اکتوبر ۲۰۲۳

فہرست مضامین

فریضۂ اقامت دین کی اہمیت

| اکتوبر ۲۰۲۳ | رسائل ومسائل

Responsive image Responsive image

سوال: دین اسلام اور مسلم معاشرے میں اقامت دین کی کیا اہمیت ہے؟

جواب: قرآن و سنت کے دلائل سے لوگ یہ بات ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی کتاب اس لیے آئی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے، اس کو قائم کیا جائے اور اس کے سارے احکام نافذ ہونے چاہییں۔ لیکن اگر آپ صرف عبادات پر رُک گئے اور پھر پوری زندگی کے لیے شریعت کے باقی جو احکام ہیں وہ کس طرح قائم ہوں گے؟

اس فریضۂ اقامتِ دین سے جان چھڑانے کے لیے ہمارے بہت سے دین دار مسلمانوں نے پانچ فلسفے گھڑ رکھے ہیں، جن کا مولانا صدرالدین اصلاحی صاحب نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے:

  • ایک گروہ کہتاہے: جنھیں اللہ تعالیٰ نے حُسن عمل کی توفیق بخشی ہے، وہ حق کی شہادت دے رہے ہیں۔ رہ گئے قرآن و سنت کے اجتماعی کام، اور اقامت ِ دین، تو ان کا تعلق اسلامی حکومت کے وجود سے ہے، اس طرح ان فریضوں کی ادائیگی کے مخاطب مسلمان عوام نہیں بلکہ مسلمان اُولوالامر ہیں۔ چونکہ اب اسلامی حکومت قائم نہیں ہے تو اس لیے ان قرآنی احکام کے اجرا و نفاذ اور اقامت دین کی ذمہ داری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
  • دوسرا گروہ کہتا ہے: دین کا مقصد ِ وجود تو اقامت دین ہی ہے، لیکن موجودہ ناسازگار حالات میں اس نصب العین کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ اس لیے اس کی خاطر جدوجہد کرنا وقت اور قوت کا ضیاع ہے اور دُنیا کے سامنے علانیہ پیش کرنا تو مصلحت کے خلاف اور ناعاقبت اندیشی کی دلیل ہے، اور ملّت کے مفاد کے لیے سراسر مضر اور مہلک ہے۔
  • تیسرا گروہ کہتا ہے: اس نصب العین کے برحق ہونے پر کوئی کلام نہیں، مگر اس کے قیام کے لیے صدیقؓ اور فاروقؓ درکار ہیں، اور چونکہ ہم ایسے بن نہیں سکتے، اس لیے ہمارے بس کا یہ کام ہی نہیں ہے۔ یوں ہم جیسے ضعیف الایمان لوگوں کا دم خم نہیں کہ تقدیر سے لڑیں۔
  • چوتھا گروہ اس طرح سوچتا ہے: کوئی راستہ کھلے اور کوئی قافلہ اس راہ پر کامیابی سے گامزن ہوتو ہم بھی اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہمارے لیے خود سے جدوجہد چھیڑنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
  • پانچواں گروہ امام مہدی کا منتظر ہے۔اگرچہ یہ گروہ نصب العین سے اختلاف نہیں رکھتا، مگر امام صاحب کی آمد سے پہلے اقامت ِ دین کی سردردی خریدنے کا جواز بھی نہیں پاتا۔

مولانا صدرالدین اصلاحی نے اس صورتِ حال کا یہ جواب دیا ہے اور یہ عقل کی بات ہے کہ مَا لَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ  اِلَّا بِہٖ فَھُوَ وَاجِبٌ  ، جب کوئی ضروری حکم کسی دوسری چیز کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا، تو پھر اس دوسری چیز کو حاصل کرنا بھی لازم ہوجاتا ہے، جیسے پانی کے بغیر وضو نہیں ہوسکتا اور نماز نہیں ہوسکتی۔ اس لیے پانی کی تلاش لازم ہوجاتی ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ پانی نہیں ہے، لہٰذا نماز سے جان چھوٹ گئی، تو ایسا نہیں ہے۔ جو چیز دین میں فرض ہے، اس کی ادائیگی کا اہتمام ضروری ہے۔ پھر عقل یہ بھی کہتی ہے کہ اس پر عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب یہ انتظام ہو۔ اس سے یہ پتا چلا کہ اسلامی حکومت قائم کرنا مسلمانوں کے لیے سب سے پہلا فرض ہے۔ اسلامی حکومت ہوگی تو مسلمان ان تمام فرائض پر عمل کریں گے۔ جتنے بھی احکام ہیں یہ سب مسلمانوں پر فرض ہیں، صرف حکمران ہی اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن اس کا طریقہ یہی ہے کہ حکومت ان پر عمل درآمد کرے۔ اگر سب مسلمان اپنے اپنے طورپر اس پر عمل شروع کردیں تو اس سے انارکی پھیل جائے گی۔اس لیے ان احکام پر عمل کرنے کے لیے خلیفہ یا اسلامی حکومت قائم کرنا فرض ہوگا۔ اس کے بغیر ان احکام پر عمل نہیں ہوسکتا اور قرآن معطل ہوکر رہ جائے گا۔

اس پس منظر میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حکومت کے بغیر چارہ نہیں جیساکہ حضرت علیؓ ابن ابی طالب فرماتے ہیں: امام تو ہوگا چاہے وہ بد ہو یا فاجر۔ دُنیا جب سے چلی ہے اس میں حکمران ہونا ہی ہے۔ اس کے بغیر کوئی معاشرہ نہیں۔ نیک ہو یا بد، کوئی نہ کوئی تو حکومت کرے گا۔ نیک ہوگا تو اس کے زیرسایہ لوگ امن سے رہیں گے، سُکھ کا سانس لیں گے، راستے پُرامن ہوں گے اور عزّتیں محفوظ ہوں گی۔ اگر حکمران بد ہوگا تو لوگ بُرا انجام دیکھیں گے۔

یاد رہے، حکومت کا دائرۂ اثر صرف دفتروں تک محدود نہیں رہتا۔ اس کے پاس نشرواشاعت اور تعلیم و تربیت کے قانون، معیشت، عدل اور امن وامان قائم کرنے کے لیے ایسے ذرائع ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے آہستہ آہستہ عبادات کا دائرہ بھی تنگ ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ انگریزوں یا کافروں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ مسلمانوں کی بچیاں ڈانس کریں، سروں سے کپڑا اُتار دیں یا بے نماز ہوجائیں۔ لیکن باطل حکومت آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھی رہتی بلکہ اپنے مطلب کے آدمی تیار کرتی ہے اور ان کے ذریعے اپنے احکامات نافذ کرتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ نتیجہ یہ ہے کہ تھوڑی ہی صدیاں گزرنے کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ جن گھروں میں دادیاں تہجد پڑھ رہی ہیں، وہاں صبح پوتیاں ڈانس کر رہی ہیں۔ باطل حکومت کا بُرا اثر اپنے آپ آجاتا ہے اور اگر نیک حکومت ہو تو وہ بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔

تاریخ میں اس کی بڑی عمدہ مثال بیان ہوئی ہے۔ جب ولید بن عبدالملک خلیفہ ہوا، تو ہرجگہ عمارتوں کی باتیں ہوتی تھیں۔ لوگ جہاں بیٹھتے تھے ان ہی باتوں کا تذکرہ کرتے تھے۔ اس لیے کہ وہ قلعے بنواتا تھا، عمارتیں بنواتا تھا اور مسجدیں تعمیر کرواتا تھا۔ ہرجگہ حکمرانوں کے مزاج کے مطابق عوام کا مزاج ہوتا ہے۔ جب سلیمان بن عبدالملک حکمران بنا تو وہ چونکہ عاشق مزاج تھا، لہٰذا ہرجگہ حُسن و عشق کی باتیں ہوتی تھیں ۔اور پھر جب انھی میں عمر بن عبدالعزیز برسرِ اقتدار آئے تو ان کے دوسالہ دورِحکمرانی میں ہرجگہ قَالَ اللہُ  وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ  کی صدائیں بلند ہونے لگیں اوراللہ اور اُس کے رسولؐ کی باتیں ہونے لگیں۔ گویا حکمران کسی جزیرے میں الگ سے بیٹھا حکومت نہیں کررہا ہوتا۔ وہ پورے ملک پر اثراندازہوتا ہے۔

مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں بڑی پیاری مثال دے کر واضح کیا ہے کہ حکمران ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں گاڑی کوچلانا ہوتا ہے۔ وہ جدھر گاڑی کو لے جانا چاہے گا ادھر لوگوں کو جانا پڑے گا۔ بے شک وہ روئیں، دُعائیں کریں، اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ وہ گاڑی کو گنگا کو لے جارہا ہے تو وہ مکہ نہیں پہنچے گی۔اگر مکہ جانا ہے تو اُس آدمی کو اسٹیرنگ پر بٹھائو جو گاڑی کو مکہ کی طرف لے جانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس لیے اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو چھیڑے بغیر ہی دین پر عمل ہوجائے گا تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ نمازیں بھی چھوٹ جائیں گی۔ اب دیکھیے جمعہ کی چھٹی ختم ہوجانے کی وجہ سے لوگ خطبہ نہیں سن سکتے اور بمشکل جمعہ پڑھ پاتے ہیں۔ غیرمسلم ملکوں میں لوگ کہتے ہیں کہ کمپنیاں ہمیں نماز پڑھنے کے لیے چھٹی نہیں دیتی ہیں۔ اس لیے ظالم حکومت کو برداشت کرنا آہستہ آہستہ سارے دین کو ختم کردینے کے مترادف ہے۔

کنزالعمال میں علامہ علاء الدین علی متقی بن حسام الدین نے ایک بہت پیاری روایت درج کی ہے، جو اس مسئلے کو حل کرتی ہے۔ اگر دین بچانا ہے اور چاہتے ہو کہ کلمہ رہ جائے تو اس پر عمل کرنا ہوگا:الْاِسْلَامُ وَالسُّلْطَانُ  اَخَوَانِ تَوْأَمَانِ لَا یَصْلُحُ  وَاحِدٌ مِّنْھُمَا  اِلَّا  بِصَاحِبِہٖ  ، فَالْاِسْلَامُ  أُسٌّ وَالسُّلْطَانُ  حَارِثٌ  وَمَا لَا أُسَّ لَہٗ یُھْدَمُ  وَمَا  لَا  حَارِثَ  لَہٗ  ضَائِعٌ  (کنزالاعمال، حدیث:۱۴۶۱۳)،اسلام اور حکومت جڑواں بھائی ہیں۔ ان میں سے کوئی صحیح کام نہیں کرسکے گا جب تک کہ اس کا دوسرا ساتھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ اسلام کو ایسے سمجھو جیسے بنیاد ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہیں ہوتی وہ گرجاتی ہے۔ اگر عمارت ہے تو سلطان اس کا چوکیدار ہے۔ جس عمارت کا کوئی محافظ نہیں ہوتا وہ برباد ہوجاتی ہے ۔ اس لیے خلیفہ حکومت کو چلاتا ہے اور اسلام اس کو صحیح راستے پر رکھتا ہے۔ تب بات ٹھیک ہوتی ہے۔

جب سے اُمت کے اہلِ حل و عقد اور دینی رہنمائی پر فائز حضرات کی بڑی تعداد نے مداہنت کا رویہ اختیار کیا ہے اور یہ موڑ مڑا ہے کہ ’’حکومت کا رشتہ کیوں قرآن سے جڑے؟‘‘، تو اُس نے یہ فضا پیدا کی ہے۔ نتیجہ یہ کہ حکمران نمازیں بھی پڑھتے رہے، حج بھی کرواتے رہے لیکن حکومت کے معاملے میں حکمرانوں نے قرآن سے تعلق توڑ لیا کہ جہاں ہماری مرضی ہوگی ہم اس کا اہتمام کریں گے، اورجہاں ہماری مرضی نہیں ہوگی ہم اس پر عمل نہیں کریں گے، تو اس سے ساراکام خراب ہوگیا۔ اب کہاجاتا ہے کہ دین کیسے نافذ ہو؟ اصل مسئلہ یہی ہے کہ جو دین کو نافذ کرنے والے تھے اورجن کے ذمّے تھا کہ پوری اُمت کو راہِ راست پر چلائیں، وہی بگڑ گئے تو دین کیسے نافذ ہو؟(مولانا محمداسحاق مدنیؒ)

چاند کی تسخیر

سوال :   بعض مولوی حضرات تسخیرِ ماہتاب یعنی چاند کی تسخیر کی مہم کو اللہ تعالیٰ کے نظام میں مداخلت قرار دیتے ہیں، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب : جو لوگ تسخیر ماہتاب کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ بالکل ایک غلط بات کہتے ہیں۔ آخر ڈھائی گھنٹے تک چاند پر ٹھیرنے سے چاندکی تسخیر کیسے ہوگئی؟ انسان کروڑہا برس سے زمین پر رہ رہا ہے، لیکن ابھی تک وہ اسے تو تسخیر نہیں کرسکا۔ جب زمین ذرا سا ہلتی ہے تو اسے خدا یاد آجاتا ہے۔ قرآن میں سخرلکم کے جو الفاظ آئے ہیں، ان کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی یہ چیزیں تمھارے لیے نافع بنادی گئی ہیں۔ مثلاً زمین کو انسان کے لیے مسخر کردیا گیا ہے، ان معنوں میں کہ وہ انسان کے لیے نافع ہے۔ سورج کو مسخر کردیا گیا ہے، اس معنی میں کہ وہ انسان کے فائدے کے لیے ایک ضابطے کے تحت کام کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح دوسرے مظاہرِ کائنات کو تسخیر کرنے کا مفہوم بھی یہی ہے۔

رہی یہ بات کہ ’’بعض مولوی حضرات خلائی مہم کو خدائی نظام میں مداخلت قرار دیتے ہیں‘‘ تو وہ بھی بے سوچے سمجھے بات کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان شب و روز اس نظام میں مداخلت کر رہا ہے۔ یعنی جب وہ زمین پر ہل چلاتا ہے اور بیج بوتا ہے تو اس نظام میں ’مداخلت‘ ہی تو کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو زمین کو سپاٹ بنایا ہے۔ اس لیے قوانین فطرت کے مطابق اس دنیا میں تلاش و جستجو کے لیے قدم اُٹھانا، اللہ تعالیٰ کے نظام میں مداخلت کی تعریف میں نہیں آتا۔(سیّدابوالاعلٰی مودودیؒ)

نبوت کا بوجھ؟

سوال :  کہتے ہیں، فتح مکہ کے موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علیؓ نے عرض کیا: ’’آپ میرے کندھوں پر سوار ہوں‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم نبوت کا بوجھ نہ اُٹھا سکو گے‘‘۔ اس واقعہ کی کیا حقیقت ہے؟

جواب : یہ ایک بالکل مہمل اور من گھڑت بات ہے۔ نبوت کوئی غلّے کا تھیلا نہیں ہے کہ اسے کوئی کمزور آدمی اُٹھا نہ سکے۔ یہ واقعہ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہجرت کی رات ، جب حضرت ابوبکرؓ غارِ ثور کے قریب پہنچے، تو انھوں نے آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا تھا، تاکہ آپؐ کے نقوشِ پا کا سراغ نہ رہے۔ اسی طرح رسولؐ اللہ گھوڑوں کی سواری کرتے تھے اور اُونٹوں پر سوار ہوتے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ نبوت کا بوجھ اُٹھا سکتے تھے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں نہ اُٹھالیتے؟ دراصل لوگوں نے بے معنی روایتیں گھڑ رکھی ہیں۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ نبوت کا بوجھ کوئی مادی چیز نہیں ہے، یہ تو فرائضِ نبوت کا بارگراں ہے، جسے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی اُٹھا سکتے تھے ، اور کسی دوسرے کے بس کی بات نہ تھی۔(ایضاً)

واعظوں کے ہتھکنڈے

سوال :  حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص امام سے پہلے سجدے سے سر اُٹھاتا ہے ، وہ کیا اس بات سے نہیں ڈرتا کہ قیامت کے روز اس کا سر گدھے کا ہوجائے؟___ ایک واعظ صاحب نے اس حدیث کے تعلق سے یہ واقعہ بیان کیا کہ’’ایک محدث نے اس حدیث کی تضحیک کی تھی تو اس کا سر گدھے کا بن گیا تھا ، اور پھر وہ سر کو چادر سے ڈھانپ کر حدیث کا درس دیا کرتا تھا۔ اس واقعے کی کیا حقیقت ہے؟

جواب : یہ کوئی امرِواقعہ نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ ایک واعظانہ ہتھکنڈا ہے۔ واعظ لوگ مسئلے سمجھانے کے لیے من گھڑت قصّے بیان کرلیا کرتے ہیں، اور اپنے اس عمل کو ترغیب و ترہیب کے لیے جائزسمجھتے ہیں۔ چنانچہ واعظ صاحب نے اس حدیث کا مسئلہ سمجھانے کے لیے ایک واقعہ گھڑ کر بیان کردیا۔ حالانکہ خود حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص امام سے پہلے سجدے سے سراُٹھائے گا تو اِسی دُنیا میں اس کا سر گدھے کا بن جائے گا، بلکہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ’یہ رویّہ سخت احمقانہ ہے‘۔ مقتدی کو امام پر سبقت نہیں کرنی چاہیے۔ مگر واعظوں نے قصّہ گھڑلیا کہ ایک محدث کا سر گدھے کا بن گیا۔(ایضاً)

صدقہ اور خیرات

سوال :   کیا ’صدقہ‘ اور ’خیرات‘ میں کوئی فرق ہے، یا یہ ایک ہی خرچ کے دو نام ہیں؟

جواب : یہ ایک ہی خرچ کے دو نام ہیں۔ کہیں اسے ’خیر‘ کہا گیا ہے، کہیں ’نفقہ‘ اور کہیں ’صدقہ‘۔ صدقے میں اصل چیز صدق و اخلاص ہے۔ ہر وہ خرچ ’صدقہ‘ ہے، جو سچے دل سے، اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے، اور اس میں کسی دوسرے جذبے کی آمیزش نہ ہو۔(ایضاً)