ستمبر ۲۰۲۳

فہرست مضامین

قانون سازی یا پارلیمانی لاقانونیت

مشتاق احمد خان | ستمبر ۲۰۲۳ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

پارلیمنٹ بنیادی طور پر قوم کا ایک امانت دار فورم ہے، جو حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات ادا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری پارلیمنٹ ان احساسات سے عاری دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ قانون سازی اس کی تازہ مثال ہے۔ ’قرارداد مقاصد‘ کے مرکزی اصولوں میں پہلے تین نکات یہ ہیں: ۱- حاکمیت اعلیٰ، اللہ کی ہوگی، ۲-اقتدار ایک مقدس امانت ہے، جسے اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر استعمال کیا جائے گا، ۳- اقتدار کا جواز، آزادانہ رائے کے ذریعے منتخب نمایندوں کو حاصل ہوگا___ لیکن اس وقت ’حاکمیت اعلیٰ‘ عملاً عالمی ساہوکاروں،عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بنک، مقتدر اداروں اور ایجنسیوں کی ہے ۔ اقتدار ’مقدس امانت‘ کے بجائے مراعات یافتہ طبقوں اور اشرافیہ کی خدمت کے لیے استعمال ہورہا ہے جس کی سب سے بڑی تکلیف دہ مثال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے آخری سیشن میں۱۲۰ قوانین متعارف کرائے گئے۔ ۷۵قوانین منظور کیے گئے۔ ان منظور کردہ قوانین کا انسانی فلاح سے ذرہ برابر تعلق نہیں ہے، بلکہ محض طاقت ور اور دولت مند طبقوں کی چاکری اور عوام کی غلامی کے لیے قانونی تحفظ کا حصول ہے۔ ایسی ربرسٹمپ اور انگوٹھا چھاپ پارلیمنٹ کے بارے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا لمحۂ فکریہ ہے کہ بعض ارکانِ پارلیمنٹ پر مطلوبہ قانون سازی کے لیے تعاون حاصل کرنے پر بڑی رقوم خرچ کی گئی ہیں۔

یہاں مثال کے طور پر چند قوانین کی منظوری کے وقت میں نے جو معروضات پیش کیں، ملاحظے کے لیے پیش ہیں:

آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ

آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ جو بڑی جلدبازی میں پیش کیا گیا، اس میں کچھ اصلاحات تجویز کی گئی ہیں، جو حددرجہ بودی، سطحی (superficial) اور ناکافی ہیں۔ اگر پارلیمنٹ نے اس کو اسی انداز سے منظور کیا تو نتیجے میں پورا ملک ایک چھائونی کا منظر پیش کرے گا۔

اس مجوزہ ایکٹ کے نتیجے میں غیرمعمولی اندھے اختیارات، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس آجائیں گے، جن سے انسانی حقوق، سیاسی و انسانی آزادیاں اور میڈیاکی آزادی بُری طرح متاثر ہوگی۔ ’فوجی مارشل لا‘ کے وزن پر اگر ’قانونی مارشل لا‘ کی کوئی اصطلاح قانون کی کتابوں میں درج ہے تو یہ ایکٹ اس اصطلاح پر پورا اُترتا ہے، کیونکہ اس قانون سازی کے نتیجے میں وہی سامنے آئے گا۔اس ایکٹ کو دستورِ پاکستان کی روح کے مطابق رکھنے کے لیے مَیں نے ۶ ترامیم جمع کروائی تھیں، مگر ان پر غور تک نہیں کیا گیا۔

اس ایکٹ کے مسودے کے پہلے صفحے پر لکھا ہے: include written and unwritten (’لکھا‘ اور ’نہ لکھا‘ اس میں شامل ہے)۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ unwritten (نہ لکھے)میں تو سادہ کاغذبھی ہوتا ہے، جس پر کچھ نہیں لکھا ہوتا۔ میں کوئی قانون دان نہیں ہوں، لیکن پھر یہاں یہ بھی لکھا ہے: memorandium etc (یادداشت وغیرہ)۔ قانون کی دستاویزات میں تو etc یا وغیرہ وغیرہ کا لفظ نہیں ہوتا۔ آپ نے تو یہ ایک ایسی چیز اس میں رکھ دی ہے کہ اس میں کوئی بھی چیز شامل کی جاسکتی ہے۔ قانون تو سیاہ و سفید میں بالکل واضح ہوتا ہے اور اس میں اس طرح کی چیزیں شامل نہیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح صفحہ ۲ پر ہے:

Any place occupied by Armed force for the purpose of war games, exercise, training, research and development.

جس کا مطلب ہے افواج کے تعلیمی ادارے، نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی، ایئر یونی ورسٹی اور باقی اداروں کو بھی آپ نے اس میں شامل کیا ہے۔ اور آگے چلیں تو آپ نے ’دشمن‘ (enemy) کی تعریف (definition) میں ’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘ کو بھی شامل کیا ہے۔ ’نان اسٹیٹ ایکٹر‘ کی تعریف کی جائے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر اس کی تعریف واضح نہیں کی گئی تو پھر آپ یہاں ANSA /انسا، آرمڈ نان اسٹیٹ ایکٹر کو شامل کریں۔ اس طرح آپ نے تمام این جی اوز کو بھی اس میں ڈال دیا ہے اور تمام خیراتی اداروں کو بھی اس میں شامل کردیا ہے۔ اس لیے نان اسٹیٹ ایکٹر کی وضاحت کے ساتھ باقاعدہ تعریف شامل کریں یا پھر ANSA لکھیں۔

پھر اس میں دفعہ ۲-الف کا اضافہ کرلیا جائے یعنی دستور ِ پاکستان میں جن بنیادی انسانی حقوق کی نشان دہی کی گئی ہے، ان کو اس میں شامل کرلیا جائے۔ دستور کے پہلے باب کے دوسرے حصے میں جو بنیادی انسانی حقوق دیئے گئے ہیں اور بالخصوص آرٹیکل ۹، آرٹیکل ۱۰، آرٹیکلA- ۱۰ اور آرٹیکل ۱۴ کو پیش نظر رکھا جائے۔

ص ۴ پر بھی کئی چیزوں میں ترمیم ہونی چاہیے۔ ان میں ایک چیز unauthorise disclosure of identity ہے، اسی طرح یہ بھی ہے کہ:

a person shall commit an office who intentionally acting in any pre-judicial to public order or safety.

یہاں ’پبلک آرڈر‘ یا ’سیفٹی‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ تو ایک ایسی بات ہے جس میں پورے معاشرے کو اس کے اندر لے آیا گیا ہے اور غیرمعمولی اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔

اسی طرح یہ شامل کرنا چاہیے کہ اس پر قانونِ شہادت کے مطابق ہی عمل درآمد کیا جائے گا۔

میں پھر خبردار کرتا ہوں کہ اگر آپ نے اس قانون کو اسی طرح منظور کرلیا تو اس کے نتیجے میں انسانی حقوق، انسانی آزادی، جمہوری آزادی، میڈیا اور سیاسی آزادیاں سب خطرے میں پڑجائیں گی اور انٹیلی جنس اداروں کو اندھے اختیارات مل جائیں گے۔

این ایل سی (NLC)کو سویلین حکومت کے تحت کر دینا درست قانون سازی ہے، لیکن یہ نامکمل ہے۔ اس کے آرٹیکل ۱۰  میں لکھا ہے:

Appointment of Director General: the prime minister shall on recmendation of chief of Army Staff appointing a serving major general of the Pakistan Army .....

ہماری دردمندانہ درخواست ہے کہ پاکستان کی قومی فوج کو ان کاموں سے دُور رکھیں۔ فوج پورے وطنِ عزیز کا قابلِ قدر اور غیرمتنازع ادارہ اور اثاثہ ہے۔ فوج کا کام ملک کی سلامتی کا تحفظ اور سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔ جب ان سے بنک، ہسپتال اور یونی ورسٹیاں بنوائیں گے، زمینوں کی خرید و فروخت، کاروباری کاشت کاری اور فارمنگ کروائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کمپنیاں ان کے حوالے کریں گے، تو وہ اپنا بنیادی اور منصبی کام نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قانون سازی کے ذریعے اسے سول انتظامیہ کے تحت لایا جائے۔

پاکستان کی مسلح افواج سے اخلاص اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ سوائے دفاعی اُمور کے انھیں باقی تمام کاموں سے فارغ کردیا جائے تاکہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ ملکی دفاع پر ایک پروفیشنل انداز سے اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کرسکیں۔ آپ نے ۴۰/۴۵ سال بعد ترمیم کی اور قانون سازی کی اور این ایل سی جو پہلے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت فوج کے پاس تھا، اب اسے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے ذریعے فوج کے حوالے کر رہے ہیں، جو بنیادی طور پر ایک غلط اقدام ہے۔

اینٹی نارکوٹکس قانون میں ترمیم

آپ قانون سازی کرنا چاہتے ہیں تو بے شک کریں لیکن قانون سازی سوچ سمجھ کر ہی کریں، بحث و مباحثہ کے بعد کریں، ووٹوں کی قوت کے زور پر نہ کریں۔اینٹی نارکوٹکس قانون کے بارے میں متعلقہ وزیرجناب مرتضیٰ عباسی صاحب سے پوچھیں کہ اس قانون میں کیا تھا اور انھوں نے اسے کیوں پاس کیا؟ تو مجھے یقین ہے کہ ان کو بھی اس کے مندرجات کا علم نہیں ہے۔

اینٹی نارکوٹکس کے قانون میں دفعہ ۶ میں پوزیشن( قبضہ یا ملکیت)، دفعہ۷ میں درآمد و برآمد، دفعہ۸ میں ترسیل یا ٹریفکنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’جس کے پاس پانچ کلوگرام اور چھے کلوگرام نارکوٹکس ہوگی، اس کو سزائے موت نہیں دی جائے گی‘‘۔ اس مضحکہ خیز شق سے مَیں اختلاف کرتا ہوں۔

اس وقت اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں ۱۵سال سے لے کر ۳۹سال کی عمر تک ۹۰لاکھ لوگ نشے کا شکار ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق دُنیا کے ۶۲ممالک کی آبادی سے زیادہ پاکستان میں نشے کے عادی افراد پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کو ہائی وے آف دی نارکوٹکس (منشیات فروشی کی شاہراہ)کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں نارکوٹکس کا جو کاروبار ہورہا ہے وہ پاکستان کے دفاع کے بجٹ سے ۸۰گنا زیادہ ہے۔ہمارے بچّے تباہ ہورہے ہیں۔ گلی کوچوں میں نارکوٹکس ہے، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں نارکوٹکس ہے۔ حال ہی میں بہاولپور اسلامیہ یونی ورسٹی کا واقعہ پیش آیا ہے۔اس میں نارکوٹکس برآمد ہوئی ہیں اور سیکس ٹیبلٹس اور ہماری بچیوں کی ہزاروں قابلِ اعتراض تصاویر نکلی ہیں۔ ان حالات میں آپ نے جو لوگ پانچ اور چھ کلوگرام نارکوٹکس رکھتے ہیں، ان کی سزائے موت کو ختم کردیا ہے۔

 مرتضیٰ عباسی صاحب یا ن لیگ سے وابستہ اور وفاقی وزیرقانون و عدل سینیٹر نذیر تارڑ صاحب یہ بتائیں کہ اب تک نارکوٹکس کے جرم میں کتنے لوگوں کو سزائے موت ملی ہے؟ کسی ایک فرد کو بھی اس جرم میں پھانسی کی سزا نہیں ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے نارکوٹکس کا کاروبار پوری قوت اور پورے پھیلائو کے ساتھ چل رہا ہے۔ اسی لیے ہمارے نوجو ان نشے کے عادی بن رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں اور ملک کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ نارکوٹکس ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر مجھے حیرت اور شرمندگی ہورہی ہے کہ آپ منشیات اسمگلروں کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ڈرگ کا کاروبار کرنے والوں اور اُسے امپورٹ ایکسپورٹ کرنے والوں کو امداد فراہم اور راستہ دینا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نشے کا کاروبار کرنے والوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔

نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ

نگران حکومتوں کے اختیارات میں اضافے کے اس بل کی مَیں حمایت نہیں کرسکتا اور حکومت کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ کیا نگران حکومت خیبرپختونخوا غیر جانب دار ہے؟ وہ قطعاً غیر جانب دار نہیں ہے۔ کیا نگران حکومت پنجاب غیرجانب دار ہے؟ وہ قطعاً غیر جانب دار نہیں ہے۔ یہ تو اب بالکل واضح ہوچکا ہے کہ یہ حکومتیں ایک ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ بہت دُکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت ہم آئی ایم ایف کی غلامی میں اس حد تک جکڑ گئے ہیں کہ یہ ہمارے انتخابی قوانین کے اُوپر بھی اثرانداز ہورہا ہے اور ان کی ناراضی اور خوشی کو ہم پیش نظر رکھ رہے ہیں۔

نئی ترامیم آئین کی روح کے خلاف ہیں۔ یہ سب نگران حکومت کے وجود اور فرائض کی روح کے خلاف ہے۔مَیں اس کو ’سافٹ کو‘ کہتا ہوں اور اس کو آیندہ انتخابات کو متنازعہ بنانے کی بنیاد قرار دیتا ہوں، جس کے نتیجے میں اس بات کا امکان ہے کہ نگران حکومت اس کی آڑ میں اپنی مدت کو توسیع دے کر انتخابات کو التوا میں ڈالے۔ اس وقت ملک میں جمہوریت بہت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ میری درخواست ہوگی کہ اس شق کو نکالیں اور آیندہ انتخابات کو متنازع نہ بنائیں اور نگران حکومتوں کو وہ اختیارات نہ دیں جو ان کو دستور میں نہیں دیئے گئے ہیں۔