ڈاکٹر غلام نبی فائی


اس تحریر کا مقصد قارئین کو بھارت یا پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھنے کی اپیل کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کے ضمیر، انسانی ہمدردی، اور اخلاقی حِس کو مخاطب کرنا ہے۔

حقِ خودارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر کا ایک بنیادی اصول ہے، جس کی توثیق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں کی گئی اور متعدد بین الاقوامی تنازعات کے حل میں اسے کئی بار استعمال کیا گیا ہے۔

  • حقِ خودارادیت کا تاریخی ارتقاء: یہ تصورِ حکومت فرانسیسی انقلاب کی بنیاد تھا۔ ۱۹۱۶ء میں امریکی صدر ولسن نے کہا تھا کہ خودارادیت محض ایک جملہ نہیں بلکہ عمل کا ایک لازمی اصول ہے اور اسے اپنے مشہور ۱۴ نکاتی چارٹر میں شامل کیا تھا، جس سے خودارادیت کے اصول کو نمایاں حیثیت ملی۔

۱۴؍اگست ۱۹۴۱ء کے اٹلانٹک چارٹر میں، جو برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے جاری کیا، تمام افراد یا قوموں کا اپنی حکومت کے انتخاب کا حق تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان قوموں کو خودمختار حقوق واپس دیے جائیں، جن سے زبردستی یہ حقوق چھین لیے گئے تھے۔

آخر کار، ۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ کے قیام نے خودارادیت کے اصول کو ایک نئی جہت دی اور اسے ان مقاصد میں شامل کیا گیا جنھیں اقوام متحدہ نے حاصل کرنے کا ہدف قرار دیا تھا، ساتھ ہی تمام اقوام کے مساوی حقوق کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۱.۲ میں مقاصد میں سے ایک درج ہے: ’’قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا، جو مساوی حقوق اور خودارادیت (Self-determination) کے اصول کے احترام پر مبنی ہو‘‘۔

  • اقوام متحدہ کی قراردادیں: ۱۹۵۲ء سے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے خودارادیت کے حق کو تسلیم کرنے والی متعدد قراردادیں منظور کیں۔ ان میں دو سب سے اہم قراردادیں ۱۴ دسمبر ۱۹۶۰ء کی قرارداد ۱۵۱۴ (XV) اور۲۴؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء کی قرارداد ۲۶۲۵(XXV) ہیں۔

۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشرے میں، خودارادیت کے حق کو تقریباً مکمل طور پر نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے عمل کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ قرارداد ۱۵۱۴ کا عنوان ہے: ’نوآبادیاتی ملکوں اور قوموں کو آزادی دینے کا اعلامیہ‘۔ اس میں اصول کا یہ بیان شامل ہے: ’’تمام قوموں کو خودارادیت (Self-determination)کا حق حاصل ہے؛ اس حق کے تحت وہ آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کرتی ہیں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آزادانہ طور پر آگے بڑھاتی ہیں‘‘۔

۱۹۷۰ء کی قرارداد ۲۶۲۵نے ایک دستاویز منظور کی جس کا عنوان تھا:’دوستانہ تعلقات اور ریاستوں کے درمیان تعاون سے متعلق بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ‘۔ ایک حصہ، جس کا عنوان ہے:’قوموں کے مساوی حقوق اور خودارادیت کا اصول‘، اعلامیہ میں کہا گیا: ’’اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج قوموں کے مساوی حقوق اور خودارادیت (Self-determination) کے اصول کے تحت، تمام قوموں کو حق حاصل ہے کہ وہ بیرونی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کریں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آگے بڑھائیں، اور ہر ریاست کا فرض ہے کہ اس حق کا احترام کرے، جیسا کہ چارٹر کی دفعات میں مقرر کیا گیا ہے‘‘۔

  • بین الاقوامی معاہدے : ۱۹۶۶ء میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ’شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے‘ (ICCPR) اور ’اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے‘ (ICESCR) کو منظور کیا۔ دونوں معاہدوں کے آرٹیکل ۱ میں بیان کیا گیا ہے:

’’۱.۱تمام قوموں کو خودارادیت کا حق حاصل ہے۔ اس حق کے تحت وہ آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کرتی ہیں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آزادانہ طور پر آگے بڑھاتی ہیں‘‘۔

یہ معاہدے ۱۹۷۶ء میں نافذ ہوئے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے برعکس، بین الاقوامی قانون کے تحت توثیق کرنے والی ریاستیں ان کی پابند ہیں، بشرطیکہ توثیق کے وقت کوئی تحفظات پیش نہ کیے گئے ہوں۔ بھارت نے ان دونوں معاہدوں کی توثیق ۱۰؍ اپریل ۱۹۷۹ء کو کی تھی۔

  • بین الاقوامی عدالت انصاف : بین الاقوامی عدالت انصاف نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے عمل پر کئی قراردادوں پر غور کرتے ہوئے نوٹ کیا:’’اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج غیرخودمختار علاقوں کے متعلق بین الاقوامی قانون کی بعد کی ترقی نے خودارادیت  (Self-determination) کے اصول کو ان سب پر لاگو کر دیا‘‘۔یہ رائے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے (De-colonization) کے عمل کے لیے خودارادیت کو بنیادی اصول کے طور پر قائم کرتی ہے۔
  • خود ارادیت اور مسئلہ کشمیر: جموں و کشمیر کے مخصوص معاملے پر خودارادیت کے اصول کے اطلاق کو اقوام متحدہ نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے۔ جب ۱۹۴۸ء میں مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تو انڈیا اور پاکستان دونوں نے اس اصول کی حمایت کی اور عالمی برادری کے سامنے اسے قبول کرنے کا عہد کیا۔ چونکہ انڈیا اور پاکستان کے خودمختار ریاستیں بننے کے وقت جموں و کشمیر ان میں سے کسی کا حصہ نہیں تھا، اس لیے دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کشمیری عوام کو غیر جانبدار حالات میں اور کسی بھی جانب سے دباؤ کے بغیر خودارادیت کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

یہ خیال کہ جموں و کشمیر کی حیثیت کا تنازعہ صرف عوام کی مرضی کے مطابق طے ہو سکتا ہے، جو آزاد اور غیر جانب دار استصواب رائے کے جمہوری طریقۂ کار سے معلوم ہو، پاکستان اور بھارت دونوں نے قبول کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کسی اختلاف کے بغیر اس کی حمایت کی اور اسے امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر جمہوری ریاستوں نے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

  • کشمیر اور امریکا کا کردار: جب  ۱۹۴۷ء- ۱۹۴۸ء میں مسئلہ کشمیر پیدا ہوا، تو امریکا نے یہ موقف اپنایا کہ: کشمیر کے مستقبل کی حیثیت کشمیری عوام کی خواہشات اور اُمنگوں کے مطابق طے کی جانی چاہیے‘‘۔ امریکا نے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر۴۷ کی سرپرستی کی، جو ۲۱؍ اپریل ۱۹۴۸ء کو منظور کی گئی، اور جو اس حقِ خود ارادیت کے غیر متنازعہ اور متفقہ اصول پر مبنی تھی۔

اس قرارداد کے بعد، امریکا ’اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان‘ (UNCIP) کے ایک اہم رکن کے طور پر اس موقف پر قائم رہا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بنیادی فارمولا کمیشن کی ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادوں میں شامل کیا گیا۔

امریکا اور برطانیہ نے روایتی طور پر استصواب رائے (Plebiscite)کے معاہدے کو مسئلہ حل کرنے کا واحد راستہ سمجھا ہے۔ انھوں نے سلامتی کونسل کی ان تمام قراردادوں کی سرپرستی کی، جن میں استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کی وابستگی اس وقت ظاہر ہوئی جب امریکی صدر ہیری ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے ذاتی اپیل کی کہ غیر مسلح ہونے کے تنازعے کو استصواب رائے کے منتظم، ایک ممتاز امریکی جنگی ہیرو، ایڈمرل چیسٹر نمٹز کے ذریعے ثالثی کے لیے پیش کیا جائے۔ انڈیا نے اس اپیل کو مسترد کر دیا اور بعد میں کسی امریکی کے استصواب رائے کے منتظم کے طور پر کام کرنے پر اعتراض کیا۔ ایک اور امریکی سینیٹر فرینک گراہم نے اقوام متحدہ کے نمائندے کے طور پر برصغیر کا دورہ کیا تاکہ استصواب رائے سے قبل کشمیر کو غیر مسلح کرنے پر بات چیت کریں۔ انڈیا نے ان کی تجاویز کو بھی مسترد کر دیا۔ یہ معاملہ صرف اس وقت متنازعہ ہوا جب انڈیا کو احساس ہوا کہ وہ استصوابِ رائے کے نتیجے میں تائید حاصل نہیں کرسکتا۔

  • کشمیر میں استصواب رائے پر اتفاقِ رائـے: اقوام متحدہ میں دیے گئے بیانات میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کئی امور پر اختلافات تھے، لیکن استصواب رائے کی تجویز پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ یہ بات ۲۸ جنوری ۱۹۴۸ء کو بلجیم کے سفیر فرنانڈ فاین لینگن ہووین، جو سلامتی کونسل کے صدر تھے، کے بیان سے واضح ہے۔ انھوں نے کہا:

… ہمارے پاس موجود دستاویزات فریقین کے درمیان درج ذیل تین نکات پر اتفاق ظاہر کرتی ہیں:

                        ۱-         یہ سوال کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت میں شامل ہوگی یا پاکستان میں، استصواب رائے کے ذریعے طے کیا جائے گا۔

                        ۲-         یہ استصواب رائے ایسے حالات میں کیا جانا چاہیے جو مکمل غیر جانبداری کو یقینی بنائیں۔

                        ۳-         لہٰذا، یہ استصواب رائے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں منعقد کیا جائے گا۔

  • اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انڈیا و پاکستان: اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان (UNCIP) نے، جو سلامتی کونسل نے قائم کیا تھا، انڈیا اور پاکستان کے ساتھ قریبی اور مسلسل مشاورت کے ذریعے تصفیے کی ٹھوس شرائط طے کیں۔ یہ شرائط دو قراردادوں میں واضح کی گئیں جو ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵جنوری ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئیں۔ ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء کی قرارداد کے حصہ تین میں معاہدے میں کہا گیا:

انڈیا اور پاکستان کی حکومتیں اس خواہش کا اعادہ کرتی ہیں کہ جموں و کشمیر ریاست کی آئندہ حیثیت عوام کی خواہشات کے مطابق طے کی جائے گی، اور اس مقصد کے لیے جنگ بندی معاہدے کی منظوری پر، دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مشاورت کرنے پر متفق ہیں تاکہ ایسے منصفانہ اور مساوی حالات کا تعین کیا جا سکے جن کے ذریعے آزادانہ اظہار رائے کو یقینی بنایا جا سکے۔

۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قرارداد میں یہ حکم دیا گیا کہ جموں و کشمیر ریاست میں تمام حکام استصواب رائے کے منتظم کے ساتھ تعاون کریں تاکہ کشمیری عوام کی آزادانہ رائے شماری کے لیے بنیادی حالات کو یقینی بنایا جا سکے، جس میں اظہار رائے اور اجتماع کے بنیادی سیاسی حقوق کا تحفظ شامل ہے۔

چونکہ دونوں حکومتوں نے کمیشن کی تجاویز کو رسمی طور پر قبول کر لیا تھا، اور یہ ایک بین الاقوامی معاہدے کے طور پر اتنی ہی پابند تھیں جتنی کہ ایک معاہدہ۔ فوری طور پر جنگ بندی نافذ کی گئی۔ کمیشن نے انڈیا اور پاکستانی افواج کو ریاست سے اس طرح نکالنے کے لیے منصوبہ بندی پر بات چیت شروع کی کہ کسی بھی فریق کو نقصان نہ ہو اور استصواب رائے کی آزادی کو خطرہ نہ ہو۔ اس دوران امریکی ایڈمرل چیسٹر نمٹز کو استصواب رائے کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر نامزد کیا گیا۔

  • استصواب رائے: انڈیا کی پیش کردہ تجویز: انڈیا کے مندوب سرگوپال سوامی آئینگر کے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ میں دیے گئے بیان میں یہ واضح کیا: ’’یہ سوال … کیا کشمیر ، انڈیا سے الحاق واپس لے، اور پاکستان سے الحاق کرے یا آزاد رہتے ہوئے اقوام متحدہ کا رکن بننے کا حق حاصل کرے ___ یہ سب ہم نے تسلیم کیا ہے کہ کشمیری عوام کے فیصلے سے طے ہو‘‘۔

مہاتما گاندھی نے ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اپنی حکومت کی پوزیشن ان الفاظ میں بیان کی: ’’اگر کشمیری عوام پاکستان کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی۔ انھیں اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے‘‘۔

بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ۲ جنوری ۱۹۵۲ء کو اعلان کیا:’’ہم نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا ہے اور قابلِ احترام وعدہ کیا ہے کہ ہم نے مسئلے کے حتمی حل کو کشمیری عوام کے فیصلے پر چھوڑ دیا ہے‘‘۔

  • استصواب رائے کے انتظامات: یہ بات واضح ہے کہ آج بھی استصواب رائے کے انعقاد کے طریقۂ کار میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیر کے لیے امن منصوبے پر عمل درآمد کے سلسلے میں کی گئی بات چیت کے دوران یہ مکمل طور پر طے کر دیا گیا تھا۔ دونوں طرف کی افواج کی مرحلہ وار واپسی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے استصواب رائے کے منتظم کا تقرر، ان کے اختیار میں انتخابی عمل کے ادارے کا قیام، اور اختیارات کا استعمال۔ یہ تمام امور فریقین کے علم میں ہیں۔ اگر ایک قابلِ اعتماد طریقے سے امن کا عمل شروع کیا جائے، تو محض معمولی تفصیلات پر بات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ مسئلے کے اندرونی مسائل نہیں، بلکہ حل کو نافذ کرنے کی خواہش اور عزم کی کمی ہے جس نے مسئلہ کشمیر پر طویل تعطل پیدا کیا ہے۔ یہ تعطل کشمیری عوام کے لیے ناقابلِ بیان اذیت اور انڈیا و پاکستان دونوں کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بنا ہے۔

جب ہم کشمیر سے افواج کی واپسی کی بات کر رہے ہیں، تو بھارت یہ الزام لگاتا ہے کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے کیونکہ اس نے ان قراردادوں کے تحت اپنی افواج کشمیر سے واپس نہیں بلائیں۔ یہ ہراعتبار سے غلط بات ہے۔

پروفیسر جوزف کوربل، جو ’اقوامِ متحدہ کمیشن برائے بھارت و پاکستان‘ کے پہلے چیئرمین تھے، انھوں نے اس سوال کا جواب اپنے مضمون ’نہرو، اقوامِ متحدہ اور کشمیر‘ میں دیا ہے، جو ۴مارچ ۱۹۵۷ء کو دی نیو لیڈر  میں شائع ہوا۔ جوزف کوربل لکھتے ہیں:

بھارتی مندوب کے مطابق: ’پاکستان نے اقوامِ متحدہ کمیشن کی قرارداد کے اس حصے پر عمل درآمد روک دیا جو استصوابِ رائے سے متعلق ہے، کیونکہ اس نے کشمیر سے اپنی افواج واپس بلانے کی تجویز پر عمل نہیں کیا‘۔ یہ سچ نہیں ہے۔ پاکستان سے اس وقت تک یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی افواج کشمیر سےواپس بلائے جب تک بھارت کے ساتھ افواج کی بیک وقت واپسی کے لیے کوئی متفقہ منصوبہ نہ ہو۔

  • خود ارادیت کے حق کے عوامل: اقوام متحدہ کے دو مطالعات نے خودارادیت کے حق کے لیے درکار عوامل کو درج کیا: ۱- ایک شناخت شدہ علاقہ ہونا چاہیے۔۲- خود حکمرانی کی تاریخ موجود ہو۔ ۳- عوام اپنے اردگرد کے لوگوں سے مختلف ہوں۔ ۴- عوام میں خود حکمرانی کی صلاحیت موجود ہو۔ ۵- عوام کو یہ حق خود حاصل کرنا چاہیے۔

ان تمام عوامل کے مطابق کشمیریوں کا خودارادیت کے حق کا دعویٰ غیرمعمولی طور پر مضبوط ہے۔ اس علاقے کی خود حکمرانی کی ایک طویل تاریخ ہے، جو نوآبادیاتی دور سے پہلے کی ہے۔ کشمیر نے کامیابی سے اپنی آزادی دوبارہ حاصل کی، جب اسے تیسری صدی قبل مسیح میں سکندراعظم کے دور میں اور ۱۶ویں اور ۱۷ویں صدی کے مغل دور میں زیر کیا گیا۔ کشمیر کی حدود کئی صدیوں سے واضح طور پر متعین ہیں اور دنیا کے نقشوں پر بھی واضح طور پر دکھائی گئی ہیں۔ کشمیر کا رقبہ تقریباً ۸۶ہزار مربع میل پر محیط ہے، جو برطانیہ سے کچھ بڑا اور بیلجیم، لکسمبرگ اور نیدرلینڈ کے مجموعی رقبے سے تین گنا بڑا ہے۔

کشمیری عوام کشمیری زبان بولتے ہیں، جو ہندی یا اردو سے مختلف ہے۔ ان کی ثقافت بھی ہر لحاظ سے علاقے کی دیگر ثقافتوں سے منفرد ہے - لوک کہانیاں، لباس، روایات، کھانے پینے کی اشیاء، یہاں تک کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء جیسے برتن، زیورات، خاص کشمیری انداز رکھتے ہیں۔ خاص طور پر کپڑے، کڑھائی اور قالین کشمیری ڈیزائن کے لیے مشہور ہیں۔

  • تنازعہ کشمیر کی نمایاں خصوصیات: کشمیر کی صورت حال میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو اسے دنیا بھر میں موجود دیگر انسانی حقوق کی افسوس ناک خلاف ورزیوں کے سبب منفرد بناتی ہیں:

             ۱-        یہ ایک ایسے علاقے میں موجود ہے جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے تحت ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں کیے گئے بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق، اس علاقے کی حیثیت عوام کے آزادانہ ووٹ کے ذریعے اقوام متحدہ کی نگرانی میں طے کی جانی ہے۔

            ۲-         یہ ایک ایسی حکومت کی جانب سے جبر کی نمائندگی کرتا ہے جو علیحدگی پسند یا علیحدگی کی تحریک کے خلاف نہیں بلکہ غیر ملکی قبضے کے خلاف بغاوت کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ قبضہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت ختم ہونے کی توقع تھی۔ کشمیریوں کو ’علیحدگی پسند‘ کہنا درست نہیں کیونکہ وہ کسی ایسے ملک سے الگ نہیں ہو رہے کہ جس کے ساتھ وہ کبھی شامل ہی نہیں ہوئے۔

            ۳-         اقوام متحدہ نے اس معاملے کو نظرانداز کیا ہے۔ اس بے پروائی نے انڈیا کو مکمل استثنیٰ کا احساس دیا ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے اصولوں کے اطلاق میں متعصبانہ رویہ رکھتی ہے۔

            ۴-         یہ اقوام متحدہ کے غیر فعال ہونے کا ایک افسوس ناک کیس ہے، جو ایک ایسی صورت حال کو حل کرنے سے قاصر ہے، جس پر اس نے متعدد قراردادیں منظور کیں اور اپنی موجودگی قائم کی۔ انڈیا اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا گروپ (UNMOGIP) اقوام متحدہ کے سب سے پرانے امن مشنوں میں سے ایک ہے۔ یہ فورس کشمیر میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی نگرانی کے لیے تعینات ہے۔

            ۵-         کشمیر واحد بین الاقوامی تنازع ہے جس کا حل خود فریقین – انڈیا اور پاکستان – نے تجویز کیا۔ یہ حل کہ کشمیری عوام خود فیصلہ کریں، انڈیا کی طرف سے تجویز کیا گیا، پاکستان نے اس کی حمایت کی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسے قبول کیا۔

            ۶-         کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جو تین ایٹمی ممالک – انڈیا، پاکستان اور چین – کی سرحدوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

  • کشمیر کی صورتِ حال: بین الاقوامی برادری نے بھارت کے کشمیر پر قبضے کو بغیر کسی مداخلت کے چھوڑ دیا ہے، حالانکہ اس قبضے کی قانونی حیثیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ تاہم، کسی بھی مرحلے پر کشمیری عوام نے اس قبضے کو کبھی قبول نہیں کیا۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی مخالفت کی تاریخ مشرقی یورپ کے ان ممالک کی مخالفت سے کسی طور کم نہیں جن پر کمیونسٹ روسی سلطنت کا غلبہ تھا۔ لیکن جہاں مشرقی یورپ کی عوامی بغاوت کو بین الاقوامی میڈیا نے اُجاگر کیا، وہیں کشمیر کی بغاوت دنیا کی نظر سے اوجھل رہی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر (UNHCHR) نے ۱۴ جون ۲۰۱۸ء اور ۸جولائی ۲۰۱۹ء کو ’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال‘ پر رپورٹس جاری کیں۔ ان رپورٹس میں انڈین قابض افواج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلی دستاویزات شامل ہیں۔ یہ ایک اہم قدم تھا جس سے کشمیری عوام پر انڈین فوج کے مظالم بین الاقوامی سطح پر سامنے آئے۔

رپورٹ میں انڈین حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کے خلاف جمہوری آزادیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات درج ہیں۔ اس میں متعدد ایسے مواقع کی تفصیلات دی گئی ہیں جہاں سخت قوانین کے استعمال نے انڈین فوج کو مکمل استثنیٰ فراہم کیا۔ رپورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استثنیٰ اور انصاف تک رسائی کا فقدان جموں و کشمیر میں کلیدی چیلنجز ہیں‘‘۔ مزید یہ کہ ’’کشمیر میں جبری گمشدگیوں کے لیے استثنیٰ برقرار ہے کیونکہ شکایات کی تحقیقات یا وادیٔ کشمیر اور جموں کے علاقوں میں مبینہ اجتماعی قبروں کے مقامات کی قابل اعتماد تفتیش کی طرف بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔

  • تنازعہ کشمیر کا انڈیا اور پاکستان پر اثر: اس مسئلے کے مسلسل موجود رہنے نے انڈیا اور پاکستان دونوں کو کمزور کیا ہے۔ یہ صورتِ حال گذشتہ صدی میں بھی ایک حقیقت تھی اور اکیسویں صدی کے ابھرتے ہوئے ماحول میں بھی یہی حقیقت برقرار ہے۔ امریکا، انڈیا کی اقتصادی ترقی پر خوشی کا اظہار کرتا ہے، جو انڈیا کو ایک طاقت کے طور پر اپنا مناسب کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ لیکن ایک سلگتے ہوئے مسئلے کے ساتھ یہ کردار محدود ہوسکتا ہے۔

انڈیا اپنے آپ کو عالمی برادری میں بڑا دیکھنا چاہتا ہے، لیکن ایک ملک متنازعہ سرحدوں کے ساتھ اپنی ساکھ اور اثر و رسوخ برقرار نہیں رکھ سکتا۔درحقیقت، کچھ باشعور مبصرین پہلے ہی بھارتی متوسط طبقے میں بڑھتی ہوئی اس آگاہی کو محسوس کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا مستقل طور پر پایا جانا انڈیا کو کمزور کرتا ہے۔ اسی طرح خود انڈیا میں ہمیشہ ایسے معقول عناصر موجود رہے ہیں، جنھوں نے کشمیر پر انڈیا کے جارحانہ رویے کے اخلاقی اور عملی پہلو پر سوال اٹھائے ہیں۔ تاہم، انھیں باہر سے بہت کم حمایت ملی ہے، جس کی وجہ سے وہ دبے رہے ہیں۔

انڈیا کی پالیسیوں کی ظاہری ناکامی، کشمیر میں قائم کی گئی شکست خوردہ حکومت اور وہاں ہونے والے نقصانات، جنھیں کشمیری عوام کو دبانے کے لیے زبردست قوت کے استعمال کے باوجود برداشت کرنا پڑا۔ – یہ سب چیزیں انڈیا میں، یہاں تک کہ اس کی فوج میں، مزید لوگوں کو یہ باور کرا رہی ہیں کہ یہ فائدہ مند نہیں ہے۔ لیکن یہ تعمیری رجحان اس وقت ختم ہو جائے گا اگر دنیا کی طاقتیں بھارت کی ہٹ دھرمی کو برداشت کرتی نظر آئیں اور خود انڈیا میں صحت مند رائے عامہ کو نظرانداز کریں۔

  • دوطرفہ مذاکرات ___ کوئی حل نہیں: جنوبی ایشیا کے ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ اُمید وابستہ کرنا: کشمیر تنازع کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، حقیقت پسندانہ نہیں۔

اس کے ساتھ ہی، آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ انڈیا، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان تین طرفہ مذاکرات ہی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا واحد راستہ ہیں۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی قیادت اس حقیقت کو تسلیم کرے گی کہ جموں و کشمیر کے عوام کی مکمل اور فعال شرکت کے بغیر کشمیر تنازع کا کوئی حل ممکن نہیں۔

  • لائن آف کنٹرول کی حقیقت: ایک غلط سمت متعین کرنے والی نشانی لائن آف کنٹرول (LoC) کے ’تقدس‘ کی بات ہے۔ یہ لائن اس وقت تک موجود ہے جب تک کہ وہ بین الاقوامی معاہدہ، جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان اقوام متحدہ کی مکمل حمایت کے ساتھ طے پایا تھا، مکمل طور پر عمل میں نہیں آتا۔ یہ لائن اصل میں ریاست کی غیر عسکری حیثیت اور اس کے مستقبل کے تعین کے لیے غیر جانب دارانہ کنٹرول کے تحت استصوابِ رائے کے انعقاد کے لیے ایک ’عارضی جنگ بندی لائن‘ کے طور پر رسمی شکل دی گئی تھی۔جب تک یہ لائن ریاست پر مسلط رہے گی، یہ وہاں کے لوگوں پر موت کا بھاری بوجھ ڈالتی رہے گی۔ یہ لوگوں کے گھروں کو تقسیم کر چکی ہے، اس نے خاندانوں کو جدا کر دیا ہے اور بدترین بات یہ ہے کہ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے ایک دیوار کا کام کرتی رہی ہے۔
  • آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵- اے کا خاتمہ: یہ حقیقت ہے کہ آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کا خاتمہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق پر حملہ اور جارحیت کا عمل تھا۔ ایسے اقدامات اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۹۱ (۱۹۵۱ء)، ۱۲۲ (۲۴جنوری ۱۹۵۷ء)،۱۲۳ (۲۱ فروری ۱۹۵۷ء) اور ۱۲۶ (۲دسمبر ۱۹۵۷ء) کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ان قراردادوں میں ریاست جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کے کسی بھی اقدام کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۱۲۲ واضح کرتی ہے کہ ’’آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی جنرل کونسل کی سفارش پر ایک آئینی اسمبلی کا انعقاد اور اس اسمبلی کے ذریعے ریاست کی مستقبل کی شکل اور الحاق کے بارے میں کیے گئے یا کیے جانے والے کسی بھی اقدام کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق ریاست کا فیصلہ نہیں سمجھا جائے گا‘‘۔

  • اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بیان : اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر انتونیو گوتریس نے ۸؍ اگست ۲۰۱۹ء کو پریس بریفنگ میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے یک طرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا:’’اقوام متحدہ کا اس خطے (جموں و کشمیر) پر موقف اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قابل اطلاق قراردادوں کے مطابق ہے‘‘۔
  • ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کے انڈین اقدامات: ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے انڈین حکومت نے اپنے غیر قانونی قبضے کے خلاف کسی بھی مزاحمت کو کچلنے کے لیے نئے جابرانہ اقدامات کیے ہیں۔ پہلے، انھوں نے انڈین دستور کے آرٹیکل ۳۷۰  اور ۳۵ -اے کو منسوخ کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر اپنے قانونی قبضے کی کسی بھی سابقہ شناخت کے نشانات کو مٹا دیا۔ انھوں نے مکمل فوجی لاک ڈاؤن نافذ کیا اور مکمل مواصلاتی بلیک آؤٹ مسلط کر دیا۔ ان احتجاجوں اور مزاحمت کو روکنے کے لیے جو ان اقدامات کے نتیجے میں متوقع تھے، ایک بے رحم مہم کے تحت انھوں نے سیاست دانوں، صحافیوں، اور سول سوسائٹی کے افراد کو گرفتار کر کے ہر قسم کی مخالفت کو دبانے کی کوشش کی۔
  • جموں و کشمیر کی حیثیت بدلنے کی کوشش: اس کے بعد، انڈین حکومت نے ایک منصوبہ بند سامراجی منصوبہ شروع کیا، جس کا مقصد کشمیر تنازع کی سیاسی نوعیت کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنا ہے۔ اس میں آبادیاتی تبدیلیاں، سیاسی اور انتظامی حربے شامل ہیں۔ حال ہی میں نئے ڈومیسائل قوانین کے ذریعے ان تبدیلیوں کو مستحکم کیا گیا، جن کے تحت جموں و کشمیر سے باہر کے لوگوں کو یہاں کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔ یہ پہلا قدم تھا تاکہ انھیں زمین خریدنے اور مقامی ملازمتوں کے لیے مقابلہ کرنے کا حق دیا جا سکے۔ ان یکطرفہ تبدیلیوں کے ذریعے اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ اس بین الاقوامی تنازع کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوششیں بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہیں۔
  • انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں: انڈیا کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) کے تازہ ترین اقدامات سیاسی طور پر جانب دار ہیں اور کشمیری عوام کی پُرامن آواز کو دبانے کی ایک کوشش ہیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (UAPA) کو بارہا انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے، انھیں گرفتار کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جو انڈین  فوج کے مظالم کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تازہ ترین شکار خرم پرویز ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر معروف انسانی حقوق کے کارکن ہیں اور یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے محافظین کے لیے خصوصی نمائندہ مس ماری لاولر نے ۲۳ نومبر ۲۰۲۱ء کو کہا: ’’وہ (خرم پرویز) دہشت گرد نہیں، بلکہ انسانی حقوق کے محافظ ہیں‘‘۔اسی قانون کے تحت دیگر متاثرین میں محمد یاسین ملک (چیئرمین، جے کے ایل ایف)، شبیر احمد شاہ (۳۵ سال سے زائد قید میں رہے)، مسرت عالم، آسیہ اندرابی، مسز صوفی فہمیدہ، اور مسز ناہید نسرین شامل ہیں۔

  • اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حیثیت: یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سات عشرے گزر چکے ہیں، لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کے لیے طے شدہ اصولی حل آج تک نافذ العمل نہیں ہو سکا۔ وقت کا گزرنا یا حقائق سے فرار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتا۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں کبھی غیر مؤثر نہیں ہو سکتیں یا تبدیل شدہ حالات کے سبب ختم نہیں ہو سکتیں۔ وقت کا گزرنا کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت جیسے ناقابل تنسیخ اصول کو ختم نہیں کرسکتا۔ اگر وقت گزرنے سے عالمی معاہدے ختم ہو جائیں، تو اقوام متحدہ کے چارٹر کو بھی اسی انجام سے دوچار ہونا چاہیے، جیسا کہ کشمیر پر قراردادوں کے ساتھ ہوا۔

۱۹۹۵ءمیں بین الاقوامی کمیشن برائے انصاف نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کو کبھی ختم نہیں کیا گیا اور انڈیا اور پاکستان کو تجویز دی کہ وہ ایک ایسا حل تلاش کریں جس کی ریاست کے عوام ریفرنڈم میں منظوری دیں۔

  • نقطۂ آغاز کیا ہونا چاہیے؟ : سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک منصفانہ اور دیرپا حل کے لیے نقطۂ آغاز کیا ہونا چاہیے؟ جواب واضح ہے:۱- اقوام متحدہ کا چارٹر، جو اپنے پہلے آرٹیکل میں ’برابر حقوق اور عوام کے حقِ خود ارادیت کے اصولوں کے احترام‘ کی بات کرتا ہے۔۲- انڈیا اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی معاہدے۔
    • سب سے پہلے، اس خیال کی انصاف اور معقولیت ناقابلِ انکار ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا مستقل حل عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور عوام کی مرضی کو جانچنے کا واحد طریقہ غیرجانب دارانہ رائے شماری ہے۔
    • دوسرا، کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے کوئی ناقابل عبور رکاوٹیں موجود نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ نے دنیا کے مشکل ترین حالات میں بھی انتخابی عمل کو اپنی نگرانی میں کامیابی سے انجام دیا ہے، جیسا کہ نمیبیا اور مشرقی تیمور کی مثالیں ہیں۔ یہ ممالک بالترتیب سات دہائیوں اور ۲۷  برسوں کے قبضے کے بعد آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
    • تیسرا، اقوام متحدہ کے نمائندے سر اوون ڈکسن نے سات عشرے قبل تصور پیش کیا تھا کہ ریفرنڈم کو اس طرح علاقائی بنایا جا سکتا ہے کہ ریاست کے مختلف علاقوں کو اپنی مرضی کے خلاف نتائج قبول نہ کرنے پڑیں۔
  • اقوام متحدہ کی ذمہ داری: کشمیری عوام اقوام متحدہ سے اب بھی امید رکھتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی سنگین صورتِ حال سلامتی کونسل کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا انحصار مستقل ارکان کے رویے اور پالیسیوں پر ہے، لیکن انھیں اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ مسئلے کے حل میں ناکامی پورے جنوبی ایشیائی خطے میں شدید بدامنی پیدا کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کا باعث بن سکتی ہے، جس کے عالمی سطح پر ناقابلِ تصور نتائج ہوں گے، کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کشمیری عوام ،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر انتونیو گوتریس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۹۱ کے تحت کشمیر کی صورتِ حال میں مداخلت کریں۔ کیونکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں منظم، جانتے بوجھتے اور انڈین حکومت کی سرپرستی میں کی جارہی ہیں۔ انڈیا نے کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کو قانونی حیثیت دی ہوئی ہے، اور اپنی قابض افواج کو گولی مارنے اور کشمیری عوام پر ظلم کرنے کا مکمل اختیار دے رکھا ہے۔

  • حل کی طرف پیش رفت: تنازع کو پاکستان اور آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کی قیادت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حل کی طرف لے جایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ انڈین حکومت ایک غیر متشدد ماحول پیدا کرے۔ یہ درج ذیل اقدامات کے ذریعے ممکن ہے:

۱- شہری آبادی کے خلاف تمام فوجی اور نیم فوجی کارروائیوں کا فوری خاتمہ۔

۲- شہروں اور دیہاتوں سے فوج کی واپسی۔

۳- بنکرز، واچ ٹاورز اور رکاوٹوں کا خاتمہ۔

۴- سیاسی قیدیوں کی رہائی۔

۵- آبادیاتی تبدیلی کے لیے بنائے گئے ڈومیسائل قانون کو منسوخ کرنا۔

۶- جابرانہ قوانین کو ختم کرنا۔

۷- پُرامن اجتماع، مظاہروں اور تنظیم سازی کے حقوق بحال کرنا۔

۸- حریت قیادت کو بیرون ملک سفر کی اجازت دینا۔

۹-کشمیری قیادت کو جموں و کشمیر کے دورے کے لیے ویزا دینا تاکہ امن عمل شروع کیا جاسکے۔

  • کیا کرنے کی ضرورت ہـے؟  : کشمیر کا حل فوری اور ناگزیر ہے۔ اس کی آبادی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت دنیا کے دیگر تنازعات سے زیادہ ہے۔ کشمیری عوام کے دُکھ درد ہیٹی کے عوام کے مصائب سے کم نہیں ہیں۔ جنوبی ایشیا کا ایٹمی بحران کوریا کے مقابلے میں کم خطرناک نہیں ہے۔ انڈین قابض افواج کی طرف سے کشمیری عوام پر کیے جانے والے اجتماعی جنسی تشدد بوسنیا سے کم ذلت آمیز نہیں ہیں۔

انڈیا کی بڑھتی ہوئی ضد اور بین الاقوامی وعدوں کو نظر انداز کرنے کے پیش نظر، حکومت پاکستان کو کشمیر کے معاملے کی وکالت کے لیے اپنی پالیسی کو اَزسرنو مؤثر بنانا ہوگا۔ اگر پاکستان اس معاملے پر کسی مضبوط اور مؤثر حکمت عملی کے بغیر سست روی کا مظاہرہ کرے گا تو اس کے نتیجے میں انڈیا صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتا رہے گا۔

پاکستان کی موجودہ داخلی سیاست اہلِ کشمیر کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ وہ اپنی کامیابی صرف ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان میں دیکھتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کشمیر کے مسئلے پر مکمل اتفاق رائے کے ساتھ نظر آئے۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کمزوری انڈیا کے شدت پسند قوم پرست میڈیا کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہوگی۔

یہ انتہائی ضروری ہے کہ حکومت پاکستان بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلے پر کانفرنسز اور سیمینار منعقد کرے تاکہ اس مسئلے پر تفصیل سے بحث ہو اور ایک ایسی حکمت عملی تیار کی جا سکے جو تین فریقین: بھارت، پاکستان، اور آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کے درمیان فعال اور مؤثر مذاکرات کی راہ ہموار کرے۔ اس سے کم کسی بھی کوشش سے مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکامی ہوگی، جو خطے کو ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ عالمی برادری کو اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ اس دیرینہ مسئلے کو حل کیے بغیر اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جانب سے ۱۴ جون ۲۰۱۸ء اور ۸جولائی ۲۰۱۹ء کو جاری کی گئی رپورٹس، جن میں ’کشمیر کی صورتِ حال‘ پر روشنی ڈالی گئی ہے، کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت پاکستان کو انسانی حقوق کونسل کے او آئی سی ارکان پر زور دینا چاہیے کہ وہ ان رپورٹس کی حمایت کریں اور آئندہ جنیوا میں جون-جولائی ۲۰۲۵ء اور ستمبر-اکتوبر ۲۰۲۵ء کے دوران ہونے والے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن کے قیام کے لیے مشترکہ او آئی سی قرارداد پیش کریں۔

ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن، چیئرمین ’جینوسائیڈ واچ‘، کی ۱۲ جنوری ۲۰۲۲ء کو امریکی کانگریس میں دی گئی گواہی اور ۱۹جنوری ۲۰۲۲ء کو کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو میں دیے گئے بیان کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی تیاری ہو رہی ہے، جو کشمیر اور آسام سے شروع ہو رہی ہے‘‘۔

حکومت پاکستان کو ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کو قائل کرنا چاہیے کہ وہ کشمیری تارکینِ وطن کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں، جیسے طلبہ، اسکالرز، کارکنان، صحافی اور کاروباری افراد۔ او آئی سی کے رکن ممالک ان ہنر مند اور پیشہ ور کشمیریوں کے لیے ویزا، ملازمتوں، اور نقل مکانی کی سہولت کو ادارہ جاتی انداز میں یقینی بنائیں، جن کے لیے مودی کے انڈیا میں رہنا ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔

او آئی سی کو انڈیا مقبوضہ کشمیر کے مستحق طلبہ کے لیے اپنے تمام رکن ممالک میں اسکالرشپ پروگرام شروع کرنا چاہیے۔

آخر میں، یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ کئی اہم دارالحکومتوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ’جنرل پرویز مشرف فارمولا‘ پر عمل کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ لیکن ایک نکتے کے علاوہ، یعنی فوجوں کی واپسی (کشمیر کو غیر فوجی بنانا تاکہ تنازعے کا حل نکل سکے)، دیگر تمام نکات یا تو سراسر جھوٹ ہیں یا انڈین موقف کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ ’مشرف فارمولا‘ ایک مکمل فریب (absolute fallacy) ہے۔

یہ اُمید کی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی کے رکن ممالک مسئلہ کشمیر کا واحد حل – حقِ خودارادیت کا وہ اَدھورا وعدہ، جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مسلسل قراردادوں نے دی ہے – کے حل کی طرف توجہ دیں گے۔

 

’جی۲۰سربراہی اجلاس‘ جو۹-۱۰ ستمبر ۲۰۲۳ء کو نئی دہلی میں ’’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘ کے خوش نما نعرے کے تحت منعقد ہوا۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کے رہنمائوں نے دیگر مسائل کے علاوہ 'بین الاقوامی امن کی حفاظت، اور 'پائیدار ترقی اور نمو، پر تبادلۂ خیال کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بین الاقوامی امن، ترقی اور نمو اور مسئلہ کشمیر کے حل کے درمیان بھی کوئی تعلق ہے؟

یاد رہے اس گروپ کے چند ارکان ممالک پہلے ہی مختلف اوقات میں اس موضوع پر واضح موقف اختیار کرچکے ہیں:

  • جنوبی افریقا کے صدر نیلسن منڈیلا نے ۲ستمبر۱۹۹۸ء کو کہا تھا:’’ہم سب فکرمند ہیں کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے اور اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے لیے مستعدی کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘‘۔
  • جاپانی نائب وزیر اعظم سوتومو ہاتا نے ۴جولائی ۱۹۹۵ء کو کہا تھا: ’’کشمیر ایک نازک مسئلہ ہے اور جب تک بھارت اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہل نہیں کرتا، جنوبی ایشیا میں امن کو خطرہ لاحق رہے گا‘‘۔
  • روسی صدر ولادیمیر پوتن نے۳ دسمبر۲۰۰۴ء کو موقف بیان کیا تھا:’’ہندستان اور پاکستان کو جنوبی ایشیا اور باقی دنیا میں امن کے مفاد میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہیے‘‘۔
  • جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء کو کہا:’’جرمنی کا کشمیر کی صورتِ حال کے پیش نظر ایک کردار اور ذمہ داری ہے۔ اس لیے ہم خطے میں پُرامن حل تلاش کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی فعال شمولیت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں‘‘۔
  • ترکی کے صدر طیب اردغان نے ۱۸؍اگست ۲۰۱۹ء کوکہا: ’’ہم مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے حق میں ہیں۔ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہم کشمیر کے منصفانہ حل کے حق میں ہیں‘‘۔
  • چینی وزیر خارجہ کن گینگ نے یکم مئی ۲۰۲۳ء کو کہا تھا:’’کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کے مطابق مناسب اور پُرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے‘‘۔
  • انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ٹیوکو فیضسیہ نے ۷؍اگست ۲۰۱۹ء کو کہا: ’’باہمی مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے اور تصادم سے بچا جائے‘‘۔
  • عالمی بنک کے (سابق) صدر، جیمز ڈبلیو ولفنشن نے فروری ۲۰۰۵ءمیں کہا تھا:’’تنازعۂ کشمیر کے پُرامن حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام واپس نہیں آسکتا‘‘۔
  • محقق اورسٹینلے ولپورٹ، یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر ایل اے روٹ کے مطابق:’’خطے میں اس وقت تک دیرپا استحکام نہیں آسکتا جب تک کہ کشمیر کا تنازع پُرامن اور منصفانہ طریقے سے جلد از جلد حل نہیں ہو جاتا‘‘۔

ہم نے یہاں یاددہانی کے لیے یہ موقف پیش کیے ہیں، تاکہ جی ۲۰ ممالک کی قیادت اس حقیقت کو سمجھ سکے کہ کشمیر میں امن کے لیے ابھی موقع موجود ہے۔ ہندستان، کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد کا وعدہ پورا کرکے دنیا پر ثابت کرسکتا ہے کہ وہ واقعی ایک جمہوری ملک کہلانے کا حق دار ہے، نہ کہ مسلسل جارح اور عسکری جابر جیساکہ وہ بن گیا ہے۔ پی چدمبرم، جو کہ ہندستان کے تجربہ کار سفارت کار ہیں، انھوں نے ۳۱ جولائی ۲۰۱۶ء کو کہا تھا:’’اگر ہندستان چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگ ہندستان سے پیار کریں، تو اس کا واحد راستہ استصواب رائے عامہ ہے‘‘۔

دُنیا کے امن اور انصاف پسند چاہتے ہیں کہ جی۲۰ ممالک اس بات کو سمجھیں کہ تجارت اور تجارتی معاہدے اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن یہ تجارت اعلیٰ اخلاقی اور عالمی اصولوں کی قیمت پر نہیں، جن کا عالمی طاقتوں نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے۔ اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق ہی مہذب کہلانے کی روح ہیں۔ کشمیر میں جمہوریت اور انسانی حقوق سے انکار، خاص طور پر حقِ خود ارادیت سے محرومی نے جوہری ہتھیاروں اور میزائل کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کو جنم دیا ہے۔ کشمیر ۷۶ برس سے زیادہ عرصے سے پاک بھارت تعلقات میں رستا ہوا زخم ہے۔ اسی لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے چاردیگر بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ مل کر ۲۴؍اگست ۲۰۲۳ء کو جی ۲۰ ممالک کو خط لکھا تھا کہ وہ بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے اور جیلوں میں بند انسانی حقوق کے محافظوں اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور کریں۔ ہندستانی وزیر اعظم مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پیسے کے زور پر جموں و کشمیر کے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے جبر، سڑکوں پر تشدد، عصمت دری، قتل اور گمشدگیوں کے مسلسل صدمے کے مستقل اور غیر مستحکم ماحول کو دُور نہیں کیا جاسکتا، جو کشمیر میں ہندستان کی تاریخ کی پہچان چلا آرہا ہے۔

محض نعروں، دعوئوں، اقتصادی پیکج اور جی ۲۰ ٹورازم ڈپلومیسی سے مسئلہ کشمیر کبھی حل نہیں ہوگا۔ کشمیر ایک بین الاقوامی اور انسانی مسئلہ ہے، جس کا سیاسی حل ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر کے   حل کے لیے درج ذیل فوری اقدامات ضروری ہیں: lکشمیر میں بھارتی مسلح افواج کے وحشیانہ تشدد کو جلداز جلد ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی مداخلت l جنگ بندی لائن کے دونوں طرف ریاست جموں و کشمیر کو غیرفوجی علاقہ قرار دیا جائے lمحمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم ، آسیہ اندرابی ، خرم پرویز اور دیگرتمام سیاسی قیدیوں کی رہائیl ہندستان، پاکستان اور جموں و کشمیر کے لوگوں کی قیادت سمیت تمام متعلقہ فریقوں کے درمیان سیاسی مذاکرات کا آغاز ہو، تاکہ جمہوری اور پُرامن حل کے لیے فضا ہموار کی جاسکے۔

یاد رہے، ۱۹۳۸ء میں، برطانوی وزیر اعظم، نیویل چیمبرلین نے چیکوسلواکیہ کے لیے نازی خطرے کا مذاق اُڑایا تھا: ’’یہ ایک دُور دراز ملک کے بارے تنازع ہے‘‘، مگر اس کی غیرذمہ دارانہ غفلت نے دوسری جنگ عظیم کو جنم دیا۔ جی ۲۰ کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور اسی طرح کی تباہی سے بچنے کے لیے کشمیر کو نظر انداز کرنا بند کرنا چاہیے۔

’ویانا ڈیکلیریشن‘ اور ’ورلڈ کانفرنس برائے انسانی حقوق‘ کے ایکشن پروگرام نے خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کا ناقابل تنسیخ، اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصہ قرار دیا ہے۔ بیجنگ ڈیکلیریشن اور ’پلیٹ فارم آف ایکشن‘ دونوں بین الاقوامی برادری کی دو عشروں سے زائد عرصے میں کی گئی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

اکیسویں صدی میں دُنیا نے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات میں خواتین کے لیے بڑی تبدیلیاں لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ خواتین پر تشدد ان کی ترقی اور پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کے حقوق کی پامالی بیسویں صدی کا ایک بڑا مسئلہ ہے جو انسانیت کی تذلیل کی علامت ہے۔

متعدد این جی اوز اور انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹ کے مطابق روانڈا، بوسنیا، کوسوو، میانمار، کشمیر اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں مسلح افواج کے ہاتھوں لاکھوں خواتین عصمت دری اور جنسی تشدد کا نشانہ بنیں۔ ان این جی اوز نے نوجوان لڑکیوں اور بزرگ خواتین کے ساتھ یکساں اجتماعی عصمت دری کے واقعات کی دستاویز بھی تیار کی ہیں۔ جن کے مطابق بعض اوقات خاندان کے مردوں کی موجودگی میں جنسی زیادتی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مسلح افواج کی جانب سے یہ عصمت دری درحقیقت بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کونسل سمیت تمام متعلقہ اداروں کو چاہیے جنگ اور خانہ جنگی کے دوران خواتین کی جنسی بے حُرمتی کی روک تھام کا بندوبست کریں تاکہ ہر صورت میں خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی ہو۔

'خواتین کے خلاف تشدد پر خصوصی نامہ نگار رپورٹ Special Rapporteur on Violence Against Women میں بتایا گیا ہے کہ عصمت دری دراصل طاقت، غصے اور جنسی بے راہ روی کا تباہ کن امتزاج ہے جو خواتین کے خلاف اس وحشیانہ تشدد کو ہوا دیتا ہے۔ عصمت دری سے متاثر خواتین 'ریپ ٹراما سنڈروم جیسے نفسیاتی عوارض میں مبتلا رہتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی زندگی اس خوفناک المیے کی قیدی بن کر رہ جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (UNHCR) نے ۸ جولائی ۲۰۱۹ء کو اپنی ’’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر رپورٹ‘‘ جاری کی، جو جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تصویری دستاویزات پر مشتمل ہے۔ یہ رپورٹ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی سنگین زیادتیوں کو بین الاقوامی سطح پر پیش کرنے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے، اور انسانیت کے خلاف بھارت کے گھنائونے جرائم سے پردہ اٹھاتی ہے۔

۴۹ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ایسے مخصوص واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق بھارتی حکومت کشمیری عوام کے خلاف انسانی شرافت اور جمہوری آزادی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ اس خونیں قبضے کے نتیجے میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ پھر بھیانک طریقوں سے مسلم خواتین کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے۔

۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ نے انڈیا کےمشن پر ’خواتین کے خلاف تشدد پر خصوصی نامہ نگار رپورٹ‘ تیار کی تھی، جس میں اس تشدد کے اسباب اور نتائج پر بتایا گیاکہ: ’’فوجی علاقوں میں رہنے والی خواتین، جیسے جموں اور کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں، مسلسل محاصرے اور نگرانی کی حالت میں رہتی ہیں، چاہے وہ اپنے گھروں میں ہوں یا باہر۔ تحریری اور زبانی دونوں شہادتوں کے ذریعے معلومات کے مطابق بھارتی سیکورٹی فورسز مبینہ طور پر خواتین کی اجتماعی عصمت دری کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگی، قتل اور تشدد اور ناروا سلوک کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ انسانی حقوق کی یہ سنگین خلاف ورزیاں وہاں کے لوگوں کو ڈرانے، دھمکانے اور سیاسی برتری حاصل کرنے کےلیے بہ طور ہتھیار استعمال کی گئیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ،’’ ایک اہم کیس جو ریاست کی ناکامی اور کشمیر میں جنسی جرائم کے مرتکب مجرموں کو سزا سے بریت دلوانے کو آشکار کرتا ہے، وہ کنن پوش پورہ میں تین عشرے قبل پیش آنے والا اجتماعی عصمت دری کا واقعہ ہے۔ ریاست اس واقعے میں ملوث ملزموں کی تحقیقات اور ان پر مقدمہ چلانا تو دُور کی بات، سرکاری حکام نے مختلف سطحوں پر انصاف کےحصول کےلیےبرسوں سے کی گئی کوششوں کو ناکام بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ایک زندہ بچ جانے والے مقامی اہلکار کے مطابق ۲۳ فروری ۱۹۹۱ء کی رات بھارتی۴ راجپوتانہ رائفلز رجمنٹ کے سپاہیوں نے ضلع کپواڑہ کے کنن پوش پورہ گاؤں کی ۲۳ خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی‘‘۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’’زندہ بچ جانے والوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے کئی برس سے اس کیس کی آزادانہ تحقیقات کے لیے مہم چلائی ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اس مقدمے کی دوبارہ تحقیقات کرے اور اس سینئر اہلکار کے خلاف مقدمہ چلائے، جس نے جان بوجھ کر تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ ۱۸ جولائی ۲۰۱۳ء کو، کپواڑہ کی ضلعی عدالت نے ریاستی پولیس کو حکم دیا کہ وہ تین ماہ کے اندر اس کیس کی تحقیقات کرے۔ جب ان احکامات کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو پانچ لواحقین نے اکتوبر۲۰۱۳ء کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ خبروں کے مطابق جولائی ۲۰۱۴ء کو ہائی کورٹ نے کہا کہ سفارشات ثبوتوں کے مطابق ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ اور فزیشنز فار ہیومن رائٹس کی مشترکہ رپورٹ کے صفحہ ۷ پر کہا گیا ہے کہ ’’۲۳ فروری ۱۹۹۱ءکو کنن پوش پورہ گاؤں کی خواتین کے ساتھ ۴ راجپوتانہ رائفلز رجمنٹ کے فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں کی گئی عصمت دری کی رپورٹ امرواقعہ ہے، اور [بھارتی] مسلح افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے اور مجرموں کو سزا دینے میں حکومت غیر سنجیدہ اور ناکام ہے‘‘۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’یہ رپورٹ دوسری سیریز ہے، جسے ایشیا واچ اور پی ایچ آر مشترکہ شائع کر رہے ہیں۔ یہ ادارے اس رپورٹ کو شائع کرتے ہوئے پُراُمید ہیں کہ اس سے بین الاقوامی رائے عامہ کی توجہ کشمیر میں عصمت دری کو بہ طور جنگی ہتھیار استعمال کرنے اور ان حکومتی پالیسیوں کی طرف مبذول ہوجائے گی ، جن کی وجہ سے سیکورٹی فورسز بے خوفی سے یہ جرائم کر گزرتی ہیں۔ اس رپورٹ میں شامل مقدمات خود اپنی صداقت کی دلیل ہیں، جب کہ عصمت دری کے واقعات اس سے کہیں زیادہ ہوئے ہیں، جتنے یہاں درج کیے گئے ہیں‘‘۔

عام طور پر بھارت کی فوجی عدالتیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مقدمات کو نمٹانے میں نااہل ثابت ہوئی ہیں۔ انصاف کو یقینی بنانے کے بجائے وہ الٹا ثبوتوں کو چھپانے اور ملوث افسران کو تحفظ دیتی آرہی ہیں۔ اس رپورٹ میں (ایشیا واچ اور پی ایچ آر) میں تجویز دی گئی ہے کہ تمام فوجی یا نیم فوجی مشتبہ افراد کے خلاف عصمت دری کے مقدمات سویلین عدالتوں میں چلائے جائیں۔

پانچ بہادر کشمیر خواتین اسکالرز دستایزی ثبوت کے ساتھ پہلے صفحے پر لکھتی ہیں: ’’یہ کتاب کشمیر کے دو گاؤں میں ایک رات کے متعلق ہے۔ ایک ایسی رات کہ جو ۲۴ برس بعد بھی ناقابلِ انکار حقیقت ہے، ایسی خوفناک رات جس میں ایک طرف ظلم، درندگی، ناانصافی اور جھوٹ ہے اور دوسری طرف جرأت، بہادری اور سچائی کی المناک داستان ہے۔ یہ کتاب کنن پوش پورہ کے بارے میں ہے‘‘۔

وہ کتاب کے صفحہ ۲۵ پر اس رات کی ہولناکیاں ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں: ’’کوئی اس تاریک کمرے کو کیسے روشن کرسکتا، کوئی مایوسی کو امید سے کیسے بدل سکتا ہے، کیسے کوئی گھٹاٹوپ ماحول میں انصاف کی اُمید کرسکتا ہے؟‘‘کنن پوش پورہ کی کہانی کی تفصیلات بتانے سے پہلے ان پانچ مصنّفین کے حالات کو دیکھیے ، ہر ایک اپنی اپنی کہانی بتاتی ہے، اس کا سماجی اور معاشی پس منظر، کہ کس طرح اس کے خاندان نے اسے ماحول کی تباہ کاریوں سے بچانے کی کوشش کی، جو بڑے پیمانے پر تشدد کے نشانات سے خوف زدہ تھے، کہ کس طرح عصمت دری جیسے الفاظ کے استعمال سے اور بعض سوالات اٹھانے سے منع کیا گیا تھا، انھوں نےکیسے خوف اور عدم تحفظ کا مقابلہ کیا؟  ان میں سےہر ایک نے کیسے ڈراؤنے خواب دیکھے کہ اس کی بھی عصمت دری ہوسکتی ہے۔

کس طرح ایک اور خاتون نے اس خوفناک حادثے کا ذکر کیا جب عمر بڑھنے کے ساتھ اس کو پتا چلا کہ کئی برس پہلے، جب اس کی عمر بمشکل تین برس تھی، اس کے والد کو وردی میں ملبوس افراد نے اٹھالیا اور اسے نہایت بے دردی کے ساتھ زد و کوب کیا، جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی۔

ہر ایک نے اپنی ’بیداری‘ کے لمحات قلم بند کیے ہیں کہ ان سب دلیر خواتین نے کس طرح مشکل حالات سے گزر کر سچائی کو دریافت کیا؟ چاہے ان میں سے کسی کو دفن کیا گیا ہو یا بھلا دیا گیا ہو۔ اس طرح ان پانچ دلیر مصنفین نے جھوٹ کے جال کو چھان پھٹک کر تحقیقات سے سچائی کو واضح طور پر پیش کردیا۔

ڈاکٹر نذیر گیلانی نے ہیومن رائٹس کمیشن کے ۵۸ویں اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو جمع کرائے گئے تحریری بیان میں کہا: ۱۹۹۱ء میں کنن پوش پورہ میں کشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعے کے بعد اس نوعیت کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں۔ اور ’آدھی بیواؤں‘ کا مسئلہ (وہ عورتیں جن کے شوہر لاپتہ ہیں اور دوبارہ شادی نہیں کر سکتی ہیں) مظلوم کشمیری معاشرت کا رستا ہوا ناسور ہے۔ ہندستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خواتین بے بسی کی گہری کھائی میں ہیں۔

ان خواتین کی آبرو زیزی کے خلاف آواز اٹھانے کے دوران مزید کتنوں کے بے آبرو ہونے کا انتظار ہے؟ ایک بنیادی سوال ہے جو لاکھوں کشمیری خواتین کے ذہنوں میں ہے۔ یاد رکھیںکہ یہ خواتین نو لاکھ قابض بھارتی فوج کی عملاً حراست میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ویانا ڈیکلیریشن کے مطابق:’’خواتین کے حقوق عالمی انسانی حقوق کا ناقابل تنسیخ، اٹوٹ اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہیں‘‘۔ وہ عالمی برادری کے اس گونگے اندھے تماشائی طرزِعمل پر حیران ہیں کہ ابھی تک خواتین کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ہونے والے انسانیت سوز تشدد پر کیا کارروائی کی گئی ہے؟

ایسے وحشیانہ تشدد کی شکار کشمیری خواتین پوچھتی ہیں: انسانی حقوق کے عالمی ڈکلریشن اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے ڈیکلیریشن کی رِٹ کو نافذ کرنے کے لیے ابھی تک کیا کارروائی کی گئی ہے؟

کشمیر میں مسلسل ظلم و جبر کی اس فضا نے وہاں کے باشندوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے پوری طرزِ زندگی کو تبدیل کردیا ہے ۔ وادی میں بچپن کا پورا تصور ایک بڑی بنیادی تبدیلی سے گزرا ہے۔ بچے نہ تو کنڈرگارٹن میں جاتے ہیں اور نہ کھلونوں سے کھیلتے ہیں، جس طرح عام طور پر بچے کرتے ہیں۔ وہ آزاد ماحول میں اپنے والدین کی نگہداشت میں پرورش نہیں پاسکتے کہ ان کے بچپن کی یادیں دہشت کی فضا، بے اطمینانی، اضطراب ، بدامنی، عدم تحفظ اور بے یقینی پر مشتمل ہوتی ہیں۔

کیا یہ رپورٹیں عالمی طاقتوں اور انسانی حقوق کونسل کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں؟ انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ریاست ، بھارت نہ صرف انسانی حقوق کی کونسل بلکہ سلامتی کونسل میں بھی بیٹھنے کی جرأت رکھتی ہے۔ عالمی برادری بھارت کی مذمت کیوں نہیں کرتی؟

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ کشمیری عوام کی حالت زار پر عالمی برادری کا ردعمل بنیادی طور پر کمزور اور ناقابل اعتبار رہا ہے۔ اس کے ساتھ اتنا ہی بڑا سچ یہ ہے کہ انسانی حقوق کی اس قدر بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کا نظامِ کار مؤثر نہیں ہے۔ مسلح تصادم اور خانہ جنگی کے حالات میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔

تصادم کی بنیاد سے احسن طریق پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس  تنازعے کی بنیادی وجہ حق خود ارادیت سے انکار ہے جس کا وعدہ اقوام متحدہ نے جموں و کشمیر کے عوام سے کیا تھا۔اقوام متحدہ کی اس بے عملی نے دُنیا کو بہت مایوس کیا ہے۔

ان جنگ زدہ علاقوں میں شکار بننے والی خواتین اور بچوں کی بحالی کے لیے خصوصی پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس گئی گزری صورتِ حال کے باوجود کشمیری، اقوام متحدہ سے انصاف اور دست گیری کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن امید کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اس المناک صورتِ حال پر عالمی برادری کے نیم دلانہ ردعمل کی وجہ سے ہم اکثر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی بے حسی، بے عملی، اور خاموشی نے بلاشبہہ غیر ارادی طور پر کشمیر میں قابض انتظامیہ کو وحشت ناک ہونے کا راستہ دکھلایا ہے۔

سنجے پانڈا ترکی میں بھارتی سفیر ہیں۔ انھوں نے کشمیر کے بارے مخصوص بھارتی لہجے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے: ’’مسئلہ کشمیر کا سارا کھیل تبدیل ہو چکا ہے۔ اب یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ بدلے ہوئے حالات ہی حقیقت ہیں۔ یہ ان لوگو ں کے لیے ضروری ہے جو اس تنازعہ کا ہمیشہ کے لیے حل چاہتے ہیں‘‘۔

بھارتی سفیر سے سوال کیا گیا کہ ’’استصواب رائے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا:’’ہمیں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ان کا پہلا حصہ بلاشبہہ استصواب رائے کے بارے میں ہے۔ اور یہ استصواب صرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب پاکستان ان تمام علاقوں سے افواج واپس بلالے ، جن پر اس نے قوت کے بل پر قبضہ کررکھا ہے۔ سارے جموں و کشمیر کو ۱۹۴۷ء سے پہلے کی صورتِ حال میں واپس جانا ہوگا۔ تب ہی استصواب رائے ہو سکے گا‘‘۔

بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئرمین پروفیسر جوزف کوربل نے اپنے آرٹیکل میں اس سوال کا جواب دیا تھا (ان کا آرٹیکل The UN, Kashmir and Nehru دیکھا جاسکتا ہے)۔ یہ آرٹیکل ۴مارچ ۱۹۵۷ء کے The New Leaderمیں شائع ہو ا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:’’بھارتی وفد کے مطابق استصواب رائے کے بارے میں قرارداد پر عمل درآمد پاکستان نے روک دیا تھا۔ ایسا اس نے کشمیر کے دوسرے حصہ (آزاد کشمیر) سے اپنی فوج نکالنے سے انکار کی صورت میں کیا تھا‘‘۔ یہ دعویٰ سچ نہیں ہے۔پاکستان فوجیں نکالنے کا اس وقت تک ہرگز پابند  نہیں ہے ،جب تک بھارت اپنے زیر قبضہ کشمیر سےفوجیں نہ نکال لے۔

بھارتی سفیر سنجے پانڈا نے مزید کہا:’’اقوام متحدہ کی قراردادوں پر واقعات کی گرد پڑ چکی ہے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ۱۹۷۲ء میں ہونے والے شملہ معاہدے میں یہ اصول طے پاگیا تھا کہ دونوں ممالک اپنےباہمی امور دو طرفہ طریقے سے حل کریں گے، جن میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہوگا‘‘۔

اس نکتے پر غیر جذباتی انداز میں غور کرنا ضروری ہے۔ پانڈا خود کہہ چکےہیںکہ کشمیر پر قراردادیں منظورہوئے ۷۳برس گزر چکے ہیں۔وہ ترکی کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ اب ان قراردادوں کو بھول جاناہوگا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ محض وقت گزرنےسےتنازعے کی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی۔ اسی لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں آج بھی اسی طرح سے موجود ہیں اور عمل درآمد کی منتظرہیں۔ دوسرے ، یہ قراردادیں نہ کبھی متروک ہو سکتی ہیں اور نہ متروک قرار دی جاسکتی ہیں۔ حادثات کی پڑی گرد بھی نہ ان کی حیثیت تبدیل کر سکی ہے اور نہ کر سکے گی۔ وقت گزرنے سے کسی بھی اصول کو غیر مؤثر سمجھا نہیں جاسکتا۔یہ جموں و کشمیر کے عوام کا انمٹ اور ناگزیر حق ہےکہ وہ استصواب رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی معاہدوں کو وقت ختم کر سکتا ہوتا تو اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔ اگر عدم عمل درآمد سے کسی معاہدے کو غیرمؤثر یا متروک سمجھ لیا جائے تو بہت سے ممالک میں جنیوا کنونشن بھی اپنی حیثیت کھو بیٹھے گا۔

 شملہ معاہدہ کے بعد پاکستان اور بھارت تنازعات باہمی پلیٹ فارم پر حل کرنے کے مفروضے کو اگر چند لمحوں کے لیے درست مان بھی لیں تو پھر ہم اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب ٹی ایس ٹائرو مورچو کے ۲؍اگست ۲۰۲۱ء کے خطاب پر کیا کہیں گے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’کشمیر بھارت کا اٹوٹ اَنگ ہے اور یہ ناقابل تنسیخ حیثیت ہے‘۔ اگر رٹی رٹائی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے تو پھر شملہ معاہدہ کے تحت بھارت پاکستان سے کس معاملے پر بات کرنا چاہتاہے؟

دوسرے، شملہ معاہدہ میں ہی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ:’’مسئلہ کشمیر کا حل دو پارٹیوں(بھارت اور پاکستان) کے مقاصد میں سے ہے۔ اس صورت میں ٹی ایس ٹائرو کا یہ موقف تو اپنی جگہ شملہ معاہدے کے خلاف ہے، اقوام متحدہ کی باری تو بعد میں آئے گی۔

سنجے پانڈا جانتے ہیںکہ شملہ معاہدہ قرار دیتاہےکہ:کسی بھی مسئلہ کا حتمی حل نکلنےتک پاکستان یا بھارت اس کی حیثیت یک طرفہ طور پر تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس لیے آرٹیکل۳۷۰، اور ۳۵-اے، ڈومی سائل قانون، سب کی منسوخی نہ صرف شملہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں ہیں، بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۱۲۲کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں قرار دیاگیا ہے کہ ۱۹۵۱ء کی قرارداد کے مطابق نیشنل کانفرنس کی طرف سے سفارش کردہ قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلایاجائے،تاکہ پوری ریاست یا اس کے کئی حصوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے جاسکتے کہ جن سےریاستی عوام کی رائے پوری طرح عمل میں نہ آتی ہو۔

اگر بھارت جرأت سے کام لے، وہ ایسے آزادانہ ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائے، جو کشمیری عوام کی صحیح اُمنگوں کے ترجمان ہوں، جیسا کہ سفیر پانڈا کہہ رہےہیں، تب یہ امکان نظر آسکتا ہے کہ ۷۳سال سے حل کے منتظر کشمیر کا کوئی فیصلہ ہو سکے۔

لیکن بھارت نے کشمیر میں اپنے نو آبادیاتی طرز کے غیر جمہوری رویوں ہی کو ’جمہوری‘ قرار دے کر پیش کیا ہے۔ ۱۹۶۴ء میں برطانوی مؤرخ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: ’’بھارت کا سارا بلندترین آئیڈیلزم دھڑام سے ڈھے جاتاہے، جب اس کا نفاذ کشمیر کے سوال پر کیا جاتاہے‘‘۔

بھارت کے دوسرے گاندھی کا درجہ پانے والے جے پرکاش نرائن نے ۱۹۶۰ء میں اندراگاندھی سے کہا تھا: ’’ہم جمہوریت کا پرچار کرتے ہیں لیکن کشمیر میں ہماری حکمرانی قوت کے بل پر ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا، وہ کشمیر کو ہڑپ کرنا نہیں چاہتا۔ وہاں کے عوام ہمارے بارے میں سیاسی طور پر گہرے اور ان مٹ عدم اطمینان سے دوچارہیں‘‘۔

حکومت جموں وکشمیرکے سابق سیکرٹری بی کے دیو نے ۱۹۹۱ء میں اعتراف کیا تھا: ’’بھارتی جموں و کشمیر میں شروع سے انتخابات دھاندلی زدہ رہے ہیں‘‘۔ ارون دھتی رائے بوکرانعام یافتہ ہیں۔ انھوں نے ۲۷ستمبر۲۰۰۹ء میں واشگاف لفظوں میں کہہ دیا تھا: کشمیر میں انتخابات کی طویل حیران کن تاریخ ہے۔۱۹۸۷ء میں بڑے دھڑلے سے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ ان کی وجہ سے ہی اشتعال پھیلا اورمسلح تحریک نے جنم لیا‘‘۔یہ تحریک ۱۹۹۰ء میں شروع ہوئی۔ اس کے بعد سے جموں و کشمیر میں دھاندلی زدہ اور غیرنمایندہ انتخابات فوجی قبضے کے ہتھیار کے طور پر ہی ہوئے ہیں۔ یہ بھارتی ڈیپ سٹیٹ کے مکروہ عزائم کا اصل چہرہ ہیں۔ ایسے ہر نام نہاد انتخاب کے بعد بھارتی مقتدرہ یہ جھوٹا اعلان کرتی ہے کہ ’کشمیری عوام نے ہمیں بھاری مینڈیٹ دیا ہے‘۔

ڈاکٹر شری پرکاش نے اپنی کتاب Twenty Tumultuous Years Insight into Indian Polityکے صفحہ ۵۶۸پر لکھا تھا: ’’کشمیری غم و غصے کی اصل وجہ ۱۹۸۷ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی ہے۔ ایسی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو لاش کی صورت میں ہو۔ فاروق عبداللہ سے لے کر نیچے تک کشمیری لیڈر اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔وہ کسی بھی طرح سے مسئلہ کشمیر سے اب متعلق نہیں رہے‘‘۔ایمی والڈمین نے ۲۴؍اگست ۲۰۰۲ء کے نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا: ’’۱۹۸۹ء کے دھاندلی زدہ انتخابات نے مسلح جدوجہد کی بنیاد رکھی‘‘۔

چنانچہ ، ہمیں یقین ہےکہ ایسے بےمعنی اور خودفریبی پر مبنی انتخابات سے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل جمہوری اصول کی پاسداری ہے۔کشمیری عوام اب صرف ایسے انتخابی عمل کا خوشی سے حصہ بننے پر تیار ہوں گے، جن کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ یہ آزادانہ، منصفانہ رائے دہی کے لیے ہوں گے، اور ان کو منعقدکرانے کے لیے اقوام متحدہ جیساغیر جانب دار ادارہ کام کرے۔

سلامتی کونسل میں پاک بھارت تنازعات پر خاصی بحث ہو چکی ہے۔ لیکن استصواب رائے کا سوال بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور اسے حل کے طور پر طے بھی کیا گیا ہے۔ اس کا واضح اعتراف اقوامِ متحدہ میں بھارتی مندوب گوپال سوامی آیان گر نے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء میں کیا تھا۔ ان کاکہنا تھا: ’’کشمیر کاسوال___ ریاست کےلوگ بھارت سے الحاق ختم کر دیں یا پاکستان سے مل جائیں یاپھر وہ الگ رہنے کا فیصلہ کریںاور اقوام متحدہ کے ایک رکن کی حیثیت اختیار کرلیں۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام ہی کریں گے‘‘۔

لیکن بھارتی حکومت اپنے کسی قول پر کھڑا ہونے کے بجائے قتل و غارت گری کا گُر اختیار کیے ہوئے ہے۔

ایک طویل عرصے بعد اقوام متحدہ کے ایک باوقار ادارے ’انسانی حقوق کونسل‘ نے جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے دکھ درداوران پر ڈھائے جانے والے مظالم پر گہرائی میں جا کر یہ رپورٹ ترتیب دی ہے، جو دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑنے اور کوتاہیوں کی تلافی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ زیرنظررپورٹ کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں گذشتہ  دو برسوں کے دوران کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی بے حرمتی کی روح فرسا تصور پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ یہاں پر اس سے پہلے بھی یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ دوسرا یہ کہ بھارت اور پاکستان پر زور دے کر کہا گیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارایت کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے انتظام و اہتمام کریں، تا کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں ۔ تیسرا یہ کہ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی قرار دادیں جو حل تجویز کرتی ہیں، وہی درست اور منصفانہ راہ عمل ہے، جس سے کسی کے لیے مفر ممکن نہیں ۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ عالمی برادری، بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے علاقوں میں انسانی اور سیاسی حقوق کی صورتِ حال کو جاننے کے لیے وفود بھیجے ، جو غیر جانب دارانہ طور پر دُنیا کے سامنے حقائق کو پیش کریں۔

اس مناسبت سے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو دنیا کے سامنے مثبت طور پر حقائق پیش کرنے کے لیے سفارتی، ابلاغی سطح پر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے لمحے بھر کی بھی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ اور دنیا بھر کے اہل الراے کو دعوت دینی چاہیے کہ وہ پہلے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں آ ئیں اور پھر بھارتی کنٹرول میں جموں و کشمیر جاکر حقائق کودیکھیں اور عالمی اداروں کے سامنے موازنہ پیش کرکے ڈیڑھ کروڑ عوام کے مستقبل کو محفوظ کریں، اور پونے دو ارب انسانوں کے خطّے جنوب مشرقی ایشیا کو جنگ کے خطرات سے بچائیں۔مدیر 

o

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے جون ۲۰۱۶ء سے اپریل ۲۰۱۸ء کے دوران ’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر مبنی رپورٹ‘ ۱۴جون ۲۰۱۸ء کو جاری کی ہے۔      اس رپورٹ میں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گرافک دستاویزات شامل ہیں۔ یہ دستاویز بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے خلاف سنگین مظالم پر بین الاقوامی ردعمل اور افسوس ناک حقائق کو تسلیم کرنے اور   دُنیا کے سامنے پیش کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس رپورٹ میں انسانیت کے خلاف بھارتی جرائم پر رازداری کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ اب عالمی برادری کشمیر کے عوام کا دُکھ درد محسوس کرےگی۔

اس رپورٹ میں مخصوص واقعات کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے، جن میں بھارتی حکومت، کشمیر کے عوام کے خلاف، انسانیت کے بہت سارے اصولوں اور جمہوری آزادی کے تسلیم شدہ ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ:’’جولائی۲۰۱۶ء میں شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کے جواب میں، بھارتی مسلح افواج نے انتہائی طاقت کا استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور بہت زیادہ لوگوں کو زخمی کیا گیا۔ اس وحشیانہ پن کی وجہ مظاہرین کے خلاف استعمال ہونے والا سب سے خطرناک ہتھیار وہ شاٹ گن ہے، جس نے ہزاروں افراد اور بچوں کی آنکھیں ، جستی چھروں (pellets) سے ہمیشہ کے لیے ضائع کر ڈالیں۔

رپورٹ میں درج بہت سی مثالیں بتاتی ہیں کہ ظالمانہ قوانین کے استعمال نے بھارتی فوج کی انسانی حس کو ختم کرکے رکھ دیا ہے: ’’بھارتی حکومت نے ۱۹۹۰ء میں جموں و کشمیر کے مضطرب علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے قانون بنایا، جس میں بھارتی فوجی اور نیم فوجی فورسز کو غیرمعمولی قوت اور اختیار فراہم کیا گیا ہے‘‘۔ ان قوانین کا تشکیل پانا اور ان کا نفاذ، قانون کی   عمل داری اور احتساب کو روکتا ہے اور انسانی حقوق کی بے پناہ خلاف ورزیوں کو پروان چڑھاتا ہے اور متاثرین کے لیے علاج اور حق انسانیت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

رپورٹ نے متوجہ کیا ہے کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور حصولِ انصاف تک مظلوموں کی رسائی کے راستے میں رکاوٹوں نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کو زبردست چیلنج بنا دیا ہے‘‘۔ ​​اور یہ کہ ’’کشمیر میں ان ضابطوں کے نفاذ کے باوجود تحریک چل رہی ہے۔ وادیِ کشمیر اور جموں میں بڑے پیمانے پر اجتماعی قبروں سے متعلق شکایات کی تحقیقات کی ضرورت ہے‘‘۔

بہت سی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے تجویز کیا ہے کہ کشمیر، پوری دنیا میں سب سے بڑے فوجی ارتکاز کی حراست میں جکڑا ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ:’’سول سوسائٹی اور میڈیا اکثر ۵لاکھ سے ۷لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے آئے ہیں، جس نے کشمیرکو  دنیا کا سب سے بڑا جنگی زون بنا ڈالا ہے‘‘۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بغاوت کے اس تازہ ترین اُبھار (uprising)کے دوران، عملی طور پر کشمیر کی پوری آبادی سڑکوں اور گلیوں میں سر ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج کر رہی ہے، تاکہ علاقے کے عوام کے حق خوداختیاری کے مطالبے کو منوا سکیں۔ رپورٹ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے؛ ہندستانی زیر انتظام کشمیر نے ۱۹۸۰ء کے عشرے کے آخر میں،۲۰۰۸ء اور پھر۲۰۱۰ء کے آغاز میں احتجاج کی زبردست لہروں کا نظارہ کیا ہے۔ ان مظاہروں میں دورِ ماضی سے کہیں زیادہ لوگ شامل رہے ہیں، اور پھر مظاہرین کی صف بندی (پروفائل) بھی بدل گئی ہے۔ ان میں زیادہ نوجوان، درمیانی طبقے کے کشمیری شامل ہیں۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر خواتین بھی احتجاجی تحریک میں شامل ہیں، جو ماضی میں شرکت نہیں کیا کرتی تھیں‘‘۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مذاکرات ناکام رہے ہیں کیوںکہ وہ مذاکرات کشمیرکی عوامی قیادت کو جو تنازعے کا بنیادی کردار ہیں، نظرانداز کرکے ہوتے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرکے کہا گیا ہے کہ: ماضی میں اور پھر موجودہ زمانے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرقابو پانےاور کشمیر میں تمام لوگوں کے لیے انصاف فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے، جو سات عشروں پر پھیلے تنازعے میں کچلے جارہے ہیں۔ کشمیر میں سیاسی حل کو،  تشدد کے آرے سے کاٹا اور احتساب کے خاتمے سے انجام دیا گیا ہے۔ گذشتہ طویل عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل و غارت گری کا نشانہ بننے والے افراد کو بچانے کے لیے ایک مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا ایک حل صرف اُس وقت بامعنی بن سکتا ہے کہ جب کشمیر کے لوگوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔

بھارتی انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی پی سمیت ’پیپلز یونین آف سول لبرٹیز‘ وغیرہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے افراد کو جموں و کشمیر میں بھیجا۔ بہت سی رپورٹوں میں تشدد اور ظلم کی تفصیلات شائع کیں، جو اکثر بھارتی سرکاری حکام کی زیادتیوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ، ان رپورٹوں کے مندرجات کی توثیق اور تائید کرتی ہے۔ جیساکہ سول اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے پر ایک دستخط کنندہ ملک کے طور پر بھارت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی بھی حالت میں آرٹیکل ۷کے تحت بھارت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کسی شخص کو’تشدد‘ پر مبنی ظالمانہ، غیر انسانی یا انتہائی سزا نہ دے، جب کہ  کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا مستقل ہتھکنڈا ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔

رپورٹ میں کالجوں کے اساتذہ اور مزدوری کرنے والے غریب اور نادار مزدوروں کو مارڈالنے کی متعدد مثالیں پیش کرنے کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ طبی خدمات کے مراکز اور ایمبولینس واضح طور پر نشانہ بنائی جارہی ہیں۔ ایمبولینسوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مظاہرین کو لاتی ہیں،حالاں کہ وہ زخمیوں کی مدد کرتی ہیں، انھیں طبی مدد دینے کی کوشش کرتی ہیں، مگر فوجیوں کی فائرنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ واضح طور پر یہ ان نوجوانوں اور شہری آبادیوں کو جسمانی طور پر غیرفعال اور اپاہج بنانے کا ایک مقصد ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ:’’سرینگر میں ڈاکٹروں نے سکیورٹی فورسز پر ہسپتالوں کے قریب آنسو گیس پھینکنے اور فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے اور بعض صورتوں میں، ہسپتال کے اندر گھس کر بھی وہ یہ زیادتی کرتی ہیں، جس نے ڈاکٹروں میں ذمہ داری ادا کرنے کی صلاحیت کو زبردست متاثر کیا اور مریضوں کی صحت اور زندگی کو مزید خطرات سے دوچار کیا ہے‘‘۔

اس دوران بین الاقوامی کمیونٹی کی توجہ حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ عالمی قوتوں نے بھارت سے اس زیادتی کے بارے میں پوچھنے کی زحمت سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔  دوسری طرف، بھارت، کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنان کو بین الاقوامی فورموں پر انسانی حقوق کے موضوع پر بات کرنے کے لیے نہیں جانے دیتا۔

 رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں نے جب بھی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بین الاقوامی توجہ دلانے کی کوشش کی تو انھیں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ کچھ صحافیوں کی رسائی تک روک دی گئی ہے۔

 انسانی حقوق کے ایک محافظ خرم پرویز کو ۱۵ ستمبر۲۰۱۶ء کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کے لیے پی ایس اے کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ پھر انسانی حقوق کے علَم بردار وکیل کارٹک مرکوٹلا، جو خرم پرویز کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں، انھیں ۲۴ستمبر ۲۰۱۶ء کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرلیا کہ وہ جنیوا کیوں گئے تھے؟ اسی طرح فرانسیسی صحافیوں اور دستاویزی فلم ساز پولس کمیٹی کو ۹ دسمبر۲۰۱۷ء کو سرینگر میں گرفتار کیا گیا۔

اس چیز کے اچھے خاصے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کے خونیں قبضے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دوران، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بات سخت تکلیف دہ ، شرم ناک اور ناقابلِ قبول ہے کہ خواتین کی عزّت و حُرمت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ:۲۰۱۳ء میں بھارت کے مشن پر خصوصی رپورٹر نے، خواتین کے خلاف تشدد اور اس کی وجوہ اور نتائج کے بارے میں کہا تھا:’’جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں سخت محاصرے اور مسلسل نگرانی کی حالت میں رہتی ہیں، چاہے یہ لوگ گھروں میں ہوں یا باہر۔ تحریری اور زبانی ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ریاستی سیکورٹی فورسز نے افراد کو لاپتا کرنے والی کارروائیوں، قتل اور تشدد اور اجتماعی عصمت دری جیسے عمل کو  مقامی باشندوں کو دھمکانے اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘‘۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل نے سفارش کی ہے:’’کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جامع بین الاقوامی تحقیقات کرنے کے لیے انکوائری کمیشن کا قیام اور اس رپورٹ کے نتائج پر غور کیا جائے‘‘۔

رپورٹ میں بھارتی حکومت کو۱۷ سفارشات دی ہیں، تاکہ ان مظالم کو ختم کیا جاسکے۔  جس کے مطابق: l فوری طور پر مسلح افواج (جموں و کشمیر) کے خصوصی اختیارات کے ایکٹ، ۱۹۹۰ کو منسوخ کیا جائے۔ lجولائی۲۰۱۶ء سے لے کر تمام شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے آزاد، غیر جانب دار اور قابل اعتماد تحقیقات کی جائیں۔lبین الاقوامی قانون کے تحت کشمیر کے لوگوں کو حق خود اختیاریت دیا جائے۔

رپورٹ میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ: ’اقوام متحدہ کی رپورٹ‘ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے ارکان اور پالیسی سازوں کو متحرک کرے گی، جو کشمیر میں بہیمانہ قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے اپنی قانونی طاقت سے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ رکن ممالک کے پالیسی سازوں کو مسئلے کی بنیادی وجہ کو سمجھنے کے لیے حقائق کو دیکھنا چاہیے۔ حق خود اختیاری کے ناقابلِ تنسیخ وعدے کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ضمانت فراہم کرتی ہیں‘۔

ہمیں یقین ہے کہ ہم کشمیری، کشمیر میں اس کی تقدیر کے تحفظ کے لیے، جو کہ ایک شان دار تاریخ رکھتی ہے، اسے صدمات کے منجدھار سے نکالنے کے لیے اپنی تمام توانائی، حکمت اور عزم و ہمت سے کام لیں گے۔[انگریزی سے ترجمہ: س    م     خ] ٭

 

٭ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر (۲۰۰۲ء-۲۰۰۸ء) اور سلامتی کونسل کے سابق صدر منیراکرم صاحب نے، اس رپورٹ کی مناسبت سے لکھتے ہوئے متوجہ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک مشترکہ کمیشن مقرر کر کے کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لیں، اور اگر بھارت اس سے انکار کرے تو پھر حسب ذیل اقدامات کیے جائیں:lبھارت کی سیکورٹی فورسزکے انفرادی ارکان کی شناخت کرتے ہوئے، انھیں انسانیت کے خلاف متعدد جرائم میں نامزد کیا جا سکتا ہے کہ جنھوں نے غیر مسلح مظاہرین کو روکنے کے لیے وحشیانہ فائرنگ کی اور بے بس خواتین کو جنسی تشدد اور بے حرمتی کا نشانہ بنایا ۔ انھیں جنیوا کنونشن اور [قتل عام ] سے متعلق معاہدات کے تحت مقدمات میں ماخوذ کیا جانا چاہیے۔ lبھارتی مقبوضہ کشمیر میں بہت سے بھارتی ہنگامی قوانین کے نفاذ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔ lاقوام متحدہ کے معاہدات میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پُر امن مظاہرین کو فائرنگ اور پیلٹ گنوں کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اس لیے ایسے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ l  بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی (ICRC) اور دیگر فلاحی تنظیمیں کشمیری قیدیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد اور ان سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ lبھارتی سماجی کارکنوں کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جا کر برسرِ زمین حالات دیکھنے، اور کشمیری شہریوں کو بھارت سے باہر دنیا میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کی اجازت دی جائے۔ lبھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ، جنسی تشدد اور بے حرمتی کی شکار بے بس کشمیری خواتین کے لیے انصاف کے حصول اور ایسے گھنائونے جرائم کی روک تھام کے لیے پوری قوت سے آواز اُٹھانی چاہیے، خاص طور پر کنن پوش پور کے شرمناک واقعے (جس میں بھارتی فوجیوں نے ۲۳ عورتوں اور بچیوں کی اجتماعی بے حُرمتی کی تھی)کو عبرت ناک مثال بنانا چاہیے۔ lحکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی عدالت انصاف  (ICJ) اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرے کہ وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی مناسبت سے بھارت کو انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے۔

اگر پاکستان: انسانی حقوق کی علم بردار قوتوں کو متحرک کر کے بھارت کو اس کا اصل چہرہ دکھا سکے اور    دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکے تو اس سے کشمیری عوام پر مظالم کی یلغار کم اور تشدد کے واقعات میں کمی آ سکے گی۔  اس طرح مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے طے شدہ اصول کے تحت حق خود ارادیت کے انعقاد کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ (روزنامہ Dawn، کراچی، ۲۴جون ۲۰۱۸ء)