قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۸۵) [رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے]۔
یہی ارشادِ خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہِ رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھا اور اس اطاعت ِ الٰہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت ِ قوم خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدئہ شکر بجا لانے کے لیے یہاں جمع ہوئے۔
بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ طاعت ِ حق، یعنی عبدیت کے فرائض کی بجاآوری میں پورا نکلے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تہوار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے، جو خدائے پاک کی فرماں برداری میں پورا اُترنے کی عید مناتی ہو۔
مؤرخین کے بیان کے مطابق ۲ ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ صدقۂ عیدالفطر کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا۔ حضوؐر نے پہلے ایک خطبہ دیا جس میں اس صدقہ کے فضائل بیان فرمائے پھر صدقہ کا حکم دیا۔ عیدالفطر کی نمازباجماعت عیدگاہ میں اسی سال ادا فرمائی۔ ۲ ہجری سے پہلے عید کی نماز نہیں ہوتی تھی۔
اسلام کے ارکان، یعنی توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج جب نبی اُمّی ؐ کی زبان سے خالقِ اکبر نے بندوں کی اصلاح و فلاح کے لیے ہدایت فرمائے تو مقصود یہ تھا کہ ان کی پابندی سے مسلم بحیثیت فرد وہ انسان بن سکے جسے وحیٔ خداوندی احسن التقویم کے نام سے تعبیر کرتی ہے اور ملّت ِاسلامیہ وہ ملّت بن جائے جو قرآنِ پاک کے الفاظ کے مطابق دُنیا کی بہترین اُمت ہو اور اپنے تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کے اصول کو ہمیشہ سامنے رکھنے والی ہو۔ اسلام کا ہررکن انسانی زندگی کے صحیح نشوونما کے لیے اپنے اندر ہزارہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی رکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنا ہیں جسے ’صوم‘ کہتے ہیں اور جس کی پابندی کے شکرانہ میں آج آپ عید منارہے ہیں۔
روزے کا فلسفہ: روزے پہلی اُمتوں پر بھی فرض تھے۔ گو، اُن کی تعداد وہ نہ ہوجو ہمارے روزوں کی ہے اور فرض اس لیے قرار دیئے گئے کہ انسان پرہیزگاری کی راہ اختیار کرے۔ خدا نے فرمایا: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۸۳ۙ (البقرہ ۲:۱۸۳) [تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی]۔گویا روزہ انسان کو پرہیزگاری کی راہ پر چلاتا ہے۔ اس سے جسم اور جان دونوں تزکیہ پاتے ہیں۔ یہ خیال کہ روزہ ایک انفرادی عبادت ہے، صحیح نہیں بلکہ ظاہر و باطن کی صفائی کا یہ طریق، یہ ضبط، یہ حیوانی خواہشوں کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام اپنے اندر ملّت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔
وہ فائدے جو ایک ’فرد‘ کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں، اس صورت میں بھی ہوسکتے تھے کہ روزے بجائے مسلسل ایک مہینہ رکھنے کے کبھی کبھی رکھ لیے جاتے یا بجائے رمضان میں رکھنے کے سال کے اور مہینوں میں رکھ لیے جاتے۔ اگر محض فرد کی اصلاح اور اس کی روحانی نشوونما پیش نظر ہوتی تو بے شک یہ ٹھیک تھا لیکن ’فرد‘ کے علاوہ تمام ملّت کے اقتصادی اور معاشرتی تزکیہ کی غرض بھی شارع برحق کے سامنے تھی۔
عید کی حکمت :آج کی عید عیدالفطر کہلاتی ہے۔ پیغمبر ؐ خدا نے جب عید کے لیے عیدگاہ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو ساتھ ہی صدقہ عیدالفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ تعجب نہیں کہ عید کا دن مقرر کرنے کی غرض ہی شارع علیہ الصلوٰۃ کے نزدیک صدقۂ عیدالفطر کا جاری کرنا ہو۔ حق یہ ہے کہ زکوٰۃ اور اصولِ تقسیمِ وراثت کے بعد تیسرا طریق اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کا جو اسلام نے تجویز کیا صدقات کا تھا، اور ان صدقات میں سب سے بڑھ کر صدقۂ عیدالفطر کا اس لیے کہ یہ صدقہ ایک مقررہ دن پر تمام قوم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔
روزوں کا ملّی فائدہ:رمضان کا مہینہ آپ نے اس اہتمام سے بسر کیا ہے کہ کھانے پینے کے اوقات کی پابندی سیکھ لی۔ اپنی صحت درست کرلی۔ آیندہ گیارہ مہینے کئی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے قابل اپنے آپ کو بنا لیا۔ کفایت شعاری سیکھی۔ رزق کی قدروقیمت سیکھی۔ یہ سب ذاتی فائدے تھے۔ صیام کا قومی اور ملّی فائدہ یہ ہے کہ صاحب ِ توفیق مسلمانوں کے دلوں میں اپنی قوم کے مفلس اور محروم افراد کی عملی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو اور صدقۂ فطر کے ادا کرنے سے قوم میں ایک گونہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم ہو۔ حکم یہ ہے کہ ’عید‘ کی نماز میں شرکت سے پہلے ہرصاحب ِ توفیق مسلمان صدقۂ فطر ادا کرکے عیدگاہ میں آئے۔ اس سے مقصود یہ نہیں کہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات صرف ایک آدھ دن کے لیے قائم ہوجائے، بلکہ ایک مہینہ کا متواتر ضبط ِ نفس تم کو اس لیے سکھایا گیا ہے کہ تم اقتصادی اور معاشرتی مساوات کو قائم رکھنے کی کوشش تمام سال کرتے رہو۔
نزولِ قرآن کی سالگرہ:باقی رہا یہ امر کہ روزے ماہِ رمضان کے ساتھ ہی کیوں مختص کیے جائیں؟ سو، واضح رہنا چاہیے کہ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسرار کو مدنظر رکھ کر ’صیام‘ کے زمانی تسلسل کو ضروری سمجھا ہے۔ اس تسلسل کے لیے وقت کی تعیین لازم تھی اور چونکہ اسلام کا اصل مقصود انسانوں کو احکامِ الٰہی کی فرماں برداری میں پختہ کرنا تھا، اس لیے صیام کو اس مہینہ سے مختص کیا گیا جس میں احکامِ الٰہی کا نزول شروع ہوا تھا۔ بالفاظِ دیگر یوں کہو کہ مسلمانوں کو ہرسال ایک پورا مہینہ کامل تزکیۂ نفس کے ساتھ نزولِ قرآنِ حکیم کی ’سالگرہ‘ منانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ احکامِ الٰہی کی حُرمت و تقدیس ہمیشہ مدنظر رہے اور نمازِ تراویح پر کاربند ہوکر قوم کے ہرفرد کو اجتماعی حیات کا قانون عملاً اَزبر ہوجائے۔
اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔ قرآن میں جہاں مسائل ’صیام‘ کے ذکر کے بعد یہ فرمایا کہ تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ۱۸۷ (البقرہ ۲:۱۸۷) [یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے]۔ وہاں ساتھ ہی ملحق بطور ان تمام باتوں کے نتیجے کے یہ حکم بھی دیا: وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۸۸ۧ (البقرہ ۲:۱۸۸) [اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے اُن کو اِس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے]۔
دوسروں کے اموال پر ناجائز تصرف:روزہ رکھ کر مفلسوں سے محض ہمدردی کا احساس پیدا کرلینا کافی نہ تھا۔ عید کے دن غرباء کو دوچار دن کا کھانا دے دینا کافی نہ تھا۔ طریق وہ اختیار کرنا مقصود تھا جس سے مستقل طور پر دُنیاوی مال و متاع سے انتفاع کے قواعد اس طور پر قائم ہوں کہ جہاں تقسیمِ وراثت اور زکوٰۃ سے ملتِ اسلامیہ کے مال و متاع میں ایک گونہ مساوات پیدا ہو، وہاں اس مساوات میں ایک دوسرے کے اموال میں ناجائز تصرف سے کسی قسم کا خلل نہ آئے۔ روزوں کے التزام سے صرف انفرادی روحانیت کی ترقی یا زیادہ سے زیادہ انسانوں کے ساتھ ایک ہنگامی ہمدردی ہی مقصود نہیں بلکہ شارع کی نظر اس بات پر ہے کہ تم اپنے اپنے حلال کے کمائے ہوئے مال پر قناعت کرو اور دوسروں کے کمائے ہوئے مال کو باطل طریقوں سے کھانے کی کوشش نہ کرو۔ اس باطل طریق پر دوسروں کا مال کھانے کی بدترین روش قرآن کے نزدیک یہ ہے کہ مال و دولت کے ذریعے حکام تک رسائی حاصل کی جائے اور ان کو رشوتوں سے اپنا طرف دار بناکر اوروں کے مالوں کو اپنے قبضہ میں لایا جائے۔
مقدمے عدالتوں میں نہ لـے جاؤ : مذکورہ بالا آیت میں اثم کے معنی بعض مفسرین نے جھوٹی گواہی کے لیے ہیں۔ علمائے قرآن نے ’حکام‘ سے مرادمسلمانوں کے اپنے مفتی ، قاضی اور سلطان لیے ہیں۔ جب اپنے فقیہوں اور قاضیوں کے پاس جھوٹے مقدمے بنا کر لے جانے والے کو خدا نے مذموم قرار دیا ہو تو سمجھ لو کہ غیراسلامی حکومتوں کے حکام کے پاس اس قسم کے مقدمات لے جانا کس قدر ناجائز ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھنے کی آخری غرض یہ تھی کہ آیندہ تمام سال اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بن کر رہو کہ اگر اپنا مال ایک دوسرے کو بانٹ کر دے نہیں سکتے تو کم سے کم ’حکام‘ کے پاس کوئی مالی مقدمہ اس قسم کا نہ لے کر جائو جس میں ان کو رشوت دے کر حق و انصاف کے خلاف دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا مطلوب ہو۔
آج کے دن سے تمھارا عہد ہونا چاہیے کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآنِ حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے اس کو تم ہمیشہ مدنظر رکھو گے۔
اِسراف اور مقدمہ بازی چھوڑو:مسلمانانِ پنجاب اس وقت [یعنی ۱۹۳۲ء میں] تقریباً سوا ارب روپے کے قرض میں مبتلا ہیں اور اس پر تقریباً بیس کروڑ روپیہ سود ادا کرتے ہیں۔ کیا اس قرض اور اس سود سے نجات کی کوئی سبیل سوائے اس کے ہے کہ تم احکامِ خداوندی کی طرف رجوع کرو اور مالی اور اقتصادی غلامی سے اپنے آپ کو رہا کرائو۔ تم اگر آج فضول خرچی چھوڑنے کے علاوہ مال و جائیداد کے جھوٹے اور بلاضرورت مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دو تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ چند سال کے اندر تمھارے قرض کا کثیر حصہ اَزخود کم ہوجائے گا اور تم خود تھوڑی مدت کے اندر قرض کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کرا لو گے۔ نہ صرف یہ بلکہ مالی مقدمات کا ترک تمھیں اس قابل بنا دے گا کہ تم وہی روپیہ جو مقدموں اور رشوتوں اور وکیلوں کی فیسوں میں برباد کرتے ہو، اس سے اپنی تجارت اور اپنی صنعتوں کو فروغ دے سکو گے، کیا اب بھی تم کو رجوع الی القرآن کی ضرورت محسوس نہ ہوگی اور تم عہد نہ کرلو گے کہ تمام دُنیاوی اُمور میں شرعِ قرآنی کے پابند ہوجائو گے؟
کس انتباہ کے ساتھ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ اِیَّـاکُمْ وَالْدِّیْنَ فَاِنَّہٗ ھَمٌّ بِاللَّیْلِ وَمذَلَّۃٌ بِالنَّھَارِ[البیہقی فی شعب الایمان، فصل التشدید فی الدین، حدیث:۵۲۹۴] دیکھو قرض سے بچنا، قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔
حضورؐ کی ایک حدیث
اس خطبے میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے صرف اقتصادی پہلو ہی پر نظر ڈالی گئی ہے۔ شاید عیدالاضحی کے موقعے پر اسی قسم کے ایک خطبے میں اسلامی زندگی کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ فی الحال میں حضور سرورِ کائناتؐ کی ایک حدیث پر اس خطبے کو ختم کرتا ہوں جو ایک نہایت لطیف پیرایہ میں رُشد و ہدایت کی تمام شاہراہوں کو انسان پر کھول دیتی ہے:
أَمَرَنِیْ رَبِّیْ بِتِسْعٍ الْاِخْلَاصِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃُ ، وَالْعَدْلِ فِی الْغَضَّبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدِ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی ، وَ أَنْ اُعْفُوَ عَنْ مَنْ ظَلَمَتَی ، ووأَصِلُ منْ قَطَعَنِی ، وَأُعْطِیَ مَنْ حَرَمَنِیْ ، وَأَنْ یَکُوْنَ نُطْقِیِ ذِکْرًا وَصَمَتِی فِکْرًا وَنَظَرِیْ عِبْرَۃِ [الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، جلد۷، ص۳۴۶، دارعالم الکتب،الریاض، ۲۰۰۳ء] مجھے میرے ربّ نے نو باتوں کا حکم دیا ہے: ظاہر و باطن میں اخلاص پر کاربند رہنا، غضب و رضا دونوں حالتوں میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانےدینا، فقروتونگری میں میانہ روی، جو شخص مجھ پر زیادتی کرے، اس کو معاف کردوں، جو مجھ سےقطع رحمی کرے، میں اس سے صلۂ رحمی کروں، جو مجھے محروم کرے، میں اس کو اپنے پاس سے دوں، میرا بولنا ذکرالٰہی کے لیے ہو۔ میری خاموشی غوروفکر کے لیے، اور میرا دیکھنا عبرت حاصل کرنے کے لیے ہو۔(ماہ نامہ رسالہ صوفی، مارچ ۱۹۳۲ء، مقالاتِ اقبال، مرتبہ: سیّد عبدالواحد معینی، محمد عبداللہ قرشی، آئینہ ادب، ۱۹۸۸ء،ص ۲۸۲-۲۸۸)
{علّامہ محمد اقبال ؒنے یہ خطبہ عیدالفطر۱۳۵۰ھ/۱۹۳۲ء کو دیا، جسے ’انجمن اسلامیہ پنجاب‘ لاہور نے شائع کیا۔}