ستمبر ۲۰۲۳

فہرست مضامین

’ماڈریٹ مسلمانیت‘ کی معاونت کا کھیل

ڈاکٹر تسنیم احمد | ستمبر ۲۰۲۳ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

مغرب کا مقتدر طبقہ مسلم ملکوں میں اپنے مقاصد کو پروان چڑھتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اس غرض کے لیے مغرب اپنے پیمانوں کے مطابق باربار اپنے اس دعوے کو دُہراتا ہے کہ وہ ’مسلم دُنیا کو تاریکی اور قدامت پسندی سے نکال کر ’روشنی‘ کے ماحول میں لانا چاہتا ہے‘۔ ہمارے لیے بہ حیثیت مسلمان یہ دیکھنا لازم ہے کہ مغرب ہماری کیا شکل دیکھنا چاہتا ہے؟ اس وقت ٹونی بلیر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج(ٹی بی انسٹی ٹیوٹ) کی جانب سے دنیا بھر کے مسلم ممالک کے لیے جون ۲۰۲۳ء میں جاری کی گئی ایک تحقیقی و تجزیاتی رپورٹ کا حاصلِ مطالعہ بعنوان:Reclaim Political Islam From the Islamists to Raise Moderate Muslim Voices (ماڈریٹ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرکے انتہاپسند اسلام پسندوں سے سیاسی میدان واپس لیا جائے) پیش نظر ہے۔ مغربی دُنیا کے متعدد ’تھنک ٹینک‘ (مراکز ِ دانش) دُنیا بھر کے ممالک کے پالیسی ساز اور مقتدر لوگوں اور اداروں کی رہ نمائی کے لیے تحقیقی کام کے پردے میں ایسے چھپے ایجنڈے پیش کرتے ہیں۔ آئیے، خالص علمی اور منطقی نقطۂ نظر سے دیکھیں کہ اس زیربحث مطالعے کی نوعیت اور حقیقت کیا ہے؟

سب سے پہلے ہم رپورٹ کا ایک اجمالی خاکہ اور اُس کے ’پیش لفظ‘ سے ماخوذ اس تحقیقی کام کے مقاصد بیان کریں گے، تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ یہ رپورٹ اُن مقاصد کو کتنا پورا کرتی ہے؟ پھر رپورٹ کے تجزیے سے قبل اس دستاویز میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی وضاحت ہوگی، اور دوسرے ابواب کا جائزہ لیا جائے گا ۔ تحقیق کے نتائج (Conclusion) اور پہلے باب (Executive Summary) پر گفتگو آخر میں کریں گے۔

اس رپورٹ کے زیرنظر تجزیے کے مقاصد ہمارے پیش نظر یہ ہیں:

  • اوّل یہ کہ وہ تمام لوگ جو اسلام کے احیاء اور اُس کی نشاتِ ثانیہ کے متمنی ہیں وہ اس بات سے واقف ہوں کہ آج دنیا کی غالب قوتیں ہمیں کس شکل میں دیکھنا چاہتی ہیں؟
  • دوم یہ کہ اقامتِ دین کی علَم بردار تنظیموں کے پالیسی ساز افراد یہ جان سکیں کہ عالمی پالیسی ساز ادارے اور حکام، مختلف مسلم ممالک میں اپنے پروردہ مقامی مقتدر پالیسی سازوں کو کیا رہ نمائی دے رہےہیں؟
  • سوم یہ کہ پاکستانی یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں سماجیات، سیاسیات، تاریخ، قانون، علومِ اسلامیہ، تعلیم، سوشیالوجی اور نفسیات کے اساتذہ دیکھیں کہ مقتدر دنیا کس نوع کے تحقیقی مطالعات کروا رہی ہے اور ہمیں اِس پس منظر میں کن موضوعات کو تحقیق کا موضوع بنانا چاہیے؟
  • چہارم یہ کہ مسلم طلبہ اور طالبات کی تنظیمیں ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی اِس رپورٹ اور ایسی تحریروں کو اپنے اسٹڈی سرکلوں کا موضوع بنائیں، تاکہ نوجوان آنے والے زمانے میں اسلام کو درپیش چیلنجوں سے واقفیت حاصل کر سکیں۔

رپورٹ کا اجمالی خاکہ

رپورٹ کے ’پیش لفظ‘ میں اس کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں: lپہلا حصہ پوری رپورٹ کا ایک خلاصہ (Executive Summary)ہے۔ lدوسرے حصے میں مسلم سیاست کے معقول جواز کی حدود پر گفتگو کی گئی ہے۔lتیسرے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ صرف اُن کا مذہب ہی سیاسی پہلو رکھتا ہے بلکہ کم و بیش تمام بڑے مذاہب میدانِ سیاست میں موجود ہیں۔ l چوتھے حصے میں مسلم دنیا کے اندر مذہب اور سیاست کے درمیان تعاملات (Interactions) کے ایک خاکے (frame)کے ذریعےجائزہ لیا گیا ہے۔ lپانچویں حصے میں مذکورہ خاکے کے ذریعے مسلم ممالک میں مختلف بدلتی حکومتوں کے دورِ اقتدار میں، اسلام اور سیاست کے تعلق کی بدلتی صورتوں کا بیان ہے۔lچھٹا حصہ پالیسی سازوں کو مسلم دنیا کی مطلوبہ تشکیل کے لیے حاصلِ تحقیق (Conclusion) پیش کرتا ہے۔l ساتواں حصہ ایک ضمیمہ ہے، جس میں تاریخی پس منظر کے ساتھ اسلامی سیاست کا ایک مختصرجائزہ خاص نقطۂ نظر سے پیش کیا گیاہے اور اسی پس منظر میں چند اہم سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔

’ٹونی بلیرانسٹی ٹیوٹ رپورٹ‘ کا پیش لفظ تحقیقی مقاصد بیان کرتے ہوئے اُمید ظاہر کرتا ہے: lمسلم انتہا پسند، اسلام کا سیاست کے ساتھ جو تعلق بتاتے ہیں، اُس میں اور ’ماڈریٹ‘ تعلق میں پائے جانے والے فرق کا جائزہ لیا جائے lاسلام کے اصول حکمرانی اورقانون کی فرماں روائی کی جو درست تشریحات ہیں، وہ گہرائی میں جا کر سامنے لائی جائیں l’جہاد‘ کو فقط معاشرتی برائیوں کے خلاف ایک جدوجہد سمجھا اور سمجھایا جائے  lشریعت اسلامی کے قدیم ضابطوں پر اصرار کے بجائے، شریعت کے فلسفے کو اہمیت دی جائے۔ lمسلم معاشروں میں وہ خواہ اکثریتی ہوں یا اقلیتی، دیگر مذاہب کے معاشرتی اور سیاسی عمدہ پہلوؤں کوبھی اہمیت دی جائے اوراُنھیں اختیار کیا جائے۔ lمعاشرے میں مذہب اور مذہبی لوگوں کی حکمرانی (Clerocracy) کی مزاحمت کی جائے۔

اصطلاحات کی وضاحت

ٹی بی انسٹی ٹیوٹ رپورٹ کو اُس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا، جب تک کہ اِس میں استعمال کی گئی اصطلاحات سے شناسائی نہ ہو، جنھیں صحافتی حلقے اور علم سیاسیات کے ماہرین ملتے جلتے اور   بعض اوقات مختلف معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم نے اِن کے وہی معانی و مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جن معانی میں اس رپورٹ کےمصنّفین نے اُنھیں جا بجا استعمال کیا ہے (جن تشریحات سے ہم اتفاق نہیں کر سکتے وہ بعد میں زیرِ گفتگو آئیں گی)۔ چند اصطلاحات کی متعین تعریف رپورٹ میں نظر نہیں آتی، جس کا مطلب یہ ہے کہ مصنّفین نے اُن کو اُنھی معنوں میں لیا ہوگا جس میں وہ معروف ہیں:

۱-         Islamists (اسلام پسند، دین کے علَم بردار): مصنّفین کے خیال میں۱۹۷۰ء سے ’سیاسی اسلام‘ سے وابستہ افراد اور تنظیموں نے دنیا کو تشدد سے دوچار کر رکھا ہے۔ مختلف ناموں سے اِن گروہوں/ تحریکوں کو رپورٹ کے مصنّفین نے ’اسلامسٹس‘ (Islamists) کا نام دیا ہے جنھیں  انتہا پسندی، بنیاد پرستی ، اسلام کے سیاسی اور انقلابی تصور سے جوڑا ہے۔

۲-         Moderate Muslims (اعتدال پسند مسلمان): یہ مسلمان گھروں میں پیدا ہونے والے جدید ذہن کے مسلمان ہیں، جو انقلابی اسلام کو ناپسند کرتے ہیں۔ شریعت سے زیادہ مقاصد شریعت کو اہم سمجھ کر اُس کی نئی توجیہات کرتے ہیں۔ جہاد کو ہر گز کسی طور قتال فی سبیل اللہ کے معنوں میں نہیں لیتے بلکہ معاشرتی خرابیوں کے خلاف جدوجہد ہی کو جہاد جانتے ہیں ۔ اس لیے آزادخیال اور دہریت زدہ مسلمانوں(Liberal-secular Muslims) کا اسلام ہی معتدل اسلام ہے‘‘۔

۳-         Mainstream Muslims (عامۃ الناس مسلم): یہ دنیا بھر کی مردم شماری کے رجسٹروں میں اپنا مذہب، اسلام درج کروانے والےلوگوں کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح  ہے،جو اپنے مذہبِ اسلام کو محض چند عقائد ، عبادات اور رسومات کی حد تک جانتے ہیں۔ اِن کے نزدیک اسلام کا سیاست و حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

۴-         Confessional Muslim States (نام نہاد مسلمان حکومتیں): وہ حکومتیں جو اپنا قومی مذہب اسلام بیان کرتی ہیں۔ عید، بقرعید پر چھٹیاں دیتی ہیں ، جمعہ ادا کرنے کے لیے دفاتر میں وقفہ کرتی ہیں، نکاح ، وراثت اور کفن دفن کے لیے شرعی قوانین کا پاس و لحاظ رکھتی ہیں، لیکن ملک میں باقی تمام قوانین کی تدوین کے لیے انسانی عقل ، اپنےتجربات اور زیادہ تر مغرب کی روایات ہی کو دیکھتی ہیں۔ رپورٹ میں مصر کی حکومت کو اس کی عمدہ مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

۵-         Islamic Religious Nationalism (مسلم مذہبی قومیت): مسلمان اکثریت والے ممالک میں وہ حکومتیں مراد ہیں، جہاں کاروبارِ حکومت میں سیاست اور مذہب کی کم و بیش برابر کی عمل داری ہے۔ کبھی سیاسی مصلحتیں مذہب کو نظرانداز کردیتی ہیں اور کبھی جوشِ مذہب سیاسی مصالح کو (بربنائےسیاسی مفادات ) خاطر میں نہیں لاتا ۔ رپورٹ نے ایسی مسلم قومیت کی حامل حکومتوں کی مثال کے لیے جمہوریہ ترکیہ اور پاکستان کا نام لیا ہے۔

۶-         Islamism (اسلامیت): کمیونزم اور لبرل اِزم کے وزن پر ’اسلام اِزم‘ کی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے۔ ہم نے اشتراکیت، جمہوریت یا لادینیت کے وزن پر اس کا ترجمہ ’اسلامیت‘ کیا ہے۔ رپورٹ مصنّفین کے خیال میں یہ اسلام کی سب سے خطرناک شکل ہے کیونکہ غلبۂ اسلا م کے لیے تشدد کی راہ پر گامزن مسلمان درحقیقت اسلام اِزم کے پیرو کار ہیں ۔ افغانستان میں طالبان کی اور ایران میں امام خمینی کی قائم کردہ حکومتیں اسلام اِزم پر عمل پیرا ہیں، جب کہ القاعدہ اور داعش ، اسلام اِزم کی نمایندہ تنظیمیں ہیں، وغیرہ۔

۷-         Radical Republicanism (اندھی جمہوریت): کچھ مسلم مملکتوں میں اسلام اِزم کے بالکل برعکس اندھی جمہوریت متعارف ہوئی، جس کی کلاسیکل مثال ترکیہ میں مصطفےٰ کمال اور تیونس میں حبیب بورقیبہ نے قائم کی (حالانکہ وہ فوج اور عدلیہ کے ذریعےمسلم معاشرے پر بہیمانہ جبر و تشددکی بدنما مثالیں تھیں) ۔

۸-         Political Islam (سیاسی اسلام): تمام ماہرین علوم سیاسیات کے نزدیک پولیٹیکل اسلام ، اسلام کی ہر وہ تشریح ہے، جو اُسے ایک مذہب کے مقابلے میں ایک دین(طریقِ زندگی) بیان کرتی ہے اور حکومت بنانے اور اُسے اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پولیٹیکل اسلام سے منسوب ان کےنزدیک محمد بن عبدالوہاب، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، سیّدقطب اور ڈاکٹرعلی شریعتی نے دورِ حاضر میں سیاسی اسلام کی تعبیرات مہیا کیں ۔ مستشرقین، شاہ ولی اللہ دہلوی کو اس تشریح کا امام قرار دیتے ہیں۔

۹-         Civil Religion (مہذب مذہب): ایسی مملکت جہاں کامل جمہوریت ہو اور جہاں مذہبی اور لامذہبی افراد کے درمیان اورذاتی سطح پر بھی اور بود و باش کی سطح پر بھی، ایک متوازن رشتہ ہو۔ رپورٹ کے مطابق امریکی صدر بارک اوباما کے دورِ صدارت میں ریاست ہائے متحدہ امریکا اس کی بہترین مثال تھا یا محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان [چہ خوب!]۔(ص ۲۰، ۲۳، ۲۹، ۳۶)

۱۰-      Ummah (امت ِمحمدیہ): اللہ کو یکتا و یگانہ اِلٰہ،محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر اور قرآن مجید کو اللہ کی نازل کردہ کتاب ماننے والےاور مکہ مکرمہ میں واقع مسجد حرام (کعبے) کی  جانب اپنی نمازوں میں رخ کرنے والے اہلِ قبلہ ایک قوم ہیں، خواہ وہ کسی انسانی نسل سے ہوں، کسی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں اور کوئی بھی زبان بولتے اور مسلمانوں کے کسی بھی فقہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں اور چاہے فکروعمل کے لحاظ سے کتنے غیرمعیاری ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ سب ایک عالمی مسلمان قوم ’اُمت‘ کہلاتے ہیں(رپورٹ میں امت کو کہیں متعین [define] نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ اصطلاح پانچ مقامات پر استعمال کی گئی ہے)۔

۱۱-      Khilafa/ Caliphate ( خلافہ یا خلافت):حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اُن کی جگہ پوری امت کی سربراہی کا نظام ’خلافت‘ کہلاتا ہے۔مسلمان ماہرین قانون و شریعہ اس بنیاد پر کہ امت ساری دنیا پر پھیلی ہوئی ہے، پوری امت کے لیے ایک سربراہ /خلیفہ کے ہونے کو آئیڈیل صورت مانتے ہیں، جس کے نامزد نمایندے مختلف علاقوں/مملکتوں میں اُس کے گورنروں کی حیثیت سے حکمرانی کریں، خصوصاً اُن علاقوں میں جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی  ہے۔ ٹی بی رپورٹ کے مصنّفین ایک ایسی مرکزی سربراہی /خلافت کے سخت مخالف ہیں اور تجویز کرتے ہیں کہ ایسی 'خلافت کے احیاء کے خیال، تجویز اور تدبیر کی سختی سے مزاحمت کی جائے۔ رپورٹ مصنّفین کے نزدیک جدید دور میں قائم علاقائی مملکتوں میں اچھے طریق حکومت (Governance) کا نام ہی خلافت ہے، جہاں مختلف علاقوں میں وہاں کے عوام جمہوری طریقے سے حکمران خود منتخب کریں، نہ کہ مذہبی حضرات کی حکومت (Clerocracy) کا فرسودہ خیال سوچا جائے۔ یہ جملہ دیکھیے:

Attempts to insist on khilafa as a resurrection of medieval and obsolete caliphates or Islamist states must be uncompro -misingly resisted. (p 9) 

۱۲-      Sharia (شریعت): رپورٹ کے مصنّفین کے نزدیک شریعت قوانین اور اخلاقی ضابطوں کا نام ہے، جن کی دورِ جدید میں مقاصد شریعہ کو پیش نظر رکھ کر تدوینِ نو کی ضرورت ہے۔ مصنّفین نے یہ خیال پُر زور انداز میں پیش کیا ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں فقہا نے جو کچھ کام کیا، وہ اب دقیانوسی ہے، جس کی تدوینِ نو ضروری ہے۔ مسلمانوں کا قدیم مرتبۂ شریعت پر اصرار ایک غیردانش مندانہ مطالبہ ہے، جس کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ رپورٹ کا یہ جملہ ملاحظہ فرمایئے:

Policymakers must be clear that the   Sharia in Islam refers to ethics.Medieval details of sharia must be modernised by drawing upon centuries of sophisticated jurisprudence and the intrinsic diversity of Muslim interpretations that have included dozens of schools of law.Attempts to insist on a single fundamentalist, literalist, mindless interpretation of Sharia must be resisted at all costs. (p 37)

۱۳-      Jihad ( جہاد): رپورٹ کے مطابق ’جہاد‘ اُس جدوجہد کا نام ہے، جو کوئی اپنے نفس یا معاشرے کو برائیوں سے روکنے کے لیے کرتا ہے۔ کسی مسلم قومی حکومت کی مسلح افواج کو جنگی اقدام (قتال) کا حکم یا اجازت انتہائی ناگزیر حالات میں اپنے دفاع ہی کے لیے ممکن ہے، وہ بھی جنیوا کنونشن اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں کی عائد کردہ حدود میں رہتے ہوئے (ص ۹)۔

۱۴-      Clerocracy ( ملّائیت): شفاف عام انتخابات کے بغیر غیر جمہوری طریقوں خصوصا ً طاقت کے استعمال سے کسی مذہبی گروہ کا اللہ کے نمایندے بن کر اقتدار سنبھالتے ہوئے اپنی فقہ جسے وہ الہامی قوانین سمجھیں،نافذ کرنا ملّائیت اور قابلِ نفرت فعل ہے۔ (ایران اور افغانستان کو اس زمرے میں شمار کیا جاتا ہے)۔

مسلم سیاست کے لیے جواز

 رپورٹ کا دوسرا باب: مسلم سیاست کے لیے کتنا جواز ہے؟ (What Is the Legitimate Space for Muslim Politics??)پر مشتمل ہے۔

مصنّفین نے اس باب میں دو اصطلاحات Islamism اور Political Islam کی متعدد تشریحات پیش کی ہیں اور اِن اصطلاحات کی تشریحات سے خلط مبحث پیدا کیا ہے، اور اِن اصطلاحات سے انتہا پسند/ اسلامسٹس کی اجارہ داری پر پریشانی کا اظہار کیا ہے (ص ۱۲،۱۳)۔ رپورٹ مصنّفین کا موقف یہ ہے کہ انتہا پسند اسلامسٹوں نے ، اسلام کے سیاسی نظام کی وکالت سنبھال لی ہے اور وہ پولیٹیکل اسلام یا مسلم سیاست کے علَم بردار یا اجارہ دار بن کر سامنے آ گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری مسلم دنیا میں ماڈریٹ[ مناسب اور عمدہ] اسلام علمِ سیاست اور میدانِ سیاست میں جگہ پائے۔

 اپنی بات کی وضاحت کے لیے وہ متعدد اسکالرز کے حوالے پیش کرتے ہیں، جن سے یہ اصطلاحات مزید اُلجھائو کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس لیے بھی کہ جتنے ماخذات سے انھوں نے رہنمائی حاصل کی ہے وہ سبھی غیر مسلم اسکالرز کے ہیں، جنھوں نے مسلم سیاست کو اندر سے نہیں بلکہ باہر ہی سے دیکھا ہے ۔ مغربی اسکالر کا المیہ یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے کسی منفرد موضوع یا معاملے کو توحید، آخرت، رسالت ِ محمدیؐ اور قرآن مجید کی اتھارٹی کے فریم ورک میں رکھے بغیر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام معاملات میں تعلیمات اور مسلمانوں کا روّیہ اُن کے ایمانیات کےفریم ورک سے عبارت ہوتا ہے۔ مغربی اسکالر جب اس پہلو کو نظرانداز کرکے کسی معاملے میں، مسلم معاشروں میں حرکیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو خود اپنی تشریحات اور اختراعی اصطلاحات سے عاجز آ جاتے ہیں اور اِن کی باتیں مضحکہ خیز بن جاتی ہیں۔ مثلاً پیشِ نظر رپورٹ دیکھیے:

 To say that we are dealing with an instance of political Islam would be to suggest that there are times when Islam is not political (that it -is sometimes "just" religious). (p 13)

یعنی یہ کہنا کہ ہم سیاسی اسلام کی مثال سے نمٹ رہے ہیں، یہ تجویز کرنا ہو گا کہ بعض اوقات اسلام سیاسی نہیں ہوتا ہے (یعنی بعض اوقات یہ ’صرف‘ مذہبی ہوتا ہے) ۔

اس پیچیدہ صورتِ حال سے نکلنے کا ٹی بی انسٹی ٹیوٹ نے یہ راستہ نکالا ہے کہ مسلم ریاستوں میں مسلم سیاست کے مظاہرکو فلپ گورسکی کے پیش کردہ مذہب اور سیاست کےمختلف تعاملات کو ایک فریم میں نصب کیا جائے۔رپورٹ مصنّفین نے گورسکی کے جس فریم ورک کو استعمال کر کے مسلم سیاست کی وضاحت کی ہے، اُس کا تجزیہ آگے کریں گے۔

رپورٹ کا تیسرا باب: [اسلام اور سیاست کے درمیان حرکیات] کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، غیر مسلم ممالک میں بھی مذہب اور سیاست مل کر متحرک ہیں (Not a Unique Case Religion-Politics Dynamic in Non-Muslim Countries)۔ اس عنوان کے تحت رپورٹ مصنّفین یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام اور سیاست کا تعلق کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ تمام مذاہب کا سیاست سے ایک تعلق ہے ۔اس باب کا عنوان بظاہر اس رپورٹ کے عنوان سے متعلق نہیں ہے ، لیکن مصنّفین نے اس عنوان پر اپنی گفتگو کو ہوشیاری سے پیش کر کے کچھ ایسے نادرنتائج اخذ کیے ہیں، جن پر گفتگو کی جانی چاہیے۔ یہاں ہم اسلام کے علاوہ دنیا کے چار بڑے مذاہب اور اُن کے سیاست سے تعلق کا خلاصہ رپورٹ کے مطابق پیش کرتے ہیں:

  • عیسائیت : یورپی ممالک کی سیاست میں عیسائی عقیدہ نظریاتی طور پر موجود ہے۔ پورے یورپ میں کرسچن ڈیموکریٹک پارٹیاں ہیں۔ ان کے ممبر زیادہ تر عیسائی ہیں مگر عوام میں ایمان کی روز افزوں کمزوری کے باعث اُن کی پالیسیاں بھی تیزی سے سیکولر ہوتی جا رہی ہیں اور نوبت یہ ہے کہ وہ اللہ کے وجود کے بارے میں متذبذب اور لامذہب لوگوں کا بھی اپنی پارٹیوں میں خیرمقدم کرتے ہیں۔ اگرچہ برطانیہ زیادہ سیکولر ہے، لیکن عیسائیت ریاست کا مذہب ہے۔(ص۱۴)
  • بودھ مت :سری لنکا اور میانمار بودھ مت ماننے والوں کے جنوبی ایشیا میں دو ممالک ہیں۔ یہاں مذہب اور سیاست دوش بدوش ہیں۔ مذہب کے عمل دخل کے لیے یہ ممالک عیسائیت میں ویٹی کن اور اسلام میں ایران کی شیعہ حکومت کی مانند ہیں۔ سری لنکا کے اراکین پارلیمنٹ ایسے قوانین کو فروغ دیتے ہیں، جو تامل اور مسلمان اقلیتوں کو دوسرے درجے کی قوم بناتے ہیں۔ میانمار میں تو بودھ مذہب نے مسلمانوں کے خلاف اجتماعی تشدد کی راہ اختیار کرلی ہے اور روہنگیا کے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہوا، اُسے متعدد ممالک نے نسل کشی کے ضمن میں شمار کیا ہے۔ (ص۱۵)
  • ہندو مت :بھارت میں اُس کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے ہندستانی قوم پرستی کا ایک سیکولر برانڈ متعارف کرایا، جو تمام ہندستانی شہریوں کو بلا تفریقِ نسل و مذہب برابری کا درجہ دیتا تھا۔اِس سیکولرازم نے اگرچہ سیاست کو مذہب پر ترجیح دی، لیکن اس کا مقصد سیاست اور مذہب کو بالکل الگ بھی نہیں کرنا تھا۔ کٹر ہندو نسل پرست پارٹی (BJP) ۱۹۹۰ء کے عشرے کے آخر تک پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرکے بھارتی سیکولرازم کو چیلنج کر رہی ہے۔ (ص۱۶)
  • یہودیت :اسرائیل علانیہ طور پر دنیا کی واحد یہودی مذہبی ریاست ہے، تاہم یہودی آبادی ایمان کی کمزوری کی بنا پر تیزی سے سیکولر ہونے کی راہ پر ہے۔ اسرائیلی ریاست بین الاقوامی برادری کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ اسرائیل ایک تھیوکریسی نہیں بنے گا مگر اس اعلان کے ساتھ ہی ساتھ قدامت پسند شہریوں سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ ریاست یہودی روایت کو ترک نہیں کرے گی۔سبت، عائلی قانون اور الٹرا آرتھوڈوکسی سبھی یہودی روایات اور قانون کے مطابق ہوں گے۔(ص۱۷)

اس طرح رپورٹ مصنّفین اِن چار مذاہب کے سیاست سے تعلق کو بیان کرنے کے بعد سوال اُٹھاتے ہیں کہ ویٹی کن، سعودی عرب، بھارت، اسرائیل اور ایران کے مذہبی مراکز کو اپنے ماننے والوں پر اپنے اثرو رسوخ کو کس طرح استعمال کرنا چاہیے؟ تفرقہ انگیزی ، تنگ نظری کے لیے یا انسانوں کے درمیان اتحاد اور عالم گیریت کے لیے؟(ص۱۸)۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِن مراکز کو اپنے ماننے والوں کو نیکی اور دوسروں کے ساتھ ضرور امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کی ہدایت کرنی چاہیے۔

اسی طرح مصنّفین اس امرِ واقعہ کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں: ’’سعودی عرب، وہابیت اور اسلامیت کی تنگ تشریح سے ہٹ کر اب اسلام کی ایک جامع اور عالم گیر تشریح کی طرف منتقل ہورہا ہے‘‘(ص۱۸، ۴۱)۔ہم سعودی عرب میں پروان چڑھنے والی اس تبدیلی پر رپورٹ مصنّفین سے اتفاق نہیں کرتے۔در حقیقت سعودی عرب ’وہابیت سے اسلام کی عالم گیر تشریح کی جانب‘ نہیں بلکہ مغرب کی حیا باختہ تہذیب پر فریفتہ عناصر کی خوشنودی کی خاطر، اسلامی تمدن سے مغربی تمدن کی جانب لڑھک رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں حج و عمرہ کے لیے مغربی تہذیب سے اجنبیت محسوس نہیں کریں گے۔ یوں تہذیب ِمغرب کے مزید فروغ  میں مرکزِ اسلام بھی ممد و معاون ہو رہا ہے۔

مصنّفین اس باب کے اختتام پر دو اور معاملات چھیڑتے ہیں: پہلے مسئلے کو رپورٹ یوں بیان کرتی ہے کہ قرآن حکیم سے استدلال کرتے ہوئے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ اللہ کا واقعی منشاء یہ ہے، تو یہ فیصلہ کیسے ہو کہ اللہ کا واقعی منشاء وہی ہے جو بیان کیا جا رہا ہے؟ خوارج کی شورشوں کے دور سے لے کر آج تک،پُرتشدد انتہا پسندوں کی طرف سےیہی ایک بات کہی جاتی ہے، کہ ’’فیصلہ صرف اللہ کامانا جائے گا‘‘۔ القاعدہ، داعش، طالبان اور ایران کے مذہبی رہنما سب نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صرف قرآن کے فہم کی بنیاد پر اللہ کے حکم کو جانتے ہیں (ص۱۸،۱۹)۔ رپورٹ نے اس طرح بظاہر ایک ’معصوم‘ سا سوال اُٹھایا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ الہامی کتابیں صرف تلاوت و قرأت کے لیے ہیں۔ ان سے اللہ کی مرضی و منشا معلوم کرنا بندوں کا کام نہیں یا اُن کے بس کی بات نہیں! پھر رپورٹ اس سے دوسرا مطلب یہ بہم پہنچاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ، نعوذُ باللہ اس بات پر قادر ہی نہیں تھا کہ اپنی کتابیں اپنے بندوں کے لیے قابلِ فہم زبان میں نازل کر سکتا، اور صرف شرپسند ہی اُن کتابوں سے استفادہ کرکے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، نعوذباللہ۔ ٹی بی انسٹی ٹیوٹ رپورٹ کے مصنّفین کیا یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اس رپورٹ کے معانی، مفاہیم اور اس کے ذریعے پالیسی میکرز کو منتقل کیا جانے والا پیغام کوئی انسان یا پالیسی میکر سمجھ ہی نہیں سکتا سوائے خودمصنّفین کے!

دوسرا مسئلہ اس باب کے ایک اجمالی تاثر کا ہے، اور وہ یہ کہ’’ اسلام اگر سیاست سے کوئی تعلق رکھتا ہے تو کیا ہوا، سارے ہی مذاہب سیاست سے تعلق رکھتے ہیں!‘‘ سوال یہ ہے کہ مصنّفین کو اتنی جانی پہچانی حقیقت کو سمجھانے کے لیے ایک باب کی کیا ضرورت تھی؟ بات دراصل یہ ہے کہ بادشاہتوں، موقع پرستوں ، ظالم و جابر سپہ سالاروں اور پھر آخر میں سیکولرازم نے آ کر مذہب کو سیاست و حکومت کے دائرے سے نکال کر اُسے صرف چند رسومات کا ایک ادارہ بنا دیا ہے۔موجودہ مابعد سیکولرزم دور میں مذہب کی حیثیت کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔

 مذہب کے معاشرے میں موجود اثر و رسوخ سے فائدہ اُٹھانے کے لیے سیکولر حضرات نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے نظام سیاست میں ایک معمولی قابلِ برداشت حد تک اداراتی حیثیت دینےکے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ اس معمولی حیثیت کی بنیاد پر اسلام سے یہ پوچھا جائے کہ ’سیاست سے تعلق کے معاملے میں اُس کی کیا انفرادیت ہے ؟‘ یہ طرزِ فکر اپنی جگہ بڑی زیادتی اور جہالت پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ اسلام ایک کامل دین اور ایک اکائی ہے۔ یہ جتنا عام معنوں میں مذہبی ہے،اُتنا ہی زندگی کے ہر دائرےکو سمیٹتا ہوا سیاسی و عسکری اور معاشی و معاشرتی اور قانونی و بین الاقوامی بھی ہے ۔ اُس کا عیسائیت اور یہودیت کی مانند سیاست میں دخل چند اسکولوں کے لیے فنڈنگ ، چند عبادت گاہوں کی سرپرستی ، علما کے لیے چند مناصب اور کچھ ایّام کی تقدیس پر چھٹی اور کام بند رکھنے کا نام نہیں ہے، اور نہ اس کی سیاست کا محور بھارت اور میانمار کی مانند دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی نسل کشی ہے یا اُن کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنا ہے۔ جہاں تک چند گروہوں کی دہشت گردی کا تعلق ہے، اُس کو اگر اسلام کی سیاست کہا جائے تو یہ معلومات اور فہم کی غلطی ہے۔

یہ رپورٹ مسلمانوں کو بتانا چاہتی ہے کہ سیاسی اسلام بذات خود کوئی مسئلہ نہیں ہے، جس طرح پوپ کی سیاسی عیسائیت، صیہونیت کی سیاسی یہودیت اور ہندستان کا سیاسی ہندو ازم اپنے آپ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ مذہب کی سیاست کرنے کا ہے (ص۱۹)۔ یہ کیسا تلخ مذاق ہے کہ صیہونیت اور ہندو ازم کے نام پر اسرائیل اور بھارت میں سیاست کرنے نے مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ سوائے اس رپورٹ کے مصنّفین کے، کس صاحب ِ عقل و دانش پر آشکار نہیں ہیں؟

موجودہ مابعد سیکولر دور میں مذہب عوامی حلقوں میں واپس لَوٹ رہا ہے، جس میں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وہ عقلی بنیادوں پر شہریوں کو اپنی روزمرہ کی سیاست میں مذہب کے نظامِ اقدار سے متاثر ہونے کی اجازت دیتا ہے(ص۱۹)۔ مگر اس کے مقابلے میں اسلام صرف متاثر ہونے کی نہیں بلکہ اہلِ ایمان سے کاملاً ایمان و اسلام میں داخل ہو جانے کا طالب ہے۔ معاملے کی یہی وہ نزاکت ہے جو رپورٹ کے مصنّفین کی نظروں سے اوجھل ہے۔

مسلم ممالک پرگورسکی فریم کا اطلاق

رپورٹ کا چوتھا باب مسلم ممالک میں مذہب اور سیاست کے درمیان رشتوں کی نوعیت (Dynamics Between Religion and Politics in the Muslim World) پر مبنی ہے۔

اس رپورٹ کا مرکزی نکتہ ییل یونی ورسٹی (Yale University) میں سماجیات کے پروفیسر فلپ گورسکی (Philip Gorski) کے ایک تجزیاتی فریم (دیکھیے پچھلا صفحہ)کا موجودہ دور کی مسلم حکومتوں پر اطلاق ہے۔ ’گورسکی فریم ورک‘ جسے اُس نے مذہب اور سیاست کے باہمی تعاملات کے مختلف اُونچے نیچے درجوں کا مطالعہ کرنے کے لیے تجویز کیا تھا، اُسے رپورٹ کے مصنّفوں نے مسلم ممالک کی مثالوں سے رنگ بھر کے پیش کیا ہے۔ ہم نے ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں دیے گئے فارم کو اردو میں منتقل کرتے ہوئے کہیں اصطلاحات کا محض ترجمہ کیا ہے اور کہیں زیادہ برمحل نام دیے ہیں جو یہاں دیئے گئے جدول میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

 

مسلم ممالک میں مذہب  اور سیاست کے درمیان رشتوں کی نوعیت

اس فریم ورک میں مذہب اور سیاست کے تعامل کے  نو(۹)گروپس تجویز کیے گئے ہیں: بنیادی گروپس تین ہیں، جو عمودی کالموں میں پیش کیے گئے ہیں:

  • مذہب اور سیاست جدا جدا
  • کچھ معاملات میں ملاپ اور کچھ جدا جدا
  • مذہب اور سیاست کی کامل یکجائی۔ اِن تینوں بنیادی گروپس کے ہر گروپ کے تین مزید ذیلی گروپس ہیں:
    • سیاست کی مذہب پر برتری
    • سیاست اور مذہب برابر
    • مذہب کو سیاست پر فوقیت۔ یوں تین بنیادی گروپس ہیں اور ہر بنیادی گروپ کے تین ذیلی گروپ، اِس طرح کل ذیلی گروپس نو(۹) ہو گئے۔

ٹی بی انسٹی ٹیوٹ رپورٹ کے مصنّفین کی نظروں میں پاکستان، جناح صاحب کے زیرِسایہ ۱۹۴۷ء میں مہذب اسلامی حکومت (civil religious،گورسکی فریم میں پانچویں نمبر پر) تھا۔ پھر ۱۹۵۶ء میں اعترافی اسلامی بن گیا اور ۲۰۲۱ء میں عمران خان کے دورِحکومت میں مذہبی قومی حکومت بنا اور وزارتِ عظمیٰ کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ خالی خولی اعترافی رہ گیا، کیا اچھوتی بات ہے واہ! بالکل اُسی طرح جیسے مصر کے صدر محمدمرسی کی مذہبی قومی مملکت، جنرل سیسی کے آتے ہی اعترافی بن گئی! مصنّفین کی اچھوتی دیانت، جناح صاحب کی پاکستان میں سول حکومت صرف اور صرف اُن کی ایک تقریرتک محدود ہے۔یہ تقریرریکارڈ پر موجود اُن درجنوں تقاریر کو کالعدم نہیں کر سکتی، جو اُنھوں نے تحریک ِپاکستان کے مقاصد بیان کرنے کے لیےغیر منقسم انڈیا میں کی تھیں، جو مذہبی قومی حکومت بنانے کے خواب دکھاتی تھیں۔

پاکستان ۱۹۵۶ء کے اسلامی دستور کے ذریعے اعترافی یا واضح الفاظ میں محض نام کی (دوسرے نمبر پر)، اسلامی مملکت نہیں بنا بلکہ ایک مذہبی قومی حکومت(چوتھے نمبر پر) بناتھا۔ ٹی بی رپورٹ کے مصنّفین کو چاہیے کہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقدمے ’قراردادِ مقاصد‘ (Objectives Resolution)کا مطالعہ کر کے بتائیں کہ گورسکی فریم میں پاکستان کی کیا جگہ بنتی ہے؟ پاکستان پر ایک کے بعد ایک ایسا طبقہ مسلط رہا، جو کسی نہ کسی طورقرآن، اسلام، مساواتِ محمدی اور ریاست مدینہ کا نام لیتا رہا ، مگر محض باتوں اور نعروں کی حد تک، اس نے اسلام کو کہیں پنپنے نہیں دیا!

پانچویں باب میں جہاں تیونس ، مصر اورمشرقِ وسطیٰ کی تیل کی دولت سے مالا مال مسلم سلطنتوں کے اس فریم میں درجات کی تبدیلیوں کو بیان کیا گیا ہے، وہ بھی اسی نوع کےفریبِ نظر اور اسی نوعیت کی پریشان فکری کے سوا کچھ نہیں۔

یہاں تک رپورٹ کے اُس بنیادی حصے اور نکات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے، جن کی بنیاد پر پہلا باب خصوصی خلاصہ (Executive Summary) ہے اور چھٹے باب میں نتائجِ تحقیق (Conclusion) پیش کیے گئے ہیں۔ اگلے حصے میں ان شاء اللہ ان دونوں ابواب کا تنقیدی تجزیہ کیا جائے گا۔(جاری)