سے علاقے کی دیگر ثقافتوں سے منفرد ہے - لوک کہانیاں، لباس، روایات، کھانے پینے کی اشیاء، یہاں تک کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء جیسے برتن، زیورات، خاص کشمیری انداز رکھتے ہیں۔ خاص طور پر کپڑے، کڑھائی اور قالین کشمیری ڈیزائن کے لیے مشہور ہیں۔

  • تنازعہ کشمیر کی نمایاں خصوصیات: کشمیر کی صورت حال میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو اسے دنیا بھر میں موجود دیگر انسانی حقوق کی افسوس ناک خلاف ورزیوں کے سبب منفرد بناتی ہیں:

             ۱-        یہ ایک ایسے علاقے میں موجود ہے جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے تحت ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں کیے گئے بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق، اس علاقے کی حیثیت عوام کے آزادانہ ووٹ کے ذریعے اقوام متحدہ کی نگرانی میں طے کی جانی ہے۔

            ۲-         یہ ایک ایسی حکومت کی جانب سے جبر کی نمائندگی کرتا ہے جو علیحدگی پسند یا علیحدگی کی تحریک کے خلاف نہیں بلکہ غیر ملکی قبضے کے خلاف بغاوت کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ قبضہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت ختم ہونے کی توقع تھی۔ کشمیریوں کو ’علیحدگی پسند‘ کہنا درست نہیں کیونکہ وہ کسی ایسے ملک سے الگ نہیں ہو رہے کہ جس کے ساتھ وہ کبھی شامل ہی نہیں ہوئے۔

            ۳-         اقوام متحدہ نے اس معاملے کو نظرانداز کیا ہے۔ اس بے پروائی نے انڈیا کو مکمل استثنیٰ کا احساس دیا ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے اصولوں کے اطلاق میں متعصبانہ رویہ رکھتی ہے۔

            ۴-         یہ اقوام متحدہ کے غیر فعال ہونے کا ایک افسوس ناک کیس ہے، جو ایک ایسی صورت حال کو حل کرنے سے قاصر ہے، جس پر اس نے متعدد قراردادیں منظور کیں اور اپنی موجودگی قائم کی۔ انڈیا اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا گروپ (UNMOGIP) اقوام متحدہ کے سب سے پرانے امن مشنوں میں سے ایک ہے۔ یہ فورس کشمیر میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی نگرانی کے لیے تعینات ہے۔

            ۵-         کشمیر واحد بین الاقوامی تنازع ہے جس کا حل خود فریقین – انڈیا اور پاکستان – نے تجویز کیا۔ یہ حل کہ کشمیری عوام خود فیصلہ کریں، انڈیا کی طرف سے تجویز کیا گیا، پاکستان نے اس کی حمایت کی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسے قبول کیا۔

            ۶-         کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جو تین ایٹمی ممالک – انڈیا، پاکستان اور چین – کی سرحدوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

  • کشمیر کی صورتِ حال: بین الاقوامی برادری نے بھارت کے کشمیر پر قبضے کو بغیر کسی مداخلت کے چھوڑ دیا ہے، حالانکہ اس قبضے کی قانونی حیثیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ تاہم، کسی بھی مرحلے پر کشمیری عوام نے اس قبضے کو کبھی قبول نہیں کیا۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی مخالفت کی تاریخ مشرقی یورپ کے ان ممالک کی مخالفت سے کسی طور کم نہیں جن پر کمیونسٹ روسی سلطنت کا غلبہ تھا۔ لیکن جہاں مشرقی یورپ کی عوامی بغاوت کو بین الاقوامی میڈیا نے اُجاگر کیا، وہیں کشمیر کی بغاوت دنیا کی نظر سے اوجھل رہی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر (UNHCHR) نے ۱۴ جون ۲۰۱۸ء اور ۸جولائی ۲۰۱۹ء کو ’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال‘ پر رپورٹس جاری کیں۔ ان رپورٹس میں انڈین قابض افواج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلی دستاویزات شامل ہیں۔ یہ ایک اہم قدم تھا جس سے کشمیری عوام پر انڈین فوج کے مظالم بین الاقوامی سطح پر سامنے آئے۔

رپورٹ میں انڈین حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کے خلاف جمہوری آزادیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات درج ہیں۔ اس میں متعدد ایسے مواقع کی تفصیلات دی گئی ہیں جہاں سخت قوانین کے استعمال نے انڈین فوج کو مکمل استثنیٰ فراہم کیا۔ رپورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استثنیٰ اور انصاف تک رسائی کا فقدان جموں و کشمیر میں کلیدی چیلنجز ہیں‘‘۔ مزید یہ کہ ’’کشمیر میں جبری گمشدگیوں کے لیے استثنیٰ برقرار ہے کیونکہ شکایات کی تحقیقات یا وادیٔ کشمیر اور جموں کے علاقوں میں مبینہ اجتماعی قبروں کے مقامات کی قابل اعتماد تفتیش کی طرف بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔

  • تنازعہ کشمیر کا انڈیا اور پاکستان پر اثر: اس مسئلے کے مسلسل موجود رہنے نے انڈیا اور پاکستان دونوں کو کمزور کیا ہے۔ یہ صورتِ حال گذشتہ صدی میں بھی ایک حقیقت تھی اور اکیسویں صدی کے ابھرتے ہوئے ماحول میں بھی یہی حقیقت برقرار ہے۔ امریکا، انڈیا کی اقتصادی ترقی پر خوشی کا اظہار کرتا ہے، جو انڈیا کو ایک طاقت کے طور پر اپنا مناسب کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ لیکن ایک سلگتے ہوئے مسئلے کے ساتھ یہ کردار محدود ہوسکتا ہے۔

انڈیا اپنے آپ کو عالمی برادری میں بڑا دیکھنا چاہتا ہے، لیکن ایک ملک متنازعہ سرحدوں کے ساتھ اپنی ساکھ اور اثر و رسوخ برقرار نہیں رکھ سکتا۔درحقیقت، کچھ باشعور مبصرین پہلے ہی بھارتی متوسط طبقے میں بڑھتی ہوئی اس آگاہی کو محسوس کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا مستقل طور پر پایا جانا انڈیا کو کمزور کرتا ہے۔ اسی طرح خود انڈیا میں ہمیشہ ایسے معقول عناصر موجود رہے ہیں، جنھوں نے کشمیر پر انڈیا کے جارحانہ رویے کے اخلاقی اور عملی پہلو پر سوال اٹھائے ہیں۔ تاہم، انھیں باہر سے بہت کم حمایت ملی ہے، جس کی وجہ سے وہ دبے رہے ہیں۔

انڈیا کی پالیسیوں کی ظاہری ناکامی، کشمیر میں قائم کی گئی شکست خوردہ حکومت اور وہاں ہونے والے نقصانات، جنھیں کشمیری عوام کو دبانے کے لیے زبردست قوت کے استعمال کے باوجود برداشت کرنا پڑا۔ – یہ سب چیزیں انڈیا میں، یہاں تک کہ اس کی فوج میں، مزید لوگوں کو یہ باور کرا رہی ہیں کہ یہ فائدہ مند نہیں ہے۔ لیکن یہ تعمیری رجحان اس وقت ختم ہو جائے گا اگر دنیا کی طاقتیں بھارت کی ہٹ دھرمی کو برداشت کرتی نظر آئیں اور خود انڈیا میں صحت مند رائے عامہ کو نظرانداز کریں۔

  • دوطرفہ مذاکرات ___ کوئی حل نہیں: جنوبی ایشیا کے ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ اُمید وابستہ کرنا: کشمیر تنازع کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، حقیقت پسندانہ نہیں۔

اس کے ساتھ ہی، آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ انڈیا، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان تین طرفہ مذاکرات ہی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا واحد راستہ ہیں۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی قیادت اس حقیقت کو تسلیم کرے گی کہ جموں و کشمیر کے عوام کی مکمل اور فعال شرکت کے بغیر کشمیر تنازع کا کوئی حل ممکن نہیں۔

  • لائن آف کنٹرول کی حقیقت: ایک غلط سمت متعین کرنے والی نشانی لائن آف کنٹرول (LoC) کے ’تقدس‘ کی بات ہے۔ یہ لائن اس وقت تک موجود ہے جب تک کہ وہ بین الاقوامی معاہدہ، جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان اقوام متحدہ کی مکمل حمایت کے ساتھ طے پایا تھا، مکمل طور پر عمل میں نہیں آتا۔ یہ لائن اصل میں ریاست کی غیر عسکری حیثیت اور اس کے مستقبل کے تعین کے لیے غیر جانب دارانہ کنٹرول کے تحت استصوابِ رائے کے انعقاد کے لیے ایک ’عارضی جنگ بندی لائن‘ کے طور پر رسمی شکل دی گئی تھی۔جب تک یہ لائن ریاست پر مسلط رہے گی، یہ وہاں کے لوگوں پر موت کا بھاری بوجھ ڈالتی رہے گی۔ یہ لوگوں کے گھروں کو تقسیم کر چکی ہے، اس نے خاندانوں کو جدا کر دیا ہے اور بدترین بات یہ ہے کہ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے ایک دیوار کا کام کرتی رہی ہے۔
  • آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵- اے کا خاتمہ: یہ حقیقت ہے کہ آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کا خاتمہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق پر حملہ اور جارحیت کا عمل تھا۔ ایسے اقدامات اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۹۱ (۱۹۵۱ء)، ۱۲۲ (۲۴جنوری ۱۹۵۷ء)،۱۲۳ (۲۱ فروری ۱۹۵۷ء) اور ۱۲۶ (۲دسمبر ۱۹۵۷ء) کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ان قراردادوں میں ریاست جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کے کسی بھی اقدام کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۱۲۲ واضح کرتی ہے کہ ’’آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی جنرل کونسل کی سفارش پر ایک آئینی اسمبلی کا انعقاد اور اس اسمبلی کے ذریعے ریاست کی مستقبل کی شکل اور الحاق کے بارے میں کیے گئے یا کیے جانے والے کسی بھی اقدام کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق ریاست کا فیصلہ نہیں سمجھا جائے گا‘‘۔

  • اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بیان : اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر انتونیو گوتریس نے ۸؍ اگست ۲۰۱۹ء کو پریس بریفنگ میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے یک طرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا:’’اقوام متحدہ کا اس خطے (جموں و کشمیر) پر موقف اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قابل اطلاق قراردادوں کے مطابق ہے‘‘۔
  • ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کے انڈین اقدامات: ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے انڈین حکومت نے اپنے غیر قانونی قبضے کے خلاف کسی بھی مزاحمت کو کچلنے کے لیے نئے جابرانہ اقدامات کیے ہیں۔ پہلے، انھوں نے انڈین دستور کے آرٹیکل ۳۷۰  اور ۳۵ -اے کو منسوخ کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر اپنے قانونی قبضے کی کسی بھی سابقہ شناخت کے نشانات کو مٹا دیا۔ انھوں نے مکمل فوجی لاک ڈاؤن نافذ کیا اور مکمل مواصلاتی بلیک آؤٹ مسلط کر دیا۔ ان احتجاجوں اور مزاحمت کو روکنے کے لیے جو ان اقدامات کے نتیجے میں متوقع تھے، ایک بے رحم مہم کے تحت انھوں نے سیاست دانوں، صحافیوں، اور سول سوسائٹی کے افراد کو گرفتار کر کے ہر قسم کی مخالفت کو دبانے کی کوشش کی۔
  • جموں و کشمیر کی حیثیت بدلنے کی کوشش: اس کے بعد، انڈین حکومت نے ایک منصوبہ بند سامراجی منصوبہ شروع کیا، جس کا مقصد کشمیر تنازع کی سیاسی نوعیت کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنا ہے۔ اس میں آبادیاتی تبدیلیاں، سیاسی اور انتظامی حربے شامل ہیں۔ حال ہی میں نئے ڈومیسائل قوانین کے ذریعے ان تبدیلیوں کو مستحکم کیا گیا، جن کے تحت جموں و کشمیر سے باہر کے لوگوں کو یہاں کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔ یہ پہلا قدم تھا تاکہ انھیں زمین خریدنے اور مقامی ملازمتوں کے لیے مقابلہ کرنے کا حق دیا جا سکے۔ ان یکطرفہ تبدیلیوں کے ذریعے اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ اس بین الاقوامی تنازع کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوششیں بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہیں۔
  • انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں: انڈیا کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) کے تازہ ترین اقدامات سیاسی طور پر جانب دار ہیں اور کشمیری عوام کی پُرامن آواز کو دبانے کی ایک کوشش ہیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (UAPA) کو بارہا انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے، انھیں گرفتار کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جو انڈین  فوج کے مظالم کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تازہ ترین شکار خرم پرویز ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر معروف انسانی حقوق کے کارکن ہیں اور یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے محافظین کے لیے خصوصی نمائندہ مس ماری لاولر نے ۲۳ نومبر ۲۰۲۱ء کو کہا: ’’وہ (خرم پرویز) دہشت گرد نہیں، بلکہ انسانی حقوق کے محافظ ہیں‘‘۔اسی قانون کے تحت دیگر متاثرین میں محمد یاسین ملک (چیئرمین، جے کے ایل ایف)، شبیر احمد شاہ (۳۵ سال سے زائد قید میں رہے)، مسرت عالم، آسیہ اندرابی، مسز صوفی فہمیدہ، اور مسز ناہید نسرین شامل ہیں۔

  • اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حیثیت: یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سات عشرے گزر چکے ہیں، لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کے لیے طے شدہ اصولی حل آج تک نافذ العمل نہیں ہو سکا۔ وقت کا گزرنا یا حقائق سے فرار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتا۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں کبھی غیر مؤثر نہیں ہو سکتیں یا تبدیل شدہ حالات کے سبب ختم نہیں ہو سکتیں۔ وقت کا گزرنا کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت جیسے ناقابل تنسیخ اصول کو ختم نہیں کرسکتا۔ اگر وقت گزرنے سے عالمی معاہدے ختم ہو جائیں، تو اقوام متحدہ کے چارٹر کو بھی اسی انجام سے دوچار ہونا چاہیے، جیسا کہ کشمیر پر قراردادوں کے ساتھ ہوا۔

۱۹۹۵ءمیں بین الاقوامی کمیشن برائے انصاف نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کو کبھی ختم نہیں کیا گیا اور انڈیا اور پاکستان کو تجویز دی کہ وہ ایک ایسا حل تلاش کریں جس کی ریاست کے عوام ریفرنڈم میں منظوری دیں۔

  • نقطۂ آغاز کیا ہونا چاہیے؟ : سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک منصفانہ اور دیرپا حل کے لیے نقطۂ آغاز کیا ہونا چاہیے؟ جواب واضح ہے:۱- اقوام متحدہ کا چارٹر، جو اپنے پہلے آرٹیکل میں ’برابر حقوق اور عوام کے حقِ خود ارادیت کے اصولوں کے احترام‘ کی بات کرتا ہے۔۲- انڈیا اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی معاہدے۔
    • سب سے پہلے، اس خیال کی انصاف اور معقولیت ناقابلِ انکار ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا مستقل حل عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور عوام کی مرضی کو جانچنے کا واحد طریقہ غیرجانب دارانہ رائے شماری ہے۔
    • دوسرا، کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے کوئی ناقابل عبور رکاوٹیں موجود نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ نے دنیا کے مشکل ترین حالات میں بھی انتخابی عمل کو اپنی نگرانی میں کامیابی سے انجام دیا ہے، جیسا کہ نمیبیا اور مشرقی تیمور کی مثالیں ہیں۔ یہ ممالک بالترتیب سات دہائیوں اور ۲۷  برسوں کے قبضے کے بعد آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
    • تیسرا، اقوام متحدہ کے نمائندے سر اوون ڈکسن نے سات عشرے قبل تصور پیش کیا تھا کہ ریفرنڈم کو اس طرح علاقائی بنایا جا سکتا ہے کہ ریاست کے مختلف علاقوں کو اپنی مرضی کے خلاف نتائج قبول نہ کرنے پڑیں۔
  • اقوام متحدہ کی ذمہ داری: کشمیری عوام اقوام متحدہ سے اب بھی امید رکھتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی سنگین صورتِ حال سلامتی کونسل کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا انحصار مستقل ارکان کے رویے اور پالیسیوں پر ہے، لیکن انھیں اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ مسئلے کے حل میں ناکامی پورے جنوبی ایشیائی خطے میں شدید بدامنی پیدا کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کا باعث بن سکتی ہے، جس کے عالمی سطح پر ناقابلِ تصور نتائج ہوں گے، کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کشمیری عوام ،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر انتونیو گوتریس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۹۱ کے تحت کشمیر کی صورتِ حال میں مداخلت کریں۔ کیونکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں منظم، جانتے بوجھتے اور انڈین حکومت کی سرپرستی میں کی جارہی ہیں۔ انڈیا نے کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کو قانونی حیثیت دی ہوئی ہے، اور اپنی قابض افواج کو گولی مارنے اور کشمیری عوام پر ظلم کرنے کا مکمل اختیار دے رکھا ہے۔

  • حل کی طرف پیش رفت: تنازع کو پاکستان اور آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کی قیادت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حل کی طرف لے جایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ انڈین حکومت ایک غیر متشدد ماحول پیدا کرے۔ یہ درج ذیل اقدامات کے ذریعے ممکن ہے:

۱- شہری آبادی کے خلاف تمام فوجی اور نیم فوجی کارروائیوں کا فوری خاتمہ۔

۲- شہروں اور دیہاتوں سے فوج کی واپسی۔

۳- بنکرز، واچ ٹاورز اور رکاوٹوں کا خاتمہ۔

۴- سیاسی قیدیوں کی رہائی۔

۵- آبادیاتی تبدیلی کے لیے بنائے گئے ڈومیسائل قانون کو منسوخ کرنا۔

۶- جابرانہ قوانین کو ختم کرنا۔

۷- پُرامن اجتماع، مظاہروں اور تنظیم سازی کے حقوق بحال کرنا۔

۸- حریت قیادت کو بیرون ملک سفر کی اجازت دینا۔

۹-کشمیری قیادت کو جموں و کشمیر کے دورے کے لیے ویزا دینا تاکہ امن عمل شروع کیا جاسکے۔

  • کیا کرنے کی ضرورت ہـے؟  : کشمیر کا حل فوری اور ناگزیر ہے۔ اس کی آبادی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت دنیا کے دیگر تنازعات سے زیادہ ہے۔ کشمیری عوام کے دُکھ درد ہیٹی کے عوام کے مصائب سے کم نہیں ہیں۔ جنوبی ایشیا کا ایٹمی بحران کوریا کے مقابلے میں کم خطرناک نہیں ہے۔ انڈین قابض افواج کی طرف سے کشمیری عوام پر کیے جانے والے اجتماعی جنسی تشدد بوسنیا سے کم ذلت آمیز نہیں ہیں۔

انڈیا کی بڑھتی ہوئی ضد اور بین الاقوامی وعدوں کو نظر انداز کرنے کے پیش نظر، حکومت پاکستان کو کشمیر کے معاملے کی وکالت کے لیے اپنی پالیسی کو اَزسرنو مؤثر بنانا ہوگا۔ اگر پاکستان اس معاملے پر کسی مضبوط اور مؤثر حکمت عملی کے بغیر سست روی کا مظاہرہ کرے گا تو اس کے نتیجے میں انڈیا صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتا رہے گا۔

پاکستان کی موجودہ داخلی سیاست اہلِ کشمیر کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ وہ اپنی کامیابی صرف ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان میں دیکھتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کشمیر کے مسئلے پر مکمل اتفاق رائے کے ساتھ نظر آئے۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کمزوری انڈیا کے شدت پسند قوم پرست میڈیا کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہوگی۔

یہ انتہائی ضروری ہے کہ حکومت پاکستان بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلے پر کانفرنسز اور سیمینار منعقد کرے تاکہ اس مسئلے پر تفصیل سے بحث ہو اور ایک ایسی حکمت عملی تیار کی جا سکے جو تین فریقین: بھارت، پاکستان، اور آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کے درمیان فعال اور مؤثر مذاکرات کی راہ ہموار کرے۔ اس سے کم کسی بھی کوشش سے مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکامی ہوگی، جو خطے کو ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ عالمی برادری کو اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ اس دیرینہ مسئلے کو حل کیے بغیر اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جانب سے ۱۴ جون ۲۰۱۸ء اور ۸جولائی ۲۰۱۹ء کو جاری کی گئی رپورٹس، جن میں ’کشمیر کی صورتِ حال‘ پر روشنی ڈالی گئی ہے، کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت پاکستان کو انسانی حقوق کونسل کے او آئی سی ارکان پر زور دینا چاہیے کہ وہ ان رپورٹس کی حمایت کریں اور آئندہ جنیوا میں جون-جولائی ۲۰۲۵ء اور ستمبر-اکتوبر ۲۰۲۵ء کے دوران ہونے والے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن کے قیام کے لیے مشترکہ او آئی سی قرارداد پیش کریں۔

ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن، چیئرمین ’جینوسائیڈ واچ‘، کی ۱۲ جنوری ۲۰۲۲ء کو امریکی کانگریس میں دی گئی گواہی اور ۱۹جنوری ۲۰۲۲ء کو کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو میں دیے گئے بیان کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی تیاری ہو رہی ہے، جو کشمیر اور آسام سے شروع ہو رہی ہے‘‘۔

حکومت پاکستان کو ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کو قائل کرنا چاہیے کہ وہ کشمیری تارکینِ وطن کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں، جیسے طلبہ، اسکالرز، کارکنان، صحافی اور کاروباری افراد۔ او آئی سی کے رکن ممالک ان ہنر مند اور پیشہ ور کشمیریوں کے لیے ویزا، ملازمتوں، اور نقل مکانی کی سہولت کو ادارہ جاتی انداز میں یقینی بنائیں، جن کے لیے مودی کے انڈیا میں رہنا ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔

او آئی سی کو انڈیا مقبوضہ کشمیر کے مستحق طلبہ کے لیے اپنے تمام رکن ممالک میں اسکالرشپ پروگرام شروع کرنا چاہیے۔

آخر میں، یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ کئی اہم دارالحکومتوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ’جنرل پرویز مشرف فارمولا‘ پر عمل کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ لیکن ایک نکتے کے علاوہ، یعنی فوجوں کی واپسی (کشمیر کو غیر فوجی بنانا تاکہ تنازعے کا حل نکل سکے)، دیگر تمام نکات یا تو سراسر جھوٹ ہیں یا انڈین موقف کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ ’مشرف فارمولا‘ ایک مکمل فریب (absolute fallacy) ہے۔

یہ اُمید کی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی کے رکن ممالک مسئلہ کشمیر کا واحد حل – حقِ خودارادیت کا وہ اَدھورا وعدہ، جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مسلسل قراردادوں نے دی ہے – کے حل کی طرف توجہ دیں گے۔