ٹونی بلیر انسٹی ٹیوٹ فار ر گلوبل چینج (ٹی بی انسٹی ٹیوٹ)کی رپورٹ کے چار بنیادی ابواب (۲ تا ۵) کا جائزہ پچھلی قسط میں لیا گیا ہے۔ اب ہم اس کے پہلے اورچھٹے ابوابlخصوصی خلاصہ اور lحاصلِ کلام پر گفتگو کریں گے۔ یہ دونوں ابواب مختلف ناموں سے ایک ہی نوع کے ہیں اور دونوں ابواب کم و بیش ایک ہی جیسے قائم کردہ مقدمات اور حاصل نتائج کی تکرار اور ایک جیسے لوازمے پر مشتمل ہیں۔
اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم اسلام کی احیائی تحریکات کے سیاسی پہلو کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاحات کے خلط مبحث پر گفتگو کریں گے۔اِس کے دوسرے حصے میں کچھ مفروضوں کا جائزہ لیا جائے گا، جن کی بنا پر زیرِ تبصرہ رپورٹ اپنے استدلال کی عمارت تعمیر کرتی ہے۔ تیسرے حصے میں مرکزی موضوع یعنی ’ماڈریٹ مسلم سیاست‘ کو زیر بحث لائیں گے کہ یہ کیا چیز ہے، جس کے مسلم معاشروں میں نفوذ کےلیے مغرب بے چین ہے؟چوتھے نمبر پر اسلام کی اُن چار بنیادی اصطلاحات کی وضاحت کی جائے گی، جن کے مفہوم و معانی کو بگاڑنے پر ہی اس رپورٹ کی مطلب براری منحصر ہے۔پانچویں حصے میں رپورٹ کے دعوے کےمطابق اِس تحقیق کے سب سےنمایاں کام یعنی گورسکی سے مستعارلیے فریم ورک کو دیکھیں گے۔
اللہ کا دین، اسلام اپنی بنیادی ساخت میں انتہائی ہمہ گیر ضابطۂ زندگی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام، نمرودسےاور موسیٰ علیہ السلام، فرعون سے ٹکراتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سردارانِ قریش کے ساتھ معرکہ برپا ہوتا ہے۔ سردارانِ مکہ کا سارا خوف اس بات میں مضمر تھا کہ اسلام اُن کے ہاتھ سے اُن کی سرداری ، اُن کی تہذیب، اُن کی معیشت اور اُن کی سیاست سمیت اُن کا پورا نظام لے کر ایک اللہ اور اُس کے نمایندے کے ہاتھ میں منتقل کرنا چاہتا ہے۔ مستشرقین کا یہ کہنا کہ مکہ میں اسلام محض ایک الہامی مذہب تھا اور مدینے پہنچ کر یہ سیاسی ہو گیا۔ ان کا یہ مفروضہ اپنی جڑ بنیاد میں بالکل بے بنیاد ہے۔ صحیح صورت یہ تھی کہ مکہ میں اسلام کی سیاست کمزوری اور ضعف کی حالت میں تھی، اِس لیے بہت واضح نہیں ہوئی۔ مدینے میں اسلام کے ہاتھ میں اقتدار تھا۔ اجتماعی زندگی کے نظامِ کار کو چلانے کے اصولوں کو اگر سیاست کہا جاتا ہے تو یہ سیاست دونوں جگہ بھرپور تھی، مگر اپنے وسائل و مسائل کے مطابق، کیفیت اور کمیت کے لحاظ سےمختلف !
خلافت راشدہؓ سے ملوکیت میں تبدیلی اور مسلمانوں کے قائدین کا رفتہ رفتہ اہلِ دین اور اہلِ سیاست کے دو گروہوں میں بٹ جانے کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاں معاملاتِ حکومت سے دُوری اور صاحبانِ اقتدار کی خلافِ اسلام حرکتوں پرگرفت نہ کرنےکا ایک ایسا طویل عرصہ گزرا، جس میں یہ محسوس ہونے لگا کہ اہلِ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی دورِ انحطاط سے استدلال کرکے ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ نے اپنے آخری باب ’اسلام اور سیاست کے درمیان تاریخی حرکیات‘ کے اہم نکات میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’سوائے دورِ نبوتؐ اور خلافت راشدہؓ کے زمانے کے، اسلام اور سیاست کبھی باہم مدغم نہیں ہوئے، بلکہ اس پورے دور میں مسلمان حکومتیں محض اعترافی مسلم حکومتیں تھیں نہ کہ کامل اسلامی۔ رپورٹ کااصرار یہ ہے کہ ’’یہی اصل اسلامی سیاست کی تصویر ہے، رہا دورِ نبوتؐ تو اُس کو تو واپس نہیں لوٹایا جاسکتا!‘‘ (ص۶،۲۴) اس طرح یہ رپورٹ پیغام دے رہی ہے: ’’پس، اے اسلام کے علَم بردارمسلمانو ، اپنے 'ترکِ سیاست والے دور کی جانب لوٹ جاؤ اور زمین کی بادشاہی ہم نے چھین لی ہے ، سو ہمارے ہی پاس رہنے دو!‘‘
اللہ کے کلام، قرآن مجید کی تلاوت و تدبر کے تسلسل سے ہر دور میں امت میں کچھ نہ کچھ جرأت مندلوگ دین و سیاست کی تقسیم کے خلاف بولتے رہے، یہاں تک کہ مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محمد بن عبدالوہاب، علّامہ محمد اقبال، حسن البنا، سعیدنورسی، سیّد مودودی، سیّدقطب، مالک بن نبی اور علی شریعتی وغیرہ اور اِن کے ہزاروں، لاکھوں ساتھیوں نےبیسویں صدی کے وسط تک دین و سیاست کی دوئی کے تصور اور ترکِ سیاست کی جبری روِش سےمسلم امت کے اذہان کو صاف کر دیا۔
زمین کے مختلف خطوں میں مذکورہ شخصیات کی برپا کردہ اقامتِ دین کی تحریکات کو مستشرقین نے ’پولیٹیکل اسلام‘ یا ’سیاسی اسلام‘ کا نام دیا۔’اسلامیت‘ کی اصطلاح کو اکثر ’سیاسی اسلام‘ کے ساتھ بدل کر استعمال کیا جانے لگا۔ چونکہ بیسویں صدی پر لفظ ’ازم‘ (ism) چھایا ہوا تھا: کمیونزم، سوشلزم، لبرلزم، سیکولرزم وغیرہ، چنانچہ میدانِ سیاست میں اسلام کے غلبے کے لیے اُٹھنے والی آوازوں کو ’اسلام ازم‘ بھی کہا جانے لگا۔ کمیونزم کے ماننے والے کمیونسٹ بنے تو اسلام کا اقتدار چاہنے والے’اسلامسٹ‘ کہلائے ۔ یہ تمام اصطلاحات ماہرینِ سیاسیات و صحافت کی تھیں۔
یہاں پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ خود مسلمان اہلِ علم اور مفکرین و مفسرینِ قرآن و حدیث نے، جو میدانِ سیاست میں سرگرمِ عمل تھے، اِن اصطلاحات کو کہیں استعمال نہیں کیا۔ دو مختلف خطّوں میں مختلف زبانیں بولنے والے سیّد مودودی اور سیّد قطب میدانِ سیاست کے بھی رمزشناس تھے اور دونوں ہی عصرِ حاضر کے عظیم مفسر قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کے عین مطابق عملی سیاست میں بھرپور حصہ لینے والے تھے۔ اسی جرم میں دونوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ اِن دونوں نے ان اصطلاحات کو نہ ایجاد کیا اور نہ استعمال کیا۔
اہلِ مغرب کی طرف سے ’پولیٹیکل اسلام‘ ایک انقلابی فکر کا نام قرار دیا گیا تھا۔لبرل اور سیکولر لوگ، مسلم دنیا میں ابھرتے ہوئے اسلام سے زیادہ پریشان ہوئے۔چنانچہ اسلام کے احیاء کی تحریکات کواپنے ہی کلمہ گو آمروں (ڈکٹیٹروں): کمال اتاترک، امان اللہ، رضا شاہ پہلوی، ایوب خان، جمال ناصر، حبیب بورقیبہ، حسن البکر،صدام حسین، حافظ الاسد، پرویز مشرف ، حسینہ واجد اور جنرل سیسی جیسے لبرل، سیکولر اور قوم پرست لوگوں سے مختلف مقامات پر سابقہ رہا ہے ۔
ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ، جب اوپر مذکورہ جابرحاکموں جیسے لوگوں کو مسلمانوں کے قابلِ تقلید اور نامور قائدین کی حیثیت سے پیش کرتی ہے، تو یہ رپورٹ کھلم کھلا روحِ اسلام کی رُسوائی کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتی۔اسی زمانے میں قوم پرستی کی تحریکات نے دنیا میں جڑ پکڑی۔ اِن تمام سیاسی و سماجی دھاروں نے اسلام کی احیائی تحریکات کو سخت مزاحمت سے دوچار کیا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی کا آخر آپہنچا۔ اس زمانے میں اِن تحریکات سے متاثر، مگر ان کے بڑے دھارے سے کٹے ہوئے کچھ گروہوں کے پُرتشدد رویوں نے بے جا طور پر اُلٹا انھی لاتعلق اور ناقد تحریکوں کو ’مسلم انتہا پسند/اسلام پسند‘ کے نام سے منسوب کردیا۔سامراجی اور غاصب قوتوں نے آزادی کی جنگوں میں مصروف افغانستان، فلسطین، کشمیر، چیچنیا،اراکان، بوسنیا اور مورو وغیرہ میں مصروفِ جدوجہد مسلم حُریت پسندوں کو ’دہشت گردی‘ سے جوڑ دیا۔ اس طرح یہ جائز حقِ خودارادیت و حقِ آزادی کے حصول میں مصروف عسکری تحریکات اُوپر بیان شدہ تمام مذموم اصطلاحات کے خلط مبحث کا شکار ہو گئیں۔
اس لیے لازم ہے کہ مسلم ماہرینِ دین و سیاست اور یونی ورسٹیوں میں اس فن کے پروفیسروں اور دیگر صاحبانِ علم خاص طور پر اس اتہامی، الزامی اور ابلاغی حملے کے توڑ کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور اصطلاحات کو معیاری طور پر متعین (standardise) کرکے دنیا کے سامنے رکھ دیں۔ جب تک یہ کام ہم خود نہیں کریں گے تو وہی کچھ ہوتا رہے گا، جس کا نوحہ اُوپر پڑھا گیا ہے۔
رپورٹ کا یہ کہنا کہ ’’اسلام کی سیاست میں عمل داری دنیا کے دیگر مذاہب سے کوئی منفرد یا غیر معمولی بات نہیں ہے‘‘(ص۵)۔
۱- یہ بات امرِواقعہ کے لحاظ سے ہرگز درست نہیں ہے۔ تمام مذاہب میں مذہب اور سیاست کی کامل علیحدگی کا ایک تصور ہے،جب کہ رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے: ’’مسلم دنیا میں سرے سےایسا کوئی تصور ہی نہیں ہے‘‘(ص۳۵)۔ مصنّفین کا یہ کہنا کہ ’’ماڈریٹ مسلم سیاست، پوری اسلامی تاریخ کا معمول رہی ہے‘‘(ص۳۶) زمینی حقائق کے برخلاف ہے۔ تاہم، اس دعوے کی تائید کے لیے رپورٹ کے آخر میں اسلام کی سیاسی تاریخ کا حلیہ 'سدھارنے کے لیے آٹھ صفحاتی ایک ضمیمہ شامل کیا گیا ہے(ص۳۹)، جس کے برسرِ غلط ہونےکو تسلیم کرنےکے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ خلافت کا ادارہ اس کم زور سی ’ماڈریٹ ڈوری‘ سے کم و بیش ایک ہزار تین سو برس تک کیسے لٹکا رہا؟
رپورٹ یہ بیان بھی پیش کرتی ہے کہ’’دیگر مذاہب کی مانندمسلمانوں کو چاہیے کہ سیاست کے دائرے میں (ماڈریٹ انداز سے) وہ اپنا قانونی حق استعمال کریں تاکہ اُن کی وہ موروثی اقدار جن کی گہری جڑیں تاریخ میں ثبت ہیں برقرار رہیں‘‘(ص۴)۔اس تضاد بیانی کو کیا نام دیا جائے کہ ہماری اقدار اور دین و شریعت پر تیشہ چلا کر اُن کی بنیادی اصطلاحات تک کے معانی و مفہوم بدلنے کی سعی فرمائی اور پھر ناصحانہ انداز سے ہم ہی کو تبدیل شدہ مورثی اقدار کو جاری کرنے کی نصیحت کی جارہی ہے!
اس رپورٹ کا بنیادی مقصد’ماڈریٹ مسلم سیاست‘ کو ایک تیسرے راستے پر چلانا ہے۔ جیسے یہ ہے کہ ’’ماڈریٹ طبقہ موجود تو ہےلیکن اسے مغرب کی عالمی طاقتوں کی جانب سے [سیاسی، اخلاقی،مالی]ہمت افزائی کے ذریعےمضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماڈریٹ مسلم سیاست درحقیقت ایک ایگزٹ ریمپ ہے۔ یہ راستہ، یہ ریمپ ہمارے ڈھب کے پسندید ہ و مطلوبہ مستقبل کے تکثیری(pluralist) اور تہذیبی (civilisational) اسلام کے لیے ایک مضبوط قوت ہوسکتا ہے اور اس میں دین کی احیائی تحریکوں کے زوال کے بعد اسلامی دنیا کے مستقبل کا پرچم بردار بننے کی صلاحیت ہے‘‘(ص۸، ۳۶)۔
یاد رہنا چاہیے کہ مسلمانوں میں ’ماڈریٹ طبقے‘ سے مراد ’لبرل سیکولر طبقہ‘ ہے، جو اسلام سے بے زار تو ہے مگر اپنی منافقت اور فطری بزدلی کے سبب اتنی جرأت نہیں رکھتا کہ اسلام سے لاتعلقی کا اعلان کرکے مرتد ہوجائے۔ یہ رپورٹ بیان کرتی ہے:’’ اُن کا مدعا اسلامی تحریکات (اسلامیت)کے خلاف مزاحمت جاری رکھتے ہوئے ماڈریٹ مسلم سیاست کی حقیقت اور جواز کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنا ہے‘‘۔
جس پر چاہتے ہیں رپورٹ کے مصنّفین ’انتہاپسندی‘ کا الزام تھوپ دیتے ہیں۔ ساری دنیا کی حکومتوں اور اُن کے پالیسی ساز اداروں اور افراد کو مسلمانوں کے قائم و مستحکم اداروں کے خلاف بھڑکاتے اور مسلمان علمی و فکری تنظیموں کے خلاف جنگ کی دھمکیاں دیتے ہیں اور پالیسی سازوں کو مسلمانوں سے اِس جنگ کو جیتنے کے لیے اُکساتے ہیں۔(ص ۷،۹،۳۶،۳۷)
رپورٹ یہ مقدمہ پیش کرتی ہے: ’’مذہب اور سیاست کے درمیان ایک صحت مند تعلق کی راہ ہموار کرنے اور(بشمول) قومی ریاستوں اور بین الاقوامی نظام (ورلڈ آرڈر) کی بقا کے لیے، ’جدید دنیا کے مذہبی جواز‘ (theological legitimacy of the modern world) اور اُس کی سالمیت کی لازمی ضمانت درکار ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’جدید دنیا کے مذہبی جواز‘ کو کس نے مرتب کیا ہے؟ کس بین الاقوامی ادارے نے اس کو منظور کیا ہے اور کن ممالک نے دستخط کیے؟ مغرب کے ’بدمعاش‘ (Rogue) حاکم اپنے ذہن میں ’ جواز‘ کا ایک خاکہ تراش کر اُسے ساری دنیا پرمسلط کرنا چاہتے ہیں۔
رپورٹ صرف ان مباحث تک محدود نہیں رہتی بلکہ اپنے اس’ جواز‘ کو ’انسانیت‘ بلکہ درحقیقت اپنی حاکمیت کو دوام بخشنے کے لیے اسلام کی چار اداراتی اصطلاحات lامّت ،lخلافت، lشریعت اور lجہاد کا اپنی مرضی، اپنے خیالات و افکار کے مطابق، اصلی معانی کے برعکس نئے معانی دے کر اُن کا حلیہ بگاڑنے کے درپے ہے۔ یاد رہے، یہ محض چار اصطلاحات یا پالیسیاں نہیں ہیں، یہ اسلام کے مستحکم ادارے ہیں، جس طرح عدالتیں، مساجد اور نکاح معاشرے میں ایک اداراتی حیثیت رکھتے ہیں، اسی طرح یہ چاروں اصطلاحات اسلامی معاشرے میں اپنا ایک رول رکھتی ہیں۔
رپورٹ آج کی دنیا کے لیے اپنے خود ساختہ مذہبی جواز کی ضمانت مہیا کرنے کے لیے اسلام کے چار بنیادی ترین اداروں کو مسمار کرنا چاہتی اور یہ بیان کرتی ہے: ’’چار پالیسیاں ہیں، جو مذہب اور سیاست کے صحت مند امتزاج کو فروغ دے سکتی ہیں۔ذیل میں ان کا خلاصہ اسلام کے چار اہم پہلوؤں کے گرد کیا گیا ہے، جو اس وقت انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کے درمیان ٹکرائو کا سبب ہیں‘‘(ص۸)۔ رپورٹ اس بیان کے بعد اِن چاروں اصطلاحات کی بے سروپا ، من پسند تعریفات پیش کرتی ہے، جنھیں ذیل میں اُن کی موشگافیوں پر تبصرےسے قبل ’نقلِ کفر،کفر نباشد‘ کے طور پر پیش کیاجارہا ہے:
۱- اُمّت (قوم):’’پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ مسلم کمیونی ٹیز کو لازمی طور پرپھلنے پھولنے کی اجازت دیں۔ یہ اجازت مسلم انتہا پسندوں کی نفی کے ساتھ مشروط ہونی چاہیے، اُن کے نظریات مسلمانوں کو غیر مسلموں کے خلاف کھڑا کرتے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں قومیت کے مضبوط احساس کی ضرورت ہے۔ اس لیے جدید قومی ریاستوں کو اپنی [قومی]اقدار پر زور دینا چاہیے اور احساس پیدا کرنا چاہیےکہ اس دنیا پر دوسرےبڑے مذاہب کا بشمول لا دینیت اور انسانیت پرستی کے فلسفوں کا بھی حق ہے‘‘ (ص۸، ۳۶)۔
رپورٹ، ڈیڑھ ہزار برس سے جاری عالمی امت کو ' مسلم کمیونٹیوں میں تبدیل کردینا چاہتی ہے۔ اس رپورٹ سے قطع نظرمغرب کے ماہرین سیاسیات اور مستشرقین کی ایک قابلِ ذکر تعداد ایسی ہے، جو اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کو بھی القاعدہ اور داعش کی فہرست میں شامل کر کے ’انتہا پسند‘ کہتے ہیں۔ ایسےہی ماہرین کو اس رپورٹ میں نقل کیا گیا ہے ۔ اس ذہنی پس منظر میں امت سے اخوان اور جماعت کو نکال دیجیے، سلفیوں، ایران کے آیات اللہ اور افغان طالبان کو بھی نکال دیجیے کہ رپورٹ میں ان سب سے نفرت کا اظہار ہوتا ہے، تو بتایا جائے کہ آپ کی تعریف کردہ امت میں باقی بچا کیا؟
۲- خلافت (گورننس):’’پالیسی سازوں کو واضح ہونا چاہیے کہ اسلام میں خلافت سے مراد گڈ گورننس ہے، جس میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری ،نرمی اور رحم دلی کا رنگ لیے ہوتی ہے۔ قرون وسطیٰ کی فرسودہ خلافت یا انتہا پسندوں کی اسلامی ریاستوں کے احیاء کو خلافت کہنے یا سمجھنے پر اصرارکی کوششوں کی غیر مفاہمانہ مزاحمت کی جانی چاہیے‘‘ (ص۹، ۳۷)۔
ٹی بی انسٹی ٹیوٹ نے یہ حق کس طرح حاصل کرلیا کہ اسلام کی بنیادی قرآنی اصطلاح کی وہ ایسی تعریف کرے، جو نہ نص سے ثابت ہے اور نہ تاریخی شہادت سے۔کس بنیاد پر کوئی ’تھنک ٹینک‘ دنیا بھر کے پالیسی سازوں سے یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ ’’خلافت کے احیا کی کوششوں کی غیر مفاہمانہ مزاحمت کی جانی چاہیے!‘‘ اگر قومیت اور جغرافیائی بنیادوں پر دنیا بھر میں ممالک بن سکتے ہیں اور پھر مجلس اقوام متحدہ بھی بن سکتی ہے تو آخر خلافت کےادارہ کے بننے پر کسی کے اعتراضات کی کیا منطق ہوسکتی ہے؟ اس سے انسانیت کو کس طرح کے نقصانات کا خطرہ ہے کہ جن سے مغرب کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں؟ حالانکہ ’خلافت‘ کے تو ابھی آثار بھی نہیں ہیں۔یہ تو بالکل ایسا منظر ہے کہ جس طرح کوئی بدمست پہلوان، اپنی وحشت کے زور پر کسی شریف آدمی کو زمین پر گرا کر، اس کے سینے پر بیٹھ جائے ، مگر ساتھ ساتھ یہ ہاہاکار مچائے: ’’مجھے اِس خاکسار سے بچائو‘‘۔
۳- شریعت (قانون اور اخلاقیات):’’پالیسی سازوں پر واضح ہونا چاہیے کہ اسلام میں شریعت سے مراد اخلاقیات ہیں۔ قرون وسطیٰ والی شریعت کی تفصیلات کی جدید ترتیب لازمی ہے۔یہ کام صدیوں پرانی تہہ دار فقہ کو مسلم تشریحات کے اندرونی تنوع کو مدنظر رکھتے ہوئےکھولنے کے ذریعے ہوگا۔ قدیم شریعت/فقہ کو جس میں قرون وسطیٰ کے دور میں بھی درجنوں فقہی مکاتبِ شامل تھے، کسی ایک واحد فقہی مکتب ِ فکر سے لفظ بہ لفظ اور سطر بہ سطر بلا سوچے سمجھے اخذ و قبول اور رائج کرنے کی کوششوں کی ہر قیمت پر مزاحمت درکار ہے‘‘(ص۹، ۳۷)۔
پھر ٹونی بلیر انسٹی ٹیوٹ کہتا ہے:’’ یہ محض چند اخلاقی تعلیمات ہیں!‘‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دُنیا کے ’ماڈریٹ‘ ،’لبرل‘ اور ’سیکولر‘ دانش وروں پر نفاذِشریعت ہی سب سے گراں ہے۔ شریعت کو محض اخلاقیات قرار دے کر سادہ مسلمانوں کے سامنے وہ انکار شریعت کے مجرم بھی نہیں بنتے اور پرانی، تہہ دار، قرونِ وسطیٰ کے قوانین کی پھبتیاں کس کر اُس سے نجات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے معاشروں پر یہ کرم فرمائی کیوں؟
دراصل اس ’شریعت‘ کے ذریعے ہمارا نکاح کا ادارہ مستحکم ہے۔یہ لبرل مفکرین آزادی کےنام پر LGBTQ (یعنی ہمہ جہت جنسیت زدگی اور ہم جنسیت)کو فروغ و نشوونما دینا چاہتے ہیں، مگر شریعت ایسے نابکاروں کے لیے کوڑوں اور سزائے موت کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ سرمایہ داری (Capitalism) کے ذریعے امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر اور عام انسانوں کے لیے مواقع کو محدود تر کر کے محض سرمائے کی پرورش چاہتے ہیں۔ شریعت ہر قسم کی اجارہ داری ،نامنصفانہ نظامِ اُجرت، نامنصفانہ تقسیم ِدولت، بے قید مارکیٹنگ اور بے قید زمین کی ملکیت پر پابندیاں لگا کر اور وراثت کے قوانین کا پابند بنا کر محدود گروہ میں دولت کے ارتکاز کو روکتی ہے۔ جدید تہذیب کا حاصل ہی کل انسانیت کو اور اقتدار کو صاحبانِ دولت کا غلام بناناہے۔یہ ’روشن خیال‘ ساری دنیا کے امن کو غارت کریں ، ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائیں، ایران، عراق، ویت نام میں نیپام بم چلائیں، افغانستان پر ڈیزی کٹربم پھینکیں، لیبیا کو خون میں نہلا دیں،گوانتاناموبے میں شرفِ انسانیت کو روند ڈالیں، مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں___ شریعت، جنگ اور امن کے قانون کو نافذ کرتی اور اہل مغرب کے وحشیانہ جنگی جنون و تباہی پر قدغن لگاتی ہے۔ سرمایہ داری اور تہذیب ِمغرب کے وکیل کس منہ سے ’واحد فقہی مکتب ِ فکر سے لفظ بہ لفظ اور سطر بہ سطر بلا سوچے سمجھے اخذ و قبول‘ رائج کرنے جیسے جملے چباکر اپنا نظام نافذ کر سکتے ہیں؟
مسلم ممالک کی حکومتوں کے لیے پوری رپورٹ میں سب سے قابلِ مثال نمونہ ’شہری مذہب‘ (Civil Religion) کو قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے رپورٹ میں چار مرتبہ محمد علی جناح کی ۱۱⸜؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو جواز بناتے ہوئے انھیں ’سیکولرازم‘ کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے (ص۲۰، ۲۳، ۲۷،۳۶)۔ حالانکہ اُس تقریر کے پانچ ماہ بعد جناح صاحب نے ۲۵⸜جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
I cannot understand the logic of those who say that the Constitution of Pakistan will not be based on the Shariah.
اُن لوگوں کی منطق میری سمجھ سے بالاتر ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی اساس پر نہیں ہوگا۔
یہ تقریر آپ حکومتِ پاکستان کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں اور اس کے بعد کہاں گیا ’سول ریلیجن‘ والا جناح؟
۴- جہاد (جدوجہد):’’پالیسی سازوں پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ دورِ حاضر کےمسلم اسکالر اس بات پر متفق ہیں کہ جدید دنیا میں جہاد برائیوں کے مقابلے میں نیکیوں کے لیے ذاتی اور اجتماعی جدوجہد کانام ہے۔ یہاں تک کہ جہاد (جسے جنگ /قتال کے معنوں میں لیا جاتا ہے) فوجی میدان میں بھی، ایک آخری راستہ ہے، جو صرف ریاستوں کی مسلح افواج کے ذریعے ہی جائز طریقے سےبرپا کیا جا سکتا ہے۔ جدید جہاد جنیوا کنونشنز اور جنگ سے متعلق دیگر بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کے ساتھ مشروط ہے‘‘۔(ص ۹، ۳۷)
بلاشبہہ اسلام بے گناہوں کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن جنھوں نے آپ کے وسائل غصب کیے ہوں، آپ کے اقتدارِ اعلیٰ کو ضبط کرکے اپنے پٹھو حکمران بٹھائے ہوں، اُن حکومتوں کے خلاف جدوجہد کے بغیر اسلامی حکومت کے قیام کا کیا انتظار کیا جاسکتا ہے؟پھر جنھوں نے سامراجیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کے وطن پر قبضہ جمایا، آپ کو دربدر کیا، قومی وسائل کو کوڑیوں کے مول آپ سے چھینا، ان برطانوی، فرانسیسی، ولندیزی، امریکی، روسی استعمارات سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جنھوںنے جدوجہد کی ہے، انھیں کیسے دہشت گردی سے جوڑا جاسکتا ہے؟
پیشِ نظر رپورٹ نےمسلم ممالک میں مذہب اور سیاست کے درمیان رشتوں کی نوعیت کو تین بنیادی اور نو انفرادی گروپس میں تقسیم کیا ہے۔جس کی تفصیل دیکھنے کے لیے اور اس مضمون کی آیندہ سطور کو سمجھنے کے لیے ماہِ گذشتہ کے ترجمان القرآن (ص۴۲) میں دیے گئے جدول کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
رپورٹ یہ درست کہتی ہے:’’بیسویں صدی کے کمیونزم، نازی ازم اور فاشزم کی مثالوں کی طرح عراق اور شام کی بعثی ریاستوں نے اپنے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر جبر اور خوف ناک تشدد کا استعمال کیا‘‘(ص۲۳)۔یہاں ہم دریافت کرتے ہیں کہ جب آپ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ یہ حکومتیں اسلامیان پر جبر کا نتیجہ تھیں، تو کیوں اپنے فریم ورک میں ان حکومتوں کو مسلمانوں کی حکومتوں اور اسلام اور سیاست کے ملاپ کے کسی بھی زمرے میں شامل کرتے ہیں؟
پروفیسر گورسکی کی یہ درجہ بندی غیر مسلم مغربی ممالک میں مذہب اور سیاست کے تعامل اور تجزیے کے لیے شاید سودمند ہو سکتی ہو، مگر ایشیائی اور افریقی مسلم ممالک کے لیے یہ بالکل بے کار مشق کے سوا کچھ وزن نہیں رکھتی ہے۔ گروپ ۱، ۳، ۵ اور۹ محض خیالی گروپ ہیں۔ اس وقت یہ ممالک نہ ہونے کے برابر اور در حقیقت کالعدم ہیں۔ حقیقی گروپس ۲،۴، ۶،۷ اور۸ ہیں۔ بنظرغائر دیکھیں تو اصل میں گروپس صرف تین ہی بنتے ہیں:lجو اپنی شناخت کھو چکے(لبرل سیکولر)،lجو اپنی شناخت کی تلاش میں ہیں (اسلامی سیاسی) اور lجنھوں نے شناخت پا لی (اسلامی)۔ آئندہ سطور میں مسلم ممالک کے اِن تینوں گروپس کا مغربی استعمار اور مسلم ممالک کے نقطۂ نظر سے جائزہ پیش ہے:
۱- جو اپنی شناخت کھو چکے (لبرل سیکولر ممالک):معدوم گروپس ۱،۳ اور ۵ کو بآسانی لبرل لادینی ریاستوں یعنی گروپ نمبر ۶ میں ضم کر کے ایک گروپ بنایا جا سکتا ہے، جس میں کلمہ گو مسلمانوں کے وہ تمام ممالک آجائیں گے، جہاں سیاست میں ہی نہیں زندگیوں میں بھی اسلام برائے نام رہ گیا ہے ۔ خود رپورٹ مصنّفین کے مطابق اِن ممالک میں سیاست اور مذہب کی ایسی کامل علیحدگی نوآبادیاتی سامراج نے مسلط کی ہے (ص۳۳، ۳۵)، جیسا آپ لبرل سیکولر آئین والے مغربی افریقہ کی سابق فرانسیسی کالونیوں اور وسطی ایشیا میں سابق کمیونسٹ روس (USSR) کی نوآزاد ریاستوں میں پاتے ہیں۔یہ ممالک بہ اعتبارِ حروفِ تہجی یوں ہیں: (۱)ازبکستان (۲)البانیہ (۳)آذربائیجان (۴)برکینا فاسو (۵)بوسنیا (۶)تاجکستان، (۷)ترکمانستان (۸)چاڈ، (۹)سیرالیون (۱۰)سینیگال (۱۱)قازقستان (۱۲)کرغستان (۱۳)کوسووو (۱۴)کوموروس (۱۵)گنی بسائو (۱۶)گنی، (۱۷)گیمبیا (۱۸)مالی (۱۹)نائیجر
مغربی پالیسی سازوں اور لبرل سیکولر گروپوں کے نزدیک اوّلین کام، جو اِن ممالک میں کرنے کا ہے، وہ یہ کہ بے لگام جنسی حقوق اور ویمن اِمپاورمنٹ کی مہمات چلانا ہوں گی۔ دینی شعائر پر حملوں کے جواب میں آواز اُٹھانے والوں کو ’ماضی پرست وحشی‘ قرار دینا ہوگا۔ آزادیِ اظہار کے نام پر گندگی پھیلانے اور تاریخ مسخ کرنے کو آرٹ کے درجے تک لے جانا ہوگا___ حیرت کا مقام ہے کہ اہلِ مغرب، اپنے حق میں گلوبل عالم گیریت چاہتے ہیں، مگر مسلمانوں کے لیے بطور اُمت سوچنے کو فساد قرار دیتے ہیں۔
مذکورہ لبرل و سیکولرگروپ کے ممالک میں احیائے دین کا عزم لے کر اُٹھنے والوں کا پہلا کام یہ ہے کہ ابلیس کے طریقِ واردات کو سمجھیں اور آخرت کی کامیابی کو اپنا کیریر سمجھ کر زندگی بسرکریں۔ دوسرا یہ کہ گروپ دوم کے ممالک (پاکستان، ترکیہ، مصر وغیرہ)میں احیا کا کام کرنے والوں کے علم و تجربے سے روابط کے ذریعے فائدہ اُٹھائیں۔ تیسرا کام یہ کہ اپنے معاشروں میں اپنی قوت و صلاحیت کا بیش تر حصہ حیا اور نکاح و خاندان کے ادارے کو مضبوط کرنے پر لگائیں۔ چوتھایہ کہ اپنے افراد کے درمیان قرآن کے فہم کو عام کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ شرک و بدعات اور رسومات کے بوجھ سے آزاد قرآن و سنت سے ثابت سادہ ترین حقیقی دینِ خالص کی پیروی کریں۔ ان کاموں میں بڑی مشکلات کے باوجود اب مصنوعی ذہانت اور کمیونی کیشن کی ٹکنالوجی نے چیزوں کو آسان کر دیا ہے۔ ہرمعاملے میں غیر ضروری رقابتیں اور مخالفتیں نہ مول لیں، اخلاقی، علمی و فکری اور مالی لحاظ سے معاشرے کا انتہائی مؤثرطبقہ بننے کی کوشش کریں۔
۲- جو اپنی شناخت کی تلاش میں ہیں( مسلم سیاست کےممالک): اسی طرح گروپ ۲، ۴ اور ۸ کے ممالک یک جا کیے جا سکتے ہیں، جہاں کے عوام اسلام کے ساتھ اپنی انفرادی اور اجتماعی ، فکری اورعملی زندگیوں میں ایک خصوصی تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کی سیاست کا محور اسلام ہے۔ یہ خصوصی تعلق مقتدر طبقے کا چاہے ہو یا نہ ہو، مگر عوام کا ضرور تعلق ہے۔ یہ ممالک بہ اعتبارِ حروفِ تہجی یوں گنے جا سکتے ہیں: (۱)اردن (۲)اریٹیریا (۳)الجیریا (۴)انڈونیشیا، (۵)اومان (۶)بحرین (۷)برونائی (۸)بنگلہ دیش (۹)پاکستان (۱۰)ترکیہ (۱۱)تیونس (۱۲)جبوتی (۱۳)سعودی عربیہ (۱۴)سوڈان (۱۵)شام (۱۶) صومالیہ (۱۷)عراق (۱۸)قطر (۱۹)کویت (۲۰)لبنان (۲۱)لیبیا (۲۲)مالدیپ (۲۳)متحدہ عرب امارات (۲۴)مراکش (۲۵)مصر (۲۶)ملایشیا (۲۷)موریطانیہ، (۲۸)نائیجیریا، (۲۹)یمن
اِن ممالک میں اہلِ مغرب کے پالیسی سازوں کو سب سے پہلے تو ایک مضبوط شناخت درکار ہے، مثلاً اس میں lمشرقِ وسطیٰ کےممالک کا ایک گروپ وہ ہے ، جہاں انسانی آزادیوں کو مجروح کرنے والاخاندانی بادشاہتوں کاجبر ہے۔ باقی ممالک میں جبر کے تین درجے ہیں: lوہ ممالک، جہاں اقتدار پر قابض فوجی جرنیل مغربی طاقتوں کے گماشتے ہیں ۔lجہاں سازشوں اور چالاکیوں سے مخالف ِ اسلام طاقتوں کا ہم نوا ایک جابر طبقہ عوام کی خواہشات کے خلاف اقتدار پر قابض ہے مثلاً شام و عراق lآخری گروپ اُن ممالک کا ہے،جہاں کسی مناسب درجے میں جمہوریت پنپ رہی ہے جیسے ترکی، ملایشیا۔
اگر مغرب کو اِن ممالک کے عوام کے ردِ عمل سے بچنا ہے تو اپنے پروردہ مغربی تہذیب سے مرعوب مسلمانوں کی خدمات سے مراکزِ دانش میں استفادہ کے بجائے اپنی ہی نسل کے علما اور پروفیسروں کے ذریعےسنجیدگی کے ساتھ علمی اور منطقی انداز میں اِن ممالک کے امن پسند بوریہ نشین مسلم مفکرین اور غیر عسکری احیائی تحاریک کے دانش وروں سے براہِ راست مکالمہ کرنا ہوگا۔
اس گروپ کےممالک میں احیائےاسلام کےعَلم برداروں کوعسکری اورانتخابی مہمات کی گذشتہ نصف صدی میں مسلسل ناکامی سے، جو کچھ سبق ملا ہے، وہ اُسے کام میں لائیں۔ اِن ناکامیوں کا جوہری نکتہ یہ ہے کہ کلمہ گو انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے قول و عمل میں تضاد کا شکار ہے ، اور احیائے اسلام کے لیے اُٹھنے والےشعوری مسلمان ایک اقلیت ہیں۔
۳- جنھوں نے شناخت پا لی (مسلم حکومتیں): اس گروپ میں ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کا ساتواں(۷) گروپ (یعنی تیسرے گروپ کا تیسرا ،عددی شمار میں نواں ) آسکتا ہے، جہاں اسلام اور سیاست میں نہ صرف کوئی دوئی نہیں بلکہ اسلام کو ہر معاملے میں فوقیت حاصل ہے۔ ایسے صرف دوممالک ہیں اوّل: افغانستان، دوم: ایران۔ یہ دونوں اپنی مختلف فقہوں کی وجہ سے الگ ہیں، مخلصانہ کوششوں سے یہ قریب آ سکتے ہیں۔
مذہب اور سیاست کے ملاپ کے مختلف ماڈلز پر گفتگو کے بعد ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مصنّفین کی نوکِ قلم پر وہ آخری اور بنیادی خواہش آجاتی ہے، جس کے لیے اس تحقیقی مطالعے کی زحمت کی گئی ہے ۔ہمیشہ کی طرح، بنیادی ’تشویش‘ حقیقی مسلم حکمرانی سے بچنا ہے۔اس ضمن میں ہمارا صرف اتنا کہنا ہے کہ، جو لوگ مسلم دنیا میں پرامن طریقوں سے بغیر کسی فساد فی الارض کے انبیا کے طریقوں سےزمین میں اصلاح و امن کے داعی ہیں، اُن کو وہ الزام نہ دیا جائے۔ اسلام اُن لوگوں کے خیالات کا نام نہیں، جو فساد و تشددکے علَم بردار ہیں ، اسلام کا مآخذ قرآن مجید ہے ، جس کو رپورٹ کے مصنّفین، اسلام کو سمجھنے کے لیے خاطر میں نہیں لائے۔
ٹی بی انسٹی ٹیوٹ کی اس رپورٹ میں اس تحقیقی کام کے، جو اغراض و مقاصد بیان کیے گئے تھے (ترجمان القرآن، ستمبر ، ص ۳۳ کا دوسرا پیراگراف) رپورٹ اُن کو حاصل کرنا تو دور کی بات ہے، اُن پروضاحت سے گفتگو کرنے میں ناکام رہی ہے۔اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ یہ رپورٹ ’ماڈریٹ اسلامی سیاست‘ کی نمایندہ ہے تو یہ واضح رہنا چاہیے کہ ’شہری مذہب‘ کے ذریعے جتنے حقوق اور عزت و احترام اور روا داری کا مطالبہ وہ غیر مسلموں کے لیےایک مسلمانوں کی حکومت میں کرتے ہیں، ایک اسلامی حکومت، شریعت ِ اسلامی کے تحت اُس سے کہیں زیادہ اُنھیں عطا کرتی ہے:
یہ بات افسوس سے کہنی پڑ رہی ہے کہ رپورٹ بلا دلیل محض پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں۔ محققین اپنے ڈائریکٹروں کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیےعلمی، تاریخی اور عملی سیاست کے زمینی حقائق پر پردہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید بنیادی ماخذ ہے، مگر اس حقیقت سے انسٹی ٹیوٹ کے ملازمین ناواقف رہے ہیں۔ احیائے اسلام کی تحریکات پر جو گفتگو کی گئی ہے، انھوں نے یہ فرض کر کے کی ہے کہ قرآن نازل ہی نہیں ہوا اور شاہ ولی اللہ، عبدالوہاب، ابوالاعلیٰ مودودی، سید قطب، محمد قطب، آیت اللہ خمینی، علّامہ محمد اقبال، علی شریعتی، راشدغنوشی، ڈاکٹر شبیر اختر، کلیم صدیقی،محمد اسد وغیرہ کی نسبت سے اسلام کی پیش کاری کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی گئی۔ پوری رپورٹ میں سید قطب کا فقط ایک حوالہ دیا گیا ہے (ص۴۶۔ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ فکری خلل، نقطۂ نظر کے انتشار اور مغربی فکری جارحیت کے ایجنڈے کے سوا کچھ نہیں ہے۔