سیاست جو کچھ بھی ہو، فی زمانہ بدنام شعبۂ زندگی ہے۔ ایک نوجوان تعلیم سے فارغ ہوا تو اس سے کسی بزرگ نے پوچھا: ’تم اب کیا کروگے؟‘ باہمت نوجوان نے کہا: ’میں سیاست اختیار کروں گا‘۔ بزرگ نے کہا: ’بیٹا! یہ کوئی پیشہ ہے،یہ تو بدنامی کا گھر ہے۔ اس میں داخل ہوکر آدمی راست باز اور دیانت دار نہیں رہ سکتا‘۔
سیاست کے بارے میں یہ تاثر صرف مشرق ہی میں نہیں، خود مغرب میں بھی پایا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک اخبار نے رائے عامہ کو جاننے کے لیے سروے کیا کہ ’لوگ سیاست کو کیا سمجھتے ہیں؟‘ تو اس اخبار کے نمایندے نے ایک خاتون سے پوچھا: ’محترمہ، آپ کے خیال میں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں؟ اس نے رُک رُک کر جواب دیا: ’حصہ لینا چاہیے ___ لیکن زیادہ نہیں کہ اس میں وقت ضائع ہوتا ہے، مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا‘۔
جس طرح ہمارے ہاں سیاست کو جھوٹ، مکر اور فریب سے تعبیر کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح یورپ میں بھی اسے دھوکے بازی کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا: ’جو آدمی سیاست کو ترجیح دیتا ہے وہ سچا مسیحی ہونا تو کجا ایک مہذب شخص بھی نہیں رہ سکتا‘۔
سیاست کے بارے میں یہ عمومی تصور ہے کہ یہ حصولِ اقتدار کا ذریعہ ہے۔ صرف وہی لوگ سیاست میں حصہ لیتے ہیں، جواقتدار، جاہ اور شہرت کے طالب ہوں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ عام مشاہدہ بھی یہی ہے، جس کے دل میں شہرت، نام وری اور حب ِجاہ چٹکیاں لیتی ہے، وہ سیاست اور اسٹیج کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ اس سے آدمی کے احساسِ برتری کو تسکین ملتی ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ سیاست میں آدمی راست بازی اور اصول کے راستے پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس سلسلے میں انتخابی وعدوں اور بعد کے طرزِعمل کا تقابل کیجیے۔ ان ارکان اسمبلی کو دیکھیے، جو پیچھے رہ جانے والی پارٹی سے نکل کر آگے نکل جانے والی پارٹی میں جاشامل ہوتے ہیں۔ جہاں اقتدار دیکھتے ہیں، وہیں برات لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً غیرجماعتی سیاست کے نفاذ نے تو ہمارے ہاں اور بھی غضب ڈھایا۔ جب جماعتیں نہ رہیں تو پیسہ اور برادری چلنے لگی، اور اب سیاست نے ایک اور رنگ دکھایا ہے کہ آدمی کے پاس پیسہ اور ایوانِ اقتدار سے کوئی تعلق ہو تو وہ قوم کا قائد بن سکتا ہے۔
صدرفیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب نے ایک روز گورنر ہائوس لاہور میں مولانا مودودی کو ملاقات کی دعوت دی۔ کچھ دیر تبادلۂ خیالات کے بعد، مشفقانہ انداز میں ایوب خان صاحب نے فرمایا: ’مولانا، یہ سیاست تو بڑا گندا کام ہے، آپ جیسے بلند کردار اور پاکیزہ نفس لوگ اس میں کیوں پڑگئے ہیں؟ آپ اسے چھوڑ دیں اور ملک کے اندر بھی اور دُنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی تبلیغ فرمائیں اور خلقِ خدا کی اصلاح کریں۔ سیاست، سیاسی لوگوں کو کرنے دیں، کیونکہ اس دلدل میں جو بھی قدم رکھے گا کیچڑ سے لت پت ہوگا۔ آپ مذہب کا اور تبلیغ کا کام کریں تو ہماری حکومت آپ سے تعاون کرے گی‘۔
مولانا مودودی نے جنرل ایوب صاحب کو جواب میں فرمایا: ’جنرل صاحب، آپ ٹھیک ہی فرماتے ہیں کہ اس وقت سیاست کو غلط کار اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے ایک گندا کھیل بنادیا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے، اور اسی خرابی نے ہماری زندگی کے ہر دوسرے شعبے کو فلتھ ڈپو (گندگی کا مرکز) بنادیا ہے۔ اس لیے جب تک سیاست کو گندگی سے پاک نہیں کیا جائے گا، زندگی کے کسی شعبے کو بھی درست اور صحت مند نہیں بنایا جاسکے گا۔ اجتماعی نظامِ زندگی سے اس گندگی کو دُور کرنے کی کوشش ہمارے نزدیک کوئی سیاسی کام نہیں بلکہ یہ سراسر ایک دینی فریضہ ہے‘۔
ایوب خان صاحب نے فرمایا: ’مولانا، پھر یہ کام کرتے ہوئے تو آپ اپنے کو غلاظت سے آلودہ ہونے سے نہیں بچاسکتے‘۔
مولانا مودودی نے جواب دیا: ’اس میں کیا شک ہے کہ جو شخص بھی غلاظت اور سیوریج صاف کرنے کا کام کرے گا، وہ چاہے کتنی ہی احتیاط برتے، کچھ نہ کچھ چھینٹے تو اس کے کپڑوں پر ضرور پڑیں گے۔ لیکن اگر اس خوف سے سیوریج صاف ہی نہ کیا جائے تو پھر لامحالہ سارے شہر کی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے‘ [میاں طفیل محمد، مشاہدات، ص ۳۲۲، ۳۲۳]۔ ذرا زچ ہوکر ایوب صاحب نے کہا:’آج تک یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی، کہ سیاست کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟‘مولانا نے برملا کہا: ’جنرل صاحب، یہ تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا، مگر دوسری طرف پوری قوم کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟‘___ اور اس کے بعد دونوں میں گفتگو ختم ہوگئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہرمصلح کو اسی نوع کے اعتراضات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم سے کہا:’جھوٹے خدائوں کو چھوڑ کر سچے خدا کی عبادت کریں اور اپنے مال سے اپنے معذور اور نادار بھائیوں کی مدد کریں‘ تو انھوں نے پلٹ کر کہا: ’کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ تو ہمارے عقائد میں دخل دے اور ہم کو اپنے مال و دولت کے خرچ کے طریقے بتائے؟‘
حضر ت شعیب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ’’میں تو تمھاری اصلاح کرنا چاہتا ہوں، جہاں تک بھی میرا بس چلے‘‘۔
اللہ کے نیک بندے سیاست میں اس مقصد کے لیے داخل ہوتے ہیں اور اسی مقصد کو لے کر جماعت اسلامی سیاست میں گئی۔ وہ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ اصلاح کے لیے سیاست میں داخل ہوئی۔ بلاشبہہ اس میدان کو اہل ہوس نے بدنام کردیا ہے، لیکن مولانا رومؒ کے بقول:
کار پاکاں را قیاس ازخود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر شِیر
پاکیزہ لوگوں کو اپنے اُمورپر قیاس مت کرو۔ شیر اور شِیر لکھنے میں ایک ہیں، لیکن معنی میں ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ شیر پھاڑنے والا درندہ ہے، جب کہ شِیر (دودھ) حیات بخش غذا ہے۔
کسی دینی اور اصولی جماعت کا سیاست میں آنا اہل دنیا کے لیے ہمیشہ سے تعجب کا سبب رہا ہے۔ ایک انٹرویو نگار نے مولانا مودودی سے دریافت کیا: ’آپ نے سیاست کیوں اختیار کی؟‘ مولانا نے جواب میں فرمایا:
کیا سیاست بھی کوئی پیشہ ہے جسے اختیار کیا جائے؟___ دراصل سیاست کو لوگوں نے آج کل اُوپر چڑھنے کا زینہ اور شہرت کا ہتھکنڈا بنالیا ہے۔ میں نے سیاست اختیار نہیں کی۔ جو لوگ اپنا کوئی مقصد ِ زندگی رکھتے ہیں، وہ اجتماعی زندگی کے معاملات میں کچھ اختیار کرکے دل چسپی نہیں لیا کرتے بلکہ ان کے مقصد کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں دلچسپی لیں، جس کا اثر ان کے مقصد پر موافق یا مخالف پڑتا ہو___میں نے جب اسلام کو شعوری طور پر قبول کیا، تو اس طرح لامحالہ میری زندگی کا یہ مقصد بن گیا کہ میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے کوشش کروں اور پھر اس نشاتِ ثانیہ کے لیے جس جس پہلو میں بھی کام کرنے کی ضرورت پیش آتی گئی، اس کی طرف عین اپنے مقصد کے تقاضے سے توجہ کرتا چلا گیا۔ اس کے لیے یہ بھی ضرورت تھی کہ اسلام کو غالب کرنے کی راہ میں جوجو طاقتیں مزاحم ہیں، ان کی مزاحمت کو دُور کیا جائے۔یوں آپ سے آپ اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی طرف توجہ کرنی پڑی،بغیر اس کے کہ کسی روز بیٹھ کر یہ ارادہ کرتا کہ مجھے فلاں چیز اختیار کرنی چاہیے۔[انٹرویو نگار، علی سفیان آفاقی، ہفت روزہ اقدام، لاہور، اکتوبر ۱۹۵۳ء]
یہ ایک بامقصد شخص کے سیاست میں داخل ہونے کا فطری عمل ہے۔ مولانا مودودیؒ سیاست میں مقصد ِزندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے داخل ہوئے۔ جہاں جہاں مقصد کو پیش قدمی کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں قدم زن ہوتے گئے۔ انتخابات کا وقت آیا تو محسوس ہوا کہ جہاں دُنیادار نمایندے اپنا پروگرام قوم کے سامنے پیش کر رہے تھے، وہاں اگر دین کا پیغام بھی قوم تک پہنچا دیا جائے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا؟ چنانچہ جماعت اسلامی انتخابی میدان میں بھی اُتر آئی۔ لیکن مولانا مودودیؒ کے نزدیک خود دین اور سیاست کا بھی تقاضا ہے کہ اس میں دخل دیا جائے۔ قرآن میں دین کو قائم کرنے کا حکم ہے اور اس حکم کی تعمیل نہیں ہوسکتی جب تک اقتدار دین کے تابع نہ ہو۔ اسی طرح حکومت زبردست اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ یہ خراب ہوجائے تو معاشرے کو خرابی سے نہیں بچایا جاسکتا۔ اسی لیے مولانا نے فرمایا: ’حکومت کی خرابی خرابیوں کی جڑ ہے‘۔ پھر مولانا مودودیؒ نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
دین قائم نہیں ہوسکتا جب تک معاشرے کی اجتماعی قوت اصلاح پذیر نہ ہو۔ ناگزیر ہے کہ وہ طاقت صالح اور رُوبہ خیر ہو، جو ملک اور معاشرے کے تمام وسائل و ذرائع پر قبضہ و اقتدار رکھتی ہو۔ جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو ہمیں سیاست کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان مکہ میں ہوا تھا، یا مدینے میں؟ اللہ کا دین اس وقت تک قائم نہیں ہوا جب تک آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی حکومت قائم نہیں کرلی اور اقتدار کی طاقت کو اسلام کے لیے وقف نہیں کردیا۔ اسلامی نظام مکہ میں قائم نہیں ہوا تھا، مدینہ میں ہوا تھا۔
۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی شریک ہوئی تو اس پر ٹھیک اس اندازسے الزامات اور اتہامات کی بوچھاڑ کردی گئی، جس طرح دعوتِ حق سے اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھ کر ہر مقتدر طبقہ، داعی حق پر حملہ آور ہوتا ہے: ’یہ تو اقتدار حاصل کرنے کی چال ہے‘۔
مولانا مودودیؒ نے ان تمام الزامات کے جواب میں فرمایا: بلاشبہہ ہم اقتدار چاہتے ہیں، لیکن اپنے لیے نہیں اسلام کے لیے چاہتے ہیں۔ اور یہی چیز جماعت اسلامی کی سیاست کو دُنیادار سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں سے ممتاز اور ممیز کرتی ہے۔
جماعت اسلامی کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ خیرخواہی کے اصول و مقصد کے حصول کے لیے سیاست میں آئی۔ اس کی انتخابی مہم حقیقت میں ایک دعوتی مہم ہوتی ہے اور اس کو اس کی کبھی طلب نہیں ہوئی کہ وہ اصول توڑ کر یا دعوت سے دست بردار ہوکر کامیابی حاصل کرے۔ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں، جب جماعت اسلامی کا اُمیدوار چند ووٹوں سے رہ گیا۔ وہ ووٹ خریدنے کے لیے تیار ہوتا تو بآسانی جیت سکتا تھا، مگر اس نے ناکامی کو ترجیح دی لیکن اصول شکنی نہیں کی۔ کیونکہ جماعت اسلامی کے نزدیک اصل کامیابی انتخابات میں کامیابی نہیں، بلکہ دعوت، اصول اور اخلاق پر استقامت میں ہے، یعنی آخرت کے ہرفائدے کو دُنیاوی فائدے کے مقابلے میں سچ جاننا اور ہرخوف اور لالچ کے مقابلے میں اپنے موقف سے سرموانحراف نہ کرنا ہی اس سیاست کا دائرئہ کار ہے۔
تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ جن دُنیادار پارٹیوں نے کسی مقصد کے لیے سیاست کی، انھوں نے بھی اصولوں کے مقابلے میں اقتدار کو ٹھکرانے کی بڑی ولولہ انگیز مثالیں پیش کی ہیں۔
دُنیا نے سیاست کو ہمیشہ غیر اخلاقی اور غیراصولی کھیل سمجھا ہے۔ جماعت اسلامی نے پہلی مرتبہ عملاً دکھایا کہ سیاست میں اخلاق اور اصول کا دامن چھوڑے بغیر بھی حصہ لیاجاسکتا ہے اور ملک کو حقیقی ترقی اس وقت ملتی ہے، جب سیاست میں اخلاق اور اصول آتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی سیاست میں دوسری بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے نہ بکنے والے اور نہ جھکنے والے امانت دار، وعدے اور عہد کے سچّے، اور اخلاق و اصول کے پابند سیاسی کارکن پیدا کیے۔ اپنی دعوت کا عملی نمونہ بن کر دکھانا، یہ جماعت اسلامی کا بنیادی اصول ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
صرف اتنی بات کافی نہیں کہ ایک صحیح نظریہ موجود ہے بلکہ ایسے لوگ درکار ہیں جو اس نظریے پر سچا ایمان رکھتے ہوں۔ ایک صحیح نظریے کی پشت پر ایسے صادق الایمان لوگوں کی جماعت جب تک نہ ہو، محض نظریہ خواہ کتنا ہی بلندپایہ ہو، کتابوں کے صفحات سے منتقل ہوکر ٹھوس زمین میں کبھی جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ زمین اتنی حقیقت پسند ہے کہ جب تک کسان اپنے صبر، اپنی محنت، اپنے بہتے ہوئے پسینے اور اپنی جفاکشی سے اس پر اپنا حق ثابت نہیں کردیتا، وہ لہلہاتی ہوئی کھیتی غلّہ اُگلنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔
مولاناؒ اکثر فرمایا کرتے تھے:
ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے… ہمیں ایک عوامی تحریک چلانے سے پہلے ایسے آدمی تیار کرنے کی فکر کرنی چاہیے، جو بہترین سیرت کے حامل ہوں، اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوہرے فرائض بھی سنبھال سکیں۔ان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، اور ان کے وعدوں اور دعوئوں میں مبالغہ آمیزی نہ ہو۔
جماعت اسلامی کو سیاست میں حصہ لیتے وقت ایک مدت ہوچکی ہے۔ اس کے بعض افراد بڑی بڑی ذمہ داریوں پر فائز ہوئے۔ ان کے بارے میں اور دسیوں شکایات ہوں گی لیکن کوئی ان پر امانت میں خیانت کا الزام عائد نہ کرسکا۔ جماعت اسلامی کے دس بیس نہیں سیکڑوں کارکن گرفتار ہوئے، لیکن ایک مثال نہیں دی جاسکتی کہ جماعت کے کسی ادنیٰ کارکن نے بھی معافی مانگی ہو۔
ہندستان میں دیکھتے ہیں کہ اندراگاندھی کی ایمرجنسی [۷۷-۱۹۷۵ء: ۲۱ ماہ] کے دوران اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے ساتھ وہاں کی جماعت اسلامی بھی اس کی زد میں آگئی اور اس کے سیکڑوں کارکن گرفتار کر لیے گئے تب غیرمسلم انتظامیہ کو پہلی مرتبہ سچے مسلمانوں سے واسطہ پڑا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جہاں سیاسی کارکن جیل کے ضابطے توڑنے میں کوئی تامل نہیں کرتے، وہاں یہ لوگ ضابطہ توڑنے کا موقع پاکر بھی نہیں توڑتے۔ پولیس نے غلطی سے کسی اور کو پکڑ لیا تو اصل مطلوب اَزخود تھانے پہنچ گیا۔
دسمبر۱۹۷۱ء میں بالکل یہی منظر بنگلہ دیش بننے کے بعد مجیب الرحمان کی فسطائی حکمرانی سے لے کر ان کی بیٹی حسینہ واجد کے دورِ ستم تک میں ساری دُنیا نے دیکھا کہ جماعت اسلامی کے کارکن نہ پھانسیوں سے ڈرے، نہ قید، گولی اور کاروبار کی تباہی سے اُن کے قدم ڈگمگائے اور نہ کارِ سیاست میں ان کے دامن پر کوئی دھبہ لگا۔
دنیادار لوگ، سیاست میں سچائی اور اخلاق کا مذاق اُڑاتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی، جب تک اس کی سیاست اور اجتماعی زندگی اصولوں کی پابند نہ ہو۔جماعت اسلامی جن اصولوں کے ساتھ سیاست میں داخل ہوئی، ان کی روشنی میں موجود منظرنامے پر ایک نگاہ ڈالیں تو دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
[ترمیم و اضافہ: س م خ]