جنوبی بھارت کی ریاست کرناٹکا میں حجاب کے تنازعے میں آخرکار بات ہائی کورٹ تک جاپہنچی، کیونکہ کئی درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ میں رٹ درخواستیں دائر کردی تھیں۔ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ عدالت میں لے جانے کے بجائے سیاسی طور پر دباؤ بڑھا کر مسئلہ حل کرنا ہی مناسب تھا۔ لیکن میری راے یہ ہے کہ عدالت میں جانے سے بھارت کے آئین کے تحت دیے گئے سیکولر بندوبست کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی جسے بھارت کے بہت سارے مسلمان اپنے دینی شعائر اور تصورات کی حفاظت کےلیے کافی سمجھتے تھے۔
کرناٹکا ہائی کورٹ کے ۱۵ مارچ ۲۰۲۲ء کے زیرنظر فیصلے نے واضح کردیا کہ ’سیکولرزم‘ کا مطلب مذہبی رواداری نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ’مذہب کو غیر مذہبی تصورات اور اقدار کے ماتحت رکھ کر مذہب کو محدود کردینا ہے‘۔ اس فیصلے نے یہ حقیقت بھی آشکارا کردی ہے کہ سیکولرزم کسی مذہب کو صرف اسی حد تک برداشت کرسکتا ہے، جس حد تک وہ غیر مذہبی اقدار کی بالادستی کےلیے خطرہ نہ بنے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولرزم اپنے فلٹر میں سے گزار کر ہی مذہب کو قابلِ برداشت مان سکتا ہے، اور مذہب کا جو حصہ اس فلٹر میں سے نہ گزر سکے، اسے ریاستی جبر کے ذریعے کچل دینا، سیکولر ریاستی بندوبست میں ضروری ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مذہب کی وہی تعبیر سیکولر بندوبست کے تحت قابلِ قبول ہوسکتی ہے جو سیکولر بندوبست کے ساتھ متصادم نہ ہو۔ چنانچہ اس لحاظ سے یہ فیصلہ نہایت خوش آیند ہے کہ اس نے سیکولرزم اور مذہب کے تعلق کی حقیقت واضح کردی ہے۔
اس مضمون میں زیربحث فیصلے کے اہم نکات پر مختصر تبصرہ کیا جائے گا، لیکن اس سے قبل اس مقدمے کے متعلق چند بنیادی حقائق پر نظر ڈالنا ضروری ہے:
اس مقدمے میں سات مختلف رٹ درخواستیں دائر کی گئی تھیں:
ایک درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ’’عدالت، اسکول اور دیگر حکام کو حکم جاری کردے کہ وہ درخواست گزار خواتین کو کلاس روم میں حجاب پہننے سے نہ روکے، کیونکہ حجاب ان کے مذہب (اسلام) کا لازمی حصہ ہے ،جس کی حفاظت کی ضمانت بھارت کے آئین میں دی گئی ہے‘‘۔
دوسری درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ’’اسکول انتظامیہ، ان افراد کے خلاف انکوائری کروائے جن کی وجہ سے حجاب کا تنازعہ پیدا ہوا‘‘۔
تین درخواستوں میں حکومت کے اس حکم نامے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی، جس کی بنا پر حجاب کا تنازعہ اٹھا، جب کہ دو درخواستیں ’عوامی مفاد کا مقدمہ‘ (public interest litigation) کی نوعیت کی تھیں، جن میں ایک میں استدعا کی گئی تھی کہ ’’عدالت قرار دے کہ مسلمان خواتین کو حجاب پہننے کی اجازت ہے بہ شرطے کہ وہ یونیفارم بھی پہنیں‘‘، جب کہ دوسری درخواست میں ’’بعض ’بنیاد پرست‘ مسلمان تنظیموں اور جماعتِ اسلامی کے خلاف تحقیقات کی استدعا‘‘ (ص۳۲) کی گئی تھی۔
کرناٹکا ہائی کورٹ میں پہلے ایک جج (جسٹس کرشنا ڈکشٹ) نے درخواستیں سنیں، لیکن معاملے کی اہمیت کے پیشِ نظر انھوں نے اسے چیف جسٹس (جسٹس ریتو راج اوستھی) کے سامنے رکھا کہ ’’اس کے متعلق بڑا بنچ تشکیل دینے کے بارے میں فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے تین رکنی بنچ تشکیل دیا، جس کی سربراہی خود انھوں نے کی اور جسٹس کرشنا ڈکشٹ کے علاوہ مسٹر جسٹس جے ایم قاضی کو بنچ میں شامل کیا۔ درخواستوں کی سماعت کے بعد فیصلہ چیف جسٹس نے لکھا، جس سے دیگر دو ججز نے اتفاق کیا۔
فیصلے کا آغاز چیف جسٹس صاحب نے ایک مضمون کے اقتباس (ص۱۶)سے کیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس مضمون کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ حجاب کی بنیاد پر خواتین کے خلاف امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے، اسی مضمون سے وہ اقتباس لیا جارہا ہے، جہاں یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ ’’حجاب نہ تو اسلام کا کوئی لازمی حکم ہے، نہ اس کا ضمیر کی آزادی یا اظہار کی آزادی کے حقوق سے کوئی تعلق ہے!‘‘ بہرحال اقتباس اہم ہے، اس لیے اسے یہاں نقل کیے دیتے ہیں:
The hijab’s history, is a complex one, influenced by the intersection of religion and culture over time. While some women no doubt veil themselves because pressure put on them by society, others do so by choice for many reasons. The veil appears on the surface to be a simple thing. That simplicity is deceiving, as the hijab represents the beliefs and practices of those who wear it or choose not to, and the understandings and misunderstandings of those who observe it being worn. Its complexity lies behind the veil.(Sara Slininger, "Veiled Women: Hijab, Religion and Cultural Practice", Historia, 2014, pp 67-68.
اس اقتباس میں جو موقف دیا گیا ہے، فیصلے میں اس کے بالکل برعکس موقف اختیار کیا گیا ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ چیف جسٹس صاحب نے یہ اقتباس تنقید کےلیے نقل کیا ہے، بلکہ اس کے برعکس وہ اس مضمون کی ان الفاظ میں تحسین فرماتے ہیں:’ well-researched article‘۔ آگے چل کر انھوں نے اس مضمون کا ایک اور اقتباس نقل کیا ہے اور وہاں بھی اس کے برعکس نتیجہ اخذ کرنے کےلیے کیا ہے۔ پہلے وہ اقتباس (ص ۶۹)دیکھ لیجیے:
Islam was not the first culture to practice veiling their women. Veiling practices started long before the Islamic Prophet Muhammad was born. Societies like the Byzantines, Sassanids, and other cultures in Near and Middle East practiced veiling. There is even some evidence that indicates that two clans in southwestern Arabia practiced veiling in pre-Islamic times, the Banū Ismāʿīl and Banū Qaḥṭān. Veiling was a sign of a women’s social status within those societies. In Mesopotamia, the veil was a sign of a woman’s high status and respectability. Women wore the veil to distinguish themselves from slaves and unchaste women. In some ancient legal traditions, such as in Assyrian law, unchaste or unclean women, such as harlots and slaves, were prohibited from veiling themselves. If they were caught illegally veiling, they were liable to severe penalties. The practice of veiling spread throughout the ancient world the same way that many other ideas traveled from place to place during this time: invasion. (حوالہ بالا)
یہاں مصنفہ یہ بتانا چاہتی ہیں کہ حجاب اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب اور ثقافتوں کا بھی حصہ رہا ہے۔ لیکن فاضل چیف جسٹس صاحب اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ’’حجاب، اسلام کا کوئی لازمی جزو نہیں ہے!‘‘ یہ منطقی مغالطہ اتنا واضح ہے کہ اس پر گفتگو کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
حجاب کے حق میں درخواستیں مسترد کرنے کےلیے عدالت نے اس مقدمے میں جو استدلال اختیار کیا ہے، اس کے بنیادی نکات یہ ہیں:
یہاں اس طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ فیصلے کے آخر میں عدالت نے بھارتی آئین کے مسودے کے لکھنے والوں میں اہم ترین شخصیت ڈاکٹر بی آر امبیڈکر [م:۱۹۵۶ء]کا جو اقتباس نقل کیا ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق عموماً اور حجاب کے متعلق خصوصاً ،عدالت بھی ڈاکٹر امبیڈ کر کی طرح کتنی متعصب تھی! اقتباس ڈاکٹر امبیڈ کر کی اس کتاب سے ہے ،جو ۱۹۴۵ء میں (یعنی تقسیمِ ہند سے قبل، جب تقسیم کے آثار نمودار ہوچلے تھے) شائع ہوئی، اور اس کتاب کا عنوان ہے: Pakistan or the Partition of India۔ کتاب کے دسویں مضمون کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں اور دیکھیں کہ حجاب کا مسئلہ کیسے تقسیمِ ہند کے ساتھ جڑا ہوا ہے:
A woman (Muslim) is allowed to see only her son, brothers, father, uncles, and husband, or any other near relation who may be admitted to a position of trust. She cannot even go to the Mosque to pray, and must wear burka (veil) whenever she has to go out. These burka woman walking in the streets is one of the most hideous sights one can witness in India…The Muslims have all the social evils of the Hindus and something more. That something more is the compulsory system of purdah for Muslim women… Such seclusion cannot have its deteriorating effect upon the physical constitution of Muslim women… Being completely secluded from the outer world, they engage their minds in petty family quarrels with the result that they become narrow and restrictive in their outlook… They cannot take part in any outdoor activity and are weighed down by a slavish mentality and an inferiority complex…Purdah women in particular become helpless, timid…Considering the large number of purdah women amongst Muslims in India, one can easily understand the vastness and seriousness of the problem of purdah…As a consequence of the purdah system, a segregation of Muslim women is brought about.
عدالت یہ اقتباس نقل نہ بھی کرتی تو فیصلہ مکمل تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس اقتباس کو نقل نہ کیا جاتا تو تعصب کا اظہار ادھورا رہ جاتا: قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاہِھِمْ۰ۚۖ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُھُمْ اَكْبَرُ۰ۭ (آل عمران۳:۱۱۸) ’’ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے، اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں، وہ اس سے شدید تر ہے‘‘۔
اب ذرا اس حکم نامے پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے، جس سے اس تنازعے نے جنم لیا۔ ۵فروری ۲۰۲۲ء کو حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے حکم نامے میں قرار دیا گیا کہ ’’صوبے میں تمام اسکولوں میں یونیفارم کی پابندی ضروری ہے‘‘۔ یونیفارم کے تعین کےلیے چار طریقے بیان کیے گئے:
۱- سرکاری سکولوں کےلیے یونیفارم مقرر کرنے کا اختیار سرکار کے پاس ہے؛
۲- پرائیویٹ سکولوں میں سکول انتظامیہ یہ اختیار رکھتی ہے؛
۳- ماقبل یونی ورسٹی کالجز میں متعلقہ کالج کی بہتری یا نگرانی کےلیے قائم کی گئی کمیٹی کے پاس یہ اختیار ہوگا؛ اور
۴- جہاں یونیفارم مقرر نہیں ہے، وہاں ایسا ’ڈریس کوڈ‘ (dress code) مقرر کیا جائے گا، جو ’مساوات اور یگانگت‘ (equality and integrity) کو یقینی بنائے اور جس سے ’امن عامہ‘ (public order) کو نقصان نہ ہو۔
درخواست گزار مسلمان لڑکیوں کی جانب سے بنیادی اعتراض یہ تھا کہ ’’حکومت یا سکول انتظامیہ کوئی ایسا یونیفارم ان پر جبری طور پر نافذ نہیں کرسکتی جس میں حجاب کی گنجایش نہ ہو‘‘۔ انھیں خصوصاً اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ ’’ماقبل یونی ورسٹی کالجز میں یونیفارم مقرر کرنے کا اختیار جس کمیٹی کو دیا گیا ہے اس میں مقامی سیاست دان بھی شامل ہیں، جو اس معاملے کو سیاسی رنگ دے کر اپنےلیے ووٹ کھرے کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اسی طرح انھیں یہ بھی اعتراض تھا کہ ’’یونیفارم کے مسئلے کو امن عامہ کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے سے حکومت کے سیاسی عزائم آشکارا ہوتے ہیں کیونکہ وہ بجائے اس کے کہ لڑکیوں کو تنگ کرنے والے عناصر کو لگام ڈالے، الٹا لڑکیوں کو مجبور کررہی ہے کہ وہ اپنا لباس تبدیل کرلیں‘‘۔
پھر کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ عدالت نے اپنا سارا زور اس پہلو پر لگایا کہ ’’حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے اور ہو بھی تو اس کا تحفظ ثانوی حیثیت رکھتا ہے‘‘، لیکن حکومت کے سیاسی عزائم اور اسے امن عامہ کا مسئلہ بنانے کے سوالات کو یکسر غیر ضروری اور غیر اہم قرار دے کر ان کو نہایت مختصر انداز میں کیسے نمٹایا؟ اگر پہلے سوال کے بجائے بحث ان دو سوالات پر ہوتی، تو پہلے سوال پر آنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی اور اس حکم نامے کو بہ آسانی کالعدم قرار دیا جاسکتا تھا۔ لیکن بہت ہی مہارت سے مقدمے کو الٹنے کی کوشش کی گئی اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ ’ہندوتوا‘ کے خطرناک عزائم کو سیکولرزم کا لبادہ اوڑھا کر چھپالیا گیا اور مظلوموں کو ہی مسائل کا سبب قرار دے کر انھی پر ذمہ داری عائد کی گئی! ذرا اس پیرا پر ایک نظر ڈال لیجیے:
The words used in Government Orders have to be construed in the generality of their text and with common sense and with a measure of grace to their linguistic pitfalls. The text & context of the Act under which such orders are issued also figure in the mind. The impugned order could have been well drafted, is true.
اس کے باوجود آسکر وائلڈ [م: ۱۹۰۰ء ] اور اولیور وینڈل ہومز [م: ۱۹۳۵ء] کے غیرمتعلق اقتباسات دے کر اس کمزوری کو ہلکا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر فرمایا گیا:
the Government Order gives a loose impression that there is some nexus between wearing of hijab and the 'law & order' situation.
تنہا یہی بات اس حکم نامے کو کالعدم کرنے کےلیے کافی تھی کہ حجاب اور امن و امان کا باہمی تعلق ہے، اور یہ حکم نامے کا ایک کمزور پہلو ہے۔لیکن عدالت نے اس کو ایک غیر ضروری اور غیر اہم اعتراض بنا کر اس کو نظر انداز کردیا۔
جائزہ طلب امور
عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ کرنے کےلیے درج ذیل سوالات قائم کیے:
ان سوالات سے ہی معلوم ہوا کہ عدالت نے مقدمے کا کیا رُخ متعین کیا ہے؟ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ فتویٰ کا انحصار استفتا پر ہوتا ہے۔ سوال جس طرح مقرر کیا جائے، جواب اسی کے مطابق دیا جاتا ہے۔ حجاب لینے کے قانونی جواز کےلیے درخواست گزاروں کا استدلال بنیادی طور پر یہ تھا کہ حجاب لینا درخواست گزاروں کے مذہبی تصور کے مطابق ان کے مذہب کا لازمی حصہ ہے اور اس وجہ سے انھیں اسے ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ایسا کرنا مذہبی آزادی کے اس حق کی خلاف ورزی ہوگی جس کی ضمانت بھارت کے آئین میں دی گئی ہے۔اس بات کو اس طرح پیش کیا گیا کہ ’’چونکہ درخواست گزاروں کا تصورِ مذہب ایک معروضی امر نہیں بلکہ موضوعی (subjective) امر ہے، اس لیے ان کے تصور سے قطعِ نظر، عدالت اس بات کا تعین کرے گی کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہے بھی یا نہیں؟ ‘‘
پھر چونکہ عدالت نے درخواست گزاروں کے تصورِ مذہب کو یکسر نظرانداز کردیا، اس لیے اس نے مذہبی آزادی کے حق کو اظہار کے حق کے ساتھ متعارض قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’درخواست گزاروں کے دلائل باہم متناقض (contradictions) ہیں، حالانکہ درخواست گزاروں کا موقف یہ تھا کہ ’’ہم حجاب کو اپنا مذہبی شعار سمجھنے کی بنا پر اسے ضروری سمجھتے ہیں اور لباس انسان کی ذاتی پسند و ناپسند کا معاملہ ہے اور کسی کو ایسا لباس پہننے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جو وہ نہ پہننا چاہتا ہو، نہ اسے ایسا لباس ترک کرنے پر مجبور کیا جاسکتا جسے وہ ترک نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ ایسا کرنے سے اظہار کی آزادی کے اس حق کی پامالی ہوتی ہے، جس کی ضمانت بھارت کے آئین نے دی ہوئی ہے‘‘۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو ان دلائل میں کوئی تضاد نہیں تھا، لیکن عدالت نے کمال بے نیازی سے اس لیے انھیں متناقض قرار دیا کہ اس نے خود بخود درخواست گزاروں کے مذہبی تصور کو یکسر ناقابلِ اعتنا قرار دیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ عدالت نے درخواست گزاروں کے مذہبی تصور کو ناقابلِ اعتنا قرار دینے کےلیے دلیل یہ دی کہ ’’عدالت کے سامنے کوئی ایسی شہادت نہیں لائی گئی، جس سے معلوم ہوتا ہو کہ کب سے انھوں نے حجاب پہننا شروع کیا ہے، یا کب سے انھوں نے اسے ضروری سمجھا ہے؟‘‘ یہ امر حیران کن اس لیے ہے کہ جب اس امر کو اظہار کے حق اور پرائیویسی کے حق کے طور پر پیش کیا گیا، تو اس کے بعد اس سوال کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی کہ کسی نے کسی مخصوص لباس کے متعلق کب اپنی رائے بنائی یا تبدیل کرلی؟
پھر اگر عدالت نے یہی بہتر سمجھا کہ درخواست گزاروں کے تصورِ مذہب کو نظرانداز کرکے معروضی طور پر متعین کیا جائے کہ حجاب کی اسلام میں کیا حیثیت ہے، تو سوال یہ ہے کہ اس امر کے تعین کےلیے عدالت نے کیا طریقِ کار اختیار کیا؟ کیا اس مقصد کےلیے صرف عبد اللہ یوسف علی [م:۱۰دسمبر ۱۹۵۳ء]کے ترجمۂ قرآن اور حواشی پر انحصار کافی تھا؟ کیا اس انحصار کےلیے یہ دلیل کافی تھی کہ عبد اللہ یوسف علی کے ترجمے اور حواشی کو سپریم کورٹ نے کئی مقدمات میں استعمال کیا ہے؟ اس سے بھی آگے بڑھ کر کیا یہ کوئی دلیل ہے کہ صحیح بخاری کے انگریزی ترجمے کو اس لیے مسترد کیا جائے کہ اس کے مترجم ڈاکٹر محمد محسن خان [۱۹۲۷ء-۱۴جولائی ۲۰۲۱ء] ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں؟ تو کیا ان کے برعکس ڈی ایف ملا [دینشا فردنجی ملا: ۱۸۶۸ء-۱۹۳۴ء] اور مسٹر آصف علی اصغر فیضی [م:۱۹۸۱ء]کی کتب سے ہی اسلامی قانون سمجھا جاسکتا ہے؟پھر عدالت کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسلامی قانون کے مآخذ میں حدیث کی کیا حیثیت ہے اور قرآن و حدیث کے تعلق کے بارے میں مسلمانوں کی پوزیشن کیا ہے؟
اوّل تو عدالت کو یہ ذمہ داری اٹھانی ہی نہیں چاہیے تھی کہ وہ متعین کرے کہ ’’حجاب کا اسلام میں کیا حکم ہے؟‘‘ پھر اگر اس نے یہ ذمہ داری اٹھانی ضروری ہی سمجھی تھی تو اس کے بعد چاہیے یہ تھا کہ اس معاملے میں صرف ایک کتاب پر انحصار کرنے کے بجائے کئی دیگر مصنّفین اور محققین کے کام کا تجزیہ کرتے ہوئے اس شعبے کے ماہرین سے مدد لیتی۔ اس کے بجائے اس نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ عدالت کے سامنے درخواست گزاروں کی جو درخواستیں آئیں ان کے ساتھ کسی ’مولانا‘ کا بیانِ حلفی جمع نہیں کرایا گیا، جس میں درخواست گزاروں کی جانب سے پیش کی گئی آیات سے استدلال کیا گیا ہو! ‘‘
اس فیصلے کا سب سے افسوسناک پہلو یہی ہے کہ جس سوال پر بحث ضروری ہی نہیں تھی، عدالت نے اسی کو بنیادی سوال بنا دیا اور پھر اس سوال کے جواب کےلیے انتہائی ناقص طریقِ کار اختیار کیا۔ یوں مقدمے کے دیگر پہلو اور اصل سوالات پس منظر میں چلے گئے۔ بہرحال، عدالت کا مقصد پورا ہوگیا ہے، کیونکہ فیصلے کے بعد بھی عام طور پر بحث اسی سوال پر ہورہی ہے اور زیادہ اہم سوالات اب بھی بحث کا حصہ نہیں ہیں۔ اب ہم انھی سوالات پر بات کرتے ہیں:
آیئے، ان بنیادوں پر بات کریں، جن پر عدالتی فیصلہ کھڑا ہے اور جن پر بحث ضروری ہے، لیکن ان کے بجائے بحث اس بات پر ہورہی ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہے یا نہیں؟
عدالت نے اس ضمن میں امریکی آئین کے تحت مذہبی آزادی کے حق اور بھارتی آئین کے تحت مذہبی آزادی کے حق کے درمیان موازنہ کرکے یہ دکھایا ہے کہ امریکی آئین کے تحت ریاست پر پابندی ہے کہ وہ کسی مذہب کی ترویج نہیں کرے گی، لیکن افراد کےلیے مذہبی آزادی کا حق، دیگر حقوق کی طرح، غیر محدود ہے اور اس حق پر عائد قیود و حدود کو استثنا کی حیثیت حاصل ہے۔ مگر اس کے برعکس بھارتی آئین میں مذہبی آزادی کا حق ثانوی حیثیت رکھتا ہے اور اس پر حدود و قیود کو اصل کی حیثیت حاصل ہے۔
تاہم، امریکی آئین کے متعلق بھی یہ بات مکمل سچائی پر مبنی نہیں ہے اور وہاں بھی مذہب کو تبھی قابلِ برداشت مانا جاسکتا ہے، جب وہ جمہوریت کے ماتحت رہنے پر آمادہ ہو۔ بہرحال، یہ بات اہم ہے کہ عدالت نے بھارتی آئین کے تحت دیے گئے حقوق کو ’ریاست کی مرضی کے تابع‘ قرار دیا ہے۔ یہ دراصل امریکی قانون دان جیریمی بینتھم [م: ۱۸۳۲ء] اور دیگر قانونی وضعیت پسند وں (legal positivists) کے فلسفے کا اثر ہے کہ ’’بھارت میں فرد کے حقوق کا ماخذ ریاست کو سمجھا جاتا ہے، اور ریاست جب چاہے ان حقوق کو معطل یا ختم کرسکتی ہے اور جو قیود مناسب سمجھے ان پر عائد کرسکتی ہے۔ امریکا میں بینتھم کے برعکس جان لاک [م:۱۷۰۴ء] کا فلسفہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے، جس کی رُو سے ’’انسانوں کو حقوق قانونِ فطرت (Law of Nature) نے دیے ہوئے ہیں اور لوگوں کو یہ حقوق اس وقت بھی میسر تھے جب ریاست کا وجود نہیں تھا، بلکہ ریاست تو اسی لیے وجود میں لائی گئی ہے کہ ان حقوق کا تحفظ کرے‘‘۔
پاکستان میں بھی بھارت کی طرح بینتھم کا نظریہ کارفرما ہے، لیکن اس نظریے کی شدت میں کمی اس بنا پر آئی ہے کہ پاکستان میں اسلامی شریعت کی بالادستی آئینی طور پر تسلیم کی گئی ہے اور اس وجہ سے کسی بھی ریاستی اقدام کے جواز یا عدم جواز کےلیے اسلامی احکام ایک اہم معیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ ۱۹۷۲ء میں جب مارشل لا نافذ تھا اور آئین معطل تھا، تب بھی پاکستان کی سپریم کورٹ نے عاصمہ جیلانی کیس میں قرار دیا تھا کہ ’’قراردادِ مقاصد کی رو سے، جو ہمارے آئینی نظام کی بنیاد ہے، حاکمیتِ اعلیٰ (Sovereignty)، اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور پاکستانی قوم کے پاس وہی اختیارات ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسے تفویض کیے گئے ہیں، جنھیں وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر ہی استعمال کرسکتی ہے‘‘۔ پھر چونکہ اس ’قراردادِ مقاصد‘ میں یہ بھی تصریح کی گئی تھی کہ حکومت لوگوں کی مرضی سے منتخب کی جائے گی، تو سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ مارشل لا غیر آئینی اور ناجائز ہے۔ پاکستان میں سیکولرزم کے گن گانے والے اور اسلامی قوانین پر اندھی تنقید کرنے والے اس حقیقت کو اچھی طرح نوٹ کرلیں کہ یہاں مارشل لا کے عدم جواز کی بنیاد ’قراردادِ مقاصد‘ بنی، جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا اقرار اور ریاستی اختیارات کے محدود ہونے اور حکومت کےلیے لوگوں کے حقِ انتخاب کی واشگاف وضاحت کی گئی ہے۔
We have no quarrel with the petitioners’ essential proposition that what one desires to wear is a facet of one’s autonomy and that one’s attire is one’s expression. But all that is subject to reasonable regulation.
Petitioners’ contention that ‘a class room should be a place for recognition and reflection of diversity of society, a mirror image of the society (socially & ethically)’ in its deeper analysis is only a hollow rhetoric, ‘unity in diversity’ being the oft quoted platitude since the days of IN RE KERALA EDUCATION BILL, supra, wherein paragraph 51 reads: ‘…the genius of India has been able to find unity in diversity by assimilating the best of all creeds and cultures'.
آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے مذہب کا جو بھی تقاضا ہو، آپ نے بھارتی قوم کی حیثیت کو بالاتر رکھنا ہے اور اس مزعومہ وحدت کے حصول کےلیے آپ کو اپنے مذہب کے الگ الگ رنگوں سے دست بردار ہونا پڑے گا۔
یہ ہیں وہ چار بنیادی امور، جن پر یہ عدالتی فیصلہ مبنی ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر بحث ہی نہیں ہورہی ہے۔
اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ کرناٹکا ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ سیکولر بندوبست کے لازمی تقاضے ہیں۔ بحث کے اس تناظر کو مزید واضح کرنے کےلیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں مشہور امریکی قانون دان رونالڈ ڈوورکن کے ایک مختصر لیکن نہایت اہم مضمون پر کچھ بات کی جائے، جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کے مسئلے کے پس منظر میں لکھا تھا۔ ڈوو رکن کا دو صفحات کا یہ مضمون The Right to Ridicule (تضحیک کا حق) کے عنوان سے روزنامہ نیویارک ٹائمز (۲۳ جون ۲۰۰۶ء) میں شائع ہوا تھا۔
اس مضمون میں دیگر امور کے علاوہ ڈوورکن نے یہ اہم سوال اٹھایا ہے کہ ’’خواہ عملی نتائج کے اعتبار سے کارٹونوں کی عدم اشاعت کا فیصلہ حکیمانہ نظر آتا ہو ، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اظہاررائے کی آزادی کے حق پر بالخصوص ’کثیر الثقافتی معاشرے‘ کے تناظر میں قدغن لگائی جاسکتی ہے؟ کیا کسی مذہب کےلیے جو بات توہین آمیز یا مضحکہ خیز ہو ، اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے؟ اس مضمون میں مرکزی قانونی سوال یہی ہے۔ ڈوورکن نے صراحت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’اظہار رائے کی آزادی‘ مغربی ثقافت کی کوئی امتیازی خصوصیت نہیں ہے کہ جسے دوسری ثقافتوں کی خاطر، جو اسے نہیں مانتیں، محدود کیا جاسکے، بالکل اسی طرح جیسے مسیحی شعائر کے ساتھ مسلمانوں کےلیے ہلال یا مینارے کےلیے گنجایش پیدا کی جائے۔ اس کے برعکس اس کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی حکومت کے جواز کی شرط ہے۔کوئی قانون اور کوئی پالیسی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے جمہوری طریقے سے نہ بنایا جائے اور جب کسی کو کسی قانون یا پالیسی کے متعلق اپنی راے کے اظہار سے روکا جائےتو جمہوریت بے معنی ہوجاتی ہے‘‘۔
وہ مزید کہتا ہے کہ ’’تضحیک، اظہار کا ایک خاص پیرایہ ہے اور اگر اس کی نوک پلک درست کرنے یا اصلاح کی کوشش کی جائے تو وہ پیرایہ غیرمؤثر ہوجاتا ہےاور اسی وجہ سے صدیوں سے اچھے یا برے ہر طرح کے مقاصد کےلیے کارٹون اور تضحیک کے ہتھیار استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس بنیاد پر ڈوورکن یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ ’’جمہوریت میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے، خواہ وہ کتنا ہی طاقت ور یا کتنا ہی کمزور ہو، کہ اس کی توہین یا تضحیک نہیں کی جائے گی‘‘۔ یہاں ڈوورکن اس بات کی وضاحت کےلیے ، کہ کیوں جمہوریت میں اظہار رائے کے حق پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی؟ کہتا ہے کہ اگر کمزور اور غیرمقبول اقلیتیں یہ چاہتی ہیں کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو اور اکثریت محض اپنی اکثریت کی وجہ سے ان کے حقوق سلب نہ کرسکے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اظہار رائے کے حق پر کوئی قدغن نہ مانیں، خواہ اس کے نتیجے میں خود انھیں بھی تضحیک کا سامنا کرنا پڑے ،کیونکہ اقلیت میں ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود اظہار رائے کے حق کے ذریعے وہ کسی بھی قانون یا پالیسی کے خلاف کھل کر بات کرسکیں گے۔ اسی استدلال پر وہ مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اظہار رائے پر قدغن سے ان کو نقصان ہوگا ‘‘۔
اس ضمن میں ڈوورکن اس بات پر بھی بحث کرتا ہے جس کی طرف مسلمان عام طور پر توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ کئی یورپی ممالک میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام سے انکار کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے اور اظہار رائے پر اس قدغن کو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلمان بالعموم اسے دوغلی پالیسی اور منافقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ڈوورکن کہتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اعتراض بالکل درست ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اظہار رائے پر ایک اور قدغن بھی مان لیں۔ اس کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ مذکور قدغن بھی دور کردی جائے ۔
ڈوورکن مزید یہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ایسے قوانین اور پالیسیاں ختم کی جائیں، جو مسلمانوں کی پروفائلنگ کو جواز دیں یا جن کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے سے دکھائی دینے والے لوگوں کی نگرانی کی جائے کیونکہ ان پر دہشت گردی کا شبہہ ہوتا ہے ، تو پھر مسلمانوں کو اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی راے کو بھی برداشت کرنا پڑے گا جو انھیں دہشت گردی سے منسلک کرتے ہیں اور کارٹونوں کے ذریعے ان کی تضحیک کرتے ہیں، خواہ ان لوگوں کی یہ بات کتنی ہی بے بنیاد اور بذات خود مضحکہ خیز ہو !
آخر میں وہ ساری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے :
Religion must observe the principles of democracy, not the other way around. No religion can be permitted to legislate for everyone about what can or cannot be drawn any more than it can legislate about what may or may not be eaten. No one’s religious convictions can be thought to trump the freedom that makes democracy possible.
مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے ، نہ کہ الٹا جمہوریت کو مذہب کا پابند بنایا جائے۔ کسی مذہب کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سب کےلیےیہ قانون بناسکے کہ وہ کیسا خاکہ بناسکتے ہیں اور کیسا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ ہر کسی کےلیے یہ قانون نہیں بناسکتے کہ وہ کیا کھاسکتے ہیں اور کیا نہیں ۔ کسی کے مذہبی اعتقادات کے متعلق یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ اس آزادی کو فتح کرلیں گے جو جمہوریت نے ممکن بنادی ہے ۔
ڈوورکن کے اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مذہب کو جمہوریت کے اصولوں کی پابندی اختیار کرنی چاہیے یا جمہوریت کو مذہبی قیود کی پابندی تسلیم کرنی چاہیے؟ جب تک اس بنیادی مسئلے پر بحث نہیں کی جائے گی، ضمنی سوالات پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی سوال پر بحث سے ناروے یا دیگر مغربی ممالک (اور اسی طرح بھارت) میں مقیم مسلمانوں کی مجبوریاں بھی سمجھ میں آجاتی ہیں اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کیوں وہ صبر و تحمل اور اعراض کا رویہ اپنانے کی تلقین کرتے ہیں؟
حقیقتِ امر یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو ایک دفعہ پھر معرکۂ روح و بدن پیش ہے اور یہ فیصلہ بھارت کے مسلمانوں نے ہی کرنا ہے کہ اس کے ہاتھوں میں دل ہے یا شکم؟