دنیا کی تمام مساجد تمام لوگوں کے لیے کھلی ہوئی ہیں۔ مسلمان کسی قوم، نسل، طبقے یا رنگ کے اختلاف سے قطع نظر ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا ملا کر نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ اسلامی مساوات کی ہی تاثیر ہے کہ انڈیا کے دلتوں سے لے کر امریکا و یورپ میں سفیدفام اور افریقی النسل اس دین میں داخل ہو رہے ہیں۔
تاہم، اس غالب حقیقت کو بعض اوقات اسلامی اقدار سے متصادم کچھ انفرادی رویوں کو بنیاد بنا کر متاثر کیا جاتا ہے۔کچھ مسلمان شیطان کی چال میں آجاتے ہیں اور نسلی کمتری وبرتری کا گمراہ کن کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تمام انسان یکساں ہیں اور ایک ہی مرد اور عورت کی اولاد ہیں (الحجرات ۴۹:۱۳) ،کچھ لوگ خود کو ماڈرن اور دوسروں کو دقیانوسی تصور کرتے ہیں اور ان کے خلاف تعصب کوہوا دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم خود کو اس جال میں پھنسنے سے کیسے بچائیں؟ ہم نسل پرستی اور قوم پرستی کی ہلاکت خیزیوں سےمحفوظ رہنے میں ایک دوسرے کی مدد کیسے کریں؟ ہم ایک بہتر انسان بننے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟اس سلسلے میں یہاں چند نکات پیش کیے گئےہیں، جن کے مطابق ہم اس مرض کے خلاف جدوجہد شروع کر سکتے ہیں ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے،تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتاہو، تو پھر اپنی زبان سے بدل دے۔ اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتاہو، تو پھر اسے اپنے دل میں برا جانے، اوریہ ایمان کا کم تر ین درجہ ہے‘‘ [صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان، حدیث:۹۵]۔
غیبت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کسی کی غیر موجودگی میں اس کے تعلق سے ایسی بات کہنا جو اگر اس کی موجودگی میں کہی جاتی تو اسے ناگوارگزرتی، غیبت ہے‘‘۔ اس پر ایک صحابی نے سوال کیا ، یا رسولؐ اللہ ! جو بات بیان کی جا رہی ہو، وہ اگر واقعی اس شخص کے اندر موجود ہو تو؟ اس پر آپ ؐ نے جواب دیا: ’’اگر وہ بات اس کے اندر موجود ہے تبھی تو یہ غیبت ہے، اور اگر موجود نہ ہو تو کہنے والا بہتان کا مرتکب ہوگا ‘‘ (جو غیبت سے بھی بدتر ہے)۔ [صحیح مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب تحریم الغیبۃ، حدیث: ۴۷۹۶]
ذرا غور کریں کہ بہتان طرازی کس قدر سنگین گناہ ہے۔ اس پر زور دینے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ زنا سے بھی بدترگناہ ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص زنا کرنے کے بعد توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے، لیکن بہتان لگانے والے کو اس وقت تک معاف نہیں کیا جائے گا جب تک کہ خود وہ شخص اسے معاف نہ کر دے،جس پر بہتان لگایا گیا ہے‘‘۔ [بیہقی، شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان، حدیث: ۶۴۴۷]۔
قرآن کی اس آیت پر غور کریں: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ کوئی گروہ (مرد) دوسرےگروہ (مردوں) کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۱) ۔
اس طرح کا تکلیف دہ اور نادانی پر مبنی مذاق واضح طور پر ان آداب کے خلاف ہے، جس کی اللہ اور اس کے رسولؐ ہمیں ہدایت کرتے ہیں۔ اسلام میں کسی بھی مخلوق کا تمسخر اڑانا، یا اسے تضحیک کا موضوع بنانا گناہ ہے، اوریہ گناہ شدید تر ہو جاتا ہے، جب کسی طبقے کے خلاف اس کا ارتکاب کیا جائے۔
الحمد للہ، اکثر مسلمان تحقیر آمیز الفاظ کا استعمال نہیں کرتے۔ لیکن کبھی کبھار ہم ایسے نام سنتے ہیں، جنھیں ہمیں چیلنج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ افراد افریقی نژاد لوگوں کے لیے لفظ ’کالا‘ استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کا لفظی مطلب ہے’سیاہ‘، لیکن اکثر اس کا استعمال تضحیک و توہین کے لیے کیا جاتا ہے۔ کاکیشین کے لیے اردو میں ’گورا‘ اسی زمرے میں آتا ہے ۔ اگرچہ اس کا مطلب محض ایک سفید فام شخص ہے، لیکن یہ اصطلاح سفید نوآبادکاروں یا حملہ آوروں کے تاریخی عدم اعتماد اورفریب کاریوں سے منسوب ہے۔ دوسری طرف زیادہ تر جنوبی ایشیائی لوگوں کو ’شوربے کی بُو والے‘ پاکستانیوں کو ’پاکی‘ کہہ کر پکارا اور یاد کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ اصطلاح ایک نسل کے لوگ اپنی نسل کی برتری کے زعم میں دوسری نسل کے افراد سے متعلق حقارت سے استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح بعض عرب سیاہ فام لوگوں کے لیے’ عبد‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصطلاح کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ کچھ عرب پاکستانیوں کے لیے ’رفیق‘ (ساتھی) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ پھر لفظ ’ابن الخنزیر‘ (سور کا بچہ) عربوں میں خصوصاً یہودیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ القاب پیغمبرؐ اسلام کےماننے والوں کے شایان شان نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک دوسرے کے والدین کی توہین نہ کرنے کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ [صحیح بخاری و صحیح مسلم]
اسلامی اصطلاح ’کافر‘ کا استعمال بھی بہت احتیاط کے ساتھ کرنا چاہیے۔ یہ قرآنی اصطلاح نفرت کے اظہارکی اصطلاح نہیں بننی چاہیے۔
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اہلِ ایمان کے فرائض میں سے ہے۔ آئیے حکمت اور صبر کے ساتھ اس فرض کو پوراکریں۔ شائستگی کادامن نہ چھوڑیں اور اس راستے پر ثابت قدم رہیں۔
اس حدیث پر غور کیجیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ اَخِیْہِ ، رَدّاللہُ عَنْ وَجْھِہٖ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ’’جس نے کسی کو کسی مسلمان بھائی کی غِیبت سے روکا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس کے منہ سے دوزخ کی آگ دُور کردے گا‘‘۔ [ترمذی، کتاب الذبائح، ابواب البّر، باب ماجاء فی الذّبّ عن عرض المسلم، حدیث: ۱۹۰۳]
اگر آپ کسی کے سامنے ایسی زبان بولتے ہیں، جو اسے سمجھ میں نہیںآتی تو اس سے بدگمانی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ایسے موقعوں پر وہ مشترکہ زبان استعمال کریں جو سب کے لیے قابل فہم ہو۔مثلاً اگر آپ اور اکبر دونوں پشتو بولتے ہیں، لیکن علیم پشتو نہیں جانتا تو آپ پشتو میں بات کرنے کی بجائے اُردو میں بات کریں،تاکہ علیم خود کو الگ تھلگ محسوس نہ کرے۔ اگر کسی محفل میں آپ اس رویے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انھیں بتائیں کہ یہ غیر منصفانہ عمل ہے۔ اگراس ناانصافی کے مرتکب خود آپ ہیں، تو یہ کہہ کر اپنے رویے کادفاع نہ کریں کہ ’’آپ کو ہماری زبان سیکھ لینی چاہیے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’جب تین افراد اکٹھے ہوں توان میں سے دو کوئی خفیہ بات نہ کریں،اور تیسرے کو اکیلا نہ چھوڑ دیں، یہاں تک کہ بہت سارے لوگوں کے ساتھ مل جائیں۔ کیونکہ یہ اس کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے‘۔ [صحیح مسلم، کتاب السلام، باب تحریم مناجاۃ الاثنین دون الثالث بغیر رضاہ، حدیث: ۴۱۴۸]
میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو مسلمانوں کی مہمان نوازی کی وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں۔ کھانا لوگوں کو اکٹھا کرنے اور دوسروں کو جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ کھانا ساجھاکریں۔بلا شبہہ غذا میں ایک سماجی توانائی بھی ہے ، اس کا استعمال کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’تمھارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے‘ [ترمذی، ابواب البّر والصلۃ عن رسول اللہ، باب ماجاء فی صنائع المعروف، حدیث: ۱۹۲۸]۔ لیکن صرف اپنے لوگوں کے لیے نہیں۔اپنی مسکراہٹ کو اتنا وسیع کریں کہ اس میں سب شامل ہو جائیں کہ مسکراہٹ بند دلوں کو کھول دیتی ہے۔
اس حدیث پر غور کریں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کےقریب ترین وہ لوگ ہیں جو سلام کرنےمیں پہل کرتے ہیں [ابوداؤد کتاب الادب، ابواب النوم، باب فی فضل من بدأ السلام، حدیث: ۴۵۴۳]۔
سلام کرنا مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے،خواہ مخاطب کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو گے جب تک تم ایمان نہ لاؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں ایک ایسی چیز کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہو، جو باہم محبت کرنے کاذریعہ ہے: سلام کے پیغام (السلام علیکم) کو عام کرو‘۔[صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان أنّہ لا یدخُلُ الجنّۃ اِلَّا المؤمنون، حدیث: ۱۰۶]
اللہ تعالیٰ ایک مظلوم شخص کو ظلم کا اسی مقدار میں بدلہ لینے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کی نظر میں معاف کردینا بہتر ہے: ’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے، اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (الشوریٰ ۴۲:۴۰)۔
ارشاد ربانی ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائےہو ، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی پٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘(النساء ۴:۱۳۵)۔
المختصر،آج مسلمانوں کی شبیہ میڈیا اور سیاسی رہنمائوں کے ذریعے دن رات مسخ کی جا رہی ہے۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک بہتر انسان کے طور پر ابھریں، بجائے اس کے کہ اپنی صفائی دینے کے چکر میںاس شیطانی کھیل کا حصہ بن جائیں۔جو دوسروں کو حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگتا ہے، وہ پہلے خوداپنی انسانیت کا قتل کرتا ہے۔ تعصب، نسل پرستی اور قوم پرستی ایک ہی طرح کی بیماریاں ہیں۔ سبھی کے پاس یہ اختیار ہے کہ یا تو وہ اپنی مذہبی تعلیمات کو استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ انسانی اقدار کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا قوم پرستی کی دلدل میں غرق ہو جائیں۔
نسل پرستی اور قوم پرستی دوہری برائیاں ہیں۔ آئیے نسل پرستی کے خلاف ذاتی سطح پر جدوجہد شروع کریں۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔