غربت بڑھتی جا رہی ہے اور سیاسی فساد اسے مزید بگاڑ رہا ہے۔
پاکستان کے لوگ دل والے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر میں آج بھوکا ہوں تو کھانا مجھے کہاں سے ملے گا؟ یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ جب میں بھوک کے ہاتھوں مجبور تھا تو ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گیا۔ کسی نے میرے چہرے پر بھوک کو پڑھا تو مجھے کھانا کھلانے لے گئے۔ اللہ انھیں اجرعطا فرمائے ،اس دنیا میں بھی اور آخرت میں تو بے پناہ اجر ایسے انسانوں کے لیے ہےہی ۔
یہ ہمارے بچپن کے زمانے کی بات ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں روزانہ دسترخوان بچھتا تھا۔ ہم کھانا لے کر جاتے تھے اور دوسرے بچے بھی لاتے تھے۔ غریب لوگ اور مسافر وہاں بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے۔ اب ذرا دیکھیے، آج کتنی مسجدیں ہیں جہاں یہ انتظام موجود ہے؟
بظاہر ایسا دکھائی نہیں دے رہا کہ پاکستان آیندہ پانچ برسوں میں بھی گندم کی فراہمی میں خودکفیل ہو سکے گا۔ اس وقت ہم ۱۰ فی صد گندم درآمد کر رہے ہیں۔ یہ گندم زیادہ تر روس اور یوکرین سے آتی ہے۔ وہاں ۲۰۲۲ء سے جنگ شروع ہونے کے سبب گندم کی قیمت بے پناہ بڑھ گئی ہے، اور جتنی جنگ بڑھتی جائے گی اتنی ہی گندم کی پیداوار کم ہوگی۔ دنیا میں پھر مقابلہ سخت ہوگا کہ کون اس گندم کو حاصل کر سکے اور اگر خدا نخواستہ کوئی بڑا سیلاب آجائے یا پانی کی کمی ہو جائے تو گندم کی پیداوار اور بھی کم ہو سکتی ہے۔
اگرچہ پاکستانی اپنے آپ کو اپنی ہی نظر میں گرانے میں بہت مصروف نظر آتے ہیں، لیکن پاکستان آج بھی ہندوستان کے مقابلے میں خوراک کی کمی کے عالمی پیمانے کے مطابق نسبتاً بہتر درجے میں ہے۔ ’بھوک پیمانہ‘ ۱۲۱ ملکوں کو جانچتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے بڑا ملک ہندوستان اس ’بھوک پیمانہ‘ پر ۱۰۷ ویں درجے پر ہے، جب کہ پاکستان نسبتاً بہتر حالت میں ۹۹درجے پر ہے۔ یہ اعداد و شمارغلط نہیں ہیں۔ میں نے ہندوستان میں غربت اور بھوک کے مجسم آثار کو ہر جگہ اپنی نظروں کے سامنے پایا۔ لوگ سڑکوں پر بھوکے پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ الحمدللہ، پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، مگر یہ خوش ہونے کی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں بھی بھوک کے مارے بے پناہ لوگ ہیں۔
۲۰ فی صد سے زیادہ پاکستانی مناسب کھانا نہیں کھا پاتے۔ تقریباً ۴۵ فی صد پانچ سال سے چھوٹے بچوں کی نشوو نما ٹھٹھر چکی ہے۔ لہٰذا، بھوک کے مسائل پر اَزحد اور فوراً توجہ کی ضرورت ہے۔
الحمدللہ، شہروں میں سخی لوگ دسترخوان پہ دسترخوان بچھا رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کے کارخانے میں کام صرف ۳۰ فی صد رہ گیا ہے، مگر وہ مزدوروں کو فارغ کرنے کے بجائے کارخانے ہی میں سبزیاں اُگا کر اور بکریاں پال کر ان کا خیال رکھ رہے ہیں۔ ایک دکان دار نے بتایا کہ جب کوئی آدھا کلو آٹا لینے کے لیے آئے تو سمجھ جاتے ہیں کہ ان کے پاس اس سے زیادہ لینے کے پیسے نہیں ہیں اور پھر وہ اپنی جانب سے انھیں زیادہ غلہ فراہم کر دیتے ہیں۔
الحمدللہ، پاکستان پر اللہ کا کرم ہے۔ یہ سخی لوگوں کا ملک ہے۔ لیکن اس انفرادی سخاوت کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک ایسا نظام بنانا چاہیے کہ غریب کو کم از کم کھانے کی فکر نہ ہو۔ بنیادی طور پر تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا نظام بنائے۔ بدقسمتی سے لوگوں کا اعتبار حکومت سے اُٹھ چکا ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہے اور کچھ کر بھی دے، تو لوگ اس سے شاید فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔ لہٰذا، یہ نظام اپنی مدد آپ کے تحت بنانا ہوگا۔ یہ کام ان اداروں کو کرنا چاہیے، جن اداروں کی ساکھ ہے اور جو لوگوں کی خدمت میں معروف ہیں۔ اُن میں: الخدمت فائونڈیشن، ایدھی فائونڈیشن، اخوت ٹرسٹ اور بہت سے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اس طرح کے بہت سے ادارے انسانوں کی خدمت کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔
قحط بہت عجیب اور بڑی ہولناک چیز ہے۔ بعض اوقات افریقہ کے بھوک اور افلاس سے دوچار قحط کے مارے لوگوں بالخصوص بچوں کی تصویریں دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگ ہر طرف بھوک سے مررہے ہیں۔ لیکن قحط کا ایسا منظر کم دکھائی دیتا ہے مگر جب اس طرح کی تصویریں سامنے آنے لگیں، تو پھر مدد عام طور پر انسانوں کو بچا نہیں سکتی۔ اس لحاظ سے یہ بات لازم ہے کہ ایسے خدشات سامنے آتے ہی انتظامات کرنے چاہییں، تاکہ بھوک سے لوگ نہ مریں اور پاکستان میں یہ وقت اب آتا دکھائی دے رہا ہے، اللہ کرے ایسا نہ ہو!
بھوک کے مارے اور افلاس زدہ لوگوں کی بستیاں اکثر دُور ہوتی ہیں، نظروں سےدُور۔ مال روڈ کہیں ہوتا ہے اور جھگیاں کسی اورجگہ۔ اس طرح بیش تر خوش حال لوگوں کی نظروں کے سامنے اکثر بھوک نہیں آپاتی۔ جب ۱۹۴۳ء اور ۴۴ء میں بنگال کا ہولناک قحط پڑا، تو قدرت اللہ شہابؒ شہاب نامہ میں لکھتے ہیں:
[جب] میں کلکتہ پہنچ کر اُترا تو چاروں طرف بنگال کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ بڑی کشادہ سڑکیں، دودھئی قمقموں کی روشنی میں نہائی ہوئی تھیں۔ بازاروں میں دکانیں آراستہ و پیراستہ چمک دمک رہی تھیں۔ خوش پوش بنگالی کاروں، ٹیکسیوں، بسوں، ٹراموں، رکشائوں میں اور پیدل ہنسی خوشی اِدھر اُدھر آجارہے تھے… ان سب کی نگاہوں سے اللہ کی وہ بے شمار مخلوق بالکل اوجھل تھی، جو ان کے آگے پیچھے، دائیں بائیں سڑکوںپر، فٹ پاتھوں پر، گلیوں کوچوں میں، میدانوں میں بھوکے پیاسے کیڑے مکوڑوں کی طرح سسک سسک کر رینگ رہی تھی۔ زندگی کے دو مختلف دھارے ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ اس طرح رواں دواں تھے، جیسے متوازی خطوط، جو آپس میں کبھی نہیں ملتے۔(ص۱۵۷-۱۵۸)
یاد رہے اس قحط میں ۳۰ لاکھ سے زیادہ لوگ بھوک کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایسا نہیں کہ بنگال میں غلّہ موجود نہیں تھا۔ غلّہ موجود تھا مگر لوگوں میں اسے خریدنے کی طاقت نہیں تھی، وہ مالی اعتبار سے بے وسائل تھے۔
آج بھی روزانہ سات ہزار ہندوستانی بھوک کے ہاتھوں مرجاتے ہیں، مگر ’جی ۲۰ ‘والوں کو ان کی کوئی خبر بھی نہیں ہوگی۔اجلاس کے انعقاد کی چمک دمک برقرار رکھنے کے لیے ۲۰ بستیوں کو تو صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا اور جہاں مٹا نہ سکے، وہاں دیواریں کھڑی کردی گئیں کہ کسی کو ہندوستان کی غربت کا پتہ نہ چلے۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان میں ایسی صورتِ حال پیدا ہو۔
ہمارے ہاں داتا دربار جیسا لنگر تو ہر جگہ موجود نہیں ہوتا، مگر مسجد تو ہرجگہ موجود ہے۔ غریب ترین بستی میں بھی مسجد ہوتی ہے۔ شاید مدرسہ بھی ہو یا کوئی اسکول بھی چل رہا ہو اور چھوٹا سا کوئی کلینک بھی کھلا ہو۔ کتنا ہی اچھا ہو اگر ہرمسجد کے ساتھ، ہر مدرسے کے ساتھ، ہر اسکول یا ہر دواخانے کے ساتھ، ایک چھوٹا سا کمرہ ہو یا جھگی ہی کیوں نہ ہو کہ جہاں جن کو میسر ہے،جنھیں اللہ نے دیا ہے وہ لے آئیں، اور جنھیں کھانے کی ضرورت ہو وہ وہاں آ کر لے سکیں ۔ یوں ہر مسجد اور مدرسے میں اور ہراسکول میں ایک چھوٹا سا لنگر بن جائے گا۔
کوئی بڑا ادارہ ایک ایسا گودام قائم کر سکتا ہے کہ جہاں لوگ اپنا غلہ، اپنی کاشت کی چیزیں اور خوردنی تیل وغیرہ جمع کرا سکیں۔ پورے شہر میں یہ معروف ہو کہ یہاں آپ خورو نوش کی اشیا جمع کرا سکتے ہیں۔ پھر مسجدیں، اسکول اور مستحق مدرسے وہاں سے وہ چیزیں لے کر جائیں تاکہ مستحق لوگ اپنے ہی محلے میں اس چیز کو حاصل کر سکیں۔
اس تجویز کو سادہ سمجھ کر نظرانداز نہ کریں کہ ’’یہ تو کوئی خاص بات نہ ہوئی‘‘۔ اس پہلو سے ضرور سوچیے ،ممکن ہے آپ کے ذہن میں کوئی اور اچھی عملی تجویز آجائے، لیکن یہ مسجدیں، مدرسے، کلینک ہر جگہ موجود ہیں۔ کسی حد تک وہ غریبوں کی خدمت کر ہی رہے ہیں۔ اگر ایک چھوٹا سا نظام اس کے ساتھ ایسا بھی بنا دیا جائے تو خدمت کا ایک اور نیا راستہ کھل سکتا ہے۔
جو ملک دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس بنا سکتا ہے، جو ملک امریکا اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود جوہری بم بنا سکتا ہے، وہ غریبوں کے کھانے کا بھی ایسا نظام بنا سکتا ہے کہ غریب کو نہ مانگنا پڑے، نہ دھکے کھانے پڑیں لیکن اس کا پیٹ بھرتا رہے۔
الخدمت فائونڈیشن نے آگے بڑھ کر سیلاب زدگان کی جو خدمت کی تو امریکی مسلمانوں نے انھیں ۳؍ارب سے زیادہ کا چندہ دیا۔ اگر الخدمت یا کوئی اور پاکستانی ادارہ غریبوں کو کھانا کھلانے کا کوئی نظام بنا دے تو یقین ہے کہ پاکستانی، پاکستان ہی میں اور دنیا بھر سے اس کام میں پورا پورا تعاون کریں گے۔
اس سے بڑھ کر اللہ کریم کو خوش کرنے کا شاید ہی کوئی اور ذریعہ ہو، جس نے فرمایا ہے کہ ’’ایک انسان کو بچانا ایسے ہے جیسے ساری انسانیت کو بچانا‘‘۔ ہر فرد کی جان قیمتی ہے اور اس کو بچانا بے پناہ اہم ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الماعون میں ارشاد فرمایا ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے، جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں (۱۰۷:۱-۵)
اس سورہ میں اللہ پاک نے حقوق العباد کا تذکرہ عبادت سے پہلے کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی میں صرف اللہ کے سامنے سر جھکانا شامل نہیں ہے، بلکہ اللہ کی مخلوق کی خدمت بھی اللہ کی عبادت میں شامل ہے۔
۲۵ لاکھ پاکستانی روز کی کمائی پر اس طرح انحصار کرتے ہیں کہ جو کمایا اسی دن کھایا اور اگلے دن کے لیے ان کے پاس کچھ نہ رہا۔ اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ معاشی حالات مزید بگڑتے جائیں گے، غربت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور قوت خرید کم ہوتی جائے گی۔ جو انسان ہماری نظر کے سامنے نہ ہو، وہ شاید بھوکا ہی اس دنیا سے گزر جائے، لہٰذا ہم سب کو اس جانب بھرپور اور فوراً پوری توجہ دینی چاہیے کہ کھانے کا نظام ایسا بنے کہ اللہ ہم سے خوش ہو اور اس کے بدلے میں ہماری دنیا کو بہتر بنائے، ہمارے رزق میں اضافہ فرمائے، ہمیں شکر کی توفیق دے اور ایسی جنت میں داخل کرے، جہاں ہم جو مانگیں گے، وہ پائیں گے!
دنیا کی تمام مساجد تمام لوگوں کے لیے کھلی ہوئی ہیں۔ مسلمان کسی قوم، نسل، طبقے یا رنگ کے اختلاف سے قطع نظر ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا ملا کر نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ اسلامی مساوات کی ہی تاثیر ہے کہ انڈیا کے دلتوں سے لے کر امریکا و یورپ میں سفیدفام اور افریقی النسل اس دین میں داخل ہو رہے ہیں۔
تاہم، اس غالب حقیقت کو بعض اوقات اسلامی اقدار سے متصادم کچھ انفرادی رویوں کو بنیاد بنا کر متاثر کیا جاتا ہے۔کچھ مسلمان شیطان کی چال میں آجاتے ہیں اور نسلی کمتری وبرتری کا گمراہ کن کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تمام انسان یکساں ہیں اور ایک ہی مرد اور عورت کی اولاد ہیں (الحجرات ۴۹:۱۳) ،کچھ لوگ خود کو ماڈرن اور دوسروں کو دقیانوسی تصور کرتے ہیں اور ان کے خلاف تعصب کوہوا دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم خود کو اس جال میں پھنسنے سے کیسے بچائیں؟ ہم نسل پرستی اور قوم پرستی کی ہلاکت خیزیوں سےمحفوظ رہنے میں ایک دوسرے کی مدد کیسے کریں؟ ہم ایک بہتر انسان بننے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟اس سلسلے میں یہاں چند نکات پیش کیے گئےہیں، جن کے مطابق ہم اس مرض کے خلاف جدوجہد شروع کر سکتے ہیں ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے،تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتاہو، تو پھر اپنی زبان سے بدل دے۔ اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتاہو، تو پھر اسے اپنے دل میں برا جانے، اوریہ ایمان کا کم تر ین درجہ ہے‘‘ [صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان، حدیث:۹۵]۔
غیبت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کسی کی غیر موجودگی میں اس کے تعلق سے ایسی بات کہنا جو اگر اس کی موجودگی میں کہی جاتی تو اسے ناگوارگزرتی، غیبت ہے‘‘۔ اس پر ایک صحابی نے سوال کیا ، یا رسولؐ اللہ ! جو بات بیان کی جا رہی ہو، وہ اگر واقعی اس شخص کے اندر موجود ہو تو؟ اس پر آپ ؐ نے جواب دیا: ’’اگر وہ بات اس کے اندر موجود ہے تبھی تو یہ غیبت ہے، اور اگر موجود نہ ہو تو کہنے والا بہتان کا مرتکب ہوگا ‘‘ (جو غیبت سے بھی بدتر ہے)۔ [صحیح مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب تحریم الغیبۃ، حدیث: ۴۷۹۶]
ذرا غور کریں کہ بہتان طرازی کس قدر سنگین گناہ ہے۔ اس پر زور دینے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ زنا سے بھی بدترگناہ ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص زنا کرنے کے بعد توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے، لیکن بہتان لگانے والے کو اس وقت تک معاف نہیں کیا جائے گا جب تک کہ خود وہ شخص اسے معاف نہ کر دے،جس پر بہتان لگایا گیا ہے‘‘۔ [بیہقی، شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان، حدیث: ۶۴۴۷]۔
قرآن کی اس آیت پر غور کریں: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ کوئی گروہ (مرد) دوسرےگروہ (مردوں) کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۱) ۔
اس طرح کا تکلیف دہ اور نادانی پر مبنی مذاق واضح طور پر ان آداب کے خلاف ہے، جس کی اللہ اور اس کے رسولؐ ہمیں ہدایت کرتے ہیں۔ اسلام میں کسی بھی مخلوق کا تمسخر اڑانا، یا اسے تضحیک کا موضوع بنانا گناہ ہے، اوریہ گناہ شدید تر ہو جاتا ہے، جب کسی طبقے کے خلاف اس کا ارتکاب کیا جائے۔
الحمد للہ، اکثر مسلمان تحقیر آمیز الفاظ کا استعمال نہیں کرتے۔ لیکن کبھی کبھار ہم ایسے نام سنتے ہیں، جنھیں ہمیں چیلنج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ افراد افریقی نژاد لوگوں کے لیے لفظ ’کالا‘ استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کا لفظی مطلب ہے’سیاہ‘، لیکن اکثر اس کا استعمال تضحیک و توہین کے لیے کیا جاتا ہے۔ کاکیشین کے لیے اردو میں ’گورا‘ اسی زمرے میں آتا ہے ۔ اگرچہ اس کا مطلب محض ایک سفید فام شخص ہے، لیکن یہ اصطلاح سفید نوآبادکاروں یا حملہ آوروں کے تاریخی عدم اعتماد اورفریب کاریوں سے منسوب ہے۔ دوسری طرف زیادہ تر جنوبی ایشیائی لوگوں کو ’شوربے کی بُو والے‘ پاکستانیوں کو ’پاکی‘ کہہ کر پکارا اور یاد کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ اصطلاح ایک نسل کے لوگ اپنی نسل کی برتری کے زعم میں دوسری نسل کے افراد سے متعلق حقارت سے استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح بعض عرب سیاہ فام لوگوں کے لیے’ عبد‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصطلاح کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ کچھ عرب پاکستانیوں کے لیے ’رفیق‘ (ساتھی) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ پھر لفظ ’ابن الخنزیر‘ (سور کا بچہ) عربوں میں خصوصاً یہودیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ القاب پیغمبرؐ اسلام کےماننے والوں کے شایان شان نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک دوسرے کے والدین کی توہین نہ کرنے کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ [صحیح بخاری و صحیح مسلم]
اسلامی اصطلاح ’کافر‘ کا استعمال بھی بہت احتیاط کے ساتھ کرنا چاہیے۔ یہ قرآنی اصطلاح نفرت کے اظہارکی اصطلاح نہیں بننی چاہیے۔
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اہلِ ایمان کے فرائض میں سے ہے۔ آئیے حکمت اور صبر کے ساتھ اس فرض کو پوراکریں۔ شائستگی کادامن نہ چھوڑیں اور اس راستے پر ثابت قدم رہیں۔
اس حدیث پر غور کیجیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ اَخِیْہِ ، رَدّاللہُ عَنْ وَجْھِہٖ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ’’جس نے کسی کو کسی مسلمان بھائی کی غِیبت سے روکا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس کے منہ سے دوزخ کی آگ دُور کردے گا‘‘۔ [ترمذی، کتاب الذبائح، ابواب البّر، باب ماجاء فی الذّبّ عن عرض المسلم، حدیث: ۱۹۰۳]
اگر آپ کسی کے سامنے ایسی زبان بولتے ہیں، جو اسے سمجھ میں نہیںآتی تو اس سے بدگمانی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ایسے موقعوں پر وہ مشترکہ زبان استعمال کریں جو سب کے لیے قابل فہم ہو۔مثلاً اگر آپ اور اکبر دونوں پشتو بولتے ہیں، لیکن علیم پشتو نہیں جانتا تو آپ پشتو میں بات کرنے کی بجائے اُردو میں بات کریں،تاکہ علیم خود کو الگ تھلگ محسوس نہ کرے۔ اگر کسی محفل میں آپ اس رویے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انھیں بتائیں کہ یہ غیر منصفانہ عمل ہے۔ اگراس ناانصافی کے مرتکب خود آپ ہیں، تو یہ کہہ کر اپنے رویے کادفاع نہ کریں کہ ’’آپ کو ہماری زبان سیکھ لینی چاہیے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’جب تین افراد اکٹھے ہوں توان میں سے دو کوئی خفیہ بات نہ کریں،اور تیسرے کو اکیلا نہ چھوڑ دیں، یہاں تک کہ بہت سارے لوگوں کے ساتھ مل جائیں۔ کیونکہ یہ اس کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے‘۔ [صحیح مسلم، کتاب السلام، باب تحریم مناجاۃ الاثنین دون الثالث بغیر رضاہ، حدیث: ۴۱۴۸]
میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو مسلمانوں کی مہمان نوازی کی وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں۔ کھانا لوگوں کو اکٹھا کرنے اور دوسروں کو جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ کھانا ساجھاکریں۔بلا شبہہ غذا میں ایک سماجی توانائی بھی ہے ، اس کا استعمال کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’تمھارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے‘ [ترمذی، ابواب البّر والصلۃ عن رسول اللہ، باب ماجاء فی صنائع المعروف، حدیث: ۱۹۲۸]۔ لیکن صرف اپنے لوگوں کے لیے نہیں۔اپنی مسکراہٹ کو اتنا وسیع کریں کہ اس میں سب شامل ہو جائیں کہ مسکراہٹ بند دلوں کو کھول دیتی ہے۔
اس حدیث پر غور کریں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کےقریب ترین وہ لوگ ہیں جو سلام کرنےمیں پہل کرتے ہیں [ابوداؤد کتاب الادب، ابواب النوم، باب فی فضل من بدأ السلام، حدیث: ۴۵۴۳]۔
سلام کرنا مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے،خواہ مخاطب کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو گے جب تک تم ایمان نہ لاؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں ایک ایسی چیز کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہو، جو باہم محبت کرنے کاذریعہ ہے: سلام کے پیغام (السلام علیکم) کو عام کرو‘۔[صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان أنّہ لا یدخُلُ الجنّۃ اِلَّا المؤمنون، حدیث: ۱۰۶]
اللہ تعالیٰ ایک مظلوم شخص کو ظلم کا اسی مقدار میں بدلہ لینے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کی نظر میں معاف کردینا بہتر ہے: ’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے، اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (الشوریٰ ۴۲:۴۰)۔
ارشاد ربانی ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائےہو ، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی پٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘(النساء ۴:۱۳۵)۔
المختصر،آج مسلمانوں کی شبیہ میڈیا اور سیاسی رہنمائوں کے ذریعے دن رات مسخ کی جا رہی ہے۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک بہتر انسان کے طور پر ابھریں، بجائے اس کے کہ اپنی صفائی دینے کے چکر میںاس شیطانی کھیل کا حصہ بن جائیں۔جو دوسروں کو حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگتا ہے، وہ پہلے خوداپنی انسانیت کا قتل کرتا ہے۔ تعصب، نسل پرستی اور قوم پرستی ایک ہی طرح کی بیماریاں ہیں۔ سبھی کے پاس یہ اختیار ہے کہ یا تو وہ اپنی مذہبی تعلیمات کو استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ انسانی اقدار کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا قوم پرستی کی دلدل میں غرق ہو جائیں۔
نسل پرستی اور قوم پرستی دوہری برائیاں ہیں۔ آئیے نسل پرستی کے خلاف ذاتی سطح پر جدوجہد شروع کریں۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔