سیاست جو کچھ بھی ہو، فی زمانہ بدنام شعبۂ زندگی ہے۔ ایک نوجوان تعلیم سے فارغ ہوا تو اس سے کسی بزرگ نے پوچھا: ’تم اب کیا کروگے؟‘ باہمت نوجوان نے کہا: ’میں سیاست اختیار کروں گا‘۔ بزرگ نے کہا: ’بیٹا! یہ کوئی پیشہ ہے،یہ تو بدنامی کا گھر ہے۔ اس میں داخل ہوکر آدمی راست باز اور دیانت دار نہیں رہ سکتا‘۔
سیاست کے بارے میں یہ تاثر صرف مشرق ہی میں نہیں، خود مغرب میں بھی پایا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک اخبار نے رائے عامہ کو جاننے کے لیے سروے کیا کہ ’لوگ سیاست کو کیا سمجھتے ہیں؟‘ تو اس اخبار کے نمایندے نے ایک خاتون سے پوچھا: ’محترمہ، آپ کے خیال میں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں؟ اس نے رُک رُک کر جواب دیا: ’حصہ لینا چاہیے ___ لیکن زیادہ نہیں کہ اس میں وقت ضائع ہوتا ہے، مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا‘۔
جس طرح ہمارے ہاں سیاست کو جھوٹ، مکر اور فریب سے تعبیر کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح یورپ میں بھی اسے دھوکے بازی کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا: ’جو آدمی سیاست کو ترجیح دیتا ہے وہ سچا مسیحی ہونا تو کجا ایک مہذب شخص بھی نہیں رہ سکتا‘۔
سیاست کے بارے میں یہ عمومی تصور ہے کہ یہ حصولِ اقتدار کا ذریعہ ہے۔ صرف وہی لوگ سیاست میں حصہ لیتے ہیں، جواقتدار، جاہ اور شہرت کے طالب ہوں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ عام مشاہدہ بھی یہی ہے، جس کے دل میں شہرت، نام وری اور حب ِجاہ چٹکیاں لیتی ہے، وہ سیاست اور اسٹیج کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ اس سے آدمی کے احساسِ برتری کو تسکین ملتی ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ سیاست میں آدمی راست بازی اور اصول کے راستے پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس سلسلے میں انتخابی وعدوں اور بعد کے طرزِعمل کا تقابل کیجیے۔ ان ارکان اسمبلی کو دیکھیے، جو پیچھے رہ جانے والی پارٹی سے نکل کر آگے نکل جانے والی پارٹی میں جاشامل ہوتے ہیں۔ جہاں اقتدار دیکھتے ہیں، وہیں برات لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً غیرجماعتی سیاست کے نفاذ نے تو ہمارے ہاں اور بھی غضب ڈھایا۔ جب جماعتیں نہ رہیں تو پیسہ اور برادری چلنے لگی، اور اب سیاست نے ایک اور رنگ دکھایا ہے کہ آدمی کے پاس پیسہ اور ایوانِ اقتدار سے کوئی تعلق ہو تو وہ قوم کا قائد بن سکتا ہے۔
صدرفیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب نے ایک روز گورنر ہائوس لاہور میں مولانا مودودی کو ملاقات کی دعوت دی۔ کچھ دیر تبادلۂ خیالات کے بعد، مشفقانہ انداز میں ایوب خان صاحب نے فرمایا: ’مولانا، یہ سیاست تو بڑا گندا کام ہے، آپ جیسے بلند کردار اور پاکیزہ نفس لوگ اس میں کیوں پڑگئے ہیں؟ آپ اسے چھوڑ دیں اور ملک کے اندر بھی اور دُنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی تبلیغ فرمائیں اور خلقِ خدا کی اصلاح کریں۔ سیاست، سیاسی لوگوں کو کرنے دیں، کیونکہ اس دلدل میں جو بھی قدم رکھے گا کیچڑ سے لت پت ہوگا۔ آپ مذہب کا اور تبلیغ کا کام کریں تو ہماری حکومت آپ سے تعاون کرے گی‘۔
مولانا مودودی نے جنرل ایوب صاحب کو جواب میں فرمایا: ’جنرل صاحب، آپ ٹھیک ہی فرماتے ہیں کہ اس وقت سیاست کو غلط کار اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے ایک گندا کھیل بنادیا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے، اور اسی خرابی نے ہماری زندگی کے ہر دوسرے شعبے کو فلتھ ڈپو (گندگی کا مرکز) بنادیا ہے۔ اس لیے جب تک سیاست کو گندگی سے پاک نہیں کیا جائے گا، زندگی کے کسی شعبے کو بھی درست اور صحت مند نہیں بنایا جاسکے گا۔ اجتماعی نظامِ زندگی سے اس گندگی کو دُور کرنے کی کوشش ہمارے نزدیک کوئی سیاسی کام نہیں بلکہ یہ سراسر ایک دینی فریضہ ہے‘۔
ایوب خان صاحب نے فرمایا: ’مولانا، پھر یہ کام کرتے ہوئے تو آپ اپنے کو غلاظت سے آلودہ ہونے سے نہیں بچاسکتے‘۔
مولانا مودودی نے جواب دیا: ’اس میں کیا شک ہے کہ جو شخص بھی غلاظت اور سیوریج صاف کرنے کا کام کرے گا، وہ چاہے کتنی ہی احتیاط برتے، کچھ نہ کچھ چھینٹے تو اس کے کپڑوں پر ضرور پڑیں گے۔ لیکن اگر اس خوف سے سیوریج صاف ہی نہ کیا جائے تو پھر لامحالہ سارے شہر کی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے‘ [میاں طفیل محمد، مشاہدات، ص ۳۲۲، ۳۲۳]۔ ذرا زچ ہوکر ایوب صاحب نے کہا:’آج تک یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی، کہ سیاست کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟‘مولانا نے برملا کہا: ’جنرل صاحب، یہ تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا، مگر دوسری طرف پوری قوم کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟‘___ اور اس کے بعد دونوں میں گفتگو ختم ہوگئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہرمصلح کو اسی نوع کے اعتراضات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم سے کہا:’جھوٹے خدائوں کو چھوڑ کر سچے خدا کی عبادت کریں اور اپنے مال سے اپنے معذور اور نادار بھائیوں کی مدد کریں‘ تو انھوں نے پلٹ کر کہا: ’کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ تو ہمارے عقائد میں دخل دے اور ہم کو اپنے مال و دولت کے خرچ کے طریقے بتائے؟‘
حضر ت شعیب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ’’میں تو تمھاری اصلاح کرنا چاہتا ہوں، جہاں تک بھی میرا بس چلے‘‘۔
اللہ کے نیک بندے سیاست میں اس مقصد کے لیے داخل ہوتے ہیں اور اسی مقصد کو لے کر جماعت اسلامی سیاست میں گئی۔ وہ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ اصلاح کے لیے سیاست میں داخل ہوئی۔ بلاشبہہ اس میدان کو اہل ہوس نے بدنام کردیا ہے، لیکن مولانا رومؒ کے بقول:
کار پاکاں را قیاس ازخود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر شِیر
پاکیزہ لوگوں کو اپنے اُمورپر قیاس مت کرو۔ شیر اور شِیر لکھنے میں ایک ہیں، لیکن معنی میں ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ شیر پھاڑنے والا درندہ ہے، جب کہ شِیر (دودھ) حیات بخش غذا ہے۔
کسی دینی اور اصولی جماعت کا سیاست میں آنا اہل دنیا کے لیے ہمیشہ سے تعجب کا سبب رہا ہے۔ ایک انٹرویو نگار نے مولانا مودودی سے دریافت کیا: ’آپ نے سیاست کیوں اختیار کی؟‘ مولانا نے جواب میں فرمایا:
کیا سیاست بھی کوئی پیشہ ہے جسے اختیار کیا جائے؟___ دراصل سیاست کو لوگوں نے آج کل اُوپر چڑھنے کا زینہ اور شہرت کا ہتھکنڈا بنالیا ہے۔ میں نے سیاست اختیار نہیں کی۔ جو لوگ اپنا کوئی مقصد ِ زندگی رکھتے ہیں، وہ اجتماعی زندگی کے معاملات میں کچھ اختیار کرکے دل چسپی نہیں لیا کرتے بلکہ ان کے مقصد کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں دلچسپی لیں، جس کا اثر ان کے مقصد پر موافق یا مخالف پڑتا ہو___میں نے جب اسلام کو شعوری طور پر قبول کیا، تو اس طرح لامحالہ میری زندگی کا یہ مقصد بن گیا کہ میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے کوشش کروں اور پھر اس نشاتِ ثانیہ کے لیے جس جس پہلو میں بھی کام کرنے کی ضرورت پیش آتی گئی، اس کی طرف عین اپنے مقصد کے تقاضے سے توجہ کرتا چلا گیا۔ اس کے لیے یہ بھی ضرورت تھی کہ اسلام کو غالب کرنے کی راہ میں جوجو طاقتیں مزاحم ہیں، ان کی مزاحمت کو دُور کیا جائے۔یوں آپ سے آپ اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی طرف توجہ کرنی پڑی،بغیر اس کے کہ کسی روز بیٹھ کر یہ ارادہ کرتا کہ مجھے فلاں چیز اختیار کرنی چاہیے۔[انٹرویو نگار، علی سفیان آفاقی، ہفت روزہ اقدام، لاہور، اکتوبر ۱۹۵۳ء]
یہ ایک بامقصد شخص کے سیاست میں داخل ہونے کا فطری عمل ہے۔ مولانا مودودیؒ سیاست میں مقصد ِزندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے داخل ہوئے۔ جہاں جہاں مقصد کو پیش قدمی کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں قدم زن ہوتے گئے۔ انتخابات کا وقت آیا تو محسوس ہوا کہ جہاں دُنیادار نمایندے اپنا پروگرام قوم کے سامنے پیش کر رہے تھے، وہاں اگر دین کا پیغام بھی قوم تک پہنچا دیا جائے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا؟ چنانچہ جماعت اسلامی انتخابی میدان میں بھی اُتر آئی۔ لیکن مولانا مودودیؒ کے نزدیک خود دین اور سیاست کا بھی تقاضا ہے کہ اس میں دخل دیا جائے۔ قرآن میں دین کو قائم کرنے کا حکم ہے اور اس حکم کی تعمیل نہیں ہوسکتی جب تک اقتدار دین کے تابع نہ ہو۔ اسی طرح حکومت زبردست اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ یہ خراب ہوجائے تو معاشرے کو خرابی سے نہیں بچایا جاسکتا۔ اسی لیے مولانا نے فرمایا: ’حکومت کی خرابی خرابیوں کی جڑ ہے‘۔ پھر مولانا مودودیؒ نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
دین قائم نہیں ہوسکتا جب تک معاشرے کی اجتماعی قوت اصلاح پذیر نہ ہو۔ ناگزیر ہے کہ وہ طاقت صالح اور رُوبہ خیر ہو، جو ملک اور معاشرے کے تمام وسائل و ذرائع پر قبضہ و اقتدار رکھتی ہو۔ جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو ہمیں سیاست کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان مکہ میں ہوا تھا، یا مدینے میں؟ اللہ کا دین اس وقت تک قائم نہیں ہوا جب تک آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی حکومت قائم نہیں کرلی اور اقتدار کی طاقت کو اسلام کے لیے وقف نہیں کردیا۔ اسلامی نظام مکہ میں قائم نہیں ہوا تھا، مدینہ میں ہوا تھا۔
۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی شریک ہوئی تو اس پر ٹھیک اس اندازسے الزامات اور اتہامات کی بوچھاڑ کردی گئی، جس طرح دعوتِ حق سے اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھ کر ہر مقتدر طبقہ، داعی حق پر حملہ آور ہوتا ہے: ’یہ تو اقتدار حاصل کرنے کی چال ہے‘۔
مولانا مودودیؒ نے ان تمام الزامات کے جواب میں فرمایا: بلاشبہہ ہم اقتدار چاہتے ہیں، لیکن اپنے لیے نہیں اسلام کے لیے چاہتے ہیں۔ اور یہی چیز جماعت اسلامی کی سیاست کو دُنیادار سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں سے ممتاز اور ممیز کرتی ہے۔
جماعت اسلامی کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ خیرخواہی کے اصول و مقصد کے حصول کے لیے سیاست میں آئی۔ اس کی انتخابی مہم حقیقت میں ایک دعوتی مہم ہوتی ہے اور اس کو اس کی کبھی طلب نہیں ہوئی کہ وہ اصول توڑ کر یا دعوت سے دست بردار ہوکر کامیابی حاصل کرے۔ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں، جب جماعت اسلامی کا اُمیدوار چند ووٹوں سے رہ گیا۔ وہ ووٹ خریدنے کے لیے تیار ہوتا تو بآسانی جیت سکتا تھا، مگر اس نے ناکامی کو ترجیح دی لیکن اصول شکنی نہیں کی۔ کیونکہ جماعت اسلامی کے نزدیک اصل کامیابی انتخابات میں کامیابی نہیں، بلکہ دعوت، اصول اور اخلاق پر استقامت میں ہے، یعنی آخرت کے ہرفائدے کو دُنیاوی فائدے کے مقابلے میں سچ جاننا اور ہرخوف اور لالچ کے مقابلے میں اپنے موقف سے سرموانحراف نہ کرنا ہی اس سیاست کا دائرئہ کار ہے۔
تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ جن دُنیادار پارٹیوں نے کسی مقصد کے لیے سیاست کی، انھوں نے بھی اصولوں کے مقابلے میں اقتدار کو ٹھکرانے کی بڑی ولولہ انگیز مثالیں پیش کی ہیں۔
دُنیا نے سیاست کو ہمیشہ غیر اخلاقی اور غیراصولی کھیل سمجھا ہے۔ جماعت اسلامی نے پہلی مرتبہ عملاً دکھایا کہ سیاست میں اخلاق اور اصول کا دامن چھوڑے بغیر بھی حصہ لیاجاسکتا ہے اور ملک کو حقیقی ترقی اس وقت ملتی ہے، جب سیاست میں اخلاق اور اصول آتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی سیاست میں دوسری بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے نہ بکنے والے اور نہ جھکنے والے امانت دار، وعدے اور عہد کے سچّے، اور اخلاق و اصول کے پابند سیاسی کارکن پیدا کیے۔ اپنی دعوت کا عملی نمونہ بن کر دکھانا، یہ جماعت اسلامی کا بنیادی اصول ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
صرف اتنی بات کافی نہیں کہ ایک صحیح نظریہ موجود ہے بلکہ ایسے لوگ درکار ہیں جو اس نظریے پر سچا ایمان رکھتے ہوں۔ ایک صحیح نظریے کی پشت پر ایسے صادق الایمان لوگوں کی جماعت جب تک نہ ہو، محض نظریہ خواہ کتنا ہی بلندپایہ ہو، کتابوں کے صفحات سے منتقل ہوکر ٹھوس زمین میں کبھی جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ زمین اتنی حقیقت پسند ہے کہ جب تک کسان اپنے صبر، اپنی محنت، اپنے بہتے ہوئے پسینے اور اپنی جفاکشی سے اس پر اپنا حق ثابت نہیں کردیتا، وہ لہلہاتی ہوئی کھیتی غلّہ اُگلنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔
مولاناؒ اکثر فرمایا کرتے تھے:
ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے… ہمیں ایک عوامی تحریک چلانے سے پہلے ایسے آدمی تیار کرنے کی فکر کرنی چاہیے، جو بہترین سیرت کے حامل ہوں، اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوہرے فرائض بھی سنبھال سکیں۔ان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، اور ان کے وعدوں اور دعوئوں میں مبالغہ آمیزی نہ ہو۔
جماعت اسلامی کو سیاست میں حصہ لیتے وقت ایک مدت ہوچکی ہے۔ اس کے بعض افراد بڑی بڑی ذمہ داریوں پر فائز ہوئے۔ ان کے بارے میں اور دسیوں شکایات ہوں گی لیکن کوئی ان پر امانت میں خیانت کا الزام عائد نہ کرسکا۔ جماعت اسلامی کے دس بیس نہیں سیکڑوں کارکن گرفتار ہوئے، لیکن ایک مثال نہیں دی جاسکتی کہ جماعت کے کسی ادنیٰ کارکن نے بھی معافی مانگی ہو۔
ہندستان میں دیکھتے ہیں کہ اندراگاندھی کی ایمرجنسی [۷۷-۱۹۷۵ء: ۲۱ ماہ] کے دوران اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے ساتھ وہاں کی جماعت اسلامی بھی اس کی زد میں آگئی اور اس کے سیکڑوں کارکن گرفتار کر لیے گئے تب غیرمسلم انتظامیہ کو پہلی مرتبہ سچے مسلمانوں سے واسطہ پڑا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جہاں سیاسی کارکن جیل کے ضابطے توڑنے میں کوئی تامل نہیں کرتے، وہاں یہ لوگ ضابطہ توڑنے کا موقع پاکر بھی نہیں توڑتے۔ پولیس نے غلطی سے کسی اور کو پکڑ لیا تو اصل مطلوب اَزخود تھانے پہنچ گیا۔
دسمبر۱۹۷۱ء میں بالکل یہی منظر بنگلہ دیش بننے کے بعد مجیب الرحمان کی فسطائی حکمرانی سے لے کر ان کی بیٹی حسینہ واجد کے دورِ ستم تک میں ساری دُنیا نے دیکھا کہ جماعت اسلامی کے کارکن نہ پھانسیوں سے ڈرے، نہ قید، گولی اور کاروبار کی تباہی سے اُن کے قدم ڈگمگائے اور نہ کارِ سیاست میں ان کے دامن پر کوئی دھبہ لگا۔
دنیادار لوگ، سیاست میں سچائی اور اخلاق کا مذاق اُڑاتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی، جب تک اس کی سیاست اور اجتماعی زندگی اصولوں کی پابند نہ ہو۔جماعت اسلامی جن اصولوں کے ساتھ سیاست میں داخل ہوئی، ان کی روشنی میں موجود منظرنامے پر ایک نگاہ ڈالیں تو دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
[ترمیم و اضافہ: س م خ]
تحریک اسلامی کو ایک جنین کی طرح ذہن کی گہرائیوں سے اُبھرنے اور تناور درخت بننے تک کئی مرحلوں سے گزرنا پڑا۔پہلا مرحلہ وہ تھا جب وہ ایک مبہم سا احساس تھی، اور ایک واضح شکل اختیار کرنے کے لیے مضطرب تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندستان میں ہندو سیاسی طور پر منظم ہوچکے تھے، ان کی تنظیم بھی وجود میں آچکی تھی اور وہ اپنی قیادت پر بھی متفق ہوچکے تھے۔ اس کے مقابلے میں مسلمان ایک بے سری فوج ہوکر رہ گئے تھے۔ ان کی نہ تو کوئی فعال تنظیم تھی، اور نہ اپنی قیادت پر متفق الرائے تھے۔ تلاشِ منزل میں وہ کبھی انڈین نیشنل کانگریس کے قافلے میں جاشامل ہوتے، تو کبھی مایوس ہوکر پلٹ آتے۔ دوسری جانب ہندو یکسوئی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ لیکن مسلمانوں میں کبھی ہجرت کی تحریک اُٹھی، اور کبھی خلافت کی۔ پھر ان تحریکوں سے ان کو جس طرح صدمے پہنچے اس سے ان کا سفر اور بھی کٹھن ہوگیا۔ وہ ایک طرف آزادیٔ وطن کے لیے کوشاں تھے، تو دوسری طرف ان کو اپنے دین کی مدافعت میں معاندانہ یلغاروں کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا تھا۔ مسلمانوں کا یہی تذبذب دیکھ کر ہندوئوں کے رہنما مسٹر گاندھی نے ان سے کہا تھا: ’’تم ہمارے ساتھ چلتے ہو، ٹھیک ہے، نہیں چلتے تو ہمارا قافلہ تمھارے انتظار میں رُکے گا نہیں‘‘۔
یہ حالات تھے، جن میں مولانا مودودیؒ نے دین کے دفاع میں الجہاد فی الاسلام لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا۔اس معرکہ آرا تصنیف کی تسوید کے دوران میں مولانا پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ مسلما ن دُنیا کی عام قوموں کی طرح محض ایک قوم نہیں ہیں، جس کو صرف سیاسی آزادی درکار ہو، بلکہ وہ ایک ایسی قوم ہے جس کا ایک مقصد اور ایک مشن ہے اور وہ اس کو بروئے کار لانے کے لیے اُٹھائی گئی ہے۔ مقصد ِ دین کا یہ پہلا احساس تھا جس سے گزر کر تحریک اسلامی اپنے واضح اور روشن نصب العین کی جانب رواں ہوئی۔
پہلا مرحلہ اس صدی کے تیسرے عشرے میں ۱۹۲۴ء سے ۱۹۲۹ء پر محیط ہے۔ دوسرا مرحلہ چوتھے عشرے کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔ اسی زمانے میں کانگریس کی طرف سے مسلمانوں کو متحدہ قومیت کی جانب کھینچنے کے لیے رابطۂ مسلم عوام مہم چلائی گئی تھی۔ اگرچہ مسلمانوں کا عمومی ذہن اس مسئلے کے سلسلے میں صاف نہیں تھا کیونکہ متحدہ قومیت کی دعوت کا پرچم بہت سے اہل دین بھی اُٹھائے ہوئے تھے، تاہم مسلمان اس سے کھنچتے تھے۔ مسلمانوں کی اس نیم دلی نے مولانا مودودی پر دوسری حقیقت یہ منکشف کی کہ مسلمان چونکہ ایک الگ مقصد ِ زندگی رکھتے ہیں، اس لیے وہ کسی دوسری تہذیب اور قومیت میں جذب نہیں ہوسکتے۔ دوسری قوموں کی بنیاد اگر زبان، تہذیب، رنگ اور نسل ہے، تو مسلمانوں کی قومیت کی اساس مذہب ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس حقیقت کو وضاحت کے ساتھ مسئلہ قومیت اور اپنی ایک دوسری کتاب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش میں بیان فرمایا۔
اسی اثنا میں حالات نے مسلمانوں کو بھی منظم ہونے کی طرف متوجہ کیا اور ان کے اندر اپنی جداگانہ قومیت کا احساس نمو پانے لگا۔
تحریک اسلامی کا تیسرا مرحلہ اسی زمانے میں آیا، یعنی ۱۹۴۰ء سے اگست ۱۹۴۱ء تاسیس جماعت تک۔ اس دوران کُل ہند مسلم لیگ کی طرف سے قرارداد لاہور پیش ہوتی ہے، جس میں مسلمان اکثریتی علاقوں کے لیے الگ نظام بنانے کا مطالبہ تھا۔ اس قرارداد کے بعد تحریک ِ پاکستان بڑی تیزی سے مسلمانانِ ہند میں مقبول ہوگئی۔ لیکن تھوڑی ہی مدت میں نمایاں ہوگیا کہ یہ تحریک خالص قوم پرستانہ رنگ میں ڈھلتی جارہی ہے۔ مولاناؒ کو خدشہ ہوا کہ قوم پرستی کے جذبات کہیں قوم کو دینی مقاصد سے اجنبی نہ بنادیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ قومی ریاست اور اسلامی ریاست کا فرق واضح فرمایا۔
مولاناؒ نے بتایا کہ مسلمانوں کی کسی قومی مملکت کے وجود پذیر ہونے کا یہ لازمی مطلب نہیں کہ اسلامی ریاست بھی قائم ہوگئی ۔ اسلامی ریاست اور قومی ریاست کے مقصد اور طریق کار میں جوہری فرق ہے۔ مولاناؒ نے یہ وضاحت ایک تقریر میں فرمائی جو بعد میں اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ مولاناؒ کی یہ تقریر عصرحاضر کے اسلامی لٹریچر میں ایک انقلابی موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولاناؒ نے جب قوم کو یہ بتانا چاہا کہ قرآن کی رُو سے مسلمانوں کا مقصود قومی نہیں اصولی اسلامی ریاست ہے، تو تحریک ِ اسلامی تیسرے مرحلے میں داخل ہوگئی۔
اس کے بعد چوتھا مرحلہ آتا ہے جو اگست ۱۹۴۱ء یعنی تاسیسِ جماعت سے قیامِ پاکستان تک چلتا ہے۔ اس مرحلے میں مولانا کی تمام تر توجہ دو اُمور پر مرکوز رہی:
دین کی حقیقت کے سلسلے میں مولانا نے بتایا کہ دین کسی مجموعۂ عبادت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظامِ حیات ہے جس کا منطقی تقاضا ہے کہ مسلمان کی زندگی انفرادی طور پر ہی نہیں اجتماعی طور پر بھی غیرمسلموں یا اسلام کی راہ پر نہ چلنے والوں سے مختلف ہو۔ مولاناؒ کا سب سے بڑا کارنامہ اسلام کی بحیثیت نظامِ زندگی وضاحت ہے۔ آپ نے بتایا کہ اسلام کسی زبانی اقرار یا زندگی میں جزوی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر انقلاب ہے جو زندگی کو اپنے حسب ِ منشا نئی بنیادوں پر اُٹھاتا ہے۔
اسلام کی اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہے جو جاہلی (غیراسلامی) تہذیب و ثقافت سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ اسلامی زندگی میں مصالحت اور دورنگی نہیں ہوتی یکسوئی ہوتی ہے اور مسلمان، مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں جب تک اس کی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کی منہ بولتی تصویر نہ ہو۔
مولاناؒ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ اسلام اور مسلمان ہم معنی نہیں۔ اسلام وہ نہیں جو مسلمان کرتے ہیں۔ اسلام اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کی غیرمشروط اطاعت کا نام ہے۔ اس میں ذاتی ذوق نہیں چلتا، مکمل سرافگندگی ہوتی ہے۔
مولاناؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کی تشریح اس اسلوب سے کی جس کو جدید ذہن سمجھ سکتاہے۔ انھوں نے بتایا کہ اسلام ایک انقلابی تحریک کا نام ہے جو انسانی زندگی کو نئی قدریں عطا کرتی ہے اور اسلام کا فریضہ صرف تبلیغ سے ادا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مولاناؒ کے اسی اسلوبِ بیان کا نتیجہ ہے کہ مغربی تعلیم یافتہ ذہن سے اسلام کے بارے میں بہت سے غلط تصورات صاف اور غلط فہمیاں دُور ہوگئیں۔
مولاناؒ نے جہاں دعوتِ دین کی وضاحت میں انقلاب بپا کیا، وہاں اسلامی و غیراسلامی تحریک کا فرق بھی نمایاں کیا۔ انھوں نے بتایا کہ عام سیاسی تحریکیں مسائل پر چلتی ہیں، جب کہ اقامت دین کی تحریک کی بنیاد، کردار ہوتا ہے۔
تنظیم کے سلسلے میں مولانا کا ایک یادگار کارنامہ اسلامی جماعتی زندگی کی عملی تعبیر ہے۔ جماعتی زندگی سمع و اطاعت، مشورے اور محاسبے سے چلتی ہے۔ اس میں اختلاف ہوتا ہے لیکن حدود کے اندر۔پھر مقصد ِ جماعت کو کارکنان میں زندہ و تازہ رکھنے کے لیے ہفتہ وار اجتماعات کا جو نظام قائم کیا وہ عدیم النظیر اور اثرات کے اعتبار سے حیرت انگیز ہے۔ ہفتہ وار اجتماعات کی بدولت نصب العین جماعت ایک زندہ حقیقت اور قوتِ نافذہ بن گیا۔انھی کی سبب سے جماعت اسلامی ایک منظم پارٹی بنی، جس کا اس کے بڑے سے بڑا دشمن بھی اعتراف پر مجبور ہے۔
تنظیم جماعت کے ساتھ ساتھ تربیت ِ کارکنان پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ مولاناؒ کے نزدیک کوئی جماعت حالات کا اس وقت تک مقابلہ نہیں کرسکتی جب تک اس کے ارکان پختہ ایمان اور پختہ سیرت کے مالک نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ کارکن نے بھی آج تک معافی مانگ کر رہائی حاصل کی اور نہ بکا، نہ جھکا۔
تربیت کے سلسلے میں مولانا ہمیشہ دو صفات پر زور دیتے تھے: صبراور حکمت۔اور سچّی بات ہے کہ طویل اجتماعی تنظیمی تجربے نے بتایا ہے کہ ایک تنظیم میں یہی دوصفات، اصل زادِ راہ ہیں۔
اس کے بعد ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا مرحلہ آگیا۔ جماعت اسلامی بھی ہندستان کی دو بڑی جماعتوں کانگریس اور مسلم لیگ کی مانند دو حصوں میں بٹ گئی۔ اپنے اپنے ملک کے مخصوص احوال و ظروف کی وجہ سے پاکستان اور ہندستان کی جماعتوں کی راہیں الگ ہوگئیں اور انھیں الگ الگ اندازِ کار اپنانے پڑے۔ ہندستان میں مسلمانوں کو اکثریتی فرقے کے آئین کے تحت زندگی گزارنا تھی، جب کہ پاکستان میں اُنھیں دستورِ مملکت خود بنانا تھا۔
بنابریں پاکستان میں جماعت اسلامی کو اپنی جدوجہد کا آغاز دستوری مہم سے کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے دستور کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ پر رکھی جائے۔ جماعت اسلامی کے اس مطالبے کو حیرت انگیز پذیرائی حاصل ہوئی۔ پوری قوم نے اس مطالبے کو اپنا مطالبہ بنالیا۔ اسی کے نتیجے میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور ہوئی جو دُنیا کی دستوری تاریخ میں ایک انقلابی موڑ ثابت ہوئی۔
جماعت اسلامی ہند نے جن حالات میں اپنے کام کا آغاز کیا وہ انتہائی حوصلہ شکن اور نامساعد تھے۔ مسلمانوں پر مایوسی کی سی کیفیت طاری تھی۔ جماعت اسلامی ہند کی سب سے بڑی ملّی خدمت یہ ہے کہ اس نے ہندستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو حوصلہ بخشا۔ پھر جماعت اسلامی ہند نے دو بنیادوں پر اپنے کام کا آغاز کیا:
۱- مسلمانوں میں عزم و حوصلہ پیدا کرنا اور غیرمسلموں کے سامنے اپنی عملی زندگی سے اسلام کی سچی تصویر پیش کرنا۔
۲- غیرمسلموں کو اسلام کے صحیح تعارف سے روشناس کرانا۔
ہندستان کے مسلمانوں کو اکثریتی تہذیب سے بچانے کے لیے جماعت اسلامی نے اسلامی تعلیم گاہوں کا جو جال بچھایا ہے، وہ ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اس سے بھارت کے مسلمانوں کی آیندہ نسلیں نہ صرف غیرمسلم اثرات سے محفوظ ہوگئیں بلکہ مسلمانوں کی زبان بھی اکثریتی زبان کی دست برد سے بچ گئی۔
تقسیم ہند جس زمانے میں ہوئی ہے وہ عالمی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ جنگ ِ عظیم دوم نے پرانے سماجی اور سیاسی نظام کو منہدم کردیا تھا اور دُنیا بھر میں ایک نئے آفاقی نظام کی طلب پیدا ہوگئی تھی۔ ٹھیک اس زمانے میں تحریک اسلامی کے لٹریچر کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوکر پھیلنے لگے۔ اس سے عالمی تحریک ِ اسلامی کا ہیولا بتدریج اُبھرنے لگا۔ تحریکِ اسلامی کو اس وسعت سے مختلف مسائل اور چیلنجوں کا سامنا بھی ہوا۔ کہیں دبی ہوئی مسلمان اقلیتیں تھیں جن کے لیے اصل مسئلہ اپنے ثقافتی تشخص کی بحالی تھا، کہیں خودمختار مسلمان اکثریتیں تھیں جو اپنے داخلی، خارجی، اور آئینی مسائل میں اُلجھی ہوئی تھیں۔ اگر اسلام تمام مسائل کا حل ہے تو پھر تحریک اسلامی کے لیے یہ چیلنج تھا کہ وہ بتاتی کہ عصرحاضر کے پیچیدہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل کے اسلامی حل کیا ہیں؟ الحمدللہ کہ تحریک اسلامی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور ہرشعبۂ زندگی کے مسائل کے لیے کتاب و سنت سے رہنما اصول پیش کر دیئے، حتیٰ کہ تحریک اسلامی کی مساعی سے اسلامی ریاست کا ایک ماڈل دستور بھی تیار ہوگیا جو صرف مسلم ریاستوں ہی کے لیے نہیں غیرمسلم دُنیا کے لیے بھی روشنی کا مینار ہے۔
پاکستان کے اندر جماعت اسلامی کو کن مراحل سے گزرنا پڑا، وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ تحریکیں کتابی راستوں سے نہیں اَن دیکھی راہوں سے بڑھتی ہیں۔ اصل ضرورت اپنے بنیادی اصولوں کی سختی سے پابندی ہوتی ہے۔الحمدللہ کہ جماعت اسلامی نے اپنے بنیادی اصولوں پر کبھی مصالحت گوارا نہ کی۔
پاکستان میں جماعت اسلامی کے لیے پہلا بنیادی مسئلہ پاکستان کے آئینی قبلے کی راستی تھا۔ اس کے بعد دوسرا مسئلہ دین دار قیادت کی فراہمی تھی، یعنی پاکستان میں ایسی قیادت برسرِاقتدار آئے جو دین کا صحیح فہم بھی رکھتی ہو اور اس کے نفاذ میں بھی مخلص ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ہرانتخابی عمل میں شرکت کا فیصلہ کیا۔
سیاسی تجربے میں جماعت اسلامی کو اُن ملتی جلتی حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑا، جو اسلام کو اس کے مدنی دور میں پیش آئی تھیں۔ جاہلی تعصبات، منافقت، خدا واسطے کا بیر، وسائل کی کمی، اندرونی جماعتی کمزوریاں اور بیرونی مزاحمتیں۔ لیکن اپنے تجربے کی بنا پر یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ پر صدقِ دل سے بھروسا کیا جائے تو راہ خود بخود صاف ہوتی چلی جاتی ہے۔
تمام مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود جماعت اسلامی نے پاکستان کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ جماعت اسلامی کی کامیابی کو اسمبلی کی نشستوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ اس کی سیاسی کامرانیوں سے جانچنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے اسلام کو پاکستان کا قومی نصب العین بنادیا:
۱- یہ جماعت اسلامی کی مطالبہ اسلامی دستور مہم تھی جس کے نتیجے میں تاریخ ساز قرارداد مقاصد منظورہوئی۔ اس سے مستقلاً طے پاگیا کہ پاکستان کی منزل اسلامی نظام ہے۔
۲- اسلامی نظام اب جماعت اسلامی ہی کا نہیں غیردینی سیاسی پارٹیوں کا بھی نعرہ بن گیا ہے۔ کسی اُمیدوار کی انتخابی مہم اس کے بغیر چل نہیں سکتی، جب تک وہ اسلامی نظام کے قیام کا وعدہ نہ کرے۔ اسلامی نظام کو قومی نصب العین بنادینا کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔
۳- یہ ہر دور میں جماعت اسلامی کا دبائو تھا جس نے دساتیر میں اسلامی دفعات کو قائم رکھا۔ ۱۹۷۱ء کے بعد ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں اشتراکی سیکولر نصب العین رکھنے والوں کی غالب اکثریت تھی۔ ان کی جانب سے پوری کوشش کی گئی کہ پاکستان کے دستور کو سیکولر رنگ دے دیا جاتا۔ لیکن الحمدللہ کہ یہ اسمبلی کے اندر جماعت اسلامی کے مٹھی بھر نمایندوں اور باہر سے اس کا تنظیمی دبائو تھا، جس نے ان کو مجبور کیا کہ وہ اسلامی دفعات کو من و عن قائم رکھیں اور وعدہ کریں کہ دس سال کے اندر پاکستان کے تمام قوانین کتاب و سنت کے مطابق بنادیئے جائیں گے۔
۴- پاکستان میں متعدد مرتبہ ایسے آمرانہ نظام آئے کہ عامۃ المسلمین کے بنیادی حقوق معطل کردیئے گئے۔ یہ جماعت اسلامی کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ عوام کے حقوق بحال ہوئے۔ ملک و قوم کی فلاح کا جب بھی معاملہ آیا جماعت اسلامی یا تو تن تنہا اُٹھ کھڑی ہوئی یا تعاون علی البر پر دوسروں سے اتحاد کیا۔ ایوب خان کے غیرجمہوری فسطائی نظام کے خلاف جب تحریک بپا ہوئی تو اس کے سالارِ قافلہ جماعت اسلامی کے بانی ہی تھے اور بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مولانا مرحوم کی تقریریں تھیں جنھوں نے قوم کا شعور بیدار اور ظالمانہ نظام کی بندشیں ڈھیلی کیں۔
فکری لحاظ سے تحریک اسلامی نے حجت تمام کردی ہے۔ اگلا مرحلہ نفاذ کا ہے۔ جس طرح فکری مرحلہ طے ہوا ہے ان شاء اللہ عملی نفاذ کا مرحلہ بھی طے ہوجائے گا۔ پاکستان میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ اسلامی نظام اب سامنے کی بات دکھائی دیتا ہے۔
تذکیر کے طور پر یہاں صرف ایک چیز کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اسلامی تحریک کی تمام تر بنیاد اسلامی سیرت و کردار ہیں، وہ نہ ہوں تو منزل پاکر بھی ہم نامراد رہیں گے۔ اس لیے تحریک اسلامی سے متعلق کارکنوں کو اس حقیقت سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے کہ دعوتِ دین کے فروغ کا تمام تر دارومدار ان کی اپنی سیرت اور کردار پر ہے۔ ان میں دین کی جھلک نہ ہوئی تو الفاظ کے دریا بہا دینے سے بھی تنکا بھر اسلامی انقلاب نہ آئے گا۔