ستمبر ۲۰۲۳

فہرست مضامین

رسالہ ’ اسلامک تھاٹ‘ کی خدمات

نعمان بدر فلاحی | ستمبر ۲۰۲۳ | اسلامی تحریک

Responsive image Responsive image

اسلامی خطوط پر علمی، تحقیقی اور تصنیفی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی فکر اورجماعت اسلامی سے وابستہ ثانوی درس گاہ، رام پور کے چندحوصلہ مند، غیور اور ممتاز طلبہ نے مولانا صدرالدین اصلاحی [ ۱۹۱۷ء - ۱۳؍ نومبر ۱۹۹۸ء] کی نگرانی اور قیادت میں۱۹۵۲ء میں ’اسلامک ریسرچ سرکل‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کا اپنا ایک باضابطہ دستور تھا۔محض ۲۱ برس کے نجات اللہ صدیقی ا ن طلبہ کے قائد اور سرکل کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر تھے، جب کہ مولانا صدر الدین اصلاحی کو سرکل کاڈائریکٹربنایا گیا تھا ۔

عصرحاضر کے چیلنج پر اسلامی نقطۂ نظر سے غور و فکر ، سائنٹی فک اسلوب میں مدلل علمی بحث اور کمیونزم کی تحریک سے مرعوب ومتاثر اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان نسل تک اسلامی احکامات اور درست مطالعات کی ترسیل کے لیے انگریزی زبان میں ایک میگزین کی سخت ضرورت تھی۔’اسلامک ریسرچ سرکل‘ کی جانب سے پہلے تو ۱۹۵۳ء میں ایک انگریزی بلیٹن جاری کیا گیا،جو ایک سال کے بعد ۱۹۵۴ء میں ۳۲صفحات پر مشتمل انگریزی میگزین ’ Islamic Thought‘ میں بدل گیا۔بلاشبہہ انگریزی زبان میںتحریک اسلامی اور اسلامی فکر کی نمایندگی کرنے والاعلی گڑھ کا یہ اوّلین علمی اور تحقیقی رسالہ ہے۔۱

۱۹۶۸ء میں اسلامک تھاٹ کی مشاورتی کونسل درج ذیل افراد پر مشتمل تھی: ۱-محمدعبدالحق انصاری (ریڈر شعبۂ فلسفہ ،شانتی نکیتن یونی ورسٹی ، کلکتہ)،۲- فضل الرحمٰن فریدی (سکریٹری اسلامک ریسرچ سرکل، علی گڑھ)، ۳- ممتاز علی خاںشروانی(لیکچرر شعبۂ فارسی،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی )،۴-عرفان احمد خاں ( لیکچرر شعبۂ فلسفہ،اے ایم یو)، ۵- محمد نجات اللہ صدیقی (لیکچرر شعبۂ معاشیات، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی)، ۶- چیف ایڈیٹر اسلامک تھاٹ۔ ۲

 اغراض و مقاصد

[ترجمہ] رسالہ اسلامک تھاٹ   عصر حاضر کے ا ن بیدار مغز نوجوانوں کے افکار کی نمایندگی کرتا ہے جو اسلامی نظریات کی درست اور ہمہ گیر بنیادوں پر تشکیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا فورم ہے، جہاں نظریات کو پیش کیا جاتا ہے۔ایک سمینار ہے جہاں مسائل زیر بحث آتے ہیں ۔ایک ایسی درس گا ہ ہے، جہاں غور وخوض اور مباحثہ ہوتا ہے۔

اسلامک تھاٹ نہ تو اپنی علمی برتری کا کوئی دعویٰ کرتاہے اور نہ وہ اسلام کی کوئی مخصوص تشریح کرنا چاہتا ہے۔ یہ رسالہ توبس ان تمام حضرات کا تعاو ن حاصل کرنا چاہتا ہے، جو لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جدید دنیا کے پیچیدہ مسائل کو صرف ایک متوازن اور ہم آہنگ نقطۂ نظر کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے ۔ ایسا نقطۂ نظر جو زندگی کو بحیثیت مجموعی دیکھے اور اپنی اسکیم میں ہر شے کو اس کا فطری اور جائزمقام دے۔ وہ مادی فائدوں کے لیے اخلاقیات کو نہ توقربان کرے‘ اور نہ سیاسی اغراض کے لیے قدروں کو نظر انداز کردے ۔ جسے اسلام کے سماجی نظام پر پختہ یقین ہو اور جو اِن خطوط پر اخلاص کے ساتھ جدو جہد کی اہمیت کو سمجھتا ہو ۔

دنیا ایک بحرانی دور سے گزر رہی ہے ۔ اس وقت نہ صرف یہ کہ ہماری بصیرت کا امتحان ہے بلکہ ہمارے عقیدہ کا بھی امتحان ہے ۔ ہمیں مواقع کو تلاش کرنا ہے اور چیلنج کو قبول کرنا ہے ۔ ہم ایک نئے نظام کے علَم بردار ہیں۔دنیا کو ہم سے امیدیں ہیں۔ہم اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ۔ مستقبل ہماری اس جدو جہد پر منحصر ہے جو ہم دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے آج کریں گے ۔ ہم تن من دھن سے اس مقصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہوجائیں، جو ہمیں بے حد عزیز ہے اور اُمید کی شمع کو از سر نو روشن کریں ‘‘۔۳

موضوعات اور مضامین

اسلامک تھاٹمیں شائع ہونے والے بیش تر مضامین اور مقالات کا تعلق معاشیات، سیاسیات، سماجیات، نفسیات، اسلامیات، فلسفہ اور سائنس سے ہے۔ مگر ان کے علاوہ تاریخ ، عقائد، نظریات، مذاہب ،ادب اور کلچر سے متعلق مضامین بھی موجود ہیں ۔معاشیات سے متعلق مقالات کی کثرت کا سبب واضح ہے کہ اس کے مدیران میں سے دو افراد کا تعلق اسی شعبے سے تھا۔ جدید ذہن کے شبہات کا ازالہ کرنے اور ان کی گتھیوں کو حل کرنے والے مندرجہ بالا عنوانات پر خالص اسلامی نقطۂ نظر کے ترجمان مختلف النوع مضامین پر نقد و تبصرہ کے لیے Critics Gallery ، قارئین کے خطوط کے لیےReaders Forum اورکتابوں کے جائزے اور تعارف کے لیے  Book Review  کے مستقل کالم شائع ہوتے ۔ ر یڈرز فورم کے کالم میں الاخوان المسلمون کے رہ نما اورممتاز اسلامی دانشور ڈاکٹرسعید رمضان (مقیم جنیوا، سوئٹزرلینڈ)کا ایک یہ خط شائع ہوا:

اسلامک تھاٹکو شوق سے پڑھتا ہوں اور آ پ کی اس بہترین کوشش کوپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتاہوں۔ میں آج کل جنیوا میں ایک اسلامی مرکز کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہوں۔ یہ منصوبہ دراصل مغرب میں مقیم دسیوں ہزار مسلمان طلبہ اور شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے ۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ یہاں پر اسلام کے نمایندے ہیں بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ اپنے ملکوں میں مختلف قسم کی ڈگریاں اور سند لے کرواپس جاتے ہیں،مگر بالعموم ان کے اندر اپنی تہذیب اور ثقافت کے تئیںاعتماد اور یقین کی کیفیت نہیں ہوتی ہے ، یعنی وہ نہ تو مکمل طور پرمشرقی ہوتے ہیں اور نہ مغربی ۔ ایسا اس وقت ہو تا ہے جب احساس کمتری اور شکوک و شبہات کا مرض ان کے اندر پروان چڑھتا ہے اوررفتہ رفتہ شعور کی گہرائیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مختلف سطحوں پر ایسے افراد کی مدد کے لیے کوئی منصوبہ لازمی تھا ۔ دوسری طرف اس مرکز کا یہ بھی مشن ہے کہ انفرادی اور سماجی روابط کے ذریعے مادہ پرستی کے خلاف اہل ایمان کے درمیان باہم تعاون کے دینی اصول و ضوابط کی تصدیق کی جائے۔یہ بہترین موقع ہے کہ اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کیا جائے ۔ مرکز کی تعمیر و تشکیل کا کام جاری ہے ، میں ان شاء اللہ اس کے ترقیاتی مراحل سے آپ کو باخبر کرتا رہوں گا۔۴

علمی دنیا کی متعدد ممتاز شخصیات کے علاوہ ثانوی درس گاہ، رام پور کے ایک طالب علم اکرام احمد خاں کا بھی ایک خط ’ریڈرز فورم‘ کے کالم میں جولائی -اگست ۱۹۵۷ء کے شمارے میں موجود ہے۔

بلاشبہہ علی گڑھ کے علاوہ دیگر مقامات کے انگریزی داں طبقے میں فکر اسلامی کے تعارف اور جدید مسائل میں اسلامی نظریات کی وضاحت کے ضمن میں اسلامک تھاٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے،مگر حیرت انگیز طور پر بالعموم اس کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے ۔فکر اسلامی کے ارتقا میںاس انگریزی رسالے کی خدمات اور کردار پر کوئی تحقیقی کام اب تک نظر نہیں آیا۔۵ اپنے تاریخی وادبی ورثے کے تحفظ کے تئیں لاپر وائی اور غفلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی زبان کے اس تاریخی میگزین کی مکمل فائلیں میری معلومات میںکہیں محفوظ اور دستیاب نہیں، البتہ نامکمل ریکارڈ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کی لائبریری میں موجود ہے۔

اسلامک ریسرچ سرکل

انگریزی مجلہ اسلامک تھاٹ  کیونکہ’ اسلامک ریسرچ سرکل‘ کا ترجمان تھا ، اس لیے فطری طور پر سرکل کی تاریخ کے ضمن میں اس کی اہمیت بہت بنیادی ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے ایک بڑے فکری قائد مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کی نگرانی میں قائم’ اسلامک ریسرچ سرکل ‘سے وابستہ بیش تر طلبہ ثانوی درس گاہ اسلامی، رام پور سے فارغ التحصیل اس نسل سے تعلق رکھتے تھے، جس کی فکری ، علمی، ادبی اور تحریکی اٹھان کا مطالعہ یقینی طور پر بر صغیر میںفکر اسلامی کے ارتقاء اور اسلامی تحریک کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اہم موضوع ہے ۔

سرکل کے دستور کے مطابق : ’’ قرآن اور سنت کی روشنی میں تحقیق اس تنظیم کا بنیادی مقصد ہے تاکہ زندگی کے مختلف شعبوں اورمیدانوں میں اسلامی نقطۂ نظر کو جدید ذہن کے لیے قابل فہم بنایا جا سکے‘‘۔

مجلہ اسلامک تھاٹ  میں شائع متعدد رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ۱۹۶۷ء میں  مسلم پرسنل لا پر علی گڑھ میں ایک کامیاب سمپوزیم کے انعقاد کے بعد ۱۴- ۱۵؍ستمبر ۱۹۶۸ء کو ’اسلامک ریسرچ سرکل ‘کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی طلبہ یونین کے’ رام پور حامد ہال‘ میں مسلم پرسنل لا پر ایک سیمی نار منعقد ہوا، جس میں ملک کے معروف اہل علم حضرات کے علاوہ سرکل کے ڈائرکٹر مولانا صدر الدین اصلاحی، ماہ نامہ زندگی  ،رام پورکے مدیر مولانا عروج احمد قادری اور مولانا سیّدحامد علی صاحب( صدر، ادارہ شہادت حق ،دہلی)نے بھی مقالات پیش کیے تھے۔ سیمی نار کے دیگر معزز شرکاء میں مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی (صدر، ندوۃ المصنّفین، دہلی )، مولانا منت اللہ رحمانی (امیرشریعت، بہار)، مولانا سعید احمد اکبر آبادی (پروفیسر شعبۂ دینیات ،اے ایم یو)،مولانا سید علی نقی (سابق ڈین، فیکلٹی آف دینیات، اے ایم یو)، مولانا محمد اسحاق سندیلوی ( شیخ الحدیث، ندوۃ العلماء، لکھنؤ)، پروفیسر حفیظ الرحمٰن ( سابق ڈین فیکلٹی قانون،اے ایم یو)جسٹس سید عزیز الشافی ( جج ، دہلی)، مسٹر طاہر محمود(قانون دان، دہلی)،مصطفےٰ علی خاں ( استاذ شعبۂ قانون، اے ایم یو)، انوار علی خاں سوز (استاذ شعبۂ انگریزی، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی )،مسٹرمحمد غوث( شعبۂ قانون ، اے ایم یو)، مسٹر نور الدین احمد (بیرسٹر، دہلی )،پروفیسر مقبول احمد ( ڈائرکٹر سینٹر آف ویسٹ ایشین اسٹڈیز)، مسٹررحمٰن علی خاں (ریڈر شعبۂ قانون، اے ایم یو)،ڈاکٹر محمد معین فاروقی (ریڈر شعبۂ حیوانیات، اے ایم یو)، سیدمحمود حسین ( ایڈوکیٹ ،دہلی)،مسٹر شمس الحق علوی (لیکچرر شعبۂ سول انجینئرنگ، اے ایم یو)،  شیخ منا علی ( اسکالر ،جامعہ الازہر ، قاہرہ )، مسٹر احمد سورتی (ریڈر، جنرل ایجوکیشن سینٹر، اے ایم یو)،مسٹر سید ناصر علی (ریڈر شعبۂ سیاسیات، اے ایم یو)،مولانا محمد تقی امینی ( لیکچرر شعبۂ دینیات و ناظم دینیات،  اے ایم یو)، محمد فضل الرحمٰن گنوری( شعبۂ دینیات ، اے ایم یو)،وغیرہ قابلِ ذکر شخصیات ہیں۔۶

مولاناصدر الدین اصلاحی کے مقالے کا انگریزی تر جمہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے جولائی ۱۹۶۹ء کے شمارے میںReal Nature of Muslim Personal Lawکے عنوا ن سے شائع کیا۔ مدیر زندگی مولانا عروج قادری کے مقالے کا ترجمہ ڈاکٹر ممتاز علی خاں شروانی(استاذ شعبۂ فارسی) نے کیا، جو اپریل ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں Polygamyعنوان سے شائع ہوا ، جب کہ مولانا سید حامد علی کے مقالے کا ترجمہ اقبال احمد انصاری نے کیا جو Changes in Muslim Personal Law  کے عنوان سے (اکتوبر ۱۹۷۰ء) شائع ہوا ہے۔

اس سیمی نار کی آرگنائزنگ کمیٹی میں کنوینر ڈاکٹر ممتاز علی خاں کے علاوہ شعبۂ دینیات کے استاذ مولوی فضل الرحمٰن گنوری [۱۹۳۰- ۲۶؍ جون ۲۰۱۳ء ] ، فضل الرحمٰن فریدی ، عرفان احمد خاں، اقبال احمد انصاری ، ڈاکٹر احسان اللہ خان، ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی اور احمد سورتی شامل تھے۔۷

اس تاریخی سیمی نار میں پیش کے گئے مقالات کا مذکورہ مجموعہ ایک بیش قیمت تاریخی دستاویز اور مسلم پرسنل لا کے موضوع پر مسلمانان ہند کی جانب سے پہلی باقاعدہ علمی پیش کش ہے ۔

ریسرچ سرکل کی ایڈوائزری کونسل کی ایک میٹنگ ۲۳؍ اپریل ۱۹۶۱ء کو علی گڑھ میں منعقد ہوئی، جس میںسید زین العابدین، فضل الرحمٰن فریدی ، محمد عبد الحق کے علاوہ قاضی اشفاق احمد خصوصی مدعو کے طور پر شریک تھے ۔ اس نشست میں اس بات کی سفارش کی گئی تھی کہ سرکل کا ایک یونٹ دہلی میں بھی قائم کیا جائے۔ اپریل ۱۹۶۰ء تا مارچ ۱۹۶۱ء تک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سرکل کے ایسوسی ایٹ ممبران کی تعداد ۲۰ تھی ۔ ۱۳ نومبر ۱۹۶۰ء کو ریسرچ سرکل کی جنرل باڈی کی ایک میٹنگ دہلی میں منعقد ہوئی جس میں ۱۴ ممبران نے شرکت کی تھی ۔

اکتوبر ۱۹۶۰ء میں مولاناصدرا لدین اصلاحی نے علی گڑھ میں ’اسلامک ریسرچ سرکل‘ کے  مرکزی دفتر میں وابستگان کو خطاب کیا تھا،جس کا انگریزی ترجمہ An Address to Researchers  کے عنوان سے اسلامک تھاٹ  ( اکتوبر تا دسمبر ۱۹۶۰ء) کے ایڈیٹوریل کے کالم میں موجود ہے۔ جامعہ ملّیہ اسلامیہ، دہلی کے شعبہ انگریزی میںلیکچرر انوار علی خاں سوز نے سرکل کی ایک میٹنگ میں The Meaning and Process of Islamic State  کے موضوع پر ایک مقالہ پیش کیا تھا، جو اکتوبر ۱۹۷۱ء کے شمارے میں شائع ہوا ۔

۱۹۵۹ء میں اسلامک ریسرچ سرکل کی ضروریات اور جدید تقاضوں (Growing Needs) کے تناظر میں اس کانیا دستور (Constitution)مرتب کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے کنوینر فضل الرحمٰن فریدی نے اپریل ۱۹۵۹ء میں دستور کا مسودہ پیش کیا، جسے وابستگان کے مطالعے اور غور و خوض کے بعد ۱۱؍دسمبر ۱۹۵۹ء کو علی گڑھ میں منعقد ہونے والی میٹنگ میں منظور کرلیا گیا ۔ گیارہ صفحات پر مشتمل’ اسلامک ریسرچ سرکل‘ کانیا دستورمجلہ اسلامک تھاٹ کے اکتوبر - دسمبر ۱۹۵۹ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے ۔

مضمون نگاران

اسلامک تھاٹکے دستیاب شماروں پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلہ کے  مضمون نگاروں میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے معززاساتذہ میں ڈاکٹر معین فاروقی ( شعبۂ حیوانیات)، فضل الرحمٰن گنوری ( شعبۂ دینیات )، ڈاکٹر احسان اللہ خاں(شعبۂ طبقات الارض )،اقبال احمد انصاری (شعبۂ انگریزی)،ڈاکٹر فضل الرحمٰن ندوی ( شعبۂ اسلامک اسٹڈیز)،احمد سورتی( شعبۂ کیمیا)،معزز علی بیگ ( شعبۂ نفسیات)،عرفان احمد خان ( شعبۂ دینیات )، سیدزین العابدین ( شعبۂ انگریزی )، ڈاکٹر ممتاز علی خاں شروانی( شعبۂ فارسی )،پروفیسر محمد عمر الدین ( شعبۂ فلسفہ)، محمد یٰسین (شعبہ انگریزی)، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ( ڈائرکٹر اقبال اکیڈمی، کراچی)، ڈاکٹر محمد عبد اللہ العربی (کاؤنسلر اسلامک کانگریس، قاہرہ)، ڈاکٹر یونس کہر الدین ( انڈونیشیا)، عبدالمجید قریشی علیگ( صدر لیبر ویلفیئر کمیٹی پاکستان)، مسز نیّر منصور( لیکچرر فلسفہ و منطق، ایڈن گرلز کالج، ڈھاکہ)، سید علی اشرف ( صدر شعبۂ انگریزی، کراچی یونی ورسٹی )،ڈاکٹر میر ولی الدین (پروفیسر فلسفہ عثمانیہ یونی ورسٹی، حیدرآباد)، ڈاکٹر محمود حسین (پروفیسر شعبۂ تاریخ، کراچی یونی ورسٹی )، ڈاکٹر سعید رمضان ( جنیوا)، داؤد قاضی (جوہانسبرگ)، اے آر ایم زروق ( کولمبو، سیلون)،پروفیسر عبد الحمید صدیقی (شعبۂ معاشیات، اسلامیہ کالج، لاہور)، ایم فرحت اللہ (جامعہ رورل انسٹی ٹیوٹ، دہلی)،پروفیسر عبد المغنی ( شعبۂ انگریزی، پٹنہ)، ڈاکٹر عبد الحق انصاری (ریڈر اسلامیات ، وشو بھارتی شانتی نکیتن)، انوار علی خاں سوز (جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی)، پروفیسر ہارون خاں شروانی( ممبر آف لیجس لیٹو کونسل) کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔

اہل علم کے خطوط میں تذکرہ 

مولانا عبد الماجد دریابادی نے اگست ۱۹۵۵ء میں نجات اللہ صدیقی کے نام اپنے خط میں لکھا :’’ دو پرچے اسلامک تھاٹ  کے موصول ہوئے ، دل بڑا خوش ہوا ۔ جزاک اللہ خیر۔ آں عزیز مع اپنے رفیقوں کے یہ بڑی خدمت کررہے ہیں ۔ اصل ضرورت تو انگریزی ہی میں ان مضامین یعنی فکر اسلامی و دینی کی اشاعت کی ہے، اردو میں تو خیر کچھ نہ کچھ کام ہو ہی رہا ہے ۔ صدق  میں ذکر خیر ضرور آئے گا ۔ خدا معلوم توسیع و اشاعت کا کیا انتظام ہوا ہے ۔ بڑی خرابی یہی ہے کہ ہم لوگوں کی تحریریں اس کی آدھی بھی نہیں اشاعت پذیر ہوپاتیں جتنی الحاد پسندوں کی پھیل جاتی ہیں‘‘۔۸

سابق صدر جمہوریہ ہند، ڈاکٹر ذاکر حسین [۸فروری۱۸۹۷ء-۳مئی ۱۹۶۹ء]بھی اسلامک تھاٹ کا مطالعہ پابندی سے کرتے تھے ۔۱۰؍اکتوبر ۱۹۵۶ء کو اپنے خط میں کہتے ہیں:

 محبی نجات صاحب !  السلام علیکم

نوازش نامہ ملا ، یاد فرمائی کا شکریہ۔ اسلامک تھاٹ  کا ستمبر والا شمارہ بھی ملا ۔ آپ کا مضمون پڑھا ، مجھے بے حد پسند آیا ۔ ضرور اس کام کو جاری رکھیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دہلی میں اس کام کے لیے علی گڑھ سے زیادہ کتابیں مل سکتی ہیں یا نہیں ؟ رہا میں ، سو میں رہ نمائی کیا کروں گا ۔ خود راہ سے بے خبر ہوں اور اس کی تلاش میں اتنی محنت بھی نہیں کررہا ہوں جتنی آپ کررہے ہیں ۔۹

فروری ۱۹۵۷ ء کو لکھے اپنے دوسرے خط میں رقم طراز ہیں :

 عنایت نامہ ملا ، یاد دہانی کا شکریہ ۔ اسلامک تھاٹ کا  نیا شمارہ ابھی نہیں ملا ہے ۔ شاید آج کل میں پہنچ جائے، اسے شوق سے پڑھتا ہوں ۔ ضرور پڑھوں گا ،مگر مشورہ کیا دوں گا؟ گم کردہ راہ رہبری کیا کرے ۔ ان شاء اللہ ۲۴ [فروری ۱۹۵۷ء ]کو علی گڑھ آؤں گا ۔ اگر ملاقات ہو سکے تو بہت اچھا ہو ۔

اور اپنے ۱۴؍اپریل ۱۹۶۴ء کے خط میں ذاکر حسین صاحب لکھتے ہیں:

آپ کا محبت نامہ ملا۔ نادم ہوں کہ رسید بھی بروقت نہ بھیج سکا۔ معاف فرمائیں۔ آپ کا مقالہ فکرونظر مَیں نے پڑھا تھا۔ ان شاء اللہ ۲۶ کو علی گڑھ آئوں گا۔ آپ اگر مل لیں تو خوشی ہو[گی]۔۱۰

مجلہ اسلامک تھاٹ  کا شوق و رغبت کے ساتھ مطالعہ کرنے اور ا س میں مضامین لکھنے والوں میں علی گڑھ میں شعبۂ انگریزی کے پروفیسر انسانی حقوق اور اقلیتی حقوق پر متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر اقبال احمد انصاری کا نام اہمیت کا حامل ہے ۔جنوری ۱۹۷۱ء میں کارڈف (برطانیہ) سے نجات اللہ صدیقی کے نام اپنے ایک خط میں انھوں نے مجلہ کا تذکرہ کیا ہے۔ ۱۱

 پاکستان کے ممتاز صحافی امیر حمزہ شامی نے فروری ۱۹۶۰ء میں نجات اللہ صدیقی کو لکھے خط میں اسلامک تھاٹ [جولائی- اکتوبر ۱۹۵۸ء] میںشائع Study of Commercial Interest in Islam  کے عنوان سے فضل الرحمٰن فریدی کے مضمون پرتبصرے میں پسندیدگی کا اظہار کیا ۔۱۲

ماہ نامہ برہان ،دہلی نے جنوری ۱۹۶۲ ء میں ادارہ علوم اسلامیہ، علی گڑھ کے استاذ مولوی فضل الرحمٰن ( ایم اے ، ایل ایل بی، علیگ) کا ایک قسط وار مقالہ بعنوان ’ کمرشیل انٹرسٹ کی فقہی حیثیت کا تنقیدی جائزہ ‘شائع کیا، جس میں اسلامک تھاٹ میں شائع فضل الرحمٰن فریدی کے مندرجہ بالا مضمون کا حوالہ دیا گیا تھا ۔

جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد میں شعبۂ تاریخ کے سابق پروفیسر ابو نصر محمد خالد (م: ۱۹۸۵ء) اور مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی [۱۹۰۴ء- ۱۵؍ دسمبر ۱۹۹۷ء]بھی اسلامک تھاٹ کا مطالعہ کرتے تھے ۔مارچ ۱۹۶۲ء میں نجات اللہ صدیقی کے نام اپنے خط میں مولانا اصلاحی نے لکھا تھا :

آپ کی اس تجویز سے اتفاق ہے کہ آپ لوگوں کے کام کی اہمیت اور نوعیت پر [ماہ نامہ] میثاق کے آیندہ شمارہ میں ایک نوٹ لکھ دوں ، سو اِن شاء اللہ بشرطِ زندگی یہ کام آیندہ پرچہ میں ضرور کروں گا۔۱۳

             اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں اسلامی بنک کاری کے شعبہ کے سابق ڈائرکٹر اور ماہر معاشیات سیّد حسن الزماں اختر نے کراچی سے لکھا :

ہم یہاں اسلامک تھاٹ کی خریداری کے لیے ایک عرصہ سے لکھ رہے ہیں لیکن اب تک کسی خط اور یاد دہانی کا جواب نہیں ملا ۔ہم چاہتے تھے کہ اس کی پوری سابق فائل حاصل کی جائے۔۱۴ 

            ماہ نامہ ترجمان القرآن  لاہور کے مدیر عبد الحمید صدیقی [م:۱۸؍اپریل ۱۹۷۸ء] اگست ۱۹۵۵ء میں گوجرانوالہ ،پاکستان سے لکھتے ہیں :

آپ مجھے تھاٹ کا پرچہ باقاعدہ بھیجتے ہیں، مگر آپ شاید سن کر حیران ہوں گے کہ مجھے صرف جنوری ، فروری ۱۹۵۵ء کا پرچہ ملا ہے ، اور اس کے بعد کوئی نہیں ملا ۔ معلوم نہیں باقی پرچہ کہاں ضائع ہو جاتا ہے؟اپریل اور مئی کا پرچہ میں نے مرکز سے لے کر صرف دیکھا تھا۔ کاش، آپ کے پرچے مجھے باقاعدگی سے پہنچتے ۔۱۵  

ادب اوراسلامی تحقیقات میں خصوصی دلچسپی رکھنے والے پاکستانی دانش ور محمد اقبال، ملتان سے لکھتے ہیں :

اسلامک تھاٹ پر تفصیلی تبصرہ ،بھیا ابھی مجھے کچھ پڑھ لینے اور سمجھنے دیجیے۔ عرصے کی بادیہ پیمائی حیرانی و سرگردانی کے بعد کچھ پڑھنے لکھنے کی طرف مائل ہوا ہوں۔ ویسے صرف دو تین شماروں سے اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، اس لیے کہ یہ وقتی قسم کا کوئی میگزین تو ہے نہیں، اس کے تمام شماروں میں مقصدی و تحریری ربط کے ساتھ سیٹنگ اور میکانکی ضبط بھی محسوس ہوتا ہے۔ تمام شماروں کو پڑھنے کے بعدتبصرہ اور خیالات کا اظہار ضرور کروں گا( ان شاء اللہ )۔۱۶ 

 محمد اقبال ،ملتان اپنے دوسرے خط میں رقم طراز ہیں:

اسلامک تھاٹ کو Reprintکرانے کی تجویز بھی رکھی ہے۔ آپ کا مضمون ’اسلامی نظریۂ ملکیت‘ جو تھاٹ میں دوسرے انداز سے شائع ہورہا ہے اس پر ملتان میں ایک صاحب ِذوق مختار مسعود وہاں کے ڈپٹی کمشنر ہیں اور علی گڑھ سے معاشیات کے ایم اے نے کچھ [اچھا] تاثر دیا ہے۔۱۷

اپریل۱۹۶۲ء کودمشق سے لکھتے ہیں :

ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامک ریسرچ کے موضوع پر اسلامک تھاٹ میں جو اچھے اداریے اور مقالات شائع ہوئے ہیں، انھیں عربی میں ترجمہ کیا جائے۔ خصوصاً صدرالدین صاحب کا اداریہ ’مشن آف دی ملت‘ وغیرہ ۔نیز اسلامی علمی کام کا مکمل تعارف، اسلامک ریسرچ سرکل کا تفصیلی تعارف ،عربی میں ان سب کی شدید ضرورت ہے۔۱۸

مئی ۱۹۶۲ء میں دمشق سے اپنے خط میں لکھا :

صدرالدین صاحب کا مقالہ عربی میں ضرور آنا چاہیے۔ اور ’اسلامک ریسرچ سرکل‘ کا مکمل تعارف نیز اسلامک تھاٹکے ریسرچ نمبر کا تعارف بھی۔ میں یہاں ان شاء اللہ اس فکری خلا کو پاٹ کر کچھ تعمیر کرنے کا احساس رکھتا ہوں۔ اسلامک تھاٹ کے پرچے خاصی تعداد میں بھجوائیے،بہت اشد ضرورت ہے۔ ۱۹

            جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے پروفیسراور جموں و کشمیر یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحق ندوی(م: ۱۰؍ اپریل ۱۹۹۰ء )نے اپریل ۱۹۷۱ء میں لکھا تھا :

اسلامک تھاٹ میں مسلم پرسنل لا پر جو مضمون ادارہ شہادت حق کے ناظم مولانا حامد علی صاحب کا ہے، اُس میں وہ صرف اسی حد تک پہنچے ہیں کہ علما اور مسلم ماہرین قانون کی ایک کمیٹی بنانی چاہیے جو ان معاملات کو طے کرے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک ایسی شرط بھی لگا دی ہے کہ پوری تجویز اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔۲۰ 

پروفیسر مشیر الحق دوسرے خط میں لکھتے ہیں :

میرے نزدیک مولانا حامد علی کے مذکورہ بالابیان اور مولانا صدرالدین اصلاحی کے بیان (اسلامک تھاٹ،جولائی۱۹۶۹ء ص ۱۰-۱۱) میں مطابقت نہیں ہے۔۲۱  

            ۱۹۵۰ء میںپاکستان میںخواتین کے لیے قائم حلقہ بزم تعمیر ادبِ اسلامی کی روح رواں اور خواتین کے علمی ، ادبی ، اور اصلاحی رسالہ ماہ نامہ عفت  نیز نومبر ۱۹۵۷ء میں جاری ہونے والے ماہ نامہ بتول، لاہورکی مدیرہ حمیدہ بیگم صاحبہ نے فروری ۱۹۵۵ء میں نجات اللہ صدیقی کو لکھا :

اسلامک تھاٹ  مجھ تک پہنچا تو ہے، لیکن مطالعہ کا وقت نہیں ملا۔ ان شاء اللہ اس کو دیکھ کر کچھ لکھ سکوں گی۔ ۲۲ 

قاہرہ یونی ورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کالج کے ڈین ڈاکٹر محمد عبد اللہ العربی کے اسلامک تھاٹ میں متعدد مضامین شائع ہوئے ۔ جنوری ۱۹۷۰ء میں انگریزی میںتحریراپنے خط میں وہ مجلہ ااسلامک تھاٹ پابندی سے بھیجنے کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ اگر ممکن ہو تو گذشتہ تین سالوں کے شمارے ضرور بھیج دیں ‘‘۔ ۲۳ 

سوشل بنک ڈھاکہ کے مینیجنگ ڈائرکٹر اور کتابIslamic Economics: Theory and Practice کے مصنف مسٹر ایم اے منّان، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے نام ۲۲ جون ۱۹۷۰ء کو تحریر کرتے ہیں : سہ ماہی جرنل اسلامک تھاٹ میں آپ کا مضمون ’غیر سودی بنک کاری کا ماڈل ‘ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی‘‘ ۔ ۲۴  

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر مسٹر بدر الدین طیب جی بھی اسلامک تھاٹ  کے قاری تھے ۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی سے ان کی مراسلت دیکھی جاسکتی ہے۔ ۲۵ 

پروفیسر خورشید احمد کے متعدد خطوط میں اسلامک تھاٹ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ۱۷؍دسمبر ۱۹۵۸ء کو نجات اللہ صدیقی کے نام خط میں لکھتے ہیں :

[پروفیسر کینٹ ول] اسمتھ کی کتاب ابھی ختم نہیں کی ہے ،کافی پڑھ لی ہے ۔اس پر مستقل تبصرہ لکھنے کا ارادہ ہے۔ خود اسمتھ کا اصرار ہے کہ میں اس پر تبصرہ لکھوں۔کتاب خود اس نے بھیجی ہے، اس لیے اخلاقی ذمہ داری بھی ہوگئی ہے۔اگر ممکن ہوا تو تبصرہ کی ایک کاپی آپ کو اسلامک تھاٹ  کے لیے بھی بھیج دوں گا۔ ۲۶  

۱۹؍ دسمبر ۱۹۶۰ء کو اپنے خط میں تحریر کرتے ہیں  :

اسلامک تھاٹ مجھے نہیں مل رہا ہے ۔ آپ گھر کے پتہ پر جاری کرا دیجیے۔ اس شمارہ سے پہلا شمارہ بھجوا دیجیے ، وہ میرے پاس نہیں ہے ۔ اب توقع ہے کہ اس کے لیے جلد کچھ نہ کچھ بھیجوں گا ۔ گو اس سلسلے میں وعدہ خلافیاں اتنی ہوئی ہیں کہ نیا وعدہ کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ ۲۷ 

پروفیسر خورشید احمد۲۷؍ اپریل ۱۹۶۸ء کو لکھتے ہیں:

 جو معاونت آپ سے فوراً چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلامک تھاٹ   کا ایک فائل ہمارے لیے کسی نہ کسی طرح فراہم کردیجئے تاکہ اس میں شائع شدہ مفید چیزوں کو ہم از سر نو مرتب کرکے لا سکیں ۔ ۲۸  

مدیران گرامی کا تعارف : ابتدائی پانچ برسوں میںیہ رسالہ ’دو ماہی‘ رہا،مگر ۱۹۵۹ء میں یہ سہ ماہی ہو گیا تھا ۔ ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۹ء تک نجات اللہ صدیقی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں شعبۂ انگریزی کے استاذ سید زین العابد ین [وفات ۱۹۹۳ء] اس کے ایڈیٹر رہے ۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۸ء تک چیف ایڈیٹر سید زین العابدین اور ایڈیٹر کے طور پر عرفان احمد خان اورفضل الرحمٰن فریدی کا نام درج ہے ۔ اس وقت تک پبلی کیشن آفس رابعہ منزل ، بدر باغ ،علی گڑھ میں تھا ،مگر جب ۱۹۶۹ء میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی کو اسلامک تھاٹ کا چیف ایڈیٹر اور عرفان احمد خان کو ایڈیٹر مقرر کیا گیا تو پبلی کیشن آفس اسلامک لائبریری ، شمشاد مارکٹ ، علی گڑھ کو بنادیا گیا ۔ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اکتوبر ۱۹۷۱ء کے آخری شمارے تک اسلامک تھاٹکے پرنٹر پبلشر رہے۔ جنوری - فروری ۱۹۵۵ء میں مدیر اعلیٰ نجات اللہ صدیقی کے اداریے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۵۳ء میں ۵ شمارے، جب کہ ۱۹۵۴ء میں صرف تین شمارے منظر عام پر آسکے تھے ۔

ماہ نامہ ’برہان‘ دہلی میں سعید احمد اکبرآبادی کا تبصرہ :’’ ہمارے ملک میں بھی نوجوانوں اور خاص کر انگریزی تعلیم یافتہ مسلمانوں پر اِس جماعت [جماعت اسلامی] کا بڑا اثر ہے ۔ ان لوگوں کے انگریزی اور اردو کے اخبارات و رسائل ہیں ۔ لٹریچر کی اشاعت ہورہی ہے ۔ ہفتہ وار یا ماہانہ ان کے جلسے ہوتے ہیں اور اس میں ارکان و ہمدردان جماعت بڑی دلچسپی اور ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں ۔ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں ابھی دوسال پہلے تک اس جماعت کے ارکان بڑی اقلیت میں تھے اور اپنی اسلامی وضع قطع اور مسجد میں نماز با جماعت کی پابندی کی وجہ سے سب سے ممتاز اور الگ تھے ۔ لیکن ابھی پچھلے دنوں یونی ورسٹی کے طلبہ کی یونین کے جو انتخابات ہوئے ہیں، ان میں یونین کے صدر اور سکریٹری کے لیے ان امیدواروں کا انتخاب ہوا، جو اسلامی جماعت کے ارکان ہیں ۔ ۲۹  ان لوگوں کا ایک دو ماہی انگریزی رسالہ بھی ہے، جو اسلامک تھاٹکے نام سے نکلتا ہے اور جس کی اشاعت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہندو پاک کے علاوہ مشرق وسطیٰ تک اس کے خریدار موجود ہیں‘‘۔ ۳۰ 

 برہان، دہلی کی مئی ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں سہ ماہی اسلامک تھاٹ کا تعارف شائع ہوا ہے :’’ اسلامک ریسرچ سرکل کا یہ ترجمان آٹھ سال سے اسلامی علمی کام کی دعوت دینے کا کام انجام دے رہا ہے ۔ اسلام کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی مقالات اور مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطۂ نظر سے مذاکرات سامنے لانے کے علاوہ اس نے مختلف علوم جدیدہ میں اسلامی علمی تحقیق کی راہیںنکالی ہیں ۔ معاشیات ‘ سیاسیات ، فلسفۂ اخلاقیات وغیرہ میں اسلامی تحقیق کے لیے خطوط تجویز کیے ہیں۔ اس شمارے میں :ملت اسلامیہ کا مشن (مولانا صدرا لدین اصلاحی )، مسکویہ کا نظریۂ اجتماع و ریاست (محمد عبد الحق ایم اے ،علیگ)،اسلامی نظام معیشت میں اُجرتیں (عبد المجید قریشی، صدر لیبر ویلفیئر کمیٹی، پاکستان)، اسلام میں زمین کی ملکیت (مولانا شاہ محمد رشاد ، افغانستان ) شاملِ اشاعت ہیں۔

’صدق جدید‘ میں مولانا عبد الماجد دریا بادی کا تبصرہ:’’ یہ دو ماہی رسالہ انگریزی خوانوں خصوصاً کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ میں دینی شعور اور اسلامی ذوق پیدا کرنے کی غرض سے اسلامک ریسرچ سرکل ، رام پور نے نکالا ہے جوجماعت اسلامی کا ایک ادارہ ہے ۔ اِس کے تین نمبر اِس وقت تک موصول ہوئے ہیں اور تینوں میں اسلامیات سے متعلق علمی ، تاریخی، معاشیاتی پہلوؤں سے اچھے اچھے مضمون ہیں ۔ جماعت اسلامی ہند جو چندمفید دینی خدمات انجام دے رہی ہے ‘ اُن میں اِس رسالے کا اجراء ایک مفید اضافہ ہے۔ انگریزی خوانوں کا ہر طبقہ اس سے استفادہ کر سکتا ہے ‘‘۔ ۳۱ 

ماہ نامہ’ ترجمان القرآن ‘لاہور میں نعیم صدیقی کا تبصرہ:’’ہندستان میں اسلامی فکر و تحریک کے احیاء کے لیے مسلمانوں میں جو رجحانات برسرِ عمل ہیں ان کا ایک اظہار ’اسلامک ریسرچ سرکل‘کے ادارے کی صورت میں ہو رہا ہے ۔ یہ ادارہ چند ذہین نوجوانوں کی سرگرمیوں پر مشتمل ہے ۔ یہ نوجوان اسلامی فکر و نظر کے ساتھ علوم جدیدہ کا ناقدانہ مطالعہ کر رہے ہیں اور  فلسفۂ مدنیات ، سیاسیات ، معاشیات ومالیات اور اخلاقیات وغیرہ کے میدانوں میں حکمت اسلامی کو امتیازی اہمیت کے ساتھ پیش کررہے ہیں ۔ ان کے مطالعہ و تفکر کی ترجمانی کا ذریعہ پیش نظر انگریزی جریدہ ہے۔ پہلے یہ جریدہ سائیکلو اسٹائل ہو کر نکلتا تھا ، اب مطبوعہ صورت میں آنے لگاہے۔ اس کے نئے دور کے جو شمارے ہم نے دیکھے ہیں وہ بڑے حوصلہ افزا ہیں ۔ ہندستان کے حالات میں ایسا قابل قدر کام کرنے والے نوجوان اس بات کے مستحق ہیں کہ اسلامی ذہن کے ساتھ علمی دلچسپیاں رکھنے والے حضرات ان کی ہمتیں بڑھائیں ۔ پاکستانی کالجوں کے نوجوانوں کو بھی اس قسم کے کاموں سے سبق لینا چاہیے کہ کرکٹ اور سنیما کے شغف سے اوپر بھی کرنے کے کوئی کام ہیں ‘‘۔ ۳۲ 

ترجمان القرآن ( مارچ ۱۹۶۰ء) میں پروفیسر عبدالحمید صدیقی نے اسلامک تھاٹ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے :’’ اسلامک ریسرچ سرکل کا یہ ترجمان سات سال سے اسلامی علمی کام کی دعوت دے رہا ہے ۔اس نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی مقالات اور مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطۂ نظر سے مذاکرات پیش کیے ہیں ۔ مختلف علوم جدیدہ میں اسلامی تحقیق کے لیے راہیں نکالی ہیں ۔معاشیات ، سیاسیات ، فلسفہ ، اخلاقیات وغیرہ میں اسلامی تحقیق کے لیے موضوعات تجویز کیے ہیں اور فنون لطیفہ جیسے موضوعات پر غور و فکر کا آغاز کرایا ہے ۔ اس میں لکھنے والے ہندو پاکستان کے وہ اسلامی محققین ہیں جو دور جدید میں اسلامی زندگی کی تفصیلات مرتب کرنے اور مسائل حاضرہ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے کو اپنا کام سمجھتے ہیں ۔ ‘‘

آج اس بات کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسلامک تھاٹ   کے پرانے شماروں کو جمع کرکے از سر نو اُن کی اشاعت کا بندو بست ہو اور ان کی پی ڈی ایف فائل تیار کرکے انٹر نیٹ کے ذریعے اس سے استفادہ کو آسان بنایا جائے ۔

حواشی

۱-         انگریزی مجلہ اسلامک تھاٹ  سے قبل بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں ’انجمن خدام الدین‘ کے زیراہتمام خواجہ عبد الوحید [مشفق خواجہ صاحب کے والد گرامی]کی ادارت میں لاہور سے ۱۵روزہ انگریزی رسالہ Islam شائع ہوتاتھا ۔ مولانا احمد علی کی صدارت میں’ انجمن خدام الدین ‘نے شبلی نعمانی کی سیرت النبی ؐ کے مقدمہ کا انگریزی ترجمہ ’اسلام ‘ میں قسط وار شائع کیا تھا ۔ مدیر خواجہ عبدالوحید نے سید سلیمان ندوی کو خط لکھ کر سیرت النبیؐ کے انگریزی ترجمہ کی اجازت طلب کی تو سید صاحب نے ۲۲جولائی ۱۹۳۷ء کو اپنے جوابی مراسلے میںلکھا : ’اسلام‘مفید ثابت ہورہا ہے‘‘۔( بحوالہ چراغ راہ ،کراچی،مارچ ۱۹۶۰ء)

            ۱۹۴۸ء میںمظہر الدین صدیقی کی ادارت میں لاہور سے انگریزی ماہ نامہ Islamic Literature کی اشاعت عمل میں آئی تھی ۔ مئی ؍جون ۱۹۵۶ء میں مذکورہ رسالے کا خصوصی شمارہ منظر عام پر آیا تو مولانا دریابادی نے اخبار صدق  میں اس پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا : ’’ انگریزی کا یہ ماہ نامہ سات آٹھ سال سے مسلم تہذیب و تمدن اور اسلامی علوم و فنون کی خدمت کررہا ہے ۔ اور اب اسے ایک صاحب ِقلم ایڈیٹر بھی حاصل ہوگئے ہیں ۔ یہ خصوصی نمبر تمدن اسلامی اور تمدن فرنگی پر ہے ۔ پرچہ انٹرنیشنل قسم کا ہے اور مضمون نگاروں میں پاکستان سے باہر کے لوگ بھی شامل ہیں ۔ بعضوںنے اچھی خاصی محنت سے لکھا ہے اور اسلامی تمدن کے خدو خال روشن کرکے دکھائے ہیں ۔ بہ حیثیت مجموعی رنگ تجدد کاغالب ہے ۔ بہ حیثیت مجموعی رسالہ بہت غنیمت ہے‘‘۔(ہفت روزہ صدق جدید ، لکھنؤ ، ۳۱؍ اگست ۱۹۵۶ء)۔ مذکورہ انگریزی رسالہ پر ماہ نامہ ترجمان القرآن ،لاہور (اکتوبر ۱۹۵۶ء) نے تبصرے میں پسندیدگی کا اظہار کیا۔

            جماعت اسلامی پاکستان نے ابھی انگریزی میں کوئی پرچہ جاری نہیں کیا تھا، لیکن ۱۹۵۲ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا پندرہ روزہ انگریزی ترجمان 'Students Voice' خورشید احمدصاحب کی ادارت میںکراچی سے جاری ہواتھا، جو ۱۹۵۸ء میں بندہوگیا۔۱۹۵۶ء میںخورشید احمداور ظفر اسحاق انصاری کی ایڈیٹر شپ میں آرام باغ روڈ، کراچی ، پاکستان سے بارہ صفحات پر مشتمل ایک ہفت روزہ انگریزی اخبار  New Era  جاری کیا گیا تھا، جس کا تذکرہ صدق جدید، لکھنؤ میں ۲۴ فروری ۱۹۵۶ ء کی اشاعت میں موجود ہے۔ ماہ نامہ ترجمان القرآن ،لاہور (مارچ ۱۹۵۶ء) میں اس پر مؤثر تبصرہ شائع ہوا۔

۲-         دو ماہی اسلامک تھاٹ ،جنوری - فروری۱۹۵۵ء، رابعہ منزل ،بدر باغ ، علی گڑھ

۳-         قاہرہ یونی ورسٹی سے قانون میں گریجویٹ اورکولون یونی ورسٹی، جرمنی سے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹرسعید رمضان [ ۱۲؍ اپریل ۱۹۲۶ء - ۴؍ اگست ۱۹۹۵ء ] ’الاخوا ن المسلمون‘ کے بانی مرشد امام حسن البناء شہید [۱۹۰۶ء- ۱۹۴۹ء] کے داماداور اخوان کے ترجمان مجلہ المسلمون  کے مصر میںمدیر تھے ۔جب وہاں حکومت نے دار و گیر کا سلسلہ شروع کیا تو متعدد افراد کے ساتھ یہ رسالہ بھی دمشق ہجرت کرگیا اور وہاں سے ڈاکٹر مصطفےٰ سباعی اور سعید رمضان کی مشترکہ ادارت میں جاری ہوا۔ وہ مؤتمر عالم اسلامی قدس کے سکریٹری اور ادارہ تحقیقات اسلامی، جنیوا کے ڈائرکٹر تھے۔ مکہ مکرمہ میں’رابطہ عالم اسلامی‘ کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرنے والے اس صحافی، مجاہد، خطیب اور دانشور نے عربی اور انگریزی زبانوں میں متعدد وقیع کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ عالم عرب سے باہریورپ میںاسلامی افکارو نظریات کی ترویج و اشاعت میں ان کی خدمات پر تحقیق ہونی چاہیے۔ اُن کی معروف تصانیف:

lIslamic Law; its Scope and Equity lIslam and Nationalism lThree Major Problems Confronting the World of Islam lIslam Doctrine and Way of Life

lWhat We Stand For ?lWhat is an Islamic State? ?

۴-         سہ ماہی اسلامک تھاٹ ، علی گڑھ ،جولائی - ستمبر ۱۹۶۰ء

۵-         صرف اسلامک تھاٹ نہیں، بلکہ  Student's Voice،  New Era، Voice of Islam ، Young Pakistan، The Criterion، Universal Message وغیرہ کا بھی تعارف و جائزہ نہیں ملتا۔ (س م خ )

۶-         فضل الرحمٰن فریدی اور محمد نجات اللہ صدیقی کے مرتبہ: Papers and Proceedings of Seminar ناشر:اسلامک ریسرچ سرکل، علی گڑھ ، ۱۹۷۳ء ، صفحات:۱۹۹

۷- حوالۂ بالا،ص ۱۹۰

۸-         نجات اللہ صدیقی،  اسلام ، معاشیات اور ادب خطوط کے آئینے میں، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ، اگست ۲۰۰۰ء، ص ۲۵۷۔

۹- حوالۂ بالا، ص ۱۵۴     ۱۰-حوالۂ بالا، ص ۱۵۵    ۱۱- حوالۂ بالا، ص ۱۰۴

۱۲- حوالۂ بالا،ص ۱۰۶    ۱۳-حوالۂ بالا، ص  ۱۰۸   ۱۴-حوالۂ بالا، ص ۱۷۹

۱۵-حوالۂ بالا، ص ۲۴۳    ۱۶-حوالۂ بالا، ص ۲۹۴    ۱۷-حوالۂ بالا، ص ۲۹۶- ۲۹۷

۱۸-حوالۂ بالا، ص ۲۹۸    ۱۹-حوالۂ بالا، ص۳۰۱     ۲۰-حوالۂ بالا، ص ۳۵۰

۲۱-حوالۂ بالا، ص  ۳۵۲   ۲۲-حوالۂ بالا، ص۱۴۲

۲۳-      ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، Dialogue in Islamic Economics، اسلامک فائونڈیشن، لسٹر، ص۱۷۸

۲۴-      حوالۂ بالا، ص۱۴۸           ۲۵-حوالۂ بالا، ص ۷۰

۲۶-      نجات اللہ صدیقی، اسلام ، معاشیات اور ادب خطوط کے آئینے میں،علی گڑھ، اگست ۲۰۰۰ء، ص۱۴۴

۲۷-      حوالۂ بالا، ص ۱۵۰                      ۲۸- حوالۂ بالا، ص ۱۵۳ 

۲۹-      اس زمانے میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی طلبہ یونین کا انتخاب آئیڈیالوجی کے ساتھ اُمید وار کے افکار و خیالات اور فن خطا بت میں امتیاز کی بنیاد پر ہوتا تھا۔جماعت اسلامی کی زیر نگرانی کام کرنے والی طلبہ تنظیم ’اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن علی گڑھ‘ کے رکن طالب علم سید ضیاء الحسن ہاشمی (حیدر آباد) ۱۹۵۶ء میں اسٹوڈنٹس یونین کے صدرمنتخب ہوئے اور اسی تنظیم سے وابستہ صغیر احمد بیدار (بھوپال) [۳؍ مارچ ۱۹۳۶ء- ۲۰ ؍ اپریل ۲۰۱۸ء ] ۱۹۵۸ء میں یونین کے سکریٹری منتخب ہوئے تھے ۔

۳۰-      ماہ نامہ برہان ، دہلی ،جلد ۳۸، شمارہ ۵، مئی ۱۹۵۷ء

۳۱-        ہفت روزہ صدق جدید ، لکھنؤ ،۲۷ ؍ اپریل ۱۹۵۶ء    ۳۲- ماہ نامہ ترجمان القرآن ، اپریل ۱۹۵۵ء