’ویانا ڈیکلیریشن‘ اور ’ورلڈ کانفرنس برائے انسانی حقوق‘ کے ایکشن پروگرام نے خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کا ناقابل تنسیخ، اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصہ قرار دیا ہے۔ بیجنگ ڈیکلیریشن اور ’پلیٹ فارم آف ایکشن‘ دونوں بین الاقوامی برادری کی دو عشروں سے زائد عرصے میں کی گئی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اکیسویں صدی میں دُنیا نے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات میں خواتین کے لیے بڑی تبدیلیاں لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ خواتین پر تشدد ان کی ترقی اور پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کے حقوق کی پامالی بیسویں صدی کا ایک بڑا مسئلہ ہے جو انسانیت کی تذلیل کی علامت ہے۔
متعدد این جی اوز اور انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹ کے مطابق روانڈا، بوسنیا، کوسوو، میانمار، کشمیر اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں مسلح افواج کے ہاتھوں لاکھوں خواتین عصمت دری اور جنسی تشدد کا نشانہ بنیں۔ ان این جی اوز نے نوجوان لڑکیوں اور بزرگ خواتین کے ساتھ یکساں اجتماعی عصمت دری کے واقعات کی دستاویز بھی تیار کی ہیں۔ جن کے مطابق بعض اوقات خاندان کے مردوں کی موجودگی میں جنسی زیادتی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مسلح افواج کی جانب سے یہ عصمت دری درحقیقت بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کونسل سمیت تمام متعلقہ اداروں کو چاہیے جنگ اور خانہ جنگی کے دوران خواتین کی جنسی بے حُرمتی کی روک تھام کا بندوبست کریں تاکہ ہر صورت میں خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی ہو۔
'خواتین کے خلاف تشدد پر خصوصی نامہ نگار رپورٹ Special Rapporteur on Violence Against Women میں بتایا گیا ہے کہ عصمت دری دراصل طاقت، غصے اور جنسی بے راہ روی کا تباہ کن امتزاج ہے جو خواتین کے خلاف اس وحشیانہ تشدد کو ہوا دیتا ہے۔ عصمت دری سے متاثر خواتین 'ریپ ٹراما سنڈروم جیسے نفسیاتی عوارض میں مبتلا رہتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی زندگی اس خوفناک المیے کی قیدی بن کر رہ جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (UNHCR) نے ۸ جولائی ۲۰۱۹ء کو اپنی ’’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر رپورٹ‘‘ جاری کی، جو جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تصویری دستاویزات پر مشتمل ہے۔ یہ رپورٹ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی سنگین زیادتیوں کو بین الاقوامی سطح پر پیش کرنے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے، اور انسانیت کے خلاف بھارت کے گھنائونے جرائم سے پردہ اٹھاتی ہے۔
۴۹ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ایسے مخصوص واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق بھارتی حکومت کشمیری عوام کے خلاف انسانی شرافت اور جمہوری آزادی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ اس خونیں قبضے کے نتیجے میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ پھر بھیانک طریقوں سے مسلم خواتین کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے۔
۲۰۱۳ء میں اقوام متحدہ نے انڈیا کےمشن پر ’خواتین کے خلاف تشدد پر خصوصی نامہ نگار رپورٹ‘ تیار کی تھی، جس میں اس تشدد کے اسباب اور نتائج پر بتایا گیاکہ: ’’فوجی علاقوں میں رہنے والی خواتین، جیسے جموں اور کشمیر اور شمال مشرقی ریاستیں، مسلسل محاصرے اور نگرانی کی حالت میں رہتی ہیں، چاہے وہ اپنے گھروں میں ہوں یا باہر۔ تحریری اور زبانی دونوں شہادتوں کے ذریعے معلومات کے مطابق بھارتی سیکورٹی فورسز مبینہ طور پر خواتین کی اجتماعی عصمت دری کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگی، قتل اور تشدد اور ناروا سلوک کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ انسانی حقوق کی یہ سنگین خلاف ورزیاں وہاں کے لوگوں کو ڈرانے، دھمکانے اور سیاسی برتری حاصل کرنے کےلیے بہ طور ہتھیار استعمال کی گئیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ،’’ ایک اہم کیس جو ریاست کی ناکامی اور کشمیر میں جنسی جرائم کے مرتکب مجرموں کو سزا سے بریت دلوانے کو آشکار کرتا ہے، وہ کنن پوش پورہ میں تین عشرے قبل پیش آنے والا اجتماعی عصمت دری کا واقعہ ہے۔ ریاست اس واقعے میں ملوث ملزموں کی تحقیقات اور ان پر مقدمہ چلانا تو دُور کی بات، سرکاری حکام نے مختلف سطحوں پر انصاف کےحصول کےلیےبرسوں سے کی گئی کوششوں کو ناکام بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ایک زندہ بچ جانے والے مقامی اہلکار کے مطابق ۲۳ فروری ۱۹۹۱ء کی رات بھارتی۴ راجپوتانہ رائفلز رجمنٹ کے سپاہیوں نے ضلع کپواڑہ کے کنن پوش پورہ گاؤں کی ۲۳ خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’’زندہ بچ جانے والوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے کئی برس سے اس کیس کی آزادانہ تحقیقات کے لیے مہم چلائی ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اس مقدمے کی دوبارہ تحقیقات کرے اور اس سینئر اہلکار کے خلاف مقدمہ چلائے، جس نے جان بوجھ کر تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ ۱۸ جولائی ۲۰۱۳ء کو، کپواڑہ کی ضلعی عدالت نے ریاستی پولیس کو حکم دیا کہ وہ تین ماہ کے اندر اس کیس کی تحقیقات کرے۔ جب ان احکامات کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو پانچ لواحقین نے اکتوبر۲۰۱۳ء کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ خبروں کے مطابق جولائی ۲۰۱۴ء کو ہائی کورٹ نے کہا کہ سفارشات ثبوتوں کے مطابق ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ اور فزیشنز فار ہیومن رائٹس کی مشترکہ رپورٹ کے صفحہ ۷ پر کہا گیا ہے کہ ’’۲۳ فروری ۱۹۹۱ءکو کنن پوش پورہ گاؤں کی خواتین کے ساتھ ۴ راجپوتانہ رائفلز رجمنٹ کے فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں کی گئی عصمت دری کی رپورٹ امرواقعہ ہے، اور [بھارتی] مسلح افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے اور مجرموں کو سزا دینے میں حکومت غیر سنجیدہ اور ناکام ہے‘‘۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’یہ رپورٹ دوسری سیریز ہے، جسے ایشیا واچ اور پی ایچ آر مشترکہ شائع کر رہے ہیں۔ یہ ادارے اس رپورٹ کو شائع کرتے ہوئے پُراُمید ہیں کہ اس سے بین الاقوامی رائے عامہ کی توجہ کشمیر میں عصمت دری کو بہ طور جنگی ہتھیار استعمال کرنے اور ان حکومتی پالیسیوں کی طرف مبذول ہوجائے گی ، جن کی وجہ سے سیکورٹی فورسز بے خوفی سے یہ جرائم کر گزرتی ہیں۔ اس رپورٹ میں شامل مقدمات خود اپنی صداقت کی دلیل ہیں، جب کہ عصمت دری کے واقعات اس سے کہیں زیادہ ہوئے ہیں، جتنے یہاں درج کیے گئے ہیں‘‘۔
عام طور پر بھارت کی فوجی عدالتیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مقدمات کو نمٹانے میں نااہل ثابت ہوئی ہیں۔ انصاف کو یقینی بنانے کے بجائے وہ الٹا ثبوتوں کو چھپانے اور ملوث افسران کو تحفظ دیتی آرہی ہیں۔ اس رپورٹ میں (ایشیا واچ اور پی ایچ آر) میں تجویز دی گئی ہے کہ تمام فوجی یا نیم فوجی مشتبہ افراد کے خلاف عصمت دری کے مقدمات سویلین عدالتوں میں چلائے جائیں۔
پانچ بہادر کشمیر خواتین اسکالرز دستایزی ثبوت کے ساتھ پہلے صفحے پر لکھتی ہیں: ’’یہ کتاب کشمیر کے دو گاؤں میں ایک رات کے متعلق ہے۔ ایک ایسی رات کہ جو ۲۴ برس بعد بھی ناقابلِ انکار حقیقت ہے، ایسی خوفناک رات جس میں ایک طرف ظلم، درندگی، ناانصافی اور جھوٹ ہے اور دوسری طرف جرأت، بہادری اور سچائی کی المناک داستان ہے۔ یہ کتاب کنن پوش پورہ کے بارے میں ہے‘‘۔
وہ کتاب کے صفحہ ۲۵ پر اس رات کی ہولناکیاں ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں: ’’کوئی اس تاریک کمرے کو کیسے روشن کرسکتا، کوئی مایوسی کو امید سے کیسے بدل سکتا ہے، کیسے کوئی گھٹاٹوپ ماحول میں انصاف کی اُمید کرسکتا ہے؟‘‘کنن پوش پورہ کی کہانی کی تفصیلات بتانے سے پہلے ان پانچ مصنّفین کے حالات کو دیکھیے ، ہر ایک اپنی اپنی کہانی بتاتی ہے، اس کا سماجی اور معاشی پس منظر، کہ کس طرح اس کے خاندان نے اسے ماحول کی تباہ کاریوں سے بچانے کی کوشش کی، جو بڑے پیمانے پر تشدد کے نشانات سے خوف زدہ تھے، کہ کس طرح عصمت دری جیسے الفاظ کے استعمال سے اور بعض سوالات اٹھانے سے منع کیا گیا تھا، انھوں نےکیسے خوف اور عدم تحفظ کا مقابلہ کیا؟ ان میں سےہر ایک نے کیسے ڈراؤنے خواب دیکھے کہ اس کی بھی عصمت دری ہوسکتی ہے۔
کس طرح ایک اور خاتون نے اس خوفناک حادثے کا ذکر کیا جب عمر بڑھنے کے ساتھ اس کو پتا چلا کہ کئی برس پہلے، جب اس کی عمر بمشکل تین برس تھی، اس کے والد کو وردی میں ملبوس افراد نے اٹھالیا اور اسے نہایت بے دردی کے ساتھ زد و کوب کیا، جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی۔
ہر ایک نے اپنی ’بیداری‘ کے لمحات قلم بند کیے ہیں کہ ان سب دلیر خواتین نے کس طرح مشکل حالات سے گزر کر سچائی کو دریافت کیا؟ چاہے ان میں سے کسی کو دفن کیا گیا ہو یا بھلا دیا گیا ہو۔ اس طرح ان پانچ دلیر مصنفین نے جھوٹ کے جال کو چھان پھٹک کر تحقیقات سے سچائی کو واضح طور پر پیش کردیا۔
ڈاکٹر نذیر گیلانی نے ہیومن رائٹس کمیشن کے ۵۸ویں اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو جمع کرائے گئے تحریری بیان میں کہا: ۱۹۹۱ء میں کنن پوش پورہ میں کشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعے کے بعد اس نوعیت کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں۔ اور ’آدھی بیواؤں‘ کا مسئلہ (وہ عورتیں جن کے شوہر لاپتہ ہیں اور دوبارہ شادی نہیں کر سکتی ہیں) مظلوم کشمیری معاشرت کا رستا ہوا ناسور ہے۔ ہندستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خواتین بے بسی کی گہری کھائی میں ہیں۔
ان خواتین کی آبرو زیزی کے خلاف آواز اٹھانے کے دوران مزید کتنوں کے بے آبرو ہونے کا انتظار ہے؟ ایک بنیادی سوال ہے جو لاکھوں کشمیری خواتین کے ذہنوں میں ہے۔ یاد رکھیںکہ یہ خواتین نو لاکھ قابض بھارتی فوج کی عملاً حراست میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ویانا ڈیکلیریشن کے مطابق:’’خواتین کے حقوق عالمی انسانی حقوق کا ناقابل تنسیخ، اٹوٹ اور ناقابلِ تقسیم حصہ ہیں‘‘۔ وہ عالمی برادری کے اس گونگے اندھے تماشائی طرزِعمل پر حیران ہیں کہ ابھی تک خواتین کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ہونے والے انسانیت سوز تشدد پر کیا کارروائی کی گئی ہے؟
ایسے وحشیانہ تشدد کی شکار کشمیری خواتین پوچھتی ہیں: انسانی حقوق کے عالمی ڈکلریشن اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے ڈیکلیریشن کی رِٹ کو نافذ کرنے کے لیے ابھی تک کیا کارروائی کی گئی ہے؟
کشمیر میں مسلسل ظلم و جبر کی اس فضا نے وہاں کے باشندوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے پوری طرزِ زندگی کو تبدیل کردیا ہے ۔ وادی میں بچپن کا پورا تصور ایک بڑی بنیادی تبدیلی سے گزرا ہے۔ بچے نہ تو کنڈرگارٹن میں جاتے ہیں اور نہ کھلونوں سے کھیلتے ہیں، جس طرح عام طور پر بچے کرتے ہیں۔ وہ آزاد ماحول میں اپنے والدین کی نگہداشت میں پرورش نہیں پاسکتے کہ ان کے بچپن کی یادیں دہشت کی فضا، بے اطمینانی، اضطراب ، بدامنی، عدم تحفظ اور بے یقینی پر مشتمل ہوتی ہیں۔
کیا یہ رپورٹیں عالمی طاقتوں اور انسانی حقوق کونسل کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں؟ انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ریاست ، بھارت نہ صرف انسانی حقوق کی کونسل بلکہ سلامتی کونسل میں بھی بیٹھنے کی جرأت رکھتی ہے۔ عالمی برادری بھارت کی مذمت کیوں نہیں کرتی؟
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ کشمیری عوام کی حالت زار پر عالمی برادری کا ردعمل بنیادی طور پر کمزور اور ناقابل اعتبار رہا ہے۔ اس کے ساتھ اتنا ہی بڑا سچ یہ ہے کہ انسانی حقوق کی اس قدر بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کا نظامِ کار مؤثر نہیں ہے۔ مسلح تصادم اور خانہ جنگی کے حالات میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصادم کی بنیاد سے احسن طریق پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس تنازعے کی بنیادی وجہ حق خود ارادیت سے انکار ہے جس کا وعدہ اقوام متحدہ نے جموں و کشمیر کے عوام سے کیا تھا۔اقوام متحدہ کی اس بے عملی نے دُنیا کو بہت مایوس کیا ہے۔
ان جنگ زدہ علاقوں میں شکار بننے والی خواتین اور بچوں کی بحالی کے لیے خصوصی پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس گئی گزری صورتِ حال کے باوجود کشمیری، اقوام متحدہ سے انصاف اور دست گیری کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن امید کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اس المناک صورتِ حال پر عالمی برادری کے نیم دلانہ ردعمل کی وجہ سے ہم اکثر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی بے حسی، بے عملی، اور خاموشی نے بلاشبہہ غیر ارادی طور پر کشمیر میں قابض انتظامیہ کو وحشت ناک ہونے کا راستہ دکھلایا ہے۔