تحریک اسلامی کو ایک جنین کی طرح ذہن کی گہرائیوں سے اُبھرنے اور تناور درخت بننے تک کئی مرحلوں سے گزرنا پڑا۔پہلا مرحلہ وہ تھا جب وہ ایک مبہم سا احساس تھی، اور ایک واضح شکل اختیار کرنے کے لیے مضطرب تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندستان میں ہندو سیاسی طور پر منظم ہوچکے تھے، ان کی تنظیم بھی وجود میں آچکی تھی اور وہ اپنی قیادت پر بھی متفق ہوچکے تھے۔ اس کے مقابلے میں مسلمان ایک بے سری فوج ہوکر رہ گئے تھے۔ ان کی نہ تو کوئی فعال تنظیم تھی، اور نہ اپنی قیادت پر متفق الرائے تھے۔ تلاشِ منزل میں وہ کبھی انڈین نیشنل کانگریس کے قافلے میں جاشامل ہوتے، تو کبھی مایوس ہوکر پلٹ آتے۔ دوسری جانب ہندو یکسوئی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ لیکن مسلمانوں میں کبھی ہجرت کی تحریک اُٹھی، اور کبھی خلافت کی۔ پھر ان تحریکوں سے ان کو جس طرح صدمے پہنچے اس سے ان کا سفر اور بھی کٹھن ہوگیا۔ وہ ایک طرف آزادیٔ وطن کے لیے کوشاں تھے، تو دوسری طرف ان کو اپنے دین کی مدافعت میں معاندانہ یلغاروں کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا تھا۔ مسلمانوں کا یہی تذبذب دیکھ کر ہندوئوں کے رہنما مسٹر گاندھی نے ان سے کہا تھا: ’’تم ہمارے ساتھ چلتے ہو، ٹھیک ہے، نہیں چلتے تو ہمارا قافلہ تمھارے انتظار میں رُکے گا نہیں‘‘۔
یہ حالات تھے، جن میں مولانا مودودیؒ نے دین کے دفاع میں الجہاد فی الاسلام لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا۔اس معرکہ آرا تصنیف کی تسوید کے دوران میں مولانا پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ مسلما ن دُنیا کی عام قوموں کی طرح محض ایک قوم نہیں ہیں، جس کو صرف سیاسی آزادی درکار ہو، بلکہ وہ ایک ایسی قوم ہے جس کا ایک مقصد اور ایک مشن ہے اور وہ اس کو بروئے کار لانے کے لیے اُٹھائی گئی ہے۔ مقصد ِ دین کا یہ پہلا احساس تھا جس سے گزر کر تحریک اسلامی اپنے واضح اور روشن نصب العین کی جانب رواں ہوئی۔
پہلا مرحلہ اس صدی کے تیسرے عشرے میں ۱۹۲۴ء سے ۱۹۲۹ء پر محیط ہے۔ دوسرا مرحلہ چوتھے عشرے کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔ اسی زمانے میں کانگریس کی طرف سے مسلمانوں کو متحدہ قومیت کی جانب کھینچنے کے لیے رابطۂ مسلم عوام مہم چلائی گئی تھی۔ اگرچہ مسلمانوں کا عمومی ذہن اس مسئلے کے سلسلے میں صاف نہیں تھا کیونکہ متحدہ قومیت کی دعوت کا پرچم بہت سے اہل دین بھی اُٹھائے ہوئے تھے، تاہم مسلمان اس سے کھنچتے تھے۔ مسلمانوں کی اس نیم دلی نے مولانا مودودی پر دوسری حقیقت یہ منکشف کی کہ مسلمان چونکہ ایک الگ مقصد ِ زندگی رکھتے ہیں، اس لیے وہ کسی دوسری تہذیب اور قومیت میں جذب نہیں ہوسکتے۔ دوسری قوموں کی بنیاد اگر زبان، تہذیب، رنگ اور نسل ہے، تو مسلمانوں کی قومیت کی اساس مذہب ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس حقیقت کو وضاحت کے ساتھ مسئلہ قومیت اور اپنی ایک دوسری کتاب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش میں بیان فرمایا۔
اسی اثنا میں حالات نے مسلمانوں کو بھی منظم ہونے کی طرف متوجہ کیا اور ان کے اندر اپنی جداگانہ قومیت کا احساس نمو پانے لگا۔
تحریک اسلامی کا تیسرا مرحلہ اسی زمانے میں آیا، یعنی ۱۹۴۰ء سے اگست ۱۹۴۱ء تاسیس جماعت تک۔ اس دوران کُل ہند مسلم لیگ کی طرف سے قرارداد لاہور پیش ہوتی ہے، جس میں مسلمان اکثریتی علاقوں کے لیے الگ نظام بنانے کا مطالبہ تھا۔ اس قرارداد کے بعد تحریک ِ پاکستان بڑی تیزی سے مسلمانانِ ہند میں مقبول ہوگئی۔ لیکن تھوڑی ہی مدت میں نمایاں ہوگیا کہ یہ تحریک خالص قوم پرستانہ رنگ میں ڈھلتی جارہی ہے۔ مولاناؒ کو خدشہ ہوا کہ قوم پرستی کے جذبات کہیں قوم کو دینی مقاصد سے اجنبی نہ بنادیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ قومی ریاست اور اسلامی ریاست کا فرق واضح فرمایا۔
مولاناؒ نے بتایا کہ مسلمانوں کی کسی قومی مملکت کے وجود پذیر ہونے کا یہ لازمی مطلب نہیں کہ اسلامی ریاست بھی قائم ہوگئی ۔ اسلامی ریاست اور قومی ریاست کے مقصد اور طریق کار میں جوہری فرق ہے۔ مولاناؒ نے یہ وضاحت ایک تقریر میں فرمائی جو بعد میں اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ مولاناؒ کی یہ تقریر عصرحاضر کے اسلامی لٹریچر میں ایک انقلابی موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولاناؒ نے جب قوم کو یہ بتانا چاہا کہ قرآن کی رُو سے مسلمانوں کا مقصود قومی نہیں اصولی اسلامی ریاست ہے، تو تحریک ِ اسلامی تیسرے مرحلے میں داخل ہوگئی۔
اس کے بعد چوتھا مرحلہ آتا ہے جو اگست ۱۹۴۱ء یعنی تاسیسِ جماعت سے قیامِ پاکستان تک چلتا ہے۔ اس مرحلے میں مولانا کی تمام تر توجہ دو اُمور پر مرکوز رہی:
دین کی حقیقت کے سلسلے میں مولانا نے بتایا کہ دین کسی مجموعۂ عبادت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظامِ حیات ہے جس کا منطقی تقاضا ہے کہ مسلمان کی زندگی انفرادی طور پر ہی نہیں اجتماعی طور پر بھی غیرمسلموں یا اسلام کی راہ پر نہ چلنے والوں سے مختلف ہو۔ مولاناؒ کا سب سے بڑا کارنامہ اسلام کی بحیثیت نظامِ زندگی وضاحت ہے۔ آپ نے بتایا کہ اسلام کسی زبانی اقرار یا زندگی میں جزوی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر انقلاب ہے جو زندگی کو اپنے حسب ِ منشا نئی بنیادوں پر اُٹھاتا ہے۔
اسلام کی اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہے جو جاہلی (غیراسلامی) تہذیب و ثقافت سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ اسلامی زندگی میں مصالحت اور دورنگی نہیں ہوتی یکسوئی ہوتی ہے اور مسلمان، مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں جب تک اس کی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کی منہ بولتی تصویر نہ ہو۔
مولاناؒ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ اسلام اور مسلمان ہم معنی نہیں۔ اسلام وہ نہیں جو مسلمان کرتے ہیں۔ اسلام اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کی غیرمشروط اطاعت کا نام ہے۔ اس میں ذاتی ذوق نہیں چلتا، مکمل سرافگندگی ہوتی ہے۔
مولاناؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کی تشریح اس اسلوب سے کی جس کو جدید ذہن سمجھ سکتاہے۔ انھوں نے بتایا کہ اسلام ایک انقلابی تحریک کا نام ہے جو انسانی زندگی کو نئی قدریں عطا کرتی ہے اور اسلام کا فریضہ صرف تبلیغ سے ادا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مولاناؒ کے اسی اسلوبِ بیان کا نتیجہ ہے کہ مغربی تعلیم یافتہ ذہن سے اسلام کے بارے میں بہت سے غلط تصورات صاف اور غلط فہمیاں دُور ہوگئیں۔
مولاناؒ نے جہاں دعوتِ دین کی وضاحت میں انقلاب بپا کیا، وہاں اسلامی و غیراسلامی تحریک کا فرق بھی نمایاں کیا۔ انھوں نے بتایا کہ عام سیاسی تحریکیں مسائل پر چلتی ہیں، جب کہ اقامت دین کی تحریک کی بنیاد، کردار ہوتا ہے۔
تنظیم کے سلسلے میں مولانا کا ایک یادگار کارنامہ اسلامی جماعتی زندگی کی عملی تعبیر ہے۔ جماعتی زندگی سمع و اطاعت، مشورے اور محاسبے سے چلتی ہے۔ اس میں اختلاف ہوتا ہے لیکن حدود کے اندر۔پھر مقصد ِ جماعت کو کارکنان میں زندہ و تازہ رکھنے کے لیے ہفتہ وار اجتماعات کا جو نظام قائم کیا وہ عدیم النظیر اور اثرات کے اعتبار سے حیرت انگیز ہے۔ ہفتہ وار اجتماعات کی بدولت نصب العین جماعت ایک زندہ حقیقت اور قوتِ نافذہ بن گیا۔انھی کی سبب سے جماعت اسلامی ایک منظم پارٹی بنی، جس کا اس کے بڑے سے بڑا دشمن بھی اعتراف پر مجبور ہے۔
تنظیم جماعت کے ساتھ ساتھ تربیت ِ کارکنان پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ مولاناؒ کے نزدیک کوئی جماعت حالات کا اس وقت تک مقابلہ نہیں کرسکتی جب تک اس کے ارکان پختہ ایمان اور پختہ سیرت کے مالک نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ کارکن نے بھی آج تک معافی مانگ کر رہائی حاصل کی اور نہ بکا، نہ جھکا۔
تربیت کے سلسلے میں مولانا ہمیشہ دو صفات پر زور دیتے تھے: صبراور حکمت۔اور سچّی بات ہے کہ طویل اجتماعی تنظیمی تجربے نے بتایا ہے کہ ایک تنظیم میں یہی دوصفات، اصل زادِ راہ ہیں۔
اس کے بعد ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا مرحلہ آگیا۔ جماعت اسلامی بھی ہندستان کی دو بڑی جماعتوں کانگریس اور مسلم لیگ کی مانند دو حصوں میں بٹ گئی۔ اپنے اپنے ملک کے مخصوص احوال و ظروف کی وجہ سے پاکستان اور ہندستان کی جماعتوں کی راہیں الگ ہوگئیں اور انھیں الگ الگ اندازِ کار اپنانے پڑے۔ ہندستان میں مسلمانوں کو اکثریتی فرقے کے آئین کے تحت زندگی گزارنا تھی، جب کہ پاکستان میں اُنھیں دستورِ مملکت خود بنانا تھا۔
بنابریں پاکستان میں جماعت اسلامی کو اپنی جدوجہد کا آغاز دستوری مہم سے کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے دستور کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ پر رکھی جائے۔ جماعت اسلامی کے اس مطالبے کو حیرت انگیز پذیرائی حاصل ہوئی۔ پوری قوم نے اس مطالبے کو اپنا مطالبہ بنالیا۔ اسی کے نتیجے میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور ہوئی جو دُنیا کی دستوری تاریخ میں ایک انقلابی موڑ ثابت ہوئی۔
جماعت اسلامی ہند نے جن حالات میں اپنے کام کا آغاز کیا وہ انتہائی حوصلہ شکن اور نامساعد تھے۔ مسلمانوں پر مایوسی کی سی کیفیت طاری تھی۔ جماعت اسلامی ہند کی سب سے بڑی ملّی خدمت یہ ہے کہ اس نے ہندستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو حوصلہ بخشا۔ پھر جماعت اسلامی ہند نے دو بنیادوں پر اپنے کام کا آغاز کیا:
۱- مسلمانوں میں عزم و حوصلہ پیدا کرنا اور غیرمسلموں کے سامنے اپنی عملی زندگی سے اسلام کی سچی تصویر پیش کرنا۔
۲- غیرمسلموں کو اسلام کے صحیح تعارف سے روشناس کرانا۔
ہندستان کے مسلمانوں کو اکثریتی تہذیب سے بچانے کے لیے جماعت اسلامی نے اسلامی تعلیم گاہوں کا جو جال بچھایا ہے، وہ ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اس سے بھارت کے مسلمانوں کی آیندہ نسلیں نہ صرف غیرمسلم اثرات سے محفوظ ہوگئیں بلکہ مسلمانوں کی زبان بھی اکثریتی زبان کی دست برد سے بچ گئی۔
تقسیم ہند جس زمانے میں ہوئی ہے وہ عالمی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ جنگ ِ عظیم دوم نے پرانے سماجی اور سیاسی نظام کو منہدم کردیا تھا اور دُنیا بھر میں ایک نئے آفاقی نظام کی طلب پیدا ہوگئی تھی۔ ٹھیک اس زمانے میں تحریک اسلامی کے لٹریچر کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوکر پھیلنے لگے۔ اس سے عالمی تحریک ِ اسلامی کا ہیولا بتدریج اُبھرنے لگا۔ تحریکِ اسلامی کو اس وسعت سے مختلف مسائل اور چیلنجوں کا سامنا بھی ہوا۔ کہیں دبی ہوئی مسلمان اقلیتیں تھیں جن کے لیے اصل مسئلہ اپنے ثقافتی تشخص کی بحالی تھا، کہیں خودمختار مسلمان اکثریتیں تھیں جو اپنے داخلی، خارجی، اور آئینی مسائل میں اُلجھی ہوئی تھیں۔ اگر اسلام تمام مسائل کا حل ہے تو پھر تحریک اسلامی کے لیے یہ چیلنج تھا کہ وہ بتاتی کہ عصرحاضر کے پیچیدہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل کے اسلامی حل کیا ہیں؟ الحمدللہ کہ تحریک اسلامی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور ہرشعبۂ زندگی کے مسائل کے لیے کتاب و سنت سے رہنما اصول پیش کر دیئے، حتیٰ کہ تحریک اسلامی کی مساعی سے اسلامی ریاست کا ایک ماڈل دستور بھی تیار ہوگیا جو صرف مسلم ریاستوں ہی کے لیے نہیں غیرمسلم دُنیا کے لیے بھی روشنی کا مینار ہے۔
پاکستان کے اندر جماعت اسلامی کو کن مراحل سے گزرنا پڑا، وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ تحریکیں کتابی راستوں سے نہیں اَن دیکھی راہوں سے بڑھتی ہیں۔ اصل ضرورت اپنے بنیادی اصولوں کی سختی سے پابندی ہوتی ہے۔الحمدللہ کہ جماعت اسلامی نے اپنے بنیادی اصولوں پر کبھی مصالحت گوارا نہ کی۔
پاکستان میں جماعت اسلامی کے لیے پہلا بنیادی مسئلہ پاکستان کے آئینی قبلے کی راستی تھا۔ اس کے بعد دوسرا مسئلہ دین دار قیادت کی فراہمی تھی، یعنی پاکستان میں ایسی قیادت برسرِاقتدار آئے جو دین کا صحیح فہم بھی رکھتی ہو اور اس کے نفاذ میں بھی مخلص ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ہرانتخابی عمل میں شرکت کا فیصلہ کیا۔
سیاسی تجربے میں جماعت اسلامی کو اُن ملتی جلتی حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑا، جو اسلام کو اس کے مدنی دور میں پیش آئی تھیں۔ جاہلی تعصبات، منافقت، خدا واسطے کا بیر، وسائل کی کمی، اندرونی جماعتی کمزوریاں اور بیرونی مزاحمتیں۔ لیکن اپنے تجربے کی بنا پر یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ پر صدقِ دل سے بھروسا کیا جائے تو راہ خود بخود صاف ہوتی چلی جاتی ہے۔
تمام مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود جماعت اسلامی نے پاکستان کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ جماعت اسلامی کی کامیابی کو اسمبلی کی نشستوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ اس کی سیاسی کامرانیوں سے جانچنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے اسلام کو پاکستان کا قومی نصب العین بنادیا:
۱- یہ جماعت اسلامی کی مطالبہ اسلامی دستور مہم تھی جس کے نتیجے میں تاریخ ساز قرارداد مقاصد منظورہوئی۔ اس سے مستقلاً طے پاگیا کہ پاکستان کی منزل اسلامی نظام ہے۔
۲- اسلامی نظام اب جماعت اسلامی ہی کا نہیں غیردینی سیاسی پارٹیوں کا بھی نعرہ بن گیا ہے۔ کسی اُمیدوار کی انتخابی مہم اس کے بغیر چل نہیں سکتی، جب تک وہ اسلامی نظام کے قیام کا وعدہ نہ کرے۔ اسلامی نظام کو قومی نصب العین بنادینا کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔
۳- یہ ہر دور میں جماعت اسلامی کا دبائو تھا جس نے دساتیر میں اسلامی دفعات کو قائم رکھا۔ ۱۹۷۱ء کے بعد ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں اشتراکی سیکولر نصب العین رکھنے والوں کی غالب اکثریت تھی۔ ان کی جانب سے پوری کوشش کی گئی کہ پاکستان کے دستور کو سیکولر رنگ دے دیا جاتا۔ لیکن الحمدللہ کہ یہ اسمبلی کے اندر جماعت اسلامی کے مٹھی بھر نمایندوں اور باہر سے اس کا تنظیمی دبائو تھا، جس نے ان کو مجبور کیا کہ وہ اسلامی دفعات کو من و عن قائم رکھیں اور وعدہ کریں کہ دس سال کے اندر پاکستان کے تمام قوانین کتاب و سنت کے مطابق بنادیئے جائیں گے۔
۴- پاکستان میں متعدد مرتبہ ایسے آمرانہ نظام آئے کہ عامۃ المسلمین کے بنیادی حقوق معطل کردیئے گئے۔ یہ جماعت اسلامی کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ عوام کے حقوق بحال ہوئے۔ ملک و قوم کی فلاح کا جب بھی معاملہ آیا جماعت اسلامی یا تو تن تنہا اُٹھ کھڑی ہوئی یا تعاون علی البر پر دوسروں سے اتحاد کیا۔ ایوب خان کے غیرجمہوری فسطائی نظام کے خلاف جب تحریک بپا ہوئی تو اس کے سالارِ قافلہ جماعت اسلامی کے بانی ہی تھے اور بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مولانا مرحوم کی تقریریں تھیں جنھوں نے قوم کا شعور بیدار اور ظالمانہ نظام کی بندشیں ڈھیلی کیں۔
فکری لحاظ سے تحریک اسلامی نے حجت تمام کردی ہے۔ اگلا مرحلہ نفاذ کا ہے۔ جس طرح فکری مرحلہ طے ہوا ہے ان شاء اللہ عملی نفاذ کا مرحلہ بھی طے ہوجائے گا۔ پاکستان میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ اسلامی نظام اب سامنے کی بات دکھائی دیتا ہے۔
تذکیر کے طور پر یہاں صرف ایک چیز کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اسلامی تحریک کی تمام تر بنیاد اسلامی سیرت و کردار ہیں، وہ نہ ہوں تو منزل پاکر بھی ہم نامراد رہیں گے۔ اس لیے تحریک اسلامی سے متعلق کارکنوں کو اس حقیقت سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے کہ دعوتِ دین کے فروغ کا تمام تر دارومدار ان کی اپنی سیرت اور کردار پر ہے۔ ان میں دین کی جھلک نہ ہوئی تو الفاظ کے دریا بہا دینے سے بھی تنکا بھر اسلامی انقلاب نہ آئے گا۔