مکّی دور کے آغاز سے ہجرت تک کی تاریخ پر ایک مجموعی نظر ڈال کر [دیکھیں تو اس قافلۂ حق] کاابتدائی، یا صحیح تر الفاظ میں بنیادی، سرمایہ صرف محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپؐ کی شخصیت اور آپؐ کی نبوت سے پہلے کی چہل سالہ زندگی تھی۔
ذاتی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے ایک شریف ترین خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس کے حسب و نسب کو تمام اہلِ عرب جانتے تھے۔ عرب کے بہ کثرت قبائل، جن کو اپنے نسب پر فخر تھا، اس بات سے واقف تھے کہ پدری اور مادری سلسلوں میں کہیں نہ کہیں جاکر اُن کا نسب آپؐ کے نسب سے مل جاتا ہے۔ اس لیے آپؐ کی حیثیت یہ نہ تھی کہ کوئی مجہول النسب، غیرمعروف، گمنام، یا کم اصل آدمی یکایک لوگوں کے سامنے ایک بہت بڑے دعوے کے ساتھ آکھڑا ہوا ہو، جسے دیکھتے ہی کہنے والے کہہ دیں کہ اس حیثیت کے آدمی پر تو یہ دعویٰ کسی طرح نہیں سجتا۔
پورے عرب میں کوئی شخص آپؐ کی شرافت ِنسبی پر شمّہ برابر بھی حرف گیری نہ کرسکتا تھا۔ خود شہر مکہ میں جتنے خانوادے اپنی عزت کے غرور میں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، ان سب سے آپؐ کی اور آپؐ کے خاندان کی رشتہ داریاں تھیں۔ اُن میں سے بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپؐ اپنے حسب و نسب اور معاشرتی مرتبے میں اُس سے کسی طرح کم تر ہیں۔ قریش جس کے ایک فرد آپؐ تھے، عرب میں سرداری کا مقام رکھتا تھا، اس کا اولادِ اسماعیلؑ سے ہونا ہر شک و شبہے سے بالاتر تھا۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر دور دور تک اس کے تجارتی روابط پھیلے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ کی تولیت اور حج کی کشش کے باعث عرب کے دور دراز گوشوں تک کے لوگوں کو بہر حال اُس سے سابقہ پیش آتا تھا۔
اِن وجوہ سے اِس قبیلے کو عرب میں وہ بلند مرتبہ حاصل تھا جو کسی دوسرے قبیلے کو حاصل نہ تھا۔ پس مکہ جیسے مرکزی مقام پر، قریش جیسے ایک قبیلے میں پید اہونا، عرب کے ماحول میں اس تحریک کے رہنما کے لیے مثالی موقع و محل تھا۔
اسماعیلی خاندان کی بزرگی و شرافت اور عزت و منزلت کے ساتھ یہ بات بھی خاص اہمیت رکھتی تھی کہ ڈھائی ہزار سال کی پوری تاریخ میں حضرت اسماعیلؑ کے بعد اس خاندان کے کسی فرد نے کبھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اِسی بات کی نشان دہی بنی عامر بن صعصعہ کے ایک جہاں دیدہ شیخ نے اُس وقت کی تھی، جب اس کے قبیلے کے لوگوں نے حج سے واپس آکر رسولؐ اللہ سے اپنی ملاقات اور گفتگو کا ذکر اُس سے کیا تھا۔ انھوں نے جب اُس کو بتایا کہ قریش کے ایک صاحب ہمیں ملے تھے، جنھوں نے نبی کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا اور ہم سے یہ چاہا کہ ہم انھیں اپنے ساتھ اپنے علاقے میں لے چلیں اور اللہ کا پیغام پہنچانے میں ان کی مدد کریں، مگر ہم نے ان کی بات قبول نہ کی، تو اُس مردِ کہن سال نے اپنا سر پیٹ لیا اور کہا ’’اُس وقت تمھاری عقل کہاں چرنے چلی گئی تھی؟ خدا کی قسم! آج تک کسی اسماعیلی نے ایسی بات، جھوٹ گھڑ کر کبھی نہیں کہی ہے‘‘۔ یہ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اولادِ اسماعیلؑ میں سے ہونے کا ایک اور فائدہ تھا۔ تاریخ یہ شہادت دے رہی تھی کہ آپؐ کا دعوائے نبوت برحق ہے، کیوں کہ اس خاندان کا کوئی شخص کبھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ لے کر نہیں اٹھا تھا۔
جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا تعلق تھا، آپؐ کی شکل و صورت اور وضع و ہیئت اور نشست و برخاست اور رفتار و گفتار اور شائستہ اطوار کو دیکھ کر بچپن ہی سے عرب کے قیافہ شناس یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کوئی غیر معمولی ہستی ہے، جو عبد المطلب کے خاندان میں پیدا ہوئی ہے۔ آپؐ کی والدۂ ماجدہ، آپؐ کے جدِّامجد، آپؐ کے چچا، آپؐ کی رضاعی والدہ، سب کے تاثرات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سنی ہی میں جو لوگ آپ کو قریب سے دیکھ رہے تھے، وہ آپؐ کے اندر ایک نمایاں عظمت محسوس کر رہے تھے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک بالکل اجنبی آدمی بیک نظر آپؐ کو دیکھ کر پکار اٹھتا کہ ’خدا کی قسم! یہ کسی جھوٹے انسان کا چہرہ نہیں ہے‘۔
جب آپؐ جوانی کی عمر کوپہنچے تو آپؐ کی شان ہی کچھ ایسی تھی کہ آپؐ کے اہلِ وطن اور اہلِ قبیلہ آپؐ کی شخصیت سے مرعوب ہوتے چلے گئے۔ لوگ خود بہ خود آپؐ کا احترام کرتے تھے، کیوں کہ وہ اپنے معاشرے کی عام سطح سے آپؐ کو بہت بلند پاتے تھے۔ آپؐ کی وجاہت، آپؐ کا وقار، آپؐ کی سنجیدگی، آپؐ کی نفاست و پاکیزگی، آپؐ کی عالی ظرفی، آپؐ کی کریم النفسی اور آپؐ کی بے داغ سیرت ایسی نمایاں تھی کہ جن لوگوں کو بھی آپؐ سے سابقہ پیش آیا تھا،وہ آپؐ کی تکریم و عزت کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ یہ رُعب اُس وقت بھی کار فرما رہا جب اسلام کی دعوت پیش کرنے کی وجہ سے قریش کے لوگ آپؐ کی جان کے دشمن ہوگئے تھے۔ دشمنی کے جوش میں پاگل ہوکر وہ بسا اوقات آپؐ کے ساتھ بڑی بڑی بے ہودگیاں کر بیٹھتے تھے۔ لیکن جس درجے کی دشمنی اُن کے سینوں میں آگ کی طرح بھڑک رہی تھی، اور جس دشمنی کی بنا پر وہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور قریب ترین رشتہ داروں تک کو اذیت ناک مظالم سے معاف نہیں کر رہے تھے، اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خاص رُعب تھا ،جوآپؐ کے مقابلے میں آکر انھیں بے بس کر دیتا تھا۔
آپؐ نے دعوتِ عام شروع کرنے کے بعد سخت سے سخت حالات میں بھی کھلم کھلا اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ شعبِ ابی طالب میں محصور ہوجانے کے باوجود آپؐ برابر اس حصار سے نکل کر دعوت کا کام انجام دیتے رہے۔ مکہ کے آخری تین سال، جو انتہائی سخت تھے، ان میں بھی آپؐ صرف مکے میں آنے والوں ہی سے نہیں، عُکاظ، اور مَجنَّہ اور ذی المجاز، اور منیٰ کے اجتماعات میں قبائل اور ان کے سرداروں سے بھی علانیہ ملاقاتیں کرکے اسلام کی دعوت پیش کرتے رہے۔ لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ آپؐ کی شخصیت میں کوئی ایسی زبردست طاقت تھی، جس کی وجہ سے کوئی آپؐ کو فرائضِ رسالت انجام دینے سے باز نہ رکھ سکا۔
اب دیکھئے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال تک آپؐ کی جو زندگی مکے میں گزری تھی، اُس کے اثرات کیا تھے؟
یہ زندگی صرف بے داغ ہی نہ تھی بلند ترین سیرت و کردار کا ایک نمونہ تھی۔ جس معاشرے میں آپؐ بچپن سے ادھیڑ عمر تک رہے بسے تھے، جس کے لوگوں کو ہر پہلو سے آپؐ کے ساتھ رشتہ داری، ہمسایگی، میل جول، دوستی، لین دین، غرض طرح طرح کے معاملات میں شب و روز سابقہ پیش آتا رہا تھا، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو آپؐ کی سچائی، آپؐ کی دیانت، آپؐ کی شرافت، آپؐ کی اخلاقی پاکیزگی، آپؐ کے حسن سلوک، آپؐ کی رحم دلی اور آپؐ کی ہمدردی و فیاضی کا معترف نہ ہو۔ آپؐ مجسم خیر تھے، کسی کو آپؐ سے شرکا تجربہ تو درکنار، اُس کا اندیشہ تک کبھی نہ ہوا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر لوگوں کو اتنا اعتماد تھا کہ وہ آپؐ کو ’’امین‘‘ کہتے تھے، اور یہ اعتماد اُس وقت بھی قائم رہا جب اسلام کی دعوت پیش کرنے کی وجہ سے لوگ آپؐ کے دشمن ہوگئے تھے۔ اِس حالت میں بھی دوست دشمن، سب اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھواتے رہے۔ کسی کو آپؐ سے خیانت کا خطرہ نہ تھا، اور آپؐ نے قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی ان کی رکھوائی ہوئی امانتیں واپس کرنے کا اہتمام فرما کر اپنا کامل و اکمل امین ہونا قطعی طور پر ثابت کردیا۔
آپؐ کی صداقت اُس معاشرے میں اِس درجہ مسلّم تھی کہ جب آپؐ نے اسلام کی دعوت شروع کی اور قریش کے لوگوں نے اُس کو پورے زور شور کے ساتھ جھٹلایا، اُس وقت بھی مخالفین آپؐ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کرسکے، بلکہ اُس دعوت ہی کو جھوٹ کہتے رہے جو آپؐ نے پیش فرمائی تھی۔ بدترین عداوت کے دور میں بھی کوئی آپؐ کی سیرت و کردار پر کسی ادنیٰ درجے میں بھی حرف زنی نہ کرسکا۔ آپؐ سے قریب ترین تعلق جن لوگوں کا تھا، جن سے کوئی عیب نہ چھپ سکتا تھا اگر معاذ اللہ وہاں کوئی عیب ہوتا، وہی سب سے بڑھ کر آپؐ کے گرویدہ اور آپؐ کے فضائلِ اخلاق سے متاثر تھے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شادی کے لیے قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی درخواستیں رَدّکردیں، اور خود خواہش کرکے آپؐ سے اِسی بنا پر شادی کی کہ وہ آپؐ کی اخلاقی خوبیوں پر فدا ہوگئی تھیں۔ پندرہ برس کی ازدواجی زندگی اس بات کے لیے بالکل کافی ہوتی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے عیب و صواب سے خوب واقف ہوجائے، خصوصاً جب کہ وہ شوہر سے عمر میں بڑی بھی ہو، عاقل و فرزانہ بھی ہو، اور شوہر اُسی کے مال سے کاروبارِ تجارت بھی کر رہا ہو۔ لیکن رسولؐ اللہ کے معاملے میں حضرت خدیجہ ؓ کے اِس طویل اور انتہائی قریبی مشاہدے اور تجربے کا نتیجہ جو کچھ نکلا وہ یہ تھا کہ انھوں نے آپؐ کو محض ایک بلند پایہ انسان ہی نہیں، بلکہ اتنا عالی مرتبہ انسان پایا کہ اُنھیں آپؐ کو رسولِ ربّ العالمین مان لینے اور آپؐ پر ایمان لے آنے میں ایک لمحہ بھر بھی تامُّل نہ ہوا۔ حالاں کہ ایک بناؤٹی آدمی کی دنیا دار بیوی اس کے مکر اور اس مکر کے فوائد میں چاہے کتنا ہی حصہ لیتی رہے،مگر وہ دل سے نہ کبھی ان کی معتقد ہوسکتی ہے اور نہ اس پر ایمان لاسکتی ہے۔
حضرت زیدؓ بن حارثہ کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غلامی کی حالت میں شروع ہوا تھا۔ آقا اور غلام کے درمیان خوش گوار رابطہ بھی ایک نادر الوقوع چیز ہے، کجا کہ غلام کو آقا سے محبت ہو، کیوں کہ وہ بالکل بے بس ہوتا ہے، اور آقا اُس سے ہر طرح خدمت لینے کا حق دار ہوتا ہے، خواہ وہ خدمت اُس کے لیے کتنی ہی شاق اور اس کی طبیعت پر کتنی ہی گراں ہو۔ اس کے علاوہ غلام کو آقا کی زندگی کے اچھے اور بُرے سب پہلو دیکھنے کا موقع ملتا ہے، اور ایک بے اختیار خادم کی حیثیت سے اس کے سامنے اپنے مختارِ مطلق آقا کی زندگی کے بُرے پہلو زیادہ آتے ہیں۔ لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم ایسے آقا تھے کہ غلام آپؐ کا گرویدہ ہوتا چلا گیا، حتیّٰ کہ جب اس کے باپ اور چچا اسے غلامی سے چھڑانے کے لیے آئے، تو اس نے آزاد ہوکر اپنے باپ کے ہاں جانے کی بہ نسبت حضورؐ کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی۔
۱۵ سال آپؐ کی خدمت میں رہ کر یہ غلام، جسے آپؐ نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا،آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ سے اتنا متأثر ہوا کہ جب اُسے آپؐ کے منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے کا علم ہوا تو اُس نے بھی حضرت خدیجہؓ کی طرح آپؐ پر ایمان لانے میں ایک لمحہ بھر بھی توقف نہ کیا۔ وہ کوئی ناسمجھ بچہ نہ تھا بلکہ ۳۰ برس کا جوان تھا، اور ایسا ذکی و دانش مند تھا کہ ۸ ھ میں وہ اس فوج کا کمانڈر بنا کر بھیجا گیا، جس میں حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور حضرت خالدؓ بن ولید جیسے لوگ اُس کے ماتحت تھے۔ اس لیے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کوئی کم عقل خادم تھا، جسے نبوت و رسالت کی اہمیت معلوم نہ تھی اور محض اپنے مخدوم کی شخصیت سے مرعوب ہوکر وہ بے سمجھے بوجھے ایمان لے آیا تھا۔ بلکہ در حقیقت اُس نے اپنے پندرہ سال کے طویل تجربے میں آپؐ کو اِتنا عالی مرتبہ انسان پایا تھا کہ اسے آپؐ کے رسولِ خدا ہونے میں ذرہ برابر شک لاحق نہ ہوا۔ حضورؐ کی اِسی اخلاقی فضیلت کو چند سال پہلے وہ اپنے باپ کے ساتھ نہ جانے کی وجہ بتا چکا تھا۔
ایسا ہی معاملہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکا تھا جو بیس سال سے آپؐ کے ہم نشین ہی نہیں بلکہ گہرے دوست تھے۔ حضرت علیؓ ابن ابی طالب کا تھا، جنھوں نے آپؐ کے گھر ہی میں پرورش پائی تھی۔ وَرقہ بن نوفل کا تھا جو بچپن سے حضورؐ کی زندگی دیکھتے چلے آرہے تھے اور حضرت خدیجہؓ کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے جنھیں آپؐ کو اور زیادہ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ حضرت عثمانؓ آپؐ کی پھوپھی کے نواسے تھے۔ حضرت زبیرؓ آپؐ کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے۔ حضرت ابوسلمہؓ آپؐ کے دودھ شریک بھائی بھی تھے اور پھوپھی زاد بھائی بھی۔ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص آپؐ کی والدۂ ماجدہ کے رشتے دار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا، جو آپؐ کی سیرت و کردار کے ہر پہلو کو قریب سے نہ دیکھ چکا ہو، اور یہی لوگ آپؐ کی نبوت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والوں میں سے تھے۔
کسی تحریک کا آغاز ہی اگر ایسی عظیم و جلیل ہستی کی رہنمائی میں ہوتو یہ بجائے خود بہت بڑا سرمایہ ہے۔ لیکن شروع ہونے کے وقت سے ۱۳ سال تک اِس ابتدائی سرمایے میں جو مزید اضافے ہوئے، وہ اتنے قیمتی تھے کہ انسانی تاریخ اُن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سب سے پہلے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن اوصاف کو دیکھیے، جو اِس دور میں نمایاں ہوکر سامنے آئے اور سب سے بڑھ کر اِس دعوت کو فروغ دینے کے موجب بنے۔
پھر جب فرائض نبوت کا بار آپؐ پر ڈالا گیا تو رفتہ رفتہ آپؐ نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لگا دیا، اور آپؐ کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ تبلیغِ دین کے ساتھ اپنی تجارت بھی چلا سکیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جب آپؐ طائف تشریف لے گئے تو آپؐ کو پیدل ہی جانا پڑا، کوئی سواری آپؐ کومیسر نہ تھی۔ ہجرت کی تو اس کے سارے مصارف حضرت ابوبکرؓ نے برداشت کیے، حتیّٰ کہ اہل و عیال کو مدینے بلانے کے لیے بھی آپؐ کو ۵۰۰ درہم جنابِ ابوبکر صدیقؓ سے لینے پڑے۔ آپؐ کا دست مبارک درہم و دینار سے بالکل خالی تھا۔
ظاہر ہے کہ جب ایک دعوت کا پیش کرنے والا خود اُس دعوت کے کام پر اپنے ذاتی مفاد کو اس طرح قر بان کر رہا ہو، تو ہر دیکھنے والا اس بات کا قائل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں بالکل مخلص اور بے غرض ہے، حتیّٰ کہ دشمن اور مخالف تک زبانوں سے خواہ کچھ ہی کہتے رہیں، اپنے دلوں میں یہ مان جاتے ہیں کہ اِس دعوت کے ساتھ اُس کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اور جو لوگ اس کی دعوت کو قبول کرکے اس کے ساتھ آتے ہیں، ان کے لیے ان کے رہنما کی مثال ایسی سبق آموز ہوتی ہے کہ وہ بھی حق کو محض حق ہونے کی بناپر مانتے ہیں، کسی ذاتی غرض کا لوث ان کے ایمان کے ساتھ لگا ہوا نہیں ہوتا، اور ایثار و قربانی میں بھی وہ اپنے ہادی و رہبر کی پیروی کرتے ہیں۔
غارِ ثور کے عین دہانے پر دشمن پہنچ جاتے ہیں، اور آپؐ پورے اطمینان کے ساتھ اُس وقت نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ عرض کرتے ہیں کہ یہ ظالم اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈالیں تو ہمیں دیکھ لیں گے۔ آپؐ بڑے ٹھنڈے دل سے، کسی ادنیٰ درجے کی پریشان خاطری کے بغیر فرماتے ہیں کہ ’’ابوبکر! تمھارا اُن دو آدمیوں کے متعلق کیا خیال ہے، جن میں تیسرا اللہ ہو؟ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ دشمنوں نے آپؐ کے سرِ مبارک کے لیے انعام مقرر کر رکھا ہے۔ ہر طرف انعام کے لالچ میں آپؐ کی تلاش کے لیے لوگ دوڑے پھر رہے ہیں اور آپؐ اطمینان کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سفر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی طرف مڑکر بھی یہ نہیں دیکھتے کہ کہیں کوئی تعاقب میں تو نہیں چلا آرہا ہے۔
ایسے بہادر رہنما کے ساتھ بہادر لوگ ہی آتے ہیں، اور اس کی بہادری دیکھ دیکھ کر ان کی بہادری میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ دشمن بھی خواہ دشمنی میں کتنا ہی اندھا ہوچکا ہو، اُس کے اِس وصف کی قدر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اس [دشمن]کی ہمت بیٹھ جاتی ہے، جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سابقہ ایک ایسے شخص سے ہے، جو ڈر نام کی کسی چیز کو جانتا ہی نہیں___ کسی تحریک کے لیے، اور خصوصاً اسلامی تحریک کے لیے اس کے رہنما کا نڈر اور بے خوف اور شجاع ہونا ایک بڑا اہم وصف ہے۔ رہنما کی بزدلی، بلکہ اس کی شجاعت میں ذرا سی کمزوری بھی آزمائش کے مواقع پر پوری تحریک کو لے بیٹھتی ہے۔
یہ وہ چیزتھی جو گرد وپیش کے معاشرے میں آپؐ کا اخلاقی وقار بڑھاتی چلی گئی اور آپؐ کے مخالفوں کو ہر اُس شخص کی نظر سے گراتی چلی گئی، جس کے اندر ذرہ برابر بھی اخلاق و شرافت کا کوئی جوہر موجود تھا۔ طائف سے زیادہ سخت وقت آپؐ پر کبھی نہ گزرا تھا۔ مگر اُس وقت بھی آپؐ کے دل اور زبان سے دعا ہی نکلی اور آپؐ اس پر راضی نہ ہوئے کہ اس ظلم کے بدلے میں ظالموں پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ میدانِ جنگ سے پہلے اخلاق کے میدان میں آپؐ اپنے مخالفوں کو شکست دے چکے تھے، اور اس شکست پر آخری مہر اُس وقت لگ گئی جب قتل گاہ سے نکلتے وقت بھی آپؐ نے اہلِ مکہ کی امانتیں اُن کو واپس دینے کی فکر فرمائی۔ کوئی بالکل ہی مردہ ضمیر ہوگا جو اس کردار کو دیکھ کر اپنے دل میں مان نہ گیا ہو کہ جاہلیت کے حامی اُس شخص سے لڑ رہے ہیں، جو ان کی قوم ہی کا نہیں، ساری دنیا کا شریف ترین انسان ہے۔
اسلامی تحریک میں شامل ہونے والوں کی اخلاقی تربیت کے لیے بھی ہزار وعظوں سے بڑھ کر اپنے ہادی و رہبر کی یہ عملی مثال مؤثر تھی۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ جس نے بھی آپؐ کی پیروی اختیار کی وہ اخلاق کے اعتبار سے اپنے معاشرے میں اتنا بلند ہوگیا کہ ہر دیکھنے والا علانیہ بُت پرست اور خُدا پرست کے فرق کو دیکھ سکتا تھا۔
مکے کے لوگ آپؐ کی گھر سے باہر کی زندگی ہی کو نہیں، گھر کے اندر کی زندگی کو بھی دیکھ سکتے تھے، کیوں کہ ان میں کتنے ہی لوگ آپؐ کے والد ماجد، یا آپؐ کی والدۂ ماجدہ، یا آپؐ کی اہلیہ محترمہ کے رشتے دار تھے۔ لیکن کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ آپؐ دوسروں کو جن برائیوں سے روکتے ہیں وہ، یا ان میں سے کوئی ایک کم سے کم درجے کی برائی بھی آپؐ کی اپنی زندگی میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح جن نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف آپؐ لوگوں کو دعوت دیتے تھے، سب سے بڑھ کر آپؐ خود اُن پر عمل پیرا تھے۔ آپؐ کی زندگی اُن کا مجسّم عملی نمونہ تھی۔ کوئی اس امر کی کبھی نشان دہی نہ کرسکا کہ آپؐ سے اُن بھلائیوں پر عمل کرنے میں کوئی ادنیٰ درجے کی بھی کوتاہی ظاہر ہوئی ہے۔
کسی تحریک کی کامیابی کے لیے عموماً اور اسلامی تحریک کے لیے تو خصوصاً، یہ بہترین ضمانت ہے کہ اس کا رہنما قول و عمل کے تضاد سے بالکل پاک ہو، اور اس کی تعلیم محض زبانی جمع خرچ نہ ہو بلکہ اس کی اپنی عملی زندگی اس تعلیم کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ اِس کا گہرا اثر لازماً ان لوگوں پر بھی پڑتا ہے، جو ایسے رہنما کی پیروی اختیار کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، جوغیر متعصب نگاہ سے جستجوئے حق کی خاطر اسے دیکھتے ہیں، حتّیٰ کہ متعصب مخالفین میں سے بھی ایک بڑی تعداد بالآخر اس سے مسخر ہو کر رہتی ہے۔
یہی وہ چیز تھی جس نے اسلامی تحریک کے یومِ آغاز ہی سے اس کے ایک عالم گیر تحریک ہونے کی بنا ڈال دی تھی، اُمتِ مسلمہ کو ایک بین الاقوامی اُمت کی حیثیت بخش دی تھی، اسلام قبول کرنے والوں کے اندر سے اسلام و کفر کے سوا ہر دوسری بنیاد پر انسان اور انسان کے درمیان امتیاز کا احساس مٹا دیا تھا اور ان کی جماعت میں غلام اور آزاد، غریب اور امیر، برتر اور کم تر، عرب اور غیر عرب، سب بالکل مساوی حیثیت سے شریک تھے، اور شریک ہوسکتے تھے جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہوں۔ عرب کے قلیل التعداد متکبروں کو چھوڑ کر باقی عام آبادی کے لیے یہ چیز اپنے اندر ایک فطری کشش رکھتی تھی، جو بالآخر کارگر ثابت ہوکر رہی۔
یہ تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اوصاف جو ۱۳ برس کے مکی دور میں ظاہر ہوئے اور جن کی زبردست قوتِ تاثیر سے دشمنوں کی ساری کوششوں کے علی الرغم اسلامی تحریک آگے ہی آگے بڑھتی گئی۔ مزید اوصافِ عالیہ ابھی آپؐ کے اندر مخفی تھے اور اپنے ظہور کے لیے دوسرے حالات کے متقاضی تھے جو آگے چل کر اسلامی تحریک کو مدینے میں میسر آئے۔
اِس تحریک کا دوسرا عظیم ترین سرمایہ قرآن مجیدتھا، جس کا دو تہائی سے کچھ کم حصہ مکّہ معظمہ میں نازل ہوا۔ عرب کے لوگ فصاحت و بلاغت اور زورِ بیان کے عاشق تھے۔ یہی عشق انھیں عُکاظ جیسے میلوں میں شعرا اور فصحا کا کلام سننے کے لیے کھینچ لے جاتا تھا۔ مگر قرآن سن کر ان کی نگاہ میں بڑے سے بڑے زبان آوروں کی کوئی وقعت باقی نہ رہی۔ شاعر و خطیب اس کے آگے گنگ ہوگئے۔ ادب کے لحاظ سے اس کی زبان اتنی بلند تھی کہ کوئی اس سے بلند تر تو درکنار، اس کے برابر بھی اونچے ادب کا تصور نہ کرسکتا تھا۔ اس کا بیان ایسا وجد آور تھا کہ لوگ ا س کو سن کر سردھننے لگتے تھے، مخالفین اسے سحر (جادو) کہتے تھے، اور غیر متعصب لوگ پکار اٹھتے تھے کہ یہ بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔
اس کی شدت تاثیر کا حال یہ تھا کہ حضرت عمرؓ جیسے سخت دشمنِ اسلام کا دل اس نے پگھلا دیا اور انھیں رسول اکرمؐ کے قدموں میں لا ڈالا۔ قریش کے ایک نامور سردار جُبیرؓ بن مُطعم جنگِ بدر کے بعد اسیروں کی رہائی پر بات چیت کرنے کے لیے مدینے گئے۔ وہاں نبیؐ مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور اس میں سورۂ طور زیر ِتلاوت تھی۔ بخاری و مسلم میں ان کا اپنا قول منقول ہوا ہے کہ ’’آیات (۳۵ تا ۳۹ )جب حضورؐ پڑھ رہے تھے تو میرا دل سینے سے اڑا جاتا تھا‘‘۔ بعد میں ان کے مسلمان ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس روز یہ آیات سن کر اسلام ان کے دل میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ اِسی لیے دشمن کوشش کرتے تھے کہ لوگ اسے نہ سنیں، مگر خود اُن سے رہا نہ جاتا تھا اور چھپ چھپ کر اسے سنتے تھے۔
اِس انتہائی مؤثر کلام کے ذریعے سے شرک اور جاہلیت کے ایک ایک پہلو پر ایسی مدلل تنقید کی گئی کہ کسی معقول آدمی کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ اُن عقائد اور رسوم اور اخلاقی برائیوں کے حق میں ایک لفظ بھی کہہ سکتا، جن پر قریش اور عرب کے مذہب اور تمدن کی بنا قائم تھی۔ پھر اِسی کلام کے ذریعے سے کمال درجہ دل نشین پیرائے میں اسلام کے عقائد، اس کے اصولِ تہذیب و تمدّن اور اس کی اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا گیا، جن کی تردید میں کسی بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی زبان کھولنے کی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس کے بعد کفّار مجبور ہوگئے کہ اسلام کو زک دینے کے لیے مارپیٹ، ظلم و ستم، گالی گلوچ، کذب و افترا اور شور و شغب کے ہتھیاروں سے کام لیں۔ مگر یہ بجائے خود اُن کی طرف سے دلیل و حجت اور اخلاق و شرافت کے میدان میں اپنی شکست کا عملی اعتراف تھا۔
ہر وہ شخص جس میں ذرا بھی معقولیت کا شائبہ پایا جاتا تھا، اس معرکے کے دونوں فریقوں کو دیکھ کر یہ محسوس کرتا چلا گیا کہ منکرین و مخالفین کے پاس قرآن کے دلائل اور اس کی پاکیزہ تعلیم کا کوئی جواب اوچھے ہتھکنڈوں اور انسانیت سے گری ہوئی چالوں کے سوا نہیں ہے۔ یہ کھلا کھلا معرکہ صرف مکے ہی میں لوگوں کے سامنے برپا نہ تھا، بلکہ تمام عرب کی نگاہیں بھی اس کو دیکھ رہی تھیں۔ مکے میں تو خیر شب و روز ہی عوام و خواص سب کسی نہ کسی طرح قرآن بھی سن رہے تھے، اور ان کارروائیوں کو بھی دیکھ رہے تھے جو سردارانِ قریش اور ان کے زیرِ اثر اوباش لوگ قرآن کے جواب میں کر رہے تھے۔ لیکن دس برس تک ہر سال رسولؐ اللہ عُکاظ سے منیٰ تک کے اجتماعات میں تشریف لے جاکر، عرب کے ہر حصے سے آئے ہوئے لوگوں کو قرآن سناتے رہے، اور ابو جہل اور ابولہب جیسے لوگ برسرِ عام آپؐ کو پتھر مار کر آپؐ پر خاک دھول اڑا کر اُن کو یہ بتاتے رہے کہ اس کلام کا جواب اُن کے پاس کیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکے میں بھی ساری رکاوٹوں کے باوجود اسلام پھیلتا چلا گیا، اور سرزمینِ عرب میں بھی کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا، جس میں کچھ نہ کچھ لوگ اسلام سے متاثر نہ ہوگئے ہوں۔ مکّی دور میں صورتِ حال یہ تھی کہ علانیہ اسلام قبول کرلینے والے لوگ تو کم تھے، مگر اُن سے بیسیوں گُنے زیادہ ایسے اشخاص معاشرے میں موجود تھے، جن کے دلوں میں قرآن کی تعلیم، اور رسول اکرمؐ کی عظمت و تکریم، اور آپؐ کے مظلوم ساتھیوں کے لیے ہمدردی، اور قریش کے سراسر بے جا ظلم و ستم کے لیے نفرت جاگزیں نہ ہوگئی ہو۔ اِس دور کا یہ کام بھی پوری طرح بار آور ہونے کے لیے ایک مدینے کا طالب تھا، جو ٹھیک اپنے وقت پر اُس کے لیے آغوش کھول کر سامنے آگیا۔
تیسرا بڑا سرمایہ ایمان لانے والے مسلمانوں کا وہ چیدہ گروہ تھا، جو اِس تحریک کو ۱۳ سال کے دوران میںمیسر آیا۔ یہ وہ صاف دماغ اور سلجھے ہوئے ذہن کے لوگ تھے، جنھوں نے شرک و جاہلیت کے اُس تاریک ماحول میں پرورش پانے کے باوجود قرآن مجید کی تعلیمات سن کر اپنے دینِ آبائی کا غلط اور دینِ اسلام کا برحق ہونا تسلیم کرلیا اور کوئی تعصب انھیں ایمان لانے سے نہ روک سکا۔
اُن کو معلوم تھا کہ اپنے خاندان، اپنے قبیلے اور اپنے شہر کے عام لوگوں کی رائے کے خلاف اسلام قبول کرنے اور محمدؐ کی پیروی اختیار کرنے کے کیا معنی ہیں۔ ایمان لانے والوں پر جو عذاب توڑے جا رہے تھے وہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ مگر وہ اِس دل گردے کے لوگ تھے کہ کوئی خوف انھیں باطل کو رد اور حق کو قبول کرنے سے نہ روک سکا۔ اُنھوں نے ہر طرح کے ظلم صرف اس لیے سہے کہ جس چیز کو وہ باطل سمجھ چکے تھے، اس کی پیروی کرنا انھیں کسی حال میںگوارا نہ تھا، اور جس چیز کا حق ہونا انھیں معلوم ہوچکا تھا، اُسے چھوڑنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔
انھیں بُری طرح مارا پیٹا گیا۔ اُنھیں الٹا لٹکایا گیا۔ انھیں بھوک پیاس کی مار دی گئی۔ انھیں باندھ کر قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ اُن کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا۔ ان کے بڑے بڑے باعزت لوگوں کو برسرِ عام ذلیل کیا گیا۔ مگر یہ سب کچھ انھوں نے محض حق کی خاطر برداشت کرلیا اور ان میں سے کسی ایک مرد یا عورت کو بھی ایمان سے کفر کی طرف نہ پھیرا جاسکا۔ انھوں نے اپنا ایمان بچانے کے لیے دو دفعہ حبش کی طرف اور آخر میں مدینے کی طرف ہجرت کی۔ گھر بار، مال اسباب، عزیز رشتہ دار، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں سے بکثرت ایسے تھے، جو تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ لے جاسکے۔ ان کے اس طرزِ عمل نے ثابت کردیا کہ اسلامی تحریک کو وہ انتہائی مخلص و جاں نثار فدائی مل گئے ہیں، جو اگرچہ مٹھی بھر ہیں، مگر ایسے بہادر ہیں کہ اپنے دین کے لیے ہر قربانی دے سکتے ہیں، ہر مصیبت جھیل سکتے ہیں، ہرتکلیف و اذیت برداشت کرسکتے ہیں، اور ہر بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں۔
اِن خوبیوں کے ساتھ ایسا عظیم اخلاقی انقلاب قرآن کی تعلیم اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے ان کی زندگی میں رونما ہوگیا کہ اپنی راست بازی و دیانت، اپنی پرہیزگاری و طہارت، اپنی خداترسی و خدا پرستی، اپنی عفت و پاک دامنی، اپنی شرافت و شائستگی، اور اپنی مضبوط اور قابلِ اعتماد سیرت کے اعتبار سے صرف عرب ہی میں نہیں، دنیابھر میں ان کا جواب نہ پایا جاتا تھا۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس معاشرے میں ایک منارۂ نور کی طرح نمایاں تھے، اسی طرح آپؐ کے ساتھیوں کی زندگی کا اخلاقی انقلاب بھی اِس قدر ظاہر و باہر تھا کہ دیکھنے والی آنکھ کفار کی اخلاقی حالت اور اُن کی اخلاقی حالت کا فرق علانیہ دیکھ سکتی تھی۔ تعصب اور عناد کی بناپر مخالفین زبان سے اس کا انکار کرسکتے تھے، مگر ان کے دل جانتے تھے کہ قدیم جاہلیت کیا سیرت و کردار پیدا کرتی تھی، اور یہ نیا دین کس سیرت و کردار کے انسان پیدا کر رہا ہے۔
چوتھا عظیم اور بیش قیمت سرمایہ جو مکّی دور کے آخری تین سالوں میں اسلامی تحریک کو ملا، وہ مدینے کے انصار کا خلوصِ ایمانی تھا۔ ان لوگوں کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و تربیت میسر آئی تھی، نہ آپؐ کی اور آپؐ کے صحابہؓ کی پاکیزہ زندگیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تھا، نہ قرآن پاک کا اُتنا علم حاصل ہوا تھا جو مکے کے اہلِ ایمان کو حاصل تھا، لیکن یہ ایسے سلیم الطبع اور صحیح الدماغ لوگ تھے، جو حق کی ایک جھلک دیکھتے ہی اس پر فدا ہوگئے۔ صدیوں کی رَچی بسی مشرکانہ جاہلیت کو انھوںنے اسلام کی صراطِ مستقیم کا نشان پاتے ہی اپنے دل ودماغ سے گرد کی طرح جھٹک کرنکال پھینکا۔ وہ پکے پھلوں کی طرح اسلام کی جھولی میں یوں جھڑتے چلے گئے کہ ۱۳ سال کے اندر مکّے میں جتنے لوگ ایمان لائے تھے، تین سال میں ان سے بہت زیادہ مردوں اور عورتوں اور جوانوں اور بوڑھوں نے مدینے میں ایمان قبول کرلیا۔
انھوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ وہ ایسے خلوص کے ساتھ ایمان لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ کے ساتھی تمام اہلِ ایمان کو انھوں نے اپنے ہاں ہجرت کر آنے کی دعوت دے دی، حالاں کہ یہ دعوت دیتے وقت وہ خوب جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں انھیں تمام عرب کی دشمنی مول لینی ہوگی، جیسا کہ آخری بیعتِ عقبہ کے موقعے پر اُن کی تقریروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ انھوں نے حضورؐ اور آپ کے مکّی صحابہؓ کے لیے اپنے شہر کو دار الہجرت کے طور پر پیش کردیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے پوری خوش دلی اور رضامندی سے آپؐ کو اپنا حاکم و فرماں روا تسلیم کیا، آپؐ کی وفا دار رعیت اور جاں نثار فوج بن گئے، آپؐ کے ساتھ ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو اپنے شہر میں اپنے ساتھ برابر کے حقوق دیے اور اپنے گھر، اپنے مال اور اپنی جائیدادوں تک کو ان کے لیے پیش کردیا۔
اسی چیز نے تاریخ کا رخ بدل ڈالا۔ اسلام کو ایک دعوت اور تحریک کے مقام سے اٹھا کر ایک معاشرے اور ریاست کی حیثیت دے دی، اور رسولؐ اللہ کو یہ موقع بہم پہنچا دیا کہ آپؐ ایک آزاد و خود مختار دارالاسلام میں اسلام کے ایک ایک پہلو کو عملی جامہ پہنا کر ساری دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کردیں کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کابھیجا ہوا یہ دین، کیسے افراد تیار کرتا ہے؟ کیسا معاشرہ بناتا ہے؟ کس قسم کی تہذیب اور کس قسم کا تمدن پیدا کرتا ہے؟ کیسی اخلاقی روح پورے معاشرے میں جاری و ساری کردیتا ہے؟ معیشت، معاشرت، تعلیم، سیاست، قانون اور عدالت کا کیسا نظام قائم کرتا ہے؟ جنگ میں اس کی تہذیب کیا ہے؟ فتح پاکر وہ مفتوحین کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ معاہدے کرکے وہ ان کی کیسی پابندی کرتا ہے، اور بین الاقوامی تعلقات میں اس کا رویہ کیا ہے؟
[ سیرتِ سرورِ عالمؐ، دوم، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور/ ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۷ء]