ڈاکٹر تسنیم احمد


قرآن مجید، اللہ کی کتاب ہونے کے ساتھ زمین کے اوپر خالقِ کائنات کی نشانی ہے۔ اس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مخلوق نہیں بلکہ خالق کا کلام ہے۔اس سے مراد اس کا کاغذ، سیاہی یا اس کی جلدنہیں بلکہ اس کی روح ہے، جو ایک غیر مرئی کلام ہے۔خود مالکِ کائنات اسے کفار کے اس اعتراض:’’یہ اکٹھا کیوں نہیں اتر تا؟ کہیں اس کو بیان کرنے والا سوچ سوچ کر موقع محل کے لحاظ سے کچھ دل سے تو نہیں گھڑلیتا ہے (نعوذ باللہ)‘‘، کے جواب میں یہ فرماتا ہے کہ’’ اے نبیؐ، یہ ہم ہیں جو اسے تم پر تھوڑا،تھوڑا بتدریج ( نجمًا، نجمًا) اتار رہے ہیں‘‘۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِيْلًا۝۲۳ۚ (الدھر ۷۶:۲۳)، خیال رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والے کلامِ الٰہی کا یہ نامِ نامی نزولِ قرآن کے دوران پہلی مرتبہ سورئہ دھر میں آیا جو نبوت کے پانچویں برس میں نازل ہوئی۔ جب سہ سالہ خاموش دعوتی دور کے بعد ہر چوک، بازار اور میلے میں ایمان کی دعوت دی جارہی تھی ۔

lکتابُ اللہ کو اللہ تعالٰی کے عطا کردہ نام: اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اس کلام کا نام بھی بتا دیا جائے کہ اہلِ مکہ’ توراۃ اور 'انجیل‘ کے ناموں سے تو واقف تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل حسرت و یا س سے کہا کرتے تھے کہ ’کاش! ہمارے پاس بھی کوئی آسمانی کتاب آتی تو ہم اُس پر عمل کرتے اور ہدایت یاب ہوتے‘۔ کلام پاک میں خود اس کتاب کے الْقُرْاٰنَ تَنْزِيْلًا سے ماسوامزید چھ (۶) نام آئے ہیں اور یہ تمام نام مکی سورتوں ہی میں وارد ہوئے ہیں۔

مدینے پہنچنے سے قبل سارے حجاز میں کتابُ اللہ کی حیثیت معلوم، معروف اور مستحکم ہو گئی تھی۔ اس کتاب کو جب نخلہ کے مقام پر جنوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں تلاوت کرتے ہوئے سُنا تو کہا: اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَـجَــبًا۝۱ۙ ( الجن۷۲:۱)، یعنی یہ قراءت کی جانے والی، تلاوت کی جانے والی یا پڑھی جانے والی بے مثال اور حیرت انگیز چیز ہے۔اسے سورئہ قٓ میں وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ ،انتہائی بزرگی والا کہا گیا، درحقیقت خالق کائنات کی بزرگی اِس کے ساتھ ملحق ہے۔ سورئہ طٰہٰ میں قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا کہا گیا۔ سورئہ یٰسٓ میں اسے حکمت سے بھرپور ہونے اور اپنے بنیادی معانی اور مفاہیم کو باوضاحت کھول کربیان کرنے والی نصیحتوں سے بھر پور ہونے کی بنا پر قُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ اور ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ کے ناموں سے پکارا گیا۔ سنہ ۶ نبوی میں اہلِ شہر پر اتمامِ حجت کرتی ہوئی سورۂ کافرون کے بعد سورئہ واقعہ میں بڑا فیض بخش بتانے کے لیےاسے قُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ   کہا گیا کہ نادانو، جس چیز کو تم ٹھکرا رہے ہو، وہ تو انتہائی فیض بخش و فیض رساں ہے۔ اپنے کلام کو اللہ تعالیٰ نےآخری مرتبہ ۱۲ویں سنہ نبوت میں، جس برس معراج ہوئی قُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ کےنام سے سورئہ فجر میں پکارکے اس کی شان و عظمت کو بیان کیا۔ کسی مدنی سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب کو اِن ناموں سے ماسوا کسی دیگر نام سے نہیں پکارا۔

قرآن مجید کے ۲۳ سالہ دورِ نزول میں لفظ ’قرآن‘ ۶۳ مرتبہ مکہ میں نازل ہونے والے قرآن میں اور ۷ مرتبہ مدینہ میں اُترنے والے قرآن میں وارد ہوا ہے۔ ہر مرتبہ یہ اُس کے مقاصدِ نزول، اُس کی برکات، اُس کے مقام اور اس کے ساتھ انسان اور اہلِ ایمان کے تعلق اور پسندیدہ روّیے کو بیان کرتا ہے۔ یہ حالتِ رفعی، نصبی و جرّی، تینوں صورتوں میں آیا۔ باطل کے ساتھ کش مکش اور آخر کار دین کے کامل اور غالب ہوجانے کے مختلف مراحل میں اس کا بیان دینِ اسلام کے دعوتی، تربیتی اورانقلابی تینوں پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اقامت ِ دین کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد اور کارِ نبوت کی تکمیل کی تاریخی ترتیب پر اس لفظ کے استعمال پر تدبر، تفہیمِ دین کی راہیں کشادہ کرتاہے۔

یہاں پر ۲۳ برسوں کے مختلف مراحل میں اس دور کےاحوال سے مناسبت رکھنے والی کچھ نمائندہ مکّی آیات پر گفتگو سے قارئین کو لفظ ’قرآن‘ کو سمونے والی آیات پر غوروتدبر سے قرآن فہمی اور اُس کے مقاصدِ نزول سے عمیق آگہی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ مختصر مضمون میں تمام ۷۰ آیات پر روشنی ڈالنا مشکل ہے۔ تاہم ہر برس کی ایک دو آیات کو اُس زمانے اور اُس وقت کے احوال میں قرآن ، جو کچھ خود اپنے بارے میں بیان کرتا ہے ہم پیش کرتے ہیں، جن کا بنیادی اور مرکزی فہم ہر سننے والے کو حاصل کرنا آسان ہوتا تھا۔

حیاتِ طیّبہ کے دوسرے برس، سورئہ قیامہ میں فرمایا گیا: اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۝۱۷ۚۖ  فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۝۱۸ۚ  ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗ۝۱۹ۭ (القیامۃ ۷۵:۱۷ -۱۹) کہ اے نبیؐ، نزولِ قرآن کے موقع پر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اسے تمھارے ذہن نشین کر ا دیں(جَمْعَهٗ) اور تم سے پڑھوا دیں (قُرْاٰنَهٗ)۔ اسے یاد کرنے کے لیے کسی تردّد کی ضرورت نہیں۔ پس، جب جبریلؑ امین اسے تمھیں سنا رہے(قَرَاْنٰهُ) ہوں تو تم اس قراءت کا تتبع کرو، یعنی توجہ سے سنو۔ رہا اس کی تشریح و تفسیر سمجھنے (بَیَانَهٗ) کے لیے بھی کسی پریشانی کا کیا معاملہ، یہ تو ہمارے ذِمّے ہے۔

یہاں ذرا ایک لمحے کے لیے رُک کر یہ غور کریں کہ رسول ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہنِ مبارک پرقرآن کی تشریح و تفسیر اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام اللہ کی جانب سے  آپؐ پر کسی خیال و مضمون کا القا، وحی کی شکل میں ہی ممکن ہے، جسے ہم ’وحی غیر متلو‘ کہتے ہیں۔  پس معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ’وحی متلو‘ (قرآنِ مجید) کے علاوہ بھی وحی کا ایک بڑا خزانہ اتارا گیا، جس کے ذریعے آپؐ نے قرآن مجید کی قولی اور عملی تفسیر دنیا کے سامنے پیش کی۔ آخر کس نادانی سے منکرینِ اسلام، سنّت کی اہمیت و وجوب کا انکار کرتے ہیں۔

حیاتِ طیّبہ کے چوتھے برس میں، جب مکّہ شہر والےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا اپنے لیڈروں کی پیروی میں مذاق اُڑا رہے تھے اور بات کو مان کر نہ دےرہے تھےاور نہ بات کوسمجھنا ہی چاہ رہے تھے، تو ایسی صورتِ حال میں سورئہ سبا میں فرمایا گیا: وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ۝۰ۭ وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚۖ يَرْجِــعُ بَعْضُہُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ۝۰ۚ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ۝۳۱(السبا ۳۴:۳۱) ’’کافر کہتے ہیں کہ ’’ہم ہرگز اس قرآن کو نہ تسلیم کریں گے اور نہ اِس سے پہلے آئی ہوئی کسی کتاب کو‘‘، کاش! تم ان کا حال اس وقت(روزِ محشر) دیکھو جب یہ ظالم مشرک اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہوں گے۔ اس وقت یہ ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے، جو پیچھے چلنے والےلوگ (عوام کالانعام)دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے، وہ بڑے بننے والے اپنے لیڈروں سے کہیں گے کہ ’’ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے‘‘۔

پانچویں برس میں، جب مومنین پرایمان لانے کے جرم میں زندگی تنگ کردی گئی تھی، جسمانی اذیتوں اور معاشرتی پابندیاں اُن کا مقدّر بن رہی تھیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی جانب سے انکار و ناقدری پر بہت افسردہ تھے۔ سورئہ قٓ میں فرمایا گیا: نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِجَبَّارٍ ۝۰ ۣ  فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ۝۴۵ۧ  (قٓ۵۰:۴۵)، ’’اے ہمارے پیغمبرؐ، ہمیں معلوم ہے، جو باتیں تمھاری دعوت کے جواب میں یہ بناتے ہیں۔ سنو، تم اِن پر زور زبردستی کرکے اسلام میں داخل کر دینے والے داروغہ بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو، تمھارا کام بس اتنا ہے کہ جو ہماری تنبیہات سے ڈرتا ہو اُسےقرآن مجید کے ذریعے نصیحت کرو ‘‘۔

پانچویں برس کے وسط میں اپنے دین و ایمان کو بچانے اور دیارِ غیر میں اسلام کی دعوت  پہنچانے کی غرض سے اللہ تعالیٰ کی مشیت مسلمانوں کے ایک گروہ کو ہجرت کرا کے قریب کی مسیحی مملکت حبشہ کی جانب لے گئی۔ قریش کی جانب سے اِن مسلمانوں کو واپس مکہ لانے کی سفارتیں اور تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور وہاں کے سربراہِ مملکت نجاشی نے مسلمان مہاجرین کو عزّت و اکرام دیا۔ اس کے نتیجے میں اِس خوف سے کہ مکہ میں باقی رہ جانے والے مسلمان بھی کہیں وہاں نہ چلے جائیں اور پھر اُن کی مملکت مسلمان ہو کر اِن پر حملہ آور نہ ہو جائے، وہ مسلمانوں کو مزید تنگ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تُل گئے۔ اسی برس کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیّدناحمزہ ﷛ بھی ایمان لے آئے۔

اِن کے ایمان لانے کے چند ہی روز بعد چھٹے برس کا آغاز ہو گیا اور عمرؓ بن الخطاب ایمان لے آئے۔یہ چھٹا برس ہے اور اہلِ ایمان کے لیے دورِ تشدد اختتام کی جانب ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اہلِ ایمان کو بتایا جاتا ہے:طٰسۗ۝۰ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ۝۱ۙ ہُدًى وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ۝۲ۙ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ يُوْقِنُوْنَ۝۳ (النمل ۲۷:۱ -۳)۔ فرمایا جا رہا ہےکہ ’’طٰسٓ، یہ آیات ہیں قرآن اور کتابِ مبین کی، ہدایت اور بشارت اُن ایمان لانے والوں کے لیے جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پُورا یقین رکھتے ہیں‘‘۔ قرآن اعلان کر رہا ہے کہ اپنے معانی بیان کرنے میں وہ ایک کھلی کتاب، كِتَابٍ مُّبِيْنٍ ہے، ایک عام قاری جو اسے اخلاص کے ساتھ مطالعہ کرکےسمجھنا چاہے اُسے یہ اپنا مرکزی خیال بہ آسانی مہیا کرتی ہے۔

آنے والے دنوں میں، آٹھویں برس، قرآن نے اپنے بارے میں یہی بات تکرار کے ساتھ بتائی: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۴۰ۧ (القمر۵۴: ۴۰ )، یعنی تحقیق ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے بڑا آسان اور موزوں بنایا ہے، پس ہے کوئی جو اس سے نصیحت حاصل کرے۔

اس مقام پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ رسالت کا ساتواں، آٹھواں اور نواں برس وہ زمانہ تھا،جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے بنو ہاشم کو آپؐ کی پشت پناہی کے ’جرم‘ میں سارے قریش کے مقاطعے کا سامنا تھا، نہ کوئی بات کرتا تھا، نہ اِن سے خرید و فروخت ، نہ شادی بیاہ۔    اِن حالات میں ابو طالب، سردارِ بنو ہاشم اپنے پورے قبیلے کو لے کر آبادی سے باہر کی جانب قبیلے کے ایک قطعۂ زمین، شعبِ بنو ہاشم پر جا کر قیام پذیر ہو گئے تھے۔اسی مقاطعہ کے دوران سورئہ فرقان نازل ہوئی، جس میں روزِ قیامت اللہ کے رسولؐ کی جانب سے اپنی قوم کے قرآنِ مجید کے ساتھ بے اعتنائی برتنے اور اسے نشانہ تضحیک بنانے پر احتجاج کیے جانے کا تذکرہ یوں وارد ہوا: وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۝۳۰(الفرقان ۲۵:۳۰) ’’اور رسولؐ کہے گا کہ ’’اے میرے ربّ، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنالیا تھا‘‘۔

شعب بنوہاشم میں مقاطعے کے تین برس گزارنے کےبعد، جب بنو ہاشم نبوت کے دسویں برس کے اوائل میں واپس شہر میں آئے تو ابو طالب مرض الموت میں تھے، دیگر سردارانِ قریش نے چاہا کہ ابوطالب اپنے انتقال سے قبل محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ بقائے باہمی کا کوئی معاہدہ کروا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ لوگ توحید کی گواہی دیں تو عرب و عجم کی بادشاہی اِن کی ہو گی۔ یہ سُن کر تمام سردار مایوس ہو کر یہ بڑبڑاتے ہوئے پلٹ گئے کہ یہ تو وہی اپنی پرانی رٹ لگائے ہوئے ہے ۔ سورئہ صٓ اِس اجلاس کی رُوداد بیان کرتی ہے اور اس سورہ کا آغاز قرآن مجید کے سراسر نصیحت ہونے کے اعلان سے ہوتا ہے:صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ۝۱ۭ (صٓ ۳۸:۱)

اس سال کے اواخر میں آپؐ نے اہلِ مکہ کی طرف سے فوری طور پر مزید کسی تعاون کا قرینہ نہ پاکر طائف کا رخ کیا کہ شاید وہ بات کو سمجھیں، لیکن اُن کے سرداروں نے آپؐ کو سخت تضحیک کا نشانہ بنایا۔ واپسی کے سفر میں مکہ کی سرحد، نخلہ کے مقام پر جنوں نے آپؐ کو قرآن مجید تلاوت کرتے ہوئے سُنا اور وہ ایمان لے آئے۔ اس بات کا تذکرہ سورئہ احقاف میں اِن الفاظ میں وارد ہوا:وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا۝۰ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِيْنَ۝۲۹(احقاف۴۶:۲۹)،’’جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمھاری طرف لے آئے تھے، تاکہ قرآن سنیں، جب وہ اس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے ) تو انھوں نے آپس میں کہا: خاموش ہو جاؤ۔ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے‘‘۔ یہ بات آپؐ کے لیے اطمینان کا ذریعہ بنی۔

بنو ہاشم کے سردار، ابو لہب نے اپنے بھتیجے کو بنو ہاشم سے خارج کرتے ہوئے اُس کی پشت پناہی سے ہاتھ اُٹھا لیا تھا۔ مطعم بن عدی کی جانب سے پناہ مل جانے پر اُس کی حفاظت میں آپؐ مکہ میں داخل ہو سکے۔ چند ہی ہفتوں بعد حج کا موسم آ گیا اور حسبِ معمول آپؐ باہر سے آنے والے حاجیوں تک توحید کی دعوت پہنچانے میں سرگرم ہوگئے۔ اس سرگرمی کےدوران یثرب سے آئے ہوئے چھ افراد کے سامنے ایمان کی دعوت پیش کی تو سیّدنا اسعدبن زرارہ  کی تحریک پر یہ تمام لوگ ایمان لے آئے۔ یہ واقعہ یثرب کے مدینۃ النبی بننے کا نقطۂ آغاز تھا۔

ادھر اسلام اپنے غلبے کی ایک اڑان لے رہا تھا، مگر قریش اپنی بڑائی کے زعم میں اس بات سے غافل تھے کہ زمین اُن پر تنگ ہوتی جارہی ہے۔ اسلام حبشہ ، یمن اور یثرب ہی میں نہیں تمام اطراف شہرِ مکہ میں اپنی جڑیں پکڑنا شروع کر چکا تھا۔ یہ نبوت کا گیارھواں برس تھا۔ آپؐ کی قوم کے مشرکینِ قریش قرآن مجید کو اللہ کی کتاب تسلیم نہ کرنے پر اڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے معجزبیان کے کلام کو انسانی کلام کہہ رہے تھے۔ چنانچہ اب قریش پر اتمامِ حجت ہو رہا تھا۔

سورئہ یونس اسی اتمام حجت کو بیان کرنے والی سورہ ہے۔ اس میں قرآن کی حقیقت یوں بیان کی جاتی ہے:وَمَا كَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۳۷(یونس ۱۰:۳۷)،’’اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کی جاسکے، بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آسمانی کتب آچکی ہیں اُن کی تصدیق اور لوح محفوظ میں ثبت و رقم الکتاب کی تفصیل ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے جہانوں کے پالنہار کی جانب سے ہے‘‘۔

بارھویں برس میں اہلِ مکہ پر جاری اتمامِ حجت کے دوران، جب بیعت عقبہ اولیٰ ہو چکی اور یثرب میں تعلیم کے لیے حضرت مصعب بن عمیرؓ وہاں تشریف لے جا چکے اور اہلِ یثرب کی مختلف جماعتوں کے لیے نقیب مقرر کیے جا چکے، تو اہلِ مکہ کی ضد اور ہٹ دھرمی پر آزردہ اہلِ ایمان کوسورئہ رعد میں یہ بتایا گیا کہ ناممکنات کو ممکن بنا دینا اللہ کے لیے ناممکن نہیں۔ کیا اہلِ ایمان نہیں جانتے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟ لیکن اللہ کی مشیت یہ نہیں کہ وہ زبردستی بغیر لوگوں کی چاہت کے ایمان اُن کے سینوں میں اُنڈیل دے۔ ایمان اُن ہی لوگوں کو عطا ہوتا ہے، جو اُس کی طلب میں صادق ہوتے ہیں۔فرمایا گیا: وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِہِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ بَلْ لِّلہِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا   ط (الرعد ۱۳:۳۱)،’’اور کیا ہوجاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا، جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟‘‘ اس بارھویں برس میں نازل ہونے والی سورۃ الحجر میں سات آیات والی سورۂ فاتحہ کی عظمت کے بارے میں فرمایا گیا:وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ۝۸۷  (الحجر ۱۵: ۸۷)،’’ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں اور تمھیں قرآنِ عظیم عطا کیا ہے‘‘۔

علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ  سے مرادسورۂ فاتحہ ہی ہے جیساکہ بخاری و موطا، امام مالک کی احادیث بیان کرتی ہیں (بخاری کی احادیث ۴۴۷۴، ۴۷۰۳؛ موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ ۸، مَاجَاءَ فِی اُمِّ الْقُراٰنِ) اور تمام متقدمین مفسرین بیان کرتے ہیں۔ دورِحاضر کےبعض محققین نے اس سے مراد کلام مجید کے نہ ختم ہونے والے اسرار و رُموز کو کھولتے ہوئے اس سے کچھ دوسرے بالکل مختلف معانی بھی اخذ کیے ہیں۔(تدبر قرآن، چہارم، ص ۳۷۸)

سیرت النبیؐ کے مطالعے میں یہ بارھواں برس اس لحاظ سے بھی اہم اور بابرکت ہے کہ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج عطا ہوئی۔ معراج کا تذکرہ سورئہ بنی اسرائیل میں وارد ہے، جیسا کہ لوگ جانتے ہیں کہ معراج میں پنج وقتہ نماز کا حکم ملا، جس کا تذکرہ یوں وارد ہوا : اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ۝۰ۭ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہُوْدًا۝۷۸  (بنی اسرائیل ۱۷: ۷۸)،’’نماز قائم کرو(اہتمامِ وقت کے ساتھ خشوع و خضوع سے معاشرے میں نماز کی ادائیگی کا نظام) زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) اور فجر کے قرآن (با اہتمام طویل قراءت)کا بھی التزام کرو، کیونکہ (فرشتوں کی گواہی/ شہادت سے) قرآنِ فجر مشہُود ہوتا ہے‘‘۔نماز کے پانچوں اوقات کی جانب سورۂ ہود میں اشارات موجود ہیں (تفہیم القرآن، دوم، حاشیہ ۹۵، ص ۶۳۵)، منکرین حدیث کا یہ دعویٰ کہ ’’پانچ اوقات کی جانب قرآن مجید میں کوئی اشارہ نہیں‘‘، بالکل بے بنیاد ہے۔

دورِ نبوت کا تیرھواں برس مکہ میں دورِ نبوت کا آخری برس ہے۔ آپؐ ماہِ صفر کی آخری تاریخوں میں یثرب کی جانب ہجرت کے لیے غارِ ثور میں قیام پذیر ہوئے۔ تین روز یہاں قیام کرکے یہیں ربیع الاوّل کا چاند دیکھ کے آگے روانہ ہوئے۔ تیرھویں برس میں ہجرت سے کچھ قبل سورئہ اعراف اور سورئہ نحل کی دو آیات نازل ہوئیں جن میں قرآن کو توجہ سے سننے اور تلاوت سے قبل تعوذ کے کلمات ادا کرنے کی ہدایت کی گئی: وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۲۰۴ (اعراف ۷:۲۰۴) ’’جب قرآن تمھارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے‘‘، اور فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۝۹۸ (النحل ۱۶:۹۸)’’پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو‘‘۔

ٹونی بلیر انسٹی ٹیوٹ فار ر گلوبل چینج (ٹی بی انسٹی ٹیوٹ)کی رپورٹ کے چار بنیادی ابواب (۲ تا ۵) کا جائزہ پچھلی قسط میں لیا گیا ہے۔ اب ہم اس کے پہلے اورچھٹے ابوابlخصوصی خلاصہ اور lحاصلِ کلام پر گفتگو کریں گے۔ یہ دونوں ابواب مختلف ناموں سے ایک ہی نوع کے ہیں اور دونوں ابواب کم و بیش ایک ہی جیسے قائم کردہ مقدمات اور حاصل نتائج کی تکرار اور ایک جیسے لوازمے پر مشتمل ہیں۔

اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم اسلام کی احیائی تحریکات کے سیاسی پہلو کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاحات کے خلط مبحث پر گفتگو کریں گے۔اِس کے دوسرے حصے میں کچھ مفروضوں کا جائزہ لیا جائے گا، جن کی بنا پر زیرِ تبصرہ رپورٹ اپنے استدلال کی عمارت تعمیر کرتی ہے۔ تیسرے حصے میں مرکزی موضوع یعنی ’ماڈریٹ مسلم سیاست‘ کو زیر بحث لائیں گے کہ یہ کیا چیز ہے، جس کے مسلم معاشروں میں نفوذ کےلیے مغرب بے چین ہے؟چوتھے نمبر پر اسلام کی اُن چار بنیادی اصطلاحات کی وضاحت کی جائے گی، جن کے مفہوم و معانی کو بگاڑنے پر ہی اس رپورٹ کی مطلب براری منحصر ہے۔پانچویں حصے میں رپورٹ کے دعوے کےمطابق اِس تحقیق کے سب سےنمایاں کام یعنی گورسکی سے مستعارلیے فریم ورک کو دیکھیں گے۔

اصطلاحات کا خلط مبحث

اللہ کا دین، اسلام اپنی بنیادی ساخت میں انتہائی ہمہ گیر ضابطۂ زندگی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام، نمرودسےاور موسیٰ علیہ السلام، فرعون سے ٹکراتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سردارانِ قریش کے ساتھ معرکہ برپا ہوتا ہے۔ سردارانِ مکہ کا سارا خوف اس بات میں مضمر تھا کہ اسلام اُن کے ہاتھ سے اُن کی سرداری ، اُن کی تہذیب، اُن کی معیشت اور اُن کی سیاست سمیت اُن کا پورا نظام لے کر ایک اللہ اور اُس کے نمایندے کے ہاتھ میں منتقل کرنا چاہتا ہے۔ مستشرقین کا یہ کہنا کہ مکہ میں اسلام محض ایک الہامی مذہب تھا اور مدینے پہنچ کر یہ سیاسی ہو گیا۔ ان کا یہ مفروضہ اپنی جڑ بنیاد میں بالکل بے بنیاد ہے۔ صحیح صورت یہ تھی کہ مکہ میں اسلام کی سیاست کمزوری اور ضعف کی حالت میں تھی، اِس لیے بہت واضح نہیں ہوئی۔ مدینے میں اسلام کے ہاتھ میں اقتدار تھا۔ اجتماعی زندگی کے نظامِ کار کو چلانے کے اصولوں کو اگر سیاست کہا جاتا ہے تو یہ سیاست دونوں جگہ بھرپور تھی، مگر اپنے وسائل و مسائل کے مطابق، کیفیت اور کمیت کے لحاظ سےمختلف !

خلافت راشدہؓ سے ملوکیت میں تبدیلی اور مسلمانوں کے قائدین کا رفتہ رفتہ اہلِ دین اور اہلِ سیاست کے دو گروہوں میں بٹ جانے کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاں معاملاتِ حکومت سے دُوری اور صاحبانِ اقتدار کی خلافِ اسلام حرکتوں پرگرفت نہ کرنےکا ایک ایسا طویل عرصہ گزرا، جس میں یہ محسوس ہونے لگا کہ اہلِ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی دورِ انحطاط سے استدلال کرکے ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ نے اپنے آخری باب ’اسلام اور سیاست کے درمیان تاریخی حرکیات‘ کے اہم نکات میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’سوائے دورِ نبوتؐ اور خلافت راشدہؓ کے زمانے کے، اسلام اور سیاست کبھی باہم مدغم نہیں ہوئے، بلکہ اس پورے دور میں مسلمان حکومتیں محض اعترافی مسلم حکومتیں تھیں نہ کہ کامل اسلامی۔ رپورٹ کااصرار یہ ہے کہ ’’یہی اصل اسلامی سیاست کی تصویر ہے، رہا دورِ نبوتؐ تو اُس کو تو واپس نہیں لوٹایا جاسکتا!‘‘ (ص۶،۲۴) اس طرح یہ رپورٹ پیغام دے رہی ہے: ’’پس، اے اسلام کے علَم بردارمسلمانو ، اپنے 'ترکِ سیاست والے دور کی جانب لوٹ جاؤ اور زمین کی بادشاہی ہم نے چھین لی ہے ، سو ہمارے ہی پاس رہنے دو!‘‘

اللہ کے کلام، قرآن مجید کی تلاوت و تدبر کے تسلسل سے ہر دور میں امت میں کچھ نہ کچھ جرأت مندلوگ دین و سیاست کی تقسیم کے خلاف بولتے رہے، یہاں تک کہ مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محمد بن عبدالوہاب، علّامہ محمد اقبال، حسن البنا، سعیدنورسی، سیّد مودودی، سیّدقطب، مالک بن نبی اور علی شریعتی وغیرہ اور اِن کے ہزاروں، لاکھوں ساتھیوں نےبیسویں صدی کے وسط تک دین و سیاست کی دوئی کے تصور اور ترکِ سیاست کی جبری روِش سےمسلم امت کے اذہان کو صاف کر دیا۔

زمین کے مختلف خطوں میں مذکورہ شخصیات کی برپا کردہ اقامتِ دین کی تحریکات کو مستشرقین نے ’پولیٹیکل اسلام‘ یا ’سیاسی اسلام‘ کا نام دیا۔’اسلامیت‘ کی اصطلاح کو اکثر ’سیاسی اسلام‘ کے ساتھ بدل کر استعمال کیا جانے لگا۔ چونکہ بیسویں صدی پر لفظ ’ازم‘ (ism) چھایا ہوا تھا: کمیونزم، سوشلزم، لبرلزم، سیکولرزم وغیرہ، چنانچہ میدانِ سیاست میں اسلام کے غلبے کے لیے اُٹھنے والی آوازوں کو ’اسلام ازم‘ بھی کہا جانے لگا۔ کمیونزم کے ماننے والے کمیونسٹ بنے تو اسلام کا اقتدار چاہنے والے’اسلامسٹ‘ کہلائے ۔ یہ تمام اصطلاحات ماہرینِ سیاسیات و صحافت کی تھیں۔

یہاں پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ خود مسلمان اہلِ علم اور مفکرین و مفسرینِ قرآن و حدیث نے، جو میدانِ سیاست میں سرگرمِ عمل تھے، اِن اصطلاحات کو کہیں استعمال نہیں کیا۔ دو مختلف خطّوں میں مختلف زبانیں بولنے والے سیّد مودودی اور سیّد قطب میدانِ سیاست کے بھی رمزشناس تھے اور دونوں ہی عصرِ حاضر کے عظیم مفسر قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کے عین مطابق عملی سیاست میں بھرپور حصہ لینے والے تھے۔ اسی جرم میں دونوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ اِن دونوں نے ان اصطلاحات کو نہ ایجاد کیا اور نہ استعمال کیا۔

اہلِ مغرب کی طرف سے ’پولیٹیکل اسلام‘ ایک انقلابی فکر کا نام قرار دیا گیا تھا۔لبرل اور سیکولر لوگ، مسلم دنیا میں ابھرتے ہوئے اسلام سے زیادہ پریشان ہوئے۔چنانچہ اسلام کے احیاء کی تحریکات کواپنے ہی کلمہ گو آمروں (ڈکٹیٹروں): کمال اتاترک، امان اللہ، رضا شاہ پہلوی، ایوب خان، جمال ناصر، حبیب بورقیبہ، حسن البکر،صدام حسین، حافظ الاسد، پرویز مشرف ، حسینہ واجد اور جنرل سیسی جیسے لبرل، سیکولر اور قوم پرست لوگوں سے مختلف مقامات پر سابقہ رہا ہے ۔

ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ، جب اوپر مذکورہ جابرحاکموں جیسے لوگوں کو مسلمانوں کے قابلِ تقلید اور نامور قائدین کی حیثیت سے پیش کرتی ہے، تو یہ رپورٹ کھلم کھلا روحِ اسلام کی رُسوائی کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتی۔اسی زمانے میں قوم پرستی کی تحریکات نے دنیا میں جڑ پکڑی۔ اِن تمام سیاسی و سماجی دھاروں نے اسلام کی احیائی تحریکات کو سخت مزاحمت سے دوچار کیا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی کا آخر آپہنچا۔ اس زمانے میں اِن تحریکات سے متاثر، مگر ان کے بڑے دھارے سے کٹے ہوئے کچھ گروہوں کے پُرتشدد رویوں نے بے جا طور پر اُلٹا انھی لاتعلق اور ناقد تحریکوں کو  ’مسلم انتہا پسند/اسلام پسند‘ کے نام سے منسوب کردیا۔سامراجی اور غاصب قوتوں نے آزادی کی جنگوں میں مصروف افغانستان، فلسطین، کشمیر، چیچنیا،اراکان، بوسنیا اور مورو وغیرہ میں مصروفِ جدوجہد مسلم حُریت پسندوں کو ’دہشت گردی‘ سے جوڑ دیا۔ اس طرح یہ جائز حقِ خودارادیت و حقِ آزادی کے حصول میں مصروف عسکری تحریکات اُوپر بیان شدہ تمام مذموم اصطلاحات کے خلط مبحث کا شکار ہو گئیں۔

اس لیے لازم ہے کہ مسلم ماہرینِ دین و سیاست اور یونی ورسٹیوں میں اس فن کے پروفیسروں اور دیگر صاحبانِ علم خاص طور پر اس اتہامی، الزامی اور ابلاغی حملے کے توڑ کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور اصطلاحات کو معیاری طور پر متعین (standardise) کرکے دنیا کے سامنے رکھ دیں۔ جب تک یہ کام ہم خود نہیں کریں گے تو وہی کچھ ہوتا رہے گا، جس کا نوحہ اُوپر پڑھا گیا ہے۔ 

رپورٹ کے کچھ مفروضوں کا جائزہ

رپورٹ کا یہ کہنا کہ ’’اسلام کی سیاست میں عمل داری دنیا کے دیگر مذاہب سے کوئی منفرد یا غیر معمولی بات نہیں ہے‘‘(ص۵)۔

۱- یہ بات امرِواقعہ کے لحاظ سے ہرگز درست نہیں ہے۔ تمام مذاہب میں مذہب اور سیاست کی کامل علیحدگی کا ایک تصور ہے،جب کہ رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے: ’’مسلم دنیا میں سرے سےایسا کوئی تصور ہی نہیں ہے‘‘(ص۳۵)۔ مصنّفین کا یہ کہنا کہ ’’ماڈریٹ مسلم سیاست، پوری اسلامی تاریخ کا معمول رہی ہے‘‘(ص۳۶) زمینی حقائق کے برخلاف ہے۔ تاہم، اس دعوے کی تائید کے لیے رپورٹ کے آخر میں اسلام کی سیاسی تاریخ کا حلیہ 'سدھارنے کے لیے  آٹھ صفحاتی ایک ضمیمہ شامل کیا گیا ہے(ص۳۹)، جس کے برسرِ غلط ہونےکو تسلیم کرنےکے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ خلافت کا ادارہ اس کم زور سی ’ماڈریٹ ڈوری‘ سے کم و بیش ایک ہزار تین سو برس تک کیسے لٹکا رہا؟

رپورٹ یہ بیان بھی پیش کرتی ہے کہ’’دیگر مذاہب کی مانندمسلمانوں کو چاہیے کہ سیاست کے دائرے میں (ماڈریٹ انداز سے) وہ اپنا قانونی حق استعمال کریں تاکہ اُن کی وہ موروثی اقدار جن کی گہری جڑیں تاریخ میں ثبت ہیں برقرار رہیں‘‘(ص۴)۔اس تضاد بیانی کو کیا نام دیا جائے کہ ہماری اقدار اور دین و شریعت پر تیشہ چلا کر اُن کی بنیادی اصطلاحات تک کے معانی و مفہوم بدلنے کی سعی فرمائی اور پھر ناصحانہ انداز سے ہم ہی کو تبدیل شدہ مورثی اقدار کو جاری کرنے کی نصیحت کی جارہی ہے!

ماڈریٹ مسلم سیاست کا جائزہ

اس رپورٹ کا بنیادی مقصد’ماڈریٹ مسلم سیاست‘ کو ایک تیسرے راستے پر چلانا ہے۔ جیسے یہ ہے کہ ’’ماڈریٹ طبقہ موجود تو ہےلیکن اسے مغرب کی عالمی طاقتوں کی جانب سے [سیاسی، اخلاقی،مالی]ہمت افزائی کے ذریعےمضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماڈریٹ مسلم سیاست درحقیقت ایک ایگزٹ ریمپ ہے۔ یہ راستہ، یہ ریمپ ہمارے ڈھب کے پسندید ہ و مطلوبہ مستقبل کے تکثیری(pluralist) اور تہذیبی (civilisational) اسلام کے لیے ایک مضبوط قوت ہوسکتا ہے اور اس میں دین کی احیائی تحریکوں کے زوال کے بعد اسلامی دنیا کے مستقبل کا پرچم بردار بننے کی صلاحیت ہے‘‘(ص۸، ۳۶)۔

یاد رہنا چاہیے کہ مسلمانوں میں ’ماڈریٹ طبقے‘ سے مراد ’لبرل سیکولر طبقہ‘ ہے، جو اسلام سے بے زار تو ہے مگر اپنی منافقت اور فطری بزدلی کے سبب اتنی جرأت نہیں رکھتا کہ اسلام سے لاتعلقی کا اعلان کرکے مرتد ہوجائے۔ یہ رپورٹ بیان کرتی ہے:’’ اُن کا مدعا اسلامی تحریکات (اسلامیت)کے خلاف مزاحمت جاری رکھتے ہوئے ماڈریٹ مسلم سیاست کی حقیقت اور جواز کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنا ہے‘‘۔

  • لبرل مسلم ممالک کی حفاظت: رپورٹ عالمی طاقتوں، کو یہ احساس دلاتی ہے کہ فرانسیسی اور روسی تسلط سے آزاد مسلم اکثریتی ممالک اگرچہ سیکولر لبرل ازم کی جانب مائل ہیں اور اُسی جانب بڑھ رہے ہیں، مگر ’اسلامیت‘ اُن کے لیے ایک عظیم خطرہ بنی ہوئی ہے۔ ہمیں اُن کے لیے محتاط پالیسی اور حمایت کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سماجی، سیاسی اور بیرونی عوامل انھیں ’مولویانہ اسلامیت‘ (Islamist Clercocracy) کے خطرناک زمرے میں نہ دھکیل دیں (ص۸)۔
  • اصطلاحات کا کھیل: رپورٹ کہتی ہے: ’’ایسے ہم عصر مسلم اکثریتی ممالک میں ، جہاں اسلام اور سیاست کا گٹھ جوڑ ہے (جیسے پاکستان انڈونیشیا وغیرہ)، وہاں اسلامیت پسندوں سے روشن خیال ماڈریٹ مسلمانوں کا ایک بھرپور مباحثہ ہونا چاہیے۔ ماڈریٹ سیاست کو فروغ دینے کے لیے ایک معقول جگہ کی ضرورت ہے اور اس مباحثے میں 'سیاسی اسلام (Political Islam ) کی اصطلاح کے بجائے 'اسلامیت (Islamism) کی اصطلاح استعمال کی جائے ‘‘(ص۱۱)۔ اصطلاحات کے پسِ پردہ مذموم مقصدکی مناسبت سے رپورٹ، اسلام کے صرف پولیٹیکل شعبے کو نہیں بلکہ پورے دین کو ڈھانے میں ممد و معاون اصطلاحات استعمال کرنے کی سفارش کر رہی ہے۔

چار بنیادی اصطلاحات

جس پر چاہتے ہیں رپورٹ کے مصنّفین ’انتہاپسندی‘ کا الزام تھوپ دیتے ہیں۔ ساری دنیا کی حکومتوں اور اُن کے پالیسی ساز اداروں اور افراد کو مسلمانوں کے قائم و مستحکم اداروں کے خلاف بھڑکاتے اور مسلمان علمی و فکری تنظیموں کے خلاف جنگ کی دھمکیاں دیتے ہیں اور پالیسی سازوں کو مسلمانوں سے اِس جنگ کو جیتنے کے لیے اُکساتے ہیں۔(ص ۷،۹،۳۶،۳۷)

رپورٹ یہ مقدمہ پیش کرتی ہے: ’’مذہب اور سیاست کے درمیان ایک صحت مند تعلق کی راہ ہموار کرنے اور(بشمول) قومی ریاستوں اور بین الاقوامی نظام (ورلڈ آرڈر) کی بقا کے لیے، ’جدید دنیا کے مذہبی جواز‘ (theological legitimacy of the modern world) اور اُس کی سالمیت کی لازمی ضمانت درکار ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’جدید دنیا کے مذہبی جواز‘ کو کس نے مرتب کیا ہے؟ کس بین الاقوامی ادارے نے اس کو منظور کیا ہے اور کن ممالک نے دستخط کیے؟ مغرب کے ’بدمعاش‘ (Rogue) حاکم  اپنے ذہن میں ’ جواز‘ کا ایک خاکہ تراش کر اُسے ساری دنیا پرمسلط کرنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ صرف ان مباحث تک محدود نہیں رہتی بلکہ اپنے اس’ جواز‘ کو ’انسانیت‘ بلکہ درحقیقت اپنی حاکمیت کو دوام بخشنے کے لیے اسلام کی چار اداراتی اصطلاحات lامّت ،lخلافت، lشریعت اور lجہاد کا اپنی مرضی، اپنے خیالات و افکار کے مطابق، اصلی معانی کے برعکس نئے معانی دے کر اُن کا حلیہ بگاڑنے کے درپے ہے۔ یاد رہے، یہ محض چار اصطلاحات یا پالیسیاں نہیں ہیں، یہ اسلام کے مستحکم ادارے ہیں، جس طرح عدالتیں، مساجد اور نکاح معاشرے میں ایک اداراتی حیثیت رکھتے ہیں، اسی طرح یہ چاروں اصطلاحات اسلامی معاشرے میں اپنا ایک رول رکھتی ہیں۔

رپورٹ آج کی دنیا کے لیے اپنے خود ساختہ مذہبی جواز کی ضمانت مہیا کرنے کے لیے اسلام کے چار بنیادی ترین اداروں کو مسمار کرنا چاہتی اور یہ بیان کرتی ہے: ’’چار پالیسیاں ہیں، جو مذہب اور سیاست کے صحت مند امتزاج کو فروغ دے سکتی ہیں۔ذیل میں ان کا خلاصہ اسلام کے چار اہم پہلوؤں کے گرد کیا گیا ہے، جو اس وقت انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کے درمیان ٹکرائو کا سبب ہیں‘‘(ص۸)۔ رپورٹ اس بیان کے بعد اِن چاروں اصطلاحات کی بے سروپا ، من پسند تعریفات پیش کرتی ہے، جنھیں ذیل میں اُن کی موشگافیوں پر تبصرےسے قبل ’نقلِ کفر،کفر نباشد‘ کے طور پر پیش کیاجارہا ہے:

۱- اُمّت (قوم):’’پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ مسلم کمیونی ٹیز کو لازمی طور پرپھلنے پھولنے کی اجازت دیں۔ یہ اجازت مسلم انتہا پسندوں کی نفی کے ساتھ مشروط ہونی چاہیے، اُن کے نظریات مسلمانوں کو غیر مسلموں کے خلاف کھڑا کرتے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں قومیت کے مضبوط احساس کی ضرورت ہے۔ اس لیے جدید قومی ریاستوں کو اپنی [قومی]اقدار پر زور دینا چاہیے اور احساس پیدا کرنا چاہیےکہ اس دنیا پر دوسرےبڑے مذاہب کا بشمول لا دینیت اور انسانیت پرستی کے فلسفوں کا بھی حق ہے‘‘ (ص۸، ۳۶)۔

رپورٹ، ڈیڑھ ہزار برس سے جاری عالمی امت کو ' مسلم کمیونٹیوں میں تبدیل کردینا چاہتی ہے۔ اس رپورٹ سے قطع نظرمغرب کے ماہرین سیاسیات اور مستشرقین کی ایک قابلِ ذکر تعداد ایسی ہے، جو اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کو بھی القاعدہ اور داعش کی فہرست میں شامل کر کے ’انتہا پسند‘ کہتے ہیں۔ ایسےہی ماہرین کو اس رپورٹ میں نقل کیا گیا ہے ۔ اس ذہنی پس منظر میں امت سے اخوان اور جماعت کو نکال دیجیے، سلفیوں، ایران کے آیات اللہ اور افغان طالبان کو بھی نکال دیجیے کہ رپورٹ میں ان سب سے نفرت کا اظہار ہوتا ہے، تو بتایا جائے کہ آپ کی تعریف کردہ امت میں باقی بچا کیا؟

۲- خلافت (گورننس):’’پالیسی سازوں کو واضح ہونا چاہیے کہ اسلام میں خلافت سے مراد گڈ گورننس ہے، جس میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری ،نرمی اور رحم دلی کا رنگ لیے ہوتی ہے۔ قرون وسطیٰ کی فرسودہ خلافت یا انتہا پسندوں کی اسلامی ریاستوں کے احیاء کو خلافت کہنے یا سمجھنے پر اصرارکی کوششوں کی غیر مفاہمانہ مزاحمت کی جانی چاہیے‘‘ (ص۹، ۳۷)۔

ٹی بی انسٹی ٹیوٹ نے یہ حق کس طرح حاصل کرلیا کہ اسلام کی بنیادی قرآنی اصطلاح کی وہ ایسی تعریف کرے، جو نہ نص سے ثابت ہے اور نہ تاریخی شہادت سے۔کس بنیاد پر کوئی ’تھنک ٹینک‘  دنیا بھر کے پالیسی سازوں سے یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ ’’خلافت کے احیا کی کوششوں کی غیر مفاہمانہ مزاحمت کی جانی چاہیے!‘‘ اگر قومیت اور جغرافیائی بنیادوں پر دنیا بھر میں ممالک بن سکتے ہیں اور پھر مجلس اقوام متحدہ بھی بن سکتی ہے تو آخر خلافت کےادارہ کے بننے پر کسی کے اعتراضات کی کیا منطق ہوسکتی ہے؟ اس سے انسانیت کو کس طرح کے نقصانات کا خطرہ ہے کہ جن سے مغرب کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں؟ حالانکہ ’خلافت‘ کے تو ابھی آثار بھی نہیں ہیں۔یہ تو بالکل ایسا منظر ہے کہ جس طرح کوئی بدمست پہلوان، اپنی وحشت کے زور پر کسی شریف آدمی کو زمین پر گرا کر، اس کے سینے پر بیٹھ جائے ، مگر ساتھ ساتھ یہ ہاہاکار مچائے: ’’مجھے اِس خاکسار سے بچائو‘‘۔

 ۳- شریعت (قانون اور اخلاقیات):’’پالیسی سازوں پر واضح ہونا چاہیے کہ اسلام میں شریعت سے مراد اخلاقیات ہیں۔ قرون وسطیٰ والی شریعت کی تفصیلات کی جدید ترتیب لازمی ہے۔یہ کام صدیوں پرانی تہہ دار فقہ کو مسلم تشریحات کے اندرونی تنوع کو مدنظر رکھتے ہوئےکھولنے کے ذریعے ہوگا۔ قدیم شریعت/فقہ کو جس میں قرون وسطیٰ کے دور میں بھی درجنوں فقہی مکاتبِ شامل تھے، کسی ایک واحد فقہی مکتب ِ فکر سے لفظ بہ لفظ اور سطر بہ سطر بلا سوچے سمجھے اخذ و قبول اور رائج کرنے کی کوششوں کی ہر قیمت پر مزاحمت درکار ہے‘‘(ص۹، ۳۷)۔

پھر ٹونی بلیر انسٹی ٹیوٹ کہتا ہے:’’ یہ محض چند اخلاقی تعلیمات ہیں!‘‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دُنیا کے ’ماڈریٹ‘ ،’لبرل‘ اور ’سیکولر‘ دانش وروں پر نفاذِشریعت ہی سب سے گراں ہے۔ شریعت کو محض اخلاقیات قرار دے کر سادہ مسلمانوں کے سامنے وہ انکار شریعت کے مجرم بھی نہیں بنتے اور پرانی، تہہ دار، قرونِ وسطیٰ کے قوانین کی پھبتیاں کس کر اُس سے نجات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے معاشروں پر یہ کرم فرمائی کیوں؟

دراصل اس ’شریعت‘ کے ذریعے ہمارا نکاح کا ادارہ مستحکم ہے۔یہ لبرل مفکرین آزادی کےنام پر LGBTQ (یعنی ہمہ جہت جنسیت زدگی اور ہم جنسیت)کو فروغ و نشوونما دینا چاہتے ہیں، مگر شریعت ایسے نابکاروں کے لیے کوڑوں اور سزائے موت کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ سرمایہ داری (Capitalism) کے ذریعے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر اور عام انسانوں کے لیے مواقع کو محدود تر کر کے محض سرمائے کی پرورش چاہتے ہیں۔ شریعت ہر قسم کی اجارہ داری ،نامنصفانہ نظامِ اُجرت، نامنصفانہ تقسیم ِدولت، بے قید مارکیٹنگ اور بے قید زمین کی ملکیت پر پابندیاں لگا کر اور وراثت کے قوانین کا پابند بنا کر محدود گروہ میں دولت کے ارتکاز کو روکتی ہے۔ جدید تہذیب کا حاصل ہی کل انسانیت کو اور اقتدار کو صاحبانِ دولت کا غلام بناناہے۔یہ ’روشن خیال‘ ساری دنیا کے امن کو غارت کریں ، ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائیں، ایران، عراق، ویت نام میں نیپام بم چلائیں، افغانستان پر ڈیزی کٹربم پھینکیں، لیبیا کو خون میں نہلا دیں،گوانتاناموبے میں شرفِ انسانیت کو روند ڈالیں، مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں___ شریعت، جنگ اور امن کے قانون کو نافذ کرتی اور اہل مغرب کے وحشیانہ جنگی جنون و تباہی پر قدغن لگاتی ہے۔ سرمایہ داری اور تہذیب ِمغرب کے وکیل کس منہ سے ’واحد فقہی مکتب ِ فکر سے لفظ بہ لفظ اور سطر بہ سطر بلا سوچے سمجھے اخذ و قبول‘ رائج کرنے جیسے جملے چباکر اپنا نظام نافذ کر سکتے ہیں؟

مسلم ممالک کی حکومتوں کے لیے پوری رپورٹ میں سب سے قابلِ مثال نمونہ ’شہری مذہب‘ (Civil Religion) کو قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے رپورٹ میں چار مرتبہ محمد علی جناح کی ۱۱⸜؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو جواز بناتے ہوئے انھیں ’سیکولرازم‘ کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے (ص۲۰، ۲۳، ۲۷،۳۶)۔ حالانکہ اُس تقریر کے پانچ ماہ بعد جناح صاحب نے ۲۵⸜جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:

I cannot understand the logic of those who say that the Constitution of Pakistan will not be based on the Shariah.

اُن لوگوں کی منطق میری سمجھ سے بالاتر ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی اساس پر نہیں ہوگا۔

 یہ تقریر آپ حکومتِ پاکستان کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں اور اس کے بعد کہاں گیا ’سول ریلیجن‘ والا جناح؟

۴- جہاد (جدوجہد):’’پالیسی سازوں پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ دورِ حاضر کےمسلم اسکالر اس بات پر متفق ہیں کہ جدید دنیا میں جہاد برائیوں کے مقابلے میں نیکیوں کے لیے ذاتی اور اجتماعی جدوجہد کانام ہے۔ یہاں تک کہ جہاد (جسے جنگ /قتال کے معنوں میں لیا جاتا ہے) فوجی میدان میں بھی، ایک آخری راستہ ہے، جو صرف ریاستوں کی مسلح افواج کے ذریعے ہی جائز طریقے سےبرپا کیا جا سکتا ہے۔ جدید جہاد جنیوا کنونشنز اور جنگ سے متعلق دیگر بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کے ساتھ مشروط ہے‘‘۔(ص ۹، ۳۷)

بلاشبہہ اسلام بے گناہوں کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن جنھوں نے آپ کے وسائل غصب کیے ہوں، آپ کے اقتدارِ اعلیٰ کو ضبط کرکے اپنے پٹھو حکمران بٹھائے ہوں، اُن حکومتوں کے خلاف جدوجہد کے بغیر اسلامی حکومت کے قیام کا کیا انتظار کیا جاسکتا ہے؟پھر جنھوں نے سامراجیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کے وطن پر قبضہ جمایا، آپ کو دربدر کیا، قومی وسائل کو کوڑیوں کے مول آپ سے چھینا، ان برطانوی، فرانسیسی، ولندیزی، امریکی، روسی استعمارات سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جنھوںنے جدوجہد کی ہے، انھیں کیسے دہشت گردی سے جوڑا جاسکتا ہے؟

فریم ورک کا جائزہ

پیشِ نظر رپورٹ نےمسلم ممالک میں مذہب اور سیاست کے درمیان رشتوں کی نوعیت کو تین بنیادی اور نو انفرادی گروپس میں تقسیم کیا ہے۔جس کی تفصیل دیکھنے کے لیے اور اس مضمون کی آیندہ سطور کو سمجھنے کے لیے ماہِ گذشتہ کے ترجمان القرآن (ص۴۲) میں دیے گئے جدول کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

رپورٹ یہ درست کہتی ہے:’’بیسویں صدی کے کمیونزم، نازی ازم اور فاشزم کی مثالوں کی طرح عراق اور شام کی بعثی ریاستوں نے اپنے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر جبر اور خوف ناک تشدد کا استعمال کیا‘‘(ص۲۳)۔یہاں ہم دریافت کرتے ہیں کہ جب آپ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ یہ حکومتیں اسلامیان پر جبر کا نتیجہ تھیں، تو کیوں اپنے فریم ورک میں ان حکومتوں کو مسلمانوں کی حکومتوں اور اسلام اور سیاست کے ملاپ کے کسی بھی زمرے میں شامل کرتے ہیں؟

پروفیسر گورسکی کی یہ درجہ بندی غیر مسلم مغربی ممالک میں مذہب اور سیاست کے تعامل اور تجزیے کے لیے شاید سودمند ہو سکتی ہو، مگر ایشیائی اور افریقی مسلم ممالک کے لیے یہ بالکل بے کار مشق کے سوا کچھ وزن نہیں رکھتی ہے۔ گروپ ۱، ۳، ۵ اور۹ محض خیالی گروپ ہیں۔ اس وقت یہ ممالک نہ ہونے کے برابر اور در حقیقت کالعدم ہیں۔ حقیقی گروپس ۲،۴، ۶،۷ اور۸ ہیں۔ بنظرغائر دیکھیں تو اصل میں گروپس صرف تین ہی بنتے ہیں:lجو اپنی شناخت کھو چکے(لبرل سیکولر)،lجو اپنی شناخت کی تلاش میں ہیں (اسلامی سیاسی) اور lجنھوں نے شناخت پا لی (اسلامی)۔ آئندہ سطور میں مسلم ممالک کے اِن تینوں گروپس کا مغربی استعمار اور مسلم ممالک کے نقطۂ نظر سے جائزہ پیش ہے:

۱- جو اپنی شناخت کھو چکے (لبرل سیکولر ممالک):معدوم گروپس ۱،۳ اور ۵ کو بآسانی لبرل لادینی ریاستوں یعنی گروپ نمبر ۶ میں ضم کر کے ایک گروپ بنایا جا سکتا ہے، جس میں کلمہ گو مسلمانوں کے وہ تمام ممالک آجائیں گے، جہاں سیاست میں ہی نہیں زندگیوں میں بھی اسلام برائے نام رہ گیا ہے ۔ خود رپورٹ مصنّفین کے مطابق اِن ممالک میں سیاست اور مذہب کی ایسی کامل علیحدگی نوآبادیاتی سامراج نے مسلط کی ہے (ص۳۳، ۳۵)، جیسا آپ لبرل سیکولر  آئین والے مغربی افریقہ کی سابق فرانسیسی کالونیوں اور وسطی ایشیا میں سابق کمیونسٹ روس (USSR) کی نوآزاد ریاستوں میں پاتے ہیں۔یہ ممالک بہ اعتبارِ حروفِ تہجی یوں ہیں: (۱)ازبکستان (۲)البانیہ (۳)آذربائیجان (۴)برکینا فاسو (۵)بوسنیا (۶)تاجکستان، (۷)ترکمانستان (۸)چاڈ، (۹)سیرالیون (۱۰)سینیگال (۱۱)قازقستان (۱۲)کرغستان (۱۳)کوسووو (۱۴)کوموروس (۱۵)گنی بسائو (۱۶)گنی، (۱۷)گیمبیا (۱۸)مالی (۱۹)نائیجر

مغربی پالیسی سازوں اور لبرل سیکولر گروپوں کے نزدیک اوّلین کام، جو اِن ممالک میں کرنے کا ہے، وہ یہ کہ بے لگام جنسی حقوق اور ویمن اِمپاورمنٹ کی مہمات چلانا ہوں گی۔ دینی شعائر پر حملوں کے جواب میں آواز اُٹھانے والوں کو ’ماضی پرست وحشی‘ قرار دینا ہوگا۔ آزادیِ اظہار کے نام پر گندگی پھیلانے اور تاریخ مسخ کرنے کو آرٹ کے درجے تک لے جانا ہوگا___ حیرت کا مقام ہے کہ اہلِ مغرب، اپنے حق میں گلوبل عالم گیریت چاہتے ہیں، مگر مسلمانوں کے لیے بطور اُمت سوچنے کو فساد قرار دیتے ہیں۔

مذکورہ لبرل و سیکولرگروپ کے ممالک میں احیائے دین کا عزم لے کر اُٹھنے والوں کا پہلا کام یہ ہے کہ ابلیس کے طریقِ واردات کو سمجھیں اور آخرت کی کامیابی کو اپنا کیریر سمجھ کر زندگی بسرکریں۔ دوسرا یہ کہ گروپ دوم کے ممالک (پاکستان، ترکیہ، مصر وغیرہ)میں احیا کا کام کرنے والوں کے علم و تجربے سے روابط کے ذریعے فائدہ اُٹھائیں۔ تیسرا کام یہ کہ اپنے معاشروں میں اپنی قوت و صلاحیت کا بیش تر حصہ حیا اور نکاح و خاندان کے ادارے کو مضبوط کرنے پر لگائیں۔ چوتھایہ کہ اپنے افراد کے درمیان قرآن کے فہم کو عام کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ شرک و بدعات اور رسومات کے بوجھ سے آزاد قرآن و سنت سے ثابت سادہ ترین حقیقی دینِ خالص کی پیروی کریں۔ ان کاموں میں بڑی مشکلات کے باوجود اب مصنوعی ذہانت اور کمیونی کیشن کی ٹکنالوجی نے چیزوں کو آسان کر دیا ہے۔ ہرمعاملے میں غیر ضروری رقابتیں اور مخالفتیں نہ مول لیں، اخلاقی، علمی و فکری اور مالی لحاظ سے معاشرے کا انتہائی مؤثرطبقہ بننے کی کوشش کریں۔

۲- جو اپنی شناخت کی تلاش میں ہیں( مسلم سیاست کےممالک): اسی طرح  گروپ ۲، ۴ اور ۸ کے ممالک یک جا کیے جا سکتے ہیں، جہاں کے عوام اسلام کے ساتھ اپنی انفرادی اور اجتماعی ، فکری اورعملی زندگیوں میں ایک خصوصی تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کی سیاست کا محور اسلام ہے۔  یہ خصوصی تعلق مقتدر طبقے کا چاہے ہو یا نہ ہو، مگر عوام کا ضرور تعلق ہے۔ یہ ممالک بہ اعتبارِ حروفِ تہجی یوں گنے جا سکتے ہیں: (۱)اردن (۲)اریٹیریا (۳)الجیریا (۴)انڈونیشیا، (۵)اومان (۶)بحرین (۷)برونائی (۸)بنگلہ دیش (۹)پاکستان (۱۰)ترکیہ (۱۱)تیونس (۱۲)جبوتی (۱۳)سعودی عربیہ (۱۴)سوڈان (۱۵)شام (۱۶) صومالیہ (۱۷)عراق (۱۸)قطر (۱۹)کویت (۲۰)لبنان (۲۱)لیبیا (۲۲)مالدیپ (۲۳)متحدہ عرب امارات (۲۴)مراکش (۲۵)مصر (۲۶)ملایشیا (۲۷)موریطانیہ، (۲۸)نائیجیریا، (۲۹)یمن

اِن ممالک میں اہلِ مغرب کے پالیسی سازوں کو سب سے پہلے تو ایک مضبوط شناخت درکار ہے، مثلاً اس میں lمشرقِ وسطیٰ کےممالک کا ایک گروپ وہ ہے ، جہاں انسانی آزادیوں کو مجروح کرنے والاخاندانی بادشاہتوں کاجبر ہے۔ باقی ممالک میں جبر کے تین درجے ہیں: lوہ ممالک، جہاں اقتدار پر قابض فوجی جرنیل مغربی طاقتوں کے گماشتے ہیں ۔lجہاں سازشوں اور چالاکیوں سے مخالف ِ اسلام طاقتوں کا ہم نوا ایک جابر طبقہ عوام کی خواہشات کے خلاف اقتدار پر قابض ہے مثلاً شام و عراق lآخری گروپ اُن ممالک کا ہے،جہاں کسی مناسب درجے میں جمہوریت پنپ رہی ہے جیسے ترکی، ملایشیا۔

اگر مغرب کو اِن ممالک کے عوام کے ردِ عمل سے بچنا ہے تو اپنے پروردہ مغربی تہذیب سے مرعوب مسلمانوں کی خدمات سے مراکزِ دانش میں استفادہ کے بجائے اپنی ہی نسل کے علما اور پروفیسروں کے ذریعےسنجیدگی کے ساتھ علمی اور منطقی انداز میں اِن ممالک کے امن پسند بوریہ نشین مسلم مفکرین اور غیر عسکری احیائی تحاریک کے دانش وروں سے براہِ راست مکالمہ کرنا ہوگا۔

اس گروپ کےممالک میں احیائےاسلام کےعَلم برداروں کوعسکری اورانتخابی مہمات کی گذشتہ نصف صدی میں مسلسل ناکامی سے، جو کچھ سبق ملا ہے، وہ اُسے کام میں لائیں۔ اِن ناکامیوں کا جوہری نکتہ یہ ہے کہ کلمہ گو انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے قول و عمل میں تضاد کا شکار ہے ، اور احیائے اسلام کے لیے اُٹھنے والےشعوری مسلمان ایک اقلیت ہیں۔

۳- جنھوں نے شناخت پا لی (مسلم حکومتیں): اس گروپ میں ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کا ساتواں(۷) گروپ (یعنی تیسرے گروپ کا تیسرا ،عددی شمار میں نواں ) آسکتا ہے، جہاں اسلام اور سیاست میں نہ صرف کوئی دوئی نہیں بلکہ اسلام کو ہر معاملے میں فوقیت حاصل ہے۔ ایسے صرف دوممالک ہیں اوّل: افغانستان، دوم: ایران۔ یہ دونوں اپنی مختلف فقہوں کی وجہ سے الگ ہیں، مخلصانہ کوششوں سے یہ قریب آ سکتے ہیں۔

مذہب اور سیاست کے ملاپ کے مختلف ماڈلز پر گفتگو کے بعد ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مصنّفین کی نوکِ قلم پر وہ آخری اور بنیادی خواہش آجاتی ہے، جس کے لیے اس تحقیقی مطالعے کی زحمت کی گئی ہے ۔ہمیشہ کی طرح، بنیادی ’تشویش‘ حقیقی مسلم حکمرانی سے بچنا ہے۔اس ضمن میں ہمارا صرف اتنا کہنا ہے کہ، جو لوگ مسلم دنیا میں پرامن طریقوں سے بغیر کسی فساد فی الارض کے  انبیا ﷨کے طریقوں سےزمین میں اصلاح و امن کے داعی ہیں، اُن کو وہ الزام نہ دیا جائے۔ اسلام اُن لوگوں کے خیالات کا نام نہیں، جو فساد و تشددکے علَم بردار ہیں ، اسلام کا مآخذ قرآن مجید ہے ، جس کو رپورٹ کے مصنّفین، اسلام کو سمجھنے کے لیے خاطر میں نہیں لائے۔

خلاصہ کلام

ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی اس رپورٹ میں اس تحقیقی کام کے، جو اغراض و مقاصد بیان کیے گئے تھے (ترجمان القرآن، ستمبر ، ص ۳۳ کا دوسرا پیراگراف) رپورٹ اُن کو حاصل کرنا تو دور کی بات ہے، اُن پروضاحت سے گفتگو کرنے میں ناکام رہی ہے۔اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ یہ رپورٹ ’ماڈریٹ اسلامی سیاست‘ کی نمایندہ ہے تو یہ واضح رہنا چاہیے کہ ’شہری مذہب‘ کے ذریعے جتنے حقوق اور عزت و احترام اور روا داری کا مطالبہ وہ غیر مسلموں کے لیےایک مسلمانوں کی حکومت میں کرتے ہیں، ایک اسلامی حکومت، شریعت ِ اسلامی کے تحت اُس سے کہیں زیادہ اُنھیں عطا کرتی ہے:

  •  تمام غیراسلامی قوتوں اور تمدنوں کی آرزو رہی ہے کہ اسلام میں سے مسلح جہاد کو ایک عبادت کے طور پر نکال دیا جائے۔ lفقہ اسلامی بلاشبہہ جامد نہیں، اجتہاد کے ذریعے نئے پیش آمدہ حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نئے قوانین بنائے جا سکتے ہیں ۔ لیکن روحِ شریعت کے نام پر شریعت کا گلاگھونٹنے کا تصور ہی اسلام سے بغاوت کا مظہر ہے۔ lمسلم معاشروں میں ہر بھلائی / معروف کی پذیرائی اور روا داری کی ہمت افزائی ہوتی ہے، لیکن معاشرے کی اساسات میں، جو اُس کے مسلّمہ اصول ہیں اُن کو پامال کرنے کی کسی کمیونٹی کو اجازت نہیں، جیسے بے حیائی کی اجازت، سود کا چلن، شراب کی تیاری اور خرید و فروخت وغیرہ ، وغیرہ۔ اسلام میں حکمرانی اور اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ کا ہے اور تمام اہلِ ایمان مل کر اپنے درمیان سے اُن لوگوں کو منتخب کرتے اور اُس وقت تک اقتدار میں رہنے کی اجازت دیتے ہیں، جب تک وہ قرآن و سنت کی عطا کردہ ہدایات کے مطابق اور اُس کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہتے ہوئے خدمت کر سکیں۔

یہ بات افسوس سے کہنی پڑ رہی ہے کہ رپورٹ بلا دلیل محض پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں۔ محققین اپنے ڈائریکٹروں کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیےعلمی، تاریخی اور عملی سیاست کے زمینی حقائق پر پردہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید بنیادی ماخذ ہے، مگر اس حقیقت سے انسٹی ٹیوٹ کے ملازمین ناواقف رہے ہیں۔ احیائے اسلام کی تحریکات پر جو گفتگو کی گئی ہے، انھوں نے یہ فرض کر کے کی ہے کہ قرآن نازل ہی نہیں ہوا اور شاہ ولی اللہ، عبدالوہاب، ابوالاعلیٰ مودودی، سید قطب، محمد قطب، آیت اللہ خمینی، علّامہ محمد اقبال، علی شریعتی، راشدغنوشی، ڈاکٹر شبیر اختر، کلیم صدیقی،محمد اسد وغیرہ کی نسبت سے اسلام کی پیش کاری کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی گئی۔ پوری رپورٹ میں سید قطب کا فقط ایک حوالہ دیا گیا ہے (ص۴۶۔ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ فکری خلل، نقطۂ نظر کے انتشار اور مغربی فکری جارحیت کے ایجنڈے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

مغرب کا مقتدر طبقہ مسلم ملکوں میں اپنے مقاصد کو پروان چڑھتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اس غرض کے لیے مغرب اپنے پیمانوں کے مطابق باربار اپنے اس دعوے کو دُہراتا ہے کہ وہ ’مسلم دُنیا کو تاریکی اور قدامت پسندی سے نکال کر ’روشنی‘ کے ماحول میں لانا چاہتا ہے‘۔ ہمارے لیے بہ حیثیت مسلمان یہ دیکھنا لازم ہے کہ مغرب ہماری کیا شکل دیکھنا چاہتا ہے؟ اس وقت ٹونی بلیر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج(ٹی بی انسٹی ٹیوٹ) کی جانب سے دنیا بھر کے مسلم ممالک کے لیے جون ۲۰۲۳ء میں جاری کی گئی ایک تحقیقی و تجزیاتی رپورٹ کا حاصلِ مطالعہ بعنوان:Reclaim Political Islam From the Islamists to Raise Moderate Muslim Voices (ماڈریٹ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرکے انتہاپسند اسلام پسندوں سے سیاسی میدان واپس لیا جائے) پیش نظر ہے۔ مغربی دُنیا کے متعدد ’تھنک ٹینک‘ (مراکز ِ دانش) دُنیا بھر کے ممالک کے پالیسی ساز اور مقتدر لوگوں اور اداروں کی رہ نمائی کے لیے تحقیقی کام کے پردے میں ایسے چھپے ایجنڈے پیش کرتے ہیں۔ آئیے، خالص علمی اور منطقی نقطۂ نظر سے دیکھیں کہ اس زیربحث مطالعے کی نوعیت اور حقیقت کیا ہے؟

سب سے پہلے ہم رپورٹ کا ایک اجمالی خاکہ اور اُس کے ’پیش لفظ‘ سے ماخوذ اس تحقیقی کام کے مقاصد بیان کریں گے، تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ یہ رپورٹ اُن مقاصد کو کتنا پورا کرتی ہے؟ پھر رپورٹ کے تجزیے سے قبل اس دستاویز میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی وضاحت ہوگی، اور دوسرے ابواب کا جائزہ لیا جائے گا ۔ تحقیق کے نتائج (Conclusion) اور پہلے باب (Executive Summary) پر گفتگو آخر میں کریں گے۔

اس رپورٹ کے زیرنظر تجزیے کے مقاصد ہمارے پیش نظر یہ ہیں:

  • اوّل یہ کہ وہ تمام لوگ جو اسلام کے احیاء اور اُس کی نشاتِ ثانیہ کے متمنی ہیں وہ اس بات سے واقف ہوں کہ آج دنیا کی غالب قوتیں ہمیں کس شکل میں دیکھنا چاہتی ہیں؟
  • دوم یہ کہ اقامتِ دین کی علَم بردار تنظیموں کے پالیسی ساز افراد یہ جان سکیں کہ عالمی پالیسی ساز ادارے اور حکام، مختلف مسلم ممالک میں اپنے پروردہ مقامی مقتدر پالیسی سازوں کو کیا رہ نمائی دے رہےہیں؟
  • سوم یہ کہ پاکستانی یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں سماجیات، سیاسیات، تاریخ، قانون، علومِ اسلامیہ، تعلیم، سوشیالوجی اور نفسیات کے اساتذہ دیکھیں کہ مقتدر دنیا کس نوع کے تحقیقی مطالعات کروا رہی ہے اور ہمیں اِس پس منظر میں کن موضوعات کو تحقیق کا موضوع بنانا چاہیے؟
  • چہارم یہ کہ مسلم طلبہ اور طالبات کی تنظیمیں ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی اِس رپورٹ اور ایسی تحریروں کو اپنے اسٹڈی سرکلوں کا موضوع بنائیں، تاکہ نوجوان آنے والے زمانے میں اسلام کو درپیش چیلنجوں سے واقفیت حاصل کر سکیں۔

رپورٹ کا اجمالی خاکہ

رپورٹ کے ’پیش لفظ‘ میں اس کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں: lپہلا حصہ پوری رپورٹ کا ایک خلاصہ (Executive Summary)ہے۔ lدوسرے حصے میں مسلم سیاست کے معقول جواز کی حدود پر گفتگو کی گئی ہے۔lتیسرے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ صرف اُن کا مذہب ہی سیاسی پہلو رکھتا ہے بلکہ کم و بیش تمام بڑے مذاہب میدانِ سیاست میں موجود ہیں۔ l چوتھے حصے میں مسلم دنیا کے اندر مذہب اور سیاست کے درمیان تعاملات (Interactions) کے ایک خاکے (frame)کے ذریعےجائزہ لیا گیا ہے۔ lپانچویں حصے میں مذکورہ خاکے کے ذریعے مسلم ممالک میں مختلف بدلتی حکومتوں کے دورِ اقتدار میں، اسلام اور سیاست کے تعلق کی بدلتی صورتوں کا بیان ہے۔lچھٹا حصہ پالیسی سازوں کو مسلم دنیا کی مطلوبہ تشکیل کے لیے حاصلِ تحقیق (Conclusion) پیش کرتا ہے۔l ساتواں حصہ ایک ضمیمہ ہے، جس میں تاریخی پس منظر کے ساتھ اسلامی سیاست کا ایک مختصرجائزہ خاص نقطۂ نظر سے پیش کیا گیاہے اور اسی پس منظر میں چند اہم سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔

’ٹونی بلیرانسٹی ٹیوٹ رپورٹ‘ کا پیش لفظ تحقیقی مقاصد بیان کرتے ہوئے اُمید ظاہر کرتا ہے: lمسلم انتہا پسند، اسلام کا سیاست کے ساتھ جو تعلق بتاتے ہیں، اُس میں اور ’ماڈریٹ‘ تعلق میں پائے جانے والے فرق کا جائزہ لیا جائے lاسلام کے اصول حکمرانی اورقانون کی فرماں روائی کی جو درست تشریحات ہیں، وہ گہرائی میں جا کر سامنے لائی جائیں l’جہاد‘ کو فقط معاشرتی برائیوں کے خلاف ایک جدوجہد سمجھا اور سمجھایا جائے  lشریعت اسلامی کے قدیم ضابطوں پر اصرار کے بجائے، شریعت کے فلسفے کو اہمیت دی جائے۔ lمسلم معاشروں میں وہ خواہ اکثریتی ہوں یا اقلیتی، دیگر مذاہب کے معاشرتی اور سیاسی عمدہ پہلوؤں کوبھی اہمیت دی جائے اوراُنھیں اختیار کیا جائے۔ lمعاشرے میں مذہب اور مذہبی لوگوں کی حکمرانی (Clerocracy) کی مزاحمت کی جائے۔

اصطلاحات کی وضاحت

ٹی بی انسٹی ٹیوٹ رپورٹ کو اُس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا، جب تک کہ اِس میں استعمال کی گئی اصطلاحات سے شناسائی نہ ہو، جنھیں صحافتی حلقے اور علم سیاسیات کے ماہرین ملتے جلتے اور   بعض اوقات مختلف معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم نے اِن کے وہی معانی و مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جن معانی میں اس رپورٹ کےمصنّفین نے اُنھیں جا بجا استعمال کیا ہے (جن تشریحات سے ہم اتفاق نہیں کر سکتے وہ بعد میں زیرِ گفتگو آئیں گی)۔ چند اصطلاحات کی متعین تعریف رپورٹ میں نظر نہیں آتی، جس کا مطلب یہ ہے کہ مصنّفین نے اُن کو اُنھی معنوں میں لیا ہوگا جس میں وہ معروف ہیں:

۱-         Islamists (اسلام پسند، دین کے علَم بردار): مصنّفین کے خیال میں۱۹۷۰ء سے ’سیاسی اسلام‘ سے وابستہ افراد اور تنظیموں نے دنیا کو تشدد سے دوچار کر رکھا ہے۔ مختلف ناموں سے اِن گروہوں/ تحریکوں کو رپورٹ کے مصنّفین نے ’اسلامسٹس‘ (Islamists) کا نام دیا ہے جنھیں  انتہا پسندی، بنیاد پرستی ، اسلام کے سیاسی اور انقلابی تصور سے جوڑا ہے۔

۲-         Moderate Muslims (اعتدال پسند مسلمان): یہ مسلمان گھروں میں پیدا ہونے والے جدید ذہن کے مسلمان ہیں، جو انقلابی اسلام کو ناپسند کرتے ہیں۔ شریعت سے زیادہ مقاصد شریعت کو اہم سمجھ کر اُس کی نئی توجیہات کرتے ہیں۔ جہاد کو ہر گز کسی طور قتال فی سبیل اللہ کے معنوں میں نہیں لیتے بلکہ معاشرتی خرابیوں کے خلاف جدوجہد ہی کو جہاد جانتے ہیں ۔ اس لیے آزادخیال اور دہریت زدہ مسلمانوں(Liberal-secular Muslims) کا اسلام ہی معتدل اسلام ہے‘‘۔

۳-         Mainstream Muslims (عامۃ الناس مسلم): یہ دنیا بھر کی مردم شماری کے رجسٹروں میں اپنا مذہب، اسلام درج کروانے والےلوگوں کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح  ہے،جو اپنے مذہبِ اسلام کو محض چند عقائد ، عبادات اور رسومات کی حد تک جانتے ہیں۔ اِن کے نزدیک اسلام کا سیاست و حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

۴-         Confessional Muslim States (نام نہاد مسلمان حکومتیں): وہ حکومتیں جو اپنا قومی مذہب اسلام بیان کرتی ہیں۔ عید، بقرعید پر چھٹیاں دیتی ہیں ، جمعہ ادا کرنے کے لیے دفاتر میں وقفہ کرتی ہیں، نکاح ، وراثت اور کفن دفن کے لیے شرعی قوانین کا پاس و لحاظ رکھتی ہیں، لیکن ملک میں باقی تمام قوانین کی تدوین کے لیے انسانی عقل ، اپنےتجربات اور زیادہ تر مغرب کی روایات ہی کو دیکھتی ہیں۔ رپورٹ میں مصر کی حکومت کو اس کی عمدہ مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

۵-         Islamic Religious Nationalism (مسلم مذہبی قومیت): مسلمان اکثریت والے ممالک میں وہ حکومتیں مراد ہیں، جہاں کاروبارِ حکومت میں سیاست اور مذہب کی کم و بیش برابر کی عمل داری ہے۔ کبھی سیاسی مصلحتیں مذہب کو نظرانداز کردیتی ہیں اور کبھی جوشِ مذہب سیاسی مصالح کو (بربنائےسیاسی مفادات ) خاطر میں نہیں لاتا ۔ رپورٹ نے ایسی مسلم قومیت کی حامل حکومتوں کی مثال کے لیے جمہوریہ ترکیہ اور پاکستان کا نام لیا ہے۔

۶-         Islamism (اسلامیت): کمیونزم اور لبرل اِزم کے وزن پر ’اسلام اِزم‘ کی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے۔ ہم نے اشتراکیت، جمہوریت یا لادینیت کے وزن پر اس کا ترجمہ ’اسلامیت‘ کیا ہے۔ رپورٹ مصنّفین کے خیال میں یہ اسلام کی سب سے خطرناک شکل ہے کیونکہ غلبۂ اسلا م کے لیے تشدد کی راہ پر گامزن مسلمان درحقیقت اسلام اِزم کے پیرو کار ہیں ۔ افغانستان میں طالبان کی اور ایران میں امام خمینی کی قائم کردہ حکومتیں اسلام اِزم پر عمل پیرا ہیں، جب کہ القاعدہ اور داعش ، اسلام اِزم کی نمایندہ تنظیمیں ہیں، وغیرہ۔

۷-         Radical Republicanism (اندھی جمہوریت): کچھ مسلم مملکتوں میں اسلام اِزم کے بالکل برعکس اندھی جمہوریت متعارف ہوئی، جس کی کلاسیکل مثال ترکیہ میں مصطفےٰ کمال اور تیونس میں حبیب بورقیبہ نے قائم کی (حالانکہ وہ فوج اور عدلیہ کے ذریعےمسلم معاشرے پر بہیمانہ جبر و تشددکی بدنما مثالیں تھیں) ۔

۸-         Political Islam (سیاسی اسلام): تمام ماہرین علوم سیاسیات کے نزدیک پولیٹیکل اسلام ، اسلام کی ہر وہ تشریح ہے، جو اُسے ایک مذہب کے مقابلے میں ایک دین(طریقِ زندگی) بیان کرتی ہے اور حکومت بنانے اور اُسے اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پولیٹیکل اسلام سے منسوب ان کےنزدیک محمد بن عبدالوہاب، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، سیّدقطب اور ڈاکٹرعلی شریعتی نے دورِ حاضر میں سیاسی اسلام کی تعبیرات مہیا کیں ۔ مستشرقین، شاہ ولی اللہ دہلوی کو اس تشریح کا امام قرار دیتے ہیں۔

۹-         Civil Religion (مہذب مذہب): ایسی مملکت جہاں کامل جمہوریت ہو اور جہاں مذہبی اور لامذہبی افراد کے درمیان اورذاتی سطح پر بھی اور بود و باش کی سطح پر بھی، ایک متوازن رشتہ ہو۔ رپورٹ کے مطابق امریکی صدر بارک اوباما کے دورِ صدارت میں ریاست ہائے متحدہ امریکا اس کی بہترین مثال تھا یا محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان [چہ خوب!]۔(ص ۲۰، ۲۳، ۲۹، ۳۶)

۱۰-      Ummah (امت ِمحمدیہ): اللہ کو یکتا و یگانہ اِلٰہ،محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر اور قرآن مجید کو اللہ کی نازل کردہ کتاب ماننے والےاور مکہ مکرمہ میں واقع مسجد حرام (کعبے) کی  جانب اپنی نمازوں میں رخ کرنے والے اہلِ قبلہ ایک قوم ہیں، خواہ وہ کسی انسانی نسل سے ہوں، کسی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں اور کوئی بھی زبان بولتے اور مسلمانوں کے کسی بھی فقہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں اور چاہے فکروعمل کے لحاظ سے کتنے غیرمعیاری ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ سب ایک عالمی مسلمان قوم ’اُمت‘ کہلاتے ہیں(رپورٹ میں امت کو کہیں متعین [define] نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ اصطلاح پانچ مقامات پر استعمال کی گئی ہے)۔

۱۱-      Khilafa/ Caliphate ( خلافہ یا خلافت):حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اُن کی جگہ پوری امت کی سربراہی کا نظام ’خلافت‘ کہلاتا ہے۔مسلمان ماہرین قانون و شریعہ اس بنیاد پر کہ امت ساری دنیا پر پھیلی ہوئی ہے، پوری امت کے لیے ایک سربراہ /خلیفہ کے ہونے کو آئیڈیل صورت مانتے ہیں، جس کے نامزد نمایندے مختلف علاقوں/مملکتوں میں اُس کے گورنروں کی حیثیت سے حکمرانی کریں، خصوصاً اُن علاقوں میں جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی  ہے۔ ٹی بی رپورٹ کے مصنّفین ایک ایسی مرکزی سربراہی /خلافت کے سخت مخالف ہیں اور تجویز کرتے ہیں کہ ایسی 'خلافت کے احیاء کے خیال، تجویز اور تدبیر کی سختی سے مزاحمت کی جائے۔ رپورٹ مصنّفین کے نزدیک جدید دور میں قائم علاقائی مملکتوں میں اچھے طریق حکومت (Governance) کا نام ہی خلافت ہے، جہاں مختلف علاقوں میں وہاں کے عوام جمہوری طریقے سے حکمران خود منتخب کریں، نہ کہ مذہبی حضرات کی حکومت (Clerocracy) کا فرسودہ خیال سوچا جائے۔ یہ جملہ دیکھیے:

Attempts to insist on khilafa as a resurrection of medieval and obsolete caliphates or Islamist states must be uncompro -misingly resisted. (p 9) 

۱۲-      Sharia (شریعت): رپورٹ کے مصنّفین کے نزدیک شریعت قوانین اور اخلاقی ضابطوں کا نام ہے، جن کی دورِ جدید میں مقاصد شریعہ کو پیش نظر رکھ کر تدوینِ نو کی ضرورت ہے۔ مصنّفین نے یہ خیال پُر زور انداز میں پیش کیا ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں فقہا نے جو کچھ کام کیا، وہ اب دقیانوسی ہے، جس کی تدوینِ نو ضروری ہے۔ مسلمانوں کا قدیم مرتبۂ شریعت پر اصرار ایک غیردانش مندانہ مطالبہ ہے، جس کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ رپورٹ کا یہ جملہ ملاحظہ فرمایئے:

Policymakers must be clear that the   Sharia in Islam refers to ethics.Medieval details of sharia must be modernised by drawing upon centuries of sophisticated jurisprudence and the intrinsic diversity of Muslim interpretations that have included dozens of schools of law.Attempts to insist on a single fundamentalist, literalist, mindless interpretation of Sharia must be resisted at all costs. (p 37)

۱۳-      Jihad ( جہاد): رپورٹ کے مطابق ’جہاد‘ اُس جدوجہد کا نام ہے، جو کوئی اپنے نفس یا معاشرے کو برائیوں سے روکنے کے لیے کرتا ہے۔ کسی مسلم قومی حکومت کی مسلح افواج کو جنگی اقدام (قتال) کا حکم یا اجازت انتہائی ناگزیر حالات میں اپنے دفاع ہی کے لیے ممکن ہے، وہ بھی جنیوا کنونشن اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں کی عائد کردہ حدود میں رہتے ہوئے (ص ۹)۔

۱۴-      Clerocracy ( ملّائیت): شفاف عام انتخابات کے بغیر غیر جمہوری طریقوں خصوصا ً طاقت کے استعمال سے کسی مذہبی گروہ کا اللہ کے نمایندے بن کر اقتدار سنبھالتے ہوئے اپنی فقہ جسے وہ الہامی قوانین سمجھیں،نافذ کرنا ملّائیت اور قابلِ نفرت فعل ہے۔ (ایران اور افغانستان کو اس زمرے میں شمار کیا جاتا ہے)۔

مسلم سیاست کے لیے جواز

 رپورٹ کا دوسرا باب: مسلم سیاست کے لیے کتنا جواز ہے؟ (What Is the Legitimate Space for Muslim Politics??)پر مشتمل ہے۔

مصنّفین نے اس باب میں دو اصطلاحات Islamism اور Political Islam کی متعدد تشریحات پیش کی ہیں اور اِن اصطلاحات کی تشریحات سے خلط مبحث پیدا کیا ہے، اور اِن اصطلاحات سے انتہا پسند/ اسلامسٹس کی اجارہ داری پر پریشانی کا اظہار کیا ہے (ص ۱۲،۱۳)۔ رپورٹ مصنّفین کا موقف یہ ہے کہ انتہا پسند اسلامسٹوں نے ، اسلام کے سیاسی نظام کی وکالت سنبھال لی ہے اور وہ پولیٹیکل اسلام یا مسلم سیاست کے علَم بردار یا اجارہ دار بن کر سامنے آ گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری مسلم دنیا میں ماڈریٹ[ مناسب اور عمدہ] اسلام علمِ سیاست اور میدانِ سیاست میں جگہ پائے۔

 اپنی بات کی وضاحت کے لیے وہ متعدد اسکالرز کے حوالے پیش کرتے ہیں، جن سے یہ اصطلاحات مزید اُلجھائو کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس لیے بھی کہ جتنے ماخذات سے انھوں نے رہنمائی حاصل کی ہے وہ سبھی غیر مسلم اسکالرز کے ہیں، جنھوں نے مسلم سیاست کو اندر سے نہیں بلکہ باہر ہی سے دیکھا ہے ۔ مغربی اسکالر کا المیہ یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے کسی منفرد موضوع یا معاملے کو توحید، آخرت، رسالت ِ محمدیؐ اور قرآن مجید کی اتھارٹی کے فریم ورک میں رکھے بغیر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام معاملات میں تعلیمات اور مسلمانوں کا روّیہ اُن کے ایمانیات کےفریم ورک سے عبارت ہوتا ہے۔ مغربی اسکالر جب اس پہلو کو نظرانداز کرکے کسی معاملے میں، مسلم معاشروں میں حرکیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو خود اپنی تشریحات اور اختراعی اصطلاحات سے عاجز آ جاتے ہیں اور اِن کی باتیں مضحکہ خیز بن جاتی ہیں۔ مثلاً پیشِ نظر رپورٹ دیکھیے:

 To say that we are dealing with an instance of political Islam would be to suggest that there are times when Islam is not political (that it -is sometimes "just" religious). (p 13)

یعنی یہ کہنا کہ ہم سیاسی اسلام کی مثال سے نمٹ رہے ہیں، یہ تجویز کرنا ہو گا کہ بعض اوقات اسلام سیاسی نہیں ہوتا ہے (یعنی بعض اوقات یہ ’صرف‘ مذہبی ہوتا ہے) ۔

اس پیچیدہ صورتِ حال سے نکلنے کا ٹی بی انسٹی ٹیوٹ نے یہ راستہ نکالا ہے کہ مسلم ریاستوں میں مسلم سیاست کے مظاہرکو فلپ گورسکی کے پیش کردہ مذہب اور سیاست کےمختلف تعاملات کو ایک فریم میں نصب کیا جائے۔رپورٹ مصنّفین نے گورسکی کے جس فریم ورک کو استعمال کر کے مسلم سیاست کی وضاحت کی ہے، اُس کا تجزیہ آگے کریں گے۔

رپورٹ کا تیسرا باب: [اسلام اور سیاست کے درمیان حرکیات] کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، غیر مسلم ممالک میں بھی مذہب اور سیاست مل کر متحرک ہیں (Not a Unique Case Religion-Politics Dynamic in Non-Muslim Countries)۔ اس عنوان کے تحت رپورٹ مصنّفین یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام اور سیاست کا تعلق کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ تمام مذاہب کا سیاست سے ایک تعلق ہے ۔اس باب کا عنوان بظاہر اس رپورٹ کے عنوان سے متعلق نہیں ہے ، لیکن مصنّفین نے اس عنوان پر اپنی گفتگو کو ہوشیاری سے پیش کر کے کچھ ایسے نادرنتائج اخذ کیے ہیں، جن پر گفتگو کی جانی چاہیے۔ یہاں ہم اسلام کے علاوہ دنیا کے چار بڑے مذاہب اور اُن کے سیاست سے تعلق کا خلاصہ رپورٹ کے مطابق پیش کرتے ہیں:

  • عیسائیت : یورپی ممالک کی سیاست میں عیسائی عقیدہ نظریاتی طور پر موجود ہے۔ پورے یورپ میں کرسچن ڈیموکریٹک پارٹیاں ہیں۔ ان کے ممبر زیادہ تر عیسائی ہیں مگر عوام میں ایمان کی روز افزوں کمزوری کے باعث اُن کی پالیسیاں بھی تیزی سے سیکولر ہوتی جا رہی ہیں اور نوبت یہ ہے کہ وہ اللہ کے وجود کے بارے میں متذبذب اور لامذہب لوگوں کا بھی اپنی پارٹیوں میں خیرمقدم کرتے ہیں۔ اگرچہ برطانیہ زیادہ سیکولر ہے، لیکن عیسائیت ریاست کا مذہب ہے۔(ص۱۴)
  • بودھ مت :سری لنکا اور میانمار بودھ مت ماننے والوں کے جنوبی ایشیا میں دو ممالک ہیں۔ یہاں مذہب اور سیاست دوش بدوش ہیں۔ مذہب کے عمل دخل کے لیے یہ ممالک عیسائیت میں ویٹی کن اور اسلام میں ایران کی شیعہ حکومت کی مانند ہیں۔ سری لنکا کے اراکین پارلیمنٹ ایسے قوانین کو فروغ دیتے ہیں، جو تامل اور مسلمان اقلیتوں کو دوسرے درجے کی قوم بناتے ہیں۔ میانمار میں تو بودھ مذہب نے مسلمانوں کے خلاف اجتماعی تشدد کی راہ اختیار کرلی ہے اور روہنگیا کے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہوا، اُسے متعدد ممالک نے نسل کشی کے ضمن میں شمار کیا ہے۔ (ص۱۵)
  • ہندو مت :بھارت میں اُس کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے ہندستانی قوم پرستی کا ایک سیکولر برانڈ متعارف کرایا، جو تمام ہندستانی شہریوں کو بلا تفریقِ نسل و مذہب برابری کا درجہ دیتا تھا۔اِس سیکولرازم نے اگرچہ سیاست کو مذہب پر ترجیح دی، لیکن اس کا مقصد سیاست اور مذہب کو بالکل الگ بھی نہیں کرنا تھا۔ کٹر ہندو نسل پرست پارٹی (BJP) ۱۹۹۰ء کے عشرے کے آخر تک پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرکے بھارتی سیکولرازم کو چیلنج کر رہی ہے۔ (ص۱۶)
  • یہودیت :اسرائیل علانیہ طور پر دنیا کی واحد یہودی مذہبی ریاست ہے، تاہم یہودی آبادی ایمان کی کمزوری کی بنا پر تیزی سے سیکولر ہونے کی راہ پر ہے۔ اسرائیلی ریاست بین الاقوامی برادری کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ اسرائیل ایک تھیوکریسی نہیں بنے گا مگر اس اعلان کے ساتھ ہی ساتھ قدامت پسند شہریوں سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ ریاست یہودی روایت کو ترک نہیں کرے گی۔سبت، عائلی قانون اور الٹرا آرتھوڈوکسی سبھی یہودی روایات اور قانون کے مطابق ہوں گے۔(ص۱۷)

اس طرح رپورٹ مصنّفین اِن چار مذاہب کے سیاست سے تعلق کو بیان کرنے کے بعد سوال اُٹھاتے ہیں کہ ویٹی کن، سعودی عرب، بھارت، اسرائیل اور ایران کے مذہبی مراکز کو اپنے ماننے والوں پر اپنے اثرو رسوخ کو کس طرح استعمال کرنا چاہیے؟ تفرقہ انگیزی ، تنگ نظری کے لیے یا انسانوں کے درمیان اتحاد اور عالم گیریت کے لیے؟(ص۱۸)۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِن مراکز کو اپنے ماننے والوں کو نیکی اور دوسروں کے ساتھ ضرور امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کی ہدایت کرنی چاہیے۔

اسی طرح مصنّفین اس امرِ واقعہ کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں: ’’سعودی عرب، وہابیت اور اسلامیت کی تنگ تشریح سے ہٹ کر اب اسلام کی ایک جامع اور عالم گیر تشریح کی طرف منتقل ہورہا ہے‘‘(ص۱۸، ۴۱)۔ہم سعودی عرب میں پروان چڑھنے والی اس تبدیلی پر رپورٹ مصنّفین سے اتفاق نہیں کرتے۔در حقیقت سعودی عرب ’وہابیت سے اسلام کی عالم گیر تشریح کی جانب‘ نہیں بلکہ مغرب کی حیا باختہ تہذیب پر فریفتہ عناصر کی خوشنودی کی خاطر، اسلامی تمدن سے مغربی تمدن کی جانب لڑھک رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں حج و عمرہ کے لیے مغربی تہذیب سے اجنبیت محسوس نہیں کریں گے۔ یوں تہذیب ِمغرب کے مزید فروغ  میں مرکزِ اسلام بھی ممد و معاون ہو رہا ہے۔

مصنّفین اس باب کے اختتام پر دو اور معاملات چھیڑتے ہیں: پہلے مسئلے کو رپورٹ یوں بیان کرتی ہے کہ قرآن حکیم سے استدلال کرتے ہوئے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ اللہ کا واقعی منشاء یہ ہے، تو یہ فیصلہ کیسے ہو کہ اللہ کا واقعی منشاء وہی ہے جو بیان کیا جا رہا ہے؟ خوارج کی شورشوں کے دور سے لے کر آج تک،پُرتشدد انتہا پسندوں کی طرف سےیہی ایک بات کہی جاتی ہے، کہ ’’فیصلہ صرف اللہ کامانا جائے گا‘‘۔ القاعدہ، داعش، طالبان اور ایران کے مذہبی رہنما سب نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صرف قرآن کے فہم کی بنیاد پر اللہ کے حکم کو جانتے ہیں (ص۱۸،۱۹)۔ رپورٹ نے اس طرح بظاہر ایک ’معصوم‘ سا سوال اُٹھایا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ الہامی کتابیں صرف تلاوت و قرأت کے لیے ہیں۔ ان سے اللہ کی مرضی و منشا معلوم کرنا بندوں کا کام نہیں یا اُن کے بس کی بات نہیں! پھر رپورٹ اس سے دوسرا مطلب یہ بہم پہنچاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ، نعوذُ باللہ اس بات پر قادر ہی نہیں تھا کہ اپنی کتابیں اپنے بندوں کے لیے قابلِ فہم زبان میں نازل کر سکتا، اور صرف شرپسند ہی اُن کتابوں سے استفادہ کرکے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، نعوذباللہ۔ ٹی بی انسٹی ٹیوٹ رپورٹ کے مصنّفین کیا یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اس رپورٹ کے معانی، مفاہیم اور اس کے ذریعے پالیسی میکرز کو منتقل کیا جانے والا پیغام کوئی انسان یا پالیسی میکر سمجھ ہی نہیں سکتا سوائے خودمصنّفین کے!

دوسرا مسئلہ اس باب کے ایک اجمالی تاثر کا ہے، اور وہ یہ کہ’’ اسلام اگر سیاست سے کوئی تعلق رکھتا ہے تو کیا ہوا، سارے ہی مذاہب سیاست سے تعلق رکھتے ہیں!‘‘ سوال یہ ہے کہ مصنّفین کو اتنی جانی پہچانی حقیقت کو سمجھانے کے لیے ایک باب کی کیا ضرورت تھی؟ بات دراصل یہ ہے کہ بادشاہتوں، موقع پرستوں ، ظالم و جابر سپہ سالاروں اور پھر آخر میں سیکولرازم نے آ کر مذہب کو سیاست و حکومت کے دائرے سے نکال کر اُسے صرف چند رسومات کا ایک ادارہ بنا دیا ہے۔موجودہ مابعد سیکولرزم دور میں مذہب کی حیثیت کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔

 مذہب کے معاشرے میں موجود اثر و رسوخ سے فائدہ اُٹھانے کے لیے سیکولر حضرات نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے نظام سیاست میں ایک معمولی قابلِ برداشت حد تک اداراتی حیثیت دینےکے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ اس معمولی حیثیت کی بنیاد پر اسلام سے یہ پوچھا جائے کہ ’سیاست سے تعلق کے معاملے میں اُس کی کیا انفرادیت ہے ؟‘ یہ طرزِ فکر اپنی جگہ بڑی زیادتی اور جہالت پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ اسلام ایک کامل دین اور ایک اکائی ہے۔ یہ جتنا عام معنوں میں مذہبی ہے،اُتنا ہی زندگی کے ہر دائرےکو سمیٹتا ہوا سیاسی و عسکری اور معاشی و معاشرتی اور قانونی و بین الاقوامی بھی ہے ۔ اُس کا عیسائیت اور یہودیت کی مانند سیاست میں دخل چند اسکولوں کے لیے فنڈنگ ، چند عبادت گاہوں کی سرپرستی ، علما کے لیے چند مناصب اور کچھ ایّام کی تقدیس پر چھٹی اور کام بند رکھنے کا نام نہیں ہے، اور نہ اس کی سیاست کا محور بھارت اور میانمار کی مانند دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی نسل کشی ہے یا اُن کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنا ہے۔ جہاں تک چند گروہوں کی دہشت گردی کا تعلق ہے، اُس کو اگر اسلام کی سیاست کہا جائے تو یہ معلومات اور فہم کی غلطی ہے۔

یہ رپورٹ مسلمانوں کو بتانا چاہتی ہے کہ سیاسی اسلام بذات خود کوئی مسئلہ نہیں ہے، جس طرح پوپ کی سیاسی عیسائیت، صیہونیت کی سیاسی یہودیت اور ہندستان کا سیاسی ہندو ازم اپنے آپ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ مذہب کی سیاست کرنے کا ہے (ص۱۹)۔ یہ کیسا تلخ مذاق ہے کہ صیہونیت اور ہندو ازم کے نام پر اسرائیل اور بھارت میں سیاست کرنے نے مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ سوائے اس رپورٹ کے مصنّفین کے، کس صاحب ِ عقل و دانش پر آشکار نہیں ہیں؟

موجودہ مابعد سیکولر دور میں مذہب عوامی حلقوں میں واپس لَوٹ رہا ہے، جس میں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وہ عقلی بنیادوں پر شہریوں کو اپنی روزمرہ کی سیاست میں مذہب کے نظامِ اقدار سے متاثر ہونے کی اجازت دیتا ہے(ص۱۹)۔ مگر اس کے مقابلے میں اسلام صرف متاثر ہونے کی نہیں بلکہ اہلِ ایمان سے کاملاً ایمان و اسلام میں داخل ہو جانے کا طالب ہے۔ معاملے کی یہی وہ نزاکت ہے جو رپورٹ کے مصنّفین کی نظروں سے اوجھل ہے۔

مسلم ممالک پرگورسکی فریم کا اطلاق

رپورٹ کا چوتھا باب مسلم ممالک میں مذہب اور سیاست کے درمیان رشتوں کی نوعیت (Dynamics Between Religion and Politics in the Muslim World) پر مبنی ہے۔

اس رپورٹ کا مرکزی نکتہ ییل یونی ورسٹی (Yale University) میں سماجیات کے پروفیسر فلپ گورسکی (Philip Gorski) کے ایک تجزیاتی فریم (دیکھیے پچھلا صفحہ)کا موجودہ دور کی مسلم حکومتوں پر اطلاق ہے۔ ’گورسکی فریم ورک‘ جسے اُس نے مذہب اور سیاست کے باہمی تعاملات کے مختلف اُونچے نیچے درجوں کا مطالعہ کرنے کے لیے تجویز کیا تھا، اُسے رپورٹ کے مصنّفوں نے مسلم ممالک کی مثالوں سے رنگ بھر کے پیش کیا ہے۔ ہم نے ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں دیے گئے فارم کو اردو میں منتقل کرتے ہوئے کہیں اصطلاحات کا محض ترجمہ کیا ہے اور کہیں زیادہ برمحل نام دیے ہیں جو یہاں دیئے گئے جدول میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

 

مسلم ممالک میں مذہب  اور سیاست کے درمیان رشتوں کی نوعیت

اس فریم ورک میں مذہب اور سیاست کے تعامل کے  نو(۹)گروپس تجویز کیے گئے ہیں: بنیادی گروپس تین ہیں، جو عمودی کالموں میں پیش کیے گئے ہیں:

  • مذہب اور سیاست جدا جدا
  • کچھ معاملات میں ملاپ اور کچھ جدا جدا
  • مذہب اور سیاست کی کامل یکجائی۔ اِن تینوں بنیادی گروپس کے ہر گروپ کے تین مزید ذیلی گروپس ہیں:
    • سیاست کی مذہب پر برتری
    • سیاست اور مذہب برابر
    • مذہب کو سیاست پر فوقیت۔ یوں تین بنیادی گروپس ہیں اور ہر بنیادی گروپ کے تین ذیلی گروپ، اِس طرح کل ذیلی گروپس نو(۹) ہو گئے۔

ٹی بی انسٹی ٹیوٹ رپورٹ کے مصنّفین کی نظروں میں پاکستان، جناح صاحب کے زیرِسایہ ۱۹۴۷ء میں مہذب اسلامی حکومت (civil religious،گورسکی فریم میں پانچویں نمبر پر) تھا۔ پھر ۱۹۵۶ء میں اعترافی اسلامی بن گیا اور ۲۰۲۱ء میں عمران خان کے دورِحکومت میں مذہبی قومی حکومت بنا اور وزارتِ عظمیٰ کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ خالی خولی اعترافی رہ گیا، کیا اچھوتی بات ہے واہ! بالکل اُسی طرح جیسے مصر کے صدر محمدمرسی کی مذہبی قومی مملکت، جنرل سیسی کے آتے ہی اعترافی بن گئی! مصنّفین کی اچھوتی دیانت، جناح صاحب کی پاکستان میں سول حکومت صرف اور صرف اُن کی ایک تقریرتک محدود ہے۔یہ تقریرریکارڈ پر موجود اُن درجنوں تقاریر کو کالعدم نہیں کر سکتی، جو اُنھوں نے تحریک ِپاکستان کے مقاصد بیان کرنے کے لیےغیر منقسم انڈیا میں کی تھیں، جو مذہبی قومی حکومت بنانے کے خواب دکھاتی تھیں۔

پاکستان ۱۹۵۶ء کے اسلامی دستور کے ذریعے اعترافی یا واضح الفاظ میں محض نام کی (دوسرے نمبر پر)، اسلامی مملکت نہیں بنا بلکہ ایک مذہبی قومی حکومت(چوتھے نمبر پر) بناتھا۔ ٹی بی رپورٹ کے مصنّفین کو چاہیے کہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقدمے ’قراردادِ مقاصد‘ (Objectives Resolution)کا مطالعہ کر کے بتائیں کہ گورسکی فریم میں پاکستان کی کیا جگہ بنتی ہے؟ پاکستان پر ایک کے بعد ایک ایسا طبقہ مسلط رہا، جو کسی نہ کسی طورقرآن، اسلام، مساواتِ محمدی اور ریاست مدینہ کا نام لیتا رہا ، مگر محض باتوں اور نعروں کی حد تک، اس نے اسلام کو کہیں پنپنے نہیں دیا!

پانچویں باب میں جہاں تیونس ، مصر اورمشرقِ وسطیٰ کی تیل کی دولت سے مالا مال مسلم سلطنتوں کے اس فریم میں درجات کی تبدیلیوں کو بیان کیا گیا ہے، وہ بھی اسی نوع کےفریبِ نظر اور اسی نوعیت کی پریشان فکری کے سوا کچھ نہیں۔

یہاں تک رپورٹ کے اُس بنیادی حصے اور نکات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے، جن کی بنیاد پر پہلا باب خصوصی خلاصہ (Executive Summary) ہے اور چھٹے باب میں نتائجِ تحقیق (Conclusion) پیش کیے گئے ہیں۔ اگلے حصے میں ان شاء اللہ ان دونوں ابواب کا تنقیدی تجزیہ کیا جائے گا۔(جاری)