غربت بڑھتی جا رہی ہے اور سیاسی فساد اسے مزید بگاڑ رہا ہے۔
پاکستان کے لوگ دل والے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر میں آج بھوکا ہوں تو کھانا مجھے کہاں سے ملے گا؟ یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ جب میں بھوک کے ہاتھوں مجبور تھا تو ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گیا۔ کسی نے میرے چہرے پر بھوک کو پڑھا تو مجھے کھانا کھلانے لے گئے۔ اللہ انھیں اجرعطا فرمائے ،اس دنیا میں بھی اور آخرت میں تو بے پناہ اجر ایسے انسانوں کے لیے ہےہی ۔
یہ ہمارے بچپن کے زمانے کی بات ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں روزانہ دسترخوان بچھتا تھا۔ ہم کھانا لے کر جاتے تھے اور دوسرے بچے بھی لاتے تھے۔ غریب لوگ اور مسافر وہاں بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے۔ اب ذرا دیکھیے، آج کتنی مسجدیں ہیں جہاں یہ انتظام موجود ہے؟
بظاہر ایسا دکھائی نہیں دے رہا کہ پاکستان آیندہ پانچ برسوں میں بھی گندم کی فراہمی میں خودکفیل ہو سکے گا۔ اس وقت ہم ۱۰ فی صد گندم درآمد کر رہے ہیں۔ یہ گندم زیادہ تر روس اور یوکرین سے آتی ہے۔ وہاں ۲۰۲۲ء سے جنگ شروع ہونے کے سبب گندم کی قیمت بے پناہ بڑھ گئی ہے، اور جتنی جنگ بڑھتی جائے گی اتنی ہی گندم کی پیداوار کم ہوگی۔ دنیا میں پھر مقابلہ سخت ہوگا کہ کون اس گندم کو حاصل کر سکے اور اگر خدا نخواستہ کوئی بڑا سیلاب آجائے یا پانی کی کمی ہو جائے تو گندم کی پیداوار اور بھی کم ہو سکتی ہے۔
اگرچہ پاکستانی اپنے آپ کو اپنی ہی نظر میں گرانے میں بہت مصروف نظر آتے ہیں، لیکن پاکستان آج بھی ہندوستان کے مقابلے میں خوراک کی کمی کے عالمی پیمانے کے مطابق نسبتاً بہتر درجے میں ہے۔ ’بھوک پیمانہ‘ ۱۲۱ ملکوں کو جانچتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے بڑا ملک ہندوستان اس ’بھوک پیمانہ‘ پر ۱۰۷ ویں درجے پر ہے، جب کہ پاکستان نسبتاً بہتر حالت میں ۹۹درجے پر ہے۔ یہ اعداد و شمارغلط نہیں ہیں۔ میں نے ہندوستان میں غربت اور بھوک کے مجسم آثار کو ہر جگہ اپنی نظروں کے سامنے پایا۔ لوگ سڑکوں پر بھوکے پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ الحمدللہ، پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، مگر یہ خوش ہونے کی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں بھی بھوک کے مارے بے پناہ لوگ ہیں۔
۲۰ فی صد سے زیادہ پاکستانی مناسب کھانا نہیں کھا پاتے۔ تقریباً ۴۵ فی صد پانچ سال سے چھوٹے بچوں کی نشوو نما ٹھٹھر چکی ہے۔ لہٰذا، بھوک کے مسائل پر اَزحد اور فوراً توجہ کی ضرورت ہے۔
الحمدللہ، شہروں میں سخی لوگ دسترخوان پہ دسترخوان بچھا رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کے کارخانے میں کام صرف ۳۰ فی صد رہ گیا ہے، مگر وہ مزدوروں کو فارغ کرنے کے بجائے کارخانے ہی میں سبزیاں اُگا کر اور بکریاں پال کر ان کا خیال رکھ رہے ہیں۔ ایک دکان دار نے بتایا کہ جب کوئی آدھا کلو آٹا لینے کے لیے آئے تو سمجھ جاتے ہیں کہ ان کے پاس اس سے زیادہ لینے کے پیسے نہیں ہیں اور پھر وہ اپنی جانب سے انھیں زیادہ غلہ فراہم کر دیتے ہیں۔
الحمدللہ، پاکستان پر اللہ کا کرم ہے۔ یہ سخی لوگوں کا ملک ہے۔ لیکن اس انفرادی سخاوت کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک ایسا نظام بنانا چاہیے کہ غریب کو کم از کم کھانے کی فکر نہ ہو۔ بنیادی طور پر تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا نظام بنائے۔ بدقسمتی سے لوگوں کا اعتبار حکومت سے اُٹھ چکا ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہے اور کچھ کر بھی دے، تو لوگ اس سے شاید فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔ لہٰذا، یہ نظام اپنی مدد آپ کے تحت بنانا ہوگا۔ یہ کام ان اداروں کو کرنا چاہیے، جن اداروں کی ساکھ ہے اور جو لوگوں کی خدمت میں معروف ہیں۔ اُن میں: الخدمت فائونڈیشن، ایدھی فائونڈیشن، اخوت ٹرسٹ اور بہت سے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اس طرح کے بہت سے ادارے انسانوں کی خدمت کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔
قحط بہت عجیب اور بڑی ہولناک چیز ہے۔ بعض اوقات افریقہ کے بھوک اور افلاس سے دوچار قحط کے مارے لوگوں بالخصوص بچوں کی تصویریں دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگ ہر طرف بھوک سے مررہے ہیں۔ لیکن قحط کا ایسا منظر کم دکھائی دیتا ہے مگر جب اس طرح کی تصویریں سامنے آنے لگیں، تو پھر مدد عام طور پر انسانوں کو بچا نہیں سکتی۔ اس لحاظ سے یہ بات لازم ہے کہ ایسے خدشات سامنے آتے ہی انتظامات کرنے چاہییں، تاکہ بھوک سے لوگ نہ مریں اور پاکستان میں یہ وقت اب آتا دکھائی دے رہا ہے، اللہ کرے ایسا نہ ہو!
بھوک کے مارے اور افلاس زدہ لوگوں کی بستیاں اکثر دُور ہوتی ہیں، نظروں سےدُور۔ مال روڈ کہیں ہوتا ہے اور جھگیاں کسی اورجگہ۔ اس طرح بیش تر خوش حال لوگوں کی نظروں کے سامنے اکثر بھوک نہیں آپاتی۔ جب ۱۹۴۳ء اور ۴۴ء میں بنگال کا ہولناک قحط پڑا، تو قدرت اللہ شہابؒ شہاب نامہ میں لکھتے ہیں:
[جب] میں کلکتہ پہنچ کر اُترا تو چاروں طرف بنگال کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ بڑی کشادہ سڑکیں، دودھئی قمقموں کی روشنی میں نہائی ہوئی تھیں۔ بازاروں میں دکانیں آراستہ و پیراستہ چمک دمک رہی تھیں۔ خوش پوش بنگالی کاروں، ٹیکسیوں، بسوں، ٹراموں، رکشائوں میں اور پیدل ہنسی خوشی اِدھر اُدھر آجارہے تھے… ان سب کی نگاہوں سے اللہ کی وہ بے شمار مخلوق بالکل اوجھل تھی، جو ان کے آگے پیچھے، دائیں بائیں سڑکوںپر، فٹ پاتھوں پر، گلیوں کوچوں میں، میدانوں میں بھوکے پیاسے کیڑے مکوڑوں کی طرح سسک سسک کر رینگ رہی تھی۔ زندگی کے دو مختلف دھارے ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ اس طرح رواں دواں تھے، جیسے متوازی خطوط، جو آپس میں کبھی نہیں ملتے۔(ص۱۵۷-۱۵۸)
یاد رہے اس قحط میں ۳۰ لاکھ سے زیادہ لوگ بھوک کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایسا نہیں کہ بنگال میں غلّہ موجود نہیں تھا۔ غلّہ موجود تھا مگر لوگوں میں اسے خریدنے کی طاقت نہیں تھی، وہ مالی اعتبار سے بے وسائل تھے۔
آج بھی روزانہ سات ہزار ہندوستانی بھوک کے ہاتھوں مرجاتے ہیں، مگر ’جی ۲۰ ‘والوں کو ان کی کوئی خبر بھی نہیں ہوگی۔اجلاس کے انعقاد کی چمک دمک برقرار رکھنے کے لیے ۲۰ بستیوں کو تو صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا اور جہاں مٹا نہ سکے، وہاں دیواریں کھڑی کردی گئیں کہ کسی کو ہندوستان کی غربت کا پتہ نہ چلے۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان میں ایسی صورتِ حال پیدا ہو۔
ہمارے ہاں داتا دربار جیسا لنگر تو ہر جگہ موجود نہیں ہوتا، مگر مسجد تو ہرجگہ موجود ہے۔ غریب ترین بستی میں بھی مسجد ہوتی ہے۔ شاید مدرسہ بھی ہو یا کوئی اسکول بھی چل رہا ہو اور چھوٹا سا کوئی کلینک بھی کھلا ہو۔ کتنا ہی اچھا ہو اگر ہرمسجد کے ساتھ، ہر مدرسے کے ساتھ، ہر اسکول یا ہر دواخانے کے ساتھ، ایک چھوٹا سا کمرہ ہو یا جھگی ہی کیوں نہ ہو کہ جہاں جن کو میسر ہے،جنھیں اللہ نے دیا ہے وہ لے آئیں، اور جنھیں کھانے کی ضرورت ہو وہ وہاں آ کر لے سکیں ۔ یوں ہر مسجد اور مدرسے میں اور ہراسکول میں ایک چھوٹا سا لنگر بن جائے گا۔
کوئی بڑا ادارہ ایک ایسا گودام قائم کر سکتا ہے کہ جہاں لوگ اپنا غلہ، اپنی کاشت کی چیزیں اور خوردنی تیل وغیرہ جمع کرا سکیں۔ پورے شہر میں یہ معروف ہو کہ یہاں آپ خورو نوش کی اشیا جمع کرا سکتے ہیں۔ پھر مسجدیں، اسکول اور مستحق مدرسے وہاں سے وہ چیزیں لے کر جائیں تاکہ مستحق لوگ اپنے ہی محلے میں اس چیز کو حاصل کر سکیں۔
اس تجویز کو سادہ سمجھ کر نظرانداز نہ کریں کہ ’’یہ تو کوئی خاص بات نہ ہوئی‘‘۔ اس پہلو سے ضرور سوچیے ،ممکن ہے آپ کے ذہن میں کوئی اور اچھی عملی تجویز آجائے، لیکن یہ مسجدیں، مدرسے، کلینک ہر جگہ موجود ہیں۔ کسی حد تک وہ غریبوں کی خدمت کر ہی رہے ہیں۔ اگر ایک چھوٹا سا نظام اس کے ساتھ ایسا بھی بنا دیا جائے تو خدمت کا ایک اور نیا راستہ کھل سکتا ہے۔
جو ملک دنیا کی سب سے بڑی ایمبولنس سروس بنا سکتا ہے، جو ملک امریکا اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود جوہری بم بنا سکتا ہے، وہ غریبوں کے کھانے کا بھی ایسا نظام بنا سکتا ہے کہ غریب کو نہ مانگنا پڑے، نہ دھکے کھانے پڑیں لیکن اس کا پیٹ بھرتا رہے۔
الخدمت فائونڈیشن نے آگے بڑھ کر سیلاب زدگان کی جو خدمت کی تو امریکی مسلمانوں نے انھیں ۳؍ارب سے زیادہ کا چندہ دیا۔ اگر الخدمت یا کوئی اور پاکستانی ادارہ غریبوں کو کھانا کھلانے کا کوئی نظام بنا دے تو یقین ہے کہ پاکستانی، پاکستان ہی میں اور دنیا بھر سے اس کام میں پورا پورا تعاون کریں گے۔
اس سے بڑھ کر اللہ کریم کو خوش کرنے کا شاید ہی کوئی اور ذریعہ ہو، جس نے فرمایا ہے کہ ’’ایک انسان کو بچانا ایسے ہے جیسے ساری انسانیت کو بچانا‘‘۔ ہر فرد کی جان قیمتی ہے اور اس کو بچانا بے پناہ اہم ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الماعون میں ارشاد فرمایا ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے، جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں (۱۰۷:۱-۵)
اس سورہ میں اللہ پاک نے حقوق العباد کا تذکرہ عبادت سے پہلے کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی میں صرف اللہ کے سامنے سر جھکانا شامل نہیں ہے، بلکہ اللہ کی مخلوق کی خدمت بھی اللہ کی عبادت میں شامل ہے۔
۲۵ لاکھ پاکستانی روز کی کمائی پر اس طرح انحصار کرتے ہیں کہ جو کمایا اسی دن کھایا اور اگلے دن کے لیے ان کے پاس کچھ نہ رہا۔ اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ معاشی حالات مزید بگڑتے جائیں گے، غربت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور قوت خرید کم ہوتی جائے گی۔ جو انسان ہماری نظر کے سامنے نہ ہو، وہ شاید بھوکا ہی اس دنیا سے گزر جائے، لہٰذا ہم سب کو اس جانب بھرپور اور فوراً پوری توجہ دینی چاہیے کہ کھانے کا نظام ایسا بنے کہ اللہ ہم سے خوش ہو اور اس کے بدلے میں ہماری دنیا کو بہتر بنائے، ہمارے رزق میں اضافہ فرمائے، ہمیں شکر کی توفیق دے اور ایسی جنت میں داخل کرے، جہاں ہم جو مانگیں گے، وہ پائیں گے!